30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیّٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط (1)قبر کی ہولناکیاں
دعائے خلیفۂ عطّار: یاربَّ المصطفےٰ! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ” قبر کی ہولناکیاں“پڑھ یا سُن لے، اُسے قبر کی ہولناکیوں سے محفوظ فرما اور اس کی ماں باپ سمیت بِلاحساب مَغفِرت فرما ۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّمدُرُودِ پاک کی فضیلت
ایک بار کسی بھکا ری نے کُفّارسے سُو ال کیا،اُنہوں نے مذاقاً امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا جو کہ سا منے تشریف فرما تھے، اُس نے حا ضِر ہو کر دستِ سُوال دراز کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے 10 بار دُرُود شریف پڑھ کر اُس کی ہتھیلی پر دَم کر دیا اور فرمایا ،مُٹھی بند کر لواور جن لوگوں نے بھیجا ہے اُن کے سامنے جا کرکھول دو۔(کُفّار ہنس رہے تھے کہ خالی پھو نک مارنے سے کیا ہوتا ہے!) مگر جب سائل نے اُن کے سامنے جاکر مُٹھی کھولی تو وہ سونے کے دِیناروں سے بھری ہوئی تھی!یہ کرامت دیکھ کر کئی کافر مسلمان ہو گئے۔ (را حَت القلو ب، ص 72) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی علٰی مُحَمَّد پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہماری زندگی کی گاڑی تیزی کے ساتھ سَرکتی چلی جارہی ہے، اگر آپ تَصَوُّر کی بالکونی سے جھانک کر اپنے ماضی میں نظر دوڑائیں گے تو تَصَوّر ہی تَصَوُّر میں اپنے بچپن میں پہنچ جائیں گے اور سوچیں گے کہ جب ہم چھوٹے تھے تو اس طرح کھیلتے تھے اور یوں یوں شرارتیں کیا کرتے تھے ۔ذرا غور فرمائیے!کیا ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ ہماری زندگی بڑی تیزی کے ساتھ برف کے پگھلنے سے بھی تیز تر رفتار سے گزرتی چلی جا رہی ہے!واقعی جب ہم اپنے ماضی پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دل ڈوبنے لگتا ہے کہ ہماری عُمر اِتنی ہو گئی اور عنقریب ہماری زندگی کے بقیہ دِن بھی گزر جائیں گے اور پھر جس طرح ہم اپنے دادا جان اور والد صاحب کو قبرستان چھوڑ کر آئے تھے، اسی طرح ایک دن وہ بھی آئے گا کہ ہماری اَولاد ،ہمارے بھائی یا عزیز ورشتہ دار ہمیں بھی قبرستان چھوڑ آئیں گے اور پھر ہم قیامت تک وہاں سے نہیں نکل پائیں گے۔یاد رکھیے!قبر میں صِرف نیک اَعمال کام آئیں گے، جبکہ ہمارا اِتنا سارا مال جسے ہم نے اپنی زندگی میں دِن رات محنت کر کے جمع کیا سب کا سب یہیں دَھرا رہ جائے گا اور اُسے ہمارے وُرَثاآپس میں بانٹ کر کھا جائیں گے لہٰذا عقل مندی یہی ہے کہ ہم اپنی ساری توجّہ مال جمع کرنے پر مرکوز رکھنے کے بجائے اپنی قبر و آخرت کی تیاری پر رکھیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم فکر ِ آخرت سے غافل ہو کر اپنی ساری زندگی دنیوی مال و دولت جمع کرنے میں گزار دیں اور پھر دنیا سے رُخصت ہو کر ہمیں قبر کی ہولناکیوں کا سامنا کرنا پڑے !دیکھیے !قبر کی ہولناکیاں بہت زیادہ ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں حضرتِ عُمَر بِن عبدُ العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کےآخری اَیام کا ایک نہایت ہی رِقّت اَنگیز اور خوف آور(خوف دلانے والا) واقعہ پیش کرتا ہوں اسے محض رسمی طور پر نہیں بلکہ دل کے کانوں سے سُنیے اور قبر کی ہولناکیوں سے بچنے کا سامان کیجئے، چنانچہ حضرتِ عُمَربن عبدُالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ ایک جنازے کے ساتھ گئے تو لوگ آگے بڑھ گئے اورآپ پیچھے رہ گئے۔ لوگ جنازہ رکھ کر آپ کا انتظار کرنے لگے جب آپ پہنچے تو کسی نے کہا:اے امیرُالْمُؤمنین! آپ تو میت کے ولی ہیں ،آپ جنازہ کواور ہمیں چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے؟فرمایا:ہاں!ابھی ایک قَبْر نے مجھےپکار کر کہا:اےعُمَربن عبدالعزیز!مجھ سے کیوں نہیں پوچھتےکہ میں اپنےاندرآنے والوں کے ساتھ کیابرتاؤکرتی ہوں؟میں نے اُس سےکہا:مجھے ضَرور بتا۔ وہ کہنے لگی:میں اس کا کفن پھاڑ کرجسم کےٹکڑےٹکڑےکر ڈالتی ہوں، اس کاخون چُوس کر گوشت کھا جاتی ہوں۔ کياتم مجھ سے نہيں پوچھو گے کہ میں اس کے جوڑوں کے ساتھ کيا کرتی ہوں؟میں نے کہا:ضَرور بتا۔کہنے لگی:میں ہتھیلیو ں کو کلائيوں سے،کلائيوں کوبازوؤں سے،بازوؤں کو کاندھوں سے،سرینوں کورانوں سے، رانوں کو گھٹنوں سے،گُھٹنوں کو پِنڈليوں سےاور پِنڈليوں کو قدموں سے جُدا کرديتی ہوں۔ اتنا کہنے کے بعد آپ رحمۃُ اللہِ علیہ رونے لگے پھر فرمایا:سُنو!اِس دنیا کی عُمْر بہت تھوڑی ہے جو گناہ گار اس دنیا میں عزت والا ہے آخِرت میں ذلیل و رُسوا ہوگا،جومال دار ہےآخرت میں فقیرہوگا،اس کا جوان بوڑھا ہو جائے گا اور زندہ مر جائے گا،لہٰذا دنيا کا تمہاری طرف آنا تمہیں دھوکے میں نہ ڈالےکیونکہ تم جانتے ہويہ بہت جلد رُخصت ہونے والی ہے۔ دھوکے میں پڑنے والا وہی ہے جو اس سے دھوکا کھائے۔کہاں گئے اس میں بسنے والے؟ جنہوں نے شہر آباد کئے ، نہریں نکالیں اوردرخت اُگائے، مگراس میں بہت تھوڑا عرصہ رہ پائے۔انہیں صحّت وتندرستی نے دھوکے میں ڈالااورچُستی نے مَغْرُور بنایا تو گناہوں میں پڑ گئے ۔بخدا!اُس مال کے سبب ان پر حَسْرت کی جاتی ہے جو انہوں نے بڑی کنجوسی کے بعد حاصل کیااور اس کے جمع کرنے کی وجہ سے ان سے حسد کیا جاتا ہے۔ سوچو!مٹی اورریت نے ان کے جسموں کے ساتھ کیا کِیا؟ قبر کے کیڑوں نے ان کی ہَڈّیوں اورجوڑوں کا کيا حال کرديا؟ یہ دُنيا میں خُوشْحالی اور چین میں رہتے،نرم وملائم بستروں پر سوتے،نوکر چاکر ان کی خدمت کرتے، گھر والے ان کی عزت اورپڑوسی ان کی حمایت کرتےتھے۔اگرتم انہیں پکار سکو توگزرتے ہوئے ضرور پکارنااور اگر انہیں بلاسکوتوضروربلانا۔ان مردوں کے لشکر کےپاس سے تم گزرو تو جن گھروں میں یہ عیش وعشرت سےرہا کرتے تھے ان کے اردگرد کوبھی دیکھو۔ ان کے مال داروں سے پوچھو:تمہارے پاس کتنامال بچا ہے؟ان کےفقیروں سے پوچھو: تمہارا فقرکتنا باقی ہے؟ ان سے ان کی زبانوں کے متعلق پوچھو جن سے وہ باتیں کیا کرتے تھے،ان کی آنکھوں کے بارے میں پوچھو جن سے بدنگاہی کیاکرتے تھے۔ان سے پوچھو کہ پتلی جلد،خوبصورت چہرے،نرم و نازک بدن کے ساتھ کیڑوں نے کیا سلوک کیا؟ کیڑوں نے ان کے رنگ اُڑادیئے،گوشت کھاگئے،چہرےخاک آلودکر دیئے، خوبصورتی کو ختم کردیا،ریڑھ کی ہڈی توڑ کر جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور جوڑوں کو ریزہ ریزہ کردیا۔ ان سےپوچھو تمہارے خیمے اورعورتیں کہاں گئیں؟خدمت گارکہاں گئے؟غلام کہاں گئے؟ جمع پونجی اورخزانےکہاں گئے؟اللہ پاک کی قسم!انہوں نے قبر کے لئے کچھ تیاری نہیں کی،کوئی سہارابھی نہیں بنایا،نیکی کاپودابھی نہیں لگایا،سکونِ قبر کے لئے کچھ نہیں بھیجا۔کیااب وہ تنہائی اورویرانوں میں نہیں پڑے ہوئے؟ کیا اب ان کے لئے دن اور رات برابر نہیں؟ کیا اب وہ تاریکی میں نہیں ہیں؟ہاں! اب ان کے اوران کےعمل کے درمیان رُکاوٹ کردی گئی اورعزیز و اَقرباسےان کی جُدائی ہوگئی ہے۔کتنے ہی خوشحال مَردوں اور عورتوں کی حالت بدل گئی،ان کےچہرےگل سڑ گئے،ان کےجسم گردنوں سے جدا ہو گئے، ان کےجوڑ الگ الگ ہوگئے،ان کی آنکھیں رُخساروں پر بہہ پڑیں، منہ خون اور پیپ سے بھر گئے،ان کےجسموں میں حَشَراتُ الاَرْض(کیڑےمکوڑے) پھرنے لگے،اعضا بکھرکر جدا ہوگئے،بخدا!کچھ ہی عرصے میں ان کی ہڈیاں بوسیدہ ہوگئیں، باغات چھوٹ گئے، کشادگی کے بعدوہ تنگی میں جا پڑے، ان کی بيواؤں نے دوسرے نکاح کرلئے، اَولاد گليوں میں دربدر ہے،رشتہ داروں نے ان کے مکانات وميراث بانٹ لئے۔ خدا کی قسم!ان میں کچھ خوش نصيب وہ ہیں جن کی قبروں میں وُسعت ،رونق اور تازگی ہے اور وہ قبروں میں مزے لوٹ رہے ہيں۔اے کل قبر کے مکین ہونے والے شخص!تجھے دنیاکی کس چیز نے دھوکے میں رکھا؟ کیاتو یہ سمجھتا ہےکہ ہمیشہ رہےگایا یہ دنیاتیرے لئے باقی رہے گی؟تیراوسیع گھراور تیری جاری کردہ نہر کہاں گئی؟تیرےپکے ہوئےپھل کہاں گئے؟تیرے باریک کپڑے، خوشبو اور دُھونی کہاں ہیں؟تیرے گرمی سردی کے کپڑے کیا ہوئے؟ کیا تو نے مرنے والےکونہیں دیکھاکہ جب اسے موت آتی ہے تو وہ خود پر سے گھبراہٹ دور نہیں کرسکتا، پسینے سے شرابور رہتا ہے،پیاس سے بلبلاتا اور موت کی سختی و تکلیف سے پہلو بدلتا ہے ۔ربّ کی بارگاہ سے حکم آگیا ہے،تقدیر کا اٹل فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ اَمْر آچکا ہے جس سے تو نہیں بچ سکتا۔ (پھراپنےآپ سےکہنےلگے)افسوس صدافسوس!اےباپ،بھائی اور بیٹےکی آنکھیں بند کر کے انہیں غسل دینےوالے!اےمیت کوکفن دینےاوراسےاٹھانےوالے! اے قبرمیں اکیلا چھوڑ کر لوٹ جانے والے!کاش! توجان لیتا کہ تُو کُھردُری زمین پرکس حال میں ہوگا؟ کاش!توجان لیتا کہ تیرا کون سا گال پہلےسڑے گا؟اے مُہْلِکات میں پڑے رہنے والے!تو(عنقریب)مُردوں میں جابَسے گا۔ کاش!تجھے معلوم ہوتا کہ دنیا سے جاتے وقت ملَکُ الموت علیہ السّلام تجھ سے کس حال میں ملیں گے؟اور میرے ربّ کا کیا پیغام لائیں گے۔ پھر آپ نےعربی میں اَشعار پڑھے، جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے: تم فانی چیزوں پر خوش اور کھیل تماشوں میں ایسےمصروف ہوجیسے سونے والے کو خواب کی لذّت نے دھوکےمیں رکھا۔ اے دھوکے میں مبتلا شخص!تیرا دن بھول اور غفلت میں گزرتاجبکہ رات سونے میں گزرتی ہےپس تیری ہلاکت لازمی ہے۔ تو اس چیزمیں پڑا ہوا ہےجس کے ختم ہونے کو تو ناپسند جانتا ہےایسی زندگی تو دنیا میں چوپائے بھی جیتے ہیں۔ یہ اشعارکہنے کےبعدحضرتِ عُمَر بن عبْدُالعزيز رحمۃُ اللہِ علیہ وہاں سےچلےآئے اور اس کے ايک ہفتے بعد آپ کاانتقال ہوگیا۔(حلیۃ الاولیاء، 5/295 ، رقم: 7180) پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اس رِقّت اَنگیز واقعے کی ایک ایک عبارت ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کررہی ہے، لیکن اَفسوس! صد اَفسوس! شاید ان باتوں کو سُننے کے لیے ہمارے کان بہرے ہیں اور ان باتوں کو قبول کرنے کے لیے ہمارے دل تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ نہایت ہی سخت ہو چکے ہیں اور اُن پر تاریکی چھا چکی ہے۔ممکن ہے ہمارے دل نصیحت قبول کرنے کے لیے اس وجہ سے تیار نہ ہوتے ہوں کہ گناہوں کے سبب وہ مکمل طور پر سیاہ ہو چکے ہوں ۔ یاد رکھیے ! جب گناہوں کے باعث دِل مکمل طور پر سیاہ ہو جائے تو وہ نصیحت قبول نہیں کرتا چنانچہدِل پر سیاہ نقطہ
حدیثِ پاک میں آتا ہے:” اِنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَا اَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃٌ سَوْدَاءُ فِیْ قَلْبِہِ “یعنی مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ہے،” فَاِنْ تَابَ وَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، “ اگر وہ توبہ کرے، گناہ چھوڑ دے اور اللہ پاک سے مغفرے طلب کرے ، ”صُقِلَ قَلْبُہُ “ تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے، ” فَاِنْ زَادَ ، زَادَتْ “اور اگر وہ (توبہ نہ کرے بلکہ) مزید گناہ کرتا رہے تو وہ نقطہ پھیل جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/488، حدیث: 4244) یہی کچھ حال ہمارا ہے کہ اب ہم پر نصیحت کار گر نہیں ہوتی اور ہم نصیحت کی بات قبول نہیں کرتے حالانکہ ہم کئی بار قبر کی پکار سے متعلق یہ روایت سُنتے رہتے ہیں کہقبر روزانہ پانچ بار پکارتی ہے
قبر روزانہ پانچ بار پُکار پُکار کر کہتی ہے :اے انسان !آج تُو میری پیٹھ پر خوب دھما چوکڑی کررہا ہے اور اِترا کر چل رہا ہے لیکن یاد رکھ! کل تُو میرے پیٹ میں آنے والا ہے۔اے انسان! آج تُو میری پیٹھ پر لذیذ غذائیں اور عُمدہ عُمدہ کھانے کھا رہا ہے لیکن یاد رکھ !کل میرے اَندر تجھے کیڑے کھائیں گے۔ اے انسان !آج تُو میری پیٹھ پر غفلت سے ہنس رہا ہے لیکن یاد رکھ!کل جب تُو موت کا شِکار ہو کر میرے اَندر آئے گا تو تجھے رونا پڑے گا۔ اے انسان!آج تُومیری پیٹھ پر خوشیاں منا رہا ہے لیکن یادرکھ! کل تُو میرے اَندر آ کر غمزدہ ہو جائے گا۔اے انسان ! آج تُو میری پیٹھ پر خوب گناہ کر رہا ہے لیکن یاد رکھ! کل جب تُو میرے اَندر آئے گا تو تجھے اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑے گی۔( تنبیہ الغافلین ،ص23)قبر میں آگ بھڑکا دی گئی
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! قبر کی ہولناکیوں میں مبتلا ہونے کے بہت سے اَسباب ہیں۔ غیبت کرنے اور پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کے سبب بھی بندہ قبر کی ہولناکیوں میں مبتلا ہوتا ہے، چنانچہ حضرتِ ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بقیعِ غرْقَد تشریف لا کر دو قبروں کے پاس کھڑے ہو کر اِرشادفرمایا:کیا تم نے فُلاں اور فُلانہ کو،یا فرمایا:فُلاں فُلاں کو دفن کر دیا؟صَحابۂ کرام (علیہمُ الرِّضوان )نےعرض کی : جی ہاں یَا رَسُوْلَ اللہ(صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )، اِرشادفرمایا:ابھی ابھی فُلاں کو (قبر میں)بٹھا کر مارا گیا ہے۔پھر فرمایا:اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدرت میں میری جان ہے!اسے اِتنا مارا گیا ہے کہ اس کا ہر ہر عُضو جُدا ہو چکا ہے اور اس کی قَبْر میں آگ بھڑکا دی گئی ہے اور اس نے ایسی چیخ ماری ہے جسے سِوائے جِنّ و اِنسان کے تمام مخلوق نے سُن لیا ہے اور اگر تمہارے دِلوں میں فَساد نہ ہوتااور تم زیادہ باتیں نہ کرتے تو تم بھی وہ سُنتے جو میں سنتا ہوں۔ پھر فرمایا : اب دوسرے کو بھی مارا جا رہا ہے۔ پھر فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے دَستِ قُدرت میں میری جان ہے! اسے بھی اس قَدَر زور سے مارا گیا ہے کہ اس کی بھی ہر ہر ہڈّی جُدا ہو گئی ہے اور اس کی قَبْر میں بھی آگ بھڑکا دی گئی ہے، اس نے بھی ایسی چیخ ماری ہے جسے جِنّ و اِنسان کے علاوہ تمام مخلوق نے سُن لیا ہے اور اگر تمہارے دِلوں میں فساد نہ ہوتا اور تم زیادہ کلام نہ کرتے تو تم بھی وہ سُنتے جو میں سُنتا ہوں۔صَحابۂ کِرام(رضی اللہُ عنہم) نے عرض کی: یَا رَسُوْلَ اللہ (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )!ان دونوں کا گناہ کیا ہے؟اِرشاد فرمایا:پہلا پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا لوگوں کا گوشت کھاتا (یعنی غیبت کرتا)تھا۔ ( الخصائص الکبریٰ ،2/89)مسلمانو ڈَر جاؤ!
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اِس رِوایت میں غیبت کرنے اور پیشاب سے نہ بچنے والوں کیلئے عِبرت کے بے شُمار مَدَنی پھول ہیں،پیشاب کر کے جو لوگ پاکی حاصِل نہ کر کے بدن اور کپڑے وغیرہ ناپاک کر لیتے ہیں اُن کو بھی ڈر جانا چاہئے، فرمانِ مصطفےٰصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:پیشاب سے بچو کہ عام طور پر عذابِ قبر اِسی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ( دار قطنی ،1/184،حدیث:453)پیشاب سے نہ بچنے والے كی قبر سے پُكار!
دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی 413 صفحات پر مشتمل کتاب”عُیُونُ الْحِکایات“ حِصّہ دُوُم صفحہ187پر ہے کہ حضرتِ عَبدُ اللہ اِبن عُمر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں:ایک مرتبہ دورانِ سفر میرا گزر زمانۂ جاہلیت کے قبرستان سے ہوا،یکایک ایک مُردہ قبر سے باہر نکلا، اُس کی گردن میں آگ کی زنجیر بندھی ہوئی تھی ، میرے پاس پانی کا ایک برتن تھا، جب اُس نے مجھے دیکھا تو کہنے لگا :”اے عَبدُاللہ!مجھے تھوڑا سا پانی پلا دو!“میں نے دِل میں کہا: اس نے میرا نا م لے کر مجھے پُکارا ہے یا تو یہ مجھے جانتا ہے یا عَرَبوں کے طریقے کے مطابق ”عَبدُ اللہ“ کہہ کر پکار رہا ہے ۔ پھر اَچانک اسی قَبر سے ایک اور شخص نکلا ،اُس نے مجھ سے کہا:”اے عَبدُ اللہ!اس نافرمان کو ہرگز پانی نہ پلانا ، یہ کافر ہے۔ “ دوسرا شخص پہلے کو گھسیٹ کر واپس قَبر میں لے گیا، میں نے وہ رات ایک بڑھیا کے گھر گزاری، اس کے گھر کے قریب ایک قَبر تھی ،میں نےقَبر سے یہ آواز سُنی: ” پیشاب! پیشاب کیا ہے ؟ مشکیزہ! مشکیزہ کیا ہے ؟“اِس آوا زکے متعلق بڑھیا سے پوچھا تو اُس نے کہا :یہ میرے شوہر کی قَبر ہے، اسے دو خطا ؤ ں کی سز امل رہی ہے،پیشاب کرتے وقت یہ پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا ، میں اس سے کہتی کہ تجھ پر اَفسوس!جب اُونٹ پیشاب کرتا ہے تو وہ بھی اپنے پاؤ ں کُشادہ کر کے چھینٹوں سے بچتا ہے لیکن تُواس مُعامَلے میں بِالکل بھی اِحتیاط نہیں کرتا، میرا شوہر میری ان باتوں پر کوئی تو جُّہ نہ دیتا، پھر یہ مرگیا تو مرنے کے بعد سے آج تک اس کی قَبر سے روزانہ اسی طرح کی آوازیں آتی ہیں، میں نے پوچھا:”مشکیزہ!مشکیزہ کیا ہے؟“کی آواز آنے کا کیا مقصد ہے؟بڑھیا نے کہا:ایک مرتبہ اِس کے پاس ایک پیاسا شخص آیا،اس نے پانی مانگا تو(اِس نے اُس کو پریشان کرنے کیلئے خالی مشکیزے کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے)کہا : جاؤ! اِس مشکیزے سے پانی پی لو،وہ پیاسا بےتابانہ مشکیزے کی طرف لپکا، جب اُٹھایا تو اُسے خالی پایا، پیاس کی شِدّت سے وہ بے ہوش ہو کر گِر گیا اور اس کی موت واقِع ہو گئی ، پھر جب سے میرا شوہر مرا ہے آج تک روزانہ اُس کی قَبْر سے آواز آتی ہے : ” مشکیزہ! مشکیزہ کیا ہے ؟ “ حضرتِ عَبدُ اللہ بن عُمر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں:میں نے رَسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضِر ہو کر سارا واقِعہ عرض کیا تو سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تنہا سفر کرنے سے منع فرما دیا۔( عیون الحکایات، ص:307 ۔عیون الحکایات (مترجم)،2/187)بے نمازی کی قبر میں تین سزائیں
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!بے نمازی ہونا قبر کی ہولناکیوں میں مبتلا ہونے کا سبب ہے، چنانچہ میرے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عِبرت نشان ہے: جو نماز کو سُستی کی وجہ سے چھوڑے گا اللہ پاک اسے قبر میں تین طرح کی سزائیں دے گا: اس کی قبر کو اتنا تنگ کر ديا جائے گا کہ اس کی پسلیاں ايک دوسرے میں پيوست ہو جائيں گی اس کی قبر میں آگ بھڑکا دی جائے گی پھر وہ دن رات اَنگاروں پر لوٹ پوٹ ہوتا رہے گا اور قبر میں اس پر ايک اَژدھا مُسلّط کر ديا جائے گا جس کا نام اَلشُّجَاعُ الْاَقْرَعُ (یعنی گنجا سانپ )ہے، اس کی آنکھیں آگ کی ہوں گی جبکہ ناخن لوہے کے ہوں گے، ہر ناخن کی لمبائی ايک دن کی مَسافَت تک ہو گی،وہ مَيِّت سے کلام کرتے ہوئے کہے گا:میں اَلشُّجَاعُ الْاَقْرَعُ (یعنی گنجا سانپ) ہوں۔اس کی آواز کڑک دا ر بجلی کی سی ہو گی، وہ کہے گا : ميرے رَبّ نے مجھے حکم ديا ہے کہ نمازِ فجر ضائع کرنے پرطلوعِ آفتاب کے بعد تک مارتا رہوں اور نمازِ ظہر ضائع کرنے پر عصر تک مارتا رہوں اور نمازِ عصر ضائع کرنے پر مغرب تک مارتا رہوں اور نمازِ مغرب ضائع کرنے پر عشا تک مارتا رہوں اور نمازِ عشا ضائع کرنے پر فجر تک مارتا رہوں، جب بھی وہ اسے مارے گا تو وہ 70ہاتھ تک زمین میں دَھنس جائے گا اور وہ قیامت تک اس عذاب میں مبتلا رہے گا۔( قرة العیون معہ الروض الفائق ،ص384 ) (2) اے بے نمازیو!یاد رکھو!اگر آج نمازیں نہ پڑھیں تو قبر کی ہولناکیوں میں مبتلا ہونا پڑے گا، خُدا کی قسم!قبر میں گنجے سانپ کا ڈسنا ہرگز برداشت نہ ہو سکے گا اور پھر یہی نہیں بے نمازیوں کو دیگر عذابات بھی دئیے جائیں گے لہٰذا اَبھی سے سچّی توبہ کر لیجئے اور اپنا یہ ذہن بنائیے کہ اب ہم پابندی سے پانچوں نمازیں باجماعت اَدا کریں گے اور آج کے بعد ہماری کوئی نماز قضا نہ ہو گی۔ پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک کے ذِکر سے اِعراض کرنا بھی قبر کی تنگی ا ور اس کی ہولناکیوں میں مبتلا ہونے کا سبب ہے اور بروزِ قیامت اللہ پاک ایسوں کو اندھا اُٹھائے گا جیسا کہ پارہ 16سورۂ طہ کی آیت نمبر 124 میں اللہ پاک اِرشاد فرماتاہے : وَمَنْ اَعْرَضَ عَنۡ ذِکْرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی ﴿۱۲۴﴾ ترجَمۂ کنز الایمان:اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بےشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اَندھا اُٹھائیں گے۔ تنگ زندگانی کی وضاحت”تفسیرِ خزائنُ الْعِرفان “ میں کچھ اس طرح ہے :دنیا میں یا قبر میں یا آخرت میں یا دین میں یا ان سب میں، دنیا کی تنگ زندگانی یہ ہے کہ ہدایت کا اِتّباع نہ کرنے سے عملِ بد اور حرام میں مبتلا ہو یا قَناعَت سے محروم ہو کر گرفتارِ حرص ہو جائے اور کثرتِ مال و اَسباب سے بھی اس کو فراخِ خاطِر اور سُکونِ قلب مُیسّر نہ ہو ، دِل ہر چیز کی طلب میں آوارہ ہو اور حِرص کے غموں سے کہ یہ نہیں وہ نہیں حال تاریک اور وقت خراب رہے اور مومِن مُتَوَکِّل کی طرح اس کو سُکون و فراغ حاصل ہی نہ ہو جس کو حَیاتِ طَیِّبہ کہتے ہیں اور قبر کی تنگ زِندگانی یہ ہے کہ حدیث شریف میں وارد ہوا کہ کافِر پر 99 اَژدھے اس کی قبر میں مُسلّط کئے جاتے ہیں۔ شانِ نُزول : حضرتِ اِبنِ عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: یہ آیت اَسود بن عَبدُ العُزّی مَخْزُومی کے حق میں نازِل ہوئی اور قبر کی زِندگانی سے مراد قبر کا اس سختی سے دبانا ہے جس سے ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف آ جاتی ہیں اور آخرت میں تنگ زندگانی جہنّم کے عذاب میں جہاں زَقُّوم (یعنی تھوہڑ) اور کھولتا پانی اور جہنمیوں کے خون اور ان کے پِیپ کھانے پینے کو دی جائے گی اور دین میں تنگ زندگانی یہ ہے کہ نیکی کی راہیں تنگ ہو جائیں اور آدمی کسبِ حرام میں مبتلا ہو۔حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ بندے کو تھوڑا ملے یا بہت،اگر خوفِ خُدا نہیں تو اس میں کچھ بھلائی نہیں اور یہ تنگ زِندگانی ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان،پ16،طہٰ،تحت الآیۃ:124،ص598) پیارے پیارے اسلامی بھائیو!قبر کی ہولناکیوں میں ہمارے لیے بہت عِبرت کا سامان ہے لیکن شیطان ہم پر مُسلّط ہو گیا ہے اور اس نے اس قدر ہمارے دِلوں اور ہماری عقلوں پر قبضہ جما لیا ہے کہ آج ہم گناہوں سے دُوری اِختیار کر کے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری پیاری سنّتیں اپنانے کے لیے تیار نہیں ۔آج ہمیں سنّتیں سیکھنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے سنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت اور مدنی قافلوں میں سفر کی دعوت دی جاتی ہے تو ہم تیّار نہیں ہوتے ۔ یاد رکھیے! شیطان بڑا ہوشیار،مکّار اور دَغا باز ہے،وہ یہ نہیں چاہتا کہ ہم دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہوں،مدنی قافلوں میں سفر اور ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کریں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگریہ دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو گئے ، مدنی قافلوں میں سفر کرنے لگے اور ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماعات میں پابندی سے حاضر ہونے لگے تو کہیں ایسا نہ ہوکہ پکے نمازی بن جائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سینما گھروں اور ڈراما گاہوں سے اپنا رِشتہ توڑ کر مساجد سے اپنا رشتہ جوڑ لیں، کہیں ایسا نہ ہو جو داڑھیاں مُنڈاتے، رات دِن گالیاں بکتے،گانے گنگناتے اور فلمیں ڈرامے دیکھتے ہیں نیک بن جائیں،اللہ،اللہ کرنے لگیں اور اپنے چہرے پر پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سُنّت داڑھی شریف سجا لیں، یہی وجہ ہے کہ مُبلّغِین کے بار بار دعوت دینے کے باوجود شیطان ہمیں دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت نہیں کرنے دیتا ،کبھی وہ ہمارے راستے میں دوستوں کا رُوپ دھار کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کبھی دُکان کھلوا کر ہمیں روک لیتا ہے۔
1 … عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے آغاز میں امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کےہونے والےمختلف آڈیوبیانات کو تحریری صورت میں بنام’’فیضانِ بیاناتِ عطار ‘‘ المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) کے شعبہ ”بیاناتِ امیرِاہل ِسنّت“ کی طرف سے ترمیم و اضافے کیساتھ پیش کیا گیا۔اَلحمدُ لِلّٰہِ الکریم! اُن بیانات میں سے اَب شعبہ ’’ہفتہ وا ر رسالہ مطالعہ‘‘ 25 فروری 1988ء کو گلزارِ حبیب مسجد(سولجربازارکراچی،پاکستان)میں ہونے والے ایک بیان ’’قبرکی ہولناکیاں ‘‘ کو جُداگانہ رسالے کی صورت میں مَنظرِ عام پر لارہا ہے۔ 2…متعدّد محدثین نے اِس روایت کی اَسناد پر جرح فرمائی ہے تا ہم کئی علما نے وعظ و نصیحت کی کتابوں میں اسے شامل بھی کیا ہے۔ (فیضان نماز، حاشیہ، ص 427)