Naam Rakhne Ke Ahkam
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Ameer e Ahl e Sunnat Say Naam Rakhnay Kay Baray Main Suwal Jawab | امیرِ اہلِ سنّت سےنام رکھنے کے بارے میں سوال جواب

    Naam Rakhne Ke Ahkam

    book_icon
    امیرِ اہلِ سنّت سےنام رکھنے کے بارے میں سوال جواب
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
    اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    امیرِاہلِ سُنّت سے نام رکھنے کے بارے میں سُوال جواب

    دُرُود شریف کی فضیلت

    فرمانِ آخری نبی  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   : جس نے یہ کہا : “ اَللّٰھُمَّ صَلِِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ “  ( )اُس کے لیے میری شَفاعت واجب ہو گئی۔   (معجم کبیر ، رویفع بن ثابت الانصاری ، 5 / 25 ،  حدیث : 4480 )  
    سوال : ہر شخص اپنی اولاد کا اچھا اورمنفرد نام رکھنا چاہتا ہے ، اِس کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ 
    جواب : پہلے کے دور میں لوگ مسجد کے اِمام صاحِبان اور عُلَمائے کِرام  رحمۃُ اللہِ علیہم   کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنی اَولاد کے لئے نام پوچھا کرتے تھے ، جبکہ آج  کل لوگوں نے انٹر نیٹ (Internet)کو اپنا “ پیر ، راہ نُما اور بابا “ بنالیا ہے ، اِس لئے اب سب کچھ “ نیٹ بابا “ سے پُوچھا جاتا ہے۔ دعوتِ اِسلامی سے پہلے کی بات ہے ، میری اِتنی شہرت نہیں تھی ، لیکن داڑھی جب سے آئی تھی ، رکھی ہوئی تھی ، اُس دور میں عام طور پر نوجوان داڑھی نہیں رکھتے تھے ، بڑے بوڑھے رکھ لیں تو رکھ لیں۔ بہرحال! کھارادر کی ایک مسجد جس کا نام “ بِسْمِ اللہ “ تھا ، اُس کے قریب مجھے ایک بچّہ مِلا اور اُس نے کہا : “ مولانا صاحب! ہمارے گھر بچّہ پیدا ہوا ہے ، اُس کےلئے نام بتا دیجئے۔ “ میں اُس مسجد کا اِمام نہیں تھا ، لیکن بچّے نے میرا مولانا والا حلیہ دیکھ کر مجھ سے بچّے کےلئے نام لیا۔ تو یہ پہلے کا انداز تھا ، آج کل انٹر نیٹ موبائل فون ہی میں موجود ہے ، اُسی سے دیکھ کر نام رکھ لیا جاتا ہے اور انٹر نیٹ پر جو نام دئیے ہوتے ہیں اُن میں سے اکثر ناموں کا یہی معنیٰ لکھا ہوتا ہے : جنّتی پھول یا جنّتی محل۔ “ اگر انٹر نیٹ کو راہ نُما بناؤ گے تو ٹھوکر کھا کر گِرجاؤ گے ، عاشقانِ رسول کو راہ نُما بناؤ!  اِس میں فائدہ ہے۔ “ دعوتِ اِسلامی کے مکتبۃ المدینہ کی کتاب “ نام رکھنےکے احکام “ میں بچّوں اور بچیوں کے کافی نام دئیے گئے ہیں ، وہاں سے دیکھ کر نام رکھ لیا جائے ، یا چاہیں تو اُس میں سے چند نام منتخب کرلیں اور پھر عُلَمائے کِرام  رحمۃُ اللہِ علیہم  سے مشورہ کرلیں کہ یہ چند نام ہم نے نکالے ہیں ، اِن میں سے کوئی نام آپ منتخب فرمادیجئے۔    (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 96)
    سوال : اگر کوئی کہے : “ غلام رَسُول “ نام رکھنا جائز نہیں کیونکہ ہم رَسُول کے اُمَّتی ہیں ، کیا ایسا کہنا جائز ہے؟ 
    جواب : “ غلام رَسُول “ نام رکھنا جائز ہے۔ آقا اور غلام کا دور بہت پُرانا ہے پہلے کے دور میں غلام بکتے تھے اور سرکار  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے دور میں بھی بکتے تھے بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم     کے وِصالِ ظاہری کے بعد بھی بکتے رہے نیز قرآنِ پاک میں بھی غلاموں کا ذِکر ہے ، اس کے علاوہ بھی کئی جگہ  غلام  اور  کنیزوں کا ذِکر ملے گا۔ بہرحال یہ کیسے ممکن ہے کہ عام آدمی کا تو غلام ہو مگر مصطفےٰ کریم    صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم    کا غلام نہ ہو سکتا ہو۔ 

    رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے غلام کی شان(حکایت)

    حضرتِ سفینہ  رضی اللہُ عنہ   صحابیِ رَسُول ہیں ، ایک مَرتبہ اپنے قافلے سے بچھڑ کر جنگل میں اکیلے رہ گئے اور اپنے ساتھیوں کو تلاش کرنے لگے کہ اچانک ان کے سامنے شیر آ گیا ، ان کو شیر سے کیا ڈر لگنا تھا  شیر خود نبی کے اس غلام کو دیکھ کر کانپ اُٹھا!حضرتِ سفینہ  رضی اللہُ عنہ  نے شیر کو مخاطَب کرکے کہا : “ یَا اَبَا الْحَارِثِ اَنَا مَوْلٰی رَسُوْلِ اللہ یعنی اے ابوالحارث! تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ میں رَسُوْلُ اللہ کا غلام ہوں۔ “ اَبُوالحارِث شیر کی کنیت ہےان کی یہ بات سُن کر شیر دُم ہلاتا ہوا چلا ، یہ اس کی طرف سے اِشارہ تھا کہ آپ میرے پیچھے پیچھے چلیں ، آپ  رضی اللہُ عنہ    اس کےپیچھے ہولیے تو اس نے آپ کو بچھڑے ہوئے ساتھیوں سے ملا دیا۔ ( مصنف عبد الرزاق ،  10 / 233 ،  حدیث :  20711)
    (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 97) 
    اُن کے جو غُلام ہو گئے خَلق کے اِمام ہو گئے
    سوال : کُنْیَت کا کیا مَطلب ہے؟
    جواب :  اصل نام کے علاوہ وہ نام جس سے پہلے اَبُو ، اِبن ، اُم یا  بِنت وغیرہ موجود ہو اس کو “ کنیت “ کہا جاتا ہے۔ ( التعریفات للجرجانی ، ص136)جیسے اِبنِ ہشام ، اُمِّ ہانی ، بنتِ حوّا۔  کنیت کبھی باپ کی نسبت سے رکھی جاتی ہے کبھی بیٹے یا بیٹی کی  نسبت سے رکھی جاتی ہے۔    (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 97)
    سوال : “ کاشان “ اور “ بِسْمِ اللہ “ نام رکھنا کىسا ؟ 
    جواب :  “ کاشان “ نام رکھنا دُرُست ہے ۔ یوں ہی بچیوں کا نام “ کاشانہ “ رکھا جاتا ہے اِس میں بھی حَرج نہیں ، اَلبتہ نام رکھنے میں یہ بات پیشِ نظر ہونی چاہیے کہ بچوں کے نام اَنبىائے کِرام  علیہمُ السّلام ، صَحابۂ کِرام اور بزرگانِ دِین  رِضوانُ اللہِ علیہم اجمعین  کے ناموں پر اور بچیوں کے نام صَحابیات اور وَلِیّات رضی اللہُ عنہنَّکے ناموں پر رَکھے جائیں تاکہ ان کی بَرکتیں نصیب ہوں ۔  
    رہی بات “ بِسْمِ اللہ “ نام رکھنے کی کہ بعض لوگ بچیوں کے نام “ بِسْمِ اللہ “ رکھتے ہیں جس کے معنیٰ ہیں : “ اللہ  کے نام سے شروع “ بظاہر اِس  نام کے رکھنے میں بھی کوئی حَرج معلوم نہیں ہوتا ۔  مَساجِد کا نام بھی تو “ بِسْمِ اللہ “ رکھا جاتا ہے جیساکہ کراچی کے علاقے  کھارادر مىں “ بِسْمِ اللہ “ مسجد مشہور ہے ۔  ناموں کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ اگر کسی نام کا معنیٰ مخصوص ہو تو اب اسے رکھنا منع ہوتا ہے جىسے “ سُبْحان “ کے معنىٰ ہیں : “ ہر عىب سے پاک ذات “ چونکہ یہ وَصف اللہ پاک کے لىے مخصوص ہے لہٰذا بندے  کا نام “ سُبْحان “  رکھنا منع ہے اَلبتہ “ عَبْدُالسُّبْحان “ نام رکھ سکتے ہىں ۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، 1 / 159)
    سوال : کىا کسى مَدَنى مُنى کا نام “  شکرىہ “ رکھ سکتے ہىں؟
    جواب :  “  شکرىہ “ نام رکھنے میں حَرج تو نہیں ہے مگر اس نام کی کوئی فضیلت بھی نہیں ہے بلکہ  ہو سکتا ہے کہ یہ نام رکھنے پر لوگ مذاق اُڑائیں اور جب یہ مَدَنی مُنی بڑی ہو گی تو ممکن ہے اِس نام کے باعِث اسے  پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسے نام رکھنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ مَدَنی مُنّوں کے نام اَنبیائے کِرام علیہم ُالصّلوٰۃُوالسّلام اور صَحابۂ کِرام و بزرگانِ دِین  رِضوانُ اللہِ علیہم اجمعین اور مَدَنی مُنیوں کے نام صَحابیات اور وَلیات رضی اللہُ عنہنَّکے ناموں پر رکھے جائیں ۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، 1 / 147)
    سوال :  لوگ ناموں کو بگاڑتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟اس سے کیسے بچايا  جائے ؟
    جواب : نام اتنا مشکل رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کى زبان پر چڑھتا ہی نہىں تو ىُوں لوگ نام  بگاڑ کر کچھ کا کچھ کر ڈالتے ہىں۔ لہٰذا نام کو بگڑنے سے بچانے کے لیے آسان نام رکھنا چاہیے جو آسانى سے لوگوں کى زبان پر چڑھ جائے ۔  اگر بَرکت کے لیے کوئی نام رکھا ہے اور  وہ مشکل ہے تو اس کے ساتھ عام بول چال کے لیے کوئی آسان نام بھی رکھ لیجیے مثلاً عَبْدُ الرَّزَّاق بہت پىارا نام ہے ، اگر بَرکت کے لىے ىہ نام رکھ لىا تو لکھت پڑھت کے لیے اسے اِستعمال کریں مگر ساتھ میں کوئى اور آسان سا  نام بھی رکھ لىجیے جو عام آدمى کی زبان پر آسانى سے آجائے ۔  نام رکھنے کے متعلق مزید معلومات  کے لیے مکتبۃ المدىنہ کى 179 صفحات پر مشتمل کتاب “ نام رکھنے کے اَحکام “ کا مُطالعہ کیجیے ۔  یہ بہت پىارى کتاب ہے ، اس میں سىنکڑوں  اِسلامی ناموں کے ساتھ ساتھ نام رکھنے کے مَسائل بھى لکھے ہوئے ہىں ۔  اِس کتاب کومکتبۃ المدىنہ سے ہدیۃً حاصِل کیجیے ىا دعوتِ اسلامى کى وىب سائٹ (www.dawateislami.net)  سے ڈاؤن لوڈ کر کے اِستفادہ فرمائیے ۔     (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، 2 / 76) 
    سوال : کیا بچی کا نام صحابىہ رکھنا جائز ہے؟ 
    جواب : آج کلUnique(منفرد)نام رکھنے کا بڑا جَذبہ ہے۔ حتّٰی کہ  اگر اىک بىٹے کا نام اِدرىس ہو اور دوسرے کا نام کوئى بتا دے  کہ ابلىس رکھ لو تو شاىد اَن پڑھ قسم کے لوگ ىہ نام رکھ لىں ۔ Unique(منفرد) نام کے شوق میں  ان کو سمجھ ہی نہىں پڑے گى کہ ابلىس کسے کہتے ہىں؟ حالانکہ ابلىس شىطان کوکہتے ہىں اور یہ نام کوئی سمجھ دار رکھتا بھی نہىں۔ اِسی طرح اور بھی عجىب و غرىب نام لوگ رکھتے ہىں ۔ بہرحال صحابىہ نام رکھنے کے بجائے کسى صحابىہ کے نام پر نام رکھ لىں مثلاً عائشہ  صحابىہ کا نام ہے ، فاطمہ صحابىہ کا نام ہے اور ان کو ىہ نسبت بھی حاصل ہے کہ ىہ سرکار   صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   کی شہزادی ہىں۔     (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، 2 / 178)
    سوال : کىا اِنسان پر  ناموں کے اَثرات مُرتب ہوتے ہىں ؟
    جواب : جی ہاں !انسان پر  ناموں کے اَثرات مُرتب ہوتے ہىں۔ 
    ( فیض القدیر ، 3 / 522 ، تحت حدیث : 3745 ، ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، 2 / 222)
    سوال : یہ حقیقت ہےکہ ناموں کے اَثرات مرتب ہوتے ہیں ، اچھے ناموں  کی برکتیں ملتی ہیں اور بُرے ناموں کی خرابیاں بھی سامنے آتی ہیں مگر ناموں کے ہلکا اور بھاری ہونے کی کیا حقیقت ہے ؟ 
    جواب : لوگوں میں ناموں کے ہلکا اور بھاری ہونے کا تأثر پایا جاتا ہے یہاں تک کہ کسی نے مجھ سے  خُصُوصی مَدَنی مذاکرے میں اِس حوالے سے سُوال بھی کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ ان کے   کسی جاننے والے کا نام کربلا والوں کے نام پر تھا تو ان سے کسی بابا جی نے کہا کہ کربلا والے تو بہت بڑی ہستیاں ہیں اور تم اِس قابل نہیں ہو کہ اُن کے ناموں پر نام رکھو لہٰذا تم یہ نام بَدل دو کیونکہ یہ نام بہت بھاری ہے ۔ میں نےسُوال کرنے والے کو سمجھاتے ہوئے کہا : اگر کربلا  والوں کے ناموں کی برکتیں نہیں ملیں گی تو پھر کن لوگوں کےناموں کی برکتیں ملیں گی؟نام بھاری ہے اِس لیے اُسے  بدل دیا جائے تو نام بدلنے کی یہ وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر اِس نیت سے اپنے بچوں کے نام صحابۂ کِرام و اَولیائے عظام   رِضوانُ اللہِ علیہم اجمعین کے ناموں پر رکھیں کہ برکت حاصل ہو گی تو  اِن شاءَ اللہ ان کی برکتیں حاصِل ہوں گی۔ یاد رَکھیے! بُرے نام بُرا پھل لائىں گے ۔ بُرے نام رکھنے سے نقصان ہوتا ہےاور ان کی وجہ سے بچوں کے  اَخلاق بُرے ہو سکتے ہىں مگر  آج کل لوگUnique (منفرد)  نام  کى حرص  مىں اپنے بچوں کے عجىب و غرىب نام رکھ رہے ہوتے ہىں۔            (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، 2 / 223)
    سوال : آپ نے اپنے رسالے “ ضىائے دُرُود و سَلام “  کا نام “ ضىائے دُرُود و سَلام “ کىوں رکھا ؟
    جواب : ضىا کا معنیٰ “ روشنى “ ہے تو “ ضیائے دُرُود و سَلام “ کے معنیٰ ہوئے “ دُرود و سَلام کی روشنی “ ۔ میں نے  سَیِّدی  قطبِ مدىنہ مولانا ضِیاءُ الدِّین احمد مدنی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی نسبت سے اس رسالے کا نام “ ضیائے دُرُود و سَلام “ رکھا کہ آپ   رحمۃُ اللہِ علیہ     کے نام کا ایک حصہ رسالے میں آ جائے ۔ یوں “ ضیائے دُرُود و سَلام “ نام رکھنے میں  دو فائدے حاصل ہوئے اىک یہ کہ  اللہ پاک کے نىک بندے اور  وَلِیُّ اللہ کى نسبت حاصل ہوئى اور دوسرا  ىہ کہ اس کے معنىٰ “ دُرُود و  سَلام کى روشنى “ بھى بالکل ٹھیک  ہىں ۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، 2 / 499) 
    سوال : کسی کے گھر بچّہ پیدا ہوا اور اُس نے قاری صاحب سے کہا کہ ایسا نام بتائیں جو اِس  محلّے یا شہر میں کسی نے نہ رکھا ہو ، جواب میں اُنہوں نے کہاکہ فِرعَون یا نَمرُود نام رکھ لو! ایسا کہنا کیسا؟
    جواب :  اُنہوں نے ایسا چوٹ یا طنز کرنے کےلئے یا مذاق میں کہا ہوگا کہ فِرعَون یا نَمرُود نام ہی ہوسکتا ہے جو کسی نے نہ رکھا ہو۔ اِس طر ح کا جواب دینے میں ممکن ہے کہ سامنے والے کی دل آزاری ہوجائے ، اِس صورت میں معافی مانگنی ہوگی۔  اِس طرح   کا جواب نہیں دینا چاہئے ، کیونکہ اگر سنجیدہ انداز میں ایسا جواب دیا تو بھروسہ نہیں کہ کوئی جاکر یہ نام رکھ بھی لے۔ بہرحال! Unique(منفرد)نام رکھنے کے بجائے انبیائے کِرام  علیہمُ السّلام ، صحابۂ کِرام  رضی اللہُ عنہم یا دیگر بُزُرگانِ دین  رحمۃُ اللہِ علیہم   کے ناموں پر نام رکھنے چاہئیں ، اِسی طرح پیارے آقا  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے ناموں جیسے محّمد ، اَحمد یا دیگر صفاتی ناموں میں سے کوئی نام رکھ لینا چاہئے ، کیونکہ یہ نام بَرَکت والے ہوتے ہیں۔ اگر Unique(منفرد) نام رکھنا ہی ہے تو انبیائے کِرام  علیہمُ السّلام اور صحابۂ کِرام رضی اللہُ عنہم کےناموں میں بھی کئی نام ایسے ہوتے ہیں جو مشہور نہیں ہوتے ، جیسے ’’ذُو الکِفْل اور یُوْشَع‘‘ (  تفسیر روح البیان ، پ 23 ، ص ، تحت الآیۃ : 48 ، 8 / 47۔ تفسير خازن ، پ6 ، المائدة ، تحت الآیۃ : 26 ، 1 / 483)یہ انبیائے کِرام  علیہمُ السّلام کے نام ہیں ، لیکن مشہور نہیں ہیں۔ ایسے نام کتابوں سے نکال کر رکھے جاسکتے ہیں۔ مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’نام رکھنے کے احکام‘‘ میں بھی سینکڑوں نام موجود ہیں ، اُس میں سے تلاش کرکے کوئی نام رکھ لیا جائے۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 60)
    سوال : اکثر لوگ اپنے بچوں کا نام  عَبْدُالجبار اور  عَبْدُالرَّحْمٰن  رکھتے ہیں اور پھر انہیں اکثر و بیشتر  رَحمٰن اور جبار کہہ کر پکارتے ہیں تو ایسے نام رکھ کر اس طرح پکارنا کیسا ہے ؟ 
    جواب : جس کانام عبد کی اِضافت کے ساتھ رکھا گیا اسے عبد کے ساتھ ہی پکارنا چاہیے ۔ اللہ پاک  کے بعض نام ایسے ہیں  جو بغیر عبد کے نہیں رکھے اور  پکارے جا سکتے ۔ مکتبۃ المدینہ کی کتاب “ نام رکھنے کے اَحکام “ کے صفحہ  نمبر 15 پر ہے : عبدُ اللہ و عَبْدُالرَّحْمٰن بہت اچھے نام ہیں مگر اس زمانہ میں یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بجائے عَبْدُالرَّحْمٰن اس شخص کو بہت سے لوگ رَحمٰن کہتے ہیں اور غیرِ خُدا کو رَحمن کہنا حرام ہے ۔ اِسی طرح عَبْدُالْخَالِق کو خالق( )اور عَبْدُالْمَعْبُود کو معبود کہتے ہیں اس قسم کے ناموں میں ایسی ناجائز ترمیم ہرگز نہ کی جائے ۔ اِسی طرح بہت کثرت سے ناموں میں تصغیر کا رَواج ہے یعنی نام کو اس طرح بگاڑتے ہیں جس سے حقارت نکلتی ہے اور ایسے ناموں میں تصغیر ہرگز نہ کی جائے لہٰذا جہاں یہ گمان ہو کہ ناموں میں تصغیر کی جائے گی یہ نام نہ رکھے جائیں دوسرے نام رکھے جائیں ۔ 
    ( بہارِ شریعت ، 3 / 356 ، حصہ : 15۔ نام رکھنے کے احکام ، ص 51-16) تصغیر سے مُراد  گھٹانا اور چھوٹا کرنا ہے  جیسے روپیہ کو روپَلّی کہا جاتا ہے ۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 61)
    سوال : “ فاتحہ اِیمان “ نام رکھنا کیسا ہے ؟
    جواب : فاتحہ کا لفظ شاید سورۂ فاتحہ سے لیا ہو گا  اور اِس کے ساتھ لفظ ِ “ اِیمان “ کو جوڑ لیا ہو گا ، یہ عجیب و غریب اور نامناسب نام ہے ۔ مکتبۃ المدینہ کی کتاب “ نام رکھنے کے اَحکام‘‘ حاصِل کریں اور اس میں سے کوئی اچھا سا نام  نکال لیں۔ یہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہیے تاکہ  جب بھی کوئی وِلادت ہو تو اس کتاب میں سے نام نکال لیا جائے ۔ (امیرِ اہلِ سُنَّت  دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ   کے قریب بیٹھے ہوئے مفتی صاحب نے فرمایا : ) “ فاتحہ اِیمان “ کا ترجمہ بنے گا اِیمان کی فاتحہ۔  بہرحال اس نام کے  جو بھی معنیٰ لیں گے وہ اِیمان کے ساتھ بہتر نہیں لگیں گے ۔       (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 75) 
    سوال : حَیاتُ اللہ نام رکھنا کیسا؟ (سوشل میڈیا کے ذریعے سُوال)
    جواب : جائز ہے ۔ ( اِس کا معنیٰ ہے : اللہ کا زندہ کیا ہوا۔ )(ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 62)
    سوال : کیا بچے کا نام “ محمد حَطِیم “ رکھ سکتے ہیں؟
    جواب : (اس موقع پر امیرِ اہلِ سنَّت  دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ  کے قریب بیٹھے ہوئے مفتی صاحب نے فرمایا : )  حطیم کے معنیٰ  لفظِ “ محمد “ کے ساتھ مناسب معلوم نہیں ہو رہے اس لیے کہ سال کی  ابتدا میں جو سوکھی ہوئی گھاس ہوتی ہے اسے اور ملبے کو بھی حطیم کہتے ہیں اور لفظِ “ حَطَمَہ “ عام طور پر توڑنے کے معنیٰ میں  اِستعمال ہوتا ہے ۔ (اس پر امیرِ اہلِ سنَّت  دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ  نے اِرشاد  فرمایا : )لفظ ِمحمد لگائے بغیر “ حطیم “ نام رکھنے میں حرج نہیں۔ ایک صحابی کا نام بھی حطیم ہے اور  کعبہ شریف کے اِرد گرد کے  ایک  حصّے کو بھی حطیم کہا جاتا  ہے بلکہ “ حطیم “ عینِ کعبہ ہی ہے کہ  دورانِ تعمیر خرچ کی کمی کے باعث اس حصّے کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ ( بخاری ، 1 / 533 ، حدیث : 1584)تو یوں یہ دو نسبتیں ہو گئیں لہٰذا نسبت سے بَرکت حاصِل کرنے کے لیے حطیم نام رکھ سکتے ہیں  مگر اس کے ساتھ لفظِ محمد ملانا مناسب نہیں ہے ۔ اگر کسی نے “ محمد حطیم “ نام رکھا تو ہم اسے  ناجائز اور نام رکھنے والے کو گناہ گار نہیں کہیں گے ، البتہ  لفظِ محمد اُسی نام کے ساتھ لگایاجائے  جو اس کے شایانِ شان ہو جیسے حَسَن وغیرہ ۔ “ حَسَن “ کی تصغیر کے ساتھ  بھی لفظِ “ محمد “ لگانا مناسب نہیں مگر ہمارے یہاں لگانے کا عُرف ہے یہاں تک کہ عُلَما بھی لگاتے ہیں۔ بہرحال اگر کسی نے حَسَن کی تصغیر کے ساتھ بھی لفظِ “ محمد “ لگایا تو وہ گناہ گار نہیں مگر میرا یہ جواب فتاویٰ  رَضویہ شریف اور سرکار مفتیٔ اعظم ہند  رحمۃُ اللہِ علیہ   کے اِرشادات کی روشنی میں ہے ۔ (جہانِ مفتی اعظم ، ص 452 ، ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 87)
    سوال : نامِ محمد کی کیا  بَرکتیں ہیں؟  
    جواب : سبحانَ اللہ  نامِ محمد کی برکتوں کے کیا کہنے !اللہ پاک نے اِرشاد فرمایا : میری عزت و جَلال کی قسم !جس کا نام  تمہارے نام پر ہوگا(یعنی محمد یا اَحمد ہو گا) تو میں اسے عذاب نہیں دوں گا۔ ( مواہب لدنیہ ، 2 / 301)پیارے آقا   صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم     نے فرمایا : جس کا نام اَحمد یا محمد ہو وہ دوزخ میں نہیں جائے گا۔ (   مسندفردوس ، 2 / 503 ، حدیث : 8515 ، ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 83)
    جو چاہتے ہو کہ ہو سرد آتشِ دوزخ دِلوں پہ نقش محمد کا نام کر لینا
    سوال : بچّی کا نام ’’عَجْوَہ‘‘ رکھنا کیسا ہے؟
    جواب :  ’’عَجْوَہ‘‘ مدینے پاک بلکہ دُنیا کی سب سے اَعلیٰ کھجور ہے ، اِس نسبت سے نام رکھنے میں کوئی حَرَج نہیں ہے۔
     (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 102)
    سوال : مُحَرَّمُ الْحَرَام مىں پىدا ہونے والے بچے کا محرم الحرام کی نسبت سے کوئى اچھا سا نام بتا دىجیے۔ 
    جواب : میں نے آج تک کسى کو بُرا نام بتاىا ہى نہىں ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ    میری یہ عادت ہے کہ میں  اچھوں میں اچھا نام بتاتا ہوں کیونکہ جب میں کسی کی بُرائی چاہتا ہی نہیں تو اُسے بُرا نام کیوں دوں گا؟زیادہ تر ىہى ہے کہ اَلحمدُ لِلّٰہ    میں لڑکے کا نام محمد رکھتا ہوں ىا کبھی احمد رکھتا ہوں کیونکہ اِن دونوں ناموں کے بڑے فضائل ہیں اور جو تعظیم اور بَرکت کے لیے یہ نام رکھے تو نام رکھنے والے کے لیے مَغفرت کی بشارت ہے۔ ) کنز العمال ، جزء 16 ، 8 / 175 ، حدیث : 45215 ماخوذا)  اِسی طرح پکارنے کے لیے بھی میں اچھا  ہی نام  دیتا ہوں۔  چاہے مُحَرَّمُ الْحَرَام ہو یا بقر عید ہو یا رَمَضانُ المبارک ہو ، میری طرف سے اچھا ہی نام دیا جاتا ہے اور  اِس لحاظ سے مُحَرَّمُ الْحَرَام کی کوئی خصوصیت نہیں کہ میں مُحَرَّمُ الْحَرَام میں تو  اچھا نام دوں اور باقی مہینوں میں بُرا۔ بچوں کا نام اچھا ہی رکھنا چاہیے کہ اچھا نام اچھی فال اور اچھی نشانی ہے اور جس کا اچھا نام رکھا  جائے گا اس کے ساتھ  اِن شاءَ اللہ   اچھائی ہو گی مگر  آج کل لوگ مَعاذَ اللہ  فلم ایکٹروں ،  کرکٹروں اور فنکاروں کے نام پر بچوں کے  نام رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اِسی طرح لوگ Unique (منفرد) نام رکھنے کی بھی بھرپور کوشش کرتے  ہیں اور جیسا  بھی  Unique(منفرد)  نام سامنے آئے رکھ دیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے بچوں کے نام اَنبیائے کِرام علیہم ُالصّلوٰۃُ والسّلام ، صحابۂ کِرام رضی اللہُ عنہماور اَولیائے کِرام  رحمۃُ اللہِ علیہم  کے ناموں پر رکھے جائیں۔ آجکل  لوگ یٰسین اور طٰہ نام رکھتے ہیں ، اِس طرح کے نام رکھنے کی بھی  اِجازت نہیں کیونکہ یہ حروفِ مقطعات ہیں جن کے معنیٰ اللہ پاک جانتا ہے اور اس کے بتانے سے اس کے پیارے حبیب  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جانتے ہیں ، ہمیں ان کے معنیٰ معلوم نہیں اس لیے یہ نام نہیں رکھ سکتے ، ہاں غلام یٰسین  اور غلام طٰہ نام رکھے جا  سکتے ہیں۔   
    باقی رہا یہ کہ میں مُحَرَّمُ الْحَرَام کی نسبت سے کوئى اچھا سا نام بتاؤں تو اس کے لیے نام پوچھنے والے کا تنظیمی ذِمَّہ دار ہونا اور مَدَنی فیس دینا  ضَروری ہے ۔ اگر  میں بغیر کسی شرط کے نام دوں گا تو اتنے لوگ نام پوچھیں گے کہ سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ پہلےمیرے پاس  نام لینے کے لیے پوری پوری لسٹیں آیا کرتی تھیں اور یوں لوگ  مجھے  کھانے دیتے تھے  نہ پینے ، پھر میں نے نام دینے کے لیے پابندیاں لگائیں کہ اگر  تنظیمی ذِمَّہ داریاں ہوں تو نام پوچھیں ورنہ نہیں اوریہ  شرط لگائی کہ مجھ سے  نام لینے  کے لیے کم از کم ذیلی حلقے کا نگران ہونا ضَروری  ہے۔ اب بھی  نام لینے کے لیے مجھ سے کہا جاتا ہےکہ نام بتا دیجیے کہ  نام پوچھنے والا مَدَنی کام بہت کرتا ہے ،  اگرچہ اُس  کے گھر کے سارے اَفراد بے نمازی ہوں اور  حقیقت میں وہ بَداَخلاقیوں کا مجموعہ ہو مگر نام لینے کے لیے اُسے  فضیلتوں  کا مجموعہ بنا دیا جاتا ہے ۔ 
    دعوتِ اِسلامی کےمکتبۃ المدینہ نے ایک کتاب بنام “ نام رکھنے کے اَحکام “ شائع کی ہے ، اِس کتاب میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں نام دئیے گئے ہیں لہٰذا اِس میں سےنام منتخب کر کے رکھے جا سکتے ہیں۔ نیز اِس کتاب میں ناموں کے ساتھ ساتھ ضَروری مَسائل اور جن  ناموں کو  رکھنا منع ہے ان کی نشاندہی بھی  کی گئی ہے ۔ یہ کتاب ہر گھر کی ضَرورت ہے کیونکہ عام طور پر سب کے یہاں بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ اِس کتاب میں ناموں کے ساتھ اُن کے معنیٰ بھی لکھ دئیے گئے ہیں ، اپنے ناموں کے معانی بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ صرف مفید نہیں بلکہ ایک  مفید ترین کتا ب ہےلہٰذا اِس کتاب کو مکتبۃ المدینہ سے ہدیۃً حاصل کر کے اپنے گھروں میں ضرور  رکھا جائے ۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 127)
    سوال : بچی کا نام “ وَالنَّاس “ رکھنا کیسا ہے ؟ 
    جواب :  “ وَالنَّاس “ نام رکھنا جائز ہے کہ اِس کا معنیٰ بُرا نہیں ہے۔ “ وَالنَّاس “ کے معنیٰ ہیں “ اور اِنسان “ اگر کسی نے شرارت میں خَنَّاس بولنا شروع کر دیا تو معنیٰ پتا ہونے کی صورت میں جھگڑا ہو جائے گا ورنہ سمجھیں گے کہ خَنَّاس نام بھی اچھا ہے اور اس طرح کسی سے  سُن کر کوئی خَنَّاس نام رکھ بھی لے تو تعجب نہیں۔ “ وَالنَّاس “ اگرچہ قرآنِ پاک کا لفظ ضَرور ہے مگر جو لفظ قرآنِ پاک میں آیا اس کا نام ہی رکھ لیا جائے یہ ضَروری نہیں کیونکہ   قرآنِ پاک میں تو ابلیس ، فرعون اور شیطان کا لفظ بھی آیا ہے ۔ بچیوں کے نام پاک بیبیوں ، صحابیات ، وَلِیَّات اور جو بزرگ خواتین گزری ہیں ان کے ناموں پر رکھنا  اچھا ہے ۔          (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 127)
    سوال : شہنشاہ اور بادشاہ نام رکھنا کىسا ؟
    جواب :  خود اپنا نام تکبر اور بڑائی کی نیت سے شہنشاہ یا بادشاہ رکھنا منع ہے۔ (مرآۃ المناجیح ، 5 / 30ماخوذا)اگر تکبر کی نیت نہیں جیساکہ لوگوں کی معنىٰ پر نظر نہىں ہوتى اور ایسا نام رکھ لىتے ہىں تو پھر وہ ممانعت نہىں رہے گی۔ البتہ بچنا اب بھی اچھا ہے کیونکہ اس میں خود ستائی یعنی اپنے منہ مىاں مٹھو بننا پایا جا رہا ہے۔ موجودہ دور میں خودستائی والے نام اِس قدر زیادہ ہیں کہ تقرىباً ہر دوسرا نام اپنى تعرىف والے معنیٰ پر مشتمل ہوتا ہے مثلاً بعض لوگ شہزاد یا  شہزادہ نام رکھتے ہىں جس  کے معنىٰ ہىں : بادشاہ کا بىٹا ، اب باپ بھلے قرضوں مىں ڈوبا ہوا ہو لیکن بیٹے کا نام شہزاد ہے۔ بعض لوگوں کا نام عَابِد ہوتا ہے جس کے معنیٰ ہیں : عبادت گزار ، اب بھلے وہ جمعہ کى نماز بھی نہ پڑھتا ہو لیکن نام عَابِد ہے۔ زاہِد نام رکھتے ہىں جس کے معنیٰ ہیں : دُنىا سے بے رَغبت ، اب ہوتا پورا دُنىا دار ہے لیکن کہلاتا زاہِد ہے۔    (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 129)
    سوال : شہنشاہ اور بادشاہ اور اِس طرح کے بڑائی والے دِیگر اَلقابات بزرگانِ دِین  رحمۃُ اللہِ علیہم   کے ساتھ کیوں لگائے جاتے ہیں ؟
    جواب : اگر لوگ کسی کو شہنشاہ یا بادشاہ بولیں تو اِس میں حرج نہیں جیساکہ بعض بزرگانِ دِین  رحمۃُ اللہِ علیہم کو اِس طرح کے اَلقابات لوگوں کی طرف سے دیئے گئے ہیں مثلاً شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ ۔ امامِ عالی مقام ، امام حسین رضی اللہُ عنہ کے وہ شہزادے جو کربلا میں بیماری کے سبب جنگ میں حصہ نہیں لے پائے تھے اور واقعۂ  کربلا کے بعد برسوں ظاہری حیات کے ساتھ زندہ رہے۔ ان کے اَلقابات “ سَجَّاد یعنی بہت زیادہ سجدے کرنے والا “ اور “ زَیْنُ الْعَابِدِین یعنی عبادت گزاروں کی زینت “ ہیں۔ چونکہ آپ   رضی اللہُ عنہ    بہت زیادہ نفل نماز پڑھا کرتے تھے اِس لیے لوگوں نے یہ اَلقابات آپ کو دیئے ورنہ آپ  رضی اللہُ عنہ    کا اصل نام “ عَلی اَوْسَط “ ہے۔ پُرانی کتابوں میں بھی “ عَلی بِن حُسین  رضی اللہُ عنہما   “ کر کے ہی نام ملے گا۔  بہرحال آپ  رضی اللہُ عنہ  کو سَجَّاد اور زَیْنُ الْعَابِدِین کہنا بالکل دُرُست ہے ۔ عام لوگوں کے جو یہ نام رکھے جاتے ہیں تو اس میں خود ستائى پائی جاتی ہے۔ پنچ وقتہ نماز تو پڑھتا نہیں اور کہلا رہا ہے : “ سَجَّاد یعنی بہت زیادہ سجدے کرنے والا “ ، جمعہ کی نماز تک پڑھتا نہیں اور نام ہے : “ زَیْنُ الْعَابِدِین یعنی عبادت گزاروں کی زینت۔ “ “ غلام زَیْنُ الْعَابِدِین “ نام رکھىں تو چل جائے گا لیکن زَیْنُ الْعَابِدِیْن نام رکھنے میں خودستائی پائی جا رہی ہے۔ زیادہ  بہتر یہ ہے کہ حصولِ برکت کے لىے بزرگوں کے نام پر نام رکھے جائیں۔ اگر کوئی خود کو سَجَّاد ،  شہزاد اور شہزادہ وغیرہ کہلواتا ہے تو اس سے اُلجھنا نہیں ۔ بعض لوگ اپنے بیٹے کا تعارف شہزادہ یا صاحب زادہ کہہ کر کرواتے ہیں ، گناہ اِس میں بھی نہیں ہے لیکن خودستائی سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ نہ کہا جائے۔ مىں تو اپنے بیٹے کو غرىب زادہ بولتا ہوں یعنی  غرىب کا بىٹا۔  (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 129)
    سوال : “ محمد اذان “ ، “ محمد سبحان “ اور “ محمد صبر “ نام رکھنا کیسا؟
    جواب : اذان کے ساتھ لفظِ “ محمد “    کا کوئی جوڑ نہیں ، یہ نام رکھنا اگرچہ ناجائز و گناہ نہیں ہے ،  لیکن یہ ایک عبادت کا نام ہے ، لہٰذا یہ نام رکھنا مناسب نہیں ، اگر کسی نے رکھ لیا ہے تو اس کے ساتھ لفظِ “ محمد “ شامل نہ کیا جائے۔ اسی طرح “ محمد سبحان “  نام نہ رکھا جائے ، بلکہ “ عبد السبحان “ رکھا جائے۔ ( ) نیز “ محمد صبر “ کے بجائے “ محمد صابر “ نام رکھنا چاہیے کہ سرکار  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم     سے بڑھ کر صابر کون ہو سکتا ہے؟ جبکہ صبر ایک صفت ہے۔ 
    (اس موقع پر مفتی صاحب نے فرمایا : ) صبر صابر کے معنی میں بھی بولا جاسکتا ہے ، جس کا مطلب ہوگا “ بہت زیادہ صبر کرنے والا۔ “ عربی کا قاعدہ ہے کہ مبالغہ کے لئے ایسی صفات کو مصدر لایا جاتا ہے ، البتہ! ایسے نام ہمارے یہاں مشہور نہیں ہیں ، لہٰذا ایسے نام نہیں رکھنے چاہئیں۔ 
    (امیرِ اہلِ سُنَّت نے فرمایا : ) دراصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ Unique نام رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ہم نے “ اذان “ نام رکھنے سے منع کیا ہے تو لوگ اپنی دھن میں “ تکبیر “ یا “ اقامت “ نام رکھ دیں گے! حتّٰی کہ Unique نام  رکھنے کا اتنا شوق ہے کہ ایک اخبار کے مطابق کسی نے اپنے بچے کا نام ہی “  کورونا “ رکھا ہے! بہر حال فی زمانہ وہی نام پسند کیا جاتا ہے جس میں لوگ تعجب کریں ، اس کے معنی ٰپوچھیں۔ یاد رکھیے! وہ Unique نام رکھنے  میں کوئی حرج نہیں ، جس کے معنی ٰاخلاقی اور شرعی اعتبار سے بُرے نہ ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ جو نام احادیث مبارکہ میں آئے ہوں یا حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم     کے مبارک نام پر ہوں ،   مثلاً محمد یا احمد نام رکھے جائیں۔ مکتبۃ المدینہ کی کتاب “ نام رکھنے کے احکام “ میں ناموں کی طویل فہرست موجود ہے ، یہ کتاب مکتبۃ المدینہ سے ہدیۃً حاصل کریں ، یا دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ  سے ڈاؤن لوڈ کریں اور اس سے بچوں کے ناموں کا انتخاب کریں۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 156)
    سوال : کیا رَملہ  نام رکھ سکتے ہیں؟
    جواب : رَملہ نام رکھ سکتے ہیں کہ  کئی  صحابیات   رضی اللہُ عنہنَّ       کا نام رَملہ ہے مگر بَرکت تب ہی  ملے گی  کہ جب اس نیت سے نام رکھیں گے کہ اس میں  صحابیات رضی اللہُ عنہنَّ سے نسبت ہے ۔ بہرحال اپنے بچوں کےنام اَنبیائے کِرام علیہم ُالصّلوٰۃُوالسّلام  ، صحابۂ کِرام  رضی اللہُ عنہم     اور بزرگانِ دِین رحمۃُ اللہِ علیہم کے نام پر رکھیں اور بچیوں کے نام صالحات ، وَلیات اور نیک بیبیوں کے نام پر رکھیں کہ اس سے بَرکت ہوتی ہے ۔  (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 91)
    سوال : مىں نے اپنے مَدَنی منے کا اصل نام محمد رکھا ہے اور پکارنے کے لىے واصِف رضا ، اب کیا  واصِف رضاسے پہلے محمد لگا سکتا ہوں؟  
    جواب : اگر بَرکت کی نىت سے “ محمد “ نام رکھا تو بہت فضىلت والا کام کىا ۔ واصِف رضا کا معنىٰ ہے : رضا کى تعرىف کرنے والا۔ اب  ىہاں ىہ دىکھا جائے گا کہ محمد ، رضا کى تعرىف کرتے ہىں ، اِس لىے اِحتىاط اِسى مىں ہے کہ واصِف رضا الگ سے پکارا جائے۔ محمد واصِف رضا نہ کہنا مناسب ہےاور اگر کہا تو کوئى حرج یا گناہ بھی نہىں ہے ۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 30)
    سوال : کىا جانِ عالَم نام رکھ سکتے ہىں ؟
    جواب : اللہ پاک  کے سِوا جو کچھ بھی  ہے اسے  عالَم کہتے ہىں اور ان سب کی جان یعنی  پىارے آقا  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو جانِ عالَم کہا جاتا ہے۔ (اِس موقع پر مَدَنی مذاکرے میں شریک مفتی صاحب نے فرمایا : )عام طور پر جانِ عالَم ، نبیِ کرىم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   کے لىے بولا جاتا ہے اور جانِ عالَم نام رکھنا  غالباً مسلمانوں مىں رائج بھى نہىں ہے ، نیز اِس نام میں  تزکیہ  ىعنى اپنے نفس کى بڑائى بىان کرنا بھی پایا جا رہا ہے لہٰذا ایسا نام نہیں رکھنا چاہیے۔ (بہارِ شریعت ، 3 / 604 ، حصہ : 16 ، ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، 2 / 242)
    سوال : میں نے بىٹى کا نام اُم ُّالْقُریٰ رکھا ہے تو کیا یہ نام رکھنا صحىح ہے ؟
    جواب : بچى کا نام “ اُم ُّالْقُریٰ “ رکھنے مىں کوئى حرج نہىں ہے ۔ مکۂ مکرمہ کا اىک نام “ اُم ُّالْقُریٰ “ بھی ہے ۔ ( بخاری ، 3 / 296 ، حدیث : 4772) (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، 2 / 457)
    سوال : مىرے گھر بىٹى کى وِلادت  ہوئى ہے ، کىا  مىں اُس کا نام ’’مَشعل‘‘ رکھ سکتا  ہوں؟ اِس کا معنىٰ بھی بتادیجئے۔
     (SMSکے ذرىعے سُوال(
    جواب : مَشعل آگ کى ہوتى ہے اور یہ اچّھی چیز ہے ، بُری چیز نہیں ہے۔ جیسے’’مَشعلِ راہ‘‘ کہا جاتا ہے ، ىعنى راستہ دِکھانے  والی روشنى۔ ’’مشعل‘‘نام رکھنا شرعاً جائز  ہے ، لىکن لڑکیوں کے نام وہ رکھنے چاہئیں جو صحابىات ، وَلِىّات اور صالحات یعنی نیک بندیوں کے نام ہوں ، ایسے نام باعِثِ بَرَکت ہوتے ہیں۔ مشعل سے آگ بھى تو لگ سکتى ہے ، خطرہ موجود ہے۔ اِس لئے وہ نام رکھىں جس مىں خطرہ نہ ہو۔ Peaceful(پُر اَمن) نام رکھیں ، سب صحابىات کے نامPeacefulہىں۔ حُصولِ بَرَکت کى نىّت سے رکھىں گے تو اِن شاءَ اللہ  بَرَکت بھى مِلے گى۔
     (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 90)
    سوال : کیا عبدُالحریر  نام رکھ سکتے ہیں؟ (اسلامی بہن کا سُوال) 
    جواب : حریر کے معنیٰ ریشم کے ہیں تو عبدُ الحریر کے معنیٰ ہوئے ریشم کا بندہ ، بس یہ Unique ( منفرد) نام کے چکر میں رکھ دیا ہو گا۔ اگر عبدُالحریر کی جگہ کوئی اور  نام رکھنا ہو  تو عبدُالقدیر نام رکھ سکتے ہیں لیکن اِس میں  مسئلہ یہ ہے کہ لوگ عبد ہٹاکر صرف قدیر بولنا شروع کردیتے ہیں اور اللہ پاک کے سِوا کسی کو قدیر بولنا ناجائز و گناہ ہے کہ یہ اللہ پاک کی صفت ہے۔ )فتاویٰ مصطفویہ ، ص 89-90 ملخصا (نصیر نام رکھ سکتے ہیں کہ بندے کو نصیر کہنے میں حرج نہیں ہے۔ اِسی طرح جریر نام بھی رکھ سکتے ہیں کہ یہ ایک صحابی    رضی اللہُ عنہ    کا نام ہے۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 99) 
    سوال : میں نے اپنی بیٹی کا نام “ نسواں “ رکھنا ہے یہ نام ٹھیک ہے یا نہیں؟
    جواب : اس کی کوئی فضیلت نہیں ہے مگر یہ نام رکھا تو  گناہ گار بھی نہیں ہوگا۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 59)
    سوال : کیا ہم پیارےنبی  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   کی کنیت ’’اَبُو القاسِم‘‘ کو اپنے بچّوں کے  نام کے طور پر رکھ سکتے ہیں؟
    جواب :  جی ہاں! ’’اَبُو القاسِم‘‘ نام رکھنا جائز ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ ، 16 / 560)(ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت ، قسط : 217)
    *************
    صفحہ 1 ، 13  کے سوالات اور صفحہ 4 کا آخری سوال شعبہ ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت کی طرف سے قائم کیے گئے ہیں البتہ جوابات امیرِ اہلِ سنت   دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ    کے ہی عطا کردہ ہیں ۔ 

     …اے اللہ حضرتِ محمد  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم    پر رَحمت نازِل فرما اور انہیں قیامت کے روز اپنی بارگاہ میں مُقَرَّب مَقام عطا فرما۔ 
     … ہمارے زمانے میں یہ بَلا بہت عام ہے کہ عبدُالرَّحمٰن کو رَحمٰن ، عبدُالخالق کو خالق اور عبدُ القدیر کو قدیر وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں یہ حرام ہے ، اس سے بچنا لازم ہے ۔ (صراط الجنان ، پ9 ، الاعراف ، تحت الآیۃ : 180 ، 3 / 381) 
     …سبحان نام رکھنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ یہ صفت اللہ پاک کے ساتھ ہی خاص ہے اور جو صفت اللہ پاک کے ساتھ خاص ہو مخلوق پر اس کا اطلاق درست نہیں ، کبھی ناجائز و گناہ  اور کبھی کفر کی حد تک بھی پہنچ جاتا ہے۔  (دار الافتا ءاہل سُنَّت)

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن