30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم طپیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مُعاف کر دینے کی عادت
دُعائے عطار :یا اللہ پاک ! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ” پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مُعاف کر دینے کی عادت “ پڑھ یا سن لے اُسے غصہ پینے والا اور دوسروں کی غلطیاں معاف کرنے والا بنا اور اُسے بے حساب بخش دے۔اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّمدرود شریف کی فضیلت
مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’تمہارا مجھ پر دُرُودِپاک پڑھنا تمہاری دعاؤ ں کا مُحافِظ، رب تعالیٰ کی رضا کا باعث اور تمہارے اعمال کی پاکیزگی کا سبب ہے۔‘‘ (القول البدیع ،ص 270) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدلوگوں میں بہتر وہ ہے جو۔۔۔
اُمُّ المومنین،حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بارنبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کسی اَعرابی سےایک وَسق(چھ مَنْ تیس (30)سیر ) کھجوروں کے بدلے میں ایک اُونٹ خریدا ، کھجوریں دینے کیلئے جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر تشریف لائے اور کھجوریں تلاش کیں تو نہ ملیں۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اُس اَعرابی کے پاس واپس گئے اور ارشاد فرمایا: عبدُ اللہ!ہم نے تجھ سے ایک وَسْق کھجوروں کے بدلے اُونٹ خریداتھا، (گھر میں کھجوریں موجود تھیں) مگرتلاش کے باوجو دہمیں کھجوریں نہیں مل سکیں ۔ یہ سنتے ہی وہ اَعرابی زور زور سے چِلّا نے لگا: ہائے دھوکہ! ہائے دھوکہ!شمعِ رِسالت کے پروانے ،صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے جب یہ ماجرا دیکھا تو اَعرابی کو مارنے کےلیے دوڑے اور اس سے کہا: تُو رسولُ اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بارے میں ایسی بات کرتا ہے؟ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِسے چھوڑدو! کیونکہ حق دار کو گفتگو کا حق حاصل ہوتاہے۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دو تین مرتبہ اس طرح فرمایا ،لیکن سمجھانے کے باوجودجب وہ نہ مانا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک صَحابی کوحکم دیا کہ خَولہ بنتِ حکیم کے پاس جاکر ان سے کہو کہ اگر آپ کے پاس کھجوروں کا ایک وَسْق ہے تو ہمیں دے دیں،اِن شاءَ اللہ ہم واپس کر دیں گے۔ وہ صَحابی حضرت خَولہ بنتِ حکیم رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اوران سے کہا کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر آپ کے پاس ایک وَسْق کھجوریں موجود ہیں تو دے دیں، اِن شاءَ اللہ آپ کو واپس مل جائیں گی۔انہوں نے کہا: میرے پاس کھجوریں موجود ہیں، آپ لینے کیلئے کسی کوبھیج دیجئے۔سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس اَعرابی کو لے جاؤ اور جتنی کھجوریں اس کی بنتی ہیں دے دو۔ وہ اَعرابی جب کھجوریں لے کر واپس آیا تو نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان کےدرمیان جلوہ گرتھے۔اس نے عرض کی:جَزاكَ اللہ خَیْراً!(یعنی اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے)آپ نے پُورا حصّہ بڑے عُمدہ طریقے سے عطافرمادیا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں سے بہترین وہ ہیں جو عُمدہ طریقے سے پورا حصّہ دیتے ہیں۔ (مسند امام احمد، 10/134، حدیث: 36372ملتقطاً ) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اللہ پاک نے اپنے پیارے اور سب سے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ پاک میں تمام اخلاقی اچھائیاں اور خوبیاں جمع فرما دی ہیں۔آپ کے اعلیٰ اخلاق میں سے ایک خُلق عَفْو و دَرْگزر بھی ہے،آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی ذات کیلئے کبھی بھی کسی سے بدلہ نہیں لیتے تھے، بالفرض اگرکوئی آپ کے ساتھ بُرے سلوک سے پیش آتا تو آپ اس پر غُصّہ کرنے یاسختی سے پیش آنے کے بجائے شفقت و مہربانی والا سُلوک ہی فرماتے جیسا کہ بیان کردہ اِس خوبصورت واقعے سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سب کے سامنے سَودے سے انکار کرنے کا اِلْزام لگا نے والے کوآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قُدرت و طاقت کے باوجود مُعاف فرمادیا۔ پیارے پیارے اسلامی بھائیو!ہمیں بھی اس بہترین عادت کو اپنانا چاہئے اور خرید و فروخت کرتے وقت اگر گاہک دوکاندار کو یا دوکاندار گاہک کو کوئی تکلیف دہ بات کہہ دے تو فوراً غصہ کرنے،بدکلامی کرنے اور الزام تراشی کرنےکے بجائے نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر عمل کرتے ہوئے صبر،نرمی ، بردباری اور عَفْو و دَرْگزر کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ غُصّے کو پینا اور لوگوں سے دَرگُزر کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کے سبب ہمارا شمار اللہ پاک کے پسندیدہ بندوں میں ہوجاتا ہے،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4،آل عمران : 134) ترجَمۂ کنز الایمان : اور غُصَّہ پینے والے اور لوگو ں سے دَرگُزرکرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ اِسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے : وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور:22) ترجَمۂ کنز الایمان : اور چاہئے کہ مُعاف کریں اور دَرگُزْر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے زِیادہ طاقتور وہ ہے جو غُصّہ کے وقت خود پر قابو پالے اورسب سے زِیادہ بُردباروہ ہے جو طاقت کے باوجود مُعاف کردے۔ (کنزالعمال ،جزء3، 3/207، حدیث :7694) حضرت عُقْبہ بن عامِر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عقبہ بن عامر! جو تم سے قَطْع ِتعلُّقی کرے تم اس سے تعلُّق جوڑو ، جوتمہیں مَحروم کرے اُسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو۔ (مسند احمد، 6/148، حدیث: 17457) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدزندگی کا سب سے سخت دن
ایک مرتبہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے دریافت کیا : کیا جنگِ اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر آیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا: ہاں !اے عائشہ! وہ دن میرے لئے جنگ ِاُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت تھا، جب میں نے طائِف میں وہاں کے ایک سردار” اِبْنِ عَبْدِ یَا لِیْل“ کو اسلام کی دعوت دی۔ اس نے میری دعوت کو رَد کر دیا اور طائِف والوں نے مجھ پر پتھر برسائے۔ میں اسی غم میں سر جھکائے چلتا رہا، یہاں تک کہ مقام ” قَرْنُ الثَّعالِب ‘‘ میں پہنچا۔ وہاں پہنچ کر جب میں نے سر اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بادل مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے، اس بادل میں سے جبریل علیہ السّلام نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ پاک نے آپ کی قوم کا قول اور ان کا جواب سن لیا اور اب آپ کی خدمت میں پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہے تاکہ وہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے سلام کرکے عرض کی:اے محمد! (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم)اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں ” اَخْشَبَیْن‘‘(ابُو قُبَیْس اورقُعَیْقَعان) دونوں پہاڑوں کو ان کفار پر اُلٹ دوں تو میں اُلٹ دیتا ہوں۔ یہ سُن کر رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں، بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ پاک ان کی نسلوں سے اپنے ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا،جو صرف اسی کی عبادت کریں گےاورشرک نہیں کریں گے۔ (بخاری، 2/386،حدیث: 3231 ملتقطاً، نزہۃ القاری، 4/316 ماخوذاً)جاؤ!تم سب آزاد ہو
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یوں تو نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری پیاری ساری ہی زندگی اسی طرح حِلم و کرم کے عظیمُ الشّان واقعات سے سجی ہوئی ہے،مگر فتحِ مکہ کے موقع پرآپ نے جس عَفْو و دَرْگزر اور شفقت ومہربانی کا مظاہرہ فرمایا، اس کی مثال ناممکن ہے،چنانچہ جب نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے(فتحِ مکہ کے موقع پر جمع ہونے والے ہزاروں) کفار پر ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ وہ لوگ ڈرے اور سہمے ہوئے سرجھکائے،نگاہیں نیچی کئے کھڑے تھے ۔ ان ظالموں میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے، جوآپ پر پتھروں کی بارش کرچکے تھے اور جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مَعاذ َاللہ شہید کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔آج یہ سب مجرم بن کر کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں میں یہ سوچ رہے تھے کہ اَنْصار و مُہاجرین کی فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں ملاکر ہماری نسلوں کو ختم کر ڈالیں گی لیکن اسی مایوسی اور نااُمیدی کی خطرناک فضا میں ایک دم شہنشاہِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نگاہِ رحمت ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئی اور آپ نے اُن مجرموں سے پوچھا کہ ” بولو! تم کو کچھ معلوم ہے کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ “اِس سوال سے مُجرمِیْن کانپ اُٹھے لیکن جبینِ رحمت دیکھ کر اُمید بھرے لہجے میں عرض کی : ’’ اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں۔“ سب کی نظریں آپ کے رُخِ پُر نور پر جمی ہوئی تھیں اور سب کے کان شہنشاہِ نَبُوَّت کا فیصلہ کُن جواب سننے کے منتظر تھے کہ ایک دَم فاتحِ مکہ نے اپنے کَرِیمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا :”آج تم پر کوئی الزام نہیں ، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ ‘‘یہ فرمانِ رِسالت سُن کر مجرموں کی آنکھیں اَشکبار ہوگئیں اور ان کے دلوں کی گہرائیوں سے شکریہ کے جذبات آنسوؤں کی دھار بن کر ان کے رُخساروں پر مَچلنے لگے اور کُفّار کی زبانوں پر لَآاِلٰهَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ کے نعروں سے حرمِ کعبہ کے در و دیوار پرہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔اللہ اَکْبَرْ!اے اقوامِ عالم کی تاریخی داستانو! بتاؤ، کیا دنیا کے کسی فاتح کی کتابِ زندگی میں کوئی ایسا حسین اور روشن ورق ہے؟ یہ نبی جمال و جلال کا وہ بے مثال شاہکار ہے کہ دنیا کے بادشاہوں کے لیے اُس کا تصور بھی مُحال ہے۔ (سیرت مصطفی ، 438- 441 ملخصاًوبتغیر ) سبحانَ اللہ!کیا شان ہے ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی! جن لوگوں نے آپ پر ظُلم و سِتم کے پہاڑ توڑے،تبلیغِ دین کے وقت طرح طرح سے ستایا،حتّٰی کہ آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور کیا ،اسی پر بس نہ کی بلکہ ہجرت کے بعد بھی چین سے نہ رہنے دیا۔ لیکن فتحِ مکہ کے دن جب رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اورآپ کے جانثار اُن پر غالب آگئے تو ان سے بدلہ لینے کے بجائے نبیِ رحمت،شفیعِ اُمَّت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کمالِ حلم و شفقت فرماتے ہوئے سب کو مُعاف فرمادیا ۔ جان کے دشمن خون کے پیاسوں کو بھی شَہرِ مکہ میں عام معافی تم نے عطا کی کتنا بڑا احسان کیا لہٰذا ہمیں بھی سیرتِ رسول پر عمل کرتے ہوئے بدلے کی قُدرت کے باوجود معاف کردینا چاہیے کیونکہ یہ بدلے سے زیادہ بہتر اورآخرت میں اجرو ثواب کا باعث ہے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتاہے: وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ25، الشوریٰ :40) ترجَمۂ کنز الایمان :اور بُرائی کا بدلہ اسی کی برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوارا تو اس کا اجر اللہ پر ہے بے شک وہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو ۔ ہمارےپیارےآقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں موجودہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تکلیف پہنچانے والوں کو معاف فرمادیا کرتے تھے ۔ آئیے!اپنے کردار کو سیرتِ رسول کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حِلم وکَرم سے متعلق مزید 4واقعات ملاحظہ کیجئے، چنانچہ(1)جان کے دشمن کو معافی
ایک سَفَر میں نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آرام فرمارہے تھے کہ غَورَث بن حارِث نے آپ کو شہید کرنے کے اِرادے سے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تلوار لے کر نِیام سے کھینچ لی، جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو غَورَث کہنے لگا : اے محمد! اب آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرْشادفرمایا : ”اللہ“۔ یہ سنتے ہی ہیبت سے تلوار اُس کے ہاتھ سے گِر پڑی اورنبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تلوار ہاتھ مبارک میں لے کر فرمایا : اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ غَورَث گِڑگِڑا کر کہنے لگا : آپ ہی میری جان بچائیے! رَحمتِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کو چھوڑ دیااور مُعاف فرما دیا۔ چنانچہ غَورَث اپنی قوم میں آکر کہنے لگا کہ اے لوگو! میں ایسے شَخْص کے پاس سے آیا ہوں، جو دُنیا کے تمام انسانوں میں سب سے بہتر ہے۔ (الشفا،1/107) سو بار تِرا دیکھ کر عَفْو اور تَرَحُّم ہر باغی و سرکش کا سر آخر کو جُھکا ہے(2)گردن مبارک پر رگڑ کا نشان
حضرت اَنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک نَجرانی چادر اَوڑھے ہوئے تھے،جس کے کَنارے موٹے اور کُھردَرے تھے، ایک دَم ایک دیہاتی نے نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی چادر مبارک کو پکڑ کرجھٹکے سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک گردن پر چادر کی کَنار سے خَراش آ گئی ،وہ کہنے لگا : اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہے، آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اُس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے ،پھر اُسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث: 3149)(3)جادو کرنے اور زہر دینےوالوں کو معافی
نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر لَبِیدبن اَعصَم نے جادُو کیا تو آپ نے اُس کا بدلہ نہیں لیا ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس غیر مُسْلِمہ کو بھی مُعاف فرما دیا، جس نے آپ کو زہر دیا تھا۔ (المواہب اللدنیہ، 2/91)(4) جسمانی نقصان پہنچانے والے کو دعا دی
غزوۂ اُحُد میں نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک دَندان كا كچھ کنارہ شہید اور چہرۂ اَنور کو زخمی کر دیا گیا، یہ بات صحابۂ کرام علیہمُ الرضوان کو بہت بری لگی اور عرض کیا: آپ ان کے لئے دعائے ضَرَر فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بلکہ دعوت دینے والا اور رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ یعنی اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے ،کیونکہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں۔(الشفاء 1/105) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدذاتی دشمنوں کو معافی مگر۔۔۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ان واقعات سے معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہرایک سے شفقت ومحبت سے پیش آتے،کبھی اپنی ذات کیلئے کسی پر غُصّہ نہ فرماتے،مگر جب آپ کے سامنے شرعی حُدُود کو توڑا جاتا اور احکامِ الٰہی سے منہ موڑا جاتا تو پیشانیِ اَقْدس پر جلال کے آثار نُمایاں ہوجاتے تھے،چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: میں نے کبھی بھی رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنی ذات پر کئے گئے ظلم کابدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا، جب تک اللہ پاک کی مُقَرَّر کردہ حدود کو نہ توڑا جائے اور جب اللہ پاک کی مُقَرَّر کردہ حدود میں سے کسی حَد کو توڑا جاتاتو آپ شدید غصہ فر ماتے ۔ ( الشمائل المحمدیۃ، ص198، حدیث: 332)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع