30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط یہ مضمون کتاب ”فیضانِ نماز“ صفحہ 7 تا 22 سے لیا گیا ہے ۔نماز پڑھنے کے ثوابات
دُرُود شریف کی فضیلت
مصطفےٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نماز کے بعد حمد وثنا ودُرود شریف پڑھنے والے سے فرمایا: دُعا مانگ قبول کی جائے گی ،سوال کر ، دیا جائے گا۔ (نسائی ، ص 220، حدیث: 1281) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدآقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تقریباً20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں
شب معراج پانچوں نمازیں فرض ہونے کے بعد ہمارے پیارے پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی حیاتِ ظاہِری (یعنی دُنیوی زندگی) کے گیارہ سال چھ ماہ میں تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں(در مختار، 2/6 ماخوذا ،وغیرہ)تقریباً 500 جمعے ادا کئے(مراٰۃ المناجیح، 2/346) ا ور عید کی 9نمازیں پڑھیں ۔( سیرت مصطفٰے، ص 249 ملخصا)قرآنِ کریم میں نماز کا ذِکر سینکڑوں جگہ آیا ہے۔ اے خوش نصیب عاشقانِ نماز! میرے آقا اعلیٰ حضر ت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نماز پنج گانہ(یعنی پانچ وقت کی نمازیں ) اللہ پاک کی وہ نعمتِ عظمیٰ ہے کہ اس نے اپنے کرمِ عظیم سے خاص ہم کو عطا فرمائی ہم سے پہلے کسی اُمّت کو نہ ملی۔(فتاویٰ رضویہ، 5/43)نَماز کس پر فرض ہے؟
ہر مسلمان عاقل بالغ مرد وعورت پر روزانہ پانچ وقت کی نمازفرض ہے۔ اس کی فرضیت (یعنی فرض ہونے)کا انکار کفر ہے۔ جو جان بوجھ کر ایک نماز ترک کرے وہ فاسق سخت گناہ گار وعذابِ نار کا حق دار ہے۔ جنّت اے بے نمازیو! کس طرح پاؤ گے؟ ناراض رب ہوا تو جہنّم میں جاؤ گے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدنَماز ہمارے لئے انعام ہے
صد کروڑ افسوس! آج اکثر مسلمانوں کو نماز کی بالکل پروا نہیں رہی، ہماری مسجدیں نمازیوں سے خالی نظر آتی ہیں ۔ اللہ پاک نے نماز فرض کرکے ہم پر یقیناً اِحسانِ عظیم فرمایا ہے، ہم تھوڑی سی کوشِش کریں ، نماز پڑھیں تو اللہ کریم ہمیں بہت سارا اجرو ثواب عنایت فرماتا ہے۔فرض نماز کے سات حروف کی نسبت سے نمازکے بارے میں 7آیات
(1) پارہ 18 سُوْرَةُ الْمُؤْمِنُوْن کی آیت 11،10،9میں اِرشادہوتاہے: وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنز الایمان : اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (2) اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں جا بجا نماز کی تاکید فرمائی ہے ،پارہ 16 سُوْرَۂ طٰهٰ آیت 14 میں ارشاد ہوتا ہے:( وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴)) ترجَمۂ کنز الایمان : اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ۔ (3)اور اللہ کریم پارہ 5سورةُ النِّسَآءآیت 103میں ارشاد فرماتا ہے:( اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳) ( ترجَمۂ کنز الایمان :بے شک نَماز مسلمانوں پر وقت باندھاہوا فرض ہے۔ (4) اللہ پا ک پارہ12، سورۂ هُوْدآیت114 میں ا رشاد فرماتا ہے : وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِؕ-اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ-ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ(۱۱۴) ترجمہ: اور نما زقائم رکھو دن کے دونوں کناروں اور کچھ رات کے حصّوں میں، بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ، یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کو۔ (5) ربِّ غفور پارہ 18 سُوْرَةُالنُّورآیت 56میں فرماتا ہے: (وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۵۶)) ترجَمۂ کنز الایمان : اور نماز برپا رکھو او رزکوٰۃ دو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اس اُمّید پر کہ تم پر رحم ہو۔ (6)پاک پَروَرْدَگار پارہ21سُوْرَةُ الْعَنْکَبُوْت آیت45 میں فرماتا ہے: (اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ) ترجَمۂ کنز الایمان :بے شک نما ز منع کرتی ہے بے حیائی او ر بری بات سے ۔ (7) اللہ رب العزت نے پارہ 29 سُوْرَةُ الْمَعَارِج آیت 34 اور 35 میں ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَؕ(۳۴) اُولٰٓىٕكَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ(۳۵)ﮒ ترجَمۂ کنز الایمان : اوروہ جو اپنی نماز کی محافظت کرتے ہیں، یہ ہیں جن کا باغوں میں اعزاز ہوگا۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدنَماز کے مختلف 25فضائل
* اللہ پاک کی خوشنودی کا سبب نماز ہے(تنبیہ الغافلین، ص150)*مکی مَدَنی آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے(سننِ کبری للنسائی،5/280، حدیث:8888 )*انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی سنّت نماز ہے(تنبیہ الغافلین ،ص151)* نماز اندھیری قبرکا چَراغ ہے(تنبیہ الغافلین، ص151) * نماز عذابِ قبر سے بچاتی ہے(الزواجر،1/295) *نماز قیامت کی دھوپ میں سایہ ہے (تنبیہ الغافلین ،ص151) *نماز پُل صِراط کے لیے آسانی ہے (تنبیہ الغافلین ،ص 151) *نماز نور ہے(مسلم،ص،140حدیث:223) *نماز جنّت کی کنجی ہے(مسند امام احمد ،5/103، حدیث :14668) *نماز جہنّم کے عذاب سے بچاتی ہے *نماز سے رَحمت نازل ہوتی ہے *اللہ پاک بروزِ قیامت نمازی سے راضی ہوگا *نماز دین کا ستون ہے(شعب الایمان، 3/39،حدیث:2807)*نماز سے گناہ مُعاف ہوتے ہیں (معجم کبیر ،6/250، حدیث:6125 ) *نماز دُعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے(تنبیہ الغافلین ،ص151) *نماز بیماریوں سے بچاتی ہے* نماز سے بدن کو راحت ملتی ہے *نماز سے روزی میں بَرَکت ہوتی ہے *نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے بچاتی ہے *نماز شیطان کو ناپسند ہے(تنبیہ الغافلین، ص151) *نماز قبر کے اندھیرے میں تنہائی کی ساتھی ہے (تنبیہ الغافلین ،151) *نماز نیکیوں کے پلڑے کووزنی بنا دیتی ہے(تنبیہ الغافلین ،151) *نماز مومن کی معراج ہے(مرقاۃ المفاتیح،1/55) *نماز کا وقت پر ادا کرنا تمام اعمال سے افضل ہے(تنبیہ الغافلین ،151) *نمازی کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اُسے بَروزِ قیامت اللہ پاک کا دیدار ہوگا۔چور نے جب نَماز پڑھی (حکایت)
حضرتِ رابِعہ بَصْرِیہ عَدَوِیَّہ رحمۃُ اللہ علیہ ا کے گھر رات کے وقت ایک چور داخل ہوا، اُس نے ہر طرف تلاشی لی لیکن سوائے ایک لوٹے کے کوئی چیز نہ پائی۔ جب وہ جانے لگاتو آپ نے فرمایا:اگر تم چورہو تو خالی نہیں جاؤگے۔ اُس نے کہا: مجھے تو کوئی شے نہیں ملی۔ فرمایا: ’’اے غریب! اِس لوٹے سے وُضو کر کے کمرے میں داخِل ہوجا اور دو رَکعت نماز ادا کر،یہاں سے کچھ نہ کچھ لے کر جائے گا۔“ اُس نے وضو کیا اور جب نماز کے لیے کھڑا ہوا توحضرتِ رابِعہ عَدَوِیَّہ رحمۃُ اللہ علیہ ا نے دُعا کی: ’’اے میرے پیارے پیارے اللہ! یہ شخص میرے پاس آیا لیکن اِس کو کچھ نہ ملا، اب میں نے اِسے تیری بارگاہ میں کھڑا کر دیا ہے، اِسے اپنے فَضْل و کرم سے محروم نہ کرنا۔‘‘اس چور کو عبادت کی ایسی لذّت نصیب ہوئی کہ رات کے آخِری حصے تک وہ نماز میں مشغول رہا۔سَحَری کے وقت آپ اس کے پاس تشریف لے گئیں تو وہ حالتِ سجدہ میں اپنے نفس کو ڈانٹتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’اے نفس! جب میرا ربِّ کریم مجھ سے پوچھے گا میری نافرمانیاں کرتے ہوئے تجھے حیا نہ آئی! تُو اگرچِہ میری مخلوق سے گناہ چھپاتا رہا، مگر اب گناہوں کی گٹھڑی لے کر میری بارگاہ میں پیش ہے! اے نفس! اگر رب العزت مجھے عِتاب(یعنی ملامت) کر ے گا اور اپنی بارگاہِ رحمت سے دور کر دے گا تو میں کیا کروں گا؟“ جب وہ فارِغ ہوگیا تو آپ نے پوچھا: اے بھائی! رات کیسی گزری؟ بولا: ’’میں عاجِزی و اِنکساری کے ساتھ اپنے ربِّ باری کی بارگاہ میں کھڑا رہاتو اُس نے میرا ٹیڑھا پَن دُرُست کر دیا، میری مَعْذِرَت قبول فرما لی اور میرے گناہ بخش دیئے اور مجھے میرے مقصد تک پہنچا دیا۔“ پھر وہ شخص چہرے پر حیرانی وپریشانی کے آثارلیے چلا گیا۔ حضرتِ رابِعہ بَصْرِیہ رحمۃُ اللہ علیہ ا نے بارگاہ ِ الٰہی میں ہاتھ اٹھا کر عرض کی: اے میرے پیارے پیارے اللہ! یہ شخص تیری بارگاہ میں ایک گھڑی کھڑا ہوا تو تو نے اِسے قبول کر لیا اور میں کب سے تیری بارگاہ میں کھڑی ہوں ، کیا تو نے مجھے بھی قَبول فرما لیا ہے؟اچانک آپ نے دِل کے کانوں سے یہ آواز سنی: اے رابعہ! ہم نے اسے تیری ہی وجہ سے قبول کیا اور تیری ہی وجہ سے اپنی نزدیکی عنایت فرمائی ۔ (الروض الفائق، ص 159ملخصا)اللہ رب العزت کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہ علیهِ واٰله وسلّم نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّداوقاتِ نَماز کا دھیان رکھنے کی فضیلت
حضور تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ جنّت نشان ہے : اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے: ’’ اگر بندہ وقت میں نماز قائم رکھے تو میرے بندے کا میرے ذمّۂ کرم پر عہد ہے کہ اُسے عذاب نہ دُوں اور بے حساب جنّت میں داخل کروں ۔‘‘ (الفردوس بما ثور الخِطاب،3/171،حدیث:4455) حضرت ابُودَرْدا رضی اللہ عنہ نے اَحباب(یعنی دوستوں ) سے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں ضَرور قسم کھاؤں گا پھر فرمایا: اللہ کی قسم !جس کے سوا کوئی معبود(یعنی عبادت کے لائق) نہیں ، بے شک اللہ پاک کی بارگاہ میں سب بندوں سے زِیادہ عظمت والے لوگ وہ ہیں جورات دن سورج اور چاند کا دِھیان رکھتے ہیں ۔ اَحباب نے عرض کیا: اے ابودردا! کیا اِس سے مُؤَذِّن مراد ہیں ؟ فرمایا: ’’بلکہ جو بھی مسلمان نماز کے وقت کا خیال رکھتا ہے۔“ (کتاب الثقات،4/330،حدیث:4799)تو نَماز نہیں ہوتی.......!
اے عاشقانِ رسول!ابھی آپ نے نمازوں کے اوقات کا خیال رکھنے کی فضیلت سنی، ہر ایک کو نمازوں کے وقتوں کا خیال رکھناضروری ہے۔ بعض نمازی اِس کی بالکل پروا نہیں کرتے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا ، فجر کا وقت نکل جاتا ہے پھر بھی نمازِ فجر ادا کر رہے ہوتے ہیں ! حالانکہ نمازِ فجر کا سلام پھیرنے سے قبل اگر سورج کی ایک کِرن بھی نکل آئے تو نماز نہیں ہوتی۔ میرے آقااعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’وقت پہچاننا (یعنی نماز، روزے وغیرہ کے اوقات کی معلومات رکھنا) تو ہر مسلمان پر فرضِ عین(یعنی ہر عاقل و بالغ مسلمان پر ضروری) ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،10/569)اب اوقات کی معلومات زیادہ مشکل نہیں رہی
اے عاشقانِ رسول !آج کل ترقّی کا دور ہے، اب اَوقات کی معلومات زیادہ مشکل نہیں رہی، وقت معلوم کرنے کے لیے گھڑیاں موجود ہیں ۔ پہلے لوگ سورج، چاند اور ستارے دیکھ کر وقت معلوم کرتے تھے۔ اب بھی اِنہیں ذرائع سے معلوم کرکے توقیت (تَو۔قیت ) دان عُلما ہماری سہولت کے لیے اَوقاتِ نماز و سحر و اِفطار کا نقشہ تیار کرتے ہیں اور عمومًا ہماری مساجد میں یہ نقشے آویزاں بھی ہوتے ہیں۔(1)زمین سے دینارنکالنے والا نمازی ( حکایت)
حضرت ابو بکر بن فَضْل رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اصرار کر کے اپنے ایک رُومی دوست سے اسلام لانے کا سبب پوچھا تو اُس نے بیان کیا: ہمارے ملک پر مسلمانوں کا لشکر حملہ آور ہوا، جنگ ہوئی، کچھ لوگ ہمارے قتل ہوئے اور کچھ اُن کے۔میں نے اکیلے دس مسلمانوں کو قیدی بنا لیا۔ مُلکِ رُوم میں میرا بہت بڑا گھر تھا، میں نے ان سب کو اپنے خادِمین کے سپرد کر دیا۔ اُنہوں نے ان کو بیڑیوں (Chains) میں جکڑ کر خَچّروں (Mules) پر سامان لادنے کے کام پرلگادیا۔ ایک دن میں نے ان قیدیوں پرمُقَرّرایک خادم کو دیکھا کہ اُس نے ایک قیدی سے کچھ لیا اور اُس کو نماز پڑھنے کے لیے چھوڑ دیا،میں نے اس خادِم کو پکڑ کر مارا اور پوچھا: بتاؤ! تم اِس قیدی سے کیالیتے ہو؟ تو اُس نے بتایا: یہ ہر نماز کے وقت مجھے ایک دینار ( یعنی سونے کا سکّہ )دیتا ہے۔ میں نے پوچھا: کیا اُس کے پاس دینار ہیں ؟ تو اُس نے بتایا: نہیں ، مگر جب یہ نماز سے فارِغ ہوتاہے تو اپناہاتھ زمین پر مارتا ہے اوراس سے ایک دینار نکال کر مجھے دے دیتا ہے!(خادم کا بیان سن کر ) مجھے شوق ہواکہ میں اس کی حقیقت جانوں ۔ لہٰذا جب دوسرا دن ہوا تو میں اُس خادِم کا یونیفارم پہن کر اُس کی جگہ کھڑا ہوگیا۔ جب ظہر کا وقت ہوا تواُس نے مجھے اشارہ کیا کہ مجھے نماز پڑھنے دے تو میں تجھے ایک دینار دوں گا۔ میں نے کہا: میں دو دینار سے کم نہیں لوں گا۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں نے اسے کھول دیا، اس نے نماز پڑھی۔ جب فارغ ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ زمین پرمارا اور وہاں سے نئے دو دینار نکال کر مجھے دے دئیے۔ جب عصر کاوقت ہواتو اس نے مجھے پہلی مرتبہ کی طرح اشارہ کیا۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ میں پانچ دینا ر سے کم نہیں لوں گا۔ اس نے مان لیا۔ پھر جب مغرب کا وقت ہوا تو حسبِ معمول مجھے اشارہ کیا تو میں نے کہا: میں دس دینار سے کم نہیں لوں گا۔ اس نے میری بات مان لی۔ اور جب نماز سے فارغ ہوا تو زمین سے دس دینار نکال کر مجھے دے دئیے اور پھر جب عشا کی نماز کا وقت ہوا تو حسبِ عادت اس نے مجھے اشارہ کیا،میں نے کہا: میں بیس دینا ر سے کم نہیں لوں گا۔ پھر بھی اس نے میری بات تسلیم کرلی اور نماز سے فراغت پاکر اس نے زمین سے بیس دینار نکالے اور مجھے تھما کر کہنے لگا: جو مانگنا ہے مانگو! میر امولیٰ بہت غنی و کریم ہے، میں اُس سے جو مانگوں گا وہ عطاکرے گا۔ اُس کایہ مُعامَلہ دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ یہ ولیُّ اللہ ہے، مجھ پر اس کا رُعب طاری ہوگیا اور میں نے اس کو زَنجیروں سے آزاد کردیا اور وہ رات میں نے رو کر گزاری۔جب صبح ہوئی تومیں نے اُسے بلاکراس کی تعظیم و تکرِیم کی ،اسے اپنا پسندیدہ نیا لباس پہنایا اور اختیار دیا کہ وہ چاہے تو ہمارے شہر میں عزت والے مکان یا محل میں رہے اور چاہے تو اپنے شہر چلا جائے۔ اُس نے اپنے شہرجانا پسند کیا۔میں نے ایک خچر منگوایا اور زادِراہ(یعنی راستے کے اخراجات) دے کر اسے خچر پر خود سوار کیا۔ اس نے مجھے دعا دی:”اللہ پاک اپنے پسندیدہ دین پر تیراخاتمہ فرمائے۔‘‘ اُس کا یہ جملہ مکمَّل نہ ہوا تھا کہ میرے دل میں دینِ اسلام کی مَحَبَّت گھرکر گئی، پھر میں نے اپنے دس غلام اُس کے ہمراہ بھیجے۔ انہیں حکم دیاکہ اِسے نہایت احترام کے ساتھ لے جاؤ۔ پھر اس کو ایک دوات (Ink-pot) اور کاغذدیا اورایک نشانی مقرر کر لی کہ جب وہ بحفاظتِ تمام اپنے مقام پر پہنچ جائے تو وہ نشانی لکھ کر میری طرف بھیج دے۔ ہمارے اور اس کے شہر کے درمیان پانچ دن کا فاصِلہ تھا۔ جب چھٹا دن آیا تو میرے خدام میرے پاس آئے، ان کے پاس رُقعہ بھی تھا جس میں اس کا خط اور وہ علامت موجود تھی۔ میں نے اپنے غلاموں سے جلدی پہنچنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے بتا یا کہ جب ہم اس کے ساتھ یہاں سے نکلے تو ہم کسی تھکاوٹ اور مشقت کے بغیر گھڑی بھر میں وہاں پہنچ گئے، لیکن واپسی پر وُہی سفر پانچ دنوں میں طے ہوا۔ ان کی یہ بات سنتے ہی میں نے پڑھا : اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللہ وَاَ نَّ دِیْنَ الْاِسْلَامِ حَقٌّ۔ ترجمہ:”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً حضرت محمد( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) اللہ پاک کے رسول ہیں اوربے شک دین اسلام حق ہے۔“ پھر میں رُوم سے نکل کر مسلمانوں کے شہر آگیا۔(الروض الفائق، ص 95)اللہ رب العزت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہ علیهِ واٰلہ وسلّم کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حَسنؔ بندہ بھی ہُوں تو کیسے بڑے کار ساز کا (ذوقِ نعت) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
[1… اَلحمدُ لِلّٰہ !عاشقانِ رسول کی دِینی تحریک، ’’دعوت اسلامی‘‘ کے زیرِ اِہتمام ’’مجلس توقیت“ گزشتہ کئی سالوں سے اعلیٰ حضرت، امام احمد رضاخان رحمۃُ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے مسلمانوں کی دُرُست اَوقاتِ نماز و سمت ِ قبلہ سے متعلق رہنمائی کیلئے کوشاں ہے۔ (تادمِ تحریر) پاکستان کے درجنوں بڑے شہروں کے نظامُ الْاَوقات (Time table) شائع ہو چکے جو ” مکتبۃُ المدینہ“کی متعلقہ شاخوں سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مزید ملک وبیرونِ ملک کے کثیر شہروں کے ”نظامُ الْاَوْقات“ کی اِشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ اِن نظامُ الاوقات میں شہروں کے پھیلاؤ اور بلند عمارات کا لحاظ رکھنے کے ساتھ ساتھ آیندہ 26 سالوں کا ممکنہ فرق بھی شرعی اِحتیاط کے ساتھ شامل کیا گیاہے۔ یاد رہے کہ ہر سال اوقاتِ نماز میں کچھ فرق آجاتا ہے جو ہر چوتھے سال تقر یباً درست ہوجاتا ہے لہٰذا مزید درستی کیلئے آیندہ 26سالوں کا ممکنہ فرق بھی شرعی اِحتیاط کے ساتھ شامل کیا گیا۔ نیز مجلس کے تحت تیار ہونے والی مختلف موبائل ا یپلیکیشنز ،آن لائن نظامُ الاوقات کے علاوہ اوقاتُ الصَّلوٰۃ سافٹ ویئر کے ذریعے بھی دنیا بھرکے تقریباً 27 لاکھ مقامات کیلئے نظام الاوقات و سمت ِ قبلہ معلوم کیے جاسکتے ہیں۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع