30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
’’ بِسْمِِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ‘‘ کے ۱۹ حُروف کی نسبت سے اس کتاب کو پڑھنے کی۱۹ ’’ نیّتیں‘‘ فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم : نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہ۔ یعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔(المعجم الکبیر للطَبَراني، الحدیث: ۵۹۴۲، ج۶، ص۱۸۵) دو مَدَنی پھول: {۱} بغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔ {۲}جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔ {۱}ہر بارحمد و {۲}صلوٰۃ اور{۳}تعوُّذو{۴}تَسمِیہ سے آغاز کروں گا۔(اسی صفحہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے گا)۔ {۵}رِضائے الٰہی عزوجل کے لیے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مطالَعہ کروں گا۔ {۶} حتَّی الْوَسْعْ اِس کا باوُضُو اور {۷}قِبلہ رُو مُطالَعَہ کروں گا{۸}کتاب کو پڑھ کرکلام اللہ وکلام رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کوصحیح معنوں میں سمجھ کر اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب کروں گا {۹}درجہ میں اس کتاب پر استاد کی بیان کردہ توضیح توجہ سے سنوں گا {۱۰}استاد کی توضیح کو لکھ کر ’’اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ عَلَی حِفْظِکَ‘‘پر عمل کروں گا{۱۱}طلبہ کے ساتھ مل کر اس کتاب کے اسباق کی تکرار کروں گا{۱۲}اگر کسی طالب علم نے کوئی نا مناسب سوال کیا تو اس پر ہنس کر اس کی دل آزاری کا سبب نہیں بنوں گا {۱۳}درجہ میں کتاب ، استاد اور درس کی تعظیم کی خاطر غسل کرکے،صاف مدنی لباس میں،خوشبو لگا کر حاضری دوں گا{۱۴}اگر کسی طالب علم کو عبارت یامسئلہ سمجھنے میں دشواری ہوئی تو حتی الامکان سمجھانے کی کوشش کروں گا{۱۵}سبق سمجھ میں آجانے کی صورت میںحمد الٰہی عزوجل بجا لاؤں گا{۱۶}اورسمجھ میںنہ آنے کی صورت میں دعاء کروںگااور باربارسمجھنے کی کوشش کروں گا{۱۷}سبق سمجھ میںنہ آنے کی صورت میں استاد پر بدگمانی کے بجائے اسے اپنا قصور تصور کروں گا{۱۸}کتابت وغیرہ میں شَرْعی غلَطی ملی تو نا شرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا(مصنّف یاناشِرین وغیرہ کو کتا بوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتاناخاص مفید نہیں ہوتا){۱۹}کتاب کی تعظیم کرتے ہوئے اس پرکوئی چیزقلم وغیرہ نہیں رکھوںگا۔اس پر ٹیک نہیں لگاؤںگا۔ المد ینۃ العلمیۃ از:بانیِ دعوتِ اسلامی ،عاشق اعلیٰ حضرت، شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ الحمد للّٰہ علی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اِشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسن وخوبی سر انجام دینے کے لیے متعدِّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہُ تعالی پر مشتمل ہے ،جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں: (۱)شعبۂ کتُبِ اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۲)شعبۂ درسی کُتُب (۳) شعبۂ اِصلاحی کُتُب (۴)شعبۂ تفتیشِ کُتُب (۵)شعبۂ تراجِم کُتُب (۶)شعبۂ تخریج ’’ا لمد ینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلیٰحضرت اِمامِ اَہلسنّت،عظیم البَرَکت،عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامی ٔ سنّت، ماحی ٔبِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری الشّاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسعسَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ،تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔ اللہ عزوجل ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اخلاص سے آراستہ فرماکر دونوںجہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ہمیں زیرِ گنبدِ خضراء شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ پیش لفظ الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین اما بعد! کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے اس کی گرامر (بول چال کے قواعد )کو جاننا ضروری ہے،اور گرامرکو عموما دوہی طریقوں سے جانا جاتاہے،یاتو اہل زبان سے،یااس زبان کے قواعد وضوابط پر مشتمل کتب وتحریری مواد کے مطالعہ سے۔ عربی زبان کے اصول وقواعد کو علم صرف ونحو میں بیان کیا جاتاہے،بالفاظ دیگر عربی زبان کی گرامر کو صرف ونحو کہا جاتاہے۔اور چونکہ علوم عربیہ کو سمجھنے کے لیے علم نحوکا کردارکلیدی ہوتاہے، اسی لیے علوم عربیہ خصوصا قرآن وحدیث کو بہتر طریقے سے جاننے کے لیے اس علم کا جاننا ناگزیر قرار دیا جاتاہے۔اس علم کی اہمیت کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ اس علم کے واضع خود حضرت مولا علی شیر خدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم ہیں ۔حضرت ابوالاسْودابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ (متوفی۶۹ھ)فرماتے ہیں:’’میں نے باب مدینۃ العلم حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ کسی فکر میں ڈوبے ہوئے ہیںوجہ پوچھی تو فرمایا میں نے ایک شخص کو غلط گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے۔میں چاہتا ہوں عربی کے قواعد پر کوئی کتاب لکھی جائے ،تین دن کے بعد حاضر ہوا تو آپ نے ایک صحیفہ عنایت فرمایا جس میںاسم فعل اور حرف کی تعریف تھی اور فرمایا تم تلاش اور جستجو سے اس میں اضافہ کردو۔‘‘سیدناابو الاسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں باب عطف، نعت،تعجب،اور حروف مشبہ بالفعل کا اضافہ کیا۔جو کچھ لکھتے اسے اصلاح کے لیے حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں پیش کردیتے۔ (حاشیہ نحومیر،ازعلامہ عبد الحکیم شرف قادری علیہ رحمۃ اللہ الغنی ) منقول ہے کہ ایک مرتبہ امام ابو العباس ثعلب نحوی نے ابوبکرابن مجاہد مقری سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی خدمت کی کہ اس کی تفاسیر لکھیں،اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے احادیث کی خدمت کی کہ ان کو روایت کر کے دوسروں تک پہنچایااور ان کی شروحات لکھیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے فقہ کی خدمت کی، یہ سب کے سب فائز المرام ہوئے، اور میں علم نحو میں مشغول ہو کر (زید وعمرو)کرتا رہا۔میرا آخرت میں کیا حال ہوگا؟‘‘ حضرت ابوبکرابن مجاہد مقری علیہ رحمۃ اللہ الغنی فرماتے ہیں کہ میں اسی رات اپنے گھر آیا تو خواب میں سید عالم نور مجسم شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ’’جاؤاور ابو العباس سے ہمارا سلام کہنا اور ان سے کہنا ’’انت صاحب العلم المستطیل‘‘یعنی تم وسیع علم والے ہو‘‘ کہ قرآن وحدیث کا فہم علم نحو پر موقوف ہے۔ الحمد للہ علی احسانہ تبلیغ قرآن وسنت کی عالم گیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوت اسلامی‘‘ کی مجلس’’ المدینۃ العلمیۃ‘‘ کے ’’شعبہ ٔ درسی کتب ‘‘نے ’’نصاب الصرف‘‘کے بعد اب علم نحوکے انتہائی اہم قواعدپر مشتمل کتاب بنام ’’نصاب النحو‘‘ پیش کرنے کی سعی کی ہے جو جامعۃ المدینہ کے نصاب میں بھی داخل ہے۔اس پر مندرجہ ذیل نکات کے تحت کام کرنے کی کوشش کی گئی ہے: *…کتاب ھذا کوحتی المقدور سہل انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ *…کتاب کی افادیت کو بڑھانے کے لیے اسباق کے آخر میں مشقوں کا بھی اندراج کیا گیا ہے۔ *…مختلف اسباق میں جدید عربی الفاظ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے تاکہ طلبہ کا جدید الفاظ سیکھنے کی طرف میلان ہو۔ *… بعض مقامات پراسباق کی مناسبت سے مفید حواشی کا بھی اضافہ کیا گیاہے۔ *…اس کتاب میں طلبہ کے علمی ذوق کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہم معلومات پر مشتمل جگہ بہ جگہ درسی پھول خوشبوئیں لٹارہے ہیں جن کی افادیت کا اندازہ ان کے مطالعے کے بعد ہی کیا جاسکتاہے۔ *… کتاب کے آخر میں طلبہ کے علمی ذوق میں مزید اضافے کیلئے علم نحو کے ابتدائی قواعد و امثلہ پر مشتمل ایک مختصر ونہایت ہی مفید منظوم رسالہ بھی شامل کیا گیا ہے ،طلباء کرام اسے زبانی یاد کریں تاکہ کم ازکم وقت میں کثیر قواعد کو یاد کیا جا سکے۔ امید ہے کہ اس کتاب کے ذریعے طلبہ با آسانی علم نحو کے قواعد سیکھ کر ان کا اجراء کر سکیں گے ۔ آخر میں اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ اس کتاب کی تمارین سے صرف نظر نہ کریں بلکہ طلبہ سے حل کروائیں۔ان تمام تر کوششوں کے باوجود اگر اہل فن کتابت کی یا فنی غلطی پائیں تو مجلس کو مطلع فرما کر مشکور ہوں۔ اللہ عزوجل سے دعاء ہے کہ بانیٔ دعوت اسلامی حضرت مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی وتمام علماء اہل سنت کا سایۂ عاطفت ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے اورہمیں ان کے فیوض وبرکات سے مستفیض فرمائے اورقرآن وسنت کی عالم گیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوت اسلامی ‘‘کی تمام مجالس بشمول ’’المد ینۃ العلمیہ‘‘ کو دن پچیسویں، رات چھبیسویں ترقی عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم) شعبۂ درسی کتب مجلس ا لمدینۃ ا لعلمیہ (دعوت اسلامی) بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط سبق نمبر: 1ابتدائی باتیں
علم نحو کی تعریف: نحو کا لغوی معنی راستہ ،کنارہ یا ارادہ کرناہے۔جبکہ اصطلاح میں اس سے مراد وہ علم ہے جس میں ایسے قواعد بیان کئے جائیں کہ جن کے ذریعے اسم ،فعل اور حرف کے آخر میں تبدیلی واقع ہونے یانہ ہو نے اور اس تبدیلی کی نوعیت کا علم حاصل ہو،نیز کلمات کو آپس میں ملانے کا طریقہ بھی معلوم ہو۔ علم نحو کا موضوع: اس علم کا موضوع کلمہ اور کلام ہے کہ اس علم میں ان ہی کے احوال سے بحث ہوتی ہے۔ موضوع کی تعریف: کسی علم کا موضوع وہ شے ہوتی ہے جس کی ذات سے متعلقہ احوال کے بارے میں اس علم میں بحث کی جائے ، جیسا کہ علم طب کا موضوع بدنِ انسانی ہے۔ علمِ نحو کی غرض (فائدہ): عربی لکھنے اور بولنے میں ترکیبی غلطیوں سے بچنا۔ نحو کو نحوکہنے کی وجوہات: ۱۔ نحو کا ایک معنی’’ طریقہ‘‘ ہے۔چونکہ متکلم اس علم کے ذریعے عرب کے طریقے پر چلتاہے اس لیے اس علم کو’’ نحو‘‘ کہتے ہیں۔ ۲۔ نحو کا ایک معنی ’’کنارہ‘‘بھی ہے۔چونکہ اس علم میں کلمے کے کنارے پر موجود (آخری حرف )سے بحث کی جاتی ہے اس لیے اسے’’ نحو‘‘ سے تعبیرکیاگیا۔ ۳۔ اس کاایک معنی ’’ارادہ کرنا‘‘ بھی ہے۔ جس نے سب سے پہلے اس علم کے قواعد کو جمع کرنے کا ارادہ کیا اس نینَحَوْتُکا لفظ استعمال کیا ۔جس کا معنی ہے’’میں نے ارادہ کیا‘‘ اس لیے اسے’’ نحو ‘‘کہاگیا ۔ ۴۔اس کا ایک معنی’’ مثل ‘‘بھی ہے۔چونکہ اس علم کا جاننے والا عربوں کی مثل کلام کرنے پر قادر ہو جاتا ہے اس لیے اسے ’’نحو‘‘کا نام دیاگیا۔ علم نحو کا واضع: اس علم کے واضع حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ آ پ رضی اللہ تعالی عنہ ہی کے حکم سے حضرت ابوالاسود عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الصَّمَدْ نے باقاعدہ اس علم کی تدوین کی ۔ ***** سبق نمبر: 2لفظ اور اس کی اقسام کا بیان
لفظ کی تعریف: لفظ کالغوی معنی پھینکنا اوراصطلاحی معنی ’’مَایَتَلَفَّظُ بِہِ الِْانْسَانُ‘‘ ہے، یعنی جس کا انسان تلفظ کرے۔ لفظ کی اقسام: اس کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ مہمل ۲۔ موضوع ۱۔ مہمل کی تعریف: وہ لفظ جس کا کوئی معنی نہ ہو۔جیسے: وانی ، ووٹی، وائے وغیرہ۔ ۲۔موضوع کی تعریف: وہ لفظ جس کا کوئی معنی ہو ۔جیسے :پانی ، روٹی ، چائے وغیرہ۔ لفظ موضوع کی اقسام : اس کی دو قسمیں ہیں : ۱۔مفرد ۲۔ مرکب ۱۔مفردکی تعریف: وہ اکیلا لفظ جو بامعنی ہو۔اسے ’’کلمہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔جیسے :طَاوِلَۃٌ(میز)۔ ۲۔مرکب کی تعریف: وہ لفظ جودو یا دو سے زیادہ کلمات کا مجموعہ ہو۔جیسے:اَلْجوَّالُ جَدِیْدٌ (موبائل نیا ہے)، اَلْیَوْمَ أَکَلَ زَیْدُنِ الْعُجَّۃَ (زید نے آج آملیٹ کھایا) ***** مشق سوال نمبر1: مہمل اور موضوع الفاظ الگ الگ کریں۔ ۱۔ کھاناوانا ۲۔ میز ویز ۳۔ قلم ولم ۴۔ پیسے ویسے ۵۔ کرسی ورسی ۶۔ بستر و ستر ۷۔ چادر وادر ۸۔ بوتل ووتل ۹۔ کاپی واپی ۰۱۔ پنکھا ونکھا ۱۱۔ برتن ورتن ۲۱۔ بات وات سوال نمبر2: مفر داور مرکب الگ الگ کریں۔ ۱۔اَﷲُ وَاحِدٌ ۲۔مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ ۳۔عَالِمٌ ۴۔تِلْمِیْـذٌ ۵۔اَلْوَلَدُ نَائِمٌ ۶. رَکِبَ عَلِیٌّ ۷۔اَلْکِتَابُ ۸۔مَدِیْنَۃٌ ۹۔اَلْمَدْرَسَۃُ ۱۰۔جَائَ الأُسْتَاذُ ۱۱۔بَغْدَادُ ۱۲۔اَلْحَرُّ شَدِیْدٌ۔ سوال نمبر3: یہ بتائیں کہ ہر مرکب میں کتنے کلمات موجود ہیں؟ ۱۔عَالِمُ الغَیْبِ ۲۔جَائَ الْحَقُّ ۳۔کَنْزُالِایْمَانِ ۴۔اَلْوَلَدُ یَقْرَئُ القُرْآنَ ۵۔قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ ۶۔صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبِ ۷۔اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۸۔قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ۹۔أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ ۰۱۔أَلْھَوَائُ ضَرُوْرِيٌّ لِلْحَیَاۃِ ۱۱۔اَلْقِطَارُ(ریل) أَسْرَعُ مِنَ البَاصِّ(بس) ۲۱۔دَخَلَ عَلِیٌّ فِی الْمَسْجِد **** سبق نمبر: 3کلمہ کی اقسام کا بیان
کلمہ کی تین قسمیں ہیں: ۱۔اسم ۲۔فعل ۳۔حرف ۱۔ اسم کی تعریف: اسم کا لغوی معنی ’’بلندی‘‘ یا’’ نشانی‘‘ہے اور اصطلاح میں اس سے مراد وہ کلمہ ہے جودوسرے کلمہ سے ملے بغیر اپنے معنی پردلالت کرے اور تینوں زمانوں میں سے کوئی زمانہ بھی اس میں نہ پایا جائے۔جیسے :اَلْبَصْرَۃُ،اَلبَاکِسْتَانُ ۔ ۲۔فعل کی تعریف: فعل کا لغوی معنی’’ کام کرنا‘‘ہے۔ اور اصطلاح میں اس سے مرادوہ کلمہ ہے جودوسرے کلمہ سے ملے بغیر اپنے معنی پردلالت کرے اور تینوں زمانوںمیں سے کوئی زمانہ بھی اس میں پایا جائے۔جیسے : سِرْتُ (میں نے سیر کی/میں چلا) ۔ ۳۔حرف کی تعریف: حرف کا لغوی معنی’’ طرف‘‘یعنی کنارہ ہے۔اور اصطلاح میں اس سے مرادوہ کلمہ ہے جودوسرے کلمہ سے ملے بغیر اپنے معنی پردلالت نہ کرے ۔جیسے: مِنْاوراِلٰی۔ تینوں کی وضاحت: سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَۃِ اِلَی الْکُوْفَۃِ (میں بصرہ سے کوفہ تک چلا) اس مثال میں’’ سِرْتُ ‘‘(میںچلا) فعل ہے ،اس لیے کہ یہ دوسرے کلمے سے ملے بغیر اپنے معنی پردلالت کرتاہے اور اس میں زمانہ بھی پایا جارہا ہے۔ اوربصرہ اورکوفہ دونوں اسم ہیں،اس لیے کہ یہ دونوں دوسرے کلمے سے ملے بغیر اپنے معنی پر دلالت کرتے ہیں اور ان میں کوئی زمانہ بھی نہیں پایا جارہا۔ اورمِنْ اور اِلٰی دونوںحرف ہیں، اس لیے کہ یہ دونوں دوسرے کلمہ سے ملے بغیر اپنے معنی (ابتداء وانتہا) پر دلالت نہیں کرتے۔ ***** مشق سوال نمبر1: اسم،فعل اور حرف الگ الگ کریں۔ ۱۔زَیْدٌ ۲۔اِنْسَانٌ ۳۔رَخِیْصٌ (سستا) ۴۔ذَھَبَ (وہ گیا) ۵۔یَنْصُرُ (وہ مدد کرتاہے) ۶۔تَمْرٌ(کجھور ) ۷۔عَلٰی ۸۔فِی ۹. لَبَنٌ (دودھ) ۰۱۔أَکَلَ ( اس نے کھایا ) ۱۱۔مِنْ ۲۱۔عَنْ ۳۱۔بَیْتٌ (گھر) ۴۱۔حَتی ۵۱۔یَغْسِلُ (وہ غسل کرتاہے) ۶۱۔اِلٰی ۷۱۔یَشْرَبُ ( وہ پیتا ہے) ۸۱۔ثَوْبٌ(کپڑا) ۹۱۔خُبْزٌ (روٹی) ۰۲۔دَرْسٌ (سبق) ۔ سوال نمبر2: درج ذیل جملوں میںسے اسم فعل اورحرف الگ الگ کریں۔ ۱۔ذَھَبَ زَیْدٌ اِلیَ الْمَسْجِدِ (زید مسجد کی طرف گیا) ۲۔زَیْدٌ یَأْکُلُ الْخُبْزَ (زید روٹی کھاتاہے) ۳۔اَلْوَلَدُ یَشْرَبُ الْمَائَ (بچہ پانی پیتاہے) ۴۔اَلثَّوْبُ رَخِیْصٌ (کپڑا سستاہے) ۵۔ذَھَبَ الأُسْتَاذُ اِلیَ الْمَسْجِدِ (استاد مسجد کی طرف گیا) ۶۔جَلَسَ الامَامُ فِی الْمَسْجِدِ (امام مسجد میں بیٹھا)۔ **** سبق نمبر: 4اسم، فعل اور حرف کی علامات کا بیان
علامات ، علامت کی جمع ہے۔ہر چیز کی کوئی نہ کوئی علامت ہوتی ہے جس سے وہ چیز پہچانی جاتی ہے۔ لہٰذا اسم ،فعل اورحرف کی علامات بیان کی جاتی ہیں۔ ۱۔اسم کی علامات: ۱۔ شروع میں الف لام کا ہونا۔جیسے:اَلْحَمْدُ۔ ۲۔آخر میں تنوین کا ہونا۔ جیسے: زَیْدٌ۔ ۳۔ تثنیہ ہونا(۱)۔جیسے:کِتَابَانِ۔ ۴۔جمع ہونا۔جیسے: مُسْلِمُوْنَ۔ ۵۔مذکر ہونا۔ جیسے: ضَارِبٌ۔ ۶۔مؤنث ہونا۔جیسے: ضَارِبَۃٌ۔ ۷۔ شروع میں حرف نداء کا ہونا۔جیسے: یَا یُوْسُفُ۔ ۸۔ شروع میں حرف جر کا ہونا۔ جیسے: فِی الْقَافِلَۃِ۔ ۹۔موصوف ہونا۔جیسے:عَبْدٌ مُؤمِنٌ میں عَبْدٌ۔ ۱۰۔ منسوب ہونا۔جیسے:رَضَوِیٌّ، مَکِّیٌّ۔۱۱۔مضاف ہونا۔ جیسے:طِفْلُ زَیْدٍ میں طِفْلُ۔ ۱۲۔مسند الیہ ہونا۔جیسے: زَیْدٌ قَائِمٌ میں زَیْدٌ۔ ۱۳۔مصغر ہونا۔جیسے: حُسَیْنٌ۔ ۲۔فعل کی علامات: ۱۔ماضی ہونا ۔ جیسے:نَصَرَ۔ ۲۔ مضارع ہونا۔ جیسے:یَنْصُرُ۔ ۳۔امر ہونا۔ جیسے : اُنْصُرْ۔ ۴۔ نہی ہونا۔ جیسے:لاَ تَنْصُرْ۔ ۵۔شروع میں قدکا ہو نا۔ جیسے:قَدْ دَخَلَ۔ ۶۔ شروع میں سین یا سوفکا ہو نا۔جیسے:سَیَعْلَمُ، سَوْفَ یَعْلَمُ۔ ۷۔شروع میں حروف جوازم میں سے کسی حرف کا ہونا ۔ جیسے: لَمْ یَضْرِبْ۔ ۸۔ شروع میں حروف نواصب میں سے کسی حرف کا ہونا ۔ جیسے:لَنْ یَّضْرِبَ۔ ۹۔آخر میں نون تاکید کا ملا ہونا چاہے ثقیلہ ہو یا خفیفہ ۔ جیسے :لَیَضْرِبَنَّ، لَیَضْرِبَنْ۔ ۱۰۔ آخر میں تائے ساکنہ کا ہونا۔ جیسے :دَخَلَتْ۔ ۱۱۔ آخر میں ضمیر مرفوع متصل بارز کا ہونا۔ جیسے: خَرَجْتُ۔ ۱۲۔صرف مسند ہونا۔جیسے : ضَرَبَ زَیْدٌ میںضَرَبَ۔ ۳۔حرف کی علامات: اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں اسم اورفعل کی کوئی علامت نہیں ہوتی۔ البتہ اس کے چند فوائد ہیں۔ جیسے دو اسموں یا دوفعلوںیا دوجملوں یا اسم اور فعل میں ربط پیدا کرنا۔ مثلاً: زَیْدٌ فِی الدَّارِ، تَعَلَّمَ زَیْدُنِ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ، اِنْ تَضْرِبْ أَضْرِبْ، ضَرَبْتُ بِالْیَدِ۔ ***** مشق سوال نمبر 1: اسم ،فعل اورحرف الگ الگ کریں اور ان کی علامات کی نشاندہی کریں۔ ۱۔قَدْ جَائَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ۔ ۲۔قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ۔ ۳۔فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ۔ ۴۔جَلَسْتُ فِی الْمَسْجِدِ۔ ۵۔جَائَ السَّارِقُ فِی الْبَیْتِ۔ ۶۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ ۷۔اَلصَّرْ فُ أُمُّ الْعُلُوْمِ وَالنَّحْوُ أَبُوْھَا۔ ۸۔اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ۔ ۹۔کُلُوْا وَاشْرَبُوْاوَلاَ تُسْرِفُوْا۔ ۱۰۔اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ ۱۱۔زَیْدٌٌ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ۔ ۱۲۔مَا ضَرَبَ زَیْدٌ۔ ۱۳۔ھَلْ تَشْکُرُ اللّٰہَ بَعْدَ الطَّعَامِ؟ ۱۴۔یَعْبُدُ الْمُسْلِمُ رَبَّہٗ۔ ۱۵۔ھَلْ فِی الْحَدِیْقَۃِ أَشْجَارٌ؟ ۱۶۔خَالِدٌ کَالْأَسَدِ۔ ۱۷۔طَلَعَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْمَشْرِقِ۔ ۱۸۔دَخَلُوْا فِی دَارِہٖ۔ ۱۹۔أُحِبُّ جَمْعِیَّۃَ ’’الدَّعْوَۃِ الِاسْلاَمِیَّۃِ‘‘۔ ۲۰۔اُنْظُرْ اِلیَ الْجَبَلِ۔ ۲۱۔اَلْوَلَدُ یَذْھَبُ اِلیَ الْمَدْرَسَۃِ۔ ۲۲۔اِجْلِسْ عَلیَ السَّرِیْرِ۔ ۲۳۔جِئْتُ مِنْ لاَہَوْرَ۔ ۲۴۔ھٰذَاالْکِتَابُ لِزَیْدٍ۔ ۲۵۔قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ۔ ۲۶۔لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ۔ **** سبق نمبر: 5جنس کے اعتبار سے اسم کی اقسام
جنس کے اعتبار سے اسم کی دو قسمیں ہیں : ۱۔ مذکر ۲۔ مؤنث ۱۔اسم مذکرکی تعریف: وہ اسم جس میں تانیث کی علامت نہ ہو۔جیسے : فَرَسٌ(گھوڑا)۔ ۲۔اسمِ مؤنث کی تعریف: وہ اسم جس میں تانیث کی علامت(۱) پائی جاتی ہو۔ جیسے: نَاقَۃٌ (اونٹنی) علاماتِ تأنیث: تانیث کی تین علامات ہیں : ۱۔ گول تاء (ۃ)جیسے : بَقَرَ ۃٌ۔ ۲۔ الف مقصورہ جیسے:بُشْرٰی۔ ۳۔ الف ممدودہ جیسے:سَوْدَآئُ۔ فائدہ: مؤنث کی دو طرح تقسیم کی گئی ہے: (۱)مؤنث کے مقابلے میں نر جاندار ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے۔ (۲)مؤنث کے آخر میں علامت تانیث ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے۔ تقسیم اول اس اعتبار سے مؤنث کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ مؤنث حقیقی ۲۔مؤنث لفظی ۱۔مؤنث حقیقی کی تعریف: وہ مؤنث جس کے مقابلے میں نر جاندار ہو چاہے اس میں علامت تانیث ہو یا نہ ہو۔ جیسے: اِمْرَأۃٌ۔ اس کے مقابلے میں اِمْرَئٌ (مرد) نر جاندار ہے اور أَتَانٌ (گدھی) اس کے مقابلے میں حِمَارٌ (گدھا) نر جاندارہے۔ ۲۔ مؤنث لفظی کی تعریف: وہ مؤنث جس کے مقابلے میں کوئی نر جاندار نہ ہو خواہ اس میں علامت تانیث ہو یانہ ہو۔جیسے: ظُلْمَۃٌ(اندھیرا)اور عَیْنٌ (پانی کا چشمہ) تقسیم ثانی اس اعتبار سے بھی مؤنث کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ مؤنث قیاسی ۲۔ مؤنث سماعی ۱۔مؤنث قیاسی کی تعریف: وہ مؤنث جس میں علامت تانیث لفظا ًموجود ہو۔ جیسے: عَائِشَۃُ۔ ۲۔مؤنث سماعی کی تعریف: وہ مؤنث جس میں علامت تانیث لفظا ًموجود نہ ہو لیکن اہل عرب اسے بطور مؤنث استعمال کرتے ہوں ۔ جیسے: اَرْضٌ، شَمْسٌ۔ فائدہ: اہل عرب جن اسماء کو بغیر علامت تانیث مؤنث استعمال کرتے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں: ۱۔حَرْبٌ(جنگ) ۲۔کَأسٌ(پیالہ) ۳۔عَصَا(لاٹھی) ۴۔أَفْعٰی (خبیث سانپ) ۵۔فَلَکٌ (آسمان) ۶۔نَعْلٌ(جوتا) ۷۔بِئْرٌ(کنواں) ۸۔ نَابٌ (نوکیلے دانت) ۹۔ثَعْلَبٌ(لومڑی) ۱۰۔أَرْنَبٌ( خرگوش) ۱۱۔أَرْضٌ (زمین ) ۱۲۔شَمْس (سورج)۔۱۳… عورتوں کے تمام نام۔جیسے: مَرْیَمُ، زَیْنَبُ، ھِنْدٌ۔ ۱۴…وہ اسماء جو عورتوں ہی کے لیے مخصوص ہوں ۔جیسے: أُمٌّ، عُرُوْسٌ۔ ۱۵… شرابوںکے تمام نام۔ جیسے: خَمْرٌ۔ ۱۶… دوزخ کے تمام نام۔جیسے: سَعِیْرٌ، جَحِیْمٌ، سَقَرُ۔ ۱۷… جسم کے وہ اعضاء جو دو دو ہوں(۱)۔ جیسے : یَدٌ ( ہاتھ) رِجْلٌ( ٹانگ) اور أُذُنٌ (کان)۔ ۱۸…ہواؤں کے تمام نام ۔ جیسے: صَبَا، قَبُوْلٌ، دَبُوْرٌ، جَنُوْبٌ، شَمَالٌ۔ تنبیہ: بعض اسماء مذکر ومؤنث دونوں طرح استعمال ہوتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: سِکِّیْنٌ(چھری) سُلَّمٌ(سیڑھی) سُوْقٌ(بازار) سَبِیْلٌ(راستہ) طَرِیْقٌ (راستہ) کَبِدٌ(کلیجی) حَالٌ(حالت) حَانُوْتٌ(دکان) رِحْمٌ(بچہ دانی) لِسَانٌ(زبان) نَفْسٌ (جان) سَمَائٌ(آسماـن) سِلاَحٌ(ہتھیار) رُوْحٌ(روح) جَرَادٌ(ٹڈی) بَلَدٌ(شہر) ***** مشق سوال نمبر1:۔ علامت ِ تانیث کی نشاندہی کریں۔ ۱۔غُرْفَۃٌ ۲۔صَحْرَائُ ۳۔حُبْلٰی ۴۔دَرَّاجَۃٌ ۵۔مَکْتَبَۃٌ ۶۔حَمْرَائُ ۷۔عُظْمٰی ۸۔أَشْیَـائُ ۹۔کُبْـرٰی ۰۱۔سَیَّارَۃٌ ۱۱۔خَضْرَائُ۔ سوال نمبر2:۔ مذکر ومؤنث علیحدہ علیحدہ کریں۔ شَیْـخٌ، جَـدَّۃٌ، عُصْفُوْرَۃٌ، أُمٌّ، زَیْنَبُ، اِمْـرَئٌ، اِمْـرَأَ ۃٌ، طَائِرٌ، أُذُنٌ، فَمٌ، أَرْضٌ، وَقْتٌ، سَوْدَائُ، صُغْرٰی، رَجُلٌ، کِتَابٌ، کُرَّاسَۃٌ۔ سوال نمبر3:۔ درج ذیل اسماء مؤنث کی کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں ؟ ۱۔جَدَّۃٌ ۲۔أُخْتٌ ۳۔ أُمٌّ ۴۔عُصْفُوْرَۃٌ ۵۔زَیْنَبُ ۶۔اِمْرَأَ ۃٌ ۷۔أُذُنٌ ۸۔جَھَنَّمُ ۹۔سَعِیْرٌ ۰۱۔سَوْدَائُ ۱۱۔یَدٌ ۲۱۔کُرَّاسَۃٌ۔ **** سبق نمبر: 6افراد کے اعتبار سے اسم کی اقسام
اس اعتبار سے اسم کی تین قسمیں ہیں: ۱. واحد ۲. تثنیہ ۳.جمع. ۱۔واحدکی تعریف(۱): وہ اسم جو ایک فرد پر دلالت کرے ۔جیسے:مُسْلِمٌ (ایک مسلمان مرد ) ۲۔تثنیہ کی تعریف: وہ اسم جو دو افراد پر دلالت کرے۔ جیسے: مُسْلِمَانِ( دو مسلمان مرد) تثنیہ بنانے کا طریقہ: واحد کے آخر میں --َانِ ( الف ما قبل مفتوح اور نون مکسور) لگانے سے بنتا ہے یا --َ ینِ ( یا ء ساکن ماقبل مفتوح اور نون مکسور) لگانے سے بنتا ہے ۔جیسے: مُسْلِمٌسے مُسْلِمَانِ(۲) یا مُسْلِمَیْنِ(۳)۔ ۳۔جمع کی تعریف: وہ اسم جودوسے زیادہ افراد پر دلالت کرے۔ جیسے: مُسْلِمُوْنَ، رِجَالٌ۔ بناء کے اعتبار سے جمع کی اقسام جمع کی دو قسمیں ہیں: ۱. جمع سالم ۲. جمع مکسر. ۱۔جمع سالم کی تعریف: وہ جمع جس میں واحد کی صورت سلامت ہو صرف اس کے آخر میں کچھ حروف (وْنَ، یْنَ، اتٌٍ) بڑھا دئیے گئے ہوں۔جیسے: مُسْلِمٌ سے مُسْلِمُوْنَ،أَرْضٌ سے أَرْضُوْنَ، اور مُسْلِمَۃٌ سے مُسْلِمَاتٌ۔ جمع سالم کی اقسام جمع سالم کی دو قسمیں ہیں: ۱. جمع مذکر سالم ۲. جمع مؤنث سالم. ۱۔جمع مذکرسالم کی تعریف: وہ جمع جو واؤساکن ماقبل مضموم اورنون مفتوحہ(--ُوْنَ)یا یاء ساکن ماقبل مکسوراور نون مفتوحہ(--ِ یْنَ) بڑھاکربنائی گئی ہو۔ جیسے : مُسْلِمٌ سے مُسْلِمُوْنَ(۱)، مُسْلِمِیْنَ(۲)۔ بنانے کاطریقہ: یہ جمع واحد کے آخر میں-ُوْنَ( واؤ ساکن ما قبل مضموم اورنون مفتوحہ) یا -ِیْنَ(یاء ساکن ماقبل مکسوراور نون مفتوحہ) کا اضافہ کرنے سے بنتی ہے۔ جیسے مذکورہ مثالیں۔ ۲۔جمع مؤنث سالم کی تعریف: وہ جمع جو الف اور تائ(-َاتٌٍ)بڑھاکر بنائی گئی ہو۔ جیسے : مُسْلِمَۃٌسے مُسْلِمَاتٌ(۱)، مُسْلِمَاتٍ(۲)۔ بنانے کا طریقہ: واحد کے آخر میں -َاتٌٍ(الف ما قبل مفتوح اورتائے مضمومہ یا مکسورہ) لگانے سے بنتی ہے ،جیسے مذکورہ مثالیں۔ ۲۔جمع مکسرکی تعریف: وہ جمع جس میں واحد کی صورت سلامت نہ رہے ۔جیسے :قَلَمٌ سے أَقْلامٌ، رَجُلٌ سے رِجَالٌاور مَسْجِدٌ سے مَسَاجِدُ۔ تعدادِ اَفراد کے اعتبار سے جمع کی اقسام تعدادِ اَفراد کے اعتبا ر سے جمع کی دو قسمیں ہیں: ۱۔جمع قلت ۲۔جمع کثرت . ۱۔جمع قلت کی تعریف: وہ جمع جو تین سے لیکر دس تک افر اد پر دلالت کر ے۔ جیسے:أَقْوَالٌ، أَنْفُسٌ وغیرہ۔ جمع قلت کے اوزان: اس کے مندرجہ ذیل چھ اوزان ہیں ۔یعنی ان اوزان میں سے کسی وزن پر آنے والی جمع ’’جمع قلت‘‘ کہلائے گی: (۱) أَفْعَالٌ۔ جیسے: أَقْلامٌ (۲) فِعْلَۃٌ۔جیسے:غِلْمَۃٌ۔ (۳)أَفْعُلٌ۔جیسے:أَنْفُسٌ۔ (۴)أَفْعِلَۃٌ۔جیسے:أَلْسِنَۃٌ (۵)مُفْعِلُوْنَ(۱) جیسے : مُسْلِمُوْنَ (۶) مُفْعِلاَتٌ(۲) جیسے : مُسْلِمَاتٌ ۲۔جمع کثرت کی تعریف: وہ جمع جو دس سے اوپر لا محدود افراد پر دلالت کرے جیسے: عُلَمَائُ، طَلَبَۃٌ وغیرہ۔ جمع کثرت کے اوزان: اس کے کثیر اوزان ہیں چند مشہور اوزان درج ذیل ہیں۔ ۱۔فِعَالٌ۔جیسے:عِبَادٌ۔ ۲۔فُعَلاَئُ۔جیسے:عُلَمَائُ۔ ۳۔أَفْعِلاَئُ۔جیسے:أَنْبِیَائُ۔ ۴۔فُعُلٌ۔ جیسے:رُسُلٌ۔۵۔فُعُوْلٌ۔جیسے:نُجُوْمٌ۔ ۶۔فُعَّالٌ۔ جیسے: خُدَّامٌ۔۷۔فَعْلٰی۔جیسے:مَرْضٰی۔ ۸.فَعَلَۃٌ۔ جیسے: طَلَبَۃٌ۔ ۹۔فِعَلٌ۔جیسے:فِرَقٌ.۱۰.فِعْلانٌ. جیسے : غِلْمَانٌ۔ تنبیہ: جمع مکسر کی ایک ایسی قسم بھی ہے جس کی مزید جمع مکسر نہیںبن سکتی۔جیسے: سِوَارٌ کی جمع أَسْوِرَۃٌ اورأَسْوِرَۃٌ کی جمع أَسَاوِرُ ہے۔ اب آگے مزید اس کی جمع مکسر نہیں بن سکتی۔ ایسی جمع کو ’’جمع منتہی الجموع‘‘ کہتے ہیں۔ جمع منتہی الجموع کے صیغے کی تعریف: وہ صیغہ جس کا پہلا حرف مفتوح اور تیسری جگہ الف (علامت ِ جمع منتہی الجموع)ہو اور اس کے بعد ایک حرف ِ مشددہو۔ جیسے: دَوَابُّ۔ یا دو حروف ہوںجن میں پہلا مکسورہو۔ جیسے: مَسَاجِدُ۔ یا تین حروف ہوںجن میں پہلا مکسور اور دوسرا ساکن ہو۔ جیسے: مَفَاتِیْحُ۔ جمع منتہی الجموع کے اوزان: اس کے کثیر اوزان ہیں ،چند کثیر الاستعمال درج ذیل ہیں ۔ ۱۔ فَعَالِلُ۔جیسے :دَرَاھِمُ۔ ۲۔فَعَالِیْلُ۔ جیسے: دَنَانِیْرُ۔ ۳۔فَوَاعِلُ۔ جیسے : جَوَاھِرُ۔ ۴۔ مَفَاعِلُ۔جیسے: مَسَاجِدُ۔ ۵۔مَفَاعِیْلُ۔جیسے:مَسَاکِیْنُ۔ ۶۔ فَعَائِلُ۔جیسے : رَسَائِلُ۔ جمع کے چند ضروری قواعد: *جمع مذکر سالم صر ف مذکرذوی العقول کے اعلام اور ان کی صفات ہی کی آتی ہے۔جیسے: زَیْدٌ سے زَیْدُوْنَ، مُسْلِمٌسے مُسْلِمُوْنَ۔ لہٰذا ہِنْدٌ کی جمع ہِنْدُوْنَ، قَلَمٌ کی جمع قَلَمُوْنَ اور رَجُلٌ کی جمع رَجُلُوْنَ نہیں بناسکتے کیونکہ اول مذکر نہیں ، ثانی ذوی العقول سے نہیں اور ثالث نہ علَم ہے اور نہ صفت۔ مذکر ذوی العقول کا علَم ہوتو یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے آخر میںتاء (ۃ)نہ ہو۔ لہٰذ ا طَلْحَۃُ کی جمع طَلْحَتُوْنَ نہیں بنا سکتے کیونکہ اس کے آخر میںۃ موجود ہے۔ اورمذکرذوی العقول کی صفت ہوتو یہ ضروری ہے کہ اس کی مؤنث میں تاء (ۃ)آتی ہو۔ لہذا أَحْمَرُ کی جمع أَحْمَرُوْنَ، سَکْرَانُ کی جمع سَکْرَانُوْنَ اور جَرِیْحٌ کی جمع جَرِیْحُوْنَ نہیں لاسکتے کیونکہ ان کی مؤنث میں ۃ نہیں آتی ۔ ہاں !اسم تفضیل اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی مؤنث میں اگرچہ تائ(ۃ ) نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود اس کی جمع مذکرسالم بن سکتی ہے۔ جیسے: أَکْرَمُ سے أَکْرَمُوْنَ۔ تنبیہ: أَرْضٌ کی جمع أَرْضُوْنَ، سَنَۃٌ کی جمع سِنُوْنَاور اس طرح کی دیگر جموع، شاذّ (خلاف قیاس) ہیں ۔ *…کبھی جمع کے حروف واحد کے حروف کے غیر(مغائر) ہوتے ہیں جیسے اِمْرَأَ ۃٌ کی جمع نِسَائٌ اور ذُوْ کی جمع أُولُو۔ایسی جمع کو ’’جَمْعٌ مِنْ غَیْرِ لَفْظِ وَاحِدِہ‘‘ کہتے ہیں۔ *…کبھی واحد اور جمع کی شکل بالکل ایک جیسی ہوتی ہے ،فرق صر ف اعتباری ہوتا ہے ۔ جیسے: فُلْکٌ(کشتیاں) اس کا واحد بھی فُلْکٌ(کشتی) ہے ۔ ان میں فرق صرف اس طرح کرتے ہیں کہ جب یہ واحد ہوتو بروزن قُفْلٌ (تالا)اور جمع ہو تو بروزن أُسْدٌ ( بہت سے شیر ) ہو گا۔ فائدہ: جمع اور اسم جمع میں فرق یہ کہ جمع کے لیے مفردہوناضروری ہے مِنْ لَفْظِہ ہویا مِنْ غَیْرِ لَفْظِہ،جبکہ اسم جمع وہ ہے جو جمع کا معنی تو دے مگر اس کا کوئی مفرد نہ ہو۔ جیسے: قَوْمٌ، رَھْطٌ(گروہ) وغیرہ۔ ***** مشق سوال نمبر1: واحد،تثنیہ اورجمع الگ الگ کریں ۔ کِتَابٌ، کُتُبٌ، مُسْلِمَانِ، أَفْرَادٌ، مَسْجِدٌ، رَجُلٌ، أَطْفَالٌ، خُدَّامٌ، مَرَضٰی، مَشْرِقٌ، أَوْقَاتٌ، شَھْرٌ، کَرِیْمَانِ، فَاعِلاَنِ، مَعْرُوْفَانِ۔ سوال نمبر2: جمع سالم و مکسر علیحدہ علیحدہ کریں۔ مُسْلِمُوْنَ، مَسَاجِدُ، أَنْفُسٌ، مُسْلِمَاتٌ، أَنْبِیَائُ، مُشْرِکُوْنَ، عَالِمَاتٌ، رِجَالٌ، أَنْھَارٌ، أَنْھُرٌ، مَسَاکِیْنُ، دَرَاھِمُ، أَرْضُوْنَ، مُؤْمِنُوْنَ۔ سوال نمبر3:۔ درج ذیل اسماء کا تثنیہ اور جمع بنائیں۔ ۱۔مُسْلِمٌ۔ ۲۔عَامِلٌ۔ ۳۔وَرَقَۃٌ۔ ۴۔کِتَابٌ۔ ۵۔مَسْجِدٌ۔ ۶۔رَجُلٌ۔ ۷۔قَلَمٌ۔ ۸۔طَائِرٌ۔ ۹۔نَھْرٌ۔ ۱۰۔یَوْمٌ۔ ۱۱۔مَکْتُوْبٌ۔ ۱۲۔مَشْعَلٌ۔ ۱۳۔لِسَانٌ۔ ۱۴۔غُلامٌ۔ ۱۵۔نَفْسٌ۔ ۱۶۔صَادِقَۃٌ۔ ۱۷۔مُشْرِکٌ۔ ۱۸۔سَمَائٌ۔ ۱۹۔شَیْئٌ۔ ۲۰۔مَیِّتٌ ۔ ۲۱۔أَفْضَلُ۔ ۲۲۔یَدٌ۔ ۲۳۔رِسَالَۃٌ۔ ۲۴۔مَلَکٌ۔ ۲۵۔دَرَجَۃٌ۔ ۲۶۔صَدْرٌ۔ **** سبق نمبر: 7تعریف اور تنکیر کے اعتبار سے اسم کی اقسام
تعریف وتنکیر کے اعتبا ر سے اسم کی دوقسمیں ہیں : ۱۔ معرفہ ۲۔ نکرہ. ۱۔معرفہ کی تعریف: وہ اسم جو کسی معین شے پردلالت کرے ۔جیسے:زَیْدٌ، ہُوَ، غُلامُ زَیْدٍ وغیرہ۔ ۲۔نکرہ کی تعریف: وہ اسم جو کسی غیر معین شے پردلالت کرے۔ جیسے: رَجُلٌ، غَُلامٌ، قَلَمٌ وغیرہ۔ اسم معرفہ کی اقسام اسم معرفہ کی سات اقسام ہیں: ۱۔اسم ضمیر: وہ اسم جو متکلم ،مخاطب یا غائب پر دلالت کرے ۔جیسے:أَنَا، أَنْتَ، ھُوَ۔ ۲۔اسم عَلَم: وہ اسم جوکسی ایک ہی معین شخص ،جگہ یا چیزکے لیے وضع کیاگیاہوجیسے : خَالِدٌ، مَکَّۃُ۔ ۳۔اسم اشارہ: وہ اسم جس کے ذریعے کسی معین شے کی طرف اشارہ کیا جائے جیسے:ھَذٰا، ذَالِکَ۔ ۴۔اسم موصول: وہ اسم جو صلہ (۱)کے ساتھ ملکر جملے کا جز ء بنے۔ جیسے: اَلَّذِیْ، اَلَّتِیْ وغیرہ۔ ۵۔معرف باللام: وہ اسم جس کے شروع میںلامِ تعریف ہو۔ جیسے:اَلْکِتَابُ، اَلرَّجُلُ وغیرہ۔ فائدہ: ۱۔جس اسم پر الف لام داخل ہواس کے آخرمیں تنوین نہیں آئے گی۔ جیسے:اَلطَّاوِلَۃُ(میز)۔ ۲۔نکرہ کو معرفہ بنادینے والے الف لام کو ’’حرف تعریف ‘‘کہتے ہیں ۔ ۶۔معرف بالاضافۃ: وہ اسم جو مذکورہ پانچ قسموں میں سے کسی ایک کی طرف مضاف ہو جیسے :غُلامُہٗ وغیرہ۔ ۷۔معرف بالندائ: وہ اسم جس کے شروع میں حرف نداء ہو۔ جیسے: یَارَجُلُ وغیرہ۔ اسم نکرہ کی اقسام اسم نکرہ کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ نکرہ مخصوصہ ۲۔ نکرہ غیر مخصوصہ. ۱۔نکرہ مخصوصہ کی تعریف: وہ اسم نکرہ جسے تخصیص کے طریقوں میں سے کسی طریقے سے خاص کیا گیا ہو۔ مثلاً صفت لگا کر یا دوسرے اسم نکرہ کی طرف مضاف کرکے۔ جیسے :رَجُلٌ عَالِمٌ اور طِفْلُ رَجُلٍ۔ ۲۔نکرہ غیرمخصوصہ کی تعریف: وہ اسم نکرہ جسے تخصیص کے طریقوں میںسے کسی بھی طریقے سے خاص نہ کیا گیا ہو۔ جیسے: کِتَابٌ وغیرہ۔ فائدہ: ۱۔ نکرہ کے آخر میں آنے والی تنوین کو ’’حرف تنکیر ‘‘کہتے ہیں ۔اردو میں عموماً اس کا ترجمہ ’’کوئی ‘‘ یا’’ ایک‘‘ یا ’’کچھ ‘‘ کیا جاتا ہے۔جیسے :طِفْلٌ (کوئی بچہ) ، لَبَنٌ( کچھ دودھ)۔ ***** مشق سوال نمبر1: نکرہ ومعرفہ الگ الگ کریں۔ زَیْدٌ، مِصْرٌ، رَجُلٌ، اَلْکِتَابُ، ھٰذَا، أَنَا، دَارٌ، اَلَّذِیْ، قَلَمٌ، کِتَابٌ، سَارِقٌ، یَاطِفْلُ، طِفْلٌ صَغِیْرٌ، غُلامُ رَجُلٍ، کَرَاتشِی۔ سوال نمبر2: مندرجہ ذیل اسماء معرفہ کی کونسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں؟ یَاغُلامُ، کِتَابُ زَیْدٍ، کِتَابِیْ، اَلْمَدِیْنَۃُ، اَلَّتِیْ، ذَالِکَ، ھُوَ، نَحْنُ، یُوْسُفُ، بَغْدَادُ، یَا نَارُ، أَنْتَ، اَللّٰہُ، اَلصَّلٰوۃُ، کِتَابُ النَّحْوِ۔ سوال نمبر3: عربی بنائیں۔ ۱۔کچھ دودھ ۲۔ روٹی ۳۔ کچھ ستارے ۴۔ کوئی آدمی ۵۔ کوئی استاد ۶۔شاگرد ۷۔ کوئی انسان ۸۔ کچھ پھل ۹۔ قلم ۱۰۔ چیونٹی ۱۱۔ گھر ۱۲۔ تھوڑانمک۔ سوال نمبر4:مندرجہ ذیل اسماء میں سے نکرہ مخصوصہ اور غیر مخصوصہ علیحدہ علیحدہ کریں۔ ۱۔عَالِمٌ ۲۔عَالِمٌ کَبِیْرٌ ۳۔غُلامٌ ۴۔غُلامُ رَجُلٍ ۵۔طِفْلٌ ۶۔سَیْفٌ ۷۔عَبْدٌ مُّؤْمِنٌ ۸۔وَقْتٌ ۹۔وَقْتٌ قَلِیْلٌ ۱۰۔دَارٌ ۱۱۔کَلْبٌ ۱۲۔کِتَابُ طَالِبٍ۔ سوال نمبر5: ترجمہ کریں ۔ ۱۔مَائٌ ۲۔اَلْمَائُ ۳۔کِتَابٌ ۴۔رَجُلٌ ۵۔اَلْمُسْلِمُ ۶۔غُلاَمٌ ۷۔قَرْیَۃٌ ۸۔سُوْرَۃٌ ۹۔اَلشَّہْرُ ۱۰۔اَلْوَقْتُ ۱۱ ۔شَیْخٌ ۱۲۔اَلشَّیْخُ۔ **** سبق نمبر: 8معرب، مبنی اور عامل کا بیان
اعراب وبناء کے اعتبار سے کلمے کی دو قسمیں ہیں : ۱۔ معرب ۲۔مبنی. ۱۔معرب کی تعریف: وہ کلمہ جس کا آخر عامل کے بدلنے سے بدل جائے اسے’’ اسم متمکن‘‘ (اعراب قبول کرنے والا) کہتے ہیں ۔جیسے :جَائَ زَیْدٌ،حَبَسْتُ زَیْداً عَنِ اللََّعِبِ،کَتَبْتُ اِلٰی زَیْدٍ رِسَالَۃً۔ ان مثالوں میں زید معرب ہے جس کا آخر عامل کے بدلنے کی وجہ سے بدل رہاہے۔ ۲۔مبنی کی تعریف: وہ کلمہ جس کا آخر عامل کے بدلنے سے نہ بدلے جیسے :صَامَ ھٰؤُلاَئِ، رَأَیْتُ ھٰؤُلاَئِ، نَظَرْتُ اِلٰی ھٰؤُلاَئِ۔ان مثالوں میں ھٰؤُلاَئِ مبنی ہے جس کا آخر عامل کے بدلنے کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوا۔ عامل کی تعریف: جس کی وجہ سے معرب کا آخر بدل جاتا ہے ۔جیسے: وَصَلَ الْقِطَارُ اِلَی الْمَحَطَّۃِ (ٹرین اسٹیشن پر پہنچ گئی)میںوَصَلََ عامل ہے؛ کیونکہ اس کی وجہ سے الْقِطَارُ معرب کا آخر بدل گیا۔ عامل کی اقسام عامل کی دو اقسام ہیں : ۱۔ لفظی ۲۔ معنوی. ۱۔لفظی عامل کی تعریف: وہ عامل جو لفظوں میں آسکے۔جیسے مذکورہ مثال میں وَصَلعامل لفظوں میں موجود ہے لہٰذا یہ’’عامل لفظی ‘‘کہلائے گا۔ ۲۔معنوی عامل کی تعریف: وہ عامل جو لفظوں میں نہ آسکے۔ جیسے:اَلرِّیَاضَۃُ مُفِیْدَۃٌ لِلصِّحَّۃِ (ورزش صحت کیلئے فائدہ مند ہے) میںمبتدا و خبر دونوں کا عامل(ابتداء یعنی لفظی عوامل سے خالی ہونا)لفظوں میں نہیں آسکتالہٰذا یہ ’’عامل معنوی‘‘ کہلائے گا ۔ معمول کی تعریف: وہ جس پر عامل داخل ہوکر اپناعمل کرے ۔جیسے:اِقْتَرَحَ تِلْمِیْذٌ(طالب علم نے تجویز دی)میںتِلْمِیْذٌ معمول ہے؛ کیونکہ اِقْتَرَح عامل نے اس پر داخل ہوکر اپنا عمل کیاکہ اسے رفع دیدیا۔ ***** سبق نمبر: 9اعراب اور محل اعراب کا بیان
اعراب کی تعریف: اعراب کا لغوی معنی ’’ظاہر کرنا‘‘ہے جبکہ اصطلاح میں اس سے مراد وہ حر ف یا حرکت ہے جس کے ذریعے معرب کے آخر میں تبدیلی آتی ہے۔جیسے: اَفْشٰی زَیْدٌ سِرِّیْ(زید نے میرا راز فاش کردیا)، لَقِیْتُ زَیْداً، نَظَرْتُ اِلٰی زَیْدٍ میں(-ٌ- -ً- -ٍ-)اور فَرِحَ أَبُوْکَ، عَرَفْتُ أَبَاکَ،سَلَّمْتُ عَلَی أَبِیْکَ میں(و، ا، ی)۔ محلِ اعراب کی تعریف: اسم معرب کا وہ آخری حرف جس پر اعراب آتا ہے ۔ جیسے:نَجَحَ زَیْدٌ فِیْ الْاِمْتِحَانِ، میں زَیْدٌ کی دال ؛ کیونکہ زَیْدٌ کااعراب اسی پرظاہر ہورہاہے۔ اعراب کی اقسام اعراب کی دو قسمیں ہیں : ۱۔ اعراب بالحرکت ۲۔ اعراب بالحرف. ۱۔اعراب بالحرکۃ کی تعریف: وہ اعراب جو زبر، زیراور پیش یا دوزبر، دوزیر اور دوپیش کی صورت میں ہو۔ جیسے: جَائَ الرَجُلُ، رَأَیْتُ الرَّجُلَ، نَظَرْتُ اِلَی الرَّجُلِ، جَائَ زَیْدٌ، رَأَیْتُ زَیْداً، نَظَرْتُ اِلٰی زَیْدٍ۔ ۲۔ اعراب بالحرف کی تعریف: وہ اعراب جو وائو، الف اور یاء کی صورت میں ہو۔جیسے: جَائَ أَبُوْکَ، رَأَیْتُ أَبَاکَ، نَظَرْتُ اِلٰی أَبِیْکَ۔ معرب کلمات کے اعراب کے نام ۱۔ایک پیش، دوپیش اور واؤ (اعرابی) کو’’ رفع‘‘ کہتے ہیں اور جس معرب کے آخر میں رفع ہو اسے’’ مرفوع‘‘ کہتے ہیں ۔ ۲۔ایک زبر، دوزبراور الف (۱) کو’’ نصب‘‘کہتے ہیں اور جس معرب کے آخر میں نصب ہو اسے ’’ منصوب‘‘ کہتے ہیں ۔ ۳۔ ایک زیر،دوزیراور یاء کو’’جر‘‘ کہتے ہیں اور جس معرب کے آخر میں جر ہو اسے ’’مجرور‘‘کہتے ہیں ۔ ۴۔ حرکت نہ ہو نے کو’’ جزم‘‘کہتے ہیں اور جس معرب پر جز م ہو اسے’’مجزوم‘‘ کہتے ہیں۔ مبنی کلمات کی حرکات کے نام ۱۔ پیش کو’’ ضم‘‘ اور جس مبنی پر ضم ہو اسے ’’مبنی برضم‘‘ یا ’’مبنی علی الضم‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے : أَمَّا بَعْدُمیں دال کا پیش ضم اور بَعْدُ مبنی علی الضم ہے۔ ۲۔زبر کو’’ فتح‘‘اور جس مبنی پر فتح ہواسے ’’ مبنی بر فتح‘‘ یا ’’مبنی علی الفتح‘‘کہتے ہیں ۔ جیسے : اِنَّ میں نون کا زبر فتح اور اِنَّ مبنی علی الفتح ہے۔ ۳۔ زیر کو’’ کسر‘‘اور جس مبنی پر کسر ہو اسے’’ مبنی بر کسر‘‘یا ’’مبنی علی الکسر‘‘ کہتے ہیں ۔ جیسے : أَمْسِ میں سین کا زیر کسر اورأَمْسِ مبنی علی الکسرہے۔ ۴۔ حرکت نہ ہونے کو ’’سکون‘‘ اور جس مبنی پر سکون ہو اسے ’’مبنی بر سکون ‘‘ یا مبنی علی السکون‘‘کہتے ہیں۔جیسے: اِذَا مبنی بر سکون ہے۔ تنبیہ: ۱۔ ضمہ، فتحہ اور کسرہ کا اطلاق عموماً مبنی کلمات کی حرکات پر ہوتاہے لیکن قلیل طورپر ان کا اطلاق معرب کلمات کے اعراب پر بھی کیاجاتاہے۔یعنی رفع، نصب اور جر حرکات اور حروف اعرابیہ کے ساتھ خاص ہیں اور ضم، فتح اور کسر حرکات بنائیہ کے ساتھ خاص ہیں۔ ۲۔معرب یا مبنی کلمہ کے ابتدائی یا درمیانی حرف کے زبر، زیر اور پیش کو’’ ضم‘‘ ’’فتح‘‘ اور’’ کسر‘‘ کہاجاتاہے اور خود اس حرف کو’’ مضموم‘‘، ’’مفتوح‘‘ اور’’ مکسور‘‘ کہتے ہیں ۔ لفظاً ظاہر ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے اعراب کی اقسام اس اعتبار سے اعراب کی دو قسمیں ہیں : ۱۔ لفظی ۲۔ تقدیری. ۱۔اعرابِ لفظی کی تعریف: وہ اعراب جو لفظوں میں ظاہر ہو۔ جیسے:رَبِحَ زَیْدٌ فِیْ تِجَارَتِہ میں زَیْدٌ پر آنے والا اعراب لفظی ہے۔ ۲۔اعرابِ تقدیری کی تعریف: وہ اعراب جو لفظوں میں ظاہر نہ ہو ۔جیسے: کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی میں مُوْسٰی کا اعراب تقدیری ہے؛ کیونکہ اس کا اعراب لفظوں میں ظاہر نہیں ہور ہا۔ ***** مشق سوال نمبر1: مندرجہ ذیل جملوں میں سے عامل اور معمول الگ الگ کریں نیز یہ بتائیں کہ عامل لفظی ہے یا معنوی؟ ۱۔تَعِبَ زَیْدٌ ۲۔زَیْدٌ قَاِئمٌ ۳۔شَرِبْتُ رَوْبًا ۴۔نَسِیَ خَالِدٌ ۵۔زَیْدٌ فِی الطَّرِیْقِ۔ سوال نمبر2: اعراب بالحرف اور اعراب بالحرکۃ والے اسماء الگ الگ کریں؟ مُسْلِمٌ، مُسْلِمُوْنَ، أَبُوْکَ، رَجُلاَنِ، کِتَابٌ، اِجَّاصَۃٌ، فِیْلٌ، أَخُوْہٗ۔ سوال نمبر3: معرب اور مبنی علیحدہ علیحدہ کریں ۔ ۱۔جَائَ زَیْدٌ۔ ۲۔ذَالِکَ زَیْدٌ۔ ۳۔رَأَیْتُ مَنْ ضَرَبَکَ۔ ۴۔ھُوَ سَعِیْدٌ۔ ۵۔غُلاَمُ زَیْدٍ قَائِمٌ۔ ۶۔أَدْخُلُ۔ ۷۔سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَۃِ اِلَی الْکُوْفَۃِ۔ ۸۔ضَرَبْتُہٗ۔ ۹۔ھَلِ الْجَوَّالُ غَیْرُجَدِیْدٍ۔ ۰۱۔أَ زَیْدٌنَائِم۔ٌ **** سبق نمبر: 10 #**وجوہِ اعراب کے اعتبار سے اسم معرب کی اقسام
**# اس اعتبار سے اسم معرب کی 12 اقسام ہیں: ۱۔مفرد منصرف صحیح : وہ اسم جو مثنی ومجموع نہ ہو ،نہ غیر منصرف ہواورنہ اس کے آخرمیں حرف علت ہو ۔ جیسے: حَاسُوْبَۃٌ۔(کمپیوٹر) ۲۔مفرد منصرف جاری مجریٰ صحیح: وہ اسم مفرد منصرف جس کے آخر میں واو ٔیا یاء ہو اور اس کا ماقبل ساکن ہو۔جیسے: دَلْوٌ، ظَبْیٌ۔ ۳۔جمع مکسر منصرف: وہ اسم جو جمع ہو مگر جمع سالم نہ ہو اور غیر منصرف بھی نہ ہو۔جیسے:رِجَالٌ۔ ان تینوں قسم کے اسم معرب کی حالت رفعی ضمہ سے، حالت نصبی فتحہ سے اور حالت جری کسرہ سے آتی ہے۔جیسے: حالت رفعی حالت نصبی حالت جری جَائَ زَیْدٌ وَظَبْیٌ ورِجَالٌ رَأَیْتُ زَیْداً وَظَبْیاً وَرِجَالاً مَرَرْتُ بِزَیْدٍ وَظَبْیٍ وَرِجَالٍ ۴۔جمع مؤنث سالم(۱) ۔ جیسے: مُسْلِمَاتٌ۔ اس کی حالتِ رفعی ضمہ سے اور حالت نصبی وجری کسرہ سے آتی ہے ۔ جیسے: حالت رفعی حالت نصبی حالت جری ھُنَّ مُسْلِمَاتٌ۔ رَأَیْتُ مُسْلِمَاتٍ۔ مَرَرْتُ بِمُسْلِمَاتٍ۔ ۵۔غیرمنصرف: وہ اسم جس کے آخر میں کسرہ اور تنوین نہیں آتے۔جیسے: عُمَرُ۔ اس کی حالت رفعی ضمہ سے اورحالت نصبی وجری فتحہ سے آتی ہے۔جیسے: حالت رفعی حالت نصبی حالت جری جَائَ عُمَرُ ۔ رَأَیْتُ عُمَرَ ۔ مَرَرْتُ بِعُمَرَ۔ ۶۔اسماء ستہ : اس سے مراد یہ چھ اسماء ہیں: أَبٌ، أَخٌ، فَمٌ، حَمٌ، ھَنٌ، اورذُوْ۔یہ اسماء اصل میں بالترتیب أَبَوٌ،أَخَوٌ،فَوْہٌ،حَمَوٌ،ھَنَوٌاورذَوَوٌ تھے۔ ان کی حالت رفعی وائوسے ، حالت نصبی الف سے اور حالت جری یاء سے آتی ہے۔ جیسے: حالت رفعی حالت نصبی حالت جری جَائَ أَبُوْ زَیْدٍ۔ رَأَیْتُ أَبَا زَیْدٍ۔ مَرَرْتُ بِأَبِیْ زَیْدٍ۔ تنبیہ: ان اسماء کا یہ اعراب اس وقت ہوتاہے جبکہ یہ مکبرہوں(ان کی تصغیر نہ کی گئی ہو)، موحدہوں(تثنیہ یا جمع نہ ہوں)اور یائے متکلم کے علاوہ کسی اور اسم کی طرف مضاف ہوں(۱)۔ ۷۔تثنیہ اور اس کے ملحقات: تثنیہ سے مراد وہ اسم ہے جوواحد میں الف اور نون یا یاء اور نون کے اضافے کی وجہ سے دوافراد پر دلالت کرے ۔جیسے:رَجُلَانِ۔اور اس کے ملحقات سے مراد وہ اسماء ہیں جو تثنیہ تو نہ ہو مگر لفظاً یا معنی تثنیہ کے مشابہ ہوں ۔جیسے : کِلَا، کِلْتَا، اِثْنَانِ، اِثْنَتَانِ۔ ان کی حالت ِرفعی الف ماقبل مفتوح اورحالت ِ نصبی وجری یاء ساکن ما قبل مفتوح سے آتی ہے ۔ جیسے: حالت رفعی حالت نصبی حالت جری جَائَ رَجُلاَنِ وَ کِلاَ ھُمَا وَاِثْنَانِ۔ رَأَیْتُ رَجُلَیْنِ وَکِلَیْھِمَا وَاثْنَیْنِ۔ مَرَرْتُ بِرَجُلَیْنِ وَکِلَیْھِمَا وَاثْنَیْنِ۔ تنبیہ:خیال رہے کہ کلا اورکلتا کا یہ اعراب اس وقت ہوتاہے جبکہ یہ دونوں اسم ضمیر کی طرف مضاف ہوں ۔اگر یہ بجائے اسم ضمیر کے اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوں تو ان کا اعراب تینوں حالتوں میں تقدیری ہوگا۔ جیسے: حالتِ رفعی حالت نصبی حالت جری جَائَ کِلاَ الرَّجُلَیْنِ رَأَیْتُ کِلاَ الرَّجُلَیْنِ مَرَرْتُ بِکِلاَ الرَّجُلَیْنِ ۸۔جمع مذکر سالم اور اس کے ملحقات: جمع مذکر سالم کی تعریف پہلے بیان ہوچکی ہے ، اس کے ملحقات سے مراد وہ اسماء ہیں جو جمع تونہ ہوں مگر لفظاً یا معنی جمع مذکر سالم کے مشابہ ہوں ۔جیسے: أُولُواورعِشْرُوْنَ سے تِسْعُوْنَتک کی دہائیاں۔ ان کی حالتِ رفعی وائو ماقبل مضموم اور حالت ِ نصبی وجری یاء ساکن ما قبل مکسورسے آتی ہے ۔جیسے: حالت ِ رفعی حالت ِنصبی حالت جری جَائَ مُسْلِمُوْنَ وأُولُو مَالٍ وَعِشْرُوْنَ رَجُلاً۔ رَأَیْتُ مُسْلِمِیْنَ وَأُولِیْ مَالٍ وَعِشْرِیْنَ رَجُلاً۔ مَرَرْتُ بِمُسْلِمِیْنَ وَأُولِیْ مَالٍ وَعِشْرِیْنَ رَجُلاً۔ ۹۔اسم مقصور: وہ اسم جس کے آخر میں الف مقصورہ ہو۔ جیسے: موسٰی، حبلٰی وغیرہ۔ ۱۰۔جمع مذکر سالم کے علاوہ جو اسم یائے متکلم کی طرف مضاف ہوجیسے:کُوْبِیْ وغیرہ۔ ان دونوں قسموں کی حالت رفعی تقدیرِ ضمہ سے ، حالت نصبی تقدیرِ فتحہ سے اور حالت جری تقدیرِ کسرہ سے آتی ہے۔جیسے: حالت رفعی حالت نصبی حالت جری جَائَ مُوْسٰی وَغُلامِیْ رَأَیْتُ مُوْسٰی وَغُلامِیْ مَرَرْتُ بِمُوْسٰی وَغُلامِیْ ۱۱۔اسم منقوص: اس سے مراد وہ اسم ہے جس کے آخر میں یاء ماقبل مکسور ہو ۔جیسے:اَلْقَاضِیْ وغیرہ۔ اس کی حالت رفعی تقدیر ضمہ سے، حالت جری تقدیر کسرہ سے اور حالت نصبی فتحۂ لفظی سے آتی ہے۔جیسے: حالت رفعی حالت نصبی حالت جری جَائَ الْقَاضِیْ رَأَیْتُ الْقَاضِیَ مَرَرْتُ بِالْقَاضِیْ ۲۱۔جمع مذکر سالم مضاف الی یاء المتکلم: وہ جمع مذکر سالم جو یائے متکلم کی طرف مضاف ہو ۔جیسے: مُسْلِمِیَّ۔ اس کی حالت رفعی وائو تقدیری سے اور حالت نصبی وجری یاء لفظی سے آتی ہے جیسے: حالت رفعی حالت نصبی حالت جری جَائَ مُسْلِمِیَّ رَأَیْتُ مُسْلِمِیَّ مَرَرْتُ بِمُسْلِمِیَّ۔ فائدہ: مُسْلِمِیَّ حالت رفعی میںمُسْلِمُوْنَ یَ تھا ۔نون اضافت کی وجہ سے گر گیا، مُسْلِمُوْیَ ہو گیا پھر وائو کو یاء سے بدل کر یاء کا یاء میں ادغام کر دیا تو مُسْلِمِیَّ ہو گیا۔ اورحالت نصبی وجری میں مُسْلِمِیْنَ یَ تھا۔ نون اضافت کی وجہ سے گر گیا، مُسْلِمِیْیَ ہوا، پھر یاء کا یاء میں ادغام کر دیاتو مُسْلِمِیَّہوگیا۔ ***** مشق سوال نمبر1: درج ذیل اسماء معرب کی مذکورہ 12 اقسام میں سے کون کونسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں ؟نیز یہ بتائیں کہ ان کا اعراب کیاہے؟ ۱۔مُھَنْدِسٌ ۲۔صَوَارِیْخُ ۳۔عُمَرُ ۴۔مُوْسٰی ۵۔القَاضِی ۶۔غُلامِی ۷۔کِلا ۸۔کِلْتاَ ۹۔أُولُو ۱۰۔مُسْلِمِیَّ ۱۱۔عِشْرُوْنَ ۱۲۔مُسْلِمَاتٌ ۱۳۔ظَبْیٌ ۱۴۔دَلْوٌ ۱۵۔عُلْبَتِیْ ۱۶۔أَبُوْکَ ۱۷۔أَبِیْ ۱۸۔اِثْنَانِ ۱۹۔اِثْنَتَانِ۔ **** سبق نمبر: 11معرب ومبنی کی اقسام کا بیان
معرب کی اقسام اس کی دو قسمیں ہیں:(۱)وہ کلمہ جوترکیب میں واقع ہو اور مبنی الاصل کے مشابہ بھی نہ ہو۔جیسے:خَزَلَ زَیْدُنِ الْکَلَامَ(زید نے بات کاٹ دی)میں زَیْدٌ۔اسے اسم متمکن بھی کہتے ہیں۔ (۲) فعل مضارع جو نون جمع مؤنث( غائب وحاضر) اور نون تاکید (ثقیلہ وخفیفہ) سے خالی ہو۔ جیسے: یُعَقِّبُ۔(وہ پیچھا کرتا ہے)۔ مبنی کی اقسام ابتداء ً ا س کی بھی دو قسمیں ہیں: ۱۔ مبنی الاصل ۲۔ مشابہ مبنی الاصل. ۱۔مبنی الاصل کی تعریف: وہ کلمہ جو مبنی ہونے میں اصل ہو کسی دوسرے کی مشابہت کی وجہ سے مبنی نہ ہو۔ یہ تین ہیں : (۱) فعل ماضی ۔جیسے: خَفَضَ۔ (۲) امر حاضر معروف۔جیسے: اُنْصُرْ مَنْ یَّنْصُرُکَ۔ (۳) تمام حروف معانی ۔جیسے:مِنْ، اِلٰی۔ تنبیہ: جملہ مبنی کے حکم میں ہوتا ہے۔ نیز اسم متمکن(معرب) جبکہ ترکیب میں واقع نہ ہو۔ جیسے:زَیْد، فَرَس،کِتَاب وغیرہ ۔اور فعل مضارع بھی جبکہ نون جمع مؤنث (غائب وحاضر)او ر نون تاکید(ثقیلہ وخفیفہ)کے ساتھ ہو مبنی کے حکم میں ہیں۔ ۲۔مشابہ مبنی الاصل کی تعریف: وہ اسم جو مبنی الاصل کے مشابہ ہو۔جیسے: مَتٰی، أَیْنَوغیرہ کہ یہ حرفِ استفہام (أ) کے مشابہ ہیں کیونکہ یہ معنی ٔ استفہام پر مشتمل ہیں ۔اسے ’’اسم غیر متمکن ‘‘بھی کہتے ہیں۔ صاحب مفصل نے اس مشابہت کی چند صورتیں بیان کی ہے : (۱) کوئی اسم مبنی الاصل کے معنی کو متضمن ہو ۔جیسے : أَیْنَ، مَتٰی وغیرہما تمام اسماء استفہام کہ یہ ہمزۂ استفہام کے معنی کو متضمن ہوتے ہیں،اسی طرح مَنْ، اِذَا وغیرہما تمام اسماء شرط کہ یہ حرف شرط اِنْ کے معنی کو متضمن ہوتے ہیں۔ (۲) کوئی اسم احتیاج الی الغیرمیں مبنی الاصل کے مشابہ ہو۔جیسے : تمام مبہمات (ضمائر، موصولات، اسماء اشارات)کہ یہ اپنے معنی پر دلالت کرنے میں مرجع، صلہ اور مشارالیہ کے محتاج ہوتے ہیں جس طرح حرف اپنے معنی پر دلالت کرنے میں ضمِ ضمیمہ کامحتاج ہوتاہے۔ (۳)کوئی اسم مبنی الاصل کے موقع میں واقع ہو۔ جیسے : نَزَالِ وغیرہ کہ یہ اِنْزِلْ کے موقع میں واقع ہوتاہے ۔ (۴)کوئی اسم اُس اسم کے مشاکل (شکل وصورت میں برابر)ہو جو مبنی الاصل کے موقع میں واقع ہونے کی وجہ سے مبنی ہو۔جیسے: فَجَارِ کہ یہ نَزَالِ کے مشاکل ہے اور نَزَالِ مبنی الاصل اِنْزِلْ کے موقع میں واقع ہونے کی وجہ سے مبنی ہے ۔ (۵)کوئی اسم اُس اسم کے موقع میں واقع ہو جو مبنی الاصل کے مشابہ ہونے کی وجہ سے مبنی ہو۔ جیسے: یَا زَیْدُ میں زَیْدُ کہ یہ کاف ضمیر کے موقع میں واقع ہے جو مبنی الاصل کاف حرفی کے مشابہ ہونے کی وجہ سے مبنی ہے ۔ (۶)کوئی اسم مبنی کی طرف مضاف ہو۔ جیسے:یَوْمَئِذٍ کہ اس میں یَوْمَ، اِذْ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی ہے۔(الفوائد الضیائیہ) مشابہ مبنی الاصل کی اقسام مشابہ مبنی الاصل کی آٹھ قسمیں ہیں: ۱۔ ضمائر .جیسے: أَنَا، أَنْتَ، ہُوَوغیرہ۔ ۲۔ اسمائے موصولہ.جیسے: اَلَّذِیْ، اَلَّذِیْنَ، اَلَّتِیْ وغیرہ۔ ۳۔اسمائے اشارہ.جیسے: ہٰذَا، ہٰؤُلائِ، ہٰذِہٖ وغیرہ۔ ۴۔ اسمائے ظروف. جیسے:قَبْلُ، بَعْدُ، فَوْقُ وغیرہ۔ ۵۔ اسمائے افعال.جیسے: ہَیْہَاتَ، أُفٍّ، نَزَالِ وغیرہ۔ ۶۔ اسمائے اصوات.جیسے: نِخْ نِخْ، غَاقِ غَاقِ، دَقْ دَقْ(پتھر کے ٹکرانے کی آواز)وغیرہ۔ ۷۔اسمائے کنایہ. جیسے: کَیْتَ، ذَیْتَ، کَذَا وغیرہ۔ ۸۔مرکبات بنائیہ . جیسے: أَحَدَ عَشَرَ، سِیْبَوَیْہِ وغیرہ۔ ***** مشق سوال نمبر1: درج ذیل جملوں میں سے معرب ومبنی علیحدہ علیحدہ کریں۔ ۱۔اِسْتَخْدَمَ زَیْدٌ عَمْرًوا۔ ۲۔اَلْاَوْلَادُ یَسْبَحُوْنَ۔ ۳۔ھُوَ عَلِیٌّ۔ ۴۔یُحَدِّثُنَا زَیْدٌ۔ ۵۔اَلْمُسْلِمَاتُ یَجْتَھِدْنَ۔ ۶۔لِیَنْصُرَنْ رَجُلٌ۔ ۷۔اُدْخُلْ۔ ۸۔اِقْرَائْ بِاسْمِ رَبِّکَ۔ ۹۔سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَۃِ اِلَی الْکُوْفَۃِ۔ ۱۰۔اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہِ۔ ۱۱۔مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ۔ ۱۲۔زَیْد۔ ۱۳۔ھٰذَا غُلامِیْ۔ ۱۴۔خُذْ بِیَدِیْ۔ ۱۵۔وَاللّٰہِ لَاَحْفَظَنَّ دَرْسِیْ۔ ۱۶۔صَوْتُ الْغُرَابِ غَاقِ غَاقِ۔ ۱۷۔جَائَ الَّذِیْ یُحِبُّنِیْ۔ ۱۸۔رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَباً۔ ۱۹۔کَمْ رِجْلاً لَکَ؟ ۲۰۔مَتٰی تَذْھَبُ؟ ۲۱۔اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ۔ ۲۲۔اَخْلِصْ قَلْبَکَ لِلّٰہِ؟ ۲۳۔أُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ ۲۴۔اِیَّاکَ نَعْبُدُ۔ ۵ ۲۔کَظَمْتُ غَیْظِیْ وَوَعَظْتُہٗ۔ ****
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع