اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا حَبِیْبَ اللہ
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا نَبِیَّ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا نُوْرَ اللہ
یاربَّ المصطفیٰ! جو کوئی 42صفحات کا رسالہ ’’سب سے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ‘‘ پڑھ یا سن لے اُس کو بے حساب بخش کر جنت الفردوس میں اپنے سب سے آخری نبی، مکی مدنی، محمدِعربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پڑوسی بنا۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
فرمانِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :اے لوگو ! بے شک بروزِ قِیامت اس کی دَہشتوں اور حساب کتاب سے جلدنجات پانے والا شخص وہ ہوگاجس نے تم میں سے مجھ پر دنیا کے اندر بکثرت دُرُودشریف پڑھے ہوںگے ۔
(اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطابج۵ص۲۷۷حدیث۸۱۷۵)
اللہ پاک کے پیارے پیارے سب سے آخری نبی ،مکی مَدَنی ،محمّدِ عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرشادفرمایا: جبریل نے حاضر ہو کر مجھے یوں سلام کیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاظَاھِرُُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابَاطِنُ،میں نے کہا: اے جبریل! یہ صفات تو اللہ پاک کی ہیں کہ اُسی کو لائق ہیں مجھ سی مخلوق کی کیونکر ہوسکتی ہیں؟ جبریل نے عرض کی: اللہ پاک نے آپ کو ان صفات سے فضیلت دی اور تمام انبیا ء و مرسَلین ( عَلَیْہِمُ السَّلَام ) پر ان سے خصوصیت بخشی اور اپنے نام و وَ صف (یعنی صفت و خوبی) سے آپ کا نام ووَصف نکالا ہے۔ اللہ پاک نے آپ کا نام ’’اَوَّل‘‘ رکھا کیونکہ آپ سب انبیائے کرام سے پیدائش کے ا عتبار سے اَوَّل یعنی پہلے ہیں اورآپ کا نام ’’آخِر‘‘ رکھا کیونکہ آپ سب انبیائے کرا م کے زمانے سے آخِر میں تشریف لانے والے اورآپ آخِری اُمت کے آخِری نبی ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کا نام ’’باطِن‘‘ رکھا کیونکہ اللہ پاک نے اپنے نام کے ساتھ آپ کا نام سنہرے نورسے عرش کے پائے پرحضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لکھاپھر مجھے آپ پر دُرُود شریف بھیجنے کا حکم دیاتو میں نے آپ پر ہزار سال دُرود اور ہزار سال سلام بھیجا یہاں تک کہ اللہ کریم نے آپ کوخو ش خبری اور ڈرسناتا اور اللہ کی طرف اُس کے حکم سے بُلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا اور اللہ پاک نے آپ کا نام ’’ظاھِر‘‘ رکھا کہ اُس نے آپ کو تمام دینوں پرغلبہ (SUPREMACY) عطافرمایااورآپ کی شریعت و فضیلت کو تمام زمین و آسمان والوں پر ظاہر کیا تو کوئی ایسا نہ رہا جس نے آپ پر دُرُود نہ بھیجاہو، اللہ پاک آپ پر دُرود(یعنی رَحمت) بھیجے۔ پس آپ کا رَب محمود(یعنی تعریف کیا گیا) ہے اور آپ ’’محمد‘‘ (یعنی تعریف کئے گئے ہیں)، آپ کا رَب ’’اَوّل وآخِر ،ظاہر وباطن‘‘ ہے اورآپ بھی (اپنے ربّ کی عطا سے) ’’اَوّل و آخر، ظاہر و باطن‘‘ ہیں۔ (یہ سُن کر) میں نے کہا: تمام تعریفیں اُسی کے لیے ہیں جس نے مجھے تمام انبیائے کرام( عَلَیْہِمُ السَّلَام )پرفضیلت عطافرمائی یہاں تک کہ میرے نام و صفت میں(بھی سب پر فضیلت دی)۔
(شرح الشفاء للقاری ج۱ص۵۱۵، فتاوٰی رضویہ ج۱۵ص۶۶۳ سے خلاصہ)
اے عاشقانِ آخِری نبی! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ پاک کا ہم گناہ گاروں پر بڑا فضل و احسان ہے کہ اُس نے ہمیں اپنے پیارے پیارے سب سے آخری نبی، مکی مَدَنی، محمدِ عربی صَلَّی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اُمّتی بنایا۔ اَلْحَمْدُ للہ ہمارے پیارے پیار ے آقا،مکے مدینے والے مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سارے رسولوں اور نبیوں سے افضل ہیں اور اللہ کی رحمت سے آ پ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے میں آپ کی اُمت پچھلی تمام اُمتوں سے بہتر ہے ۔
سارے رسولوںسے تم بَر تَر،تم سارے نبیوں کے سرور
سب سے بہتر اُمّت والے، صلّی اللّٰہُ علیکَ وسلَّم
(سامانِ بخشش ص ۹۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
اے عاشقانِ رسول! محمّدٌ رَّسولُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ پاک کا سب سے آخری نبی ماننا ضروریاتِ دین میں سے ہے، جو اِس کا اِنکار کرے یا اِس میں ذرّہ برابر بھی شک کرے وہ اسلام سے خارِج ، کافر و مرتد ہے ۔ اللہ پاک پارہ 22 سُوْرَۃُ الْاَحْزَاب آیت 40 میں اِرشاد فرماتا ہے:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)
آسان ترجَمۂ قرآن کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔
شرحِ آیت
حضرت علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ’’خزائن العرفان‘‘ میں آیت کے اِس حصے ’’ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یعنی محمد ِ مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آخری نبی ہیں کہ اب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اور نُبُوَّت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نُبُوَّت کے بعد کسی کو نُبُوَّت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نُبُوَّت پہلے پا چکے ہیں مگر نُزول کے بعد شریعتِ محمّدیہ پر عامل(یعنی عمل کرنے والے)ہوں گے اور اِسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے قبلے یعنی کعبے شریف کی طرف نماز پڑھیں گے،(یاد رہے ! ) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا آخِری نبی ہونا قطعی(یعنی یقینی) ہے ( اور یہ قطعیت (یعنی یقینی ہونا) قرآن و حدیث سے ثابت ہے )، قرآنِ مجید کی صریح (یعنی صاف)آیت بھی موجود ہے اور اَحادیث تَواتُر۱؎ کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں۔ جو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔ (خزائن العرفان ص ۷۶۳، صراط الجنان ج ۸ ص ۴۷ ملتقطاً وملخصاً )
الحاج مفتی ا حمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ’’خاتَم‘‘ ختم سے مُشتَق (یعنی نکلا) ہے، اور ختم کے معنیٰ مُہر (SEAL) اور آخِری کے ہیں، بلکہ مُہر کو بھی خاتَم اِسی واسطے کہتے ہیں کہ وہ مضمون کے آخر میں لگائی جاتی ہے یا یہ کہ جب کسی تھیلے پر مُہر (SEAL) لگ گئی تو اَب کوئی چیز باہر کی اَندراوراَندر کی باہرنہیں جاسکتی ،اِسی طرح یہ آخِری مہر لگ چکی ، باغِ نُبُوَّت کا آخری پھول کھل چُکا،خود حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خاتم النبیین کے معنیٰ بیان فرمائے ہیں کہ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ یعنی میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ (شانِ حبیب الرحمن ص۱۷۱)
بعد آپ کے ہرگز نہ آئے گا نبی نیا
وَللہ!ایماں ہے مرا، اے آخری نبی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرت عبدُاللّٰہ بن عُمَر رَضِیَ اللہُ عَنْہُما سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی سُلَیْم کا ایک اَعرابی(یعنی عرب کے دیہات میں رہنے والا)نبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضِر ہوکرکہنے لگا:میں اُس وَقْت تک آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا،جب تک میری یہ ’’گوہ‘‘ آپ پر ایمان نہ لائے۔ یہ کہہ کر اُس نے گوہ (یعنی چھپکلی سے ملتے جلتے اس جانور) کو آپ کے سامنے ڈال دیا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے گوہ کو پُکارا تو اُس نے لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْک(یعنی میں حاضر ہوں اور فرماں برداری کے لیے تیار ہوں)اِ تنی بُلند آواز سے کہا کہ تمام حاضرین نے سُن لیا۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پو چھا:تیرا معبود(یعنی عبادت کے لائق) کون ہے؟ گوہ نے جواب دیا: میرا معبود وہ ہے کہ جس کا عرش آسمان میں ہے اور اُسی کی بادشاہی زمین میں ہے، اُس کی رَحْمت جنت میں ہے اور اُس کا عذاب جہنّم میں ہے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا:اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بُلند آواز سے کہا: اَنْتَ رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، یعنی آپ اللّٰہ رَبُّ الْعٰلمین کے رسول اور آخِری نبی ہیں۔جس نے آپ کوسچّا ماناوہ کامیاب ہو گیااور جس نے آپ کو جُھٹلایا وہ نامُراد ہو گیا۔ یہ دیکھ کراَعرابی اِس قدر متأثر ہو ا کہ فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
(معجم اوسط ج۴ص۲۸۳حدیث۵۹۹۶ مختصراً)
اے بَلا!بے خردیِ کفّار، رکھتے ہیں ایسے کے حق میں اِنکار
کہ گواہی ہو گر اُس کو دَرکار، بے زباں بول اُٹھا کرتے ہیں
(حدائق ِ بخشش)
الفاظ ومعانی: بلا:مصیبت۔بے خردی:بے وُقوفی۔دَرکار:چاہئے۔
شرحِ کلامِ رضا: اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی، مکی مدنی، محمدِ عَرَبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ ماننے والے کس قدر بے وُقوف و نادان ہیں، حالانکہ اگر ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سچے اور آخِری نبی ہونے کی گواہی دینا چاہیں تو بے زبان جانور وغیرہ بھی گواہی دینے کے لئے بول پڑتے ہیں۔
اے عاشِقانِ آخِری نبی ! عقیدۂختم ِنُبُوَّت سے مُراد یہ ماننا ہے کہ ہمارے پیارے پیارے آقا،مدینے والے مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب سے آخِری نبی ہیں۔ اللہ پاک نے حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات پر سلسلہ ٔ نُبُوَّت کو ختم فرما دیا ہے ۔ حضورِ پُر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی کے زمانے سے لے کرقِیامت تک کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا۔ حضرت عیسی عَلَیْہِ السَّلَام کے تشریف لانے سے عقیدۂ ختم ِ نُبُوَّت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ محمَّدِ عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ظہور کے بعد کسی کو نُبُوَّت نہ ملے گی، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پہلے کے نبی ہیں، آپ بحیثیت ِ نبی اپنی شریعت کی تبلیغ نہیں فرمائیں گے بلکہ اللہ پاک کے سب سے آخِری نبی، محمَّدِ عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت پر ہی عمل کرائیں گے۔ گویا آپ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے امتی ہونے کی حیثیت سے آئیں گے۔(تفسیرنسفی ص۹۴۳وغیرہ سے خلاصہ) یا درہے !کسی نبی کونُبُوَّت ملنے کے بعد اس سے نُبُوَّت زائل(یعنی ختم) نہ ہوگی بلکہ ہمیشہ کے لیے ان کی نُبُوَّت قائم رہتی ہے۔’’فتاوٰی رضویہ‘‘ جلد29 صفحہ110تا111پر ہے :’’حاشا! نہ کوئی رسول رسالت سے معزول (یعنی جُدا۔ بَرطرف )کیا جاتا ہے نہ سیّدنا عیسٰی عَلَيْهِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام رسالت سے معزول(یعنی علیحدہ) ہوں گے،نہ حضور کا امّتی ہونا رسالت کے خلاف۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ) عقیدۂ ختم نُبوت کاوُہی درجہ ہے جو عقیدۂ توحید کا ہے یعنی دونوں ہی ضروریاتِ دین سے ہیں۔ لہٰذا مسلمان کے لئے جس طرح اللہ پاک کو ایک ماننا ضروری ہے ایسے ہی اُس کے پیارے حبیب حضرتِ محمد ِمصَطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سب سے آخری نبی ماننا بھی ضروری ہے۔
حضرتِ امام ابو منصور ما تریدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ لکھتے ہیں: جوکوئی حُضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد نبی کے آنے کا دعویٰ کرے تواُس سے کوئی دلیل نہیں مانگی جائے گی بلکہ اُس( شخص کے عقیدے) کا انکار کیاجائے گا کیونکہ اللہ پاک کے پیارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرما چکے ہیں: لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (تاویلات اہلِ السنۃ ج۸ ص ۳۹۶)
’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘ صفحہ 134 سے عرض و ارشاد سنئے، عرض : (کیا) جھوٹے مُدَّعیِ نُبُوَّت (یعنی نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے) سے مُعْجِزَہ طلب کیا جاسکتا ہے ؟ ارشاد : اگر مُدَّعیِ نُبُوَّت(یعنی نبی ہونے کا دعویٰ کرنے والے) سے اِس خیال سے کہ اس کا عِجْز (یعنی ناکامی اور ہار) ظاہر ہو مُعْجِزَہ طلب کرے تو حرج نہیں، او راگر تحقیق کے لئے مُعْجِزَہ طلب کیا کہ یہ مُعْجِزَہ بھی دکھا سکتا ہے یا نہیں، تو فوراً کافر ہوگیا ۔ (فتاوٰی عالمگیر ی ج ۲ ص ۲۶۳ ماخوذاً )
لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ
میرے آقا اعلیٰ حضرت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: حدیثِ مُتَواتِر’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ یعنی ’’ میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘سے تمام امّتِ مرحومہ (یعنی وہ اُمّت جس پر اللہ پاک کی رحمت ہو) نے سَلَفاً وخَلفاً(یعنی اگَلوں پچھلوں سبھی نے)ہمیشہ یہی معنیٰ سمجھے کہ حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلاتخصیص(یعنی بغیر کسی کوخاص کیے ) تمام انبیا میں آخِری نبی ہوئے، حضور( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کے ساتھ یا حضور ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کے بعد قیامِ قیامت(یعنی قیامت قائم ہونے)تک کسی کو نُبُوَّت ملنی مُحال(یعنی ناممکن)ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ ص ۳۳۳ )
سب انبیا کے ہو تمہیں سردار لاجَرم(۱) (۱)لاجَرَم: یقینا
تم سا نہیں ہے دوسرا، اے آخری نبی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اِسلامی بھائیو! ایک انسان کیلئے سب سے قیمتی بلکہ اَنمول چیز اُس کا ایمان ہے، اللہ پاک کی رحمت سے جِسے ایما ن کی دولت حاصل ہے وہ مال کے اعتبار سے اگرچہ غریب ہومگر ایمان کی دولت سے محروم کروڑوں،اَربوں پتی شخص سے بھی بڑا مال دار ہے جبکہ دولت ِ اسلام سے محروم ما ل دار درحقیقت مفلس و نادار(یعنی غریب) ہے اور مَعَاذَ اللہ ثُمَّ مَعَاذَ اللہ اِسی حال (یعنی کفر کی حالت )میں مرنے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہے گا۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ ہمیشہ ایمان کی سلامَتی اورخاتمہ بالخیر کی بارگاہِ رب العزت میں دُعا کرتارہے۔اِس پُرفِتَن دَور میں جہاں نیک اعمال کرنے میں بے حد سستی آچکی ہے وہیں ایمان کی حفاظت کی فکر بھی بہت کم نظر آتی ہے، آئے دِن نئے نئے فتنے مختلف اَنداز سے مسلمانوں کے ایمان کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں،ایمان کی سلامَتی کی فکر نہایت ضروری ہے، چاہے ساری زندگی نیکیوں میں گزاری ہو، لیکن خداناخواستہ خاتمہ ایمان پر نہ ہوا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہنا ہوگا۔فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْم۔ یعنی ’’اعمال کا دارومَدار خاتمے پر ہے۔‘‘ (بُخاری ج۴ص۲۷۴حدیث۶۶۰۷)
عطّارؔ ہے ایماں کی حفاظت کا سُوالی
خالی نہیں جائے گا یہ دربار نبی سے
تشویش اور سخت تشویش کی بات یہ ہے کہ جس طرح دُنیوی دولت کی حفاظت کے مُعامَلے میں غفلت اُس کے ضائِع ہونے کاسبب بن جاتی ہے، اِس سے بھی زیادہ سخت مُعامَلہ ایمان کا ہے۔ ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ صفحہ495 پر ہے، عُلمائے کرام فر ماتے ہیں: ’’جس کو سَلْبِ ایمان (یعنی ایمان چھن جانے)کا خوف نہ ہو نَزع (یعنی موت ) کے وَقت اُس کا ایمان سَلب ہوجانے (یعنی چھن جانے)کا شدید خطرہ ہے۔‘‘
مسلماں ہے عطارؔ تیری عطا سے
ہو ایمان پر خاتمہ یاالٰہی
فرمانِ آخِری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ’’اُن فتنوں سے پہلے نیک اعمال کے سلسلے میں جلدی کرو!جو اندھیری رات کے حِصّوں کی طرح ہوں گے۔ایک آدَمی صبح کو مومِن ہو گا اور شام کو کافر ہوگااور شام کو مومِن ہوگااور صبح کو کافر ہوگا۔نیز اپنے دین کو دُنیاوی سازو سامان کے بد لے فروخت کر دے گا۔‘‘ (مُسلِم ص۶۹ حدیث ۳۱۳)
شرحِ حدیث
شارِحِ مسلم، حضرتِ امام شَرَفُ الد ّین نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اِس حدیث ِ پاک کی شَرْح میں فرماتے ہیں :اِس حدیث ِ پاک میں نیک اعمال جلدی جلدی کرنے پر اُبھارا گیا ہے ،اِس سے پہلے کہ بندہ وہ نیک کام نہ کرسکے اور اُن لگاتار فتنوں میں مشغول ہوجائے جو بہت زیادہ ہوجائیں گے جیسے سخت اندھیری رات میں اِس قدر اندھیرا چھا جائے کہ چاند بالکل نظر نہ آئے،حضورسرورِعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن سخت فتنوں کی ایک قسم (KIND) کو یہاں بیان فرمایاہے اوروہ اِس قد ر سخت ہوں گے کہ ایک ہی دِن میں انسان کادِل بدل جائے گا اوریہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔
(شرح مسلم للنووی ج۲ص۱۳۳)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!کس قَدَر بدنصیب ہے وہ شخص جوعارِضی (TEMPORAY) دُنیا کے فانی (یعنی ختم ہو جانے والے) عیش و راحت کیلئے مَعَاذَ اللہ اپنے ایمان کا سودا کردے، ایمان بیچ کر کُفر خرید لے اورجنت کے بجائے جہنم کو اپنا ٹھکانا بنالے۔ تمام عاشقانِ آخِری نبی کو چاہئے کہ وہ یہ مسنون دُعا: یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِیْنِکَ یعنی ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابِت قدم رکھ۔‘‘ ضرور مانگا کریں۔ اللہ کریم اپنے پیارے پیارے آخِری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ہمارا ایمان سلامت رکھے اورہمیں دینِ اسلام پر استِقامت(یعنی مضبوطی) عطافرمائے اور ہمیں ایمان و عافیت کے ساتھ سبز سبز گنبد کے سائے میں جلوۂ محبوب میں شہادت اورجنت البقیع میں مدفن اورجنّت الفردوس میں اپنے مَدَنی حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پڑوس نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
ہیں غُلام آپ کے جتنے، کرو دُور اُن سے فتنے
بُری موت سے بچانا، مدنی مدینے والے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
صحابی رسول حضرت نضلہ بن مُعاوِیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ 300 مہاجرین وانصار کے ساتھ حُلْوَانِ عراق سے مالِ غنیمت(یعنی غیر مسلموں سے لڑائی میں ہاتھ آنے والا مال) لارہے تھے کہ ایک پہاڑ کے قریب شام ہوئی توحضرت نضلہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اَذان دی، جب آپ نے اللہ اکبر اللہ اکبر کہا توپہاڑ سے ایک آواز آئی، کوئی کہہ رہا تھا : اے نَضْلہ! تم نے بہت بڑے عظمت والے کی بڑائی بیان کی!جب آپ نے اشھد ان لا الہ الا اللہ کہا، تو جواب آیا: اے نضلہ! تم نے خالص توحیدبیان کی، جب آپ نے اشھد ان محمد الرسول اللہ کہا تو آواز آئی: یہ ایسے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں، یہ ڈر سنانے والے ہیں، یہی ہیں جن کی خو ش خبری ہمیں حضرتِ عیسٰی بن مریم عَلَیْہِ السَّلَام نے دی تھی، انہی کی اُمَّت کے آخِر میں قِیامت قائم ہوگی۔ صحابیِ رسول حضرتِ نَضْلہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے جب حی علی الصلوۃ کہا توجواب آیا:نمازایک فرض ہے،خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اِس کی طرف چلے اور اِس کی پابندی رکھے۔ جب حی علی الفلاح کہا تو آواز آئی: مُراد کو پہنچا جو نماز کے لئے آیا اور اس پر ہمیشگی اختیارکی، مُراد کو پہنچا جس نے محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرماں برداری کی۔ جب آپ نے کہا: اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ۔ تو آواز آئی: اے نَضْلہ!تم نے پورا اِخلاص حاصل کرلیا تو اللہ پاک نے اِس کے سبب تمہارا جسم دوزخ پر حرام فرما دیا۔ حضرتِ نَضْلہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نماز کے بعد کھڑے ہوئے اور اِرشادفرمایا:اے خو ب صورت اَنداز میں بات کرنے والے! ہم نے تمہاری بات سُنی، تم فرشتے ہو یا جنّ یا رجال الغیب(یعنی نظروں سے پوشیدہ انسان )؟ ہمارے سامنے ظاہر ہو کر ہم سے بات کرو کہ ہم اللہ پاک اور اس کے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرتِ عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے سفیر (REPRESENTATIVE)ہیں۔یہ کہنا تھاکہ پہاڑ سے روشن چہرے اور سفید داڑھی والے ایک بوڑھے بزرگ ظاہرہوئے جنہوں نے سفیداُون کی ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی، آتے ہی اُنہوں نے سلام کیا:اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکٰتُہٗ،وہاں موجود حاضِرین نے جواب دیا،حضرتِ نضلہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اِرشادفرمایا: اللہ پاک آپ پر رحم کرے آپ کون ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا: میں زُرَیْب بن ثَرْمَلَا ہوں۔ اللہ پاک کے نبی حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے مجھے اِس پہاڑ میں ٹھہرایا تھا اورآسمانوں سے اپنے دوبارہ تشریف لانے تک میرے زندہ رہنے کی دُعا کی تھی، (ایک اورروایت میں ہے کہ) پھر اُنہوں نے پوچھا: رَسُول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کہا ں ہیں؟حضرتِ نَضْلہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا: وہ پردہ فرماگئے (یعنی اُن کا انتقال شریف ہوگیا ہے)۔ اِس پر وہ بزرگ بہت زیادہ روئے، پھر کہا: اُن کے بعد کون(خلیفہ)ہوئے؟ فرمایا:(حضرتِ) ابو بکر (صدِّیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ) ۔ پوچھا: وہ کہاں ہیں؟ فرمایا: (اُن کا بھی )انتِقال ہوگیاہے۔ کہا :پھر کون خلیفہ ہوئے؟ فرمایا: (حضرتِ) عمر ( رَضِیَ اللہُ عَنْہُ )۔ کہا: ’’امیر المؤمنین حضرتِ عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کومیرا سلام عرض کریں اوریہ بھی عرض کیجئے گا کہ اے عمر!حکومت کو سیدھی رکھئے، لوگوں کے قریب رہئے، قیامت قریب آگئی ہے اور اے عمر!جب یہ باتیں اُمتِ محمّدیہ میں پیدا ہوجائیں تو پھر دُنیا سے چلے جانے(یعنی موت) ہی میں عافیت ہے(اُن میں سے چند یہ ہیں:) (1)جب لوگ اپنا نَسَب بدلنے (یعنی خاندانی سلسلہ مثلاً نہ ہونے کے باوُجُود خود کوسیّد،صدّیقی،علوی وغیرہ کہنے) لگیں (2)چھوٹوں پر بڑے شفقت نہ کریں(3)نیکی کا حکم نہ دیں اور بُرائی سے منع نہ کریں(4)مال و دنیا کمانے کی خاطر(دینی)علم حاصل کریں (5)بارِ شیں بکثرت ہوں (6)اولاد وَبالِ جا ن بن جائے (7)مسجدوں کو خوب صورت بنانے لگیں، مگر وہ نمازیوں سے خالی ہوں (8)رِشوت عام ہوجائے(9)مضبوط عمارتیں بننے لگیں(10)خواہِشات کی پیروی کرنے لگیں (11)دُنیا کے بدلے دین بیچنے لگیں(12)رشتے داروں سے رِشتہ توڑنا عام ہونے لگے(13)سُود پھیل جائے اور (14)ما ل دارہونا ہی عزت کا سبب بن جائے۔ جب یہ ساری باتیں عام ہونے لگیں تو پھر بھاگ کر کسی پہاڑ کے غار میں چُھپ جانا اور وہیں پر خدا کی یاد میں مصروف ہوجانے ہی میں عافیت (یعنی سلامَتی) ہوگی۔‘‘یہ کہہ کر وہ بزرگ غائب ہوگئے۔
حضرتِ نَضْلہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے یہ واقِعہ صحابیِ رسول حضرت ِسعد بن ابی وَقّاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو تفصیل سے لکھ کر بھیج دیا اور اُنہوں نے امیرالمؤ منین حضرت ِ عمرفاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی طرف لکھا۔ جواب میں حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضرت سعد بن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو حکم دیا کہ وہ اپنے ساتھ مہاجرین و انصار صحابۂ کرام کو لے کر اُس پہاڑ پر تشریف لے جائیں اور اگر وہ بزرگ دوبارہ ملیں تو اُن سے میرا سلام کہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ چار ہزارمہاجِرین و انصار صحابۂ کرام کو ساتھ لے کر اُس پہاڑ پر پہنچے اور 40دن تک مسلسل اَذان دیتے رہے مگر کوئی آواز یاجواب نہ آیا۔(تاریخ بغداد ج۱۰ص۲۵۴، دلائل النبوۃ للبیہقی ج۵ ص۴۲۵تا۴۲۷، فتاوٰی رضویہ ج۱۵ص۶۹۱ملخّصاً)
اللہ پاک کی ان سب پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
سب صحابہ کا ہے یہ عقیدہ اَٹل
ہیں یہ خیرُ الورٰی خاتَمُ الانبیا
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! عقیدۂ ختم نبوت پر استِقامت (یعنی مضبوطی ) پانے اورسلامَتیِ ایمان کی اہمیّت کاذہن بنانے کے لئے عاشِقانِ رسول کی دینی تحریک، ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے پیارے پیارے دینی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے۔اِنْ شَآءَاللہ ایسی برکتیں نصیب ہوں گی کہ زندگی کے ساتھ ساتھ موت بھی قابلِ رشک ہوگی، آپ کا ذوق و شوق بڑھانے کے لئے ایک مدنی بہار پیشِ خدمت ہے:سگِ مدینہ عُفی عنہ کے پاس ایک اسلامی بھائی بنام محمد وسیم عطّاری آیا کرتے تھے۔ بے چارے کے الٹے ہاتھ میں کینسر ہوگیا اور ڈاکٹروں نے وہ ہا تھ کاٹ ڈالا ۔اُن کے عَلاقے کے ایک اسلامی بھائی نے سگِ مدینہ کوبتایاکہ وسیم بھائی شدّتِ درد کے سبب سخْت تکلیف میں ہیں ۔میں عِیادت کیلئے اسپتال پہنچااور تسلی دیتے ہوئے کچھ اس طرح کہا:الٹا ہاتھ(LEFT HAND) کٹ گیا اِس کا غم مت کرو، اَلْحَمْدُلِلّٰہ سیدھا ہاتھ(RIGHT HAND) تو محفوظ ہے اور سب سے بڑی سعادت یہ کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ’’ایمان‘‘ بھی سلامت ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ میں نے انہیں بڑا صبر کرنے والا پایا ، صرف مسکراتے رہے یہاں تک کہ بستر سے اُٹھ کر مجھے باہَر تک چھوڑنے آئے ۔ آہستہ آہستہ ہاتھ کی تکلیف توختم ہوگئی مگر بے چارے کا دوسرا امتحان شروع ہوگیا اور وہ یہ کہ سینے میں پانی بھر گیا ، سخت تکلیف میں دِن کٹنے لگے ۔آخِر ایک دِن تکلیف بہت بڑھ گئی ، ذکرُاللّٰہ شروع کردیا، اللہ ، اللہ کی آواز سے کمرہ گونجتا رہا ، طبیعت بہت زِیادہ تشویش ناک ہوگئی تھی، ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی کوشِش کی گئی مگر انکار کردیا، دادی جان نے (اُن کا سر) محبت و شفقت سے گود میں لے لیا، زَبان پر کَلِمۂ طیّبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جاری ہوا اور تقریباً 22 سالہ محمد وسیم عطاری فوت ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ جب مرحوم کو غُسل کیلئے لے جانے لگے تو اچانک چادر چہرے سے ہٹ گئی، مرحوم کا چہرہ گلاب کے پھول کی طرح کھلا ہواتھا ، غسل کے بعد چہرہ کی بہار میں مزید نِکھار آگیا ۔تدفین کے بعد عاشِقانِ رسول نعتیں پڑھ رہے تھے ، قَبْر سے خوشبوؤں کی لَپٹیں آنے لگیں مگر جس نے سونگھی اُس نے سونگھی۔ گھر کے کسی فرد نے انتقال کے بعد خواب میں مرحوم محمد وسیم عطّاری کو پھولوں سے سجے ہوئے کمر ے میں دیکھا ، پوچھا: کہاں رہتے ہو؟ ہاتھ سے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ میرا مکان ہے، یہاں میں بَہُت خوش ہوں ۔پھر ایک سجے ہوئے بستر پر لیٹ گئے ۔ مرحوم کے ابوجان نے خواب میں اپنے آپ کو وسیم عطّاری کی قَبْر کے پاس پایا، یکایک قَبْرکھلی اور مرحوم سر پر عمامہ سجائے ہوئے سفید کفن پہنے باہَر آئے، کچھ بات چیت کی اور پھر قَبْر میں داخِل ہوگئے اورقَبْر دوبارہ بند ہوگئی۔ اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
تو نے اِسلام دیا تو نے جماعت میں لیا
تو کریم اَب کوئی پِھرتا ہے عطیہ تیرا
الفاظ و معانی: پھرتا ہے: واپس ہوتا ہے۔ عطیہ: انعام۔
شرحِ کلامِ رضا: یارَسُولَ اللہ! آپ نے بصورتِ اسلام ہمیں اِنعام سے نوازا، اپنی اُمّت میں شامل فرمایا، آپ کرم فرمانے والے ہیں ، کیا آپ دینِ اسلام کا اِنعام دینے کے بعد اسے واپَس بھی لے سکتے ہیں ؟ (ہرگز نہیں)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حدیثِ متواتر:ایسی حدیث جس کے روایت کرنے والےہر زمانے میں اتنے کثیر ہوں کے اُن کا جھوٹ (یعنی خلافِ واقعہ بات) پر اتفاق کرلینا عادتا محال (یعنی ناممکن)ہو۔