30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
’’قَبْر کھلنے کے واقعات‘‘ کے 15 حُروف کی نسبت سے اس کتاب کو پڑھنے کی 15 نیّتیں فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : ’’ نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہیعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہترہے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی، الحدیث: ۵۹۴۲، ج۶، ص۱۸۵) دو مدنی پھول: (۱) بغیر اچھی نیت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔ (۲) جتنی اچھی نیتیں زیادہ، اتنا ثواب بھی زیادہ۔ 1… رِضائے الٰہی عَزَّوَجَل کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مطالَعہ کروں گا۔ 2… حتَّی الوسع اِس کا با وُضُو اور 3… قبلہ رو مطالَعہ کروں گا۔ 4… قرآنی آیات اور 5… احادیث ِ مبارکہ کی زیارت کروں گا۔ 6…جہاں جہاں ’’اللہ ‘‘کا نام پاک آئے گا وہاں عَزَّوَجَل اور 7…جہاں جہاں ’’سرکار‘‘کا اسمِ مبارک آئے گا وہاں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلّم پڑھوںگا ۔ 8 …اس روایت’’ عِنْدَ ذِکْرِ الصَّالِحِیْنَ تَنَزَّلُ الرَّحْمَۃُ یعنی نیک لوگوں کے ذِکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے۔‘‘ (حلیۃ الاولیاء ،رقم ۱۰۷۵۰،ج۷،ص۳۳۵) پر عمل کرتے ہوئے اس کتاب میں دئیے گئے واقعات دوسروں کو سنا کر ذکرِ صالحین کی برکتیں لُوٹوں گا ۔ 9… (اپنے ذاتی نسخے پر) عند الضرورت خاص خاص مقامات پر انڈر لائن کروں گا۔ 10… (اپنے ذاتی نسخے کے ) یاد داشت والے صفحہ پر ضروری نکات لکھوں گا۔ 11… دوسروں کو یہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلائوں گا۔ 12… اس حدیثِ پاک’’تَھَادَوْا تَحَابُّوْایعنی ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی ۔‘‘ (مؤطا امام مالک ، ج۲،ص۴۰۷، رقم: ۱۷۳۱) پرعمل کی نیت سے (کم از کم ۱۲عددیا حسبِ توفیق) یہ کتاب خرید کر دوسرں کو تحفۃً دوں گا۔ 13… ساری زندگی عقائد ِ اہلِسنت پر کاربند رہوں گا۔ 14… اس کتاب کے مُطالَعہ کا ثواب ساری امّت کو اِیصال کروں گا۔ 15… کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشِرین کو مطلع کروں گا۔ نسبت کی بہاریں(حصّہ اول) بنام قَبْرکُھل گئی مذہبِ اِسلام کی حقانیت پر مبنی، عاشقانِ رسول کی قبریں کھلنے کے ایمان افروز واقعات پیش کش مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی ) (شعبہ اِصلاحی کتب ) ناشر مکتبۃ المد ینہ باب المدینہ کراچی الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلی الک واصحابک یا حبیب اللہ جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں نام رسالہ : قبر کھل گئی پیش کش : مجلس المدینۃ العلمیۃ(شعبہ اصلاحی کتب ) سن طباعت(ثانی) : ۱۴۲۷ھ بمطابق۲۰۰۶ء ناشر : مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی مکتبۃ المدینہ کی مختلف شاخیں مکتبۃ المدینہ شہید مسجد کھارادر کراچی مکتبۃ المدینہ دربار مارکیٹ گنج بخش روڈ، لاہور مکتبۃ المدینہ اصغر مال روڈ نزد عید گاہ، راولپنڈی مکتبۃ المدینہ امین پور بازار ، سردار آباد(فیصل آباد) مکتبۃ المدینہ نزد پیپل والی مسجد اندرون بوہڑ گیٹ، ملتان مکتبۃ المدینہ چھوٹکی گھٹی، حیدرآباد مکتبۃ المدینہ نزد ریلوے اسٹیشن، ڈی، ایف، آفس کوئٹہ مکتبۃ المدینہ فیضانِ مدینہ گلبرگ نمبر1، النور اسٹریٹ، صدر پشاور مکتبۃ المدینہ چوک شہیداں میر پور آزاد کشمیر E.mail:ilmia@dawateislami.com اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط المد ینۃ العلمیۃ از:بانیِ دعوتِ اسلامی ،عاشق اعلیٰ حضرت شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادِری رَضَوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ الحمد للّٰہ علٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدِّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس ’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہُ تعالٰی پر مشتمل ہے ،جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں: (۱)شعبۂ کتُبِ اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۲)شعبۂ درسی کُتُب (۳)شعبۂ اِصلاحی کُتُب (۴)شعبۂ تفتیشِ کُتُب (۵)شعبۂ تراجِم کُتُب (۶)شعبۂ تخریج ’’ا لمد ینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلٰیحضرت اِمامِ اَہلسنّت،عظیم البَرَکت،عظیمُ المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیٔ سنّت ، ماحیٔ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولانا الحاج الحافِظ القاری الشّاہ الامام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوُسعسَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے ۔تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ،تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔ اللہ عزوجل ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اخلاص سے آراستہ فرماکر دونوںجہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ہمیں زیرِ گنبدِ خضراء شہادت،جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ پیش لفظ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آج کے پُرفِتن دور میں ایک طرف بے راہ روی ،فُحاشی اور عریانی کو شب وروز فروغ دیا جارہا ہے تو دوسری طرف غیر مسلم قوتیں اور اِصلاح کے نام پر لوگوں کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے والے لوگ ،مسلمانوںکے عقائد برباد کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں ۔ ان کی ناپاک کوششوں کے نتیجے میں کئی مسلمان بالخصوص دنیاوی عُلوم کے حامل نوجوان علمِ دین سے دُوری، اپنے مذہبی عقائدسے لاعلمی اوراپنے اَسلاف ِکرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے مُقدّس کردار کے با رے میںمعلومات نہ ہونے کی بنا پر اپنی اعتقادی نسبتوں کا خون کر بیٹھتے ہیں۔ اسلام دشمن عناصر اُن مقدس ہستیوںکے مقام ومرتبے کے بارے میں سادہ لوح مسلمانوں میں شُکوک و شُبہات پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَل کی عطا کردہ روحانی طاقت اوراپنے مثالی کردار سے مذہبِ اسلام کی ترویج و اشاعت میں اَہم کردار ادا فرمایا۔یہ صرف اس لئے کہ مسلمانوں کے دل سیصحابۂ کرام ا ور اولیائے کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عظمت کم کی جاسکے ۔ اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کفارِ بد اَطوار نے منظم سازش کے تَحت اپنے ’’زَر خرید‘‘ لوگ مسلمانوں میں بھیجے تاکہ وہ ان میںباطل عقائد پھیلائیں۔ ان کی زہریلی تگ ودو کا زہر آہستہ آہستہ اثر دکھا رہا ہے۔یہ لوگ جو بظاہر مُسلمان کہلاتے ہیں عظیم نُفوسِ قُدسیہ مثلاً صحابہ کرام ، فقہائے عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہ م کی شخصیت ،تَحقیق اور اِجتہاد سے متعلق شکوک وشبہات پھیلا کر ان کے بلند و بالا مقام کومَسْخ کرنے کی ناپاک کوشش میں مصروف ہیں ۔یہ لوگ ملتِ اسلامیّہ کو صراطِ مستقیم سے ہٹا کرضَلالت و گمراہی کی پُر خاراور تاریک راہ کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔کوئی توحید کی آڑ لے کر ایمان چھیننے کی کوشش میں مصروف ہے، تو کوئی ہرکَس وناکس کوبراہِ راست قرآن و حدیث سے مسائل اَخْذ کرنے کی دعوت دے کر مسئلہ تقلید کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ امامِ اَہلسنّت ،پروانۂ شمع رسالت ،مجددِ دین وملت الشاہ امام احمَد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ’’نقاء السلافۃ فی احکام البیعۃ و الخلافۃ‘‘ میں کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیںکہ قرآن و حدیث میںشَرِیْعَت، طریقت اور حقیقت سب کچھ ہے۔ اور ان میں سب سے زیادہ ظاہرو آسان شَرِیْعَت کے مسائل ہیں۔ اور ان آسان مسائل کا یہ حال ہے ،کہ اگر ’’ اَئِمہ مُجْتَہِد ین ‘‘ انکی تشریح نہ فرماتے ! تو عُلَماء کچھ نہ سمجھتے اورعُلَماء کرام’’ اَئِمہ مُجْتَہِدین‘‘ کے اقوال کی تشریح نہ کرتے۔ تو عوام ’’اَئِمہ‘‘کے ارشادات سمجھنے سے بھی عاجز رہتے۔ اور اب بھی اگر ’’ اَہلِ علْم‘‘ عوام کے سامنے’’مطالبِ کُتُب‘‘ کی تفصیل اور صورتِ خاصہ پر حکْم کی تَطْبیق نہ کریں۔ تو عام لوگ ہر گز ہر گز کتابوں سے اَحکام نکال لینے پر قادِر نہیں۔ ہزاروںغَلَطیاں کریںگے اور کچھ کا کچھ سمجھیں گے۔ اِس لئے یہ اُصول مقرر ہے کہ عوام ’’ عُلَماء حق ‘‘کا دامن تھامیں، اوروہ ( یعنی علمائے حق)’’عُلَماء ماہرین ‘‘کی تصانیف کا، اور وہ (یعنی علمائے ماہرین) ’’ مشائخِ فتوٰی‘‘کا اور وہ (یعنی مشائخ فتویٰ) ’’اَئِمہہُدٰی‘‘کا ۔ اور وہ (یعنیاَئِمہ ہدیٰ) ’’ قرآن و حدیث ‘‘ کا ۔‘‘(فتاوی رضویہ جدید،ج۲۱،ص۴۶۱مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن) رسولِ کریم رء وف رَحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ جنّت نشان ہے : ’’قبرجنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔(جامع التِرمذی،کتاب صفۃ القیامۃ،الحدیث ۲۴۶۸ ج ۴ ص ۲۰۸،مطبوعۃ دارالفکر بیروت) اپنے اسلافِ کرام رحمہم اللہ سے تعلق ِ عقیدت مضبوط کرنے کے مقدس جذبے کے تحت’’ صحابہ کِرام و اَولیاء عِظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ‘‘اور ماضی قریب میں رونما ہونے والے قبر کھلنے کے ’’ 14‘‘سچے واقعات پیش کئے جارہے ہیں ۔ الحمدللہ عزوجل قبرکھلنے کے اس طرح کے ایمان افروز واقعات رونما ہونے پر بار ہا غیر مسلم اور بد عقیدہ گمراہ لوگ تائب ہوکر راہِ حق پر گامزن ہوگئے۔لہٰذا ا س رسالے کو نہ صرف خود پڑھیں بلکہ دوسروں کو بھی مطالَعَہ کی ترغیب دلائیں۔ اِنْ شَائَ اللّٰہ عَزَّوَجَل راہِ حق کا راستہ منتخب کرنے کیلئے اس کا مطالعہ انتہائی مُفید ثابت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ’’اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش‘‘ کرنے کے لئے مدنی انعامات پر عمل اور دعوت اسلامی کے مدنی قافلوں کا مسافر بنتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوت ِ اسلامی کی تمام مجالس بشمول مجلس المدینۃ العلمیۃ کو دن گیارہویں رات بارہویں ترقی عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین ( صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِدُرُودِ پاک کی فضیلت
عاشقِ اعلیٰ حضرت ،امیرِاَہلسنّت ، با نیِ دعوتِ اسلامی، حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمدالیاس عطارقادِری رَضَوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالے ضیائے دُرُودوسلام میںفرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نقْل فرماتے ہیں: ’’اے لوگو! بے شک بروز قِیامت ا س کی دَہشتوں اورحساب کتاب سے جلد نجات پانے والا شخص وہ ہوگا جس نے تم میں سے مجھ پر دنیا کے اندر بکثرت دُرُود شریف پڑھے ہوں گے ۔‘ ‘ (فردوس الاخبار ،باب الیاء ، الحدیث ۸۲۱۰ ،ج۲ ،ص ۴۷۱،مطبوعہ دارالفکر بیروت) صلوا علی الحبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علٰی محمد(1) امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ولید بن عبدالملک اموی کے دور حکومت میں جب روضہ منورہ کی دیوار گر گئی اور بادشاہ کے حکم سے نئی بنیاد کھودی گئی تو اچانک بُنیاد میں ایک پاؤں نظر آیا ، لوگ گھبرا گئے اورخیال کیا کہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قدم مبارک ہے۔ لیکن جب صحابیٔ رسول حضرت سیدناعروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے دیکھا اور پہچانا تو قسم کھا کر فرمایا کہ یہ حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مقدس پاؤں نہیں بلکہ یہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قدم شریف ہے۔ یہ سن کر لوگوں کی گھبراہٹ اور بے چینی کو قدرے سُکون ہوا۔ (عمدۃ القاری ،کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی قبر النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،تحت الحدیث ۱۳۹۰،ج۶،ص۳۱۰،مطبوعہ ملتان) اللّٰہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللّٰہ تعالٰی علٰی مُحَمَّد(2) حضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ کی کرامت
حضرتِ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہما کو شہادت کے بعد بصرہ کے قریب دفن کردیا گیا۔ آپ کی قبر شریف نشیب میں تھی اس لئے قبر مبارَک کبھی کبھی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ آپ نے ایک شخص کو باربار خواب میں آکر اپنی قبر بدلنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اپنا خواب بیان کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے دس ہزار درہم میں ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے مقدس جسم کو پرانی قبر سے نکال کر نئی قبر میں دفن کردیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوُجود اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عزوجل آپ کا مقدس جسم سلامت اور بالکل تروتازہ تھا۔(اسد الغابۃ طلحۃ بن عبیداللہ ،ج۳،ص۸۷ ملخصاً،داراحیاء التراث العربی بیروت) اللّٰہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللّٰہ تعالٰی علٰی مُحَمَّد(3)حضرت سیدناحمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں مدینہ منورہ کے اندر نہریں کھودنے کا حکم دیا، ایک نہر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کے پہلو میں نکل رہی تھی۔ لاعلمی میں اچانک نہر کھودنے والے کا پھاوڑا آپ کے قدم مبارک پر پڑ گیا اور آپ کا پاؤں کٹ گیا، تو اس میں سے تازہ خون بہ نکلا، حالانکہ آپ کو دفن ہوئے چالیس سال گزر چکے تھے۔(حجۃ اللہ علی العالمین ،من کرامات عبد اللہ ،ص۶۱۵ ملخصاً،مطبوعہ برکاتِ رضا ،ہند) بعد ِانتقال تازہ خون کا نکلنا، ا س بات کا ثبوت ہے کہ شہداء کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ اللّٰہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللّٰہ تعالٰی علٰی مُحَمَّد(4)حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک دو مرتبہ قبر مبارک سے نکالا گیا ۔ پہلی مرتبہ چھ ماہ کے بعد نکالا گیا، تو وہ اسی حالت میں تھے جس حالت میں دفن کیا گیا تھا۔ (صحیح البخاری ،کتاب الجنائز،باب ھل یخرج ا لمیت ،الحدیث ۱۳۵۱،ج۱،ص ۴۵۴ ،دارالکتب العلمیۃ بیروت) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوسری مرتبہ چھیالیس برس کے بعد اپنے والد ماجد ( یعنی حضرت عبدا للہ رضی اللہ عنہ ) کی قبر کھود کر ان کے مقدس جسم کو نکالا ، تو میں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔ جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا، تو زخم سے خون بہنے لگا۔ پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا۔ اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا ،وہ بدستور صحیح و سالم تھا۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ،من کرامات عبد اللہ ،ص۶۱۵،مطبوعہ برکاتِ رضاہند) اللّٰہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللّٰہ تعالٰی علٰی مُحَمَّد(5)حضرت حُذیفہ الیمانی اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما
پوری دنیا سے آنے والے لاکھوں زائرین کی موجودگی میں دو صحابہ کرام حضرت حذیفہ الیمانی اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اجسام مبارَک کی منتقلی کا یہ واقعہ غالباً ۲۰ ذوالحجہ ۱۳۵۱ ہجری میں پیش آیا ۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کو دو رات برابر شاہِ عراق کو صحابی رسول حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں تشریف لا کر ارشاد فرمایاکہ میرے مزار میں پانی اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار میں نمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ اس لئے ہم دونوں کو اصْل مقام سے منتقل کر کے دریائے دِجلہ سے ذرا فاصلے پر دفن کردیا جائے۔ (حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ حضورپُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے راز دار صحابی رضی اللہ عنہ کے طور پر مشہور ہیںحدیث پاک میں ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان رازوں کو جانتے ہیں جنہیں اور کوئی نہیں جانتا۔) (صحیح البخاری،کتاب الاستیذان ،باب من القی لہ وسادۃ،الحدیث ۶۲۷۸،ج۴،ص۱۷۲، دارالکتب العلمیۃ بیروت) اُمور ِسلطنت میں اِنہماک کے باعث شاہ ِعراق یہ خواب قطعی بھول گئے۔ تیسری شب حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ نے عراق کے مفتیٔ اعظم کو خواب میں یہی ہدایت کی۔ چنانچہ مفتی اعظم عراق نے وزیراعظم کے ساتھ بادشاہ سے ملاقات کی اور خواب سنایا۔مفتی اعظم نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کے مزارات کو کھولنے اور ان کو منتقل کرنے کا فتویٰ دیدیاجواخبارات میں شائع کردیا گیا۔ اس موقع پر انتہائی محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش پانچ لاکھ افرادنے شرکت کی۔بروز پیر شریف بارہ بجے کے بعد لاکھوں افراد کی موجودگی میں مزاراتِ مقدسہ کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ مزار میں نمی پیدا ہو چلی تھی۔ پہلے حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کے جسْمِ مبارَکہ کو کرین کے ذریعے زمین سے اسطرح اوپر اٹھایا گیاکہ ان کا مقدس جسم کرین پر نسب کئے ہوئے اسٹریچر پر خود بخود آگیا۔جسمِ مُبارَک کوبڑے احترام سے ایک شیشے کے تابوت میں رکھا گیا۔ اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے جسم مبارَکہ کو مزار سے باہر نکالا گیا۔ الحمدللہ عَزَّوَجَل دونوں اصحاب ِ رسول (رضی اللہ عنھما)کے اجسامِ مقدسہ اورکفن حتٰی کہ ریش ہائے مبارَک کے بال تک بالکل صحیح سلامت تھے۔ بلکہ اجسام مقدسہ کو دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا تھاکہ شاید انہیں رحلت فرمائے ہوئے دو تین گھنٹے سے زائد وقت نہیں گزرا۔ غیر مسلم جرمن ماہرِ چَشم کاقَبولِ اسلام : ان دونوں مقدس ہستیوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں ایک عجیب چمک تھی۔وہاں موجود جرمن ماہر چشم جو بین الاقوامی شہرت کا مالک تھا ،اس تمام کاروائی میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا ۔ وہ اس منظر کو دیکھ کر بے اختیار آگے بڑھا اور مفتی اعظم سے کہنے لگاکہ مذہبِ اسلام کی حقانیت اور ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی بُزُرگی کا اس سے بڑھ کر اور کیاثُبوت ہوسکتا ہے، اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔(سبحان اللہ عزوجل ) کم و بیش ۷۱ سال قبل ہونے والا یہ ایمان افروز واقعہ تقریبًا ۲۰ ، ۲۵ سال کے دوران بار ہا اردو جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے۔ اللّٰہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللّٰہ تعالٰی علٰی مُحَمَّد(6)حضرت شیخ محمد بن سلیمان جزولی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
’’مطالع المسرات‘‘ میں ہے کہ دلائل الخیرات شریف کے مصنف حضرت شیخ محمد بن سلیمان جَزُولی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی بد نصیب حاسد نے زہر کھلا دیا اور آپ نمازِ فجر کی پہلی رکعت کے دوسرے سجدہ میں یا دوسری رکعت کے پہلے سجدے میں انتقال فرماگئے۔ مقام سوس میں اسی دن تدفین عمل میں لائی گئی۔77 برس کے بعد لوگ آپ کے جسم مقدس کو مزارِ مبارک سے نکال کر ’’ مراکش‘‘ لے آئے، آپ کا کفن سلامت اور بدن بالکل زندوں کی طرح ترو تازہ اور نرم تھا۔کسی نے آپ کے رخسارِ مبارَک پر انگلی رکھی تو زندہ آدمیوں کی طرح بدن میں خون کی روانی کی سُرخی ظاہر ہوئی اور چہرہ ٔانور پر اس خط بنوانے کا نشان بھی باقی تھا ،جو وفات سے قبل آپ رضی اللہ عنہ نے بنوایا تھا۔ آپ سلسلۂ عالیہ شاذلیہ کے شیخ تھے اور آپ کے بارہ ہزار چھ سوپینسٹھ مریدین تھے۔ ۱۶ ربیع النور ۸۷۰ھ کو آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ مزار مبارک ’’مراکش ‘‘ میں مرجعِ خلائق ہے۔ آج بھی آپ رضی اللہ عنہ کی قبرِ انور سے مشک کی خوشبو آتی ہے۔ لوگ بکثرت آپ کے مزار فائض ُ الانوار پردلائل الخیرات شریفپڑھتے ہیں۔ (مطالع المسرات، ص۴، نوریہ رضویہ سردارآباد (فیصل آباد)) اللّٰہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللّٰہ تعالٰی علٰی مُحَمَّد(7)حضرت امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے سید نا اما م احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کی وفات شریف کے230 سال کے بعد آپ کی قبر ِ انور کے پہلو میں جب کسی کیلئے قبر کھودی گئی تو اتفاق سے آپ کی قبر کھل گئی۔ لوگوں نے دیکھا کہ230 برس گزر جانے کے باوجود امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کا کفن صحیح وسالم اور بدن تروتازہ تھا۔ (مرقاۃ المفاتیح ،ترجمۃ الامام احمد بن حنبل،ج۱،ص۶۷، دارالفکر بیروت) اللّٰہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللّٰہ تعالٰی علٰی مُحَمَّد
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع