30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط یہ مضمون ”فیضانِ نماز“صفحہ 85 تا 99 سے لیا گیا ہے ۔نمازِ فجر کے فضائل
دُعائے عطار: یارَبَّ المصطفےٰ !جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ’’ نمازِ فجر کے فضائل“ پڑھ یا سُن لے،اُسے ہمیشہ فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرما اور اسے بے حساب بخش دے ۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہ علیهِ واٰله وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : میں نے گزشتہ رات عجیب واقعہ دیکھا ، میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا جو پل صراط پر کبھی گھسٹ کر اور کبھی گھٹنوں کے بل چل رہا تھا ، اتنے میں وہ دُرُود آیا جو اس نے مجھ پر بھیجا تھا، اُس نے اُسے پُل صراط پر کھڑا کر دیا یہاں تک کہ اُس نے پل صراط پار کر لیا۔ (معجم کبیر ، 25/282، حدیث: 39) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدپانچ نمازوں میں فضیلت کی ترتیب
علامہ عبدُ الرَّء وف مُناوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :پانچوں نمازوں میں سب سے افضل نمازِ عصر ہے پھر نمازِ فجر پھر عشا پھر مغرب پھر ظہر۔ اور پانچوں نماز کی جماعتوں میں افضل جماعت نمازِ جُمعہ کی جماعت ہے پھر فجر کی پھر عشا کی۔ جمعہ کی جماعت اس لیے افضل ہے کہ اس میں کچھ ایسی خُصُوصِیّات ہیں جو اسے دیگر نَمازوں سے ممتاز کرتی ہیں جبکہ فجر و عشا کی جماعت اس لیے فضیلت والی ہیں کہ ان میں مَشَقَّت(یعنی محنت) زیادہ ہے۔ (فیض القدیر، 2/53)نَماز کی پابندی جنّت میں لے جائے گی
اللہ کریم کے آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری اُمت پر (دن رات میں )پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے یہ عہد کیا ہے کہ جو اِن نمازوں کی اُن کے وقت کے ساتھ پابندی کرے گا میں اس کو جنت میں داخل فرماؤں گا اور جو پابندی نہیں کرے گا تو اس کے لیے میرے پاس کوئی عہد نہیں ۔ (ابو داود ، 1/188، حدیث: 430) فجر کی نَماز کے فضائل امام فقیہ ابو اللیث سمر قَندی رحمۃُ اللہ علیہ نے(تابعی بزرگ) حضرت کعبُ الْاحبار رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ اُنہوں نے فرمایا: میں نے ” توریت “ کے کسی مقام میں پڑھا (اللہ پاک فرماتا ہے:) اے موسیٰ! فجر کی دو رَکعتیں احمد اور اس کی اُمت ادا کرے گی، جو انہیں پڑھے گا اُس دن رات کے سارے گناہ اُس کے بخش دوں گا اور وہ میرے ذمے میں ہوگا۔ اے موسیٰ! ظہر کی چار رَکعتیں احمد اور اس کی اُمت پڑھے گی انہیں پہلی رَکعت کے عوض (یعنی بدلے) بخش دوں گا اور دوسری کے بدلے ان (کی نیکیوں ) کا پَلہ بھاری کر دوں گا اور تیسری کے لیے فِرِشتے مؤکل (مُ۔اَک۔کَل یعنی مُقَرَّر) کروں گا کہ تسبیح (یعنی اللہ پاک کی پاکی بیان) کریں گے اور ان کیلئے دعائے مغفِرت کرتے رہیں گے اور چوتھی کے بدلے اُن کیلئے آسمان کے دروازے کُشادہ کر(یعنی کھول) دوں گا، بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں اُن پر مشتاقا نہ (یعنی شوق بھری)نظر ڈالیں گی۔