30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
دو عالم کے مالِک و مختار باذنِ پروردگار، مکّی مَدَنی سرکار صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ ذی وقار ہے : جس نے مجھ پر سو مرتبہ دُرُودِپاک پڑھا اللہ تعالیٰ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے کہ یہ نِفاق اور جہنَّم کی آگ سے آزاد ہے اور اُسے بروزِ قِیامت شُہَدا کے ساتھ رکھے گا۔( مجمع الزوائد ، کتاب الادعیۃ ، باب فی الصلوۃ علی النبی۔۔۔الخ ، الحدیث : ۱۷۲۹۸ ، ج ۱۰ ، ص ۲۵۳)
ایک لڑکا گھر سے بھاگنے کا عادی تھا، بار بار بھاگتا اور ماں باپ اسے تلاش کرتے پھرتے ۔ جب ڈھونڈ کر لاتے تو پھر کچھ عرصہ کے بعد بھاگ جاتا، آخر کار ماں باپ اس کے بار بار بھاگنے سے تنگ آگئے اور ایک مردِ کامل کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ہمارا لڑکا یوں کرتا ہے ۔ اس مردِ کامل نے کہا : ’’تمہاری محبت کی زیادتی نے اُس کو ایسا بنا دیا ہے ، اب اگر بھاگے تو تم اس کی پرواہ نہ کرنا، خود پریشان ہو کر جب واپس آئے گا تو کبھی نہ بھاگے گا۔‘‘ چنانچہ ماں باپ نے ایسا ہی کیا اور اس مردِ قلندر کی بات پر عمل کیا اور اسے نہ ڈھونڈا، آخر کار پریشان حال، دکھی، ٹھوکریں کھاتا، گرتا پڑتا ماں باپ کے پاس پہنچا تو پھر کبھی ماں باپ کو چھوڑ کر نہ گیا۔ (تفسیرِ نعیمی، ج۲، ص ۴۲۷)
مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان تفسیرِ نعیمی میں حضرت سیدنا علامہ اسماعیل حقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں : شیخ طریقت کو چاہیے کہ مریدین کی ایک دو غلطیاں تو معاف کرے لیکن جب محسوس کرے کہ مرید جرم کا عادی ہو چکا ہے تو اس سے تعلق توڑ دے ، اسے خود سے بالکل دور کردے ، اب وہ کتنی ہی آہ و زاری کرے کتنا ہی روئے دھوئے مگر اسے اپنے پاس نہ بلائے ، بلکہ اس سے کہے : کچھ دن مجرموں کے ساتھ رہ کر ان کا انجام دیکھ، پھر جب تمہیں ان کی حرکات سے پوری نفرت ہو جائے تب میرے پاس آنا کہ تمہیں ہماری صحبت کی قدر ہو اور پھر تم جرم سے باز رہو۔ مزید فرماتے ہیں : کبھی فراق (جدائی) بھی ذریعہ وصالِ دائمی (ہمیشہ کے ملاپ کاذریعہ) ہو جاتا ہے ، ہجر (جدائی) سے وصل کی قدر ہوتی ہے ۔ ( تفسیرِ نعیمی، ج۲، ص ۴۲۶ بحوالہ تفسیر روح البیان، ج ۱، ص۳۵۹)
معلوم ہوا اگر کسی غلطی پر پیر صاحب جلال فرما دیں یا پوچھ گچھ کرلیں تو برا نہیں منانا چاہئے اگرچہ بسا اوقات نفس پر گراں گزرتا ہے اور ایسے موقع پر شیطان بھی نادان مریدوں کے دل میں بدگمانی کی آگ کو خوب بھڑکاتا ہے جس میں نادان مریدوں کو اکثر مبتلا ہوتے بھی دیکھا گیا ہے ۔لہٰذا ایسے مواقع پر یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح مرید پر پیر کے حقوق ہیں اسی طرح پیر پر بھی مرید کے کچھ حقوق ہیں۔ جن میں سر فہرست مرید کی اصلاح و ہدا یت کے لئے ہمہ تن کوشاں رہنا ہے اور اصلاح کے لئے نرمی و گرمی دونوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جیسا کہ مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : استاد شاگردوں پر اور پیر مریدوں پر ناراض ہوسکتا ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح ، کتاب الایمان ، باب القدر ، الفصل الثانی ، ج ۱، ص ۱۰۷)
حضرت سیدنا امام عبد الوہاب شعرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی (متوفی ۹۷۳ھ) ارشاد فرماتے ہیں کہ جب کسی کا مرشِد اس سے ناراض ہوجائے اور اسے اپنی خطا و غلطی
یا قصور بھی معلوم نہ ہوتب بھی اس پر لازم ہے کہ فوراً ہی اپنے مرشِد کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ جائے ۔ کیونکہ جو مرید فوراً اپنے مرشِد کو راضی کرنے کی کوشش نہ کرے تو یہ اس کی ناکامی کی دلیل و علامت ہے ۔مزید ارشاد فرماتے ہیں : میں نے اپنے پانچ سالہ بیٹے کو یہ کہتے سنا کہ اباجان!سچا مرید وہ ہے کہ جب مرشِد اس پر ناراض ہوجائے تو اس کی روح نکلنے کے قریب آجائے اور وہ نہ کھائے نہ پئے نہ ہنسے او رنہ سوئے ، یہاں تک کہ اس کے پیرو مرشِد اس سے راضی ہوجائیں۔ (الانوار القدسیہ فی معرفۃ قواعد الصوفیہ، الجزء الثانی، ص ۴۷)
دُعا منگیا کرو سنگیو!
کِتے مرشِد نہ رُس جاوے
جنہاں دے پیر رُس جاندے
او جیندے جی مرے رہندے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! افسوس! صد افسوس!دیگر اعمال و عقائد کی طرح ہم طریقت کے میدان میں بھی کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج کے دور میں پہلے جیسے پیر کامل کہیں نظر آتے ہیں نہ مرید کامل۔ اگر کہیں پیر کامل ہے تو مرید کامل نہیں اور اگر مرید کامل ہے تو پیر کامل اور جامع شرائط نہیں کہ مرید اُخروی نجات کے حصول کے لیے اپنے پیر کی رضا چاہے اور اس کے لیے کوشش کرے ۔مگر اس پر فتن دور میں ایک ہستی ایسی بھی ہے جس کا انداز باقی جہاں سے نرالا ہے اور وہ ہستی ہیں پندرھویں صدی کی عظیم علمی و روحانی شخصیت، شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ۔آپ کی حیاتِ طیبہ کا مشاہدہ کرنے والے اسلامی بھائی اس
[1] مبلغ دعوتِ اسلامی و نگرانِ مرکزی مجلسِ شوریٰ حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطاری سَلَّمَہُ الْبَارِی نے یہ بیان شیخِ طریقت، امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی شبِ ولادت ۲۶رمضان المبارک ۱۴۲۸ ھـ بمطابق اکتوبر 2007ء کو تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ باب المدینہ کراچی میں سنتوں بھرے اجتماع میں فرمایا۔ ۴جمادی الاخری ۱۴۳۳ ھـ بمطابق 26اپریل 2012 کو ضروری ترمیم و اضافے کے بعد تحریری صورت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع