30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
{سندِ اِجا زت}
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ !۴شعبان المعظم ۱۴۲۹ ھـ کوعالمی مدنی مرکز’’فیضانِ مدینہ‘‘باب المدینہ کراچی میں قائم ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے علمی ،تحقیقی اوراِشاعتی شعبہ ’’اَ لْمَدِ یْنَۃُ ا لْعِلْمِیَّۃ ‘‘سے مبلغ دعوتِ اسلامی ’’ملک شام‘‘ کے سفرپرتشریف لے گئے اوروہاںکے عُلما ومشائخ اہلسنّت کَثَّرَھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی سے ملاقات کاشرف حاصل کیا۔انہی عُلما ومشائخ میں ایک جیدعالمِ دین فَضِیْلَۃُ الشَّیْخ ا سعد محمدسعیدصاغرجی مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی بھی ہیں۔جنہوں نے دعوتِ اسلامی کے شعبہ ’’ اَ لْمَدِ یْنَۃُ ا لْعِلْمِیَّۃ ‘‘ کواپنی مبارک کتب کے اُردُوترجمہ کی’’ سند ِاجازت‘‘ عطافرمائی۔جس کاعکس اورترجمہ درج ذیل ہے:(ترجمہ:) اللہ کے نام سے شروع جوبہت مہربان رحمت والا ’’یہ سنداجازت تحریرکرنے والا،مَیںمؤلّفِ کتب ہذا(۱)… شُعَبُ الْاِیْمَان (4جلدیں) (۲)… اَلْفِقْہُ الْحَنَفِی وَاَدِلَّـتُہ (۳)… فِقْہُ السُّنَّۃِ النَّـبَوِیَّۃ فِی الْعُھُوْدِ الْمُحَمَّدِیَّۃ اور(۴)… اَلْجَدُفِی السُّلُوْک اِلٰی مَلِکِ الْمُلُوْک ،دعوتِ اسلامی کے شعبہ ’’ اَ لْمَدِیْنَۃُ ا لْعِلْمِیَّۃ ‘‘ کوبخوشی ان کتابوں کے عربی سے فقط اُردُوترجمہ کی اجازت دیتاہوں۔ اس خواہش کے ساتھ کہ(دینی)فوائدکے حصول کے لئے ا ن کی نشرواِشاعت کی جائے اور میں اس پر دستخط بھی کرتا ہوں۔‘‘ نوٹ:مذکورہ اِجازت ان دو کتب کے لئے بھی ہے: (۲) اَلْمُسْلِمُ الْحَقّ عَقِیْدَۃً وَّعِبَادَۃً وَّسُلُوْکًا اَسعد محمد سعیدصاغرجی (۱) اَلتَّیْسِیْر فِی الْفِقْہِ الْحَنَفِی ۱۱ شوال ۱۴۲۹ ھـ بمطابق11 اکتوبر2008ء اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط ’’فیضِ مجلس شوریٰ ‘‘کے 11حروف کی نسبت سے اس کتاب کو پڑھنے کی ’’11 نیّتیں‘‘ فرمانِ مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : ’’ نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ یعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘ ( المعجم الکبیر للطبرانی، الحدیث: ۵۹۴۲ ، ج ۶ ، ص ۱۸۵) دو مَدَنی پھول: { ۱ } بِغیر اچھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔ { ۲ } جتنی اچھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔ {۱}ہر بارحمد و {۲}صلوٰۃ اور{۳}تعوُّذو{۴}تَسمِیّہ سے آغاز کروں گا۔ (اسی صَفْحَہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے گا)۔ {۵} رِضائے الٰہی کے لئے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مطالَعہ کروں گا۔ {۶} حتَّی الْوَسْعْ اِس کا باوُضُو اور قِبلہ رُو مُطالَعَہ کروں گا۔{۷}جہاں جہاں’’ اللہ ‘‘کا نامِ پاک آئے گا وہاں عَزَّوَجَلَّ اور {۸} جہاں جہاں ’’سرکار‘‘کا اِسْمِ مبارَک آئے گا وہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پَڑھوں گا۔{۹}دوسروں کویہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلائوں گا۔{۱۰}اس حدیثِ پاک ’’ تَھَادَوْا تَحَابُّوْا ‘‘ ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی ۔‘‘ ( مؤطاامام مالک،ج ۲ ، ص ۴۰۷ ،الحدیث: ۱۷۳۱)پرعمل کی نیت سے(ایک یا حسبِ توفیق) یہ کتاب خرید کر دوسروں کو تحفۃً دوں گا۔{۱۱}کتابت وغیرہ میں شَرْعی غلَطی ملی تو نا شرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا۔ (مصنّف یاناشِرین وغیرہ کو کتا بوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتاناخاص مفید نہیں ہوتا) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
المدینۃالعلمیۃ
از:شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ،بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطَّارؔ قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ الحمد للّٰہ علٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْ لِہٖ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اِشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے۔اِن تمام اُمور کو بحسن خوبی سراَنجام دینے کے لئے متعدَّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس ’’المدینۃالعلمیۃ ‘‘ بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلما و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہُ السَّلَام پر مشتمل ہے۔جس نے خالص علمی، تحقیقی اوراِشاعتی کام کا بیڑااُٹھایاہے۔اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں: (۱)شعبۂ کتبِ اعلیٰ حضرت (۲)شعبۂ درسی کُتُب (۳)شعبۂ اِصلاحی کُتُب (۴)شعبۂ تراجمِ کُتُب (۵)شعبۂ تفتیشِ کُتُب (۶)شعبۂ تخریج ’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلٰیحضرت اِمامِ اَہلسنّت، عظیم البَرَکت، عظیمُ المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیٔ سنّت،ماحی ٔبِدعت،عالِمِ شَرِیْعَت،پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحا فِظ القاری شاہ اِمام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْع سہل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے ۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی، تحقیقی اوراِشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اور مجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘کی تمام مجالس بَشُمُول ’’المد ینۃ العلمیہ ‘‘کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اِخلاص سے آراستہ فرماکر دونو ں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ ہمیںزیرِ گنبد ِ خضرا شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ ( آمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) رمضان المبارک ۱۴۲۵ ھـ *=== *=== *=== *پہلے اِسے پڑھ لیجئے!
پیارے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کا حاصل ہوجانا بہت بڑی کامیابی ہے کہ جس شخص کو اس کی رضا حاصل ہوجاتی ہے وہ دنیا وآخرت دونوں میں کامیاب ہوجاتا ہے۔لہٰذا ہمیں بھی ایسے کام کرنے چاہئیں جورضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں ۔ انہی کاموں میں سے ایک نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا ہے ۔ چنانچہ، اللہ تبارک و تعالیٰ اِرشاد فرماتا ہے: وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴) ( پ ۴ ،اٰلِ عمران: ۱۰۴) ترجمۂ کنزالایمان :اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بُلائیں اور اچھی بات کا حکم دیںاور بُری سے منع کریں اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔ یقیناً اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ قادرِ مطلق ہے۔ وہ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۲۰) ( پ ۱ ،البقرہ: ۲۰) ترجمۂ کنزلایمان : بے شک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ وہ اگر چاہے تو مخلوق کے بغیر بھی بگڑے ہوئے اِنسانوں کو راہِ راست پر لاسکتا ہے۔ لیکن اس کو یہی محبوب ہے کہ’’ اَ مْرٌ بِا لْمَعْرُوْف وَنَـہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر ‘‘ کے اَ ہم فریضہ کو اس کے بندے بجا لائیں اور اس کا قربِ خاص حاصل کریں۔ بے شک یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یہ اَہم کام فضلیت کاباعث ہے۔ جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے: كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ ( پ ۴ ،اٰلِ عمران: ۱۱۰) ترجمۂ کنزالایمان :تم بہتر ہو اُن سب اُمتوں سے جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ لیکن یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس کو ترک کرنے پر وَبالِ عظیم ہے۔ جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِرشاد فرماتا ہے: لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(۷۸) كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹) ( پ ۶ ،المائدہ: ۷۸ ۔ ۷۹) ترجمۂ کنزالایمان :لعنت کیے گئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں دائود اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پر یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کاجو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے۔ مفسِّرِ شہیر، حکیم الا ُمَّت مفتی اَحمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی اس آیت کے ضِمن میں اِرشاد فرماتے ہیں: ’’اس سے معلوم ہوا کہ برائی سے روکنا، اچھائی کاحکم کرنا واجب ہے۔ تبلیغ بند ہونے پر عذابِ الہٰی آنے کا اندیشہ ہے۔‘‘ (1) اِن آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوئی اور اس سے پہلوتہی کرنے کے نقصانات بھی واضح ہوئے اور یہ بات ہر مسلمان بخوبی جانتا ہے کہ ہمارے مکی مدنی آقا،مدینے والے مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آخری نبی ہیں۔ لہٰذاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد اس عظیم ُالشان کام کی ذمہ داری اُمتِ محمدیہ پر ہے ۔پس ہر مسلمان پر اپنی قوت وقدرت کے مطابق نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنالازم ہے اوراس کے لئے اِس کے آداب و اَحکام سے آگاہی ضروری ہے جوآپ اس کتاب میں پڑھیںگے۔لگے ہاتھوں یہاں شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت، بانی ٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولاناابوبلال محمدالیاس عطَّارؔ قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے فرامین کی روشنی میں اِنفرادی واِجتماعی ’’ اَ مْرٌبِالْمَعْرُوْف وَنَـــــہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر ‘‘ اور مبلِّغین کے 26 آداب بیان کئے جاتے ہیں: (1)…مبلغ باعمل ہو۔کیونکہ باعمل کی بات جلداثرکرتی ہے۔(2)…عُلمائے اہلسنّت کی کتابوںکامطالعہ کرتے رہیں۔(3)…جب کسی کو نیکی کی دعوت دیں(یعنی نصیحت کریں) تو اس کے ساتھ محبت سے پیش آئیںاورگناہ کرتے دیکھیں تو نہایت ہی نرمی کے ساتھ اسے منع کریںاوربڑی محبت کے ساتھ اسے سمجھائیں۔(4)…بے جاجذباتی نہ بنیں۔ اگر جھڑک کر سمجھانے کی کوشش کریں گے تواُلٹا ضد پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ لوگ آپ سے نفرت کرنے لگیںگے۔کسی کو ڈانٹ کر سمجھانے کی مثال یوں سمجھیں کہ گویا جس برتن میں کچھ ڈالنا تھا اس میں پہلے ہی سے آپ نے چھید کر ڈالا۔ (5)…اگر کوئی غلطی کردے تو اسے سب کے سامنے ہرگزنہ ٹوکیں۔اس سے آپ کی بات بے ا ثر ہو جائے گی اوراس کی دل آزاری ہوجانے کابھی قوی اِمکان ہے ۔ لہٰذاموقع پاکرسمجھائیں۔ حضرت سَیِّدُنا ابودرداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ’’جس نے اپنے بھائی کوسب کے سامنے نصیحت کی اس نے اسے ذلیل کیااورجس نے تنہائی میں نصیحت کی اس نے اسے مُزَ یَّن (یعنی آراسۃ ) کیا۔‘‘ (2)یعنی ظاہر ہے اسے اکیلے میں محبت کے ساتھ سمجھائیں گے توقوی اُمیدہے کہ وہ اپنی غلطی کی اِصلاح کرلے گااور یوں وہ اِصلاح کے ساتھ مُزَ یَّن ہوجائے گا۔ (6)… والدین اپنی اَولاد کو، شوہر اپنی بیوی کو اور اُستاذ اپنے شاگرد کو ضرورتاً سختی سے بھی سمجھائیں تو حرج نہیں۔ (7)… کوئی برائی میں مصروف ہے،گناہ کررہا ہے اورہمارا گمان غالب ہے کہ اگر ہم سمجھائیں گے تو برائی سے باز آجائے گا ۔ ایسی صورت میں اَ مْرٌبِالْمَعْرُوْف وَنَـــــہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر واجب ہے ۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو گناہگار ہوں گے۔‘‘ (3) (8)… اَ مْرٌبِالْمَعْرُوْف کرنے والے مبلِّغ کے پاس علم ہونا ضروری ہے ورنہ کس طر ح سمجھائے گا؟اس لئے اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ (عوام مبلِّغین) جتنا کتاب میں پڑھیں یا عُلمائے حقہ سے سنیں وہی بیان کریں۔ اپنی طرف سے آیات واَحادیث کی تفسیر وتشریح نہ کریں۔ (9)… مبلِّغ کی نیت صرف رضائے الٰہی کا حصول اور اِسلام کی سربلند ی ہو ۔ (10)… مبلِّغ کا بااَخلاق اورملنساراورباکردارہونابے حدضروری ہے ۔ (11)…مبلِّغ صابراور بردبار بھی ہو۔ہوسکتا ہے جس کو سمجھا یا جارہا ہے وہ بِپَھر جائے یا گالی وغیرہ بک دے ۔ مبلِّغ کے لئے یہ موقع اِمتحان کا ہوتا ہے ۔ اگر دامنِ صبر ہاتھ سے جاتا رہا اور آپ نے بھی خدانخواستہ غصہ کا مظاہر ہ کیا تو آپ بازی ہار گئے ۔(12)… مبلِّغ کے مزاج میں بے جا غصہ ہو ہی نہ ، نرمی ہی نرمی ہونی چاہئے۔ (13)… عوام(یعنی جوعالم نہ ہو ) ہرگز مشہور ومعروف عُلمائے حَقَّہ اور مفتیانِ کرام کی ٹوہ میں نہ رہیں ۔ ان کی غلطیاں نہ نکالیں ۔ ان کو اَ مْرٌ بِا لْمَعْرُوْف وَنَـہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر نہ کریں کہ یہ بے اَدبی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ حضرات کسی خاص مصلِحت کے تحت ایسا کر رہے ہوں اور عوام کی نظروہاں تک نہ پہنچے۔(4) (14)… کسی کو گناہ کرتا دیکھیں اور مَعَاذَ اللّٰہ خود بھی وہی گناہ کرتے ہیں پھر بھی اسے گناہ سے منع کریںکیونکہ آپ کے ذمے تو دو چیزیں واجب ہیں : (۱) برے کام سے بچنااور (۲)دوسرے کو برے کام سے منع کرنا۔ اگر ایک واجب کے تارک ہیں تو دوسرے کے تارک کیوں بنیں؟ (5) سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : ’’ بَلِّغُوْاعَنِّی وَ لَـواٰیَۃ یعنی:پہنچا دو میری طرف سے اگر چہ ایک ہی آیت ہو ۔‘‘ (6) (15)… جو کچھ دو سرو ں کو کہیں سب سے پہلے اپنے آپ کو اس کا مخاطب بنائیں ۔ (16)… عیش کوشیوں سے اِجتناب کرتے رہیں اور اپنی زندگی سادگی کے ساتھ گزاریں۔ (17)… خوشی،غمی اور بیماری وغیرہ کے مواقع پر لوگوں کے ساتھ ہمدردانہ رویَّہ اِختیار کریں۔(18)… لوگوں کو ان کی نفسیات کے مطابق محبت بھرے لہجے میں سمجھائیں۔ (19)… دقیق مضامین اور پیچیدہ مسائل نہ چھیڑیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کافرمانِ عالیشان ہے : ’’ اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ( پ ۱۴ ،النحل: ۱۲۵) ترجمۂ کنزالایمان : اپنے رب کی راہ کی طرف بلائو پکی تد بیر اور اچھی نصیحت سے ۔‘‘ (اور) منقول ہے : ’’ کَلِّمُواالنَّاسَ عَلٰی قَدْ رِعُقُوْ لِھِم یعنی: لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق کلام کرو۔‘‘ (اور) حضرت سیدناابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : ’’میں نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کچھ باتیںایسی بھی سنی ہیں کہ اگرتمہارے سامنے ظاہرکردوںتوتم میرا گلا کاٹ دو۔‘‘ (7) (20)… نیکی کی دعوت دینے کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات ، تکالیف اور آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے اِستقبال کریں اور صبر واِستقامت کا پہاڑ بن جائیں ۔ (چنانچہ) تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : ’’ جس پر مصیبت آئے اور صبر کرنا دشوار معلوم ہو وہ میرے مصائب کو یاد کرلے ۔‘‘ (8)ظاہر ہے جب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا راہِ خدامیں تکالیف اٹھانا یاد کریں گے توہمیں اپنی تکالیف اس کے آگے ہیچ نظر آئیں گی۔ (21)… اِحیائے سنت کی خاطرہر قسم کی قربانی دینے کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھیں۔ (22)…سنتیں سیکھنے او رسکھانے کی پاکیزہ آرزو اور اس راہ میں اِخلاص و اِیثار کاجذبہ اپنے اندر بیدار رکھیں۔(23)… عامی مبلِّغین کو چاہئے کہ وہ بحث ومباحثہ (یعنی جدل ومناظرہ) میں نہ پڑیں بلکہ ایسے موقع پرعُلمائے حقہ کی طرف رجوع کریں کہ یہ انہیں حضرات کا شعبہ ہے۔ البتہ ! اپنے عقائد و اَعمال میں پختہ ضرور رہیں۔ (24)… اپنے بیان میں ہمیشہ اس امر کا اِہتمام رکھیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بے پایاں رحمت سے اُمید کی کیفیت بھی طاری رہے اور قہر وغضب کی بھی۔ (25)… اپنے بال بچو ں کی اِصلاح بھی کرتے رہیں ۔ (چنانچہ) اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ مجید میں اِرشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا ( پ ۲۸ ،التحریم: ۶) ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچا ئو ۔ ‘‘(26)… والدین یا بڑے بہن بھائی اگر خطا کے مرتکب ہوں تو ہرگز ان پر شدت نہ کریں، نہایت ہی عاجزی اور نرمی کے ساتھ اِصلاح کی درخواست کریں ۔ اُن سے اُلجھا نہ کریں ۔ ’’شُعَبُ الْاِیْمَان لِلصَّاغَرجِی ‘‘ملکِ شام کے جیَّدعالمِ دین شیخ اَسعد محمدسعید صاغَرجی مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی کی مبارک تصنیف ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِعَزَّوَجَلَّ!مجلس المدینۃ العلمیۃ کے حکم پر شعبہ تراجمِ کُتُب سے اس کے ایک باب ’’اَلزُّھْد وَقَصْرُالْاَمَل ‘‘ کا اُردوترجمہ بنام ’’دُنیاسے بے رغبتی اور اُمیدوں کی کمی‘‘ شائع ہوکر عوام وخواص میں خوب فیض پہنچارہاہے ۔ پیش نظر کتاب بھی اِسی مبارک تصنیف کے ایک اور باب ’’اَلاَمْرُبِالْمَعْرُوْف وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَر ‘‘کا اُردُو ترجمہ ہے جوبنام ’’نیکی کی دعوت کے فضائل‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔اس میں نیکی کی دعوت دینے اوربرائی سے منع کرنے کے فضائل وفوائد اورآداب واَحکام بیان کئے گئے ہیں ۔ اس ترجمہ میں جو بھی خوبیاں ہیں وہ یقینا ً اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عطاؤں، اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کی عنایتوں اور شیخ طریقت،امیر اہلسنّت، بانی ٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی پرخلوص دعاؤں کا نتیجہ ہے اور جو خامیاں ہیں ان میں ہماری کوتاہ فہمی کادخل ہے۔ ترجمہ کے لئے دَارُالْکَلِم الطَّیِّب دمشق بیروت کا نسخہ (مطبوعہ۱۴۲۲ھ/ ۲۰۰۲ء) اِستعمال کیا گیا ہے اور ترجمہ کرتے ہوئے ان اُمور کاخاص خیال رکھا گیا ہے : *سلیس اوربامحاورہ ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ کم پڑھے لکھے اسلامی بھائی بھی سمجھ سکیں۔ *آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت، شاہ امام احمد رضا ؔخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے ترجمۂ قرآن ’’کنز الایمان‘‘ سے لیاگیا ہے۔ *آیاتِ مبارکہ کے حوالے کا بھی اِہتمام کیا گیا ہے اور حَتَّی الْمَقْدُ وْر اَحادیثِ طیبہ و واقعات کی تخریج بھی کی گئی ہے ۔ *بعض مقامات پر حواشی مع التخریج کا اِلتزام کیا گیا ہے۔ *موقع کی مناسبت سے جگہ بہ جگہ عنوانات قائم کئے گئے ہیں۔ *نیزمشکل اَلفاظ کے معانی ہلالین(…) میں لکھنے کا اِہتمام کیا گیا ہے۔ *علاماتِ ترقیم(رُموزِاَوقاف) کابھی خیال رکھا گیاہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں ’’اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشش‘‘ کرنے کے لئے مدنی اِنعامات پر عمل اور مدنی قافلوں میں سفر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوتِ اسلامی کی تمام مجالس بشمول مجلس المدینۃ العلمیۃ کو دن پچیسویں رات چھبیسویں ترقی عطا فرمائے۔ ( آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) شعبہ تراجِم کتب(مجلس المدینۃ العلمیۃ) *=== *=== *=== * اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط اللہ عَزَّوَجَلَّ اِرشادفرماتاہے : وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۳۳) ( پ ۲۴ ،حم السجدۃ: ۳۳) ترجمۂ کنزالایمان :اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں۔ میرے پیارے اسلامی بھائیو! اس ا ُمَّت کو سب سے پہلے نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے والے حضور نبی ٔ پاک، صاحبِ لَولاک، سیَّاحِ اَفلاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کی طرف بلانے،کفروشرک اوربدعت کو مٹانے کا آغاز فرمایا۔پس نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنارسولوں عَلَیْہِمُ السَّلَام اور ان کی پیروی کرنے والوں کا طریقہ اور مؤمنین ومنافقین کے درمیان فرق کرنے والا (کام) ہے ۔ جیساکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے پاک کلام قرآنِ مجید میں اِرشاد فرماتاہے: اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَهُمْؕ-نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْؕ-اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۶۷) ( پ ۱۰ ،التوبۃ: ۶۷) ترجمۂ کنزالایمان :منافق مرد اور منافق عورتیں ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیںبرائی کا حکم دیں اور بھلائی سے منع کریں اور اپنی مٹھی بند رکھیں وہ اللہ کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے انہیں چھوڑدیابیشک منافق وہی پکے بے حکم ہیں۔ اور اِرشادفرماتاہے: وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱) ( پ ۱۰ ،التوبۃ: ۷۱) ترجمۂ کنزالایمان :اورمسلمان مرداورمسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیںبھلائی کا حکم دیںاور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیںیہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گابے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔اَ مْرٌبِالْمَعْرُوْف وَنَہْیٌ عَن الْمُنْکَرکی فضیلت:
نیکی کی دعوت دینے اوربرائی سے منع کرنے کے بے شمار فضائل وفوائدہیں( جن میں سے چند بیان کئے جاتے ہیں)۔ (1)…اس سے دنیا کا نظام قائم اوردرست رہتا ہے کیونکہ لوگوں کو فقط اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کے لئے پیداکیاگیاہے ۔جیساکہ قرآنِ پاک میں اِرشاد ہوتا ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) ( پ ۲۷ ،الذٰ ریٰت: ۵۶) ترجمۂ کنزالایمان :اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی(اسی) لیے بنائے کہ میری بندگی کریں۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے لوگوں سے وعدہ فرمایاہے کہ جب وہ اس کی عبادت کریں گے تو زمین میں انہیں اپنانائب بنالے گااوران تمام چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا اِختیار دے گا جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے لئے پیدافرمایاہے۔جیساکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قرآنِ پاک میں اِرشادفرمایا: وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۶۵) وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْؕ-مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌؕ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ۠(۶۶) ( پ ۶ ،المائدہ: ۶۵ ، ۶۶) ترجمۂ کنزالایمان :اوراگرکتاب والے ایمان لاتے اورپرہیزگاری کرتے توضرورہم ان کے گناہ اتار دیتے اورضرورانہیںچین کے باغوں میںلے جاتے ۔ اوراگروہ قائم رکھتے توریت اور انجیل اورجوکچھ ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے اتراتو انہیں رزق ملتا اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ان میں کوئی گروہ اگر اعتدال پرہے اور ان میں اکثر بہت ہی برے کام کررہے ہیں۔ ایک اورمقام پراِرشادفرمایا: وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۹۶) ( پ ۹ ،الاعراف: ۹۶) ترجمۂ کنزالایمان :اوراگربستیو ں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کیے پر گرفتار کیا۔ (2)…نیکی کی دعوت دینے اوربرائی سے منع کرنے (کی برکت ) سے زمین اوراہلِ زمین سے مصیبت دورہوتی ہے۔ اس کام کو نہ کرنے کی وجہ سے پہلی اُمتوں کوعذاب دیا گیا۔ جب عذاب آیاتوعذاب نے تباہ وبربادکرکے انہیں جڑسے اکھیڑدیا۔نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی وجہ سے بلائیں دورہوتی ہیں اورزمین والوں سے عذاب اُٹھ جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشادفرمایا: وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍۙ-لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(۲۵۱) ( پ ۲ ،البقرۃ: ۲۵۱) ترجمۂ کنزالایمان :اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہو جائے مگر اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے۔ (3)…نیکی کی دعوت دینے اوربرائی سے منع کرنے سے لوگوں پر حجت قائم ہو جاتی ہے لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ان کاکوئی عذرنہ رہے گا۔ جیساکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ ( پ ۶ ،النسآء: ۱۶۵) ترجمۂ کنزالایمان :رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کو کوئی عذر نہ رہے ۔ (4)…ا یسے شخص کو وعظ ونصیحت کی جائے جواسے قبول کرناچاہتاہو۔چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قرآن مجیدمیں ارشادفرمایا: فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰىؕ(۹) ( پ ۳۰ ،الاعلی: ۹) ترجمۂ کنزالایمان :تو تم نصیحت فرماؤ اگر نصیحت کام دے۔ ایک اور مقام پراِرشادفرمایا: وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵) ( پ ۲۷ ،الذٰ ریٰت: ۵۵) ترجمۂ کنزالایمان :اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔ نیکی کی دعوت دینے اوربرائی سے منع کرنے کے سبب دنیاکانظام درست رہتا اورترک کرنے کی وجہ سے فسادبرپاہوجاتاہے۔لوگ اس وقت تک بھلائی پررہیں گے جب تک نیکی پر کاربند رہیں گے اور اس کی دعوت دیتے رہیں گے،برائی سے رُکے رہیں گے اور اس سے منع کرتے رہیں گے۔نیکی کی دعوت کی لوگوں کو حاجت:
چونکہ شیطان کوابن آدم پر مسلَّط کیاگیاہے اس لئے وہ اس سے جدا نہیں ہوتا جیسا کہ حدیث پاک میںہے، سیِّدُالْمُبَلِّغِیْن،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْنصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: ’’تم میں ایساکوئی نہیں جس پرایک ساتھی جنّ(یعنی شیطان) مسلَّط نہ ہو۔‘‘ لوگوں نے عرض کی:’’ یَارَسُوْلَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر بھی؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’مجھ پر بھی،مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے اس پرمدددی اور وہ مسلمان ہو گیا ۔ اب وہ مجھے بھلائی ہی کامشورہ دیتاہے۔‘‘ (9) یہ بات واضح ہے کہ شیطان انسان کووسوسے میں مبتلا کرتااوراسے نیکی کے کام سے روکتاہے پس انسان ہمیشہ وعظ ونصیحت کامحتاج ہے اورزمانۂ نبوی سب زمانوں سے اعلیٰ ہے۔جیسے جیسے ہمارے اورزمانۂ نبوی کے درمیان فاصلہ بڑھتاگیاہمیں اَ مْرٌ بِالْمَعْرُوْف اور نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر کی ضرورت زیادہ ہوتی گئی۔اس پرحضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کایہ فرمان دلیل ہے کہ ’’ہر آنے والے زمانے سے جانے والازمانہ بہتر ہے۔‘‘ تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں عرض کی گئی: ’’اے ابوعبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ! ہمارا زمانہ پچھلے زمانوںسے خوشحال اورسستاہے۔‘‘ تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اِستفسار فرمایا: ’’فقہائے کرام اور قاریٔ قرآن کس زمانے میں زیادہ ہیں؟اورکون سا زمانہ، زمانۂ نبوی سے قریب ہے؟‘‘ عرض کی:’’جوزمانہ گزر گیا۔‘‘ تو حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا: ’’یہی تو میری مراد تھی۔‘‘ اس فرمان کہ ’’ہرآنے والے زمانے سے جانے والازمانہ بہترہے‘‘ کے متعلق حضرتِ سیِّدُنا امام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْخَالِق فرماتے ہیں:’’میں اسے سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانے سے سمجھتا ہوں۔‘‘ پس زمانے کی درستی وبھلائی اہل زمانہ کی درستی میںہے، اورزمانے کی خرابی اور برائی اس کے اہل کی خرابی وبرائی اوران میں بھلائی کی کمی کی وجہ سے ہے اورسب زمانوں سے بہترزمانہ، حضورنبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کازمانہ ہے اور بعد والے زمانے میں بھلائی کم ہے جیساکہ حدیث ِپاک میں ہے۔چنانچہ، نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بہترین لوگ میرے زمانے والے ہیں۔پھروہ لوگ جوان سے ملے ہوئے ہیں۔پھروہ جو ان سے ملے ہوئے ہیں۔‘‘ (10) اس سے معلوم ہوا کہ حضورنبی ٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا زمانہ، بعدوالے زمانے سے بہترہے اور ایسے ہی ہمیشہ ہوتارہے گا(یعنی خیرمیں کمی آتی رہے گی)اس لئے کہ زمانے کی تعریف اس میں خوشحالی وکثرتِ فراخی کی وجہ سے نہیں بلکہ اہل زمانہ کی وجہ سے کی جاتی ہے ۔کیونکہ کبھی کبھار خوشحال زمانے میں برائی زیادہ ہوتی ہے تو وہ بہترین زمانہ نہیں کہلاتا اورکبھی کبھارقحط زدہ زمانے میںبرائیاںاورگناہ کم ہوتے ہیںتووہ بہترین زمانہ کہلاتا ہے اور ہم جس زمانے میں ہیں اس میں بھلائی کم اوربرائی زیادہ ہے جیساکہ حدیث پاک میں ہے۔ چنانچہ،حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن عمروبن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ میں نے حضور سیِّدِ عالم، نُورِمُجَسَّم ،شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ اِرشاد فرماتے سناکہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ علم کو یوں نہیں اٹھائے گاکہ بندوں (کے سینوں) سے نکال لے گابلکہ عُلما کی موت کے ساتھ علم کو اُٹھا لے گا۔ جب کوئی عالِم باقی نہ رہے گا تولوگ جاہلوں کواپناپیشوابنالیں گے۔ان سے سوالات کئے جائیں گے تووہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ خودبھی گمراہ ہوں گے اوردوسروں کوبھی گمراہ کریں گے۔‘‘ (11) برائیوں کی کثرت والے زمانے میں لوگوں کوایسے شخص کی حاجت ہے جو اُن کو آگاہ کرے۔ان کی خیرخواہی کرے۔انہیںرحمت ِالٰہی کی اُمید دِلائے اورغضبِ الٰہی سے ڈرائے اور اس (یعنی بھلائی کی طرف بلانے والے) عمل پر قائم رہنے والے لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے بشارت کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے: وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴) ( پ ۴ ،اٰلِ عمران: ۱۰۴) ترجمۂ کنزالایمان :اور تم میںایک گروہ ایساہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری(بات)سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔ جب خدائے جبَّار و قہَّار جَلَّ جَلَالُہٗ کا عذاب نازل ہو گا تو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے والے اُس سے محفوظ رہیں گے۔ چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَىٕیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ (۱۶۵) ( پ ۹ ،الاعراف: ۱۶۵) ترجمۂ کنزالایمان :پھر جب بھلا بیٹھے جو نصیحت انہیں ہوئی تھی ہم نے بچالیے وہ جو برائی سے منع کرتے تھے اور ظالموں کو برے عذاب میں پکڑا بدلہ ان کی نافرمانی کا۔ نیکی کی دعوت دینااوربرائی سے منع کرناہرزمانے میں نیک لوگوں کی عادت رہی ہے اور(یوں ہی)قیامت قائم ہونے تک جاری رہے گی۔جیساکہ حدیث پاک میں سرکارِ مدینہ ، قرارِ قلب وسینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کی خوشخبری دی۔ چنانچہ، حضرتِ سیِّدُناانس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حضور نبی ٔکریم، رَء ُوْفُ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’قیامت اس وقت قائم ہوگی جب زمین پر اللہ ، اللہ کہنے والاکوئی نہ ہوگا۔‘‘ (12)نیکی کی دعوت دینے کا فائدہ :
پیارے اسلامی بھائیو! یقینا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے دین کی حفاظت اور اس کا پھیلا نا اپنے ذمۂ کرم پرلیاہواہے،جیساکہ وہ خودقرآنِ مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹) ( پ ۱۴ ،الحجر: ۹) ترجمۂ کنزالایمان :بیشک ہم نے اتاراہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ پس جس نے ہدایت کی دعوت دی اس نے اپنی دعوت سے مددحاصل کی، ایسا نہیں ہے کہ اسی نے دعوتِ دین کا چرچا کیاکہ اگروہ نہ ہوتاتواس کا پرچار نہ ہوتا اور ہروہ شخص جس نے دین کی مددکی بے شک اس نے دین میں اپنے لئے مدد حاصل کی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ بے نیاز ہے اوربندے اس کے محتاج ۔اس کے دین کی دعوت کسی کی محتاج نہیں لیکن دعوت دینے والے محتاج ہیںاور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف بلانے والااپنے آپ کو اور دوسروں کو (ہلاکت سے) بچالیتاہے۔جب وہ کوتاہی کرتا اوردعوت دینا چھوڑدیتاہے تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتاہے اوردوسرے بھی ہلاک ہوجاتے ہیں ۔نیکی کی دعوت نہ دینے کاانجام:
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سورۂ مائدہ میں پچھلی اُمتوں کے ایک شخص کا قصہ بیان فرما کر اُمَّت ِ محمدیہ کو ایمان کے اس عظیم شعبہ کوچھوڑنے سے ڈرایاہے تاکہ یہ اُمت نصیحت حاصل کرے۔ خوش بخت ہے وہ شخص جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے۔ ہم وہ قصہ یوں ہی بیان کرتے ہیں جیسے قرآنِ پاک اورحدیثِ شریف میں ہے۔ چنانچہ، حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بنی اسرائیل پر سب سے پہلی بلا یہ آئی کہ ایک شخص(پہلے دن) دوسرے سے ملاقات کرتا تو کہتا: اے فلاں! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈراور جو توکررہاہے اسے چھوڑدے کیونکہ یہ تیرے لئے جائز نہیں۔ مگر جب دوسرے دن اس سے ملاقات کرتا تو اسے نہ روکتابلکہ اس کے ساتھ کھاتاپیتا،اٹھتا بیٹھتا۔ جب انہوں نے ایساکیاتو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان لوگوں کے دل ایک جیسے کر دیئے۔ پھریہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(۷۸) كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹) تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ(۸۰) وَ لَوْ كَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ النَّبِیِّ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰكِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ(۸۱) ( پ ۶ ،المائدہ: ۷۸ تا ۸۱) ترجمۂ کنزالایمان :لعنت کیے گئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پر یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے ان میں تم بہت کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں کیا ہی بری چیز اپنے لیے خود آگے بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے اور اگر وہ ایمان لاتے اللہ اور ان نبی پر اور اس پر جو ان کی طرف اترا تو کافروں سے دوستی نہ کرتے مگر ان میں تو بہتیرے فاسق ہیں۔ پھرآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’خبردار! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!تم ضرورنیکی کی دعوت دیتے رہنا اوربرائی سے منع کرتے رہنا۔ظالم کاہاتھ پکڑکراسے حق کی طرف جھکادینااورحق بات قبول کرنے پر اسے مجبور کر دینا۔‘‘ (13) حدیث ِپاک میںلفظ ’’تَاْطُرُوْنَہُم ‘‘ کامعنی ہے’’ تَلْزَمُوْنَــہُمْ بِاِتِّبَاعِ الْحَقِّ یعنی انہیں حق کی پیروی کرنے پر مجبورکردینا۔‘‘اورشہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس باب میں نیکی کی دعوت نہ دینے اور برائی سے منع نہ کرنے کے نقصانات بیان کرنے کے لئے ایک اور مثال بیان فرمائی۔ چنانچہ، حضرتِ سیِّدُنانعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضورنبی ٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے احکامات پرقائم رہنے والے (یعنی نیکی کی دعوت دینے والے) اوراس کی حدود کو پامال کرنے والے کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جنہوں نے کشتی کے حصے باہم تقسیم کرلئے بعض کواوپروالا حصہ ملا اور بعض کو نیچے والا ۔ نیچے والوں کوجب پیاس لگتی تو اوپر والوں کے پاس جاناپڑتا۔ انہوں نے کہا:ہم اپنے حصے میں سوراخ کرلیتے ہیںاس سے اوپروالوں کے پاس جانے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ اگر اوپروالے ان کوچھوڑدیتے ہیں تو تمام ہلاک ہوجائیں گے۔ لیکن اگر وہ ان کو روکتے ہیں تویہ بھی بچ جائیں گے اوردیگرتمام لوگ بھی نجات پاجائیں گے۔‘‘ (14) اس عظیم کام میں سستی کرناایسے فتنوں کودعوت دینے کے مترادف ہے جن میں عقلیں حیران رہ جائیں گی اوران سے چھٹکارے کی راہ نکالنے سے عاجزآجائیں گی۔ جیساکہ حدیث ِ پاک میں ہے۔چنانچہ، حضرتِ سیِّدُناابواُمامہ باہلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: ’’اس وقت تمہاراکیاحال ہوگاجب تمہاری عورتیں نافرمان ہو جائیں گی، تمہارے نوجوان فسق وفجورمیں مبتلا ہوجائیں گے اورتم جہاد کوچھوڑدوگے؟‘‘ لوگوں نے عرض کی:’’ یَارَسُوْلَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! کیاایسابھی ہوگا؟‘‘ ارشادفرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! معاملہ اس سے بھی سخت ہوگا۔‘‘لوگوں نے عرض کی:’’ یَارَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اس سے زیادہ سخت کیا ہوگا؟‘‘ارشادفرمایا: ’’اس وقت تمہاراکیاحال ہوگا جب تم نیکی کی دعوت دینا اوربرائی سے منع کرناچھوڑدوگے؟ ‘‘عرض کی:’’ یَارَسُوْلَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !کیاایسابھی ہوگا؟‘‘ارشادفرمایا:’’ہاں!اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!آنے والے وقت میں معاملہ اس سے بھی سخت ہو گا۔‘‘ لوگوں نے عرض کی: ’’ یَارَسُوْلَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !اس سے بھی سخت کیا ہوگا؟ ‘‘اِرشادفرمایا: ’’ اس وقت تمہاراکیاحال ہوگا جب تم نیکی کوبرائی اوربرائی کونیکی سمجھو گے؟‘‘ عرض کی: ’’ یَارَسُوْلَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیاایسابھی ہوگا؟‘‘ارشاد فرمایا: ’’ہاں! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہو گا ۔‘‘ لوگوں نے عرض کی:’’ اس سے زیادہ سنگین کیا ہو گا؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’اس وقت تمہاری حالت کیسی ہوگی جب تم برائی کی دعوت دوگے اورنیکی سے منع کرو گے؟‘‘ لوگوں نے عرض کی:’’ یَارَسُوْلَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیاایسابھی ہوگا؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’ہاں! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! معاملہ اس سے بھی زیادہ شدید ہو گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتاہے:مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم! مَیں اُنہیں ایسی آزمائش میں مبتلا کر دوں گا جس میں سمجھ دار شخص بھی حیران رہ جائے گا۔‘‘ (15)سیِّدُناابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی قرآن فہمی :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْؕ-اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۱۰۵) ( پ ۷ ،المائدہ: ۱۰۵) ترجمۂ کنزالایمان :اے ایمان والو!تم اپنی فکر رکھو تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا جو گمراہ ہوا جب کہ تم راہ پر ہوتم سب کی رجوع اللہ ہی کی طرف ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا جو تم کرتے تھے۔ اس آیت کا صحیح مفہوم اورلوگوں کواس سے آگاہ کرنے والے سب سے پہلے شخص امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناابوبکرصدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں۔کیونکہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے لوگوں کو اس آیت کی غلط تاویل اورایسی تفسیر کرنے سے ڈرایاجس سے مسلمانوں کو نیکی کی دعوت دینے کااِہتمام فوت ہورہاتھا۔چنانچہ، امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناابوبکرصدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق مروی ہے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے(مذکورہ آیت ِ مبارکہ کے بارے میں) ارشاد فرمایا: اے لوگو!تم اس آیت ِمقدسہ کی تلاوت کرتے ہو اور اسے اس کے صحیح مقام سے ہٹا کر رکھتے ہو۔ بے شک ہم نے نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ارشاد فرماتے سنا:’’جب لوگ ظالم کو(ظلم کرتا)دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں عذاب میں مبتلا کر دے۔‘‘ (16) صحابی ٔ رسول حضرتِ سیِّدُنا ابوثعلبہ خُشَنِیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مذکورہ آیت ِ مبارکہ پرتنبیہ کرنے میں امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناابوبکرصدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی پیروی کی۔ چنانچہ، حضرت سیِّدُنا ابواُمیَّہ شَعبانی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیںکہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابو ثعلبہ خُشَنِی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے عرض کی: ’’اے ابوثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ !آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اس آیت کے متعلق کیاکہتے ہیں؟‘‘ ارشادفرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں نے اس آیت کے متعلق حقیقی طور پر واقف ذات یعنی حضور نبی ٔمُکَرَّم، نُورِمُجَسَّم ، شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پوچھاتوآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’نیکی کی دعوت دو اور برائی سے منع کرویہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ بخل کی اطاعت ، خواہش کی پیروی، دُنیا کو ترجیح دی جارہی ہے اور ہر رائے والا اپنی رائے کو اچھا سمجھ رہا ہے تو تم پر اپنی اصلاح لازم ہے اورعام لوگوں (کا خیال) چھوڑ دو،کیونکہ تمہارے بعد صبرکے دن ہیں۔اُن میںصبرکرنا ایسے ہے جیسے انگارے کو پکڑنا، ان میں نیک عمل کرنے والے کااجر 50 آدمیوں کے برابر ہوگا۔‘‘ (17) ایک روایت میں یوں ہے ،عرض کی گئی: ’’ یَارَسُوْلَ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !ہم میںسے 50 آدمیوں کااجریااُن میںسے؟‘‘ارشادفرمایا:’’بلکہ تم میںسے 50 آدمیوں کااجر۔‘‘ (18)معروف کا مفہوم:
معروف ایساوسیع معنی رکھنے والا لفظ ہے جوتمام پسندیدہ اُمورکوشامل ہے۔جیسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کرنا۔ اس کا قرب حاصل کرنا ۔ لوگوں سے حسن سلوک کرنا۔ شریعتِ مطہرہ کی پسندیدہ باتوں کو اپنانا اورممنوعات ِشرعیہ سے بچنااورمعروف صفاتِ غالبہ میں سے ہے یعنی لوگوں کے درمیان ایسامشہورومعروف ہے کہ جب اسے دیکھتے ہیں تواس کا انکار نہیں کرتے۔کبھی نیکی کی دعوت صرف قول سے ہوتی ہے۔جیسے فقرا کی مددکی دعوت دینا اور کبھی صرف فعل سے جیسے مال خرچ کرنا اور کبھی قول وفعل دونوں کے ذریعے۔ ’’قول‘‘ کے ذریعے جیسے کسی کو زکوٰۃ ادا کرنے کی دعوت دینا۔’’فعل‘‘ کے ذریعے جیسے زکوٰۃ کی دعوت دینے والے کا خود زکوٰۃ اداکرنا۔مُنکَرکی تعریف :
یہ (معروف کی تعریف میں مذکور) تمام اُمورکی ضدہے اوراس سے مراد ہروہ بات ہے جس کی شریعت نے برائی بیان کی ہو۔ اسے حرام ٹھہرایا ہو یا اسے ناپسند کیا ہو۔ کبھی قول کے ذریعے برائی سے منع کیا جاتا ہے جیسے شراب نوشی سے منع کرنا۔ کبھی صرف فعل سے جیسے شراب کو بہا دینا۔جب قول کے ذریعے برائی سے منع کیاجائے تواسے نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر کہتے ہیں اور فعل کے ذریعے منع کرنے کو تَغْیِیْرٌ لِلْمُنْکَر (یعنی برائی کوبدلنا)کہتے ہیں۔
1 نورالعرفان فی تفسیرالقرآن،سورۂ مائدہ تحت الآیہ:۷۹. 2 تنبیہ الغافلین،باب الامربالمعروف والنھی عن المنکر،ص۴۹. 3 بہارِشریعت،حصہ۱۶،ص۲۵۹. 4 الفتاوی الہندیۃ،کتاب الکراہۃ،الباب السابع عشرفی الغناء…الخ،ج۵،ص۳۵۳. 5 الفتاوی الہندیۃ،کتاب الکراہۃ،الباب السابع عشرفی الغناء…الخ،ج۵،ص۳۵۳. 6 مشکوٰۃ المصابیح،کتاب العلم،الحدیث:۱۹۸،ج۱،ص۵۹. 7 صحیح البخاری،کتاب العلم،باب حفظ العلم،الحدیث:۱۲۰،ص۱۳. 8 تنبیہ الغافلین،باب الصبرعلٰی البلاء والشدۃ،ص۱۳۸. 9 صحیح المسلم،کتاب صفات المنافقین و احکامہم، باب تحریش الشیطان وبعثہ…الخ، الحدیث:۷۱۰۸،ص۱۱۶۸. 10 صحیح البخاری،کتاب فضائلِ اصحاب النبی، باب فضائل اصحاب النبی…الخ، الحدیث:۳۶۵۱،ص۲۹۷. 11 صحیح البخاری،کتاب العلم،باب کیف یقبض العلم،الحدیث:۱۰۰،ص۱۱. 12 صحیح المسلم،کتاب الایمان،باب ذہاب ایمان اٰخرالزمان،الحدیث:۳۷۵،ص۷۰۲. 13 سنن ابی داؤد،کتاب الملاحم،باب الامروالنہی،الحدیث:۴۳۳۶،ص۱۵۳۹. 14 صحیح البخاری،کتاب الشرکۃ،باب ہل یقرع فی القسمۃ والاستہام فیہ،الحدیث:۲۴۹۳،ص۱۹۶. 15 احیاء علوم الدین،کتاب الامربالمعروف والنہی عن المنکر،الباب الاول،ج۲،ص۳۸۰. 16 سنن ابی داؤد،کتاب الملاحم،باب الامر والنہی،الحدیث۴۳۳۸،ص۱۵۳۹. 17 سنن ابی داؤد،کتاب الملاحم،باب الامروالنہی،الحدیث:۴۳۴۱،ص۱۵۳۹. 18 سنن ابی داؤد،کتاب الملاحم،باب الامروالنہی،الحدیث:۴۳۴۱،ص۱۵۳۹،مفہوماً.
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع