Mustaqbil Ke Kiraye Ke Mutaliq Dar Ul Ifta Ka Fatwa
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Mustaqbil Ki traf Mansoob Kiray Kay Muahiday | مستقبل کی طرف منسوب کرائے کے معاہدے کا حکم

    Mustaqbil Ke Kiraye Ke Mutaliq Dar Ul Ifta Ka Fatwa

    book_icon
    مستقبل کی طرف منسوب کرائے کے معاہدے کا حکم
                
    بسمِ اللہ الرَّحمنِ ا لرَّ حِیم الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلی آلک واصحبک یا حبیب اللہ

    دارالافتاء اہلسنت

    آفندی ٹاؤن ،بالمقابل فیضان مدینہ،حیدر آباد، پاکستان کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حیدرآباد کی ایک اہم مارکیٹ جہاں دکانیں کرائے پر بمشکل ملتی ہیں اور ملتی بھی مہنگے کرائے پر ہیں۔اس مارکیٹ میں میرے ایک جاننے والی کی دکان کسی کےپاس کرائے پر تھی جو کچھ عرصہ میں خالی ہونے والی تھی،لہذا میں نے اس سےاس دکان کے کرائے کا ایگریمنٹ کر لیا کہ یکم اگست2020 سے دو سال کے لیے یہ دکان میں نے پچاس ہزار کرائے پر آپ سے لی،وہ اس پر راضی ہوگیا اور تحریری ایگریمنٹ کے ساتھ ساتھ زبانی طور پر ہمارا ایجاب و قبول بھی ہوگیا۔ایگریمنٹ کے پندرہ بیس دنوں کے بعد اس نے کسی اور آدمی سے زیادہ کرائے پر معاہدہ کر لیا ہے اور مجھے دکان کرائے پر دینے سے منع کر دیا ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ اس کا مجھ سے دکان کا معاہدہ ختم کرنا درست ہے یا نہیں؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب دکان کے کرائے کا یہ اجارہ،اجارہ مضافہ( یعنی مستقبل میں شروع ہونے والا اجارہ)ہے، اجارہ منجزہ ( یعنی فوری شروع ہونے والا اجارہ) نہیں ہے۔اجارہ مضافہ اگرچہ منعقد ہو جاتا ہے،مگر لازم ہوجاتا ہے یا نہیں؟اس بارے میں دو روایتیں ہیں۔پہلی روایت یہ ہے کہ انعقاد کے ساتھ ساتھ لازم بھی ہوجاتا ہے۔دوسری روایت یہ ہے کہ یہ اجارہ لازم نہیں ہوتا۔دونوں روایتیں امام محمد علیہ الرحمۃ سے مروی ہیں،دونوں قوی ہیں،تصحیح بھی دونوں جانب موجود ہے،مگر دوسری روایت کی طرف ترجیح کے زیادہ پہلو موجود ہیں۔ اولاً اس لیے کہ اکثر فقہاء(فقیہ ابو اللیث سمرقندی،فقیہ ابو جعفر،شمس الائمہ حلوانی،امام عیسی بن ابان،امام قاضی خان علیہم الرحمۃ ) نے اسے اختیار فرمایا۔ ثانیاً اس لیے کہ اس کی تصحیح کے لیے’’ علیہ الفتوی ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے،جبکہ لزوم والے قول کے لیے ’’اصح‘‘ کالفظ اورقوانین رسم الافتاء کےمطابق ’’ علیہ الفتوی ‘‘ ’’اصح‘‘کے لفظ سے زیادہ قوی ترجیح ہے۔ ثالثاً اس لیے کہ اس قول کو علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ نے مفتیٰ بہ قرار دیا اور علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ کی ترجیح ،دوسروں کی ترجیح پرفوقیت رکھتی ہے۔نیز اسی کی جانب صاحب درمختار، علامہ شامی اور سیدی اعلیٰ حضرت علیہم الرحمۃ کا رُجحان ہے،اسی کے مطابق بہار شریعت میں اجرت کی تفریع بیان کی ہے۔ حاشیہ الشلبی علی التبیین میں اجارہ مضافہ کے متعلق فرماتے ہیں:’’ قد اختلف المشايخ في هذه الإجارة فاختار الشيخ ظهير الدين أن الإجارة المضافة لا تجوز، وقال صاحب المحيط:إضافة الإجارة إلى وقت في المستقبل جائزة، وقال في الفصول المختار أنها جائزة،وكذا قال صدر الإسلام قال في الذخيرة :فلو أراد نقضها قبل مجيء الوقت فعن محمد فيه روايتان في رواية لا يصح النقض،وفي رواية يصح. وجه هذه الرواية أنه لم يثبت للمستأجر حق في هذا العقد، لأنه غير منعقد أصلا ،ولهذا لا يملك الأجرة بالتعجيل في هذه الإجارة. وجه الرواية الأولى أن العقد انعقد فيما بين المتعاقدين، وإن لم ينعقد في حق الحكم فالآجر بالنقض يريد إبطال العقد المنعقد حقا للمستأجر فلايقدر على ذلك وعلى هذه الرواية يملك الأجرة بالتعجيل في هذه الإجارة ،وإذا باع المؤجر العين المؤجرة في الإجارة المضافة قبل مجيء ذلك الوقت ذكر شمس الأئمة الحلواني في رهن الجامع أن فيه روايتين: في رواية لا ينفذ البيع ولا تبطل الإجارة المضافة، وفي رواية ينفذ البيع وتبطل الإجارة وبه أفتى شيخ الإسلام، وفي فتاوى قاضيخان والفتوى على أنه ينفذ البيع وتبطل الإجارة المضافة وهو اختيار شمس الأئمة الحلواني. اهـ. شرح الوقاية للشيخ قاسم رحمه اللہ ‘‘اس اجارہ میں مشائخ کا اختلاف ہے،پس شیخ ظہیر الدین نے اختیار کیا کہ اجارہ مضافہ جائز نہیں اور صاحب محیط نے کہا :اجارہ کی اضافت مستقبل میں کسی وقت کی طرٖف کرنا ،جائز ہے۔فصول مختار میں ہے کہ یہ اجارہ درست ہے اور اسی طرح صدر الاسلام نے کہا ۔ذخیرہ میں کہا پس اگر اجارہ کو توڑدیا اس وقت کے آنے سے پہلے تو امام محمد علیہ الرحمۃ کی اس میں دو روایتیں ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ توڑنا درست نہیں اور ایک روایت میں ہے کہ درست ہے ۔اس روایت کی وجہ یہ ہے کہ مستاجر کا اس عقد میں کوئی حق ثابت نہیں ،کیونکہ یہ عقد اصلا منعقد نہیں ہوا،اور اسی وجہ سے وہ اس اجارہ میں تعجیل کےباوجود اجرت کا مالک نہیں ہوگا اور پہلی روایت کی وجہ یہ ہے کہ کہ عقد عاقدین کے حق میں منعقد ہوجائے گا، اگر چہ حکم کے حق میں منعقد نہیں ہوگا۔پس آجر توڑنے کے ذریعے مستاجر کے حق کے طور پر منعقد اجارہ کو باطل کرنا چاہتا ہے،لہذا وہ اس پر قادر نہیں ہوگااور اس روایت پر اس اجارہ میں تعجیل کے ساتھ اجرت کا مالک ہوجائے گااور اگر آجر نے عین مؤجرہ کو اجارہ مضافہ میں اس کاوقت آنے سے پہلے بیچ دیا تو شمس الائمہ حلوانی نے جامع کے رہن کے باب میں ذکر کیا ہے کہ اس میں دو روایتیں ہیں ایک روایت میں ہے کہ بیع نافذ نہیں ہوگی اور اجارہ بھی باطل نہیں ہوگااور ایک روایت میں ہے کہ بیع نافذ ہوجائے گی اور اجارہ باطل ہوجائے گا اور اسی پر شیخ الاسلام نے فتوی دیا ہےاور قاضی خان میں ہے اور فتوی اس بات پر ہے کہ بیع نافذ ہوجائے گی اور اجارہ مضافہ باطل ہوجائے گا اور یہ روایت شمس الائمہ حلوانی کی اختیار کردہ ہے۔اھ شرح الوقایۃ للشیخ قاسم رحمہ اللہ ( حاشیۃ الشلبی ، جلد6، صفحہ165،مطبوعہ کراچی) لسان الحکام میں ہے:’’ وفي الولوالجي ولو آجر داره إجارة مضافة بأن يقول آجرتك داري هذه شهر شوال وهما في رمضان ثم باعه من آخر فالبيع موقوف على إجازة المستأجر ولو دخل شوال فله أن يسكن الدار لأن العقد منعقد وإن كان لايجب عليه تسليم الدار مالم يجيء ذلك الوقت ۔ وذكر في بعض المواضع أنه إذا آجر داره إجارة مضافة مثلا في صفر وهو بعد محرم فباع قبل مجيء ذلك الوقت فعن محمد رحمه اللہ تعالى روايتان والفتوى على أنه ينعقد وتبطل الإجارة المضافة هذا هو الظاهر لأن له ولاية الفسخ والبيع دلالة الفسخ وفي البزاري آجره داره إجارة مضافة بأن قال في شهر ربيع الأول آجرتكها رجب فباعها في جمادى الأولى ذكر شمس الأئمة الحلواني أن البيع لا ينفذ في رواية عن محمد لأن حق المستأجر إن لم يثبت فحق أن يثبت وبه يلوح كلام السرخسي حيث قال الأصح أن الإجارة المضافة لازمة وفي رواية ينفذ لأنه لاحق للمستأجر حالا وتبطل الإجارة قلت وبه يفتى واللہ أعلم ‘‘اور ولوالجیہ میں ہے کہ اگرکسی نے اپنا گھر اجارہ مضافہ کے طور پر اجارے پر دیا ، بایں طور کہ اس نے کہا: میں نے تجھے اپنا یہ گھر شوال کے مہینے کے لیے اجرت پر دیا،حالانکہ اس وقت رمضان کا مہیناتھا،پھر وہ مکان دوسرے شخص کو بیچ دیا ،تو بیع مستاجر کی اجازت پر موقوف ہوگی ،اگر شوال کا مہینا آگیا تو مستاجر کے لیے گھر میں رہنا جائز ہے،کیونکہ عقد منعقد ہوگیا ہے اگر چہ اس پر گھر کو سپرد کرنا واجب نہیں جب تک یہ وقت نہ آجائے اور بعض جگہوں میں ذکر کیاکہ کسی شخص نے اپنے گھر کو اجارہ مضافہ کے طور پر دیا صفر میں، جومحرم کے بعد آتا ہے ،پس اس کو بیچ دیا اس وقت کے آنےسے پہلے تو امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس میں دو روایتیں ہیں اور فتوی اس بات پر ہے کہ بیع منعقد ہوجائے گی اور اجارہ مضافہ باطل ہوجائے گا ۔یہی ظاہر ہے کیونکہ اس کو فسخ کی ولایت حاصل ہے اور بیع فسخ کی دلالت ہے اور بزاری میں ہےکہ کسی نے اپنے گھر کو اجارہ مضافہ کے طور پر دیا اس طرح کہ ربیع الاول میں کہا کہ میں نے تجھے یہ گھر رجب کے مہینے میں اجارہ پر دیا پھر اس کو جمادی الاولی میں بیچ دیا تو شمس الائمہ حلوانی نے ذکرکیاہے کہ امام محمد سے ایک روایت ہے کہ بیع نافذ نہیں ہوگی ،کیونکہ مستاجر کا حق اگرچہ ابھی ثابت نہیں ہوا، لیکن وہ ثابت ہونے کا حق دار ہے اسی کی طرف سرخسی کا کلام اشارہ کرتا ہے ،اس طرح کہ کہا :اصح یہ ہے کہ اجارہ مضافہ لازم ہے اور ایک روایت میں ہے کہ بیع نافذ ہوجائے گی، کیونکہ مستاجر کا ابھی کوئی حق نہیں اوراجارہ باطل ہوجائے گا۔میں نے کہا اسی روایت پر فتوی ہے اور اللہ عزوجل زیادہ جاننے والا ہے۔ (لسان الحکام،جز1،صفحہ 365،مطبوعہ البابی الحلبی ، القاھرہ) مجمع الانہر میں ہے:’’ وفي الخانية، ولو كانت الإجارة إلى الغد، ثم باع من غيره فيه روايتان۔في رواية ليس للآجر أن يبيع قبل مجيء الوقت.وفي رواية جاز والفتوى على أنه يجوز البيع وتبطل الإجارة المضافة، وهو اختيار شمس الأئمة الحلواني، وتمامه في المنح فليطالع ‘‘اور خانیہ میں ہے:اگر (اجارہ کی)آنے والے دن کی طرف اضافت کی،پھر وہ چیز مستاجرکے علاوہ کو بیچ دی،تو اس میں دو روایتیں ہیں،ایک روایت میں ہے کہ آجر (اجرت پر دینے والے) کے لیے جائز نہیں کہ وہ وقت آنے سے پہلے بیچے اور ایک روایت میں ہے کہ بیع جائز ہے اور فتوی اس پر ہے کہ بیع جائز ہے اور اجارہ مضافہ باطل ہے اور یہ قول شمس الائمہ حلوانی کا اختیار کردہ ہے اور اس کی مکمل بحث منح میں ہے، چاہیے کہ اس کا مطالع کیا جائے۔ (مجمع الانھر،جلد3،صفحہ513،مطبوعہ کوئٹہ) عدم لزوم والے قول کے مطابق دونوں کو فسخ کا اختیار ہوتا ہے ۔چنانچہ رد المحتار میں ہے:’’ ثم الظاھر ان عدم اللزوم من الجانبین لا من جانب الموجر فقط فلکل فسخھا کما ھو مقتضی اطلاقھم،تامل ‘‘پھر ظاہر یہ ہے کہ لازم نہ ہونا دونوں جانب سے ہے ،نہ کہ صرف موجِر ( اجارہ پر دینے والے ) کی جانب سے، لہٰذا اسے فسخ کرنے کا دونوں کو اختیار ہے،جیسا کہ یہی ان کے اطلاق کا تقاضا ہے۔غور کرو۔ (رد المحتار مع درمختار،جلد9،صفحہ161،مطبوعہ کوئٹہ) صاحبِ درمختار کا رجحان عدم لزوم والے قول کی طرف ہے ۔چنانچہ درمختار میں ہے:’’ وفی لزوم الاجارۃ المضافۃ تصحیحان و اید عدم لزومھا بان علیہ الفتوی ‘‘اور اجارۂ مضافہ کے لازم ہونے کے بارے میں دونوں روایتوں کی تصحیح کی گئی ہے اور اس کے لازم نہ ہونے کی تائید اس طرح فرمائی کہ اسی پر فتویٰ ہے۔ (درمختار مع رد المحتار،جلد9،صفحہ161،مطبوعہ کوئٹہ) صاحب ِدرمختار کے متعلق یہی بات علامہ شامی علیہ الرحمۃ نے بھی بیان کی ہے۔چنانچہ رد المحتار میں ہے:’’ قلت:قد ذکر الشارح فی اواخر کتاب الاجارۃ ان روایۃ عدم اللزوم تایدت بان علیھا الفتوی،ای:فتکوں اصح التصحیحین، لان لفظ الفتوی فی التصحیح اقوی ‘‘میں نے کہا:تحقیق شارح علیہ الرحمۃ نے کتاب الاجارہ کے آخر میں یہ بات ذکر کی کہ عدم لزوم والی روایت کو ’’علیہ الفتوی‘‘کے الفاظ سے تائید حاصل ہے یعنی یہ دو تصحیحوں میں سے زیادہ صحیح ہے ،کیونکہ تصحیح میں فتوی کا لفظ زیادہ قوی ہے۔ (رد المحتار مع در مختار ،جلد6،صفحہ615،مطبوعہ کوئٹہ) علامہ شامی علیہ الرحمۃ کا رُجحان عدم لزوم والے قول کی طرف ہے۔چنانچہ ’’درمختار کے قول:پہلا عقد لازم ہوگا ،نہ کے باقی‘‘کے تحت فرماتے ہیں:’’ مبنی علی المفتی بہ من عدم لزوم المضافۃ کما قدمہ ویاتی ‘‘یہ اجارہ مضافہ کے لازم نہ ہونے والے مفتیٰ بہ قول پر مبنی ہے، جیسا کہ پیچھے بیان کیا اور آ بھی رہا ہے۔ (رد المحتار مع در مختار ،جلد9،صفحہ12،مطبوعہ کوئٹہ) سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمدر ضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کے صاحب ِدرمختار کی جانب سے ذکر کردہ ’’اجارہ مضافہ کے عدم لزوم والے قول کی تصحیح‘‘ کو ذکر کرنے اور برقرار رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا رجحان بھی اسی کی طرف ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ قال:ای الدر: ( و تصح الاجارۃ ) :لکن ھل یلزم الاجارۃ المضافۃ و قد مر ان الصحیح لا یلزم و یاتی شرحاً ‘‘صاحبِ دُر نے فرمایا:(اور اجارہ صحیح ہو جائے گا)لیکن کیا اجارۂ مضافہ لازم ہو جائے گااور گزر چکا کہ صحیح یہ ہے کہ لازم نہیں ہو گااور بطورِ شرح بھی آ رہا ہے(کہ صحیح یہ ہے کہ لازم نہیں ہوگا)۔ (جدالممتار،جلد6،صفحہ310،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی) بہار شریعت میں ہے:’’ پیشگی اجرت شرط کرنے سے مستاجر سے اس وقت مطالبہ ہو گا کہ جب وہ اجارہ منجزہ ہو، مثلاً یہ مکان ہم نے تم کو اتنے کرایہ پر دے دیا اور اگر اجارہ مضافہ ہو کہ فلاں مہینا کے لیے ،مثلاً: کرایہ پر دیا، اس میں ابھی سے کرایہ کا مطالبہ نہیں کر سکتا، اگرچہ پیشگی کی شرط ہو۔‘‘ (بھار شریعت، جلد3،صفحہ111، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی) عدم لزوم والا قول کثیر کبارائمہ کا مذہب ہے۔چنانچہ فتاوی قاضی خان میں ہے :’’ رجل قال لغیرہ:آجرتک دابتی ھذہ غدا بدرھم،ثم آجر ھا الیوم من غیرہ الی ثلاثۃ ایام ،فجاء الغد،واراد المستاجر الاول ان یفسخ الاجارۃ الثانیۃ۔فیہ روایتان عن اصحابنا رحمھم اللہ تعالی۔فی روایۃ للاول :ان یفسخ الاجارۃ الثانیۃ،وبہ اخذ نصیر رحمہ اللہ تعالی۔وفی روایۃ لیس لہ ان یفسخ الثانیۃ،وبہ اخذ الفقیہ ابو جعفر رحمہ اللہ تعالی۔والفقیہ ابو اللیث وشمس الائمۃ الحلوانی رحمھما اللہ تعالی۔وھو قول عیسی بن ابان رحمہ اللہ تعالی ،وعلیہ الفتوی ‘‘ایک شخص نے دوسرے کو کہا :میں نے اپنی یہ سواری تجھے آنے والے کل ایک درہم کے بدلے اجارے پر دی،پھر آج کے دن کسی اور کو تین دن تک اجارے پر دے دیا ،پس دوسرا دن آیا اور پہلے مستاجر نے چاہا کہ وہ دوسرے اجارے کو فسخ کردے ۔تو اس میں ہمارے اصحاب رحمہم اللہ کی دو روایتیں ہیں۔پہلی روایت میں ہے کہ دوسرے اجارے کو فسخ کرسکتا ہےاور اس روایت کوامام نصیر رحمہ اللہ نے لیااور ایک روایت میں ہےکہ دوسرے اجارے کو فسخ نہیں کرسکتا اور اس روایت کو فقیہ ابو جعفر،فقیہ ابو اللیث اور شمس الائمہ الحلوانی رحمہم اللہ نے لیااور یہی امام عیسی بن ابان رحمہ اللہ کا قول ہے اور اسی پر فتوی ہے۔ (فتاوٰی قاضیخان،جلد2،صفحہ192،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت) علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ قولھم اذا کان فی المسئلۃ قولان مصححان فالمفتی بالخیار لیس علی اطلاقہ بل ذاک اذا لم یکن لاحدھما مرجح قبل التصحیح او بعدہ(السادس)من المرجحات ما اذا کان احد القولین المصححین قال بہ جل المشائیخ العظام ففی شرح البیری علی الاشباہ ان المقرر عن المشائیخ انہ متی اختلف فی المسئلۃ فالعبرۃ بما قالہ الاکثر انتھی و قدمنا نحوہ عن الحاوی القدسی ملخصا ‘‘فقہاء کاقول کہ’’ جب کسی مسئلے میں دو تصحیح یافتہ قول ہوں تو مفتی کو فتوی میں اختیار ہے‘‘یہ بات مطلق نہیں ہے، بلکہ یہ اس وقت ہے کہ جب دونوں قولوں میں سے کسی کو تصحیح سے پہلے یا بعد میں ترجیح دینے والی کوئی بات موجود نہ ہو اور ترجیح دینے والی باتوں میں سے چھٹی بات یہ ہے کہ دونوں تصحیح یافتہ قولوں میں سے ایک اکثر کبار مشائخ کا قول ہو،اشباہ کی شرح بیری میں ہے کہ مشائخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب مسئلہ میں اختلاف ہو تو اعتبار اس کا ہے جو اکثر نے کہا۔بیری کی عبارت ختم ہوئی اور تحقیق ہم اس کی مثل حاوی قدسی کے حوالے سے پیچھے ذکر چکے ہیں ۔ (رسائل ابن عابدین،جلد1،صفحہ39،مطبوعہ کوئٹہ) لفظ فتویٰ کے ساتھ کی گئی تصحیح صحت والے الفاظ کے ساتھ کی گئی تصحیح سے راجح ہے۔چنانچہ درمختار میں ہے:’’ فلفظ الفتوی آکد من لفظ الصحیح، والاصح والاشبہ وغیرھا ‘‘پس فتوی کا لفظ صحیح،اصح اور اشبہ وغیرہ کے الفاظ سے زیادہ موکد ہے۔ (درمختار مع رد المحتار،جلد1،صفحہ173،مطبوعہ کوئٹہ) علامہ شامی علیہ الرحمۃ ترجیح کی وجوہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’(الثانی)من المرجحات ما اذا کان احدھما بلفظ الفتوی والآخر بغیرہ ملخصا ‘‘ ترجیح دینے والی باتوں میں سے دوسری بات یہ ہے کہ دونوں تصحیح یافتہ قولوں میں سے ایک فتوی کے لفظ کے ساتھ ہو اور دوسرا اس کے علاوہ کسی اور لفظ کے ساتھ ہو۔ (رسائل ابن عابدین،جلد1،صفحہ40،مطبوعہ کوئٹہ) حموی شرح اشباہ میں علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ کی ترجیح کے متعلق ہے:’’ فی تصحیح القدوری للعلامۃ قاسم ان ما یصححہ قاضی خان من الاقوال یکون مقدماً علی مایصححہ غیرہ لانہ کان فقیہ النفس ‘‘علامہ قاسم کی تصحیح قدوری میں ہے کہ اقوال میں سے جسے امام قاضی خان صحیح قرار دیں ،وہ مقدم ہوگا غیر کی تصحیح سے، کیونکہ وہ فقیہ النفس ہیں۔ ( الحموی علی الاشباہ،جلد2،صفحہ455،مطبوعہ کراچی) سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن امام قاضی خان علیہ الرحمۃ کی ترجیح سے متعلق فرماتے ہیں:’’ امام علامہ فقیہ النفس مالک التصحیح و الترجیح فخر الملۃ والدین قاضی خان اوزجندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے صحت بیع پر اعتماد فرمایا اور اسی کو ترجیح دی اب علماء تصریح فرماتے ہیں کہ اس امام اجل کا ارشاد زیادہ اعتبار و اعتماد کے لائق اور ان کی تصحیح و ترجیح فائق ہے کہ انہیں رتبہ اجتہاد حاصل تھا۔ملخصا‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ253تا 254،رضا فاؤنڈیشن، لاھور) مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق دوسری روایت کی طرف وجوہ ترجیح زیادہ ہونے کی وجہ سے اس روایت کو ترجیح ہونی چاہیےتھی اور فریقین میں سے ہر ایک کو یک طرفہ طورپردُکان کے اس اجارہ کو فسخ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے تھا،مگر اب چھوٹے بڑے شہروں میں تعامل ورواج پہلی روایت یعنی اجارہ مضافہ کے لزوم پر ہو چکا ہے کہ شادی ہالز،بینکوئٹ،چلتی مارکیٹ کی دکانیں،حج و عمرہ پیکیجز، گاڑیوں کی بکنگ، ایئر لائن اور ٹرینوں کی ٹکٹس میں اجارہ مضافہ یعنی وقت سے پہلے ہی عقدِ اجارہ کا انعقاد معروف و رائج ہے،پوری رقم یا اس کا کچھ حصہ پہلے ہی ادا کردیا جاتا ہے اورفریقین کے درمیان اس اجارہ کو لازم بھی سمجھا جاتا ہے، یعنی معاہدہ میں یک طرفہ طور پر ختم کرنے کے اختیار کی یا تو صراحتاً نفی موجود ہوتی ہے اور اگر صراحتاً نفی نہ بھی ہو تب بھی یہ بات معہود و معروف ہوتی ہے اور سو فیصد فریقین کو معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو یک طرفہ طور پر اس اجارہ کو ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے، جیسے کوئی ٹرین یا ائیر لائن کی ٹکٹ بک کرائے، تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بکنگ لازم ہے،میں ختم نہیں کر سکتا،یہی معاملہ دوسری جانب بھی ہوتا ہے کہ ائیر لائن اور ٹرین انتظامیہ کی طرف سے بھی بلا وجہ یک طرفہ ٹکٹ کینسل نہیں کی جاتی،شاذو نادر کبھی انتظامیہ یک طرفہ کینسل کر دے تو ٹکٹ ہولڈرز میں تشویش پھیل جاتی ہے،بعض اوقات اس پر احتجاج اور شور شرابہ بھی کیا جاتا ہے،جوواضح طور پر لزوم معروف ہونے کی دلیل ہے۔نیز لزوم معروف و رائج ہونے کی ایک دلیل خود سائل کا سوال ہے کہ اگر اس طرح کے اجاروں میں لزوم معروف نہ ہوتا تو سائل کو سوال کرنے کی نوبت ہی پیش نہ آتی پہلے ہی پتہ ہوتا کہ یہ اجارہ لازم نہیں ،سوال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سائل اس اجارہ کو لازم سمجھتے تھے اسی لیے اجارہ ختم کیے جانے پر پریشان ہیں،لہذا آجکل ان اجاروں کا جائزہ لینے کے بعد،ان کے بطور لزوم انعقاد کے معروف و رائج ہو جانے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ اب جبکہ رواج و تعامل اجارہ مضافہ کے لزوم پر ہو چکا ہے تو اس روایت کو دوسری روایت پر ترجیح ہوگی، کیونکہ عرف و تعامل کی وجہ سے علماء نے نص مذہبی کے ترک کو جائز قرار دیا ہے اور یہاں تو نص مذہبی کے ترک کے بجائے مذہب کے ہی دوسرے قوی اور تصحیح یافتہ قول پر فتوی دیا جا رہا ہے،لہذا یہ بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔ نشر العرف میں ہے:’’ وفی تصحیح العلامۃ قاسم فان قلت قد یحکون اقوالا من غیر ترجیح وقد یختلفون فی التصحیح قلت یعمل بمثل ما عملوا من اعتبار تغیر العرف واحوال الناس وما ھو الارفق بالناس وما ظھر علیہ التعامل وما قوی وجھہ ولایخلو الوجود من تمیز ھذا حقیقۃ لا ظنا بنفسہ ویرجع من لم یمیز الی من یمیز انتھی ‘‘ اور تصحیح علامہ قاسم میں ہے:اگر تو کہے کہ فقہائے کرام کبھی کبھاربغیر تر جیح کے اقوال بیان کرتے ہیں اور تصحیح میں اختلاف کرتے ہیں (تو کس پر عمل کیا جائے گا)میں کہتا ہوں اس پر عمل کیا جائے گا جس پر انہوں نے عرف اور لوگوں کے احوال کے بدلنے پر عمل کیا ہےاور لوگوں کے لیے جوزیادہ آسان ہو اور جس پر تعامل ظاہرہو اور جس کی وجہ قوی ہو اور زمانہ ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہے، جو حقیقتاًان باتوں کی تمییز کر لیتے ہیں اور جو تمییز نہیں کر سکتا وہ اس کی طرف رجوع کرے جو تمییز کر لیتا ہے۔ (رسائل ابن عابدین ،نشر العرف،صفحہ 130،مطبوعہ کوئٹہ) نشر العرف میں ہے:’’( فان قلت ) العرف یتغیر ویختلف باختلاف الازمان فلو طرء عرف جدید ھل للمفتی فی زماننا ان یفتی علی وفقہ ویخالف المنصوص فی کتب المذھب وکذا ھل للحاکم الآن العمل بالقرائن(قلت)مبنی ھذہ الرسالۃ علی ھذہ المسائلۃ فاعلم ان المتاخرین الذین خالفو المنصوص فی کتب المذھب فی المسائل السابقۃ لم یخالفوہ الا لتغیر الزمان والعرف وعلمھم ان صاحب المذھب لو کان فی زمنھم لقال بما قالوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ( فھذا ) کلہ وامثالہ دلائل واضحۃ علی ان المفتی لیس لہ الجمود علی المنقول فی کتب ظاھر الروایۃ من غیر مراعات الزمان واھلہ والا یضیع حقوقا کثیر ۃ ویکون اضرارہ اعظم من نفعہ ‘‘اگر تم کہو کہ عرف بدلتا رہتا ہے اور زمانہ کے مختلف ہونے سے مختلف ہو تا رہتا ہے، پس اگر جدید عرف طاری ہو تو کیا ہمارے زمانہ میں مفتی کے لیے جائز ہے کہ عرف کے مطابق فتوی دے اور کتب مذہب میں منصوص مسائل کی مخالفت کرے اور اسی طرح اب حاکم کے لیے جائز ہے کہ قرائن پر عمل کرے؟ میں کہتا ہوں اس رسالہ کی بنیاد اسی مسئلہ پر ہے تم جان لو کہ جن متاخرین نے کتب مذہب میں منصوص مسائل سابقہ کی مخالفت کی تو انہوں مخالفت محض زمانے اور عرف کے بدلنے کی وجہ سے کی ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر اس زمانہ میں صاحب مذہب ہو تے تو وہ بھی وہی کہتے جو فقہاء نے کہا، پس یہ تمام اور ان جیسی دوسری مثالیں اس بات پر واضح دلائل ہیں کہ مفتی کو زمانہ اور زمانے والوں کی رعایت کیے بغیر کتب ظاہر الروایۃ میں منقول شدہ مسئلہ پر اڑ جانا ، جائز نہیں ورنہ کثیر حقوق ضائع کر دے گا اور اس کا ضرر اس کے نفع سے زیادہ ہو گا۔ (رسائل ابن عابدین، نشر العرف،ص128تا131،مطبوعہ کوئٹہ) دو تصحیح یافتہ قولوں میں سے ایک کا عرف کے مطابق ہونا بھی ترجیح کی وجہ ہے۔چنانچہ رسم المفتی میں ہے:’’ قولھم اذا کان فی المسئلۃ قولا ن مصححان فالمفتی بالخیار لیس علی اطلاقہ بل ذاک اذا لم یکن لاحدھما مرجح قبل التصحیح او بعدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ما اذا کان احدھما اوفق لاھل الزمان فان ما کان اوفق لعرفھم او اسھل علیھم فھو اولی بالاعتماد علیہ ولذا افتوا بقول الامامین فی مسئلۃ تزکیۃ الشھود وعدم القضاء بظاھر العدالۃ لتغیر احوال الزمان فان الامام کان فی القرن الذی شھد لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالخیریۃ بخلاف عصرھما فانہ قد فشی فیہ الکذب فلا بد فیہ من التزکیۃ وکذا عدلو ا عن قول ائمتنا الثلاثۃ فی عدم جواز الاستئجار علی التعلیم ونحوہ لتغیر الزمان ووجود الضرورۃ الی القول بجوازہ کما مر بیانہ ‘‘ اور ان کا قول:کہ جب ایک مسئلہ میں دو تصحیح شدہ اقوال ہوں ،تو مفتی مختار ہے۔ یہ علی الاطلاق نہیں ہے ،بلکہ یہ اس وقت ہے کہ جب دونوں تصحیح شدہ اقوال میں سے کسی ایک کے لیے تصحیح سے پہلے یا بعدمرجح نہ ہو۔۔۔۔بہرحال جب ان میں سے ایک اہل زمانہ کے زیادہ موافق ہو، پس اگر لوگوں کے عرف کے زیادہ موافق ہو یا ان پر زیادہ آسان ہو تو اس پر اعتماد اولیٰ ہے، اسی وجہ سے فقہائے کرام نے گواہوں کے تزکیہ اور ظاہری عدالت پر فیصلہ نہ کرنے کے معاملے میں احوال زمانہ کے بدل جانے کی وجہ سے صاحبین کے قول پر فتوی دیا ہے، کیونکہ امام اعظم رضی اللہ عنہ اس زمانے میں تھے ، جس کی خیریت کی گواہی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، بخلاف صاحبین کے زمانہ کے کیونکہ اس وقت جھوٹ پھیل چکا تھا، اسی لیے تذکیہ ضروری ہے اور اسی طرح فقہائے نے ہمارے آئمہ ثلاثہ کے قول’’تعلیم وغیرہ پراجارہ جائز نہیں ‘‘سے عدول کیا ہےزمانہ کے بدل جانے کی وجہ سے اور اس کے جواز کی طرف ضرورت کے پیش آنے کی وجہ سے۔ (رسائل ابن عابدین رسم المفتی،صفحہ39 تا40،مطبوعہ کوئٹہ) سراج الفقہاءمفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں:’’اگر عرف نہ شریعت کے کسی نص کے خلاف ہو،نہ قیاس کے،بلکہ وہ نصوص مذہب کے خلاف ہو ،تو اس باب میں عرف خاص و عرف عام دونوں ہی تغییر احکام کے باعث ہوں گے اور ان کی بنیاد پر نصوص مذہب کا ترک جائز ہوگا۔‘‘ (فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول،صفحہ238،مطبوعہ کراچی) تعامل کی وجہ سے لزوم والی روایت پر فتوی دینے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ جنہوں نے اجارہ مضافہ کے عدم لزوم والی روایت پر واضح الفاظ میں فتوی دیا ہے اور اسے کئی فقہاء کا مذہب بھی قرار دیا ہے،اس کے باوجود وقف کےاس مسئلہ’’جہاں متولی اجرت کی حاجت کی وجہ سےموقوفہ چیز کو فقہاء کے بیان کردہ حیلہ کے مطابق ایک ایک سال کے کئی عقود کے ساتھ اجارہ پر دے‘‘ اس میں علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ نے حاجت کی وجہ سے اجرت کے متعلق لزوم والی روایت کے مطابق فتوی دیا ہے،یعنی اجارہ مضافہ کے عدم لزوم والی مفتی بہ روایت کے مطابق تقاضا یہ تھا کہ متولی فوراً اجرت کا مالک نہ ہو،اس طرح اس عقد کا کوئی فائدہ ظاہر نہ ہوتا ،کیونکہ متولی کے اس حیلہ کو اختیار کرنے سے مقصود اجرت کا فوری حصول تھا اور جب اجرت ملکیت میں ہی نہیں آئے گی، تو یہ حیلہ بے کار ہوگا ،لہذا حاجت کے پیش نظر علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ نے لزوم والی روایت کے مطابق اجرت کے فوراً مالک ہوجانے کا حکم بیان فرمایا، لیکن علامہ شامی علیہ الرحمۃ نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ صرف اجرت کی ملکیت کا حکم بیان کر دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، کیونکہ اجارہ لازم نہ ہونے کی وجہ سے مستاجر کو حقِ فسخ حاصل ہوگا ،لہذا مناسب یہ ہے کہ ضرورت کی وجہ سے یہاں صرف اجرت کے فوری ملکیت میں آنے کا قول کرنے کے بجائے اجارہ مضافہ کے لزوم والی روایت پر فتوی دیا جائے۔ درمختار میں ہے:’’ و فی البزازیۃ:لو احتیج لذلک یعقد عقوداً فیکون العقد الاول لازماً لانہ ناجز و الثانی لا لانہ مضاف ‘‘اور بزازیہ میں ہے:اگر زیادہ مدت تک اجارہ کرنے کی حاجت ہوتو متولی کئی عقود کر لے، پس پہلا عقد لازم ہوگا، کیونکہ وہ فوری ہے اور دوسرا لازم نہیں ہوگا کیونکہ مستقبل کی طرف منسوب ہے۔ (درمختار مع رد المحتار،جلد6،صفحہ615،مطبوعہ کوئٹہ) رد المحتار میں ہے:’’ اعترض قاضیخان قولھم:ان احتاج القیم الی تعجیل الاجرۃ یعقد عقوداً مترادفۃ بانھم اجمعوا علی ان الاجرۃ لا تملک فی الاجارۃ المضافۃ باشتراط التعجیل:ای: فیکون للمستاجر الرجوع بما عجلہ من الاجرۃ فلا یکون ھذا العقد مفیداً ،لکن اجاب العلامۃ قنالی زادہ بان قاضیخان نفسہ اجاب فی کتاب الاجارات بقولہ:لکن یجاب عنہ بان ملک الاجرۃ عند التعجیل فیہ روایتان:فیوخذ بروایۃ الملک ھنا للحاجۃ۔اھ قلت:لکن انت خبیر بان روایۃ عدم اللزوم ھنا لا تنفع لانہ یثبت للمستاجر الفسخ فیرجع بما عجلہ من الاجرۃ و ان قلنا :انھا تملک بالتعجیل فینبغی ھنا ترجیح روایۃ اللزوم للحاجۃ نظیر ما قالہ قاضیخان فی روایۃ الملک۔ملخصا ‘‘علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ نے فقہاء کے اس قول:’’اگر متولی کو جلدی اجرت کی حاجت ہو تو وہ ایک جیسے کئی عقود کرے‘‘پر یہ اعتراض کیا کہ اجارہ مضافہ میں اجرت کی تعجیل کی شرط کے باوجود علماء کا اجرت کے مالک نہ ہونے پر اتفاق ہے ، یعنی مستاجر کو تعجیلاً دی جانے والی اجرت میں رجوع کا حق ہے تو یہ عقد کوئی فائدہ نہیں دے گا ،لیکن علامہ قنالی زادہ نے جواب دیا کہ اس اعتراض کا جواب خود علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ نے کتاب الاجارات میں ان الفاظ کے ساتھ دیا ہے:لیکن جواب دیا جائے گا کہ تعجیلاً اجرت دینے کی صورت میں مالک اجرت ہونے کے بارے میں دو روایتیں ہیں اور یہاں حاجت کی وجہ سے ملکیت والی روایت کو لیا جائے گااھ میں نے کہا:تجھے پتہ ہے کہ یہاں عدم لزوم والی روایت کوئی فائدہ نہیں دے گی، کیونکہ مستاجر کے لیے فسخ کا حق ثابت ہوگا، تو اگرچہ ہم تعجیلاً دی جانے والی اجرت کے مالک ہونے کا کہیں تب بھی وہ تعجیلاً دی جانے والی اجرت میں رجوع کر لے گا ،لہذا مناسب ہے کہ یہاں حاجت کی وجہ سے لزوم والی روایت کو ترجیح دی جائے اس کی مثل جو امام قاضی خان علیہ الرحمۃ نے ملک والی روایت کے متعلق فرمایا۔ ( رد المحتار مع درمختار ، جلد6،صفحہ615تا 616،مطبوعہ کوئٹہ) تنبیہ:مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جب یہ بات ثابت ہو چکی کہ تعامل کی وجہ سے فتوی اب اجارہ مضافہ کے لزوم والی روایت پر ہے اور فقہاء کی تصریح کے مطابق زیادہ کرایہ ملنا،ان اعذار میں سے نہیں جس کی وجہ سے یک طرفہ طور پر اجارہ کے فسخ کا اختیار ہو،لہذامالک دکان کوزیادہ کرائے کی لالچ میں آپ سے کیے گئے اجارہ کے معاہدہ کو یک طرفہ طور پرختم کرنے کا ہرگز اختیار نہیں ہے،اس پر لازم ہے کہ آپ سے جومعاہدہ ہوا ہے،اس کو پورا کرے اور مقررہ وقت پر دُکان آپ کے حوالے کرے ۔ عالمگیری میں ہے:’’ ولیس للمؤاجر ان یفسخ الاجارۃ اذا وجد زیادۃ علی الاجرۃ التی آجر بھا وان کان اضعافاً کذا فی غایۃ البیان ‘‘اور اجرت پر دینے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اجارہ کو فسخ کر دے جب اسے اس اجرت سے زیادہ اجرت مل رہی ہو ،جتنے پر اس نے چیز اجرت پر دے رکھی ہو،اگرچہ وہ دگنی اجرت ہو،اسی طرح غایۃ البیان میں ہے۔ (عالمگیری،جلد4،صفحہ459،مطبوعہ کوئٹہ) سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’بلا عذر اس نے اجارہ چھوڑا یا عذر واضح و صریح نہ تھا اور خود مالکہ یا اس کے وکیل نے کہ قبول فسخ کا اختیار رکھتا ہو،اس فسخ کو قبول نہ کیا نہ دکان اس کے قبضہ سے واپس لی تو بیشک اس صورت میں دکان بدستور زید کے کرائے میں ہے،زید کو تنہا اس کے فسخ کا اختیار نہ ہوگا۔ملخصا‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ491 تا 492،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور) بہار شریعت میں ہے:’’اجارہ کر لینے کے بعد دوسرا شخص بہت زیادہ اجرت دینے کو کہتا ہے یا مستاجر سے دوسرا شخص کم اجرت پر چیز دینے کو کہتا ہے اجارہ فسخ کرنے کے لیے یہ عذر نہیں، اگرچہ وہ بہت زیادہ دیتا ہو یا یہ بہت کم اجرت مانگتا ہو۔‘‘ (بھار شریعت،جلد3،صفحہ176،مکتبۃ المدینہ ،کراچی) الجواب صحیح مفتی فضیل رضا عطاری واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبـــــــــــــــــــــــــــہ المتخصص فی الفقہ الاسلامی ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری 10 ذو القعدۃ الحرام1441 ھ/02جون20 20 ء

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن