30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْنط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط (یہ مضمون کتاب ” فیضانِ نماز “ صفحہ 70 تا 84 سے لیا گیا ہے۔(نماز کی برکتیں
دُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جبرائیل(علیہ السّلام (نے مجھ سے کہا کہ اللہ پاک فرماتا ہے:’’اے محمد! کیا تم اِس بات پر راضی نہیں کہ تمہارا اُمَّتی تم پر ایک سلام بھیجے، میں اُس پر دس سلام بھیجوں ؟‘‘(نسائی ،ص222 ،حدیث:1292 ( صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدایک صاحِب سے جب گناہ ہو گیا
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہُ عنہسے روایت ہے: ایک صاحب سے ایک (صغیرہ یعنی چھوٹا( گناہ ہو گیا،بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی، اِس پر (پارہ12، سُوْرَةُ هُوْد کی( آیت(نمبر114( نازل ہوئی: وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِؕ-اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ-ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ(۱۱۴) ترجَمۂ کنز الایمان : اور نماز قائم رکھو، دِن کے دونوں کناروں اور کچھ رات کے حِصّوں میں ، بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ، یہ نصیحت ہے ، نصیحت ماننے والوں کو۔ انہوں نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! کیا یہ خاص میرے لیے ہے ؟ فرمایا: ”میری سب اُمّت کے لیے“ (بخاری،1/196،حدیث :526( (بہار شریعت ،1/435( آیت کی تفسیر: اس آیت ِ مُقَدّسہ کے تحت صدرُالْاَفاضِل حضرت علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ دن کے دونوں کناروں سے صبح و شام مراد ہیں ، زوال سے قبل کا وقت صبح میں اور بعد کا شام میں داخل ہے، صبح کی نماز فجر اور شام کی نماز ظہر و عصر ہیں ، اور رات کے حصوں کی نمازیں مغرب و عشا ہیں۔ (تفسیرخزائن العرفان ،ص438( (تفسیر نسفی ،ص516( ”تفسیر ِصراط الجنان“جلد4 صفحہ511 پر اِسی آیت کے تحت لکھا ہے:(آیت کریمہ میں بیان کردہ( نیکیوں سے مراد یا یہی پنج گانہ(یعنی 5 وقت کی( نمازیں ہیں جو آیت میں ذِکر (یعنی بیان ( ہوئیں یااس سے مراد مطلقاً (یعنی ہر طرح کے( نیک کام ہیں یا اس سے ” سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَ کْبَرُ “ پڑھنا مراد ہے۔(تفسیر مدارک ،ص516(چھوٹے گناہوں کے لئے کفّارہ بننے والی بعض نیکیاں
اِس آیت سے معلوم ہوا کہ نیکیاں صغیرہ (یعنی چھوٹے( گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہیں خواہ وہ نیکیاں نماز ہوں یا صدقہ (وخیرات (یا ذِکر و اِستغفار یا اور کچھ۔ (تفسیر خازن، 2/375 ( اَحادیث میں متعدد ایسے اعمال کا بیان ہے جو صغیرہ گناہوں کے لئے کفّارہ (یعنی مٹنے کا سبب ( بنتے ہیں ۔ یہاں ان میں سے چند ایک بیان کئے جاتے ہیں :چار فرامینِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
)1( پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رَمضان دوسرے رَمضان تک یہ سب ان گناہوں کے لئے کفارہ ہیں جو ان کے درمیان واقع ہوں جب کہ آدمی کبیرہ (یعنی بڑے( گناہوں سے بچے۔ (مسلم ،ص118،حدیث:552( )2( جس نے رَمضان کا روزہ رکھا اور اُس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اُس سے بچا تو جو پہلے کر چکا ہے اُس کا کفّارہ ہوگیا۔ (شعب الایمان،3/310،حدیث :3623( (3) عمرے سے عمرے تک اُن گناہوں کا کفارہ ہے جو درمیان میں ہوئے اور حجِ مَبرور کا ثواب جنّت ہی ہے۔(بخاری ، 1/586،حدیث:1773( (4( جس نے علم تلاش کیا تو یہ تلاش اس کے پچھلے گناہوں کا کفّارہ ہو گی۔ (ترمذی،4/295،حدیث:2657(”کفّارہ “سے کیا مُراد ہے؟
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!بیان کردہ چاروں حدیثوں میں لفظ ”کفّارہ“ آیا ہے، یہاں اِس سے مراد ہے: چھوٹے گناہوں سے مُعافی مل گئی۔ بے شک نماز نہایت عظیم الشان عِبادت ہے،اِس کی برکت سے صرف و صرف بدنصیب لوگ ہی محروم رہ سکتے ہیں ۔ نماز جہاں ایک طرف ڈھیروں ثواب کمانے کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف اِسے ادا کرنے سے صغیرہ(یعنی چھوٹے( گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہے۔حضرت عثمان نے وضو کرکے فرمایا
تابعی بزرگ حضرتِ حارِث رحمۃُ اللہِ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ ایک دن تشریف فرما تھے اور ہم بھی بیٹھے تھے کہ مؤَذِّن صاحب آ گئے، حضرت عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ نے پانی منگوا کر وُضو کیا، پھر فرمایا کہ میں نے تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اِسی طرح وُضو کرتے دیکھا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے بھی سنا کہ جو شخص میرے اِس وُضو کی طرح وُضو کرے پھر وہ ظہر کی نماز پڑھ لے تو اللہ پاک اس کے گناہوں کو مُعاف فرمادیتا ہے یعنی وہ گناہ جو فجر کی نماز اور اس ظہر کی نماز کے درمیان ہوئے ہوں ،پھر جب عصر کی نماز پڑھتا ہے تو ظہرو عصر کے مابین (یعنی بیچ( کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے، پھر جب مغرب کی نماز پڑھتا ہے تو عصر و مغرب کے درمیان کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے، پھر عشا کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے اور مغرب کے درمیان کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے،پھر ہوسکتا ہے کہ رات بھر وہ لیٹ کر ہی گزار دے اور پھر جب اُٹھ کر وضو کرے اور فجر کی نماز پڑھے تو عشا و فجر کے بیچ کے گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہے اور یہی وہ نیکیاں ہیں جو بُرائیوں کو دُور کردیتی ہیں ۔ (الاحادیث المختارۃ ،1/450، حدیث :324(نماز سے گُناہ دُھلتے ہیں
حضرت عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوجہان صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے: اگر تم میں سے کسی کے صحن میں نَہر ہو، وہ اس میں ہر روز پانچ بار غُسل کرے تو کیا اُس پر کچھ میل رہ جائے گا؟ لوگوں نے عرض کیا : جی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”نماز گناہوں کو ایسے ہی دھو دیتی ہے جیسا کہ پانی میل کو دھوتا ہے۔“ (ابن ماجہ ،2/165،حدیث:1397(عیسی علیہ السّلام اور میلا پَرِندہ(حکایت(
حضرت عیسیٰ روحُ اللہ علیہ السّلام ایک بارسمندر کے کنارے کنارے تشریف لئے جا رہے تھے۔ آپ علیہ السّلام نے ایک پَرِندہ دیکھا جو کہ سمندر کی کیچڑ میں لوٹ پوٹ ہو رہا تھا اور اس سبب سے اس کا بدن میلا ہوگیا۔ پھر وہ وہاں سے نکل کرسمندرمیں نہانے لگا جس سے وہ پھر صاف ہوگیا، یہی عمل اُس نے پانچ مرتبہ کیا۔ حضرتِ عیسیٰ رُوحُ اللہ علیہ السّلام کو اِس کام سے تعجب ہوا، حضرت جبرائیل (علیہ السّلام ( نے آپ کوحیرت زدہ دیکھ کر کہا: یہ جو آپ کو دِکھایا گیا ہے یہ حضرت مُحمّد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اُمت کے نمازیوں کی مثال اور یہ کیچڑ اُن کے گناہوں کی مثال اورسمندر میں نہاناپانچ نمازوں کی مثال ہے۔(نزہۃ المجالس ، 1/145 ملخصاً( یعنی جس طرح یہ کیچڑ میں لوٹااور نہا کر پاک و صاف ہوگیا اِسی طرح حضرت مُحمّد مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اُمّت کے گُناہ گار اِن پانچ نمازوں کی وجہ سے اپنے گناہوں سے پاک و صاف ہوجائیں گے۔ اے عاشقانِ نماز! ہماری کِس قدر خوش قسمتی ہے کہ اللہ کریم نے ہم پر نماز فرض فرمائی اور بہت سارا ثواب عطا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی احسان فرمایا کہ وہ نماز کی برکت سے ہمارے گناہ بھی مُعاف فرما دیا کرتا ہے۔ اللہ ربُّ العزت کی رحمت کے اِس خزانے کو جو نہ لوٹے وہ کس قدرمحروم و بدنصیب ہے۔ یہ یاد رہے کہ نمازوں سے جہاں جہاں گناہ مُعاف ہونے کا تذکرہ ہے اس سے مراد صغیرہ (یعنی چھوٹے ( گناہ ہیں ، کبیرہ( یعنی بڑے( گناہ توبہ سے مُعاف ہوتے ہیں ۔ پڑھ کر نماز ساتھ لو سامانِ آخِرت محشر میں کام آئے گی اے بھائیو! نماز صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدگناہ اِس طرح جھَڑتے ہیں جس طرح....
نمازی کس قدر خوش نصیب ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ دھڑا دھڑ جھڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔چنانچہ حضرتِ ابو ذَر غِفاری رضی اللہُ عنہفرماتے ہیں : سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سردیوں کے موسم میں تشر یف لے گئے اور درختوں کے پَتّے جھڑتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک دَرخت کی دو شاخیں پکڑ کر اُنہیں ہلایا ، ان سے پتے جھڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! میں نے عرض کی: لَبَّیْكَ! یارَسُولَ اللہ ! یعنی میں حاضر ہوں اے اللہ پاک کے رسول! ارشاد فرمایا:”جب کوئی مسلمان اللہ پاک کی رِضا (یعنی خوشی( کے لئے نماز پڑھتاہے اُس سے گناہ اِس طرح گِرتے ہیں جیسے درخت سے پَتّے جھڑتے ہیں ۔“ (مسندامام احمد ،8/133،رقم:21612(دوسروں کے دَرَخت کے پتّے جھاڑنے کے مسائل
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کردہ حدیث ِ پاک کے اِس حصے(سردیوں کے موسم میں تشریف لے گئے( کے تحت لکھتے ہیں : مدینۂ منوَّرہ سے باہر کسی جنگل میں اور یہ موسم خزاں کا تھا جب کہ شاخیں ہلانے سے پتے جھڑجاتے ہیں اور ویسے بھی پت جھڑ ہوتا رہتا ہے۔حدیث شریف کے اس حصے (دَرخت کی دو شاخیں پکڑ کر اُنہیں ہلایا(کے تحت فرماتے ہیں : غالباً یہ درخت کوئی جنگل کا خود رَو (یعنی خود بخود اُگ جانے والا(تھا جس کے پھل پھول پتے ہر راہ گیر (یعنی راستے میں گزرنے والا( توڑ سکتا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ درخت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اپنا ہو یا کسی ایسے شخص کا ہو جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس عمل شریف سے راضی ہو ،ورنہ دوسرے کے درخت سے بِلا اجازت پتے وغیرہ جھاڑنا ممنوع ہے۔ حدیث ِمبارک کے اس حصّے( گناہ اِس طرح گِرتے ہیں جیسے درخت سے پتّے جھڑتے ہیں ( کے تحت ہے:یعنی اِخلاص کی نماز موسمِ خزاں کی اُس تیز ہوا کی طرح ہے جو پَت جھاڑ کر دیتی (یعنی پتے گرا دیتی( ہے (مزید فرماتے ہیں ( یہاں (گر جانے یعنی مُعاف ہونے والے( گناہوں سے صغیرہ (یعنی چھوٹے (گناہ مُراد ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح،1/367 (نماز سے فارِغ ہوتے ہی گُناہ مُعاف ہوجاتے ہیں
سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ والا شان ہے: ”جس وقت مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اُس کے گناہ اُس کے سر پر رکھے جاتے ہیں ،جب یہ سجدے میں جاتا ہے تو سارے گناہ گر جاتے ہیں ، نمازی جب نماز سے فارِغ ہوتا ہے تو گناہوں سے پاک صاف ہوچکاہوتا ہے۔“ (معجم کبیر ،6/250،حدیث:6125(دو رَکعت پڑھنے سے تَمام صغیرہ گُناہ مُعاف
حضرت زید بن خالدجہنی(جُ۔ہَن۔نِی( رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، مصطَفٰے جانِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”جو دو رَکعت نماز پڑھے اور اُن میں سَہو(یعنی بھُول( نہ کرے تو جو کچھ پیشتر (اس سے پہلے( اُس کے(صغیرہ( گناہ ہوئے ہیں اللہ پاک مُعاف فرمادیتا ہے۔“(مسند امام احمد ،8/162،حدیث :21749(
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع