30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْنط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط یہ مضمون کتاب ”فیضانِ نماز“صفحہ 99پانچوں نمازوں کے فضائل
دُعائے عطار: یارَبَّ المصطفےٰ !جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ’’ پانچوں نمازوں کے فضائل“ پڑھ یا سُن لے،اُسےمسجد کی پہلی صف میں پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور اس کی بے حساب مغفرت فرما ۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: بروزِ قیامت لوگوں میں سے میرے قریب تر وہ ہوگا جس نے دُنیا میں مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک پڑھے ہوں گے۔ (ترمذی، 2/27، حدیث: 484) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدفجر و عصر پڑھنے والا جہنّم میں نہیں جائے گا
حضرت عُمارَہ بن رُوَیْبہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطفےٰجانِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے سورج کے طلوع و غُرُوب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نَماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی) وہ ہرگز جہنّم میں داخِل نہ ہوگا۔“ (مسلم، ص 250، حدیث: 1436)فجر و عصر کی فضیلت کی حکمت
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں:ایک یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہ جائے گا، اگر گیا تو عارِضی (یعنی وقتی )طور پر۔ لہٰذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ بعض لوگ قیامت میں نمازیں لے کر آئیں گے مگر ان کی نمازیں اہلِ حُقوق(یعنی جن کے حقوق پامال کئے ہوں گے اُن) کو دلوا دی جائیں گی۔دوسرے یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والوں کو اِن شاءَ اللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق ملے گی اور سارے گناہوں سے بچنے کی بھی، کیونکہ یہی نمازیں (نفس پر) زیادہ بھاری ہیں۔ جب ان پر پابندی کرلی تو اِن شاءَ اللہ بقیہ نمازوں پر بھی پابندی کرے گا، لہٰذا اس حدیث پر یہ اعتِراض نہیں کہ نَجات کے لیے صرف یہ دو نمازیں ہی کافی ہیں باقی کی ضَرورت نہیں ۔ خیال رہے کہ ان دو نمازوں میں دن رات کے فِرِشتے جمع ہوتے ہیں ، نیز یہ دن کے کَناروں کی نمازیں ہیں ، نیز یہ دونوں نفس پر گِراں (یعنی بھاری) ہیں کہ صُبْح سونے کا وقت ہے اور عصر کا روبار کے فروغ(یعنی زور و شور) کا، لہٰذا ان (نمازوں ) کا دَرَجہ زیادہ ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 1/394)آمِنہ کے چاند نے آسمان کا چاند دیکھ کر فرمایا
حضرت جَریر بن عبدُ اللہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں :ہم حضورِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضِر تھے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چو دھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر اِرشاد فرمایا: ” عنقریب (یعنی قیامت کے دن) تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اِس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہوسکے تو نمازِ فجر و عصر کبھی نہ چھوڑو۔“ پھر حضرتِ جَریر بن عبدُ اللہ رضی اللہُ عنہ نے یہ آیتِ مبارَکہ پڑھی: وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَاۚ (پ 16، طٰہٰ: 130)ترجَمۂ کنز الایمان: ”اور اپنے رب کو سَراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔“ (مسلم، ص 239، حدیث: 1434 ملخصاً)عشقِ رسول میں ڈوبی ہوئی شَرح
مُفسّرِ قرآن حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ پاک کے اِس حصے (آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چو دھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا) کے تحت فرماتے ہیں : یعنی خدائے رَحْمٰن کے چاند نے آسمان کے چاند کو دیکھا، ڈوبنے والے گہنے (یعنی کم رونق والے) چاند کو اُس چاند نے دیکھا جو نہ غُرُوب ہو نہ گہنے(یعنی جو نہ ڈوبے اورنہ جس کی روشنی میں کمی آئے) ، ظاہر کے چمکانے والے چاند کو اُس چاند نے دیکھا جو دل و جان، روح و ایمان کو چمکاتا ہے، رات میں چمکنے والے چاند کو اُس چاند نے دیکھا جو اَبَدُالْآباد تک(یعنی ہمیشہ) ہر وقت دن رات چمکتا ہے اور چمکے گا۔ میں کیا کہوں ! مجھے الفاظ بھی نہیں ملتے! اَللّٰهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكْ عَلٰی بَدْرِالنُّبُوَّةِ وَشَمْسِ الرِّسَالةِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۔ (ترجمہ:اے اللہ درود و سلام بھیج اور بَرَکت نازل فرما نُبُوَّت کے چاند اور رِسالت کے سورج پر) یوں کہہ لو کہ اس چاند کو جو سورج سے چمکتا ہے اُس چاند نے دیکھا جو سورج کو چمکاتا ہے، جو دلوں پر دن نکال دیتا ہے۔ (آسمان کا) چاند بھی خوش نصیب ہے جسے محبوب (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )نے دیکھا، یہ چاند (جسے آج بھی ہم دیکھتے ہیں ) وہ ہی ہے جس پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نگاہیں پڑی ہیں ۔ یہ حدیث عامَّۃُ المسلمین (یعنی عام مسلمانوں) کی دلیل ہے کہ مومن ربِّ پاک کو محشر میں بھی آنکھوں سے دیکھیں گے اور جنّت میں بھی دیکھا کریں گے۔ خیال رہے کہ جنّت کی ساری نعمتیں نیک اَعمال کا عِوض(عِ۔وَض یعنی بدلہ) ہوں گی خواہ اپنے اعمال کا، خواہ اس کے اعمال کا جس کے طفیل جنّت میں گیا مگر دیدارِ اِلٰہی کسی عمل کا عِوض(یعنی بدلہ) نہ ہوگا، خالص عطاءِ ذُو الجلال (یعنی اللہ پاک کی خاص عنایت )ہوگی،ان دو نمازوں پر پابندی اس دیدار کی لیاقت و قابلیت پیدا کرے گی یعنی فجروعصر کی پابندی۔دنیا میں نماز ایسے پڑھو کہ گویا(یعنی جیسے) تم خدا کو دیکھ رہے ہو کیونکہ یہاں حجاب (یعنی پردہ )ہے وہاں حجاب(یعنی پردہ) اُٹھ جائے گا گویا ختم ہو جائے گا، اُسے دیکھ کر اُس سے کلام کروگے۔ (حدیثِ پاک میں موجود آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں :) اِس فرمانِ عالی سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں تسبیح و تحمید (یعنی اللہ پاک کی پاکی اور تعریف بیان کرنے )سے مُراد نماز ہے،چُونکہ فجر و عصر کی نماز میں رات اور دن کے مُحافِظ فِرِشتے جمع ہو جاتے ہیں ، نیز فجر کی نماز سونے کی غفلت کا وقت ہے اور نمازِ عصر کاروبار، سیر و تفریح کی غفلت کا وقت،ان وُجوہ (Reasons) سے ان نمازوں کی تاکید زیادہ ہے، ربِّ پاک فرماتا ہے: n اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا (پ 15، بنی اسرائیل: 78)(ترجَمۂ کنز الایمان: بیشک صبح کے قرآن(یعنی نماز) میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔)،نمازِ عصر کے متعلِّق فرماتا ہے: حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ (پ 2، البقرۃ: 238) (ترجَمۂ کنز الایمان: نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی۔ (مراٰۃ المناجیح، 7/517-518 ملخصاً) تِیرہ دل کو جلوۂ ماہِ عرب دَرکار ہے چودہویں کے چاند تیری چاندنی اچّھی نہیں (ذوقِ نعت، ص 185) الفاظ و معانی: تِیرہ دل: اندھیرے میں ڈوبا ہوا دل۔ماہِ عرب: عرب کا چاند ، مُراد پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدپروردگار کا 100بار دیدار
حضرت علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ اِرشاد فرماتے ہیں :دُنیا کی زندگی میں (جاگتے میں ) اللہ پاک کا دیدار نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لیے خاص ہے اور آخرت میں ہر سُنی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقِع۔رہا قلبی(یعنی دل میں ) دیدار یا خواب میں ، یہ دیگر انبیا علیہمُ السّلام بلکہ اَوْلیا کے لیے بھی حاصل ہے۔ہمارے امامِ اعظم(ابوحنیفہ ) رضی اللہُ عنہ کو خواب میں سو بار زیارت ہوئی۔ (مزید فرماتے ہیں :)اس (یعنی اللہ پاک)کا دیدار بِلا کیف ہے، یعنی دیکھیں گے اور (مگر)یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے! جس چیز کو دیکھتے ہیں اُس سے کچھ فاصِلہ مَسافت (Distance)کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت (جِ۔ہَت یعنی سمت۔ڈائریکشن ، Direction ) میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دَہنے (Right) یا بائیں (Left)، آگے یا پیچھے، اُس( یعنی ربِّ کریم) کا دیکھنا اِن سب باتوں سے پاک ہوگا۔ پھر رہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یِہی تو کہا جاتا ہے کہ ” کیونکر“کو یہاں دَخْل نہیں ، اِن شاءَ اللہ جب دیکھیں گے اُس وقت بتا دیں گے۔ اس (طرح)کی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک عقل پہنچتی ہے، وہ خُدا نہیں اور جو خدا ہے، اُس تک عقل رَسا(یعنی پہنچتی) نہیں ،اور وقتِ دیدار نگاہ اُس کا اِحاطہ (یعنی گھیرا ) کرے، یہ محال(یعنی ناممکن۔ Impossible) ہے۔ (بہار شریعت، 1/20-22) بہارِ شریعت جلد اوّل، صفحہ 160 پر ہے: جنتی جب جنّت میں جائیں گے، ہر ایک اپنے اَعمال کی مقدار سے مرتبہ پائے گا اور اس کے فَضْل کی حد نہیں ۔ پھر اُنہیں دنیا کی ایک ہفتے کی مِقدار کے بعد اجازت دی جائے گی کہ اپنے پَروردَگار کی زیارت کریں اور عرشِ اِلٰہی ظاہر ہوگا اور ربِّ پاک جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ میں تجلی فرمائے گا اور ان جنتیوں کے لیے منبر(مِم۔بَر) بچھائے جائیں گے، نورکے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زَبرجَد کے منبر، سونے کے منبر، چاندی کے منبر اور اُن(جنتیوں ) میں کا اَدنیٰ (یعنی چھوٹے دَرَجے کا)مشک و کافور کے ٹیلے پر بیٹھے گا اور اُن میں ادنیٰ کوئی نہیں ، اپنے گمان(یعنی خیال) میں کرسی والوں کو کچھ اپنے سے بڑھ کر نہ سمجھیں گے، اور خدا کا دیدار ایسا صاف ہوگا جیسے آفتاب (یعنی سورج) اور چودھویں رات کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے دیکھتا ہے، کہ ایک کا دیکھنا دوسرے کے لیے مانِع (یعنی رُکاوٹ) نہیں اور اللہ کریم ہر ایک پر تجلی فرمائے گا، ان میں سے کسی کو فرمائے گا: اے فُلاں بن فُلاں ! تجھے یاد ہے، جس دن تو نے ایسا ایسا کیا تھا۔۔۔؟! دنیا کے بعض مَعاصی (نافرمانیاں ) یاد دلائے گا، بندہ عرض کرے گا: تو اے رب! کیا تو نے مجھے بخش نہ دیا؟ فرمائے گا: ہاں ! میری مغفرت کی وُسْعت (یعنی کُشادَگی ۔ پھیلاؤ ) ہی کی وجہ سے تو اِس مرتبے کو پہنچا۔ (بہارشریعت، 1/160) جے میں ویکھاں عَمَلاں وَلّے، کجھ نئیں میرے پَلّے جے میں ویکھاں رحمت رب دی، بَلّے بَلّے بَلّے (یعنی جب میں اپنے اعمال کی طرف دیکھتا ہوں تو کچھ نہیں پاتا اور جب اپنے رب کی رحمت کی طرف دیکھتا ہوں تو خُوشی سے جُھوم اُٹھتا ہوں )نَمازِ عصر کا ڈبل اَجْر
حضرت ابو بَصْرَہ غِفارِی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ نمازیعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائِع کردیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اُسے دُگنا (یعنی Double) اَجر ملے گا۔ (مسلم، ص 322، حدیث: 1927) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:یعنی پچھلی اُمتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اِسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے ،تم ان سے عبرت پکڑنا۔ (مراٰۃالمناجیح، 2/166)دُگنے اَجر کی وُجوہات کے مَدَنی پھول
پہلا اَجر پچھلی اُمتوں کے لوگوں کی مخالَفت کرتے ہوئے عصر کی نماز پر پابندی کی وجہ سے ملے گا اور دوسراا جر عصر کی نماز پڑھنے پر ملے گا جس طرح دیگر نمازوں کا ملتا ہے پہلا اَجر عبادت پر پابندی کی وجہ سے ملے گا اور دوسرا اَجر قناعت کرتے ہوئے خرید و فروخت چھوڑنے پر ملے گا، کیونکہ عصر کے وقت لوگ بازاروں میں کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں پہلا اجر عصر کی فضیلت کی وجہ سے ملے گا کیونکہ یہ صَلاۃِ وُسْطٰی(یعنی درمیانی نماز) ہے اور دوسرا اَجر اس کی پابندی کے سبب ملے گا (شرح الطیبی، 3/19، مرقاۃ المفاتیح، 3/139)عمل ضبط ہو گیا!
تابعی بُزُرگ حضرتِ ابو الْملیح (اَ۔بُلْ۔مَ۔لِیْحْ) رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں : ایک ایسے روز کہ بادَل چھا ئے ہو ئے تھے، ہم صحابیِ رسول حضرتِ بُرَیْدَہ رضی اللہُ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے، آپ نے فرمایا: نمازِ عصر میں جلدی کرو کیو نکہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جس نے نمازِعصر چھوڑدی اُس کا عمل ضبط ہوگیا۔‘‘(بخاری، 1/203، حدیث: 553)نمازِعصرچھوڑ نے کے عادی پر اندیشۂ کُفر
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: غالباً ’’عمل ‘‘ سے مراد وہ دنیوی کام ہے جس کی وجہ سے اُس نے نمازِعصر چھوڑی (اور) ’’ضبطی‘‘ سے مراد اُس کام کی بَرَکت کا ختم ہونا۔یا یہ مطلب ہے کہ جو عصر چھوڑنے کا عادی ہو جائے اُس کے لیے اندیشہ(یعنی خطرہ) ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے جس سے اعمال ضبط (یعنی برباد) ہو جائیں، (البتہ) اس کا مطلب یہ نہیں کہ عصر چھوڑنا کفر و اِرْتداد ہے۔ خیال رہے کہ نمازِ عصر کو قرآنِ کریم نے ’’بیچ کی نماز‘‘ فرما کر اس کی بہت تاکید فرمائی نیز اس وقت رات و دن کے فرشتوں کا اِجتماع(یعنی جمع ہونا) ہوتاہے اور یہ وقت لوگوں کی سیر و تفریح اور تجارتوں کے فروغ(یعنی بڑھنے اور مصروفیت) کا وقت ہے، اس لیے اکثر لوگ عصر میں سُستی کر جاتے ہیں، اِن وجوہ (Reasons) سے قرآن شریف نے بھی عصر کی بہت تاکید فرمائی اور حدیث شریف نے بھی۔ (مراٰۃ المناجیح ، 1/381-382)40منٹ پہلے تیّاری (حکایت)
عارِف بِاللہ ابُو العباس حَرِثی رحمۃُ اللہِ علیہ نمازِ عصر کی تیاری اس وَقت سے شروع کر دیتے جب ظہر کا وقت ختم ہونے میں چالیس منٹ باقی ہوتے، آپ کی تیاری کا طریقہ یہ ہوتا کہ نگاہیں جھکائے مُراقبے میں مشغول ہوجاتے اور وسوسوں سے اِستغفار کرتے رہتے اور ایسا اس لیے کرتے تاکہ آپ پر عصر کا وقت اس حالت میں آئے کہ بارگاہ ِالٰہی میں حاضِری سے آپ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ (لواقح الانوار القدسیہ ، ص 492)ایک بیان نے کئی نمازی بنا دیئے
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! نمازوں کی اہمیت اپنے دلوں میں اُجاگر کرنے، ہر نماز اہتمام کے ساتھ اپنے وَقت کے اندر باجماعت پڑھنے اور دوسروں کو نمازوں کیلئے تیار کرنے کی سوچ بنانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے مُنْسلک رہئے۔ آیئے! نمازی بننے بنانے کے متعلِّق ایک ’’مَدَنی بہار‘‘ سنتے ہیں : وزیر آباد (پنجاب ) کے اسلامی بھائی اس وقت اسکول کے طالب علم تھے۔ کسی مبلغِ دعوتِ اسلامی نے مکتبۃُ المدینہ سے جاری ہونے والے بیان کا کیسٹ ’’بے نمازی کی سزائیں ‘‘ پیش کیا۔ ان کے بقول گھر میں والد صاحب کے علاوہ کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا ۔بہرحال انہوں نے وہ کیسٹ گھر میں چلایا، والد صاحب نے بھی وہ بیان سنا اور گھر والوں کو باربار اس بیان کو سننے کی ترغیب دی ۔اس بیان کی بَرَکت سے اس اسلامی بھائی کے گھروالے نمازی بن گئے، غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ کے مرید بھی بنے۔ پھر ایک وقت وہ آیا کہ اَلحمدُ لِلّٰہ ان کے گھر میں اسلامی بہنوں کا ہفتہ وار سنتوں بھرا اجتماع بھی ہونے لگا۔ان کے بھائی دعوتِ اسلامی کے نعت خواں بھی بنے اور جامعۃ المدینہ میں درسِ نظامی کے طالبِ علم بھی جبکہ ان کے دو چچا زاد بھائی دعوتِ اسلامی کے مدرسۃ ُالمدینہ میں حفظِ قرآن کی سعادت پانے لگے ۔ یقیناً مُقَدَّر کا وہ ہے سِکندر جسے خیرسے مل گیا مَدنی ماحول (وسائلِ بخشش، ص 647) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّداَہْل وعِیال اور مال برباد ہو گئے
صحابی ابنِ صحابی حضرتِ عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسولُ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کی نمازِعصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے )(شرح مسلم للنووی، 5/126) گویا اُس کے اَہل وعیال و مال ’’وَتْر‘‘ ہو (یعنی چھین لئے) گئے۔ (بخاری، 1/202، حدیث: 552)وَتْر کا مطلب
حضرتِ علّامہ ابو سلیمان خطابی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :وَتْرکا معنی ہے :” نقصان ہونا یا چھن جانا،‘‘ پس جس کے بال بچے اور مال چھن گئے یا اُس کا نقصان ہوگیا گویا وہ اکیلا رہ گیا۔ لہٰذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اِس طرح ڈرنا چاہیے جس طرح وہ اپنے گھر کے افراد اور مال و دولت کے جانے (یعنی برباد ہونے) سے ڈرتا ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ، 2/590)میِّت کو قَبر میں سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے
حضرت جابر بن عبدُ اللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مُعَظَّم ہے: جب مَرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اُسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے: ’’مجھے چھوڑ و میں نماز پڑھ لوں۔“ (ابن ماجہ، 4/503، حدیث: 4272)اے فرشتو! سُوالات بعد میں کرنا....
حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ پاک کے اِس حصے (سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے) کے تحت فرماتے ہیں : یہ احساس ’’مُنکَرنَکِیْر‘‘ کے جگانے پر ہوتا ہے، خواہ دَفن کسی وَقت ہو۔ چونکہ نمازِ عصر کی زیادہ تاکید ہے اور آفتاب(یعنی سورج) کا ڈوبنا اِس کا وَقت جاتے رہنے کی دلیل ہے، اس لیے یہ وَقت دکھایا جاتا ہے۔حدیث کے اِس حصے ( مجھے چھوڑ و میں نماز پڑھ لوں ) کے تحت لکھتے ہیں :یعنی ’’اے فرشتو! سُوالات بعد میں کرنا عصر کا وَقت جارہا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو۔‘‘ یہ وُہی کہے گا جو دنیا میں نمازِعصر کا پابند تھا، اللہ نصیب کرے۔ اسی لیے ربّ فرماتا ہے حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ- (پ 2، البقرۃ: 238) ترجَمۂ کنزالایمان:” نگہبانی (یعنی حفاظت)کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی۔“یعنی ’’تمام نمازوں کی خصوصاً عصر کی بہت نگہبانی (یعنی حفاظت )کرو۔‘‘ صوفیا فرماتے ہیں :’’جیسے جیو گے ویسے ہی مرو گے اور جیسے مرو گے ویسے ہی اُٹھو گے۔‘‘ خیال رہے کہ مومن کو اُس وَقت ایسا معلوم ہوگا جیسے میں سو کر اُٹھا ہوں ، نزع وغیرہ سب بھول جائے گا۔ ممکن ہے کہ اس عرض (مجھے چھوڑ دو!میں نماز پڑھ لوں ) پر سُوال جواب ہی نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان کیونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سُوالوں کا جواب ہوچکی ۔(مراٰۃ المناجیح، 1/142) کیا پوچھتے ہو مجھ سے، نکیرین! لحد میں لو دیکھ لو! دل چیر کے، اَرمانِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع