اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
رَمَضانُ المبارک کی یاد کیسے تازہ کریں؟ ( )
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ(۲۱ صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:شَبِ جمعہ اور روزِ جمعہ مجھ پر کثرت سے دُرُود شریف پڑھو کیونکہ تمہارا دُرُود ِ پاک مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔( )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
سوال:”اَلوَداع اَلوَداع ماہِ رَمَضان “یہ کلام آپ نے کب اور کس دِن لکھا ہے؟ (محمد شفیق)
جواب:میں نے کئی کلام لکھے ہیں،لیکن یہ بتانا مشکل ہو گا کہ کون سا کلام کب لکھا ہے؟ غالباً میرا سب سے پہلا کلام یہی ہے کیونکہ دعوتِ اسلامی کے شروع میں ہمارے نعت خواں اسلامی بھائی یہی کلام جامع مسجد گلزارِ حبیب میں پڑھا کرتے تھے۔ دَراصل یہ کلام پہلے کوئی لکھ چکا تھا لیکن اِس میں کچھ اَشعار ایسے تھے جنہیں پڑھنا مُناسب نہیں تھا اور اس کلام میں کسی جگہ رَبط بھی نہیں تھا تو کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ اِس کلام کو نئے طریقے پر ڈھالیں اور عمدہ اَشعار تیار کر دیں، تب میں نے اسے نیا اُسلوب دیا تھا اور اَشعار میں جہاں تَرمیم کی ضَرورت پیش آئی تو وہاں پر ترمیم کر دی۔یہ کلام ”وَسائلِ بخشش “میں تَرمیم شُدہ موجود ہے اور ساتھ ہی اِس کے مُرَمَّمْ ہونے کا بھی حاشیے میں ذِکر کر دیا ہے۔ ( )
’’ہوا جاتا ہے رُخصت ماہِ رَمَضان یَارَسُوْلَ اللہ‘‘یہ کلام بھی میں نے 27 رَمَضانُ المبارک کو کسی نعت خواں کی فرمائش پر لکھا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس کلام کو نعت خواں پڑھتے رہیں گے تو رَمَضانُ المبارک کی جُدائی کا غم دِل میں تازہ رہے گا۔ بہرحال ہر انسان کے دِل میں رَمَضانُ المبارک کا غم پیدا ہو جائے ایسا نہیں ہوتا کہ ہر ایک کے دِل کی کیفیت جُدا ہوتی ہے،کسی کا دِل کرتا ہے کہ رَمَضان کی یاد میں اتنے آنسو بہاؤں کہ ہچکی بندھ جائے اور کسی کے دِل میں ایسی کیفیت پیدا ہی نہیں ہوتی ۔ اگر کوئی اپنے دِل میں رَمَضانُ المبارک کی جُدائی کا غم پیدا کرنا چاہتا ہے تو اُسے چاہیے کہ جس وقت ماہِ رَمَضان رُخصت ہو رہا ہو اُس وقت سے خاموشی اِختیار کر لے،کسی سے بھی بات نہ کریں اور رَمَضانُ المبارک کی یادیں اور اس کے فَضائل دِل ہی دِل میں یاد کرے مثلاً رَمَضان میں ہر روز اِفطار کے وقت 10 لاکھ اَفراد جہنم سے آزاد کیے جاتے ہیں اور رَمَضان کے جمعہ کی ہر ہر ساعت میں 10، 10 لاکھ اَفراد جہنم سے آزاد کیے جاتے ہیں۔( ) اِس طرح تصور کرنے سے اِنْ شَآءَ اللّٰہ آہستہ آہستہ دِل میں غمِ رَمَضان ضَرور نصیب ہو جائے گا۔
رَمَضانُ المبارک کا اپنا ہی ایک مزہ اور سُرور ہے، اِس ماہِ مقدس کی آمد سے پہلے ہی گھروں میں تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں،اِس مہینے میں اِنسان پر خود ہی اِس طرح کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ مسجد میں آنے لگ جاتا ہے۔ ہمارے بزرگانِ دِین رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِم کا پورا سال ہی رَمَضان کی یاد میں گزر جاتا تھا۔بزرگانِ دِین رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِم کے اِس طرح کے واقعات ملتے ہیں کہ چھ ماہ پہلے ہی رَمَضان کی آمد کی تیاری شروع کر دیتے تھے اور باقی کے چھ مہینوں میں یہ دُعائیں کرتے تھے کہ ہم نے رَمَضان میں جو عبادتیں اور ریاضتیں کی ہیں وہ سب قبول ہو جائیں۔( )لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ایک مخصوص ڈائری بنا کر رکھیں کہ جس میں آمدِ رَمَضان کی تاریخ اور اس کے رُخصت ہونے کی تاریخ لکھی جا سکے، یوں ہی اس میں اپنے اَوراد و وَظائف بھی لکھتے رہیں اور بعد میں اس ڈائری کو پڑھ کر رَمَضان کو یاد کرتے رہیں۔ رَمَضانُ المبارک کی کچھ نہ کچھ یاد تو ہونی چاہیے، میرے بائیں ہاتھ کی کلائی پر ایک زخم کا نشان ہے میں اسے بسا اوقات چُوم بھی لیتا ہوں کہ یہ مجھے 2015 کے رَمضان المبارک میں ہوا تھا۔ (اِس موقع پر جانشینِ امیرِ اہلِ سنَّت حاجی عبید رضا نے فرمایا:)میری عادت بنی ہوئی ہے اور اِس بار بھی میں نے یوں کیا ہے کہ جب شعبانُ المعظم کے مہینے کا آخری سورج غروب ہوا تو میں نے اس وقت اپنی گھڑی میں اَلارم لگا دیا جو ہر روز بجتا ہے اور مجھے رَمَضانُ المبارک کی یاد دِلاتا ہے۔اِسی طرح جب صبحِ بہاراں کا وقت آتا ہے تب بھی ایسا ہی کرتا ہوں۔
سوال:کنگھی کرتے وقت خواتین کے کچھ بال ٹوٹ جاتے ہیں،اِن بالوں کو اِس نیّت سے جَلا دینا کہ ان پر کسی اَجنبی کی نظر نہ پڑے یا اِن کے ذَریعے کوئی جادو نہ کر سکے،کیا ایسا کرنا شرعاً دُرُست ہے؟ (SMSکے ذَریعے سوال)
جواب:ایسا کسی کتاب میں پڑھا نہیں ہے کہ عورت کے بالوں کو جَلانا چاہیے۔ہاں یہ ضَرور ہے کہ عورت اپنے بالوں کو کسی ایسی جگہ چُھپا دے کہ جہاں پر کسی اَجنبی کی نظر نہ پڑے۔( ) اِسی طرح مَرد کو بھی اپنے بال، ناخن اور کھال وغیرہ کو زمین میں دَفن کر دینا چاہئے۔( )
سوال:اگر کسی شخص نے ایک لاکھ روپے کا قرض لیا ہو اور قرض خواہ اسے تلاش کرنے میں ناکام رہا ہو تو کیا اس صورت میں قرض خواہ کو صبر کرنے پر ثواب ملے گا؟
جواب: اگر قرضدار نے قرض واپس کرنے کی کوئی تاریخ دی ہے کہ میں فلاں تاریخ کو سارا قرض لوٹا دوں گا لیکن وہ تاریخ گزر گئی اور اب تک قرض کی رَقم واپس نہیں لوٹائی تو اِس صورت میں اگر قرض خواہ صبر کیے ہوئے ہے تو اُسے ضَرور ثواب ملے گا۔ مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد جتنے دِن بھی گزریں گے ہر دِن قرض خواہ کو ایک لاکھ روپے خیرات کرنے کا ثواب بھی ملتا رہے گا۔( )عموماً لوگ جھگڑا کر کے بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے تو صبر کیا ہوا ہے۔ لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ صبر کسے کہتے ہیں؟ بسا اوقات قرضدار مجبور ہوتا ہے یا کسی پریشانی میں ہوتا ہے تو وہ خود ہی آکر عرضی پیش کر دیتا ہے کہ چند مہینوں کی مدّت دَرکار ہے،میں چھ یا سات مہینے میں قرض ادا کر دوں گا۔اِس موقع پر بھی بعض قرض خواہ اُس کی مجبوری کو نہیں سمجھتے اور اسے کہنے لگ جاتے ہیں کہ ’’ اتنی مدّت گزر گئی ہے تم نے ابھی تک قرض کی رَقم ادا نہیں کی،ہمیں تو لگتا ہے کہ تم نے وہ رَقم کھا لی ہے۔‘‘اِس طرح وہ سامنے والے پر مَعاذَ اللہ تہمت لگا دیتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ کیا پتا وہ واقعی فی الحال مجبور ہو، ایسے لوگوں کو توبہ کرنی چاہیے۔ہاں اگر قرض لینے والا شخص یہ کہہ دیتا ہے کہ ’’جاؤ میں قرض کی رَقم ادا نہیں کر رہا ‘‘ تو یہ الگ بات ہے۔بہرحال اپنا حق وصول کرنے کے لیے جائز ذَرائع اِستعمال کیے جا سکتے ہیں۔
بعض لوگ مُعاشرے میں ایسے بھی ہیں کہ قرضدار کی طرف سے قرض کی اَدائیگی میں ذرا سی تاخیر ہو جائے تو مقروض پر مسلط ہو جاتے ہیں کہ ابھی تک قرض ادا کیوں نہیں کیا؟ جب قرض خواہ بار بار ایسا کرتے ہیں تو مقروض بھی غصے میں کہہ دیتا ہے کہ ’’جاؤ نہیں دے رہا۔‘‘ جب سامنے والا کہہ رہا ہے کہ قرض ادا کر دے گا تو قرض خواہ کو بھی چاہیے کہ اسے مزید مہلت دے دے۔ ہمارے مُعاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جن پر لوگوں کا قرض ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہر سال اپنی شان کے مُطابق قربانی کر رہے ہوتے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے جب دعوتِ اسلامی کا وجود نہیں تھا۔ ایک بزرگ جو کافی امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،وہ دِل کھول کر عیدُالاضحیٰ کے دِنوں میں قربانی کیا کرتے تھے،اُن کا ایک بیٹا تھا جسے دِینی مَسائل سے شَغف تھا ، وہ کچھ نہ کچھ فقہی مَسائل سیکھتا رہتا تھا،اُس سے میری کافی اچھی دوستی بھی تھی،ایک دِن وہ مجھ سے کہنے لگا کہ ’’ ہم پر قربانی واجب نہیں ہوتی کیونکہ ہم پر قرض بہت زیادہ ہے اور محلے میں ہمارا ایک مقام ہے،اگر ہم قربانی نہیں کریں گے تو لوگ ہمیں کنجوس کہیں گے۔‘‘