اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
نہر کی صدائیں
شیطٰن لاکھ سستی دلائے یہ بَیان (24 صَفحات) مکمَّل پڑھ لیجئے
اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ اپنے دل میں مَدَنی انقلاب برپا ہوتا محسوس فرمائیں گے۔
موتیوں کا تاج
اَلْقَولُ الْبَدِیع میں ہے: انتِقال کے بعد حضرتِ سَیِّدُناابوالعباس احمد بن منصور عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَفُورکو اہلِ شیراز میں سے کسی نے خواب میں دیکھا کہ وہ سر پر موتیوں کا تاج سجائے جنَّتی لباس میں ملبوس شِیراز کی جامِع مسجِد کی مِحراب میں کھڑے ہیں ،خواب دیکھنے والے نے عرض کی: مَافَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا ؟ فرمایا اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں کثرت سے دُرُود شریف پڑھا کرتا تھا یِہی عمل کام آگیا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے میری مغفِرت فرمادی اور مجھے تاج پہنا کر داخِلِ جنّت فرمایا۔ (اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص۲۵۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرتِ سَیِّدُنا کعبُ الاحبار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایک عظیم تابِعی بُزُرگ تھے،اسلام آوَری سے قبل آپ یہودیوں کے بَہُت بڑے عالِم تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ بنی اسرا ئیل کا ایک شخص (توبہ کرنے کے بعد پھر) ایک فاحشہ کے ساتھ کالامنہ کرکے جب غسل کیلئے ایک نہر میں داخِل ہوا تونہر کی صدائیں آنے لگیں : ’’ تجھے شرم نہیں آتی ؟ کیا تُونے توبہ کرکے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ اب کبھی ایسا نہیں کروں گا۔ ‘‘ یہ سن کر اُس پر رقّت طاری ہوگئی اور وہ روتا چیختا یہ کہتا ہوا بھاگا: ’’ اب کبھی بھی اپنے پیار ے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ ‘‘ وہ روتا ہوا ایک پہاڑ پر پہنچا جہاں بارہ اَفراد اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی کی عبادت میں مشغول تھے۔ یہ بھی ان میں شامِل ہوگیا۔کچھ عرصے کے بعد وہاں قَحط پڑا تو نیک بندوں کا وہ قافِلہ غِذا کی تلاش میں شہر کی طرف چل دیا۔اِتِّفاق سے اُن کا گزر اُسی نہر کی طرف ہوا۔وہ شخص خوف سے تھرّا اُٹھا اور کہنے لگا: میں اِس نہر کی طرف نہیں جاؤں گاکیونکہ وہاں میرے گناہوں کا جاننے والا موجود ہے،مجھے اُس سے شرم آتی ہے۔یہ رُک گیا اور بارہ اَفراد نہر پر پہنچے ۔تو نہر کی صدائیں آنی شروع ہوگئیں : اے نیک بندو ! تمہارا رفیق کہاں ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا: وہ کہتاہے: اِس نہر پر میرے گناہوں کا جاننے والا موجود ہے اور مجھے اُس سے شرم آتی ہے۔نہر سے آواز آئی: ’’ سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! اگر تمہارا کوئی عزیز تمہیں ایذادے بیٹھے مگر پھر نادِم ہو کر تم سے مُعافی مانگ لے اور اپنی غَلَط عادت ترک کردے تو کیا تمہاری اس سے صُلح نہیں ہو جاتی ؟ تمہارےرفیق نے بھی توبہ کرلی ہے اور نیکیوں میں مشغول ہوگیا ہے لہٰذا اب اُس کی اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ سے صُلح ہوچکی ہے۔اسے یہاں لے آؤ اور تم سب یہیں نہر کے کَنارے عبادت کرو۔ ‘‘ اُنہوں نے اپنے رفیق کو خوش خبری دی اور پھر یہ سب مل کر وہاں مَشغولِ عبادت ہوگئے حتّٰی کہ اُس شخص کا وہیں انتِقال ہوگیا۔اِس پر نہر کی صدائیں گونج اُٹھیں : ’’ اے نیک بندو! اسے میرے پانی سے نَہلاؤ اور میرے ہی کَنارے دفناؤ تاکہ بروزِ قِیامت بھی وہ یہیں سے اُٹھایا جائے۔ ‘‘ چُنانچِہ اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔رات کو اُس کے مزار کے قریب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرتے کرتے سوگئے ۔ صُبح ان سب کا وہاں سے کُوچ کرنے کا ارادہ تھا ۔جب جاگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے مَزار کے اَطراف میں 12سَرْوْ ( یعنی ایک درخت جو سیدھا اور مخروطی (یعنی گاجر کی) شکل کا ہوتا ہے) کے خوبصورت قد آور درخت کھڑے ہیں ۔ یہ لوگ سمجھ گئے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے یہ ہمارے لئے ہی پیدا فرمائے ہیں ،تاکہ ہم کہیں اور جانے کے بجائے ان کے سائے میں ہی پڑے رہیں ۔چُنانچِہ وہ لوگ وَہیں عبادت میں مشغول ہوگئے ۔جب ان میں سے کسی کا انتِقال ہوتا تو اُسی شخص کے پہلو میں دَفْن کیا جاتا۔حتّٰی کہ سب وفات پاگئے ۔بنی اسرائیل اُن کے مزرات کی زیارت کیلئے آیاکرتے تھے رَحمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن (کتابُ التَّوّابِین ص۹۰)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ دیکھ رہا ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے مُلاحَظہ فرمایا! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کتنا رحیم وکریم ہے۔جب کوئی بندہ سچّے دِل سے توبہ کرلیتا ہے تو اُس سے راضی ہوجاتا ہے ۔ اِس حِکایت سے یہ بھی درس ملا کہ گناہ کرنے والا اگر چِہ لاکھ پردوں میں چُھپ کرگناہ کرے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ دیکھ رہا ہے ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بُزُرگانِ دین کے مزارات پر حاضِری کا سلسلہ پچھلی اُمّت کے مومنوں میں بھی تھا۔
بار بار توبہ کرتے رہئے!
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب گناہ سرزد ہوجائے تو انسان کو چاہئے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ َ کی بارگاہ میں توبہ کرلے ،اگر بتَقاضائے بَشَرِیَّت پھر گناہ کر بیٹھے تو پھر توبہ کرلے، پھر خطا ہوجائے تو پھر توبہ کرے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ َّ کی رَحمت سے ہر گز ہرگز مایوس نہ ہو،اُس کی رَحمت بَہُت بڑی ہے،یقینا گناہوں کو مُعاف کرنے میں اُس کی رَحمت کا کوئی نقصان نہیں ہوتا ، بس ہمیں توبہ واِستغفار کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ۔ ’’ یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اُس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔ ‘‘ ( اِبن ماجہ ج۴ص۴۹۱ حدیث۴۲۵۰) معلوم ہوا توبہ کرنے والے کے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں ۔بَہَر حال ہمیں بارگاہِ ربِّ ذُو الجلال میں ہردم جُھکا رہنا چاہئے اوراس کی رَحمت سے نااُمّید نہیں ہونا چاہئے۔
کیا صرف نیک لوگ ہی جنّت میں جائیں گے؟
رَحمت کی بات آئی ہے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نادانی میں کہہ دیتے ہیں : ’’ جنَّت میں صِرف نیکیوں کے ذَرِیعے ہی داخِلہ ملے گااور جو گناہ کریگا وہ لازِمی طورپر جہنَّم میں جائے گا، رَحمت سے بخشے جانے کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ‘‘ یقینایہ شیطان کے وَسوَسے ہیں ۔ورنہ میں اپنی طرف سے رب عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت کی بات کہاں کررہاہوں ، سنو …! سنو…! اللہ عَزَّ وَجَلَّ پارہ24سُوْرَۃُالْزُّمَر آیت53 میں ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (۵۳)
ترجَمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے (نافرمانیوں کے ذریعے) اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ بیشک اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) سب گناہ بخش دیتا ہے بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
حدیثِ قُدسی ہے ،خدائے رحمن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ رَحمت نشان ہے: سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِی۔یعنی میری رَحمت میرے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔ (مُسلِم ص۱۴۷۱حدیث۲۷۵۱)
امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے بھائی جان استاذِ زمن، شَہنشاہ سخن حضرتِ مولانا حسن رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اپنے نعتیہ دیوان ’’ ذوقِ نعت ‘‘ کے اندر بارگاہِ خدائے رحمن عَزَّ وَجَلَّ میں عرض کرتے ہیں :
سَبَقَت رَحمَتِیْ عَلٰی غَضَبِی تُونے جب سے سُنا دیا یارب
آسرا ہم گناہ گاروں کا اور مضبوط ہوگیا یارب
(ذوقِ نعت)
عاجِز بندے کی حکایت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یقینا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت بَہُت بَہُت بَہُت ہی بڑی ہے۔وہ بظاہِر کسی چھوٹی سی ادا پرراضی ہوجائے تو ایسا نواز تا ہے کہ بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔چُنانچِہ ’’ کِتابُ التَّوَّابِین ‘‘ میں ہے، حضرتِ سَیِّدُنا کَعبُ ا لْاحبار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : بنی اسرائیل کے دو آدمی مسجِد کی طرف چلے ، ایک تومسجِد میں داخِل ہوگیا مگر دوسرے پر خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّ طاری ہوگیااور وہ باہَر ہی بیٹھ گیا اور کہنے لگا: ’’ میں گنہگار اس قابِل کہاں جو اپنا گندا وُجُود لے کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پاک گھر میں داخِل ہوسکوں ۔ ‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو اس کی یہ عاجِزی پسند آگئی اور اُس کا نام صِدِّیقین میں دَرج فرمادیا۔ (کتابُ التَّوّابِین ص۸۳) یاد رہے ! ’’ صِدِّیق کا دَرجہ ’’ ولی ‘‘ اور ’’ شہید ‘‘ سے بھی بڑا ہوتا ہے۔
نادم بندے کی حکایت
اِسی طرح کی ایک حکایت کِتَابُ التَّوَّابِین صَفْحَہ83 پر لکھی ہے: ایک اسرائیلی سے گناہ سرزد ہوگیا،وہ بے حد نادِم ہوا اور بے قرار ہوکر اِدھر سے اُدھر بھاگنے لگا کہ کسی طرح اُس کا گناہ مُعاف ہوجائے اور پَروَردگار عَزَّ وَجَلَّ راضی ہوجائے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہِ رحمت میں اُس کی بیقراری بھری نَدامت کو شرفِ قبولیّت حاصِل ہوئی اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اُس کو ولایت کے اعلیٰ ترین رُتبے صِدِّیْقِیّت سے نواز دیا۔
شرمندَگی توبہ ہے
سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ خوشگوار ہے: اَلنَّدَمُ تَوْبَۃٌ یعنی شرمندَگی توبہ ہے۔ (اَلْمُستَدرَک ج۵ ص۳۴۶ حدیث۷۶۸۷) حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات گناہوں پر نَدامت وہ کام کرجاتی ہے جو بڑی سے بڑی عبادت بھی نہیں کرسکتی ،اِس کا مطلب ہر گز یہ بھی نہیں کہ عبادت نہ کی جائے،یہ سب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مَشِیَّت پر ہے،کبھی نَدامت کام کرجاتی ہے تو کبھی عبادت۔ چُنانچِہ
روزہ دار ڈاکو
رَوْضُ الرَّیاحِین میں ہے،حضرتِ سَیِّدُنا شیخ ابوبکر شِبلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی فرماتے ہیں : میں ایک قافِلے کے ہمراہ ملکِ شام جارہا تھا،راستے میں ڈاکوؤں کی جَماعت نے ہمیں لُوٹ لیا اور سارا مال واَسباب اپنے سردار کے سامنے ڈَھیر کردیا،سامان میں سے ایک شکر اور بادام کی تَھیلی نکلی،سارے ڈاکوؤں نے نکال کر کھانا شُروع کردیا مگر اُن کے سردار نے اس میں سے کچھ نہ کھایا،میں نے پوچھا: سب کھارہے ہیں مگر آپ کیوں نہیں کھارہے؟ اُس نے کہا: میں روزے سے ہوں ۔میں نے حیرت سے کہا: تم لوٹ مار بھی کرتے ہو اور روزہ بھی رکھتے ہو! سردار بولا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے صُلح کیلئے بھی تو کوئی راہ باقی رکھنی چاہئے۔ حضرتِ سَیِّدُنا شیخ شِبلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی فرماتے ہیں : کچھ عرصے بعد میں نے اُسی ڈاکوؤں کے سردار کو اِحرام کی حالت میں طوافِ خانۂ کعبہ میں مشغول دیکھا، اُس کے چہرے پر عِبادت کا نور تھا اور مُجاہَدَات نے اُسے کمزور کردیا تھا،میں نے تَعجّب کے ساتھ پوچھا: کیا تم وُہی شخص نہیں ہو؟ وہ بولا: ’’ جی ہاں میں وُہی ہوں اور سنئے! اُسی رَوزے نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ میری صُلح کروادی ہے۔ ‘‘ (رَوْضُ الرَّیاحِین ص۲۹۳)
ہر پیر شریف کو روزہ رکھئے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا کہ کسی نیکی کو چَھوٹی سمجھ کر ترک نہیں کردینا چاہئے ، کیا پتا وُہی چھوٹی نظر آنے والی نیکی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے اور ہمارے دونوں جہاں سَنور جائیں ۔ اس حِکایت سے نفلی روزے کی اَہَمِّیَّت بھی معلوم ہوئی۔بے شک ہر ایک کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنے کی طاقت نہیں پاتا،تاہم کم ازکم ہر پیر شریف کا روزہ تو رکھ ہی لینا چاہئے کہ سنّت ہے نیز نیک بنانے کے عظیم نسخے مَدَنی اِنعامات میں سے58 واں مَدَنی اِنعام بھی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی سے وابَستہ کثیر اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس ’’ مَدَنی اِنعام ‘‘ کے مطابِق پیر شریف کا روزہ رکھنے کی سنَّت ادا کرتے ہیں اور عاشِقانِ رسول کے ہر دلعزیز 100 فیصدی اسلامی چینل مدنی چینل پر ہر پیر شریف کو براہِ راست (یعنی LIVE) ’’ مناجا تِ افطار ‘‘ کا سلسلہ ہوتا اور عاشقانِ رسول کے اِفطار کرنے کا روح پرور منظر دکھایا جاتا ہے ۔ آپ بھی بہ نیّتِ ثواب ’’ مَدَنی چینل ‘‘ دیکھتے رہئے اور دوسروں کو بھی دیکھنے کی دعوت دیکر خوب ثواب کا عظیم خزانہ لوٹئے۔