اے موسیٰ! عصرکی چار رَکعتیں احمد اور ان کی اُمّت ادا کرے گی تو ہَفْت (یعنی ساتوں ) آسمان و زمین میں کوئی فرشتہ باقی نہ بچے گا ،سب ہی ان کی مغفرت چاہیں گے اور ملائکہ(یعنی فرشتے) جس کی مغفرت چاہیں میں اُسے ہر گز عذاب نہ دوں گا ۔ اے موسیٰ! مغرب کی تین رَکعت ہیں ، انہیں احمد اور اس کی اُمت پڑھے گی(تو) آسمان کے سارے دروازے ان کے لیے کھول دوں گا، جس حاجت کا سُوال کریں گے اُسے پورا ہی کر دوں گا۔ اے موسیٰ! شفق ڈوب جانے کے وَقت(1)یعنی عشا کی چار رَکعتیں ہیں ، پڑھیں گے انہیں احمد اور ان کی اُمت ، وہ دُنیا وما فیہا (یعنی دنیا اور اس کی ہر چیز) سے اُن کے لیے بہتر ہیں ، وہ انہیں گناہوں سے ایسا نکال دیں گی جیسے اپنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ۔ اے موسیٰ! وُضو کریں گے احمد اور اس کی اُمت جیسا کہ میرا حکم ہے ، میں انہیں عطا فرماؤں گا ہر قطرے کے عوض (عِ۔وَض۔یعنی بدلے) کہ پانی سے ٹپکے، ایک جنت جس کا عَرْض(یعنی پھیلاؤ) آسمان و زمین کی چوڑائی کے برابر ہوگا۔ اے موسیٰ! ایک مہینے کے ہر سال روزے رکھیں گے احمد اور اس کی اُمت اور وہ ماہِ رَمضان ہے، میں عطا فرماؤں گا اس کے ہر دن کے روزے کے عوض (یعنی بدلے ) جنت میں ایک شہر اور عطا کروں گا ا س میں نفل کے بدلے فرض کا ثواب اور اس میں لیلۃُ الْقَدر کروں گا، جو اس مہینے میں شرم ساری و صدق (یعنی شرمندگی و سچائی) سے ایک بار اِسْتِغْفار(یعنی توبہ ) کر ے گا اگر اسی شب یا اسی مہینے بھر میں مرگیا اسے تیس شہیدوں کا ثواب عطا فرماؤں گا۔ (حاشیۂ فتاوٰی رضویہ، 5/52-54) پڑھتے رہو نماز کہ جنّت میں جاؤ گے ہوگا وہ تم پہ فضل کہ دیکھے ہی جاؤ گے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدفجر کی نماز کے فضائل
فجر کی نماز پڑھنے والا اللہ کے ذمّے
صحابی اِبْنِ صحابی حضرت عبدُ اللہ اِبْنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، سردارِ مکۂ مکرمہ، سرکارِ مدینۂ منورہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : جو صبح کی نماز پڑھتا ہے وہ شام تک اللہ پاک کے ذِمّے میں ہے۔(معجم کبیر ، 12/240، حدیث: 13210) ایک دوسری روایت میں ہے: ’’تم اللہ پاک کا ذمّہ نہ توڑو جو اللہ پاک کا ذِمّہ توڑے گا اللہ پاک اُسے اَوندھا(یعنی اُلٹا) کرکے دوزخ میں ڈال دے گا۔‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل، 2/445، حدیث: 5905)نمازِ فجر کی پابندی کون کر سکتا ہے؟
حضرت علّامہ عبدُ الرَّء وف مُناوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ جو فجر کی نماز اِخلاص کے ساتھ پڑھے وہ اللہ پاک کی اَمان(یعنی حفاظت) میں ہے اور خاص صبح(یعنی فجر) کی نماز کا ذِکر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس نماز میں مَشَقَّت(یعنی محنت) ہے اور اس پر پابندی صرف وُہی شخص کرسکتا ہے جس کا ایمان خالص ہو،اِسی لیے وہ اَمان (یعنی پناہ)کا مستحق ہوتا ہے۔ ‘‘ دوسری جگہ لکھتے ہیں : اللہ پاک کا ذِمَّہ توڑنے کی سخت وعید (یعنی سزا کی دھمکی) اورفجر کی نماز پڑھنے والے شخص کو اِیذا(یعنی تکلیف) پہنچانے سے ڈرنے کا بیان ہے۔ (فیض القدیر، 6/231، 214)شیطان کا جھنڈا
