اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
(یہ مضمون کتاب ”550سنتیں اور آداب“ صفحہ38 ،40تا 34 اور 54تا 68 سے لیا گیا ہے۔)
نام رکھنے کی 18 سنتیں اور آداب
(مع دیگر اہم سنتیں اور آداب)
دُعائے عطار: یارَبَّ المصطفٰے!جوکوئی 17صفحات کا رسالہ” نام رکھنے کی 18 سنّتیں اور آداب(مع دیگر اہم سنّتیں اور آداب) “ پڑھ یا سُن لے، اُسے ہر کام سنّت کے مطابق کرنے کی سعادت دے اور اُسے اپنےسب سے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنّتوں کی چَلتی پِھرتی تصویر بنا۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جسے کوئی مشکل پیش آئے اسے مجھ پر کثرت سے دُرُود پڑھنا چاہئے کیونکہ مجھ پر دُرُودپڑھنا مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹالنے والا ہے ۔
(القول البد یع ،ص 414 ۔ بستان الواعظین ،ص274)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
(1) دوفرامینِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:(1)اچّھوں کے نام پر نام رکھو(1)(2)قیامت کے دن تم کو تمہارے اور تمہارے باپوں کے نام سے پُکارا جائے گا لہٰذا اپنے اچھے نام رکھو (2) (2) حضرتِ علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بچے کا اچھا نام رکھا جائے، ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں جن کے کچھ معنیٰ نہیں یا ان کے برے معنیٰ ہیں ایسے ناموں سے اِحتِراز(یعنی پرہیز)کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصّلوٰۃُو السّلام کے اَسمائے طَیّبہ(یعنی پاک ناموں)اور صحابہ و تابعین و بُزُرگانِ دین(رِضوانُ اللہِ علیہم اجمعین) کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، اُمید ہے کہ ان کی برکت بچے کے شاملِ حال ہو (3) (3) بچہ زندہ پیدا ہوا یا مردہ اُس کی خِلْقت(یعنی بدن) تمام (یعنی مکمَّل)ہو یا نا تمام(یعنی نامکمَّل) بہر حا ل اس کا نام رکھا جائے اور قیامت کے دن اُس کا حَشْر ہو گا(یعنی اُٹھایا جا ئے گا)(4)معلوم ہوا جو بچہ کچّا گر جائے اُس کا بھی نام رکھا جائے۔ جیسا کہ دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کے رسالے ” اولاد کے حقوق “ صَفْحہ17 پر ہے: نام رکھے یہاں تک کہ کچّے بچے کابھی جو کم دنوں کاگرجائے ورنہ اللہ پاک کے یہاں شاکی ہوگا۔ (یعنی شکایت کر ے گا) فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: کچے بچے کا نام رکھو کہ اللہ پاک اس کے ذَرِیعے تمہاری میزان (یعنی عمل کے ترازو) کو بھاری کرے گا(5)(4)”محمد “ نام رکھنے کے بارے میں تین فرامینِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : (1)جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری مَحَبَّت اور میرے نام سے بَرَکت حاصل کرنے کیلئے اس کا نام محمد رکھے وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے (6) (2)روزِ قیامت دو شخص اللہ پاک کے حُضُور کھڑے کئے جائیں گے ، حکم ہوگا: انہیں جنت میں لے جاؤ۔ عرض کریں گے: الٰہی!ہم کس عَمَل پر جنّت کے قابل ہوئے؟ہم نے تو جنت کا کوئی کام کیا نہیں ! فرمائے گا: جنت میں جاؤ،میں نے حَلْف کیا ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو دوزخ میں نہ جائے گا(7)(3) تم میں کسی کا کیا نقصان ہے اگر اس کے گھر میں ایک محمد یا دو محمد یا تین محمد ہوں۔(8)یہ حدیثِ پاک نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے جو لکھا ہے اُس کا خُلاصہ ہے: اِسی لئے میں نے اپنے سب بیٹوں، بھتیجوں کا عقیقے میں صرف محمد نام رکھاپھر نامِ مبارک کے آداب کی حفاظت اور بچوں کی پہچان ہو سکے اِس لئے عرف( یعنی پکارنے والے نام) جُدا مُقَرَّر کئے۔ بِحَمْدِاللہ پانچ محمد اب بھی موجود ہیں جبکہ پانچ سے زائد اپنی راہ کو گئے یعنی وفات پا چکے ہیں۔(9)حضرت امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کا اپنا ، والد صاحب کا اور داداجان کا مبارک نام محمد تھایعنی محمد بن محمد بن محمد۔ حضرت اَیمن ابوالبرکات بن محمد رحمۃُ اللہِ علیہ وہ عظیم ہستی ہیں جن کے سلسلۂ نَسَب میں مسلسل 14 پُشتوں تک باپ داداؤں کا نام محمد ہوا ہے۔(10)(5) محمد نام والے شخص کی برکت :مَروِی ہے کچھ لوگ کسی معاملے میں مَشورہ کرنے کیلئے جمع ہوں اور ان میں محمد نام کا کوئی شخص بھی ہو اور وہ اس سے مشورہ طلب نہ کریں تو انہیں اس کام میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ (11) (6) اولادِ نرینہ کیلئے عمل: تابعی بُزُرگ امام عطا رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جو چاہے کہ اس کی عورت کے حمل میں لڑکا ہو، اسے چاہئے اپنا ہاتھ(حاملہ) عورت کے پیٹ پر رکھ کر کہے: ” اگر لڑکا ہے تو میں نے اس کا نام محمد رکھا۔“ اِن شاءَ اللہُ الکریم لڑکا ہی ہوگا(12)(7)آج کل مَعاذَ اللہ نام بگاڑنے کی وَباعام ہے اور محمد نام کا بگاڑنا تو بَہُت ہی سخْت تکلیف دِہ ہے۔لہٰذا ہر مَرْد کا نام محمد یا احمد رکھ لیجئے اور عُرف یعنی پکارنے کیلئے بُزُرگوں کے ناموں سے کوئی آسان تلفظ والا نام رکھ لیا جائے(8) جِبریل یا مِیکائیل وغیرہ نام نہ رکھئے۔فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: فرشتوں کے نام پر نام نہ رکھو(13)(9)محمدنبی، احمدنبی، نبی احمد نام رکھنا حرام ہے(14)(10) جب بھی نام رکھیں اُس کے معنیٰ کسی سنی عالم سے پوچھ لیجئے، برے معنیٰ والے نام نہ رکھئے مَثَلاً غفورُ الدین کے معنیٰ ہیں: دین کامٹانے والا، یہ نام رکھنا سخت بُرا ہے۔ برے نام بری تاثیر رکھتے ہیں چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: میں نے برے ناموں کا سخت بُرا اثر پڑتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، بَھلے چَنگے سنی صورت کو آخر عمر میں” دین پوش اور ناحق کوش“ (یعنی دین چھپانے والااور باطل کیلئے کو شش کرنے والا) ہوتے پایا ہے(15)(11)نام کے اثرات آیِندہ نسل میں بھی آ سکتے ہیں،” بہارِ شریعت “ جلد 3 صفحہ 601پر حدیث نمبر 21 ہے: ” صحیح بخاری“ میں سعید بن مُسَیَّب رضی اللہُ عنہ سے مَروِ ی کہتے ہیں:میرے دادا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) نے پوچھا: تمہارا کیا نام ہے؟ انھوں نے کہا: حُزْن۔ فرمایا: تم سَہْل ہو۔ یعنی اپنا نام” سَہْل“ رکھو کہ اس کے معنیٰ ہیں نرم اور” حُزْن“ سخت کو کہتے ہیں۔ انھوں نےکہا کہ جو نام میرے باپ نے رکھا ہے اُسے نہیں بدلوں گا۔ سعید بِن مسیب کہتے ہیں: اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم میں اب تک سختی پائی جاتی ہے(16)(12) یٰسین یا طٰہٰ نام رکھنا منع ہے۔(17)محمدیٰسین نام بھی مت رکھئے، ہاں چاہیں تو غلام یٰسین اور غلام طٰہٰ نام رکھ لیجئے (13) بہارِ شریعت حصہ 15 ” عقیقے کا بیان“ میں ہے: عبدُاللہ و عبدُالرحمن بَہُت اچّھے نام ہیں مگر اس زمانے میں یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بجائے عبدُالرحمن اس شخص کو بہت سے لوگ رحمٰن کہتے ہیں اور غیرِ خدا کو رحمٰن کہنا حرام ہے۔ اسی طرح عبدُالخالِق کو خالِق اور عبدُالْمَعبود کو مَعبود کہتے ہیں اس قسم کے ناموں میں ایسی ناجائِز ترمیم ہرگز نہ کی جائے۔ اسی طرح بہت کثرت سے ناموں میں تَصْغِیر (تَص۔غِیْر یعنی چھوٹا کرنے) کا رواج ہے یعنی نام کو اس طرح بگاڑتے ہیں جس سے حَقارت نکلتی ہے اور ایسے ناموں میں تَصغیر(یعنی چھوٹائی) ہر گز نہ کی جائے لہٰذا جہاں یہ گُمان ہو کہ ناموں میں تصغیر کی جائے گی یہ نام نہ رکھے جائیں دوسرے نام رکھے جائیں۔(18) (14) جو نام برے ہوں ان کو بدل کر اچھا نام رکھنا چاہیے کہ اپنی اُمّت سے پیار کرنے والے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بُرے نام کو (اچھے نام سے) بدل دیا کرتے تھے۔(19)ایک خاتون کا نا م ” عاصِیہ “ (یعنی گُنہگار ) تھا ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کے نام کو بدل کر جَمیلہ رکھا(20)(15) ایسے نام منع ہیں جن میں اپنے مُنہ سے خود کو اچھا بتانا یعنی اپنے ” مُنہ میاں مِٹّھو“ بننا پایا جائے ۔ پارہ 27 سورۃُالنَّجْم آیت 32میں ارشاد ِ الٰہی ہے: (فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-) ترجَمۂ کنزالایمان”: تو آپ اپنی جانوں کوسُتھرا نہ بتاؤ ۔“ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے ” فُصُولِ عِمادی “ کے حوالے سے لکھا ہے : کوئی اس نام کے ساتھ نام نہ رکھے جس میں تَزْکِیہ یعنی اپنی بڑائی اور تعریف کا اظہار ہو۔(21)مسلم شریف میں ہے: سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ” بَرَّہ “ (یعنی نیک بی بی) نامی عورت کا نام بدل کر” زینب“ رکھا اور فرمایا: ” اپنی جانوں کو آپ (یعنی خود)اچھا نہ بتاؤ۔ اللہ پاک خوب جانتا ہے کہ تم میں نیکو کار کون ہے“ (22)(16)ایسے نام رکھنا جائز نہیں جو غیر مسلموں کیلئے مخصوص ہوں۔ فتاوٰی رضویہ جلد24 صَفْحَہ 663 تا664 پر ہے: ناموں کی ایک قسم کُفّار سے مُخْتَصْ (یعنی مخصوص ) ہے جیسے جِرْجِس،ُپطْرُس اور یُوْحَنّا وغیرہ لہٰذا اس نوع (یعنی قسم) کے نام مسلمانوں کے لئے رکھنے جائز نہیں کیونکہ اس میں کفار سے مُشابَہت پائی جاتی ہے ۔ وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ۔ (17) غلام محمد اور احمد جان نام رکھنا جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ غلام یا جان وغیرہ لفظ نہ بڑھایا جائے۔ تا کہ محمد اور احمد نام کے جو فضائل احادیث مبارَکہ میں وارِد ہیں وہ حاصل ہوں (18) غلام رسول ، غلام صدیق، غلام علی، غلام حسین ، غلام غوث ، غلام رضا نام رکھنا جائز ہے ۔