اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ مضمون ”نیکی کی دعوت“ صفحہ 194 تا 216سے لیا گیا ہے ۔
نوجوان کی توبہ
دُعائے عطار!یاربَّ المصطفیٰ !جوکوئی 17صفحات کا رسالہ ’’نوجوان کی توبہ‘‘پڑھ یاسُن لے، اُسے اپنا اور اپنے پیارے پیارے آخری نبی کا فرمانبردار بنا کر بے حساب مغفرت سے نواز دے۔اٰمین بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبیِّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم ۔
فرمانِ آخری نبیصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:اے لوگو!بےشک بروزِ قىامت اس کى دہشتوں (ىعنى گھبراہٹوں) اور حساب کتاب سے جلد نجات پانے والا شخص وہ ہو گا جس نے تم مىں سے مجھ پر دُنىا کے اندر بکثرت دُرُود شرىف پڑھے ہوں گے۔(فردوس الاخبار،5/277، حدیث :8175)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک،دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ’’توبہ کی روایات و حِکایات‘‘(132 صَفحات ) ،صَفْحَہ75تا77پر ہے:حضرتِ صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک اجتماع میں اپنے بیان کے دوران سامنے بیٹھے ہوئے ایک نوجوان سے فرمایا: ’’کوئی آیت پڑھو۔‘‘ تو اس نے سورۃ المؤمن کی آیت نمبر18 تلاوت کی:﴿ وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كٰظِمِیْنَ۬ؕ-مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّ لَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُؕ(۱۸) ﴾ (پ24،المؤمن:18) ترجَمۂ کنز الایمان: اورانہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے غم میں بھرے۔اور ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے۔
یہ آیتِ مبارَکہ سن کر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:کوئی ظالم کا دوست یا مدد گارکس طرح ہوسکتا ہے؟ کیونکہ وہ تو اللہ پاک کی گِرِفت(یعنی پکڑ)میں ہوگا۔بے شک تم سرکشی کرنے والے گنہگاروں کودیکھو گے کہ انہیں زنجیروں میں جکڑ کر جہنّم کی طرف لے جایا جارہا ہوگا اور وہ بَرَہنہ (بَ۔رَہ۔نَہ،یعنی ننگے)ہوں گے،ان کے جسم بوجھل،چہرے سیاہ(یعنی کالے) اور آنکھیں خوف سے نِیلی ہوں گی۔وہ چلّائیں گے:ہم ہَلاک ہو گئے! ہم برباد ہوگئے! ہمیں زنجیروں میں کیوں جکڑا گیا ہے؟ ہمیں کہاں لے جایا جارہا ہے؟ اور ہمارے ساتھ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟فرِشتے انہیں آگ کے کوڑوں سے مارتے ہوئے ہانکیں گے،کبھی وہ منہ کے بَل گریں گے اور کبھی انہیں گھسیٹ کر لے جایا جائے گا۔جب رو رو کر ان کے آنسو ختم ہوجائیں گے توخون کے آنسو بہنے لگیں گے،ان کے دل دَہل (دَ۔ہَل) جائیں گے اور حیران وپریشان ہوں گے اگر کوئی انہیں دیکھ لے تو ان پر نگاہ نہ جما سکے،نہ ہی اپنا دل سنبھال سکے، یہ ہَولناک منظر دیکھنے والے کے بدن پر لرزہ طاری ہو جائے ۔ یہ فرمانے کے بعد حضرت صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ بَہُت ر وئے اور ایک آہِ سرددلِ پُر درد سے کھینچ کر فرمایا: ’’افسوس! کیسا دل ہِلا دینے والا منظر ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر پھر رونے لگے،آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کو روتا دیکھ کر حاضِرین بھی رونے لگے۔اِتنے میں ایک نوجوان کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا:’’یاسیِّدی!کیا یہ سارا منظر بروزِ قِیامت ہوگا؟‘‘ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے جواب دیا:’’ہاں،یہ منظر زیادہ طویل نہیں ہو گا کیونکہ جب انہیں جہنّم میں ڈال دیا جائے گا تو ان کی آوازیں آنا بند ہوجائیں گی۔‘‘ یہ سن کر نوجوان نے ایک چیخ ماری اور کہا:’’ افسوس ! میں نے اپنی زندگی غفلت میں گزار دی، افسوس! میں کوتاہیوں کا شکار رہا،افسوس ! میں خدائے باری کی اطاعت وفرمانبرداری میں سُستی کرتا رہا،آہ! میں نے اپنی زندگی بے کار ضائِع کر دی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔کچھ دیر بعد اُس نے ربِّ کائنات کی بارگاہ ِ بے کس پناہ میں یوں مُناجات کی:’’اے میرے پَروَردَگار! میں گنہگار توبہ کے لئے حاضرِ دربار ہوں، مجھے تیرے سوا کسی سے کوئی سَروکار نہیں،گناہوں سے مُعافی دیکر مجھے قَبول فرما لے،مجھ سَمیت تمام حاضِرین پر اپنا فَضل و کرم فرما اور ہمیں جُودو نَوال(یعنی عطا و بخشش) سے مالا مال کردے،یااَرحَمَ الرّاحمین!(یعنی اے سب سے بڑھ کر رَحم فرمانے والے)میں نے گناہوں کی گٹھڑی تیرےسامنے رکھ
دی ہے اورسچّے دل سے تیری بارگاہ میں حاضِر ہوں، اگر تو مجھےقَبول نہیں فرمائے گا تویقینا میں ہَلاک ہوجاؤں گا۔‘‘ اِتنا کہہ کر وہ نوجوان غَش کھا کرگِرپڑااور چند روزبسترِعَلالت پر گزار کر(یعنی بیمار رَہ کر) موت سے ہمکنار ہو گیا۔اُس کے جنازے میں بے شمار لوگ شریک ہوئے،رو رو کر اس کے لئے دعائیں کی گئیں۔ حضرت صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ اکثر اُس کا ذِکر اپنے بیان میں کیا کرتے۔ ایک دن کسی نے اُس نوجوان کو خواب میں دیکھا تو پوچھا:”مَا فَعَلَ اللہُ بِكَ “یعنی اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟تو اُس نے جواب دیا:’’مجھے حضرتِ صالح مُرِّیرحمۃُ اللہِ علیہ کے اجتِماع سے بَرَکتیں ملیں اور مجھے جنّت میں داخِل کر دیا گیا۔‘‘(کتاب التوابین، ص 250-252)اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبیِّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم ۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے !باعمل مُبَلِّغین کا بیان کس قَدَر پُر اثر ہوتا ہے، خوفِ خدا رکھنے والے مبلغ کا بیان تا ثیر کا تیر بن کر گنہگار کے جگر سے آر پار ہو جاتا اوربسا اوقات اُس کی دنیا و آخِرت سنوار دیتا ہے۔حضرتِ صالِح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ بڑے زبردست قاری بھی تھے،آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی قِراء ت میں سوزہی سوز ہوتا تھا آپ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:ایک بار میں نے خواب میں جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے قراٰنِ کریم کی تلاوت کی سعادت پائی،تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اے صالِح ! یہ تو قِراءَت ہوئی رونا کہاں ہے؟(احیاءالعلوم ،1/368)اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!قراٰنِ کریم کی تلاوت کرتے ہوئے رونا مستحب ہے۔ فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:قرانِ پاک کی تلاوت کرتے ہوئے روؤ اور اگر رونہ سکو تو رونے کی سی شکل بناؤ۔ (ابن ماجہ ،2/129،حدیث:1337)
عطا کر مجھے ایسی رقّت خدایا کروں روتے روتے تِلاوت خدایا
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! تِلاوت کرتے یاسنتے ہوئے رِقّت طاری ہونا،آنکھوں سے آنسو جاری ہونا یقینا بڑی سعادت کی بات ہے مگر شیطان کے وار سے خبردار! رونا ایک ایسا عمل ہے کہ اِس میں ریا کا خطرہ بَہُت زیادہ رہتا ہے۔لہٰذا دُعا و غیرہ میں بالخصوص دوسروں کے سامنے رونے میں ریا سے بچنا ضَروری ہے کہ ریا کار عذابِ نار کا حقدار ہوتا ہے۔ تِلاوت و نعت میں اخلاص کے ساتھ رونے رُلانے کا شوق بڑھانے کیلئے،عاشقانِ رسول کی دینی تحریک، دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہئے، اپنے ایمان کی حفاظت کیلئے کڑھتے رہئے،نَمازوں کی پابندی جاری رکھئے،سنتوں پر عمل کرتے رہئے،نیک اعمال کے مطابِق زندَگی گزاریئے اور اِس پر استِقامت پانے کیلئے روزانہ’’جائزہ‘‘ لےکر نیک اعمال کا رسالہ پُر کرتے رہئے اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنے یہاں کے دعوتِ اسلامی کے ذِمّے دار کو جمع کروادیجئے اور اپنے اِس دینی مقصد ’’ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشِش کرنی ہے ‘‘ کے حُصول کی خاطرپابندی سے ہرماہ کم از کم تین دن کے سنتیں سیکھنےسکھانےکےلئے مَدَنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ہمراہ سنّتوں بھرا سفر کیجئے۔آیئے !آپ کی ترغیب وتحریص کیلئے ایک مَدَنی بہار سنتے ہیں:کراچی کے ایک مبلغ جوکہ روزانہ پابندی سے چوک درس دیتے تھے۔ایک شخص جو کہ سنّتوں بھری تحریک،’’ دعوتِ اسلامی‘‘ کوپسند نہیں کرتا تھا، اُس نے بربِنائے تَعَصُّب(یعنی تَعَصُّب کی وجہ سے) تھانے میں مبلغ کے
خلاف جھو ٹی رَپَٹ دَرج کروائی کہ یہ عَلاقے میں اِنتشار پھیلا رہا ہے۔پولیس آئی اور اُس عاشقِ رسول کو تھا نے لے گئی۔اَلحمدُ لِلّٰہ! دعوتِ اسلامی کا’’ مبلغ‘‘ ہر جگہ مبلغ ہی ہوتا ہے چُنانچِہ ایک ”مجرم‘‘ سے مُلاقات پر اُنہوں نے’’اِنفرادی کوشِش‘‘ کر کے اُس کو دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتِماع میں شرکت کیلئے تیار کرلیا،اس نے کہا:میں قید سے رِہاہُوں گا تو ضَرور حاضِری دوں گا،کیاآپ مجھے وہاں ملیں گے؟مبلغ نے کہا اِن شاءَ اللہ پھر اُنہوں نے اپنا حلقہ نمبر وغیرہ بتایا کہ میں اجتِماع میں وہاں ہوتا ہوں۔ پولیس نے اس کا حُسنِ اَخلاق وغیرہ دیکھ کر حقیقتِ حا ل جان لی اور معذرت طلب کرتے ہوئے اُس ’’عاشقِ رسول‘‘کو باعزّت رُخصت کر دیا۔چند ماہ بعد وہ مجرم جب جیل سے رِہا ہواتودعوتِ اسلامی کے عالَمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی کے اندرہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتِماع میں پہنچا،اُس نے بیان سُنا، ذِکر اور دُعا میں اُس پر رقّت طاری ہو گئی اس نے رو رو کر اپنے گناہوں سے توبہ کی۔دُعا کے بعد اُس مبلغ کو جنہوں نے تھانے میں نیکی کی دعوت دی تھی تلاشتے ہوئے جب اُن کے بتائے ہوئے حلقے میں پہنچا تو ایک اسلامی بھائی نے بتایا کہ ابھی پچھلے منگل ہی اُن مبلغ کا انتِقال ہوا ہے۔یہ سننا تھا کہ وہ دھاڑیں مار مارکر رونے لگا کہ زِندگی میں کسی نے پہلی بار’’ نیکی کی دعوت ‘‘ دی اور اُس کی وجہ سے میں نے توبہ کی ، ہائے افسوس ! میں اپنے اُس محسن سے دوبارہ مل بھی نہ سکا۔ایک عاشقِ رسول نے اِنفِرادی کوشِش کرتے ہوئے اُن کا ذِہن بنایا کہ اب آپ اُن سے مل تو نہیں سکتے مگر اُن کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اُن کے ایصالِ ثواب کیلئے آج صُبح ہی ہاتھوں ہاتھ سُنّتوں کی تربیِّت کے ایک ماہ کے مَدَنی قافلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرا سفر کرلیجئے۔اَلحمدُ لِلّٰہ! وہ ہاتھوں ہاتھ ایک ماہ کے لئے عاشِقانِ رسول کے ساتھ مَدَنی قافلے میں سفر پر روانہ ہو گیا۔ اَلحمدُ لِلّٰہ! آج وہ (سابقہ) ’’مجرِم‘‘ دعوتِ اسلامی کے مبلغ ہیں جبکہ اِس سے پہلے مَعاذَ اللہ وہ شراب کے اڈّے چلا تے تھے۔
آپ تھانے میں بھی،جیل خانے میں بھی ہر جگہ پر کہیں، قافِلے میں چلو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! واقعی مُبَلِّغ ہر جگہ مُبَلِّغ ہوتا ہے،ہر وَقت ہر جگہ اپنا لباس اور اپنا انداز سنّتوں بھرا رکھتا ہے،چاہے مَحَلّے میں ہو یا بازار میں،جنازے میں ہو یا شادی کی بارات میں، دواخانے میں ہو یا اسپتال میں،باغ میں ہو یا کسی کی تدفین کیلئے قبرستان میں، جہاں موقع ملا جَھٹ نیکی کی دعوت کے مَدَنی پھول برسانا شروع کر دیتا اور اپنے لئے ثواب کا خوب ذخیرہ کر لیتا ہے ۔ مذکورہ مَدَنی بہار سے معلوم ہوا کہ مرحوم عاشقِ رسول مبلغ کا جذبہ بھی کیا خوب تھا کہ ظُلمًا کسی نے تھانے میں لاکھڑا کیا تو وہاں بھی نیکی کی دعوت کے دینی کام میں لگ گئے اور ایک شَراب کااڈّا چلانے والے کی توبہ اور اس کے مبلغ دعوتِ اسلامی بننے کا سبب بن کر خود سداکیلئے آنکھیں مُوند لیں۔ اللہ پاک کی مرحوم عاشقِ رسول مبلغ پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمین بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبیِّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم ۔
تِری سنّتوں پہ چل کر مری روح جب نکل کر چلے تُو گلے لگانا مَدَنی مدینے والے
(وسائلِ بخشش، ص287)
سرورِ کَونَین، نانائے حسنین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:’’کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں جو نہ انبیا (علیہم السلام)میں سے ہیں نہ شُہَداء (شُ۔ ہَ۔ دَا)میں سے لیکن بروزِ قِیامت انبیاعلیہم السلام اور شُہَدااُن کے مقام کو دیکھ کر رَشک کریں گے،وہ لوگ نُور کے منبروں پر بلند ہوں گے،یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پاک کے بندوں کو اللہ پاک کا محبوب (یعنی پیارا) بندہ بنادیتے ہیں اور وہ زمین پر(لوگوں کو)نصیحتیں کرتے چلتے ہیں۔‘‘ عرض کی گئی:وہ کِس طرح لوگوں کو اللہ پاککا محبوب(یعنی پیارا)بنادیتے ہیں؟ فرمایا:وہ لوگوں کو اللہ پاککی محبوب(یعنی پسندیدہ)باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اللہ پاک کی ناپسندیدہ باتوں سے منع کرتے ہیں، پس جب لوگ ان کی اطاعت کریں گے تو اللہ پاک اِنہیں اپنا محبوب بنالے گا۔ (شعب الایمان،1/367،حدیث:409)
پیارے پیارےاسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ! نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے والوں کی بھی کیسی بلندو بالا شانیں ہیں،بَروزِ قِیامت اُن پر ربُّ الانام کا اِنعام و اکرام دیکھ کر اَنبیائے کرام علیہم السلام اور شُہَدائے عُظّام بھی رَشک کریں گے۔یہاں رَشک(یعنی غبطہ ) سے مراد یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور شہدائے عُظّام اُن کے مرتبے کو دیکھ کر بَہُت خوش ہوں گے اور ان کی تعریف وتحسین کریں گے یا مطلب یہ ہے کہ اگر حضرات انبیائے کرام وشہدائےعُظّام کسی پر رَشک کرتے تو ان پر کرتے۔ اِس عَظَمت وشان کا سبب کیا ہوگا؟ یِہی کہ وہ نیکی کی دعوت اور بدی کی مُمانَعَت کے ذَرِیعے لوگوں کو باعمل بنا کر انہیں”اللہ پاک کامحبوب“ بناتے ہوں گے ۔ جب وہ دوسروں کو اللہ پاک کا محبوب بناتے ہوں گے تو خود کیوں نہ محبوب ہوں گے !
اللہ کا محبوب بنے جو تمہیں چاہے اُس کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تُم جسے چاہو
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
”نیکی کی دعوت“کاثواب کمانے میں ہمارے اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم بَہُت پیش پیش ہوا کرتے تھے اور اس مُعامَلے میں کسی سے مَرعُوب بھی نہیں ہوتے(یعنی رُعب میں بھی نہ آتے ) تھے چُنانچِہ حضرتِ حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے شاگردوں کے ہمراہ کہیں تشریف لئے جارہے تھے کہ ایک رئیس(یعنی سرمایہ دار)کو نہایت سج دَھج کے ساتھ اپنے غلاموں کے جُھرمَٹ میں گھوڑے پر سُوار گزرتا دیکھا۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اُس سے استفسار فرمایا: کہاں کا ارادہ ہے؟ عرض کی:بادشاہ کے دربار میں جا رہا ہوں۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اُس پر ”انفِرادی کوشِش“ کرتے ہوئے فرمایا:اے بھائی! آپ نے خوب عمدہ لباس زیبِ تن فرمایا ہے پھر اسے خوشبوؤں سے بھی بسایا ہے اور ہر طرح سے اپنے”ظاہر “کو بھی سجایا ہے،یقیناً یہ محض اس لئے ہے کہ شاہی دربار میں آپ کوشَرمسار نہ ہونا پڑے حالانکہ یہ بادشاہِ دارِناپائیدار(یعنی کمزور دنیا کا بادشاہ)اور اُس کے اہلِ دربار آپ جیسے ہی انسانِ غیر مختار (یعنی بے اختیار)ہیں۔اب ذرا غور فرمایئے ! کل بروزِ قِیامت اللہ پاک کے دربارِ شاہی میں جب حاضِری ہو گی،وہاں انبیا ءِکرام علیہمُ السّلام اور اولیائے عُظام رحمہم اللہ بھی ہوں گے، وہاں کے لئے آپ نے”باطِن“کی آرائش و زَیبائش کابھی کچھ انتِظام فرمایا ہے؟ کیا وہاں گناہوں کی گندَگیوں اور بدکاریوں کی بدبوؤں کے ساتھ آپ حاضِری دیں گے؟ وہ مالدار شخص نہایت توجہ کے ساتھ آپ کے ارشادات سُن رہا تھا، آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس سے پوچھا:کیا آپ نے کبھی اپنے گھوڑے پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لادا ہے؟ عرض کی:جی نہیں۔ فرمایا: آپ اپنے گھوڑے پر تو تَرس کھاتے ہیں مگر اپنے کمزور وُجُود پر رَحم نہیں کرتے کہ مسلسل اُس پر گناہوں کا بوجھ لادے چلے جا رہے ہیں،سوچئے تو سہی !اِسی طرح گناہوں بھری زندَگی گزاری تو مرنے کے بعد کیا انجام ہوگا! مالدار آدَمی آپ کی ”انفِرادی کوشِش“اور نیکی کی دعوت سے بے حدمتأثر ہوا، گھوڑے سے اُتر کر آپ کا مُرید ہوا اور اللہ والا بن گیا۔(سچّی حکایات، 5/208 بتصرف) اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبیِّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم ۔
نفس یہ کیا ظلم ہے جب دیکھو تازہ جُرم ہے ناتُواں کے سر پہ اِتنا بوجھ بھاری واہ واہ!
(حدائقِ بخشش شریف)
شَرحِ کلامِ رضا: میرے آقااعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اِس شعر میں فرماتے ہیں:اے بدکار نفس! تیرے ظلم وسِتَم کی بھی اب حد ہو گئی! تو ہر لمحہ میری خطاؤں میں برابر اضافہ کرواتا اور مجھ کمزور ترین بندے کے سر گناہوں کا بھاری بوجھ لدواتا چلا جا رہا ہے۔(معلوم ہوا نفسِ امّارہ یعنی گناہ و بُرائی پر اُبھارنے والا نفس ہمارا دشمن ہے،ہمیں ہر آن اِس کی چالوں سے چوکنّا رہنا ضَروری ہے)
آہ! ہر لمحہ گنہ کی کثرت و بھرمار ہے غَلبہ ٔ شیطان ہے اور نفسِ بداطوار ہے
(وسائلِ بخشش، ص128)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! اولیاءُ اللہ رحمۃُ اللہ ِ علیہم سرمایہ داروں اور مالداروں کی خوشامدوں اور چاپلُوسیوں کے بجائے اُن کو اصلاح کے مَدَنی پھولوں سے نوازتے اور انہیں دوٹوک نصیحتیں فرماتے تھے۔دولتمندوں کی خوشامد وہ کرے جس کو ان سے دنیا کی ذلیل دولت پانے کی ہَوَس ہو،اہلُ اللہ قَناعت کی مَدَنی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں،اِن کی نظر دولتمندوں کے فانی مال پر نہیں،رَحمتِ ربِّ ذوالجلال پر ہوتی ہے۔یاد رہے! اہلِ مال و ثَروَت کی بہ سَبَبِ دولت تعظیم کی سخت مُمانَعَت ہے چُنانچِہ منقول ہے:جو کسی غنی(یعنی مالدار)کی اِس کے غِنا(یعنی مالداری)کے سبب تواضع کرے اُس کا دو تہائی دین جاتا رہا۔ (کشف الخفاء،2/215، رقم:2442) بیان کردہ حِکایت میں آخِرت کی فکر دِلائی گئی ہے کہ حکمرانوں، وزیروں اور افسروں کے سامنے جاتے ہوئے تو لِباس وغیرہ دُرُست کیا جاتا اورخوب ٹِپ ٹاپ اور زینت اختیار کی جاتی ہے مگر اللہ پاک کی مقدّس بارگاہ میں پیش ہونے کیلئے اہتِمام کا کوئی ذِہن ہی نہیں۔ہم دنیا کے کسی ”بڑے آدَمی“کے پاس جاتے ہیں یا ایسی جگہ جاناہوتا ہے جہاں بَہُت سارے لوگ ہمیں دیکھنے والے ہوں تو سر کے بال، لباس،عِمامہ،چادر وغیرہ خوب اِحتیاط کے ساتھ دُرُست کرتے ہیں مگر ”نَماز“جو کہ پَروَردَگار کے عظمت والے دربار کی حاضِری کا موقع ہے اُس وقت زینت کا کوئی اہتِمام نہیں کرتے! کم از کم اتنا توہو کہ کسی ”بڑے آدمی“کے پاس یا دعوتِ طَعام میں جاتے ہوئے انسان جو لباس پہنتا ہے وُہی مسجِد کی حاضِری میں پہن لیا کرے۔مسجِد کی حاضِری کے لئے زینت کرنے کے مُتَعلِّق قراٰنِ کریم پارہ 8 سورۃ الاعراف آیت نمبر 31میں ارشاد ہوتا ہے:
خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ ترجمۂ کنزالایمان:اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ۔
صدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اِس آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:یعنی لباسِ زینت اور ایک قول یہ ہے کہ کنگھی کرنا، خوشبو لگانا داخلِ زینت ہے اور سنّت یہ ہے کہ آدَمی بہتر ہیئت(ہے۔اَت۔یعنی عمدہ صورت و حالت)کے ساتھ نَماز کے لئے حاضِر ہو کیونکہ نَماز میں ربّ سے مُناجات ہے تو اس کے لئے زینت کرناعطر لگانا مستحب ہے۔مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ زمانۂ جاہِلیَّت میں دن میں مرد اورعورتیں رات میں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔اِس آیت میں سَترِ چھپانے اورکپڑے پہننے کا حکم دیا گیا اور اس میں دلیل ہے کہ سَتر عورت نماز وطواف اورہر حال میں واجِب ہے۔ (خَزائن العرفان ،ص248)