حضرت سلما ن فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میرے آقا، تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’جو صبح کی نماز کو گیا اِیمان کے جھنڈے کے ساتھ گیا اور جو صبح بازار کو گیا اِبلیس (یعنی شیطان )کے جھنڈے کے ساتھ گیا۔“ ( ابن ماجہ ، 3/53، حدیث: 2234)رَحْمانی اور شیطانی گُروہ
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی انسانوں کے دو ٹولے(Groups 2)ہی ہیں:(1)حزبُ اللہ(یعنی اللہ کا گروہ)اور (2)حزْبُ الشیْطٰن (یعنی شیطان کا گروہ)۔ ان کی شناخت (یعنی پہچان )یہ ہے کہ رحمانی ٹولے والے دن کی ابتدا نماز اور اللہ پاک کے ذِکْر سے کرتے ہیں اور شیطانی ٹولے والے بازار و دنیاوی کاروبار سے۔ خیال رہے کہ دُنیوی کاروبار منع نہیں مگر سویرے اُٹھتے ہی نہ خدا کا نام نہ اس کی عبادت بلکہ اُن (یعنی دُنیوی کاموں ) میں لگ جانا یہ شیطانی کام ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 1/399)شیطان کا تین گِرہیں لگانا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تم میں سے کوئی سوتا ہے تو شیطان اُس کی گُدّی(یعنی گردن کے پچھلے حصّے) میں تین گِرہیں (یعنی تین گانٹھیں ) لگادیتا ہے، ہرگِرہ(یعنی گانٹھ) پر یہ بات دل میں بٹھاتا ہے کہ ابھی رات بہت ہے سوجا،پس اگر وہ جاگ کر اللہ کا ذکر کرے تو ایک گِرہ (گِ۔رَہ ۔ یعنی گانٹھ) کُھل جاتی ہے،اگر وُضو کرے تو دوسری گِرہ کُھل جاتی ہے اور نماز پڑھے تو تیسری گِرَہ بھی کُھل جاتی ہے،پھر وہ خوش خوش اور ترو تازہ ہو کر صبح کرتا ہے، ورنہ غمگین دل اور سستی کے ساتھ صبح کرتا ہے ۔ (بخاری ، 1/387، حدیث: 1142)صبح کے وقت مزے کی نیند کا سبب
حضرت علامہ مولانا مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : شیطان انسان کے بالوں میں یا دھاگے میں صبح کے وقت غفلت کی تین گِرہیں لگا دیتا ہے، اسی لیے صبح کے وقت بڑے مزے کی نیند آتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان تین گِرہوں (یعنی گانٹھوں ) کے کھولنے کے لیے تین عمل ارشاد فرمائے۔(جو بیان کردہ حدیث ِ پاک میں موجود ہیں ) (مراٰۃ المناجیح، 2/253)وقت شروع ہوتے ہی سنّتِ فجر پڑھ لینا بہتر ہے
’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ صفحہ352 پر ہے: (فجر کے) اوّل وقت سنتیں پڑھنا اَوْلیٰ ( یعنی بہتر ) ہے۔پریشان حال ہو کر صُبح کرنے والا کون؟
حضرت علّامہ علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ حدیثِ پاک کے حصّے:(پھر وہ خوش خوش اور ترو تاز ہو کر صُبْح کرتا ہے)کے تحت فرماتے ہیں: کیونکہ وہ شیطان کی قید اور غفلت کی چادر سے چھٹکارا پاکر اللہ پاک کی خوشی پانے میں کامیاب ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے اُلٹ جو شخص رات میں اٹھ کر نہ ذِکْرُ اللہ کرتا ہے اور نہ وُضو کر کے نَماز پڑھتا ہے بلکہ شیطان کی فرماں برداری کرتے ہوئے سویا رہتا ہے حتی کہ اس کی فجر کی نماز تک نکل جاتی ہے، تو وہ غمگین دل اور بہت ساری فکروں کے ساتھ اور اپنے کام پورے کرنے کے تعلّق سے حیران و پریشان ہو کر صُبْح کرتا ہے اور جو کام بھی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اُس میں ناکامیاب رہتا ہے کیونکہ وہ اللہ پاک کی نزدیکی سے دورہو کرشیطان کے دھوکے کے جال میں پھنس چکا ہوتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح ، 3/295،296) یاالٰہی! فجر میں اُٹھنے کا ہم کو شوق دے سب نمازیں ہم جماعت سے پڑھیں وہ ذوق دےشیطان نے کان میں پیشاب کردیا ہے
حضرت عبدُ اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بارگاہِ رسالت میں ایک شخص کے متعلّق ذِکْر کیا گیا کہ وہ صبح تک سوتا رہا اور نماز کے لیے نہ اُٹھا توآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اس شخص کے کان میں شیطان نے پیشاب کردیا ہے۔“ (بخاری، 1/388، حدیث: 1144)فجر کے لئے نہ جاگنا بڑی نحوست ہے
حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کے حصّے: (نماز کے لیے نہ اُٹھا)کے تحت فرماتے ہیں : (یعنی) نمازِ تہجد کے لیے یا نمازِ فجر کے لیے (نہ اُٹھا) ، پہلے (یعنی تہجد میں نہ اُٹھنے والے)معنیٰ زیادہ مناسب ہیں کیونکہ صحابۂ کرام( علیہمُ الرِّضْوَان ) فجر ہرگز قضا نہ کرتے تھے اور ممکن ہے (یہ) کسی منافِق کا واقِعہ ہو جو فجر میں نہ آتا تھا۔ معلوم ہوا کہ نماز ِفجر میں نہ جاگنا بڑی نحوست ہے، نیز کوتاہی کرنے والوں کی شکایت اِصلاح کی غرض سے کرنا جائز ہے، غیبت نہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح، 2/254)شیطان واقعی پیشاب کرتا ہے
حضرت علامہ محمد بن احمد انصاری قُرطُبی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ بات ثابت ہے کہ شیطان کھاتا، پیتا اور نکاح کرتا ہے تو اگر وہ پیشاب بھی کرلے تو اس میں کیا رُکاوٹ ہے ! (عمدۃ القاری ، 5/483) شیطان کو بھگائے گی اے بھائیو! نماز فِردوس میں بسائے گی اے بھائیو! نمازشیطان کا سُرمہ وغیرہ
’’قُوتُ الْقُلوب‘‘ میں ہے: شیطان کے پاس سَعُوْط(ناک میں ڈالنے والی کوئی چیز)، لعقوق (چاٹنے والی کوئی چیز)اور ذَرُوْر(آنکھ میں ڈالنے والی کوئی چیز) ہے، جب وہ بندے کی ناک میں (سَعُوط) ڈالتا ہے تواس کے اخلاق بُرے ہوجاتے ہیں ،جب(لَعُوق) چٹاتا ہے تواُس کی زبان بُرا بولنے والی ہوجاتی ہے اور جب بندے کی آنکھ میں (ذَرُور) ڈالتا ہے تو رات بھر سویارہتا ہے یہاں تک کہ صُبح ہوجاتی ہے۔(قوت القلوب، 1/76۔قوت القلوب(اردو) ، 1/237) فجر کا وقت ہوگیا اُٹھو! اے غلامانِ مصطَفٰے اُٹھو! (وسائلِ بخشش ، ص 666) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدتہجد یا فجر کے لئے اُٹھنے کا مدنی نسخہ
نمازِ تہجد یا فجر میں اُٹھنے کے لئے سوتے وقت پارہ 16، سُوْرَۃُ الکہف کی آخری 4 آیتیں پڑھ لیجئے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(۱۰۷) خٰلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا(۱۰۸) قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا(۱۰۹) قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے فِردوس کے باغ اُن کی مہمانی ہے، وہ ہمیشہ اُن میں رہیں گے ان سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔ تم فرما دو! اگر سَمُندر میرے ربّ کی باتوں کے لیے سیاہی ہو تو ضَرور سَمُندر ختم ہو جائے گا اور میرے ربّ کی باتیں ختم نہ ہوں گی، اگرچہ ہم ویسا ہی اور اس کی مدد کو لے آئیں۔ تم فرماؤ! ظاہر صورتِ بَشَری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے، کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ تو جسے اپنے ربّ سے ملنے کی اُمّید ہو اُسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے ربّ کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔ اور نیّت کیجئے کہ ” مجھے اِتنے بجے اُٹھنا ہے۔“ اِن شاءَ اللہ آیاتِ مبارَکہ پڑھنے کی بَرَکت سے آنکھ کُھل جائے گی۔ اگر شروع میں آنکھ نہ بھی کھلے تو مایوس نہ ہوں، وظیفہ جاری رکھئے ۔ اِن شاءَ اللہ آہستہ آہستہ ترکیب بن جائے گی۔جاگنے کیلئے اَلارمSetکر لیجئے
مقررہ وقت پربیدارہونے کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک بلکہ تین گھڑیوں پر اَلارم (Alarm) لگاکر سوئیں تاکہ کسی وجہ سے ایک بند ہو جائے تو دو گھڑیاں جگانے کیلئے موجود رہیں۔ موبائل فون میں بھی اَلارم کی سہولت ہوتی ہے۔ اگر رات دیر سے سونے کی وجہ سے نمازِفجر کے لئے آنکھ نہیں کھلتی اور نہ کوئی جگانے والا موجود ہے تو ضروری ہے کہ جلدی سوئیں کہ فقہائے کرام رحمۃُ اللہ علیہم فرماتے ہیں: ” جب یہ اَندیشہ ہو کہ صبح کی نماز جاتی رہے گی تو بِلاضَرورتِ شرعیہ اسے رات دیر تک جاگنا ممنوع ہے۔‘‘ ( ردالمحتار، 2/33)نیند میں کمی لانے کے طریقے
میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نمازِ ظہر کی جماعت سے قبل سونے والے کو مَدَنی پھول دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :’’اچھا ٹھیک دوپہر کے وقت سو ، مگر نہ اتنا کہ وقتِ جماعت آ جائے، تھوڑی سی دیر قیلولہ کافی ہے۔ اگر لمبی نیند سے خوف کرتا ہے تکیہ نہ رکھ، بچھونا نہ بچھا، کہ بے تکیہ وبے بستر سونا بھی مسنون(یعنی سنّت) ہے۔سوتے وقت دِل کو خیالِ جماعت سے خوب لگا ہوا رکھ کہ فکر (Tension) کی نیند غافِل نہیں ہونے دیتی، کھانا جس قدر ہو سکے صبح سویرے کھا کہ سونے کے وقت تک کھانے کے سبب اُٹھنے والی گرمی دور ہو جائے اور لمبی نیند کا سبب نہ بنے۔ سب سے بہتر علاج کم کھانا ہے۔ سوتے وقت اللہ پاک سے توفیق جماعت کی دعا اور اس پرسچا توکل (یعنی بھروسا) رکھ۔ اللہ کریم جب تیری اچھی نیت اورسچا ارادہ دیکھے گا (تو)ضرور تیری مدد فرمائے گا۔‘‘ ایک جگہ فرماتے ہیں : پیٹ بھر کر رات کی عبادت کا شوق رکھنا بانجھ (یعنی جو عورت بچہ نہیں جنتی اُس ) سے بچہ مانگنا ہے، جو بہت کھائے گا (وہ) بہت پئے گا، جو بہت پئے گا (وہ) بہت سوئے گا، جو بہت سوئے گا (وہ) آپ ہی یہ بھلائیاں اور برکتیں کھوئے گا۔ (فتاوٰی رضویہ، 7/90،88 ملخصاً) اللہ، اللہ کے نبی سے فَرْیاد ہے نَفس کی بَدِی سے شب بھر سونے سے غرض تھی تاروں نے ہزار دانت پیسے (حدائقِ بخشش ، ص 145) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
[1… امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کے نزدیک شَفَقْ اُس سفیدی کا نام ہے جو مغرب میں سُرخی ڈوبنے کے بعد صبحِ صادق کی طرح پھیلی ہوئی رہتی ہے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع