بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر درود و سلام پڑھنے کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا اور احادیث طیبہ بھی اس موضوع پر کثیر ہیں۔ اس کے علاوہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور فرشتوں پر درود بھیجا جاتا ہے۔ ان ہستیوں کے علاوہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آل ِ پاک، اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم پر درود پڑھنا خود درودِ ابراہیمی سے ثابت ہے ، جو ہر مسلمان ہر نماز میں پڑھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر بزرگانِ دین پر بھی درود و سلام پڑھنا، لکھنا، بھیجنا قرآن و حدیث اور بزرگانِ دین کے عمل سے ثابت ہے یا نہیں؟ نیز درود میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنے کے متعلق سلف صالحین کا طریقہ کار کیا تھا ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃوالسلام کے بعدصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین انسانوں میں سب سے افضل ہستیاں ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کئی اقسام ہیں :جیسے خلفائے اربعہ، عشرہ مبشرہ، اصحابِ بدر، اصحابِ اُحد، اصحابِ بیعت ِ رضوان، اہل ِ بیت، وغیرہ رضی اللہ عنہم ۔ ان میں کئی اقسام ایک دوسرے میں داخل بھی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی افراد کی تعداد کے اعتبار سے ایک بڑی تقسیم تومہاجرین و انصار ہے اوردوسری تقسیم وہ ہے جو آیت میں بیان کی گئی یعنی فتح ِ مکہ سے پہلے والے اور بعد والے ۔
اس آخری تقسیم کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اِن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں درجہ بندی فرمادی کہ فتح مکہ سے پہلے والے، بعد والوں سے افضل ہیں۔یہ معاملہ افضیلت کا ہے ،لیکن جہاں تک بارگاہِ خداوندی میں ان کے مقبول اور جنتی ہونے کا معاملہ ہے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز(جنت) کا وعدہ فرمالیا ہے ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنتی اور خدا کے مقبول بندے ہیں۔ہر صحابی رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحابیت کی نسبت سے ہمارے لیے واجب ِ تعظیم ہے اورکسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کی گستاخی حرام اور گمراہی ہے۔ قرآن و حدیث عظمت ِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بیان سے معمور ہیں اور کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو بھی اس عظمت و شان سے خارج نہیں کیا جاسکتا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت کے بارے میں ارشاد فرمایا: ”بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اولین اوردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں الله ان سب سے راضی ہوا اور یہ الله سے راضی ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کررکھے ہیں،جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔“
اسی پاک گروہ کی ایمانی قوت ، قلبی کیفیت اور عملی حالت قرآن میں یوں بیان فرمائی گئی:’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ، آپس میں نرم دل ہیں ۔ تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے، سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا ،اللہ کا فضل و رضا چاہتے ہیں ، ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان سے ہے۔یہ ان کی صفت تورات میں (مذکور) ہے۔اور ان کی صفت انجیل میں (مذکور) ہے۔(ان کی صفت ایسے ہے )جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی باریک سی کونپل نکالی ،پھر اسے طاقت دی پھر وہ موٹی ہوگئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی ،کسانوں کو اچھی لگتی ہے (اللہ نے مسلمانوں کی یہ شان اس لیے بڑھائی )تاکہ ان سے کافروں کے دل جلائے۔اللہ نے ان میں سے ایمان والوں اور اچھے کام کرنے والوں سے بخشش اور بڑے ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔“
یہی متقین، صالحین، خاشعین، صدیقین کے سردار ہیں جن کے دلوں کی تطہیر اور نفوس کا تزکیہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے سب سے پہلے کیا اور بذاتِ خودکیا، جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
اور یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے معیار قرار دیتے ہوئےارشاد فرمایا:’’اگر وہ(غیر مسلم) بھی یونہی ایمان لے آئیں جیسا (اے صحابہ)تم ایمان لائے ہوجب تو وہ ہدایت پاگئے۔‘‘
اسی مبارک گروہ کی سب سے بڑی تعداد کا نام مہاجرین و انصار ہے،جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بالکل صراحت سے جنت و مغفرت و رزق کریم یعنی عزت والی روزی کامژدہ سناتے ہوئے فرمایا:’’اور وہ جو ایمان لائے اورمہاجر بنے اوراللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ، ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔“ ان ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاامت میں سب سے افضل اور فائق ہونانبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں واضح کیا :’’میرے اصحاب کو برا بھلا نہ کہو، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کے ایک مُد(ایک پیمانہ) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتااور نہ اس مد کے آدھے کو۔‘‘
ان ہی صحابہ سے محبت رکھنے،ان کی محبت کو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت اور ان سے بغض کو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے بغض قرار دیا اور ان کے متعلق دل و زبان سنبھالنے کا حکم دیا۔ حدیثِ پاک میں ہے :’’ میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنا لینا۔ پس جس شخص نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا ،تو اس نے میرے بغض کے سبب ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ایذا پہنچائی، تو اس نے ضرور مجھے ایذا پہنچائی ، اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی، تو ضرور اس نےاللہ پاک کو ایذا پہنچائی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا پہنچائی،تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے۔“ اوپر ذکر کردہ آیات و احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہے اور یہ خدا سے راضی ہیں۔ان کےلیے جنت کےباغات ہیں۔یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھی ہیں، کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں نرم دل،عبادت و رکوع و سجدہ کے شوقین، رضائے الٰہی کے طلب گار، نورانی چہروں والے، پاک دل،پاک سیرت،اصحاب ِ حکمت،معیاری ایمان والے،راہ ِ خدا میں جان، مال، گھربار قربان کرنے والے،مومنوں کے مددگار،سچے ایمان والے، خدا کی طرف سے مغفرت و رزق کریم کے مستحق، امت میں سب سے افضل،ان کی محبت، نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت، ان سے بغض ،نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بغض،انہیں تکلیف دینا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تکلیف دینا ہے۔ان کی تعظیم فرض، توہین حرام اور ان کے گستاخ، خدا کی گرفت کے شکار ہوں گے۔
:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر دُرود کا حکمدرود و سلام کے متعلق حکم ِ شرعی کی تفصیل یہ ہے کہ انبیاء اور فرشتوں علیہم السلام پراجتماعاً، انفراداً، استقلالاً، تبعا ہر طرح درود و سلام پڑھنا، بھیجنا مسلمات و قطعیات میں سے ہے، جیسے یوں لکھنا، کہنا، انبیائے کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام، ملائکہ کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام،حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام، جبکہ غیر انبیاء و ملائکہ میں معزز و مکرم و محترم ہستیوں کے حوالے سے حکم شرعی یہ ہے کہ ان سب پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی، رحمتیں اور برکتیں ہیں ، لیکن ان کے لیے مستقل درود و سلام یا صرف درود یا صرف سلام کا صیغہ استعمال کرناجمہور اہل سنت ، ائمہ اربعہ اوراکثر علمائے ملت کے نزدیک منع ہے، جبکہ احناف کی کثیر کتابوں میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔خواہ اجتماعاً ہو یا انفراداً۔
ہاں مستقل جداگانہ درود نہ ہو، بلکہ ضمنی اور تبعی طور پر ہو ،توتمام اہلسنت اور مذاہبِ اربعہ کے نزدیک بالکل جائز ہے، جیسے صحابہ کرام علی نبینا و علیھم الصلوٰۃ والسلام ، اہل بیت کرام علی نبینا و علیھم الصلوٰۃ والسلام، امت محمدیہ علی صاحبھا و علیھا الصلوٰۃ والسلام ، امت مسلمہ علی صاحبھا و علیھا الصلوٰۃ والسلام، حضرت ابوبکر صدیق علی سیدہ ونبیہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت عمر فاروق علی سیدہ ونبیہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت عثمان غنی علی سیدہ ونبیہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام ، حضرت علی علی سیدہ ونبیہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام ، حضرت فاطمہ علی ابیھا الکریم وعلیھا الصلوٰۃ والتسلیم، امام حسین علی جدہ الکریم وعلیہ الصلوٰۃ والتسلیم، غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی علی جدہ الکریم و علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔
اس حوالے سے امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:676ھ/1277ء) کا کلام بہت خوبصورت ہے، آپ لکھتے ہیں:’’ لا يصلى على غير الانبياء الا تبعا لأن الصلاة في لسان السلف مخصوصة بالأنبياء صلاة اللہ وسلامه عليهم كما أن قولنا عز و جل مخصوص بالله سبحانه وتعالى فكما لا يقال محمد عز و جل وان كان عزيزا جليلا لا يقال أبو بكر صلى اللہ عليه و سلم وان صح المعنى(الی ان قال) واتفقوا على أنه يجوز أن يجعل غير الانبياء تبعا لهم في ذلك فيقال اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وأزواجه وذريته وأتباعه لأن السلف لم يمنعوا منه وقد أمرنا به في التشهد وغيره‘‘ترجمہ :انبیائے کرام علیھم السلام کے علاوہ کسی اور پر صرف تبعاً ہی درود پڑھا جائے ، کیونکہ لفظ صلوٰۃ سلف صالحین کی اصطلاح میں انبیائے کرام کے ساتھ خاص ہے، جس طرح ہمارا ’’عزو جل‘‘ کہنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ،لہٰذا جس طرح ’’محمد عز وجل‘‘ نہیں کہا جا سکتا ، حالانکہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی عزیز و جلیل ہیں، اسی طرح ’’ابو بكر صلى الله علیہ و سلم‘‘ بھی نہیں کہا جا سکتا ، اگرچہ اس کا معنی صحیح بنتا ہے(یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر رحمت اور سلامتی ہو۔ (امام نووی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آگے جاکر فرمایا:) غیر انبیاء پر تبعاً درود پڑھنے کے جائز ہونے پر علماء کا اتفاق ہے،لہٰذا یوں پڑھا جائے” اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وأزواجه وذريته وأتباعه“کیونکہ سلف صالحین نے ہمیں اس سے منع نہیں کیا ، بلکہ ہمیں تو تشہد وغیرہ میں اس کا حکم ہے۔
دوسرے انداز سے یہ تفصیل یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف منسوب امت مسلمہ کے افراد پر تین طرح کے الفاظ بولے جاتے ہیں، (۱)اہل بیت اطہار، (۲)صحابہ کرام ، (۳) عام امت۔ اِن میں اہل بیتِ پر ضمنی اور تبعی طور پر درود بھیجنے پر تو کسی کا اختلاف نہیں کہ یہ درودِ ابراہیمی میں موجود ہے(اگرچہ وہاں بھی لفظِ آل کا دوسرا معنیٰ تمام امت اور تیسرا معنیٰ متقی لوگ ہیں) اور صحابہ کرام ، اولیاء و صالحین پر ضمنی درود بھیجنے کے حوالے سے بھی اہلسنت میں کوئی اختلاف نہیں اور سب اس قسم کے درود و سلام پر متفق ہیں۔
غیر انبیاء و ملائکہ علیہم السلام پر مستقل درود کیوں نہیں بھیجا جاسکتا؟
اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ زَیْلَعی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:743 ھ/ 1342ء) لکھتےہیں:’’(ولا يصلى على غير الأنبياء والملائكة إلا بطريق التبع) لأن في الصلاة من التعظيم ما ليس في غيرها من الدعوات، وهي لزيادة الرحمة والقرب من اللہ تعالى، ولا يليق ذلك بمن يتصور منه الخطايا والذنوب.وإنما يدعى له بالعفو والمغفرة والتجاوز إلا تبعا بأن يقول اللهم صل على محمد وآله وصحبه ونحوه لأن فيه تعظيم النبي‘‘ترجمہ : انبیاء اور فرشتوں کے علاوہ کسی اور پر تبعاً ہی درود پڑھا جائے ،کیونکہ درود میں جو تعظیم ہے وہ دیگر دعاؤں میں نہیں ہے،نیز یہ اللہ کی خاص رحمت اور قرب میں اضافے کے لیے ہے جو معصوم عن الخطاء الذنوب (خطاؤں اور گناہوں سے معصوم ذات) کے علاوہ کسی اور کے شایان شان نہیں اور غیر انبیاء و ملائکہ کے لئے محض بخشش و مغفرت کی دعا کی جا سکتی ہے، ہاں درود کے الفاظ تبعا ہوں تو جائز ہے، جیسے اللهم صل على محمد وآله وصحبه وغیرہ الفاظ کہے، کیونکہ اس میں در اصل نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہی تعظیم ہے۔
مستقل درود پر علمی ابحاث اور اقوالِ فقہاء:
اوپرحکم ِ شرعی کے بیان میں ہم نے لکھا ہے کہ غیر انبیاء و ملائکہ پر ضمنی اور تبعی طور پر درود بھیجنے کے جائز ہونے پر کسی کا اختلاف نہیں، بلکہ وہ بالاتفاق جائز ہے، خواہ وہ ضمنی درود و سلام اہل ِ بیت کرام پر بھیجا جائے یا صحابہ کرام یا اولیاء عظام پر، البتہ مستقل درود میں ہمارا راجح موقف عدمِ جواز کا ہے، لیکن اس میں بہرحال علماء کا اختلاف موجود ہے۔ یہاں اس کی کچھ تفصیل پیش کرتا ہوں۔
علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1270ھ/1853ء) لکھتےہیں:’’وأما الصلوٰۃعلی غیر الأنبیاء والملائکۃ علیھم السلام فقد اضطربت فیھا أقوال العلماء ‘‘ ترجمہ:غیر انبیاء و ملائکہ پر درود پڑھنےکے متعلق علمائےکرام کے اقوال میں کافی اختلاف ہے۔
اس کے بعد آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :’’فقیل تجوز مطلقاً قال القاضی عیاض وعلیہ عامۃ أھل العلم واستدل لہ بقولہ تعالی ( ہُوَ الذِی یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلَئِکَتُہُ ) وبما صح فی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم صل علی آل أبی أوفی وقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام وقد رفع یدیہ اللھم اجعل صلواتک ورحمتک علی آل سعد بن عبادۃ “ترجمہ: کہا گیا کہ غیر انبیاء و ملائکہ علیہم السلام پر درود بھیجنا مطلقاً جائز ہے۔قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا : اکثر اہل علم جواز کے قائل ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ( جس میں ارشاد ہوتا ہے)’’اللہ اور اس کے فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں۔‘‘اسی طرح حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اے اللہ ! درود بھیج آل ابی اوفی پر ۔دوسری حدیث پاک میں ہے، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہاتھ اُٹھائے اور دعا کی: اے اللہ ! اپنی رحمت و بخشش آل سعد بن عبادہ پر کردے۔
لیکن ائمہ دین اور علمائے امت کی اکثریت نے غیر انبیاء و ملائکہ پر مستقل درود سے منع کیا، بعض نے مکروہ تنزیہی اور بعض نے خلاف اولیٰ کہا ہے، چنانچہ شارِح بخاری، علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:’’قال أبو حنیفۃ وأصحابہ ومالک و الشافعی والأکثرون إنہ لا یصلی علی غیر الأنبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام استقلالا فلا یقال اللھم صل علی آل أبی بکر ولا علی آل عمر أو غیرھما ولکن یصلی علیھم تبعا‘‘ ترجمہ:امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام مالک ،امام شافعی اور اکثر ائمہ و علماء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم نے فرمایا کہ غیرانبیاء پر استقلالاً درود نہ پڑھا جائے ۔یوں نہ کہا جائے کہ اے اللہ ! درود بھیج آل ابوبکرپر یا آل عمریا فلاں فلاں پر، بلکہ تبعاً درود بھیجے۔
”روح المعانی“ میں ہے:’’وفی روایۃ عن أحمد کراھۃ ذلک استقلالاً ومذھب الشافعیۃ أنہ خلاف الأولی ‘‘ ترجمہ:امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے بھی ایک روایت یہی ہے کہ غیر انبیاء و ملائکہ علیہم السلام پر استقلالاً درود بھیجنا مکروہ ہے ، جبکہ شوافع کا مذہب ہے کہ خلافِ اولیٰ ہے۔
امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:676ھ/1277ء) لکھتے ہیں:’’واختلف أصحابنا فی الصلوٰۃ علی غیر الأنبیاء ھل یقال ھو مکروہ ، أو ھو مجرد ترک أدب ؟ والصحیح المشھور أنہ مکروہ کراھۃ تنزیۃ‘‘ترجمہ:ہمارے اصحاب نے غیر انبیاء پر درود لکھنے، بولنے کے بارے میں اختلاف کیا کہ کیا یہ مکروہ ہے یا ترکِ ادب؟ صحیح مشہور مذہب یہی ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:852ھ/1449ء) لکھتےہیں:” و استدل بہ علی جواز الصلوٰۃ علی غیر الأنبیاء وکرھہ مالک والجمھور ‘‘ ترجمہ: اس سے غیر انبیاء پر درود کے جائز ہونے کا استدلال کیا ہے ۔ امام مالک اور جمہور نے اسے مکروہ کہا۔
احناف کی بعض کتب میں یوں آیا ہے کہ نہ پڑھا جائے جیسا کہ ہندیہ، تبیین الحقائق اوربحرالرائق میں ہے:’’ولا یصلی علی غیر الأنبیاء والملائکۃ إلا بطریق التبع‘‘ ترجمہ: غیر انبیاء و ملائکہ پر درود نہ بھیجا جائے سوائے بطریقِ تبع ۔
امام کمال الدین ابنِ ھُمَّام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:861ھ/1456ء) لکھتےہیں:’’وکرہ الصلاۃ علی غیر الأنبیاء ، وقیل لا تکرہ‘‘ ترجمہ:غیرانبیاء پر درود پڑھنا مکروہ ہے اور کہا گیا کہ مکروہ نہیں ہے۔
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’کسی کے نام کے ساتھ علیہ السلام کہنا یہ انبیاء و ملائکہ علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے۔ مثلاً: موسیٰ علیہ السلام عیسی علیہ السلام جبرئیل علیہ السلام نبی اور فرشتے کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں نہ کہا جائے۔“
امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:606ھ/1209ء) لکھتے ہیں:’’ان أصحابنا یمنعون من ذکر صلوات اللہ علیہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام إلا فی حق الرسول “ ترجمہ : ہمارے اصحاب ، نبی کے علاوہ کے حق میں ”صلوات اللہ علیہ “اور”علیہ الصلوٰۃ والسلام“
کے الفاظ سے منع کرتے ہیں۔ ابو الفداء علامہ اسماعیل حقی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1127ھ/1715ء) مکروہِ تنزیہی کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’واما الصلوٰۃ علی غیر الانبیاء فتجوز تبعا بان یقول اللھم صل علی محمد وعلی آلہ ویکرہ استقلالا وابتداء کراھۃ تنزیہ کما ھو الصحیح الذی علیہ الاکثرون‘‘ترجمہ: غیر انبیاء پر درود تبعاً جائز ہے کہ یوں کہا جائے اے اللہ ! درود بھیج محمد اور ان کی آل پر اور اسقلالاً و ابتداءً مکروہ تنزیہی ہے اور جیسا کہ یہی صحیح ہے، جس پر علماء کی اکثریت ہے۔
اکثر فقہائے احناف نے بالاستقلال غیر نبی و ملک پر درود کو ناجائز فرمایا ہے، چنانچہ امام اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’دُرود وہ تعظیم ہے کہ بالاستقلال انبیاء وملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام کے سواکسی کے لیے جائز نہیں۔‘‘
دوسری جگہ فرماتے ہیں :’’ صلوٰۃ وسلام بالاستقلال انبیاء و ملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام کے سوا کسی کے لیے نہیں ،ہاں تبعاً جائز ہے، جیسے’’اللھم صل و سلم علی سیدنا و مولانا محمد و علیٰ اٰل سیدنا و مولانا محمد۔‘‘
جامع المعقول والمنقول،علامہ عبدالعزیزپرہاروی حنفی چشتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1239ھ /1824ء) لکھتے ہیں:’’ لایجوز التصلیۃ والتسلیم علی غیر الانبیاء استقلالا عند المحققین من اھل السنۃ‘‘ترجمہ:محققین علمائے اہلسنت کے نزدیک غیر نبی پر استقلالا ًدُرود وسلام جائز نہیں۔
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں : ”واختلف ھل تکرہ تحریما أو تنزیھا أو خلاف الأولی وصحح النووی فی الأذکار الثانی لکن فی خطبۃ شرح الأشباہ للبیری من صلی علی غیرھم أثم وکرہ وھو الصحیح‘‘ترجمہ: اختلاف کیا گیا ہے کہ ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی یا خلاف اولیٰ ؟ امام نووی نے اذکار میں مکروہ تنزیہی کو صحیح کہا۔لیکن ”خطبۃ شرح الاشباہ للبیری“ میں ہے کہ غیر انبیاء و ملائکہ پر جو درود پڑھے ، وہ گنہگار ہے اور ایسا کرنا مکروہ ہے اور یہی صحیح ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پردرود بھیجنے کی بحث کا خلاصہ:
انبیائے کرام وملائکہ عظام علیہم السلام کے علاوہ کسی پر بھی درود پڑھنے کے بارے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں :
امام اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی(اور ایک روایت میں امام احمد) اور اکثرعلمائے کرام نے غیر نبی و ملک پر بالاستقلال درود سے منع فرمایا، جبکہ بالتبع بھیجنے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ کئی تفاسیر جیسے تفسیر رازی، تفسیر روح البیان اور احناف کی کئی کتب مثلاً :بحر الرائق، تبیین الحقائق و بہار شریعت وغیرہ میں بالاستقلال درود سے منع کو ذکر کیا گیا ہے ، پھر یہ ممانعت کس درجےکی ہے، اس میں بھی اختلاف ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱)شافعیہ کا مذہب یہ ہے کہ مستقل درود کی ممانعت خلاف اولیٰ کے درجے میں ہے۔
(۲)امام مالک اورایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل و جمہور علمائے کرام علیہم الرحمۃ کے نزدیک ممانعت مکروہ کے درجے میں ہے۔ فتح القدیر وغیرہ کئی کتب میں بھی مطلق مکروہ کے قول کو ذکر کیا گیا ہے۔
لیکن علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ نے روح البیان میں اور امام نووی شافعی علیہ الرحمۃ نے اپنی شرح مسلم میں اپنے اصحابِ شافعیہ سے کراہتِ تنزیہی کے قول کی صحت پر جزم فرمایا ہے۔
جبکہ نبراس ، شامی اور فتاوی رضویہ وغیرہا کتب میں کراہتِ تحریمی کو راجح طور پر بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ علامہ شامی علیہ الرحمۃ کی صراحت اور امام اہلسنت علیہ الرحمۃ کے اسلوب سے واضح ہے۔
قاضی عیاض اورکئی اصحابِ علم کی رائے کے مطابق مطلقاً (یعنی بالاستقلال ہو یا بالتبع، بہرحال )اس کا جواز ہے۔
غیر انبیاء و ملائکہ علیہم السلام کے لیے مستقل دُرود بھیجنے کو ناجائز کہنےوالوں نے دو علتوں پرمسئلے کی بنیاد رکھی ہے، جو درج ذیل ہیں:
(1)یہ انبیاء و ملائکہ علیہم الصلوٰۃ و السلامکے ساتھ خاص ہے۔
(2) یہ اہل بدعت کا شعار ہے۔
پہلی علت کی تفصیل:
شروع سے ہی مستقل طور پر درود وسلام انبیاء و ملائکہ علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے۔ صحابی رسول حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما وسلف صالحین سے اس کی ممانعت ثابت ہے۔چنانچہ ابو عبداللہ امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:606ھ/1209ء) لکھتے ہیں:’’عن ابن عباس رضی اللہ عنھما أنہ قال لا تنبغی الصلوٰۃ من أحد علی أحد إلا فی حق النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘ترجمہ:حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما سے مروی ہے کہ سوائے نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے کسی پر درود بھیجنا درست نہیں۔
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں: ” و اختارہ غیر واحد من الفقھاء والمتکلمین أنہ یجب تخصیص النبی صلی اللہ علیہ وسلم وسائر الأنبیاء بالصلوٰۃ والتسلیم کما یختص اللہ سبحانہ عند ذکرہ بالتقدیس و التنزیہ‘‘ ترجمہ:متعدد فقہاء اورمتکلمین نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور تمام انبیاء کے ساتھ صلوٰۃ و سلام کی تخصیص واجب ہے، جیسا کہ اللہ جل شانہ کے ذکر کے وقت تقدیس و تنزیہ کے الفاظ اس کے ساتھ مختص ہیں ۔
علامہ عبدالعزیز پرہاروی حنفی چشتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1239ھ/1824ء) لکھتے ہیں:’’ان ھذا فی عرف السلف من شعار الانبیاء فلزم التخصیص بھم کما لایجوز ان یقال فی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزوجل وان کان عزیزا جلیلا‘‘ترجمہ:بےشک اسلاف کے عرف میں یہ (درود و سلام ) انبیائے کرام علیہم السلام کے شعار میں سے ہے، تو اس کی ان کے ساتھ تخصیص لازم ہے،جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں عَزَّ و جَلَّ کا لفظ بولا جانا ، جائز نہیں ،حالانکہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز و جلیل ہیں۔( )
دوسری علت کی تفصیل:
علامہ محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1270ھ /1853ء) لکھتےہیں کہ صدراول (پہلےزمانے) میں غیر انبیاء کے ساتھ درود و سلام نہ تھا، لیکن بعد میں اہل بدعت نے اسے شروع کیا،چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:’’والتشبیہ بأھل البدع منھی عنہ فتجب مخالفتھم‘‘ ترجمہ: بدعتی لوگوں سے مشابہت اختیار کرنا منع ہے،لہٰذا ان کی مخالفت کرنا واجب ہے۔
یہی علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا :’’والتشبہ بأھل البدع منھی عنہ فتجب مخالفتھم‘‘ترجمہ :مفہوم گزر چکا۔
مفتی جلال الدین امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1422ھ/2001ء) لکھتے ہیں:’’یہ مختلف فیہ ہے ۔جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ استقلالاً وابتداء جائز نہیں ہے اور اتباعاً جائز ہے، یعنی امام حسین علیہ السلام کہنا جائز نہیں ہے اور امام حسین علی نبینا وعلیہ السلام جائز ہے۔“
صلوٰۃ کی لغوی اوراصطلاحی تعریف:
لغت میں ’’صلوۃ“ کا معنی ”دعا“ ہے۔جب اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی جائے ، جیسے یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ صلوٰۃ (درود )بھیجتا ہے، تو اِس سے مراد رحمت ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرماتاہے اور جب اس کی نسبت فرشتوں کی طرف کی جائے کہ فرشتے درود بھیجتے ہیں ، تو مراد استغفار ہوتی ہے یعنی فرشتے متعلقہ فرد کے بارے میں بخشش کی دعا کرتے ہیں اور جب بندوں کی طرف نسبت کی جائے کہ بندے درود پڑھتے ہیں ، تو مراد دُعا ہوتی ہے۔(البتہ فرشتوں کے انبیاء و ملائکہ پر درود کا معنیٰ دعائے رحمت ہے۔ )
مُحَقِّق علی الاِطْلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1052ھ /1642ء) لکھتے ہیں:’’صلوۃ کے کئی معنی ہیں:دعا،رحمت،استغفار نیزلفظِ صلوٰۃ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے معنی میں آتا ہے۔“
علامہ عبدالغنی نابلسی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1143ھ/1730ء)لکھتےہیں: (والصلوۃ) وھی من اللہ الرحمۃ ومن الملائکۃ الاستغفار۔۔۔ ومن المؤمنین دعاءلہ ببعثہ المقام المحمود ۔۔۔ (والسلام) ای الدعاء بالسلامۃ من کل قدح ونقصان او ھو مصدر بمعنی سلمہ اللہ ای جعلہ سالماً ‘‘ترجمہ: صلوٰۃ کی نسبت اللہ عزوجل کی طرف ہو، تو اس کا معنی رحمت نازل کرنا ہے ، ملائکہ کی طرف ہو،تومراداستغفار کرنا ہوتا ہے ۔۔۔اور مؤمنین کی طرف نسبت ہو، تومراد آپ علیہ الصلوۃ والسلام کےلیے مقامِ محمود پر فائز ہونے کی دعا مانگنا ہے۔۔۔ اور سلام سے مراد ہر عیب و نقصان سے سلامتی کی دعا کرنا یا بطورِ مصدر ،یہ معنی ہے کہ اللہ انہیں سلامت رکھے ۔
اوپر تمہید میں بیان ہوچکا کہ غیر انبیاء پر درود و سلام کی ممانعت مطلقاً نہیں، بلکہ یوں ہے کہ صرف انہی پر درود بھیجیں تو منع ہے، جبکہ پہلے کسی نبی علیہ السلام پر درود بھیجنے کے بعد ضمنی طور پر غیر نبی پر بھی درود ہو،تو حرج نہیں، جیسے سیدتنا فاطمۃ الزہراء علی ابیھا وعلیھا الصلوٰۃ والسلام، سیدنا امام حسین علی جدہ الکریم وعلیہ الصلوٰۃ والتسلیم اب یہاں سے وہ دلائل پیش کیے جائیں گے، جن میں غیر نبی کے لیے قرآن مجید میں درود کے الفاظ موجود ہیں۔
غیر نبی علیہ السلام کے لیے درود کی پہلی آیت:
صلوۃ(درود) کا لفظ قرآن کریم میں صابرین کے لیے بیان فرمایا گیاہے،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ( اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ ) ترجمہ کنزالعرفان:’’یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں امام علاؤ الدین محمد بن علی المعروف امام خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:741ھ/1341ء)لکھتے ہیں: ( عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ) قال ابن عباس: ای" مغفرۃ من ربھم"۔۔ ۔وانما جمع الصلوات لانہ عنی مغفرۃ بعد مغفرۃ ورحمۃ بعد رحمۃ ۔۔۔۔قیل وانما ذکر الرحمۃ بعدالصلوات ،لان الصلوٰۃ من اللہ الرحمۃ‘‘ترجمہ : ( عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ) حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : ان کےرب کی طرف سے ان پر صلوٰۃ ہو، اس سے مراد یہ ہے کہ رب کی طرف سے ان کی مغفرت ہو۔۔۔۔۔لفظ صلوٰۃ کو جمع ذکر کیا ، کیونکہ اس سے مراد پے درپے مغفرت و رحمت ہے۔۔۔۔ایک قول یہ ہے کہ صلوٰۃ کے بعد رحمت کو اس وجہ سے ذکر کیا ، کیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے صلوٰۃ کا معنی رحمت ہے۔(گویا عطف ِ تفسیری ہے۔)
اور تفسیر جلالین میں ہے:’’ ( اُولٰٓئكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ ) ای مغفرۃ‘‘ترجمہ :ان پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں یعنی مغفرت ہے۔
غیر نبی علیہ السلام خصوصا ًصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر درود کی دوسری آیت:
قرآن سے ثابت ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے صحابہ کرام علیھم الرضوان پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں:چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ( هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓىٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا ) ترجمہ:وہی (اللہ ) ہے جوتم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے دعا کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف نکالے اور وہ (اللہ) مسلمانوں پر مہربان ہے۔
اس آیت کے شان نزول کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ ) نازل فرمائی تو مہاجر اور انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! یہ شرف تو خاص آپ کے لیے ہے، لیکن ا س میں ہمارے لیے کوئی فضیلت نہیں (یعنی صلوۃ سے ہمیں تو حصہ نہیں ملا)۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا’’وہی اللہ عزَّوَجَلَّ ہے جوتم پر صلوٰۃ یعنی رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے تم پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں یعنی تمہارے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔
غیر نبی علیہ السلام خصوصا صحابہ کرام علیہم الرضوان پر درود کی تیسری آیت:
اللہ تعالی نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صحابہ سے زکوۃ وصول کرنے کے بعد ان پر صلوٰۃ کا حکم ارشاد فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ) ترجمہ :اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو ، جس سے تم انہیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں (صلوٰۃ) دعائے خیر کرو۔ بےشک تمہاری صلوٰۃ(دعا) ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر درود کی پہلی حدیث:
حضرت عبداللہ بِن اَبی اوفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ كان النبي صلى اللہ عليه وسلم إذا أتاه قوم بصدقتهم قال اللهم صل على آل فلان فأتاه أبي بصدقته فقال اللهم صل على آل أبي أوفی “ ترجمہ: جب کوئی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس صدقہ لاتا ، توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے حق میں دُعا کرتے۔ چنانچہ میرے والد صاحب بھی صدقہ لے کر حاضر ہوئے ، تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کی ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ اَوْفٰی‘‘ اے اللہ! ابی اَوفی کی اولاد پر صلوٰۃ (یعنی رحمت) نازل فرما۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر درود کی دوسری حدیث:
حضرت ابو حمیدساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے درود کے یہ صیغے نقل کیے:”اللھم صل علی محمدو علی ازواجہ وذریتہ کما صلیت علی آل ابراھیم وبارک علی محمد وازواجہ وذریتہ کما بارکت علی آل ابراھیم انک حمید مجید“ ترجمہ: اے اللہ ! (ہمارے آقا )محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر، ان کی ازواج اور اولاد پر درود بھیج ،جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر درود بھیجا اور (ہمارے آقا) محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر، ان کی ازواج اور اولاد پربرکت نازل فرما، جیسا کہ تو نے ابراہیم کی آل پر برکت نازل فرمائی۔ بےشک تو حمد کے لائق اور بزرگی والا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر درود کی تیسری حدیث:
امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث سجستانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال وفات: 275ھ / 888ء ) نے سنن ابی داؤد میں ترجمۃ الباب”باب الصلوٰۃ علی غیر النبی“ (غیر نبی پر درود کا باب)کے عنوان سےقائم کیا اور اس کے تحت درج ذیل حدیث نقل کی: ’’عن جابر بن عبد اللہ أن امرأة قالت للنبي صلى اللہ عليه وسلم صل علي وعلى زوجي فقال النبي صلى اللہ عليه وسلم صلى اللہ عليك وعلى زوجك‘‘ترجمہ:حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی کہ میرےاور میرے شوہر کے لیے دعائےرحمت(صلوٰۃ) فرمادیں، تو سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’صلى اللہ عليكِ وعلى زوجكِ ‘‘تجھ پر اور تیرے شوہر پر اللہ تعالیٰ صلوٰۃ (یعنی رحمت)بھیجے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر درود کی چوتھی حدیث:
سنن ابو داؤد میں تفصیلی حدیث مبارک ہے، جس کا مضمون یہ ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تشریف لائے اور گھر کے باہر کھڑے ہو کر ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ“ فرمایا، حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آہستہ آواز میں ”وعلیکم السلام“ کہہ دیا، چنانچہ آپ کے بیٹے حضرت قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی کہ آپ بلند آواز سے جواب دے کر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اندر تشریف لانے کا اِذن کیوں نہیں دے رہے؟ تو حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بطورِ سلام ہمیں مزید دعائیں دینے دو، چنانچہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دوبارہ سلام فرمایا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پھر آہستہ جواب دیا، آپ نے تیسری دفعہ سلام فرمایا، آپ نے پھر آہستہ جواب دیا، چنانچہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جواب نہ آنے پر واپس تشریف لے جانے لگے تو پیچھے سے فوراً حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے اور جواب نہ دینے کی وجہ عرض کی، چنانچہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ واپس اُن کے گھر تشریف لائے۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غسل کے لیے پانی مہیا کیا، اور غسل کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی، تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں یوں دعا کی :”رفع رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام يديه وهو يقول: اللهم اجعل صلواتك ورحمتك على آل سعد بن عبادة‘‘ترجمہ: سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کی کہ اے اﷲ! سعد بن عبادہ کے اہلِ خانہ پر اپنی خاص برکتیں اور رحمتیں نازل فرما۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر درود کی پانچویں حدیث:
سنن ابو داؤد اور مسند احمد میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ حضرت ابو حمید ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی روایت اس طرح موجود ہے:”اللھم صل علی محمدو علی ازواجہ وذریتہ کما صلیت علی آل ابراھیم وبارک علی محمد وازواجہ وذریتہ کما بارکت علی آل ابراھیم فی العالمین انک حمید مجید “ترجمہ: اے اللہ ! (ہمارے آقا )محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر، ان کی ازواج اور اولاد پر درود بھیج ،جیسا کہ تو نے ابراہیم کی آل پر درود بھیجا اور(ہمارے آقا )محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر، ان کی ازواج اور اولاد پربرکت نازل فرما، جیسا کہ تو نے سارے جہانوں میں ابراہیم کی آل پر برکت نازل فرمائی ۔بےشک تو حمد کے لائق اور بزرگی والا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر درود کی چھٹی حدیث:
ابن عدی نے حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی روایت سے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے درودکے یہ صیغے نقل کیے:”اللھم اجعل صلواتک ورحمتک علی محمد وازواجہ وذریتہ و امھات المؤمنین کما صلیت علی آل ابراھیم انک حمید مجید “ ترجمہ:اے اللہ ! (ہمارے پیارے نبی )محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر، ان کی ازواج اور اولاد پر اور امہات المؤمنین پر درود اور رحمتیں بھیج، جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام)کی ازواج اور ان کی آل پر درود بھیجا۔ بےشک تو حمد کے لائق اور بزرگی والا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر درود کی ساتویں حدیث:
علامہ محمد بن عبدالرحمن سخاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال وفات: 902ھ / 1497ء )”القول البدیع“
میں نقل فرماتے ہیں:”وروینا فی فوائد الخلعی من حدیث ابی یخامر السکسکی معضلا،ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قال: اللهم صل على أبي بكر فإنه يحبك ويحب رسولك، اللهم صل على عمر فإنه يحبك ويحب رسولك، اللهم صل على عثمان فإنه يحبك ويحب رسولك، اللهم صل على علي فإنه يحبك ويحب رسولك اللهم صل على أبي عبيدة بن الجراح فإنه يحبك ويحب رسولك، اللهم صل على عمرو بن العاص فإنه يحبك ويحب رسولك‘‘ترجمہ:ہم نے فوائد خلعی میں ابو یخامر سے معضلاً حدیث روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی، اے اللہ !ابو بکر پر صلوٰۃ (یعنی رحمت) نازل فرما کہ وہ تجھ سے اور تیرے رسول سے محبت کرتا ہے، اے اللہ ! عمر پر صلوٰۃ (یعنی رحمت)نازل فرما کہ وہ تجھ سے اور تیرے رسول سے محبت کرتا ہے، اے اللہ! عثمان پر صلوٰۃ (یعنی رحمت)نازل فرما کہ وہ تجھ سے اور تیرے رسول سے محبت کرتا ہے، اے اللہ ! علی پر صلوٰۃ (یعنی رحمت)نازل فرما کہ وہ تجھ سے اور تیرے رسول سے محبت کرتا ہے، اے اللہ ! ابو عبیدہ بن جراح پر صلوٰۃ (یعنی رحمت) نازل فرما کہ وہ تجھ سے اور تیرے رسول سے محبت کرتا ہے، اے اللہ !عمرو بن عاص پر صلوٰۃ (یعنی رحمت) نازل فرما کہ وہ تجھ سے اور تیرے رسول سے محبت کرتا ہے۔
شروع رسالے میں کافی تفاسیر کے حوالے موجود ہیں، یہاں کچھ مزید حوالے لکھے جاتے ہیں۔
اللہ عز و جل نے قرآنِ مجید میں فرمایا: ( اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ) ترجمہ : بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔
اس آیت کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے:’’ ثم انھم ذکروا ان الصلوۃ علی غیرہ وآلہ بطریق التبعیۃ جائز وبالاستقلال مکروہ ‘‘ترجمہ :پھر علمائےکرام نے یہ مسئلہ ذکر کیا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےعلاوہ کسی پر اور آپ کی آل پر تبعاً درود پڑھنا جائز ہے،جبکہ استقلالاً پڑھنامکروہ ہے۔
تفسیر مدارک میں ہے:”وان صلی علی غیرہ علی سبیل التبع کقولک صلی اللہ علی النبی وآلہ فلا کلام فیھا،واما اذا افرد غیرہ من اھل البیت بالصلوٰۃ فمکروہ“یعنی:اگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ کسی اور پر تبعاً درود پڑھا جائے، مثلاً: یوں کہا جائے” صلی اللہ علی النبی وآلہ“ ،توا س میں کوئی حرج نہیں ،ہاں اگر کوئی الگ سے (مستقل طور پر)اہل بیت میں سے کسی پر درود پڑھے، تو یہ مکروہ ہے۔
اور روح المعانی میں ہے:’’لا يصلي على غير الأنبياء والملائكة عليهم الصلاة والسلام إلا بالتبع لأن في الصلاة من التعظيم ما ليس في غيرها من الدعوات وهي لزيادة الرحمة والقرب من اللہ تعالى فلا تليق بمن يتصور منه الخطايا والذنوب ولاقت عليه تبعاً لما في ذلك من تعظيم المتبوع‘‘یعنی:انبیاء اور فرشتوں کے علاوہ کسی اور پر تبعاً ہی درود پڑھا جائے ،کیونکہ درود میں جو تعظیم ہے وہ دیگر دعاؤں میں نہیں ہے،نیز یہ اللہ کی خاص رحمت اور قرب میں اضافے کے لیے ہے جو معصوم عن الخطاء و الذنوب (خطاؤں اور گناہوں سے معصوم ذات) کے علاوہ کسی اور کے شایان شان نہیں ،ہاں تبعا ًایسا کیا جا سکتاہے کہ اس میں در اصل متبوع کی ہی تعظیم ہے۔
صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/ 1947ء) لکھتے ہیں:’’ آپ (صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم)کے تابع کرکے آپ( صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم )کے آل و اصحاب ودُوسرے مؤمنین پر بھی دُرود بھیجا جاسکتا ہے یعنی درود شریف میں آپ (صلَّی اللہ علیہ وآلہ و سلم)کے نامِ اَقدَس کے بعد ان کو شامل کیا جاسکتا ہے اور مستقل طور پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ان میں سے کِسی پر درود بھیجنا مکروہ ہے۔‘‘مزید فرماتے ہیں:’’ درود شریف میں آل و اصحاب کا ذکر متوارث ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل کے ذکر کے بغیر درودمقبول نہیں ۔ درود شریف اللہ تعالی کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تکریم ہے، عُلَماء نے اللہم صل علٰی محمّد کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ یا ربّ !محمّدِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عظمت عطا فرما ، دنیا میں ان کا دین بلند، ان کی دعوت غالب فرما کر اور ان کی شریعت کو بقا عنایت کر کے اور آخرت میں ان کی شفاعت قبول فرما کر اور ان کا ثواب زیادہ کر کے اور اوّلین و آخِرین پر ان کی فضیلت کا اظہار فرما کر اور انبیاء ، مرسلین و ملائکہ اور تمام خَلق پر ان کی شان بلند کر کے ۔‘‘
امام محمد بن اسماعیل بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:256ھ/870ء)نے بخاری شریف میں ایک باب کا عنوان یہ لکھا ہے:”هَلْ يُصَلَّی عَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلی اللہ عليه وآله وسلم؟“ ترجمہ : کیا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا دوسروں پر درود بھیجا جا سکتا ہے؟اور پھر اس باب کے تحت یہ حدیثِ مبارک ذکر فرمائی : ” عن ابن أبي أوفى، قال: كان إذا أتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم بصدقته قال: (اللهم صل عليه) فأتاه أبي بصدقته، فقال: «اللهم صل على آل أبي أوفى» “ترجمہ : حضرت ابن ابی اوفیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں صدقہ لے کر حاضر ہوتا ، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے : اے اللہ! اس پردرود نازل فرما ، پھر (ایک مرتبہ) میرے والد صدقہ لے کر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ، تو آپ نے فرمایا : اے اللہ!ابو اَوفیٰ کی آل پر صلوٰۃ (درود و رحمت) بھیج۔
امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث سجستانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال وفات: 275ھ / 888ء ) نے ایک باب کا عنوان یہ قائم کیا ہے :” الصَّلَاةعَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلی اللہ عليه وآله وسلم “ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا دوسرے پر درود بھیجنا اور اس باب میں یہ حدیث مبارک روایت کی ہے :” عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِرضی اللہ عنهما أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ عليه وآله وسلم صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَی زَوْجِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ عليه وآله وسلم صَلَّی اللہ عَلَيْکِ وَعَلَی زَوْجِکِ “ترجمہ : حضرت جابر بن عبداﷲ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض گزار ہوئی کہ میرے لیے اور میرے خاوند کےلیے دعا کیجیے ، تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ تم پر اور تمہارے خاوند پر صلوٰۃ (رحمت) نازل فرمائے ۔
شارِح بخاری، علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) ”شرح ابی داؤد“میں لکھتے ہیں:’’وقد اختلف العلماء في الصلاة على غير الأنبياء فقال مالك وأبوحنيفة ، والشافعي والأكثرون: لا يصلّى على غير الأنبياء استقلالا، لا يقال: اللهم صل على أبي بكر، أو عمر، أو عليّ، أو غيرهم ، ولكن يُصلّى عليهم تبعا، فيقال: اللهم صل على محمد وآل محمدٍ وأصحابه وأزواجه وذريته كما جاءت الأحاديث‘‘یعنی غیر انبیاء پر درود پڑھنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے،امام مالک،امام اعظم ،امام شافعی اور اکثر ائمہ کا مذہب یہ ہے کہ غیر انبیاء پر استقلالاً درود نہ پڑھا جائے، لہٰذا اس طرح نہ کہا جائے : اللهم صل على أبي بكر یا اللهم صل على عمر یا اللهم صل على عليّ وغیرہ ،ہاں ان پر تبعاً درود پڑھاجا سکتا ہے، جیسے اللهم صل على محمد وآل محمدٍ وأصحابه وأزواجه وذريته، جیسا کہ اس بارے میں احادیث آئی ہیں ۔
علامہ شہاب الدین رملی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:957ھ/1550ء) فرماتے ہیں :’’ وأجاب عنه من لم يجز ذلك وهو الشافعي ومالك والجمهور بأن الصلاة لما كانت حقا للنبي صلى اللہ عليه وآله وسلم كان له أن ينعم بها على غيره، وغيره لا يتصرف فيما ليس حقا له، كما أن صاحب المنزل يجلس غيره على تكرمته وغيره لا يفعل ذلك‘‘یعنی (احادیث میں بعض صحابہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درود بھیجا ،جبکہ ہمیں یہ منع ہے، تو اس پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ) جن ائمہ دین نے مستقل درود بھیجنے کی اجازت نہیں دی اور وہ امام شافعی،امام مالک اور جمہور ہیں ، انہوں نے اس حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ درود جب سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حق ہے ، تو وہ کسی اور پر بھی یہ عنایت فرما سکتے ہیں ،ہاں کوئی اور جس کا یہ حق نہ ہو، اسے اس میں تصرف کا اختیار نہیں ،جس طرح گھر کا مالک کسی اور کو اپنی معزز جگہ پر بٹھا سکتا ہے لیکن کوئی اور یہ نہیں کر سکتا۔ مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں:’’درود شریف صرف نبی یا فرشتوں پر ہوسکتا ہے ،غیر نبی پر نبی کے تابع ہو کر دُرود جائز ، بالاستقلال مکروہ۔“
… پارہ 11، سورۃ التوبہ، آیت 100۔
… پارہ 26، سورۃ الفتح، آیت 29۔
… پارہ4، سورہ آل عمران ،آیت 164۔
… پارہ 1، سورۃ البقرہ، آیت 137۔
… پارہ10 ،سورۃ الانفال، آیت 74۔
… صحیح البخاری، کتاب اصحاب النبی، باب قول النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ”لو کنت متخذاخلیلا“،جلد 5، صفحہ 8،حدیث 3673، دار طوق النجاۃ۔
… سنن الترمذی، ابواب المناقب، باب فی من سب اصحاب النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جلد5، ص696، حدیث3862، مطبوعہ شرکۃ مصطفیٰ البابی الحلبی ، مصر ۔
… شرح مسلم للنووی ،باب الدعاء لمن اتی بصدقتہ،جلد07،صفحہ 185،دار احیاء التراث العربی،بیروت ۔
… تبیین الحقائق،جلد06،صفحہ 228،مطبوعہ قاہرہ ۔
… تفسیرروح المعانی، فی التفسیر سورۃ الاحزاب،آیت 56،جلد22،صفحہ 85،دار احیاء التراث العربی، بیروت ۔
… تفسیرروح المعانی، سورۃ الاحزب،آیت 43،جلد22،صفحہ 85،دار احیاء التراث العربی،بیروت ۔
… عمدۃ القار ی،کتاب الزکوٰۃ،باب صلوٰۃ الامام ۔۔۔،جلد05،صفحہ556،دار الفكر ۔
… تفسیرروح المعانی، فی تفسیر سورۃ الاحزاب،آیت56،جلد22،صفحہ 85،دار احیاء التراث العربی، بیروت ۔
… شرح مسلم،کتاب الصلوٰۃ ، جلد4،صفحہ128،دار اِحیاء التراث العربی ، بیروت ۔
… فتح الباری،کتاب الزکوٰۃ،باب صلوٰۃ الامام الخ ، جلد07،صفحہ204،الرسالۃ العالمیہ ۔
… فتح القدیر،باب صفۃ الصلاۃ،جلد01،صفحہ317،دارالفکر ۔
… بہارشریعت ،جلد3،حصہ 16،صفحہ465، مکتبۃ المدینہ، کراچی ۔
… تفسیرکبیر، فی التفسیر سورۃ التوبہ،آیت 103،جلد06،صفحہ 136،دار احیاء التراث العربی ۔
… تفسیرروح البیان،سورۃ الاحزاب،آیت 56،جلد07،صفحہ 177،دار احیاء التراث العربی ۔
… فتاوی رضویہ، جلد9،صفحہ518،رضا فاؤنڈیشن،لاہور ۔
… فتاوٰی رضویہ، جلد23،صفحہ390،رضا فاؤنڈیشن،لاہور ۔
… النبراس علی شرح العقائد ، صفحہ24، مطبوعہ کراچی ۔
… ردالمحتار،کتاب الخنثیٰ، مسائل شتی،جلد10،صفحہ483،دار عالم الکتب ۔
… تفسیرروح المعانی،جلد22،صفحہ 85، بیروت ۔
… تفسیرروح المعانی،جلد22،صفحہ 85، بیروت۔۔۔فتح القدیر، جلد01،صفحہ317،دارالفکر ۔
… تفسیرروح البیان، جلد07،صفحہ 177،بیروت۔۔۔شرح مسلم، جلد4،صفحہ128، بیروت ۔
… النبراس شرح عقائد ، صفحہ24، مطبوعہ کراچی۔۔ردالمحتار،جلد10،صفحہ483،دار عالم الکتب۔۔فتاوی رضویہ، جلد9، صفحہ518۔
… تفسیرکبیر، فی التفسیر سورۃ التوبہ،آیت 103،جلد06،صفحہ 136،دار احیاء التراث العربی ۔
… ردالمحتار، مسائل شتی،جلد10،صفحہ484،دار عالم الکتب ۔
… النبراس علی شرح العقائد ، صفحہ24،مطبوعہ کراچی ۔
… تفسیرروح المعانی، فی التفسیر سورۃ الاحزاب،آیت 56،صفحہ 85،دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
… ردالمحتار،کتاب الخنثیٰ، مسائل شتی،جلد10،صفحہ484،دار عالم الکتب ۔
… فتاوی فیض الرسول، جلد 1،صفحہ267 ، شبیر برادرز،لاہور ۔
… التفسیرات الاحمدیہ،صفحہ634، مطبوعہ ملتان ۔
… اشعۃ اللمعات،جلد01،صفحہ 434،مطبوعہ کوئٹہ ۔
… الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیہ، جلد 1، صفحہ 7 تا 9، مطبوعہ استنبول، ترکی ۔
… پارہ 2 ،سورۃ البقرہ، آیت157۔
… تفسیر خازن،جلد 01،صفحہ 95،دار الکتب العلمیہ ۔
… تفسیر جلالین،صفحہ 30،مطبوعہ لاہور ۔
… پارہ 22،سورۃ الاحزاب،آیت 43۔
… تفسیر القرطبی، جلد14، صفحہ 198، مطبوعہ دار الکتب المصریہ، قاہرہ ۔
… پارہ 10،سورۃ التوبہ،آیت 103۔
… صحیح البخاری،باب صلوٰۃ الامام و دعائہ لصاحب الصدقۃ،صفحہ239،دار الحضارہ ۔
… صحیح البخاری ،صفحہ1018 ، دار الحضارہ۔۔الصحیح لمسلم،صفحہ131 ، دار الحضارہ ۔
… سنن ابی داؤد،الصلوٰۃ علی غیر النبی،صفحہ197،دار الحضارہ للنشر والتوزیع ۔
… سنن ابی داؤد،صفحہ 640،رقم حدیث 5185،دار الحضارہ للنشر و التوضیح ۔
… سنن ابی داؤد،صفحہ 125،رقم حدیث979، دار الحضارۃ للنشر والتوزیع، مسند احمد،جلد 09،صفحہ 152،دار الفکر ۔
… الکامل فی الضعفاء،جلد04،صفحہ344،دار الکتب العلمیہ ۔
… القول البدیع،صفحہ 138، مؤسسۃ الريان ۔
… پارہ 22،سورہ احزاب،آیت 56۔
… تفسیرات احمدیہ، صفحہ635،مطبوعہ ملتان ۔
… تفسیر مدارک،جلد03،صفحہ 44،دار الکلم الطیب،بیروت ۔
… روح المعانی،جلد11،صفحہ06،دار احیاء التراث العربی،بیروت ۔
… خزائن العرفان،صفحہ788،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی ۔
… صحیح البخاری، جلد 5، صفحہ 2339، رقم الحدیث 5998، بيروت، لبنان، دار ابن کثير اليمامہ ۔
… سنن ابی داود،جلد 2، صفحہ 88، الحدیث 1533، مطبوعہ دار الفکر ۔
… شرح سنن ابی داؤد للعینی،جلد05،صفحہ 443،444،مطبوعہ ریاض ۔
… شرح سنن ابی داؤد للرملی ، جلد 7 ، صفحہ 360 ، مطبوعہ دار الفلاح ۔
… مرأةالمناجیح،جلد 02،صفحہ 91،مکتبہ اسلامیہ،لاہور ۔