اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
(یہ مضمون کتاب ”فیضانِ نماز“ صفحہ 23 تا 38 سے لیا گیا ہے۔ )
نمازسے مدد کی تین حکایات
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : ”مجھ پردُرود شریف پڑھ کر اپنی مجالس کو آراستہ کرو کہ تمہارا دُرُودِپاک پڑھنا بروزِ قیامت تمہارے لیے نور ہو گا۔“ (سنن نسائی،ص 220، حدیث :1281)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرت ابُو الْحَسَن سَری سَقَطِی رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمتِ بابرکت میں آپ کی پَڑوسن نے حاضر ہو کر عرض کی : اے ابُو الحسن! رات میرے بیٹے کو سپاہی پکڑکرلے گئے ہیں شاید وہ اسے تکلیف پہنچا ئیں ، براہِ کرم! میرے بیٹے کی سفارش فرما دیجئے یا کسی کو میرے ساتھ بھیج دیجئے۔ پڑوسن کی فریاد سن کر آپ کھڑے ہوکرخُشوع و خُضوع کے ساتھ نماز میں مشغول ہوگئے۔ جب کافی دیر ہوگئی تو اس عورت نے کہا :اے ابُو الحسن!جلدی کیجئے! کہیں ایسا نہ ہو کہ حاکم میرے بیٹے کو قید میں ڈال دے! آپ نماز میں مشغول رہے ،پھر سلام پھیرنے کے بعد فرمایا:’’اے اللہ پاک کی بندی ! میں تیرا مُعاملہ ہی تو حل کر رہا ہوں ۔ ‘‘ ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ اس پڑوسن کی خادِمہ آئی اور کہنے لگی : بی بی جی! گھر چلئے! آپ کا بیٹا گھر آ گیا ہے۔یہ سن کر وہ پڑوسن بہت خوش ہوئی اور آپ کو دعائیں دیتی ہوئی وہاں سے رخصت ہوگئی ۔(عیون الحکایات(اردو )،1/266)اللہ ربُّ الْعِزَّت کی اُن سب پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ و سلّم
قیدیو! چاہو براءَ ت، تم پڑھو دل سے نماز دور ہوجائے گی آفت، تم پڑھو دل سے نماز
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
خادمِ نبی حضرتِ اَنَس بن مالِک رضی اللہُ عنہ کے باغبان (یعنی مالی) نے ایک بار حاضر ہو کر شدید قَحْط سالی(یعنی بارشیں نہ ہونے) کی شکایت کی۔ آپ نے وُضو کیا اورنماز پڑھی پھر فرمایا:اے باغبان! آسمان کی طرف دیکھ!کیا تجھے کچھ نظر آرہا ہے؟ اُس نے عرض کی: حضور! مجھے تو آسمان میں کچھ بھی نظر نہیں آرہا! آپ نے دوبارہ نماز پڑھ کریہی سوال فرمایا اور باغبان نے وُہی جواب دیا۔ پھر تیسری یا چوتھی بار نماز پڑھ کروہی سُوال کیا تو باغبان نے جواب دیا: ایک پرندے کے پَرکے برابر بدلی کا ٹکڑا نظر آرہا ہے۔ آپ نمازو دُعا میں برابر مشغول رہے یہاں تک کہ آسمان میں ہر طرف اَبر(یعنی بادَل) چھا گیا اور مُوسلا دھار بارش ہوئی ۔ حضرتِ انس بن مالک رضی اللہُ عنہ نے باغبان کو حکم دیا: گھوڑے پر سوار ہوکر دیکھو کہ بارش کہاں تک پہنچی ہے؟ اس نے چاروں طرف گھوڑا دوڑا کر دیکھا اور آکر کہا کہ یہ بارش ’’مُسَیَّرِیْن‘‘ اور ’’غَضْبَان‘‘ کے محلوں سے آگے نہیں بڑھی۔(کرامات صحابہ ،ص195) (طبقات ابن سعد،7/15)اللہ ربُّ الْعِزَّت کی اُن سب پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
ابرِ رحمت جُھوم کر برسے گا ہوجائے گی دور قحط سالی کی مصیبت تُم پڑھو دل سے نماز
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرت عُقبہ بن نافِع فِہرِی رحمۃُ اللہِ علیہ کا لشکر افریقہ کے جہاد وں میں ایک بار کسی ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں پانی کا دُور دُورتک نام و نشان نہیں تھا، اور اسلامی لشکر شدّتِ پیاس سے بے تاب ہو گیا۔ حضرتِ عُقبہ بن نافِع فِہری رحمۃُ اللہِ علیہ نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے، ابھی دُعا ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ آپ کا گھوڑا اپنے سُم (یعنی پاؤں ) سے زمین کُریدنے لگا۔آپ نے اُٹھ کر دیکھاتو مٹی ہَٹ چکی تھی اور ایک پتھر نظر آ رہا تھا! آپ نے جیسے ہی پتَّھر ہٹایا ایک دم اُس کے نیچے سے پانی کا چشمہ اُبلنے لگا اور اِس قَدَر پانی نکلا کہ سارالشکر سیراب ہوگیا، تمام جانوروں نے بھی خوب پانی پیا اور لشکر یوں نے اپنی اپنی مشکوں میں بھی بھر لیا،پھر اس چشمے کو بہتا چھوڑ کر لشکر آگے روانہ ہوگیا۔ (الکامل فی التاریخ ، 3/451) اللہ ربُّ الْعِزَّت کی ان سب پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
قَطعۂ بے آب ہو، بے چین ہو بے تاب ہو پیاس کی ہو دور شدّت، تم پڑھو دل سے نماز
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
اے عاشقانِ نماز!جب کوئی مصیبت آجائے یا بلا نازل ہو یا کوئی نازُک مُعامَلہ در پیش ہو توفوراً نماز کا سہارا لے لینا چاہیے ،ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اہم مُعامَلہ پیش آنے پر نماز میں مشغول ہوجاتے تھے کیونکہ نمازتمام اَذکارو دعاؤں کی جامِع (یعنی پوراکرنے والی)ہے ، اس کی بَرَکت سے رنج و غم سے راحت ملتی ہے ،یِہی وجہ ہے کہ مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرتِ بِلال رضی اللہُ عنہ سے فرماتے: ’’اے بِلال! ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ‘‘(معجم کبیر ،6/277،حدیث:6215)(یعنی اے بلال! اذان دو تاکہ ہم نماز میں مشغول ہوں اور ہمیں راحت ملے)۔حضرتِ عبدُ اللہ بن مَسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : جب تم آسمان سے کوئی(گَڑگَڑاہٹ وغیرہ کی ڈراؤنی)آواز سنو تو نماز کی طرف متوجِّہ ہوجاؤ۔(شرح البخاری لابن بطال ،3/26)’’مَبْسُوط‘‘ میں ہے: جب تاریکی (یعنی اندھیرا)چھا جائے یا شدید ہوائیں چلنے لگیں تو اُس وقت نماز پڑھنا بہتر ہے، حضرتِ عبدُاللہ بن عبّاس رضی اللہُ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ بصرہ میں زلزلہ آیا تو آپ رضی اللہُ عنہ نے نماز پڑھی۔(مرقاۃ المفاتیح،3/598)
حضرت علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : تیز آندھی آئے یا دن میں سخت تاریکی(یعنی اندھیرا) چھا جائے یا رات میں خوفناک روشنی ہو یا لگاتار کثرت سے مینھ (یعنی بارش) برسے یا بَکثرت اَولے (Hail) پڑیں یا آسمان سُرخ ہو جائے یا بجلیاں گریں یا بکثرت تارے ٹوٹیں یا طاعون وغیرہ وبا پھیلے یا زلزلے آئیں یا دشمن کا خوف ہو یا اور کوئی دَہْشت ناک اَمر(یعنی خوفناک مُعاملہ) پایا جائے ان سب کے لیے دو رَکعت نماز مستحب ہے۔(عالمگیری،1/153)(بہارِ شریعت ،1/788)
امام فخرُ الدّین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : آج صبح پہلی محرّمُ الحرام 602 ہجری کو میں اس کتاب(یعنی تفسیرِ کبیر) کے اَوراق(Pages) لکھ رہا تھا کہ اچانک زلزلے کے جھٹکے آئے اور زور دار آواز آئی! میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ چیخ چیخ کر اورگِڑ گِڑا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ پھر جب زمین پُرسکون ہوگئی، خوش گوار ہوا چلنے لگی اور حالات معمول پر آ گئے تولوگ پھر اپنی حرکتوں کی طرف لوٹ گئے اور اسی طرح فُضول اور بے ہُودہ کاموں میں مشغول ہوگئے اور بھول گئے کہ ابھی وہ تھوڑی دیر پہلے چیخ پُکار کررہے تھے ، اللہ پاک کے نام کی دُہائی دے رہے تھے اور اس سے گِڑ گِڑا کر دعائیں کررہے تھے۔ (تفسیر کبیر،7/223)
پارہ 23سُوْرَۃُ الزُّ مَرکی آیت نمبر 8میں اِرشادہوتاہے :
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِیَ مَا كَانَ یَدْعُوْۤا اِلَیْهِ مِنْ قَبْلُ
ترجَمۂ کنز الایمان : اور جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے اپنے رب کو پکارتا ہے اسی طرف جھکا ہوا، پھر جب اللہ نے اسے اپنے پاس سے کوئی نعمت دی تو بھول جاتا ہے جس لئے پہلے پکارا تھا۔
نیز پارہ11 سُوْرَۃُ یُوْنس کی آیت 12میں اِرشادہوتاہے :
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖۤ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآىٕمًاۚ-فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَاۤ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗؕ
ترجَمۂ کنز الایمان: اور جب آدمی کو تکلیف پہنچتی ہے ہمیں پکارتا ہے لیٹے اور بیٹھے اور کھڑے، پھر جب ہم اُس کی تکلیف دور کردیتے ہیں چل دیتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔
صدرُ الْاَفاضِل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیمُ الدِّین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اِس آیت کے تحت لکھتے ہیں : مقصد یہ ہے کہ انسان بلا کے وقت بہت ہی بے صَبْرا ہے اور راحت کے وقت نہایت ناشکرا، جب تکلیف پہنچتی ہے تو کھڑے، لیٹے، بیٹھے ہر حال میں دعا کرتا ہے جب اللہ تکلیف دُور کر دے تو شکر بجا نہیں لاتا اور اپنی حالتِ سابِقہ(یعنی پچھلی حالت) کی طرف لوٹ جاتا ہے ، یہ حال غافل کا ہے ، مومنِ عاقِل(یعنی عقل مند مسلمان) کا حال اس کے خلاف ہے، وہ مصیبت و بَلا پر صَبْر کرتا ہے ، راحت و آسائش میں شُکر کرتا ہے ، تکلیف و راحت کے جُملہ اَحوال(یعنی تمام حالتوں ) میں اللہ پاک کے حُضور تَضَرُّع و زاری (یعنی روتا گِڑ گِڑاتا) اور دعا کرتا ہے اور ایک مقام اس سے بھی اعلیٰ ہے جو مومِنوں میں بھی مخصوص بندوں کو حاصل ہے کہ جب کوئی مُصیبت و بَلا آتی ہے اس پر صَبْر کرتے ہیں ، قضاء ِ الٰہی پر دل سے راضی رہتے ہیں اور جَمیع اَحوال پر(یعنی تمام حالتوں میں ) شکر کرتے ہیں ۔
(خزائن العرفان ،ص393)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!نماز میں جس طرح مصیبتوں کا علاج ہے اِسی طرح اِس میں بیماریوں کا بھی علاج ہے،خود طَبیبوں کواِعتراف ہے کہ وُضو کرنے والا شخص دماغی اَمراض میں بہت کم مُبتلا ہوتا ہے، نمازی جُنون(یعنی پاگل پن) اورتِلّی(Spleen)کی بیماریوں سے اکثر محفوظ رہتا ہے، نماز پڑھنے کے لیے دن میں کئی بار وُضو کرنے سے اعضا دُھلتے رہتے ہیں اورنمازی کپڑے بھی پاک صاف رکھتا ہے،اس لیے گندگیوں اور ناپاکیوں سے حفاظت رہتی ہے اور ظاہر ہے کہ گندگی بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے۔