30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خاتَمِ النَّبِیّٖنط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط نمازسے توجُّہ ہٹانے والی چیزیں (1) دعائے عطّار: یااللہ پاک! جو کوئی 14 صفحات کا رسالہ ” نمازسے توجُّہ ہٹانے والی چیزیں “ پڑھ یا سُن لے اُسے خوب توجُّہ کے ساتھ نماز پڑھنے کی سعادت دے اور اس کی ماں باپ سمیت بے حساب بخشش فرما۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلہٖ وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : نماز کے بعد حمد و ثناء اور دُرُود شریف پڑھنے والے سے فرمایا : ”دُعا مانگ قبول کی جائے گی، سوال کر، دیا جائے گا۔‘‘ (نسائی ، ص 220، حدیث: 1281) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدڈیزائن والی چادر میں نماز؟
’’ بخاری شریف‘‘ میں ہے: اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ا سے روایت ہے کہ مکی مدنی مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خَمِیْصَہ (یعنی نقش ونِگار والی) چادر میں نماز پڑھی،اس کے نقش ونِگار(یعنی ڈیزائن) پر ایک نظر ڈالی، جب فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’میری یہ چادر ابوجَہْم کے پاس لے جاؤ اور ابوجَہْم سے اَنْبِجَانِیَّہ کی چادر لے آؤ،کیونکہ اس (ڈیزائن والی) چادر نے ابھی مجھے نماز سے باز رکھا۔‘‘ ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ ’’میں نماز میں اس کے نقش ونِگار (یعنی ڈیزائن) دیکھنے لگا تو مجھے خوف ہے کہ یہ میری نماز خراب کر دے۔‘‘ (بخاری، 1/149، حدیث:373)لباس کا اثر دل پر ہوتا ہے
حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مُفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : عربی میں خَمِیْصَہ بیل بوٹے(یعنی ڈیزائن ) والی چادر کو کہتے ہیں ، یہ اُونی سیاہ چادر تھی جو ابو جَہْم ( رضی اللہ عنہ ) نے ہدیّۃً ( ہَ۔دِی۔یَۃً ۔یعنی بطور Gift) خدمت ِ اَقدس میں پیش کی تھی، اس کو اوڑھ کرسرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ اَنْبِجَانِیَّہ شام(یعنی سُوریا) کی ایک بستی کا نام ہے جہاں سادہ کپڑے تیار ہوتے ہیں اُسی کی طرف اس کی نسبت ہے۔ جیسے ہمارے ہاں بھاگل، بوریا، ڈھاکہ کی مَلْمل یا لائل پور کا لَٹَّھا مشہور ہے۔ چونکہ چادر کا واپس کرنا ابوجَہْم ( رضی اللہ عنہ ) کو ناگوار گزرتا، ان کی دِلداری (یعنی دِلْجوئی) کے لیے اس کے عِوَض (یعنی بدلے ) دوسری چادر طلب فرمالی۔ صوفیا فرماتے ہیں کہ لباس کا اثر دل پر ہوتا ہے، خُصوصاً صاف اور روشن دل جلدی اثر لیتے ہیں ، جیسے سفید کپڑے پر سیاہ دھبّا معمولی بھی(ہو تو) دور سے چمکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محرابِ مسجد سادہ ہونا بہتر ہے تا کہ نمازی کا دھیان نہ بَٹے ۔ بعض صوفیا نقش ونِگار والے مصلّے کی بجائے سادہ چٹائی پر نماز بہتر سمجھتے ہیں ،ان کا ماخَذْ (یعنی بُنیاد) یہی حدیث ہے۔خیال رہے کہ یہ سب اپنی اُمّت کی تعلیم کے لیے ہے، قلب ِ پاکِ مصطَفٰے ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) کی وارِدات (یعنی مبارک دل پر گزرنے والی کیفیات )مختلف ہیں ، کبھی کپڑے کے بیل بوٹے (یعنی ڈیزائن) سے خضوع خشوع کم ہونے کا اندیشہ (یعنی ڈر) ہوتا ہے اور کبھی میدانِ جہاد میں تلواروں کے سائے میں نمازپڑھتے ہیں اور خشوع میں کوئی فرق نہیں آتا، کبھی بَشَرِیّت کا ظُہُور ہے اور کبھی نورانیت کی جَلْوَہ گَری۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 1/466 ملتقطاً)ڈیزائن والے لباس میں نماز جائز ہے
اے عاشقانِ رسول! اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ رنگین یا ڈیزائن والے لباس میں نماز پڑھنا ہی ناجائز ہے! مسئلہ یہ ہے کہ لباس کا ڈیزائن ہو یا جیب میں کوئی وزنی چیز یا کوئی سی بھی شے جو نماز کے خشوع میں رُکاوَٹ ڈالے اُس سے بچنا بہتراور کارِ ثواب ہے۔نئے نعلینِ شریفین
حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک بار نئے نعلین ِ شریفین یعنی مبارک جوتیوں کو پہنا، وہ آپ کو اچھی لگیں تو سجدۂ شُکر کیا اور ارشاد فرمایا: میں نے اپنے ربّ کےسامنے عاجزی کی تاکہ وہ مجھ پر غضب ناک نہ ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم باہَر تشریف لے گئے اور سب سے پہلے ملنے والے سائل(یعنی منگتا ) کو وہ نعلین شریفین عطا فرما دیئے۔ پھر امیرُالْمُؤمِنِین حضرت علیُّ الْمرتَضٰی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: ’’میرے لئے پُرانے نرم چمڑے کے نعلین(یعنی جوتے) خریدلو۔‘‘ پھر انہیں پہنا۔ ( احیاء العلوم (اردو)، 1/509)سونے کی انگوٹھی
مَردوں کیلئے سونا حرام ہونے سے پہلے مصطَفٰے جانِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہاتھ مبارک میں سونے کی ایک انگوٹھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نورانی منبر پر تشریف فرما تھے کہ انگوٹھی اُتار دی اور ارشاد فرمایا: ’’اِس نے مجھے مشغول کردیا، میری ایک نظر اِس کی طرف رہی اور ایک نظرتمہاری(یعنی حاضِرین کی) طرف۔‘‘( احیاء العلوم (اردو)،1/509)سونا مرد کیلئے حرام
اے عاشقانِ رسول! پہلے سونا مَردوں کیلئے جائز تھا مگر بعد میں حرام کر دیا گیا ۔ چنانچِہ حضرت مولی ٰعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سیدھے ہاتھ میں ریشم لیا اور بائیں یعنی Left)) ہاتھ میں سونا پھر یہ فرمایاکہ ’’یہ دونوں چیزیں میری اُمّت کے مَردوں پر حرام ہیں ۔‘‘ (ابو داود ، 4/71، حدیث: 4057)۔(بہار شریعت،3/424)سونے کی انگوٹھی پھینک دی(واقعہ)
ہم سب کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اُس کو اُتار کر پھینک دیا اور یہ فرمایا کہ ’’ کیا کوئی اپنے ہاتھ میں انگارہ رکھتا ہے!‘‘ جب حضورِ اکرم ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) تشریف لے گئے،کسی نے ان سے کہا: اپنی انگوٹھی اُٹھالو اور کسی کام میں لانا۔ انہوں نے کہا: خدا کی قسم! میں اُسے کبھی نہ لوں گا، جبکہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُسے پھینک دیا۔(مسلم، ص891، حدیث:5472) ہر صحابیِ نبی جنَّتی جنَّتی سب صحابیات بھی جنّتی جنّتی صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدپرندے کی محبّت کا وبال(واقعہ)
ایک عابِد (یعنی عبادت گُزار بندے) نے کسی جنگل میں طویل (یعنی لمبے) عرصے تک اللہ ربُّ الْعِزَّت کی عبادت کی۔ اُس نے ایک مرتبہ کسی پرندے کو درخت کے اندر اپنے گھونسلے میں چَہچَہاتا دیکھ کر دل میں کہا: کیا ہی اچھا ہو جو میں عبادت کیلئے اس درخت کے قریب جگہ بنالوں تاکہ اس پرندے کی آواز سے اُنس یعنی پیار(Affection) پاتا رہوں ۔ پھر اس نے ایسا کر لیا تو اللہ پاک نے اُس وَقت کے نبی علیہ السّلام پر وحی نازل فرمائی: فُلاں عابد(یعنی عبادت گُزار) سے کہہ دو: ” تم مخلوق سے مانوس ہوئے(یعنی پیار حاصل کیا) میں نے تمہارا دَرَجہ ایسا کم کر دیا ہے کہ اب کسی بھی عمل سے اُسے نہیں پاسکو گے۔‘‘ ( احیاء العلوم (اردو) ، 5/121)پرندے پالنا کیسا؟
اے عاشقانِ نماز! پَرِندے وغیرہ پالنا جائز ہے ۔ مگر ان کاموں میں ایسی مشغولِیَّت مناسب نہیں جو نمازوں کے خشوع اور دیگر عبادات کے اندر دِلجمعی میں رُکاوٹ بنے اور یہ ضروری ہے کہ دانہ پانی وغیرہ اس کثرت سے دیجئے کہ کسی طرح بھی آپ کی وجہ سے اُن کو بھوک و پیاس کی تکلیف نہ پہنچے۔ میرے آقااعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’(جانور کو) دن میں ستّر (70) دَفعہ (یعنی بہت زیادہ مرتبہ دانہ)پانی دکھائے ۔ورنہ پالنا اور بھوکا پیاسا رکھنا سخت گنا ہ ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، 24/644) جانور پر ہر طرح کے ظلم سے بچنا ضروری ہے کہ جانور پر ظلم کرنا مسلمان پر ظلم کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے۔ مسلمان مقدَّمہ وغیرہ دائر کرسکتا ہے مظلوم جانور بے چارہ کس کو فریاد کرے گا! یہ بھی یاد رہے! کہ مظلوم جانور کی بددعا مقبول ہوتی ہے۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
1 … یہ مضمون امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کی کتاب ” فیضانِ نماز “ صفحہ 298 تا 309 سے لیا گیا ہے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع