اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ مضمون ”فیضانِ سنّت“جلداول ، صفحہ 243 تا 264 سے لیا گیا ہے ۔
روٹی کا اِحْتِرام
دعائے عطار: یارَبَّ المصطفٰے!جوکوئی 17صفحات کا رسالہ ’’ روٹی کا اِحْتِرام ‘‘پڑھ یا سُن لے، اُسےبَرَکت والی حلال و آسان روزی عطا فرما اوراُس سے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے راضی ہوجا۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : بروزِ قیامت لوگوں میں سے میرے قریب تَر وہ ہو گا جس نے دُنیا میں مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک پڑھے ہوں گے۔
(ترمذی، 2/27، حدیث: 484)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اگر مختلف قسم کے کھانے مثلاً زَردہ، پُلاؤ اور اَچار وغيرہ ایک ہی تھال میں ہوں تو اِس صورت میں دوسری جانِب سے لینے کی بھی اجازت ہے چنانچہ
حضرت عِکْراش رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے پیارے رسول، رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں ایک برتن پیش کیا گیا جس میں بہت سا ثَرِید تھا۔ہم اس میں سے کھانے لگے پس میں اپنا ہاتھ اس کے کَناروں میں اِدھر اُدھر چلانے لگا تو سرکارِ عالی وقار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ” اے عِکْراش! ایک ہی جگہ سے کھاؤ کیونکہ یہ ایک ہی (طرح کا)کھانا ہے۔“پھر ہمارے پاس ایک طبق لایا گیا جس میں کئی اَقْسام کی تازہ کھجوریں تھیں۔حضور سراپا نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہاتھ مُبارَک برتن میں ہر طرف تشریف لے جانے لگا اور اِرشاد فرمایا: ”اے عِکْراش!جہاں سے چاہو کھاؤ کیونکہ یہ (کھجوریں) مختلف اَقسَام کی ہیں۔“
(ابن ماجہ، 4/15، حدیث: 3274)
حضرت عبدُ اللہ ابن عبّاس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ نبیِّ آخِرُ الزَّماں ، سرورِ ذی شاں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انگھوٹھے اور شہادت کی اُنگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ” ان دو اُنگلیوں سے مت کھاؤ (بلکہ ان کے ساتھ بیچ والی مِلا کر )تین اُنگلیوں سے کھاؤ کہ یہ سُنَّت ہے اور پانچ سے مت کھاؤ کہ یہ گنواروں کا طریقہ ہے۔“
(کنز العمال، 15/115، حدیث: 40872)
حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالَم، نُورِ مُجسَّم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مُعظَّم ہے: ”ایک اُنگلی سے کھانا شیطان کا اور دواُنگلیوں سے کھانا مُتَکبِّرین (یعنی مغرورلوگوں ) کا اور تین اُنگلیوں سے کھانا اَنبِیا (علیہم السّلام)کا طریقہ ہے۔
(جامع صغیر، ص 184، حدیث: 3074)
سرکارِ مدینہ ،راحتِ قلب وسینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بعض اوقات چار مبارَک انگلیوں سے بھی کھانا تناوُل فرماتے تھے۔
(جامع الصغیر، ص 250، حدیث: 6942 ملخصا)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!تین اُنگلیوں سے کھانے سے نِوالہ چھوٹا بنے گا ، چھوٹا نِوالہ چَبانا آسان رہے گا۔ جتنا بہتر طریقے پر چبائیں گے اُتنا ہی منہ سے نکلنے والا ہاضِم لُعاب اُس میں شامل ہوگا اور اِس طرح کھانا جلدی ہَضْم ہو گا ۔
حضرت علامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:”پانچ اُنگلیوں سے کھانا حَریصوں کی علامت ہے۔“
(مرقات المفاتیح، 8/9، تحت الحدیث: 4164)
روٹی تین اُنگلیوں سے کھانا زیادہ دُشوار بھی نہیں فَقَط تھوڑی توجُّہ کی ضَرورت ہے۔ البتہ چاول تین اُنگلیوں سے کھانا تھوڑا سا دُشوار ہو تا ہے مگر دینی ذِہن رکھنے والے عاشقانِ سنّت کیلئے یہ بھی کوئی مشکل بات نہیں یقیناً سنّت ہی میں عظمت ہے۔ بڑے نوالوں کی حِرْص میں پانچ اُنگلیوں سے کھانے کے بجائے تَرْبِیَت کی خاطر سیدھے ہاتھ کی بِنصَر(چُھنگلیا کے برابر والی اُنگلی)کو خَمْ کر کے اس میں ربڑ بینڈ پہن لیجئے یا روٹی کا ایک ٹکڑا چھوٹی انگلی اور بِنصَر سے ہتھیلی کی طرف دبائے رکھئے۔اگر جذبہ صادِق ہوا تو اِن شا ءَ اللہ تین انگلیوں سے کھانے کی عادت بن جائے گی۔ جب تین اُنگلیوں سے کھانے کی عادت ہو جائے تو اب ربڑ بینڈ اور روٹی کا ٹکڑا ہتھیلی کی طرف دبانے کی حاجت نہیں۔ اگر چاول کے دانے جُدا جُدا ہوں اور تین اُنگلیوں میں اُن کا نوالہ بن ہی نہ پاتا ہو تو اب چار یا پانچ اُنگلیوں سے کھا لیجئے ۔ مگر یہ اِحتِیاط ضروری ہے کہ ہتھیلیاں آلودہ نہ ہوں بلکہ اُنگلیاں بھی جڑ تک آلود نہ ہوں۔
چُھری کانٹوں اور چَمْچوں کے ساتھ کھانا خلافِ سُنَّت ہے ۔ہمارے اَسلاف چمچے کے ساتھ کھانے سے پرہیز کرتے تھے کیونکہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے تین انگلیوں کے ساتھ کھانا ثابت ہے۔حضرت امام ابراہیم باجُورِی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک بار عبّاسی خلیفہ مامونُ الرَّشيد کے سامنے چمچوں کے ساتھ کھانا پیش کیا گیا، اُ س وقت کے قاضِیُّ الْقُضَاۃ حضرت امام ابو یوسف رحمۃُ اللہِ علیہ نے کہا:” اللہ پاک پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 70 میں ارشاد فرماتا ہے: ( وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ ) ترجمۂ کنز الایمان: اور بے شک ہم نے اولادِ آدم کو عزّت دی۔
(پ 15، بنی اسرائیل :70)
اے خلیفہ !اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں آپ کے دادا جان حضرت عبدُ اللہ ابنِ عبّاس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: ” ہم نے اُن کے لئے اُنگلیاں بنائیں جن سے وہ کھانا کھاتے ہیں “ تو اُس نے ان چمچوں کو ترک کر کے اُنگلیوں سے کھایا۔
(المواہب اللدنیہ للباجوری، ص 114)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اگر غِذا ہی ایسی ہے مثلاً ”فِرنی“ یا ”رَقِیْق (یعنی پتلی ) دَہی وغیرہ کہ اُنگلیوں سے کھائی نہیں جاسکتی اور پی بھی نہیں سکتے یا ہاتھ میں زخم ہے یا ہاتھ مَیلے ہیں اور دھونے کیلئے پانی مُیَسَّر نہیں۔ تو پھر ضرورَتاً چمچےکی اِجازَت ہے۔ اسی طرح گوشت کا پکا ہوا بڑا ٹکڑا یا ران وغیرہ کو چُھری سے کاٹ کر کھانے کی بھی اجازت ہے ۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! کھانے کی سنتیں اپنی زندگی میں نافذ کرنے کیلئے مدنی قافلے میں سفر کو اپنا معمول بنا لیجئے۔ مُعاشرے کے کئی بگڑے ہوئے افراد دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلے میں سفر کی بَرَکت سے الحمدُلِلّٰہ راہِ را ست پر آ چکے ہیں۔ چنانچہ مَتھرا (ہند) کے ایک اسلامی بھائی دینی ماحول میں آنے سے پہلے ایک ماڈَرن نوجوان تھے، فلمیں ڈِرامے دیکھنا
اُن کا مشغلہ تھا ، اُنہوں نے مکتبۃُ المدینہ سے جاری ہونے والے بیان کی کیسٹ” T.V کی تباہ کاریاں“ سننے کا شرف حاصل کیا جس نے اُن کی کایا پلٹ دی اور وہ دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے منسلک ہو گئے۔(ایک بار) اُنہیں APENDIX کی بیماری ہو گئی اور ڈاکٹر نے آپریشن کا مشورہ دیا۔ وہ گھبرا گئے،ایسے میں دعوتِ اسلامی کے ایک مُبلّغ کی انفرادی کوشش کے نتیجے میں زندگی میں پہلی بار عاشقانِ رسول کے ساتھ دعوتِ اسلامی کے سنتیں سیکھنے سکھانے کے تین کے مدنی قافلے کے مسافر بن گئے۔ الحمدُلِلّٰہ مدنی قافلے کی بَرَکت سے بِغیر آپریشن کے اُن کا مرض جاتا رہا۔ الحمدُلِلّٰہ اُن کے جذبے کو مدینے کے 12 چاند لگ گئے، اب وہ ہر ماہ تین دن کے مدنی قافلے میں سفر کی سعادَت حاصل کرتے ، ہر ماہ ” 72 نیک اعمال “ کا رسالہ جمع کرواتے اور مسلمانوں کو نمازِ فجر کیلئے جگانے کی خاطِر گھوم پھر کر صدائے مدینہ لگاتے ہیں ۔
بے عمل باعمل بنتے ہیں سَر بَسر تُو بھی اے بھائی کر قافِلے میں سفر
اچھی صحبت سے ٹھنڈا ہو تیرا جگر کاش! کر لے اگر قافِلے میں سفر
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد