30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْنط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط یہ مضمون کتاب ”نیکی کی دعوت“صفحہ 358 تا 375 سے لیا گیا ہےنیک بندوں کی شان
دُعائے عطار:یاربَّ المصطفےٰ !جوکوئی 21 صفحات کا رِسالہ’’ نیک بندوں کی شان ‘‘پڑھ یاسُن لے اسے اپنے نیک بندوں سے محبت رکھنے اور نیکوں کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما اور اسے بے حساب بخش دے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت
حضرتِ عارِ ف بن عُبَّاد رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرتِ ابوالحسن شَاذِلی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا ہے کہ میں سفر میں تھا۔ ایک رات ایسی جگہ پہنچاجہاں خوفناک دَرِندے بکثرت تھے۔ دَرِندے میرے دَرْپئے آزار تھے۔ میں ایک اُونچے ٹیلے پر بیٹھ گیا اور کہا :خدا کی قسم! میں رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر دُرُو د شریف پڑھوں گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’جو شخص مجھ پر ایک بار دُرُود شریف بھیجتا ہے اللہ پاک اُس پر دس بار دُرُود ( یعنی رَحمت ) بھیجتا ہے۔‘‘ جب اللہ پاک مجھ پردس رَحمتیں بھیجے گا تو میں رات اللہ پاک کی رَحمت میں گزاروں گا۔ فرمایا کہ میں نے ایسا ہی کیا تو میں رات کو کسی سے نہ ڈرا۔ (افضل الصلوۃ علیٰ سیدالسادات،ص 22 )ایک بندۂ نیک کے سبب پڑوس کے 100گھروں سے بلائیں دُور ہوں
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے! اگر آپ مذہبی وضع قطع کے مالِک ہیں تو سنجیدہ رہئے اور خوب ملنسار بن جایئے،آپ کا منصب ایسا ہے کہ آپ کی ایک مسکراہٹ کسی کی آئندہ نسلوں کی تقدیر بدل سکتی ہے اور ایک بار کی بے رُخی یا جِھڑک کسی کی آنے والی نسلوں کو بھی مَعاذَ اللہ گمراہی کے گڑھے میں جھونک سکتی ہے لہٰذا ہمیشہ ہر مِلنے جلنے والے کے ساتھ نرمی نرمی اور نرمی سے پیش آیئے اور اُن کو نیکی کی دعوت دینے میں سُستی نہ فرمایئے۔کیا پتا آپ کی ایک پر انِفرادی کوشِش کسی کے خاندان بھر کی اِصلاح کا باعِث بن جائے ! اچّھوں کی برکتوں کے بھی کیا کہنے!دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی 853 صفحات کی کتاب ’’ جہنّم میں لے جانے والے اعمال جلد1“ صفحہ 809 پر ہے:حُسنِ اخلاق کے پیکر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ پاک نیک مسلمان کی وجہ سے اس کے پڑوس کے 100گھروں سے بَلا دور فرما دیتا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی: وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍۙ-لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ (پ2 ، البقرۃ: 251) ”ترجَمۂ کنز الایمان:اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضَرور زمین تباہ ہو جا ئے۔ “(المعجم الا وسط للطبرانی ،3/129 ، حدیث:4080) تُو نیکوں کا فیضان مولیٰ عطا کر مُعاف فَضل سے میری ہر اِک خطا کر صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدتین مَد َنی فیسیں
اللہ والوں کی نیکی کی دعوت دینے کا انداز بھی نرالا ہوتا ہے۔اِس ضمن میں ایک ایمان افروز واقعہ سنئے اور عبرت سے سر دُھنئے:حضرتِ حاتم اَصم رحمۃُ اللہِ علیہ کو ایک مالدار شخص نے بَاِصرار دعوتِ طَعام دی، فرمایا: میری یہ تین شرطیں مانو تو آؤنگا )1( میں جہاں چاہوں گا بیٹھوں گا )2( جو چاہوں گا کھاؤں گا )3( جو کہوں گا وہ تمہیں کرنا پڑے گا۔ اُس مالدار نے وہ تینوں شرطیں منظور کرلیں۔ ولیُّ اللہ کی ز یارت کیلئے بَہُت سارے لوگ جَمْع ہوگئے۔وَقتِ مُقَرَّرہ پر حضرتِ حاتم اَصم رحمۃُ اللہِ علیہ بھی تشریف لے آئے اور جہاں لوگوں کےجُوتے پڑے تھے وہاں بیٹھ گئے۔ جب کھانا شروع ہوا، حاتم اَصم رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنی جھولی میں ہاتھ ڈال کرسُوکھی روٹی نکال کر تناوُل فرمائی۔ جب سلسلۂ طعام کا اختِتام ہوا، میزبان سے فرمایا: ” چُولہا لاؤ اور اُس پر تَوَا رکھو،“ حکم کی تعمیل ہوئی، جب آگ کی تَپِش سے تَوا سُرخ انگارہ بن گیا تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہاُس پرننگے پاؤں کھڑے ہوگئے اور فرمایا: ” میں نے آج کے کھانے میں سُوکھی روٹی کھائی ہے۔ “ یہ فرما کر تَوَے سے نیچے اُتر آئے اور حاضِرین سے فرمایا: اب آپ حضرات بھی باری باری اِس تَوے پر کھڑے ہوکر جو کچھ ابھی کھایا ہے اُس کا حساب دیجئے ۔ یہ سُن کر لوگوں کی چیخیں نکل گئيں، بَیَک زَبان بول اُٹھے: یاسیِّدی! ہم میں اس کی طاقت نہیں، (کہاں یہ گرْم گرْم تَوَا اور کہاں ہمارے نَرم نَرم قدم! ہم تو گنہگار دنیا دار لوگ ہیں) آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: جب اِس دُنیوی گَرْم تَوے پر کھڑے ہو کر آج صِرْف ایک وَقْت کے کھانے کی نعمت کا حساب نہیں دے سکتے تو کل بَروزِ قِیامت آپ حضرات زندَگی بھر کی نعمتوں کا حساب کس طرح دیں گے! پھرآپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے پارہ 30 سُورَةُ التكاثُرکی آخِری آیت کی تلاوت فرمائی: i ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠ (پ30،التکاثر8) ”ترجَمۂ کنز الایمان:پھر بے شک ضَرور اُس دن تم سے نعمتوں سے پُرسِش ہوگی۔“ یہ رِقَّت انگیز ارشاد سُن کر لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے او ر گناہوں سے توبہ توبہ پکارنے لگے۔ (تذکرۃ الاولیاء ، الجزء الاول، ص222 ملخصاً) یا الٰہی ! جب حسابِ خندۂ بے جا رُلائے یا الٰہی ! جب بہیں آنکھیں حسابِ جُرم میں چشمِ گِریانِ شفیع مُرتجےٰ کا ساتھ ہو اُن تبسم رَیز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو (حدائقِ بخشش، ص 133 ) مشکل الفاظ کے مَعانی: تبسم رَیز:مسکرانے والے۔خَندۂ بے جا:فضول ہنسی۔چشمِ گِریاں: رونے والی آنکھیں۔شفیعِ مُرتَجیٰ:شَفاعت کرنے والا جس سے امّیدیں وابستہ کی جائیں۔ شرحِ کلامِ رضا ؔ:’’ حدائقِ بخشش شریف‘‘ کی مُناجات کے مذکورہ دوسرے شعر میں یہ عرض کی گئی ہے:یا اللہ پاک! بروزِ محشرجب میری نافرمانیوں کا حساب مجھے خوفزدہ کرے اور آنکھوں سے سَیلِ اَشک رواں ہو جائے،اے کاش! اُس وَقت دُکھیادلوں کے چَین، نانائے حسنین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکراتے ہونٹوں کی دُعا میرے شاملِ حال ہو جائے۔پہلے شعر میں عرض کی گئی ہے:یا اللہ پاک! جب یومِ آخِرت میری فُضُول ہنسی کا حساب کتاب مجھے رُلائے ! کاش! اُس وَقت شَفاعتِ کُبریٰ کا تاج پہننے والے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کہ جن کی طرف اُمّیدیں وابستہ کی جاتی ہیں وہ تشریف لا کر میری شَفاعت فرمائیں۔یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! ؎ ہائے! پھر خندۂ بے جا مِرے لب پر آ یا ہائے ! پھر بھول گیا راتوں کا رونا تیرا (ذوقِ نعت، ص 25) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدمحشر کی ہو لناک منظر کشی
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے! ولیِ کامل حضرتِ حاتمِ اَصم رحمۃُ اللہِ علیہ نے کس قَدر اَچُھوتے انداز میں حسابِ آخِرت کے مُتَعَلِّق’’ نیکی کی دعوت ‘‘عنایت فرمائی! واقعی حشر ونَشر کے مُعاملات انتہائی تشویشناک ہیں،ان کا نقشہ کھینچتے ہوئے حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت امام ابو حامد محمدبن محمدبن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کیمیائے سعادت میں فرماتے ہیں : (انسان)مرنے کے بعد ایسا بدبو دارمُردار ہو جائے گا کہ سب اس کو دیکھ کر اپنی ناک بند کریں گے اوروہ قبر میں کیڑے مکوڑوں کی خُوراک بنے گا اور پھر رَفتہ رَفتہ خاک ہو جائے گا جو کہ بالکل حقیر وذلیل چیز ہے البتہ مرنے کے بعد وہ جانوروں کی طرح خاک ہی رَہتا تو غنیمت تھا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو گا اور یہ خاک رہنے والی دولت اُسے میسر نہ ہوگی بلکہ قیامت میں اس کو قَبْر سے اُٹھایا جائے گا،ہیبت ودَہْشت کے مقام پر رکھا جائے گا،اُس وَقت وہ آسمانوں کو دیکھے گاکہ پھٹے ہوئے ہیں،ستارے گر پڑے ہیں،چاند و سورج بے نور ہوچکے ہیں اور پہاڑ رُوئی کے گالوں(یعنی روئی کے گولوں)کی طرح پَرا گَندہ(پَرا۔گندہ یعنی منتشر) ہیں، زمین بدلی ہوئی ہے،دوزخ کے فرِشتے کمندیں(کَ۔مَن۔دَیں یعنی پھندے)پھینک رہے ہیں،دوزخ گَرَج رہا ہے،فرِشتے ہر ایک کے ہاتھ میں اعمال نامہ دے رہے ہیں،وہ تمام عُمر میں جو بُرے کام کیےہوں گے اُن کو دیکھتا ہوگا،ہر ایک اپنے اپنے گناہوں کو پڑھ کر پریشان ہورہاہوگا،اس سے کہا جائے گا کہ آ اور جواب دے کہ تُو نے ایسا کیوں کیا؟ وَیسا کیوں کہا؟ کیوں بیٹھا اور کیوں اُٹھا ؟ کیوں دیکھا اورکیوں سوچا؟اگر مَعاذَ اللہ جواب نہ دے سکے گا تو اُس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ! اُس وَقت کہے گا:کاش! میں خُوک(یعنی سُؤَر)یا سگ(یعنی کُتّا)پیدا ہوا ہوتا تو خاک ہو جاتا کیونکہ وہ(جانور)اِس عذاب سے محفوظ اور آزاد ہیں۔پس جو شخص(بے عمل ہونے کی صورت میں) سُؤَر اور کتے سے بد تر ہو اُس کو تکبُّر اور فخر کرنا کس طرح زَیبا ہے! ( کیمیائے سعادت ، 2/717) یاد رکھ ہر آن آخِر موت ہے مت تُو بن اَنجان آخِر موت ہے پیشتر مرنے کے کرنا چاہئے موت کا سامان آخِر موت ہے بارہا علمیؔ تجھے سمجھا چکے مان یا مت مان آخِر موت ہےپیدا نہ ہونے والا قابلِ رشک ہے
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اب تو ہم پیدا ہو ہی چکے ہیں،واپسی ناممکن ہے۔جو ابھی دنیا میں نہیں آئے اُن کا انتظار کرنے والوں یعنی بے اولادوں کے لئے غور کرنے کا مقام ہے کہ انتظار میں اُن کی کیا نیّت ہے! دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی 692 صفحات کی کتاب ’’کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ‘‘ صفحہ 5تا6 پر دیا ہوا مضمون اپنے اندر بَہُت کچھ عبرت رکھتا ہے چُنانچِہ لکھا ہے:آج دنیا میں جو بے اولاد ہو تا ہے وہ عموماً خوب دل جلاتا ہے اور بچّہ پانے کیلئے نہ جانے کیسے کیسے جَتَن کرتا ہے۔اگر اس کا مَطْمَح ِنظر(یعنی مقصدِ اصلی) فقط گھر کی زینت اور دُنیا کی راحت ہے،حُصولِ اولاد سے مقصود آخِرت کی مَنْفَعت کی کوئی اچھی نیّت نہیں،تو ایسا بے اولاد آدَمی نادانستہ طور پر گویا’’کِسی ‘‘کے دُنیا میں پیدا ہو نے اور پھر بَہُت بڑے امتحان میں مبتلا ہونے کی آرزو کر رہا ہے! میری یہ بات شاید وُہی شخص سمجھ سکتا ہے جو” بُرے خاتمے کے خوف “ میں مبتلا ہو ۔ ایک خائف بُزُرگ حضرتِ فُضَیْل بن عِیاض رحمۃُ اللہِ علیہ کے فرمان کا خُلاصہ ہے:مجھے بڑے سے بڑے نیک بندے پر بھی رشک نہیں آتا جوکہ قیامت کی ہولناکیوں کا مُشاہَدہ کرے گا،مجھے صِرف اُس پر رَشک آتا ہے جو ” کچھ بھی“ نہ ہو۔(یعنی پیدا ہی نہ ہو)(حلیۃ الاولیاء،8/93 ، رقم:11470ملخصاً) امیرُ المؤمنین حضرتِ فاروقِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے غَلَبۂ خوف کے وَقت فرمایا:کاش ! میری ماں نے ہی مجھ کو نہ جنا ہوتا! (طبقات ابن سعد،3/274) اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّمکاش ! کہ میں دنیا میں پیدا نہ ہوا ہوتا
(نزع کی سختیوں،قبر کی ہو لناکیوں،محشر کی دشواریوں اور جہنّم کی خو فناک وادیوں کا تصوُّر با ندھ کر خوفِ خدا سے لرزتے ہو ئے اشکبار آنکھوں سے اس کلام کو پڑھئے) کاش! کہ میں دنیا میں پیدا نہ ہوا ہوتا قبر و حشر کا ہر غم ختم ہوگیا ہوتا آہ! سَلْبِ ایماں کا خوف کھائے جاتا ہے کاش!میری ماں نے ہی مجھ کو نہ جَنا ہوتا آکے نہ پھنسا ہوتا میں بطورِ انساں کاش! کاش! میں مدینے کا اُونٹ بن گیا ہوتا دو جہاں کی فکروں سے یوں نَجات مل جاتی میں مدینے کا سچ مچ کُتّا بن گیا ہوتا کاش! ایسا ہوجاتا خاک بن کے طیبہ کی مصطَفٰے کے قدموں سے میں لپٹ گیا ہوتا میں بجائے انساں کے کوئی پودا ہوتا یا نخل بن کے طیبہ کے باغ میں کھڑا ہوتا گلشنِ مدینہ کا کاش! ہوتا میں سبزہ یا بطورِ تنکا ہی میں وہاں پڑا ہوتا جاں کنی کی تکلیفیں ذبح سے ہیں بڑھ کر کاش ! مُرغ بن کے طیبہ میں ذبح ہوگیا ہوتا شور اُٹھا یہ محشر میں خُلد میں گیا عطارؔ گر نہ وہ بچاتے تو نار میں گیا ہوتااگر اُلٹے ہاتھ میں اعمالنامہ ملا تو کیا ہو گا!
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! واقعی مقامِ عبرت ہے،ہم سبھی کوگناہوں سے باز رہنا اور قیامت کے ہو شرُبا حالات پرسنجیدَگی سے غورکرنا چاہئے جس دن اللہ پاک تمام مخلوق کے سامنے گناہوں بھرا اعمالنامہ پڑھنے کاحکم فرمائے گا،آہ! اُس وَقت حشر کی خوفناک سختیاں دَرپیش ہو ں گی،شدّتِ پیاس سے زَبان باہَر نکل پڑی ہو گی،بھو ک سے کمر ٹوٹ رہی ہو گی،جنّت میں داخلے سے روک دیا گیاہو گا،ہر قسم کی راحت بند کر دی گئی ہو گی، ایسے تکلیف دِہ حالات میں لاکھوں کروڑوں گناہوں سے پُر اعمالنامہ کس طرح پڑھ کر سنایا جا سکے گا ! آہ! ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اعمالنامہ ہمارے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا یا اُلٹے ہاتھ میں،جس کے اُلٹے ہاتھ میں اعمالنامہ دیا گیا اُس کا کیا بنے گا! پارہ29 سورۃ ُالحآقۃ آیت نمبر19 تا 37میں اعمالنامے دیئے جانے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہوتا ہے، ترجَمۂ کنزالایمان:تو وہ جو اپنانامۂ اعمال دَہنے(یعنی سیدھے)ہاتھ میں دیا جائے گا،کہے گا:لو میرے نامۂ اعمال پڑھو مجھے یقین تھا کہ میں اپنے حساب کو پہنچوں گا تو وہ مَن مانتے چَین میں ہے بلند باغ میں جس کے خوشے جھکے ہوئے کھاؤ اور پیو رَچتا ہوا صِلہ اس کا جو تم نے گزرے دنوں میں آ گے بھیجا اور وہ جو اپنا نامۂ اعمال بائیں(یعنی اُلٹے) ہاتھ میں دیا جائے گا،کہے گا:ہائے! کسی طرح مجھے اپنا نَوِشتہ(نَ۔وِش۔تَہ یعنی لکھا ہوا) نہ دیا جاتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے ہائے !کسی طرح موت ہی قصہ چُکا جاتی میرے کچھ کام نہ آیا میرا مال میرا سب زَور جاتا رہا(پھر اللہ پاک جہنم کے خازِنوں یعنی وہاں مامُور فِرِشتوں کو حکم د ے گا) اِسے پکڑو پھر اِسے طَوق ڈالو پھر اِسے بھڑکتی آ گ میں دھنساؤ پھر ایسی زنجیر میں جس کا ناپ ستَّر ہاتھ ہے اسے پِرو دو بے شک وہ عَظَمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہ دیتا تو آ ج یہاں اس کا کوئی دوست نہیں اور نہ کچھ کھانے کو مگر دوزخیوں کا پیپ اسے نہ کھائیں گے مگر خطا کار۔ میزاں پہ سب کھڑے ہیں اَعمال تُل ر ہے ہیں رکھ لو بَھرم خُدارا عطاؔر قادِری کا (وسائلِ بخشش، ص 195) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدفاروق و مشتاق کے مزار کی مَدَنی بہار
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!دنیا و آخِرت کی بھلائیاں پانے اور خود کو قبرو حشر کی ہولناکیوں سے بچانے کی کوشِش کا ذِہن بنانے کیلئے عاشقانِ رسول کی دینی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے ”دینی ماحول“سے ہر دم وابستہ رہئے،نیکی کی دعوت کے دینی کاموں میں بھر پور حصّہ لیجئے،نیک اعمال کے مطابِق اپنی زندگی گزاریئے،سنّتیں سیکھنے سکھانے کے مَدَنی قافِلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرے سفر کی ترکیب فرماتے رہئے ۔ آیئے! اس کی ترغیب کیلئے ”ایک مَدَنی بہار“سنتے ہیں:چُنانچِہ سرگودھا، پنجاب، پاکستان کے ایک اسلامی بھائی کے حلفیہ(یعنی قسم کھا کر دیئے ہوئے)بیان کا لُبِّ لُباب ہے ، غالِباً (1428ھ یعنی 2006 ء )میں انہیں اپنے ایک عزیز کے ہمراہ صحرائے مدینہ کراچی میں دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے مرحوم نگران،خوش الحان نعت خوان،بلبلِ روضۂ رسول الحاج قاری ابُو عبید مشتاق عطّاری رحمۃُ اللہِ علیہ اورمرکزی مجلسِ شوریٰ کے رُکْن مفتیٔ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا الحافظ القاری الحاج ابو عُمر محمد فاروق عطّاری رحمۃُ اللہِ علیہ کے مَزاراتِ طیبات پرحاضِری کی سعادت حاصل ہوئی۔دوپَہَر کا وقت تھا،اَلحمدُ لِلّٰہ عین بیداری کے عالَم میں دونوں کو حاجی مشتاق عطّاری رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزارِ پُر انوار سے اذانِ ظُہر کی آواز صاف سنائی دی۔پھر کچھ دیربعدمفتیٔ دعوتِ اسلامی رحمۃُ اللہِ علیہ کی آواز میں اِقامت سُنی پھر حاجی مشتاق صاحب کی تکبیرِ تحریمہ اوردیگر تکبیراتِ انتِقالات کی آوازوں سے یِہی سمجھ آئی کہ وہ مزار شریف میں امامت فرمارہے ہیں۔ جماعَت ختْم ہونے کے بعد دعاکی آواز بھی صاف سنائی دی،دعا ختم ہونے کے بعد اُنہیں خوشبو کی مَہَک محسوس ہوئی۔اُنہوں نے حیرت و اِستعجاب کے عالم میں سرگودھا کے ایک ذِمّے دار اسلامی بھائی سے موبائل فون پر رابِطہ کیا،اور واقعہ بیان کیا۔اِس پر اُنہوں نے مبارک باد دیتے ہوئے اِس ایمان افروز” مَدَنی بہار“کی روشنی میں اللہ پاک کے مقبول بندوں اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کے تَصرُّفات واِختیارات اور دعوتِ اسلامی کی بَرَکات سے آگاہ کیا۔اَلحمدُ لِلّٰہ یہ سُن کر وہ جھوم اُٹھے،اللہ پاک کا کڑورہا کڑور شکر کہ اُس نے اِس نازُک دَور میں دعوتِ اسلامی کا مشکبار دینی ماحول عطا فرمایا۔انہوں نے دعا کی کہ اللہ پاک اُنہیں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں شب و روز مصروفِ عمل رہتے ہوئے سنّتوں بھری زندَگی گزارنے اور ایمان وعافیت کے ساتھ مرنے کی سعادت عنایت فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم دعوتِ اسلامی نے دنیا بھر میں دھوم مچائی ہے سارے جہاں میں عشقِ محمد کی خوشبو پھیلائی ہے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدثابت بُنانی کا مزار میں نَماز پڑھنا
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اِس مَدَنی بہار سے معلوم ہوا کہ دعوت ِ اسلامی والوں پر پَروَردَگار اور مَدَنی سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بے حد وبے شمار کرم ہے۔اللہ پاک کے نیک بندوں کا اپنے مزار میں نَماز پڑھنا کوئی اَچنبھے(یعنی حیرت)کی بات نہیں۔اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم سے ایسا ثابِت ہے چُنانچِہ تابعی بُزُرگ حضرتِ ثابت بُنانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے دعا مانگی: ”اے اللہ! اگر تُو کسی کو قَبر میں نَماز پڑھنے کی اِجازت دیتا ہے تو مجھے بھی اجازت دینا۔ “ وفات کے بعد دیکھا گیا کہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی قَبر میں نَماز پڑھ رہے تھے۔ (حلیۃ الاولیاء،2/362 ، رقم:2568)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع