30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط پیارے مرشد[1]>[1]دُرودِ پاک کی فضیلت
آسمانِ صَحابیت کے دَرَخشاں ماہتاب، نِظامِ عَدل کے روشن آفتاب، امیرُ المومنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطّاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : ( اِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوْفٌ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْض ) بے شک دُعا زمین وآسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے اور ( لَا یَصعَدُ مِنْہُ شَیْئٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ عَلٰی نَبِیِّکَ ) اُس سے کوئی چیز اوپر کی طرف نہیں جاتی (یعنی دُعا قبول نہیں ہوتی) جب تک تم اپنے نبی مکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرودِ پاک نہ پڑھ لو ۔ ( سُنَن التِرمِذی ، کتاب الوتر ، باب فی فضل الصلاۃ علی النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ الحدیث : ۴۸۶، ج ۲، ص ۲۸ ۔ دار الفکر بیروت ) حضرت علّامہ کفایت علی کافی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْشَافِی فرماتے ہیں : دُعا کے ساتھ نہ ہووے اگر درُود شریف نہ ہووے حَشر تلک بھی بر آوَرِ حاجات قبولیَّت ہے دُعا کو دُرود کے باعِث یہ ہے دُرود کہ ثابِت کرامت وبَرَکات صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدشِیر خوار بچے کی گواہی
بنی اسرائیل میں جریج نامی ایک عبادت گزار شخص تھا جس نے لوگوں سے الگ تھلگ ایک عبادت گاہ بنا رکھی تھی ۔ ایک دن وہ اپنے عبادت خانہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی والدہ ماجدہ آئیں اور اسے آواز دی : ’’اے جریج!‘‘ مگر جریج سوچنے لگا کہ اب کیا کروں ، پھر دل میں کہا : ”اے میرے ربّ! ایک طرف میری ماں ہے اور دوسری طرف نماز ۔ “ اس نے نماز کو ترجیح دی اور والدہ کو کوئی جواب نہ دیا ۔ دوسرے دن پھر اس کی ماں آئی تو وہ اس وقت بھی نماز پڑھ رہا تھا، ماں نے پکارا : ”اے جریج!“ تو اس نے پھر دل میں یہی کہا : ”اے میرے ربّ! ایک طرف میری ماں ہے اور دوسری طرف نماز ۔ “ اس بار بھی جریج نے نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے جواب نہ دیا ۔ والدہ پھر چلی گئیں ۔ تیسرے دن بیٹے سے ملنے آئیں تو اس بار بھی جریج نے نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے ماں کی پکار کا کوئی جواب نہ دیا ۔ ماں کا دل دکھا اور دلِ پر درد سے یہ الفاظ نکلے : ”اے اللہ ! جریج کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ۔ “بنی اسرائیل میں جریج کی عبادت و ریاضت کا بڑا چرچا تھا، بنی اسرائیل کی ایک عورت بہت حسین و جمیل تھی، کہنے لگی کہ میں جریج کو فتنہ میں مبتلا کر دوں گی ۔ چنانچہ یہ عورت جریج کے پاس گئی مگر جریج نے کوئی توجہ نہ دی ، جریج کی توجہ حاصل کرنے سے مایوس ہو کر وہ اس کے عبادت خانے میں اکثر آنے جانے والے ایک چرواہے کے پاس آئی اور اسے اپنے دامِ فریب میں گرفتار کر کے منہ کالاکر لیا اور جب اس کا ثمر نومولود بچے کی شکل میں ظاہر ہوا تو اس نے دعویٰ کیا کہ یہ بچہ جریج کا ہے ۔ لوگوں کو معلوم ہوا تو بغیر تصدیق و تفتیش سب آپے سے باہر ہو گئے اور فوراً جا کر جریج کو عبادت خانے سے باہر نکال کر خوب زدو کوب کیا اور عبادت خانے کو بھی گرا دیا ۔ جب جریج کو حقیقت معلوم ہوئی کہ اس پر بدکاری کا الزام لگایا گیا ہے تو اس نے پوچھا : ’’وہ بچہ کہاں ہے ؟‘‘ جب لوگ بچہ لے کر آئے تو جریج نے نماز پڑھی اور پھر اپنی ایک انگلی بچے کے پیٹ پر رکھ کر پوچھا : ’’بتا تیرا باپ کون ہے ؟‘‘ تو بچے نے بتایا کہ اس کا باپ فلاں چرواہا ہے ۔ اس پر بنی اسرائیل بڑے شرمسار ہوئے اور اپنے کئے کی معافی مانگی اور جریج (کے ہاتھ پاؤں ) کو چومنے لگے اور عرض کی کہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کے لئے سونے کا عبادت خانہ بنا دیتے ہیں مگر جریج نے کہا کہ سونے کے بجائے اسے پہلے کی طرح مٹی ہی کا بنا دو ۔ ( صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ والاداب ، باب تقدیم بر الوالدین علی التطوع بالصلاۃ وغیرھا ، الحدیث : ۲۵۵۰، ص ۱۳۸۰) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ یٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت جریج کے حکم پر باذنہ تعالیٰ بچے کے بول پڑنے سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندوں کی زبانِ حق ترجمان سے نکلنے والے کلمات باذنِ پروردگار واقع ہو کر ہی رہتے ہیں ۔ جیسا کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں ( لَوْ اَقْسَمَ عَلَى اللّٰهِ لَاَ بَرَّهُ ) کہ اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بھروسے پر قسم اٹھا لیں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے ۔ ( صحیح البخاری ، کتاب الصلح ، باب الصلح فی الدیۃ ، الحدیث : ۲۷۰۳، ج ۲، ص ۲۱۳ ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت ) پیارے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ان نیک بندوں کو جن کا ربّ ذُوالجلال کے ہاں بڑا مرتبہ ہے ، ہم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ولی کہتے ہیں ۔ولایت کی تعریف :
صدرُ الشریعہ، بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی ( مُتَوَفّٰی ۱۳۶۷ھ) فرماتے ہیں : ’’ولایت ایک قربِ خاص ہے کہ مولیٰ عَزَّ وَجَلَّ اپنے برگزیدہ بندوں کو محض اپنے فضل وکرم سے عطا فرماتا ہے ۔ ‘‘ ( بھارِ شریعت ، جلد ۱، حصہ ۱، ص ۲۶۴ ۔ مکتبۃ المدینۃ باب المدینۃ ، کراتشی ) حضرت سیِّدُناامام فخر الدین ابوعبداللہ محمدبن عمر رازی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی ( مُتَوَفّٰی ۶۰۶ھ) وِلایت کی تعریف کرتے ہوئے کسی عارف ب اللّٰہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں : ’’ولایت قربِ خاص کانام ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ولی وہ ہے جو اس قرب کی انتہا کو پا لیتا ہے ۔ ‘‘ ( التفسیرالکبیر ، سورۃ یونس ، تحت الایۃ : ۶۲، جلد ۶، ص ۲۷۶ ۔ دار احیاء التراث العربی بیروت ) اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کے متعلق ارشاد فرمایا ہے : اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲) ( پ ۱۱، یونس : ۶۲) ترجمۂ کنز الایمان : سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم ۔ صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی ’’ خزائن العرفا ن‘‘ میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ولی کی اصل ( وِلَاء ) سے ہے جو قرب و نصرت کے معنی میں ہے ۔ وَلیُ اللہ وہ ہے جو فرائض سے قُربِ الٰہی حاصل کرے اوراطاعتِ الٰہی میں مشغول رہے اور اس کا دل نورِ جلالِ الہٰی کی معرِفت میں مستغرق ہو جب دیکھے دلائلِِ قدرتِ الٰہی کو دیکھے اور جب سنے اللہ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے ربّ کی ثنا ہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے طاعتِ الہٰی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے اُسی امر میں کوشش کرے جو ذریعۂ قُربِ الٰہی ہو، اللہ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے ، یہ صفت اولیا کی ہے ، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے ۔ مُتَکَلِّمِیْن کہتے ہیں ولی وہ ہے جو اعتقادِ صحیح مبنی بر دلیل رکھتا ہو اور اعمالِ صالحہ شریعت کے مطابق بجا لاتا ہو ۔ بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت نام ہے قُربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ کے ساتھ مشغول رہنے کا ۔ جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتا اور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے ۔ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آئے ۔ یہی طبری کی حدیث میں بھی ہے ۔ ابنِ زید نے کہا کہ ولی وہی ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس آیت میں مذکور ہے : الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَیعنی ایمان و تقویٰ دونوں کا جامع ہو ۔ بعض علما نے فرمایا کہ ولی وہ ہیں جو خالص اللہ کے لئے محبت کریں ، اولیا کی یہ صفت احادیثِ کثیرہ میں وارِد ہوئی ہے ۔ بعض اکابر نے فرمایا ولی وہ ہیں جو طاعت سے قُربِ الٰہی کی طلب کرتے ہیں اور اللہ تَعَالٰی کرامت سے ان کی کار سازی فرماتا ہے یا وہ جن کی ہدایت کا برہان کے ساتھ اللہ کفیل ہو اور وہ اس کا حقِِ بندگی ادا کرنے اور اس کی خَلق پر رحم کرنے کے لئے وقف ہو گئے ۔ یہ معانی اور عبارات اگرچہ جداگانہ ہیں لیکن ان میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک عبارت میں ولی کی ایک ایک صفت بیان کر دی گئی ہے جسے قُربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے یہ تمام صفات اس میں ہوتی ہیں ۔ ولایت کے درجے اور مراتب میں ہر ایک بقدر اپنے درجے کے فضل و شرف رکھتا ہے ۔وِلایت کسبی ہے یا عطائی ؟
ولایت کی تعریف جان کر یقیناً ہر ایک اسلامی بھائی چاہے گا کہ وہ اس منصب پر فائز ہو مگر یاد رکھنا چاہئے کہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 146 صَفحات پر مشتمل کتاب، ’’فیضانِ مزاراتِ اولیا‘‘ صَفْحَہ 34پر ہے کہ ولایت وہبی وعطائی ہے یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے عطا کردہ ایک انعام ہے ، کسبی نہیں یعنی عبادت وریاضت کے ذریعے حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے ۔ البتہ! اعمالِ حسنہ اس کا ذریعہ اور سبب ضرور ہیں ۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنَّت، مجدِّدِ دین وملَّت حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ( مُتَوَفّٰی ۱۳۴۰ھ) ارشاد فرماتے ہیں : ’’ولایت کسبی نہیں ، محض عطائی ہے ۔ ہاں ! کوشش اور مجاہدہ کرنے والوں کواپنی راہ دکھاتے ہیں (یہ اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے : وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ- ( پ ۲۱، العنکبوت : ۶۹) ترجمۂ کنز الایمان : اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے ) ۔ ‘‘ ( فتاویٰ رضویہ ، جلد ۲۱، ص ۶۰۶) اور صدرُ الشریعہ، بدرُ الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی ( مُتَوَفّٰی ۱۳۶۷ھ) ارشاد فرماتے ہیں : ’’ولایت وہبی شے ہے ، نہ یہ کہ اعمالِ شاقہ (یعنی سخت مشکل اعمال) سے آدمی خود حاصل کر لے ، البتہ! غالباً اعمالِ حسنہ اس عطیۂ الٰہی کے لئے ذریعہ ہوتے ہیں اور بعضوں کو ابتدا ءً مل جاتی ہے ۔ ‘‘ ( بھارشریعت ، جلد ۱، حصّہ ۱، ص ۲۶۴ ۔ مکتبۃ المدینۃ باب المدینۃ ) اعلیٰ حضرت عظیم البرکت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت اور صدرُ الشریعہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ان اقوال سے معلوم ہوا کہ ولایت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ایک خاص فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ۔ البتہ! نیک اعمال کرتے رہنا چاہئے تا کہ ہمارا پیارا ربّ عَزَّ وَجَلَّ ہم سے راضی ہو کر ہمیں بھی اپنے اس خاص فضل و کرم کی بارش کا ایک قطرہ عطا فرما دے ۔ پیارے اسلامی بھائیو! حضرت جریج والی روایت سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوئیں ، ایک تو یہ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندوں (یعنی اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام ) سے ایسے افعال صادر ہوتے ہیں جو عقل میں نہیں آ سکتے اسے کرامت کہتے ہیں اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ماں کی بد دعا سے ہمیشہ بچنا چاہئے ۔ لہٰذا آئیے پہلے ان دونوں باتوں کی کچھ تفصیل جاننے کی کوشش کرتے ہیں :
[1 یہ بیان مبلغ دعوتِ اسلامی ونگران مرکزی مجلسِ شوریٰ حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطاری سَلَّمَہُ الْبَارِی نے تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے عظیم الشان سنتوں بھرے اجتماع میں بڑی گیارھویں شریف کے موقع پر جامع مسجد کنز الایمان بابری چوک (باب المدینہ) میں ۱۴۲۶ھ بمطابق 2005ء کو فرمایا ۔ ضروری ترمیم و اضافے کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع