اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
قیامت کی کتنی نشانیاں ظاہر ہوچکیں؟ ( )
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ(۸صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: مجھ پر کثرت سے درودِ پاک پڑھو بے شک تمہارا مجھ پر درودِ پاک پڑھنا تمہارے گناہوں کے لیے مغفرت ہے۔ ( )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
سُوال: قىامت کى کتنى نشانىاں ظاہر ہوگئىں اور کتنى باقى ہىں ارشاد فرمادىجئے۔
جواب: یہ وسیع مضمون ہے، بہارِ شرىعت کے پہلے حصے مىں قىامت کى بہت سی نشانىاں لکھى ہوئی ہىں ( ) ان میں سے کئی نشانیاں ظاہر ہوگئی ہیں۔ حضرتِ سَیِّدُنا انس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے کہ اللہ کے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی بارگاہِ عالیہ میں ایک شخص نے عرض کی یارَسُوْلَ اللہ !قىامت کب آئے گى ؟ تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا :”تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟“تو اس نے عرض کی ! تیاری تو کچھ نہیں کی، مگر میں اللہ پاک اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ تو آپ نے اِرشاد فرمایا :”تم جس سے محبت کرتے ہو اسی کے ساتھ ہو گے! “حضرتِ سَیِّدُنا انس ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی اس دن ہوئی۔ (4)
یادرکھئے! قىامت کى نشانىاں معلوم کرنااوران کے بارے میں پڑھنا منع نہىں ہے لىکن مىں نے عرض کىا کہ تىارى کى طرف بھى دھىان ہونا چاہیے، افسوس ہمارا قیامت کی تیاری کی طرف دھیان نہیں ہے۔لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ قىامت کى نشانىاں پتا چلیں اس طرح کی افواہىں بھی گردش کر رہی ہوتی ہىں کہ مثلاًفلاں چیز گرے گی تو قىامت آجائے گى، فلاں چیز پھٹے گی تو قىامت آجائے گى، اتنے بجے قىامت آئے گى، اس وقت قىامت آئے گی وغیرہ وغیرہ۔ایسی حرکتیں اور باتیں وہ بھی اپنی اٹکل سے کرناقىامت کى تىارى کے بالکل خلاف ہے، قىامت کى تىارى تو خوفِ خدا سے ہوگى اور جس میں خوفِ خدا ہوگا وہ اپنى اٹکل سےاور تفرىح کے طور پر اس طرح کا مذاق نہىں کرے گا۔ اللہ کرىم ہمیں قیامت کی نشانىاں ڈھونڈنے کے بجائے قىامت کی بھر پور انداز میں تىارى کرنے کی توفىق عطا فرمائے۔
سُوال: عذاب اور امتحان مىں کىا فرق ہے؟(سائل: محمد ابراہىم عطارى، مىانوالى)
جواب:اللہ پاک کا عذاب سزا ہےجبکہ امتحان آزمائش! کربلا مىں امتحان تھا عذاب نہىں، البتہ جوبیماری، پریشانی یا آزمائشىں ہم پرآتى ہیں انہیں ہر صورت مىں عذاب قرار نہیں دىا جاسکتا۔
سُوال: جنات سے حفاظت کا روحانى علاج ارشاد فرمادىجئے۔
جواب:سوتے وقت پابندى کے ساتھ حصار کرلىا کرىں کہ پىارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم بھى حِصار فرماتے تھے۔ اس کا طرىقہ یہ ہے کہ دعا کى طرح ہاتھ پھىلا لىں ، پھر بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے ساتھ سورۂ اخلاص ، سورۂ فلق اور سورۂ ناس شرىف پڑھ کر اپنى ہتھىلىوں پر دم کرىں اور سارے اگلے حصے پر ہاتھ پھىرىں، پھر دائىں بائیں، جہاں جہاں ہاتھ پہنچتا ہے وہاں ہاتھ پھیریں۔( ) اس طرح کرىں گے تو ىہ حصار ہوجائے گا پھر جن جادو وغىرہ کوئى بھی چىز اِنْ شَآءَ اللہ اثر انداز نہىں ہو گى مگر ىہ عمل مستقل یعنی بلا ناغہ روزانہ کریں، تلفظ کی ادائیگی اور مخارج بھی درست ہونے چاہئیں نماز میں بھی جتنا پڑھنا فرض ہے اتنا سیکھنا فرض ، جتنا پڑھنا واجب ہے اتنا سیکھنا واجب،نیز نماز میں ہم جو سورت یا آیتیں پڑھیں ان کا زبانى ىاد ہونا بھى ضروری ہے۔
سُوال: بزرگانِ دِىن پڑوسىوں کا کس طرح خىال رکھتے تھے ؟(سائل: محمد عثمان، فىصل آباد)
جواب: احادىثِ مبارکہ مىں پڑوسىوں کا خىال رکھنے کی خاص تاکید فرمائی گئی ہے۔ لہٰذا ہمیں ہر معاملے میں پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہیے یہاں تک کہ اگر کوئى عمدہ چىز مثلاًپھل وغىرہ لائیں تو اپنے پڑوسىوں کو بھى دیں، اگر نہىں دے سکتےتو ان کے چھلکے ایسی جگہ نہ پھینکیں کہ پڑوسىوں کے بچے دىکھىں کیونکہ اس طرح ان کا دل دُکھےگا اور وہ سوچیں گے کہ ہمارے پاس یہ چیزیں نہیں ہیں۔ اسی طرح گھر میں کھانا پکاىا تو شوربا زىادہ کردیں اور پڑوسىوں کو بھى اس میں سے بھیج دیں۔
(1)کسی بزرگ نے اپنے دوستوں سے گھر میں چوہوں کی کثرت کی شکایت کی تو ان سے کہا گیا : آپ بلی کیوں نہیں پال لیتے؟فرمایا :مجھے اس بات کا خوف ہے کہ بلی کی آواز سن کر چوہے پڑوسیوں کے گھروں میں چلے جائیں گے ، یوں میں ان کے لئے اس بات کو پسند کرنے والاہو جاؤں گا جس کو اپنے لئے پسند نہیں کرتا۔ ( )
(2) حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نےایک یہودی کے مکان کے قریب کرائے پر مکان لے لیا جس کادروازہ یہودی کے دروازے سے مُتَّصِل تھا۔ یہودی نے ایک ایسا پَرنالہ بنوایا جس کے ذریعے گندگی آپ کے مکان پر ڈالتا رہتا اور آپ کی نماز کی جگہ ناپاک ہوجایا کرتی۔ بہت عرصہ تک وہ یہ عمل کرتا رہا لیکن آپ نے شکایت نہیں کی۔ ایک دن اس یہودی نے خود ہی آپ سے عرض کیا : میرے پَرنالے کی وجہ سے آپ كو تکلیف نہیں ہوتی؟ آپ نے فرمایا : پَرنالے سے جو غَلاظت گرتی ہے اس کو جھاڑو لیکر روزانہ دھو ڈالتا ہوں۔ یہودی نے کہا : اِتنی اَذِیَّت برداشت کرنے کے بعد بھی آپ کو غُصّہ نہیں آیا؟فرمایا : اللہ پاک کا ارشاد ہے : وَالْکٰظِمِیۡنَ الْغَیۡظَ وَالْعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیۡنَ0 (2) ترجمۂ کنزُالایمان : ”اور غصہ پینے والے اورلوگوں سے درگزر کرنے والے اورنیک لوگ اللہکے محبوب ہیں۔“ یہ آیتِ مبارکہ سُن کر وہ یہودی بہت متأثر ہوا ، اور یوں عرض گزارہوا : یقیناً آپ کا مَذہب بَہُت عُمدہ ہے کیونکہ اس میں دشمن کی اَذِیَّت پر صبر کرنے کو اچّھا کہا گیا ہے۔ آج میں سچّے دل سے اسلا م قَبول کرتا ہوں۔ ( ) دیکھا آپ نے! پہلے کے پڑوسى اس قدر نیک، پرہیزگار اوردوسروں کا خیال رکھنے والے ہوتے تھےجبکہ آج کل کے پڑوسیوں کی جو حالت ہے وہ سب کو معلوم ہے۔
سُوال: حدىث کسے کہتے ہىں؟(سائل: سمىر على، کراچی)
جواب: حدىث کا لفظی معنىٰ ”بات“ہے، لیکن جب حدىث کا ذکر کیا جاتا ہے تو توجُّہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کى طرف ہی جاتی ہےکہ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کے ارشاد مبارک ، عمل مبارک اور تقریر کو حدیثِ پاک کہا جاتا ہے ۔یہاں تقریر کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے کوئی عمل کیا گیا اور آپ اسے دىکھ کر خاموش رہے یعنی اس عمل سے منع نہىں فرمایا۔ (2)
سُوال: اللہ پاک کا شکر کن الفاظ مىں ادا کرنا چاہىے؟ (سائل: لقمان عطارى ، UK)
جواب: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہ “ کہنا بھى اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کےلئے بہت عمدہ ہے۔ (3)
سُوال: گھر میں چھوٹے شرارتی بچّوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر رکھنا کیسا؟
جواب: اگر بچے کوسنبھالنے والا کوئى نہ ہو نیز اسے باندھیں گے نہیں تو کوئی نہ کوئی نقصان پہنچ جائے گا تو ایسی صورت میں بچے کو اس طرح باندھیں کہ اس کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ بچوں کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں، جب حسن رضا (امیرِ اہلِ سُنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رضاعی پوتے)چھوٹے تھے تو نماز کے دوران مجھ سے لپٹ جاتے تھےلیکن میرے نماز شروع کرنے سے پہلے نہیں آتے تھے کیونکہ ان کو پتا تھا کہ ابھی جاؤں گا تو لپٹ نہیں سکوں گا، یہ انتظار کرتے تھے کہ کب میں نماز شروع کروں اور یہ آئیں نیز جب میں نماز ختم کرنے لگتا تو اس سے پہلے ہی یہ دوبارہ دور جا کر بیٹھ جاتے۔کئی بار ان کے والد صاحب نے انہیں ڈانٹ کر سمجھایا ،مجھ سے دور کیااور کرسی کے ساتھ چادر سے اس طرح باندھ دیا کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔
سُوال: جہنم کے بارے مىں کچھ ارشاد فرمادىجئے تاکہ دل نرم ہوجائے ۔
جواب: جہنم اللہ پاک کے قہر و غضب کا مظہر ہے،اس کا عذاب اتنا سخت ہے کہ نہ کسى آنکھ نے دىکھانہ کسى کان نے سنا! جہنم کى آگ دنیاوی آگ کی طرح نہیں۔ ہمارے ىہاں جو آگ نظر آتى ہے وہ تو روشنى کا سبب بنتى ہے لىکن جہنم کى آگ کالى ہے،جہنم کى آگ میں اندھىرا ہى اندھىرا ہے۔ ایسے بڑے بڑے سانپ اور بچھو ہوں گے جن کاکبھى تصور نہىں کىا جاسکتا۔ جہنم میں کافروں کا جو حال ہوگا الامان و الحفیظ۔ ایک ایک داڑھ اُحد کے پہاڑ برابر ہوگی، کھال کی موٹائی 42 ہاتھ کی ہوگی، ( )زبان ایک کوس یعنی چار ہزار گز دو کوس تک منہ سے باہر گھسٹتی ہوگی کہ لوگ اس کو روندیں گے، ( ) بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جیسے مکہ سے مدینہ تک ( ) اسی طرح آگ کا پہاڑ ہوگا، اس پر چڑھاىا جائے گا، ستّر سال مىں وہ آگ کے پہاڑ کى چوٹى پر پہنچے گا پھر اس کو وہاں سے اترنے پر مجبور کىا جائے گا ىہ اُترے گا اور ستر سال مىں نىچے پہنچے گا۔( ) اس طرح اسے طرح طرح کے عذابات دئیے جائیں گے۔ ہم اِنْ شَآءَ اللہ آقا کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کے صدقے جہنم نہىں دىکھىں گے، اللہ پاک کى رحمت پر نظر رکھنی چاہیے ۔ البتہ جہنم کا خوف بھی ضرور رکھنا چاہىے کہ کچھ نہ کچھ گناہ گار مسلمان بھى جہنم مىں ضرور جائىں گے! اللہ پاک ہمیں اس سے محفوظ رکھے، ہم اللہ کرىم سے اس کے عذاب سے پناہ مانگتے ہىں، اللہ کرىم ہمىں عشرۂ جہنم سے آزادى کى برکت سے جہنم سے آزاد ی عطا فرمادے ۔
سُوال: ترقی حاصل کرنے کے لئے کسی بڑے بندے کی چاپلوسی کرنا کیسا؟(سائل: شعىب اصغر عطارى، اٹلى)
جواب: کسی کی بھی چاپلوسی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ چاپلوسىاں کرنا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
سُوال: کسی مسلمان کو دھوکا دینا کیسا ؟ (سائل:ىاسر عطارى)
جواب: یقینا یہ گناہ کا کام ہے اس سے بہت زیادہ نفرتىں اور دشمنیاں پھىل سکتى ہىں ایسے لوگوں کو سچے دل سے توبہ کرنی چاہیے۔ ( )
سُوال: کىا اسلامی بہنیں اعتکاف مىں مدنى چىنل دىکھ ىا سن سکتى ہىں؟ (نگرانِ شُورىٰ کا سُوال)
جواب:جی ہاں دیکھ سکتی ہے اس میں کوئى حرج نہىں ہے۔
سُوال: تىمم مٹى کے اوپر ہاتھ پھىرنے کے علاوہ کن کن چىزوں پر ہاتھ پھىرنے سے ہوسکتا ہے؟ (نگرانِ شورىٰ کا سُوال)
جواب: جو بھى چیز مٹى کى جنس سے ہوجىسا کہ دىواریہ مٹی کی ہوتی ہے اس پر چونا لگا ہوا ہو تب بھى ىہ مٹى ہی ہے۔ اگر دیوار پر کوئى آئل پىنٹ کردے تو اس پر تىمم نہىں کرسکتے کہ اس صورت میں مٹى آئل پىنٹ سے ڈھک گئى ہے ، اسى طرح کوئى بھى ایسی چىز جس پر گرد و غبار لگی ہوئی ہو، چاہے وہ کپڑا ہى ہو، تو اس گرد سے تىمم ہوسکتا ہے۔( )