30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیخِ طریقت ، امیرِاَہلسنّت ، با نیِٔ دعوتِ اسلامی، حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمدالیاس عطارقادِری رَضَوی ضیائیدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے بیان کے تحریری گلدستے’’سیاہ فام غلام‘‘میں منقول ہے کہ امامُ الصّابِرین ، سیّدُ الشّاکِرین، سلطانُ الْمُتَوَکِّلِین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ دلنشین ہے : جِبرئیل (علیہ السلام) نے مجھ سے عرض کی کہ رب تَعَالٰی فرماتا ہے : اے مـحـمّد! (علیہ الصلوۃ و السلام)کیاتم اِس بات پر راضی نہیں کہ تمہارا اُمَّتی تم پر ایک بار دُرُود بھیجے، میں اُس پر دس رَحمتیں نازل کروں اور آپ کی اُمَّت میں سے جو کوئی ایک سلام بھیجے، میں اُس پر دس سلام بھیجوں ۔(مِشْکَاۃُ الْمَصَابِیح ، ج۱ ص۱۸۹، حدیث ۹۲۸، دارالکتب العلمیۃ بیروت )
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں : رب کے سلام بھیجنے سے مُرادیا تو بذرِیعۂ ملائکہ اسے سلام کہلوانا ہے یا آفتوں اورمصیبتوں سے سلامت رکھنا۔
(مراۃ المناجیح ج۲ص۱۰۲، ضیاء القراٰن)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
دہلی(ھند)کے علاقہ سیلم پور کے مقیم 22 سالہ نو مسلم نو جوان کے قبولِ اسلام کا ایمان افروز واقعہ اُنہی کی زبانی سنئے۔اُن کا کہنا کچھ یوں ہے : میں ایک غیرمسلم خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔میرے والد کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے مجھے1994ء میں اپنے ڈاکٹر دوست کے کلینک بھیج دیا ۔ وہ غیرمسلم ڈاکٹر مسلمانوں سے اس قدر نفرت کرتا تھا کہ ان کے ہاتھوں سے چھوئی ہوئی چیز کھانا یا پینا گوارا نہ کرتا ۔میری بھی یہی عادت بن گئی کہ سارا دن پیاسا رہتا مگر مسلمانوں کے ہاتھ سے پانی نہ پیتا۔کئی سال یونہی گزر گئے۔ایک روز سبز عمامے میں ملبوس ایک اسلامی بھائی آنکھوں کے آپریشن کے لئے وہاں آئے ۔ان کی زبان ونگاہ کی حفاظت کا انداز اور حُسنِ اخلاق دیکھ کر رفتہ رفتہ میں ان کے قریب ہونے لگا اور میری ان سے دوستی ہوگئی۔ وہ مجھ پر وقتاً فوقتاً انفرادی کوشش کرتے رہتے ۔کچھ دنوں بعد وہ اسپتال سے چلے گئے مگر میرا اُن سے رابطہ رہا اور میں اُن کے پاس آتا جاتا رہا۔
اُن کے پاس ایک ضخیم کتاب تھی جس کا نام’’فیضانِ سنت‘‘ تھا ، جب وہ اُس کا درس دیتے تو انفرادی کوشش کرتے ہوئے مجھے بھی درس میں شرکت کی دعوت پیش کرتے، میں سننے بیٹھ جاتا۔ فیضانِ سنت کے درس کی بَرَکت سے کچھ ہی دنوں میں دل مذہبِ اسلام کیلئے نفرت کے بجائے محبت محسوس کرنے لگا۔اب میں مسلمانوں کے ساتھ کھاپی بھی لیتااور مساجد و اذان کا احترام کرتا۔2004ء میں ایک روز شیخِ طریقت، امیرِ اَہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارقادِری رَضَوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’غسل کا طریقہ‘‘ پڑھا مگر صحیح طریقے سے سمجھ نہ سکا ۔ان اسلامی بھائی سے پوچھا توانہوں نے مجھے رسالے کی مدد سے تفصیلاً طہارت کے مسائل سمجھائے اور فرمایا کہ حقیقی پاکی بغیر مسلمان ہوئے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ وہ وقت میری سعادتوں کی بلندیوں کا تھا ، اُن کے الفاظ نے میری زندگی کا رُخ تبدیل کردیا ، میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر ’’کلمہ طیبہ‘‘پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا۔کفر کے اندھیرے چھٹ گئے اور میرا دل نورِ اسلام سے جگمگانے لگا۔
میں تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے اجتماع میں پابندی سے شرکت کرنے لگا اورامیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے بذریعہ مکتوب سلسلہ عالیہ قادِریہ رَضَویہ میں داخل ہو کر’’عطاری‘‘ بھی بن گیااور باجماعت نمازیں پڑھنے لگا، مگر کبھی کبھی شیطان مذہبِ اسلام کے لئے وسوسے ڈالتا تھا۔ایک روز امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کارسالہ’’بڈھاپُجاری‘‘ پڑھا تواِ ن تمام وسوسوں کی جڑ سے کاٹ ہوگئی۔اَلْحَمْدُ ِللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ 18جولائی 2005ء کوعاشقانِ رسول کے ہمراہ مدنی قافلے میں سفرکی سعادت ملی۔اس سے پہلے میں ذرا ذرا سی بات پرگھر والوں سے ناراض ہو جاتا ، کھانا مزاج کے خلاف ملتا تو خوب شور مچاتا۔مدنی قافلے میں سفر کی برکت سے یہ عادت بھی نکل گئی۔گھر والے میری اس تبدیلی پر حیران تھے اور مذہبِ اسلام سے متاثر ہورہے تھے۔میں داڑھی شریف کی سنت اپنانے کے ساتھ ساتھ سر پر سبز عمامہ بھی باندھنے لگا مگر گھرجا تے وقت اُتارلیتا۔
چند دنوں بعد لوگوں نے گھر والوں سے میرے خلاف شکایات کرنا شروع کردیں جس پر گھر میں سختی ہونے لگی ، مجھے بات بات پر ٹوکا جاتا بلکہ مارنے سے بھی دریغ نہ کیا جاتا ۔میں نے تنگ آکر گھر چھوڑ دیامگر کچھ ہی روزبعد بھائی وغیرہ نے بہانے سے بلوایا اورزبردستی نائی (حجام)کے پاس پکڑ کرلے گئے۔جب میں نے اُس نائی کوبتایا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں تو وہ ڈر گیا اوراُس نے داڑھی مونڈنے سے انکار کردیا ۔میرے گھر والے بھی داڑھی کاٹنے سے ڈر رہے تھے مگر افسوس کہ علمِ دین سے بے بہرہ ایک مسلمان نے گھر والوں سے کہا : ’’ داڑھی رکھنا ضروری نہیں ہے ، ہمیں دیکھو! لاکھوں مسلمان کہاں داڑھی رکھتے ہیں ؟‘‘اسی بنیاد پر گھر والوں نے سوتے میں بلیڈ سے میری داڑھی مونڈنا شروع کر دی۔ میرا چہرہ لہولہان ہو گیا ، میں رورو کر انہیں اس کام سے باز رہنے کی التجائیں کرتا رہا مگر انہوں نے میری ایک نہ سُنی اور داڑھی مونڈ کر ہی دم لیا ۔ چہرے سے بہنے والا لہو میرے آنسوؤں میں شامل ہوگیا ۔کفر کی تاریکی میں گِھرے ہوئے گھر والوں کو یہ بھی احساس نہ رہا کہ میں بھی اِسی گھر میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا ہوں ۔انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مجھے ایک کمرے میں قید کردیا ۔تن کے کپڑوں کے علاوہ میرے پاس کوئی لباس نہ تھا ۔ میری نگرانی کی جاتی مگر میں کسی نہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع