Qurbani Kay Fatawa
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Qurbani Kay Fatawa | قربانی کےفتاویٰ

    Qurbani Kay Wujoob Ka Bayan Aur Is Ki Sooraten

    book_icon
    قربانی کےفتاویٰ
                

    قربانی کے وجوب کا بیان

    ایک ڈیڑھ تولہ سونا ملکیت میں ہو ، تو قربانی کا حکم ؟

    فتویٰ نمبر : 1 کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قربانی کا نصاب کیا ہے ؟ میری ملکیت میں صرف ایک سے ڈیڑھ تولہ سونا ہے ، اس کے علاوہ چاندی یا رقم وغیرہ کچھ بھی میری ملکیت میں نہیں ہے ،یہاں تک کہ روز مرہ کے اخراجات کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں، تو کیا ایسی صورتِ حال میں مجھ پر قربانی لازم ہوگی ؟ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یاسوناچاندی نصاب سےکم ہوں ، لیکن جس قدر ہیں ، ان دونوں کو ملا کر یا سونے یا چاندی کو کسی دوسرے مال کے ساتھ ملا کر ، اُن دونوں کی مجموعی قیمت عید الاضحی کے ایام میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو ، یوں ہی حاجت اصلیہ(یعنی وہ چیزیں جن کی انسان کوحاجت رہتی ہے،جیسے رہائش گاہ،خانہ داری کےوہ سامان جن کی حاجت ہو،سواری اورپہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ زندگی)سے زائد اگرکوئی ایسی چیزمِلکیت میں ہو ، جس کی قیمت تنہا یا سونے یا چاندی کے ساتھ ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہو ، تووہ نصاب کامالک ہےاوراُس پر قربانی واجب ہے ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ پر قربانی لازم نہیں ہوگی ، کیونکہ آپ کے پاس صرف سونا ہی ہے ، ساتھ چاندی ، رقم ، پرائز بانڈز یا کوئی اور ایسا مال نہیں ہے ، جس کے ساتھ مل کر مجموعی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو ۔ قربانی واجب ہونے کے نصاب کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے :” فلا بد من اعتبار الغنى وهو أن يكون فی ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شیء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه وما يتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و مالا يستغنی عنه وهو نصاب صدقة الفطر “ترجمہ:(قربانی میں)مالداری کااعتبارہوناضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں دوسو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی)یابیس دینار(ساڑھے سات تولہ سونا) ہوں یارہائش،خانہ داری کے سامان، کپڑے،خادم،گھوڑا،ہتھیاراوروہ اشیاء جن کے بغیرگزارہ نہ ہو، ان کے علاوہ کوئی ایسی چیزہو ، جواس(دوسودرہم یابیس دینار)کی قیمت کوپہنچتی ہواوریہ ہی صدقہ فطرکانصاب ہے۔(بدائع الصنائع،کتاب التضحیۃ،جلد4،صفحہ196،مطبوعہ کوئٹہ) سونے کو چاندی کے ساتھ ملانے سے متعلق تبیین الحقائق میں ہے : ” ويضم الذهب الى الفضة بالقيمة فيكمل به النصاب لأن الكل جنس واحد “ترجمہ:سونے کو چاندی کے ساتھ قیمت کے اعتبار سے ملاکر نصاب مکمل کیاجائے گا ،کیونکہ یہ آپس میں ہم جنس ہیں ۔ (تبیین الحقائق ، کتاب الزکاۃ ، باب زکاۃالمال ، جلد 2 ، صفحہ 80 ،مطبوعہ کوئٹہ) سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ”قربانی واجب ہونے کے لیے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصلی حاجتوں کے علاوہ 56 روپیہ(اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے دور میں رائج چاندی کا نصاب) کے مال کا مالک ہو، چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت، کاشتکار کے ہل بیل اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ، ان کا شمار نہ ہو۔ “ (فتاوی رضویہ،جلد 20،صفحہ 370 ، رضافاونڈیشن ، لاہور) صدر الشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں:”جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کےسوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو ، جس کی قیمت دوسو درہم ہو ، وہ غنی ہے ، اوس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان ، جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے، ان کے سوا جو چیزیں ہوں ، وہ حاجت سے زائد ہیں۔“(بہارِشریعت،جلد 3،صفحہ 333،مکتبۃالمدینہ،کراچی) نوٹ : مذکورہ بالا مسئلے میں فتویٰ تو یہی ہے ، لیکن بہت سے لوگ اپنی حاجتِ اصلیہ سے زائد مال کو شمار کرنے میں غلطی کر جاتے ہیں ، کیونکہ عام طور پر کچھ نہ کچھ حاجت اصلیہ سے زائد چیزیں موجود ہوتی ہی ہیں ، جن کو سونے یا چاندی کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے ،تو قربانی کا نصاب بن جاتا ہے ، لیکن لوگ توجہ نہیں کرتے ۔ جیسے اضافی کپڑے، جوتے یا گھر میں ڈیکوریشن کا سامان یا تفریح کےلیے خریدا گیا ٹی وی وغیرہا ، لہٰذا ان چیزوں کا ضرور خیال رکھا جائے اور کسی عالمِ دین سے مل کر معلومات کر لی جائے ۔ وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کتبـــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 27 ذیقعدۃ الحرام 1440 ھ/31 جولائی 2019 ء

    قربانی واجب ہو اور رقم نہ ہو ، تو کیا حکم ہے ؟

    فتویٰ نمبر : 2 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میری زوجہ کے پاس تین تولے سونا اور چاندی کا سیٹ ہے، لیکن اس کے پاس نقد رقم موجود نہیں، جس سے وہ جانور خریدے یا حصہ ڈال سکے، کیا وہ قرض لے کر قربانی کر سکتی ہے؟ اس طرح اس کا واجب ادا ہو جائے گا؟ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ پوچھی گئی صورت میں قربانی تو واجب ہے ،لہٰذا بہرصورت قربانی کرے اور اگر قرض لے کر بھی قربانی کرے گی ،تو واجب ادا ہو جائے گا۔ فتاوی رضویہ وامجدیہ میں ہے: و اللفظ للاول ’’جس پر قربانی ہےاور اس وقت نقد اس کے پاس نہیں، وہ چاہے قرض لے کر کرے، یا اپنا کچھ مال بیچے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 370، رضا فاؤنڈیشن، لاہور) وقار الفتاوی میں ہے:’’جو صاحب نصاب ہے، اس پر قربانی واجب ہے، قربانی کرنے کے لئے اپنا سونا چاندی فروخت کرےیا قرض لے کر کرے، دونوں صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل کرے۔‘‘ (وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 470، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی) وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کتبـــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 02ذوالحجۃ الحرام1437ھ/05ستمبر 2016ء

    قرض دی ہوئی رقم پر قربانی کا حکم ؟

    فتویٰ نمبر : 3 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کے پاس ایک لاکھ روپے تھے ،رمضان المبارک میں اس نے وہ کسی کو بطور قرض دیے اور طے یہ پایا کہ مقروض محرم الحرام میں واپس کرے گا،اب قربانی کے ایام قریب ہیں اور اس کے پاس کوئی اور مال نہیں اور اپنی رقم ان دنوں میں نہیں مل سکتی، کیا زید پر قربانی کرنالازم ہے یانہیں؟ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ پوچھی گئی صورت میں زید کے لیے لازم ہے کہ مقروض سے اتنی رقم کا مطالبہ کرے ، جس سے قربانی ہوسکے ، جب کہ اس کو ظن غالب ہوکہ وہ دے دے گا اور اگر کوئی صورت نہ بنے کہ نہ تو زید کوایام قربانی میں وہ رقم مل سکتی ہے اورنہ ہی اس کے پاس کوئی اورمال ہے ، جس سے جانور خرید سکے ، تواس پر قربانی واجب نہیں ۔اس صور ت میں اس پر قرض لے کرقربانی کرنالازم نہیں اور نہ ہی قرض ملنے کے بعد قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنالاز م ہے۔ فتاوی بزازیہ میں ہے:’’ لہ دین حال علی مقر ولیس عندہ مایشتر یھا بہ لایلزمہ الاستقراض ولا قیمۃ الاضحیۃ اذا وصل الدین الیہ ولکن یلزمہ ان یسال منہ ثمن الاضحیۃ اذا غلب علی ظنہ انہ یعطیہ ‘‘ ترجمہ: صاحب نصاب کا کسی ایسے شخص پر قرض فوری ہے ، جس کاوہ اقرار کرتاہے اور اس کے پاس کوئی ایسی شے نہیں کہ جس سے وہ قربانی کے لیے جانور خرید سکے ، تو اس پر قربانی کے لیے قرض لینالازم نہیں اور نہ ہی قرض واپس ملنے پر قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنالازم ہے ،لیکن اس کے لیے قربانی کی قیمت جتنی رقم کاسوال کرنا لازم ہے ، جبکہ اس کوظن غالب ہو کہ وہ دے دے گا۔ (فتاوی بزازیہ،جلد2،صفحہ406،مطبوعہ کراچی) فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ ولو کان علیہ دین بحیث لو صرف فیہ نقص نصابہ لا تجب وکذا لو کان لہ مال غائب لا یصل إلیہ فی أیامہ ‘‘ترجمہ:اگر کسی شخص پر اتنا دَین ہو کہ وہ اپنامال اس دَین کی ادائیگی میں صرف کر ے ، تو نصاب باقی نہ رہے ،تواس پر قربانی نہیں ہے۔ اسی طرح جس شخص کامال اس کے پاس موجود نہیں اور قربانی کے ایام میں وہ مال اسے ملے گا بھی نہیں(بلکہ ایام قربانی کے بعد ملے گا،تواس پر بھی قربانی واجب نہیں)۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب الاضحیۃ ،جلد5،صفحہ292،مطبوعہ کوئٹہ) صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ تحریرفرماتے ہیں : ’’اوس شخص پر دَین ہے اور اوس کے اموال سے دَین کی مقدارمُجرا کی جائے تو نصاب نہیں باقی رہتی ، اوس پر قربانی واجب نہیں اور اگر اس کا مال یہاں موجود نہیں ہے اور ایامِ قربانی گزرنے کے بعد وہ مال اوسے وصول ہوگا تو قربانی واجب نہیں۔‘‘ (بہارشریعت،جلد3،حصہ 15،صفحہ 333،مکتبۃ المدینہ،کراچی) وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کتبـــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد ہاشم خان عطاری 14 ذوالحجۃ الحرام1436ھ/29ستمبر2015ء

    بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟

    فتویٰ نمبر : 4 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کےبارے میں کہ ایک شخص کے پاس دس ایکڑ زمین ہے اور اس کے دوبیٹے ہیں جووالد کےماتحت رہتے ہیں اور والد کے ساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹاتے ہیں ،زمین سے آنے والی ساری آمدنی والد کے پاس ہوتی ہے ،بیٹوں کو ضرورت کے مطابق خرچہ دیا جاتا ہے،باپ نے نہ تو ان کو جائیداد کا مالک بنایا ہے اور نہ ہی ان کے اپنے پاس نصاب کی مقدار کوئی دوسرا مال یا زمین ہے، تو کیا ان پر قربانی واجب ہوگی ؟ سائل:مولانا نعیم فیض عطاری (جوہر ٹاؤن لاہور( بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ اگر واقعی ان کے اپنے پاس نصاب کی مقدار ذاتی مال نہیں ہے ،تو ان پر قربانی واجب نہیں کہ قربانی کے وجوب کے لیے صاحب نصاب ہونا شرط ہے ۔ رہا وہ مال جو انہوں نے کھیتی باڑی سے کمایا وہ تو چاہے جتنا ہو اس سے یہ بیٹے صاحب نصاب نہ ہونگے کہ وہ ان کا ہے ہی نہیں ،وہ ان کے والد کا ہے کیونکہ جب بیٹے زراعت وغیرہ کسی پیشہ میں والد کے ساتھ بطور معاون کام کرتے ہوں، تو ان سب کی محنت سے جو مال حاصل ہو وہ سب والد کی ملک ہوتا ہے،بیٹے اس کے مالک نہیں ہوتے ۔ وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کتبـــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد ہاشم خان عطاری 22محرم الحرام1438 ھ/24اکتوبر2016 ء

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن