اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ط
اَمَّا بَعۡدُ فَاَعُوۡذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ط
ایک مرتبہ حضرت سَیِّدُنا شیخ محمد بن سُلَیْمَان جَزُولی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ وُضُو کرنے کیلئے ایک کنویں پر گئے مگر اُس سے پانی نکالنے کے لئے کوئی چیز پاس نہ تھی۔شَیْخ پریشان تھے کہ کیا کریں، اتنے میں ایک اُونچے مَکان سے ایک بچی نے دیکھا تو کہنے لگی:یاشَیخ!آپ وُہی ہیں نا، جن کی نیکیوں کا بڑا چَرچا ہے،اِس کے باوُجُود آپ پریشان ہیں کہ کنویں سے پانی کس طرح نکالوں!پھر اس بچی نے کنویں میں اپنا لُعَاب (یعنی تُھوک)ڈال دیا۔تھوڑی ہی دیر میں کنویں کا پانی بڑھنا شروع ہوگیا حتی کہ کِناروں سے نکل کر زمین پر بہنے لگا۔شَیْخ نے وُضُو کیا اور اُس بچی سے کہنے لگے: میں تمہیں قَسَم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم نے یہ مَرْتَبہ کیسے حاصِل کیا؟اس باکَمال بچی نے جَواب دیا:اُس ذات پر کَثْرَتِ دُرُودِ پاک کی وجہ سے وہ ذات کہ جو اگر کسی خشک ویران جگہ میں تشریف لے آئیں تو درِندے بھی ان کے دامَنِ رَحْمت سے لپٹ جائیں۔یہ سُن کر حضرتِ سَیِّدُنا شَیْخ سُلَیْمَان جَزُولی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے قَسَم کھائی کہ میں دربارِ رِسَالَت میں پیش کرنے کیلئے دُرُود و سَلاَم کی کتاب ضرور لکھوں گا۔ پھر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے دَلَائِلُ الْـخَیْرَات نامی کتاب تحریر فرمائی جو بَہُت مَشْہُور ہوئی۔
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!آپ نے مُلاحَظَہ فرمایا کہ الله پاک نے دُرُودِ پاک پڑھنے میں کس قَدَرْ کمال رکھا ہے کہ ایک چھوٹی سی بچی جو دُرُودِ پاک کی کَثْرَت کرتی تھی اس میں اِتنا کَمال پیدا ہو گیا کہ اس کے تھوکنے کی وجہ سے کنویں کا پانی اُوپر آگیا۔
تم سےکھُلا بابِ جُود تم سے ہے سب کا وُجُود تم سے ہے سب کی بقا تم پر کروروں دُرُود
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنااَصْمَعِی رَحمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ سَفَر پر تھا کہ جنگل سے گزرتے ہوئے ہم راستہ بھول گئے،پھر ایک خیمہ دیکھا تو وہاں جا کر بلند آواز سے سَلام کیا،ایک خاتون خیمے سے باہر تشریف لائیں اور ہمارے سَلام کا جواب دے کر پوچھا:کون ہو؟ ہم نے عَرْض کی:ہم راستہ بھول گئے ہیں،خیمہ دیکھا تو اس طرف چلے آئے۔ اس پر وہ بولیں:ٹھیک ہے، تم لوگ یہیں ٹھہرو، میں تمہاری مہمانی کے لئے کچھ کرتی ہوں کہ جس کے تم حق دار ہو۔پھر فرمانے لگیں: اپنا منہ دُوسْری طرف کر لو تا کہ تمہیں تمہارا حق دیا جائے۔ہم دوسری طرف دیکھنے لگے تو انہوں نے اپنی چادر اُتار کر بچھائی اور خود پردے کی اَوٹ میں ہو کرکہنے لگیں:اس پر بیٹھ جائیں،میرا بیٹا ابھی آتا ہی ہوگا، پھرتمہاری ضِیافَت کا اِہتِمام بھی کر دیا جائے گا۔ہم بیٹھ گئے،اتنے میں ایک سوار آتا دکھائی دیا تو وہ بولیں: یہ اونٹ تو میرے بیٹے کا ہےلیکن اس کا سوار میرا بیٹا نہیں۔کچھ دیر بعد سوار نے خیمے کے پاس آکر اس سے عرض کی: اے اُمِّ عقیل!اللہ پاک تمہارے بیٹے کے مُعَامَلے میں تمہیں عظیم اجر عَطا فرمائے ۔یہ سن کر اس عورت نے کہا:تمہارا بھلا ہو،کیا میرا بیٹا مر گیا ؟کہا : ہاں۔ پوچھا:کیسے؟کہا:وہ اونٹوں کے درمیان پھنس گیاتھا،اونٹوں نے اسے کنوئیں میں دھکیل دیا جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔بیٹے کی موت کی خَبَر سن کر وہ صابرہ خاتون روئی نہ کسی قسم کا واویلا کیا، بلکہ اس اونٹ والے سے کہا:ہمارے ہاں کچھ مہمان آئے ہیں، ان کی ضِیافَت کا اِہتِمام کرو،وہ مینڈھا لے کر اسے ذَبْح کر دو۔ چُنَانْچِہ مینڈھا ذَبْح کیا گیا اور اس کے گو شت سے ہماری دَعْوَت کی گئی۔ ہم کھانا کھاتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ یہ عورت کتنی صَبْر والی ہے کہ جوان بیٹے کی موت پر اس نے کچھ بھی واویلا نہ کیا۔جب ہم کھانا کھا چکے تو صابِرہ خاتون نے کہا: تم میں سے کوئی شخص مجھے اللہ پاک کی کتاب میں سے کچھ آیات سنا کر مجھ پر اِحْسَان کرے گا؟میں نے کہا: ہاں! میں آپ کو قرآنی آیات سناتا ہوں۔صابرہ خاتون نے کہا: مجھے کچھ ایسی آیات سنائیے گا جن سے صَبْر و شُکْر کی دولت نصیب ہو۔ لِہٰذا میں نے سورۂ بقرہ کی درج ذیل آیات بیّنات کی تِلاوَت کی :
وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶) (پ۲،البقرة:۱۵۵ ،۱۵۶)
ترجمۂ کنزالایمان:اورخوشخبری سنا ان صبر والوں کوکہ جب ان پرکوئی مُصِیْبَت پڑے توکہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کواسی کی طرف پھرنا ۔
خاتو ن نے یہ آیاتِ قرآنیہ سنیں تو کہنے لگیں: جو کچھ آپ نے ابھی پڑھا کیا قرآن میں بِالْکُل اسی طرح ہے ؟میں نے کہا:ہاں!خدا کی قسم!قرآن میں اسی طر ح ہے۔اس پر وہ بولیں: تم پر سلامتی ہو،اللہ پاک تمہیں خوش رکھے۔پھر وہ نَماز پڑھ کر کہنے لگیں: اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ ۔ بے شک میرا بیٹا عقیل اللہ پاک کی بارگاہ میں پہنچ گیا ہوگا، تین ۳مرتبہ یہ کلمات کہے پھر بارگاہِ خداوندی میں یوں عَرْض گزار ہوئیں:اے میرے پاک پَروَرْدگار!جیسا تو نے حُکْم دیا میں نے ویسا ہی کیا اب تو بھی اپنے اُس وعدے کو پورا فرما دے جو تو نے کیا ہے، بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
اللہ پاک کی ان پر رَحْمَت ہو اور ان کے صَدْقے ہماری بے حِساب مَغْفِرَت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!مشکلات پر صَبْر کرنا بہت اجر و ثواب کا باعِث ہے،مگر اَفْسَوس!دین سے دوری کے باعِث جہاں زمانَۂ جَاھِلیَّت کی اور بَہُت سی رُسُومات ہمارے مُعاشرے میں جَنَم لے چکی ہیں انہیں میں سے ایک مشکلات اور مَصَائِب پر بے صَبْری کا مُظاہَرہ کرنا بھی ہے،جس کی مثالیں جابجا مُعاشرے میں مُلَاحَظہ کی جاسکتی ہیں،مگر جب ہم اِن مَصَائِب پر صَبْر کے حوالے سے صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُنَّ اور دیگر صالحات کی سیرت کا مُطالَعَہ کرتی ہیں تو دل میں مَدَنی اِنْقِلاب بر پا ہو جاتا ہے اور یہ ذِہْن بنتا ہے کہ ہمیں بھی اِن مَصَائِب پر صَبْر و تَحَمُّل کا مُظاہرہ کرتے ہوئے اجرِ عظیم حاصِل کرنا چاہئے۔ جیسا کہ زمانہ جَاھِلیَّت میں مردوں پر نوحہ کرنا، بال نوچنا، کپڑے پھاڑ ڈالنا، اپنے مرنے والوں پر مُدَّتوں مَرْثِیہ خوانی کرتے رہنا عربوں کا قومی شِعار تھا، لیکن قربان جائیے! تَرْبِیَتِ نَبَوی پر!جس نے صَحَابِیّات طَیِّبَات رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُنَّ کو صَبْر کا ایسا عادی بنا دیا کہ ان کے مَصَائِب پر صَبْر کے واقعات پڑھ کر آج بھی دنیا حیران ہے۔
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!مذکورہ حکایت کو ہی دیکھ لیجئے! سُبْحٰنَ اللہ!صَبْر ہو تو ایسا اور یقین ہو تو ایسا۔یہ صبر کرنے والی خاتون صحابیہ تھیں نہ علم و دانش سے آگاہ کوئی عالمہ۔بلکہ جنگل میں رہنے والی ایک عام خاتون تھیں، اگر ان کا یہ واقعہ ہم تک نہ پہنچتا تو ہم ان کی عَظَمَت کے مُتَعَلِّق کبھی نہ جان سکتیں، اس خوش بخت ماں کی عَظَمَت کو سلام کہ جس نے اپنے جگر کے ٹکڑے کی موت کی خبر سن کر چیخ وپکار سے کام نہ لیا ۔ بلکہ صبر کیا اور جب حُکْمِ خداوندی مَعْلُوم ہوا تو فوراً اس پر عَمَل کرتے ہوئے نَماز ادا کی اور وہی کہا جو اللہ پاک نے کہنے کا حُکْم دیا تھا۔ اللہ پاک ہمیں بھی مَصَائِب و آلام پر صَبْر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مصیبتوں میں حَرْفِ شِکایَت زبان پر نہ لانے اور مَصَائِب و آلام سے نہ گھبرانے والوں کے صَدْقے اللہ پاک صَبْر و شُکْر کی دولت عَطا فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
زباں پر شِکوۂ رَنْج و اَلم لایا نہیں کرتے
نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!اسلام نے ہماری دورِ اوّل کی خواتین کی زندگی میں کیا مدنی انقلاب پیدا کیا اس کی ایک جھلک مُلَاحَظہ فرمائیے کہ حضرتِ سیِّدَتُنا خنسا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وہ صحابیہ ہیں جن کا تعارف کراتے ہوئے اسلامی مسائل و خصائل کے خزانے پر مُشْتَمِل کتاب جنتی زیور کے صفحہ 537 پر حضرت علامہ عبد المصطفےٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: یہ زمانہ جَاھِلیَّت میں بہت بڑی مرثیہ گو شاعرہ تھیں،یہاں تک کہ عُکَّاظ کے میلے میں ان کے خیمے پر جو سائن بورڈ لگتا تھا اس پر اَرْثَی الْعَرَب (یعنی عرب کی سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ) لکھا ہوتا تھا،یہ مسلمان ہوئیں اور حضرت اَمِیرُ الْمُومِنِین عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے دربارِ خِلَافَت میں بھی حاضِر ہوئیں، ان کی شاعری کا دیوان آج بھی مَوجُود ہے اور عُلَمائے اَدَب کا اِتّفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خُنَسا کا مثل پیدا نہیں ہوا، ان کے مُفَصَّل حالات علامہ ابو الفرج اصفہانی نے اپنی کتاب کتابُ الاغانی میں تحریر کئے ہیں،یہ صَحَابِیَت کے شَرَف سے سرفراز ہیں اور بے مثال شعر گوئی کے ساتھ یہ بہت ہی بہادر بھی تھیں مگر قربان جائیں اُس مقدَّس دین کی شان پر !مسلمان ہونے کے بعد سَیِّدَتُنا خُنَسَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اپنے چاربیٹوں کے ساتھ جنگِ قادِسَیہ میں شریک ہوئیں تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نے اپنے چاروں بیٹوں کو وصیَّت کرتے ہوئے فرمایا:اے میرے بیٹو !تم اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے اور اپنی ہی خوشی سے تم نے ہجرت کی، اس ذات کی قَسَم! جس کے سِوا کوئی مَعْبُود نہیں، تم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو، میں نے تمہارے نَسَب کو خراب نہیں کیا، تمہیں مَعْلُوم ہے کہ اللہ پاک نے کُفّار سے مُقابَلہ کرنے میں مُجاہِدین کے لئے عظیمُ الشّان ثواب رکھا ہے۔ یاد رکھو! آخِرَت کی باقی رہنے والی زِنْدَگی دنیا کی فنا ہونے والی زِنْدَگی سے بَدَرَجہا بہتر ہے۔ سنو! سنو! قرآنِ پاک میں اِرشَاد ہوتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا- وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠(۲۰۰) (پ۴، آل عمران:۲۰۰)
ترجمۂ کنز الایمان:اے اِیمان والو! صَبْر کرو اور صَبْر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اِسلامی ملک کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امّید پر کہ کامیاب ہو۔
صُبح کو بڑی ہوشیاری کے ساتھ جنگ میں شِرْکَت کرو اور دشمنوں کے مُقابَلے میں اللہ سے مَدَد طَلَب کرتے ہوئے آگے بڑھو اور جب تم دیکھو کہ لڑائی زور پر آگئی اور اس کے شُعلے بھڑکنے لگے ہیں تو اس شُعلہ زَن آگ میں کود جانا، کافِروں کے سردار کا مُقابَلہ کرنا،اِنْ شَآءَ اللہ عزّت و اِکرام کیساتھ جنّت میں رہو گے۔ جب صُبْح ہوئی تو چاروں بھائی پورے جوش و جذْبے کے ساتھ میدانِ جنگ میں اترے اور یکے بعد دیگرے سبھی شہید ہو گئے۔ ہر نوجوان نے اپنی شَہادَت سے پہلے کچھ اشعار پڑھے اور اپنے بھائیوں کو جوش و جذبہ دِلاتے ہوئے میدانِ جنگ میں روانہ ہوا۔جب اِن کی شَہادَت کی خَبَر ان کی والدہ کو پہنچی (تو اس شیر دل خاتون نے صَبْر کرتے ہوئے )کچھ اس طرح دُعا پڑھی:سب تعریفیں اللہ پاک کیلئے ہیں جس نے مجھے اِن کی شَہادَت کے ذَرِیعے شَرَف بخشا اور میں اپنے ربِّ کریم سے اُمِّید کرتی ہوں کہ وہ مجھے ان کے ساتھ جنَّت میں جگہ عَطا فرمائے گا۔
غلامانِ محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پروا نہیں کرتے
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!دیکھا آپ نے! اسلام نے ہماری بزرگ خواتین کی زندگیوں میں کیسا مدنی اِنْقِلاب پیدا کیا کہ وہ عظیم خاتون جس نے اپنے بھائی کی موت پر دکھ سے بھرپور ایسے اشعار لکھے جس کی مثال آج بھی مشکل سے ملتی ہےاور انہیں پڑھ کر آج بھی آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں، وُہی خاتون جب مَدَنی اِنْقِلاب میں رنگ جاتی ہیں تو خود اپنے بیٹوں کو راہِ خُدا میں قربان ہو جانے پر ابھار ہی نہیں رہیں، بلکہ ان کی شَہادَت پر صبر کر کے اجر عظیم کی تَمنّا بھی رکھتی ہیں۔ آخر ہماری بزرگ خواتین کی زندگیوں میں یہ مدنی انقلاب کیسے آیا؟ تو اس کا بڑا آسان سا جواب یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ اللہ پاک کے مَـحْبُوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تَرْبِیَت سے سیکھا، کیونکہ فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:جس پر مُصِیْبَت آئے(اور صَبْر کرنا دُشْوَار مَعْلُوم ہو )وہ میرے مَصَائِب کو یاد کر لے بے شک وہ بڑے مصائب ہیں۔ اس لئے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِبتدائے اِسْلَام میں نیکی کی دَعْوَت عام کرنے پر بے شُمار اذیتوں اور تکلیفوں کا سامنا کیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پَتّھر برسائے گئے، راہوں میں کانٹے بچھائے گئے،مَعَاذَ اللہ جھوٹا، کاہِن اور جادوگر کہا گیا،سماجی قَطْع تَعَلّق (Social Boycott)کیا گیا، شِعْبِ ابی طالِب (مکہ کے قریب ایک گھاٹی) میں مَحْصُور کیا گیا،طرح طرح کے اِلزامات عائد کئے گئے،آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اِیمان لانے والوں پر قاتلانہ حملے کئے گئے،غَرَضْ کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَا ٰلِہٖ وَسَلَّم کو مالی،بَدَنی،ذِہنی ہر طرح کی اَذِیَّتوں سے دوچار کیا گیا،لیکن جواب میں شفیق و مہربان آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صِرف اور صِرف صَبْر کیا اور آپ کے صَبْر و تَـحَمُّل کی ایسی بَرَکَتیں ظاہِر ہوئیں کہ جو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خُون کے پیاسے تھے وہ مُـحَافِظ و جانثار بن گئے،جو کفر و شِرک کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے،وہ نُورِ اِیمان سے اپنے سِینوں کو مُنَوَّر کرنے لگے،جو اپنی پھول جیسی بیٹیوں کو زندہ درگور (یعنی زندہ دَفن) کر دیتے تھے، وہ انہیں باعِثِ رَحْمَت سمجھنے لگے۔نیز آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صَبْر و تَـحَمُّل ہی کی بَرَکَتیں ہیں کہ آج آفتا بِ اسلام اپنی نورانی کرنیں پھیلا رہا ہے۔
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!اگر ہمیں بھی آج اس پُرفِتَن دور میں نیکی کی دَعْوَت دینے اور دِیْنِ اِسلام پر عَمَل کرنے میں کبھی مَصَائِب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو ایسے مَوْقَع پر گھبرانے اور بے صبری کا مُظاہَرہ کرنے کے بجائے صَبْر و شُکْر کا دامَن تھامے رہنا چاہئے۔
یاد رکھئے!شَیْخِ طَرِیْقَت، اَمِیْرِ اَھْلِسُنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے مخالفتوں کے زور میں صَبْر کرتے ہوئے مَدَنی کاموں کو آگے بڑھا نے کا بہت پیارا طریقہ بیان فرمایا ہے، آپ سے سوال کیا گیا کہ بعض عَلاقوں میں مَدَنی کام کرنے والے بَہُت تھوڑے ہوتے ہیں،مُخالَفَت کا زور،طعنوں کا شور،کام کی ہِمَّت نہیں پڑتی،کوئی مُفِیْد مشورہ عِنَایَت فرمایئے۔ فرمایا: صَبْر و ہمّت کے ساتھ لگے رہئے،اپنے اَعمال دُرُست کیجئے،نیکوں کو تلاش کر کے اُن کی بَرَکَتیں حاصِل کیجئے، نیکو کاروں کی قُربت نہایت با بَرَکَت ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سَیِّدُنا عبداللہ بن عُمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سے رِوایَت ہے:سیِّدُ الصّٰلِحین،رَحْمَةٌ لِّلْعٰلَمِین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ بَرَکَت نشان ہے:اللہ پاک ایک صالِح(یعنی نیک) مسلمان کی بَرَکَت سے اُس کے پڑوس کے 100 گھر والوں کی بَلا دُور فرماتا ہے۔ مَعْلُوم ہوا نیکوں کاقُرب نَفْع پہنچاتا ہے۔ اِنْ شَآءَ اللہ ان کی دُعاؤں سے آپ کے عَلاقے کی کایا پلٹ جائے گی۔ با قی یہ یاد رکھئے کہ کامیابی کا اِنحِصار قِلّت و کَثْرَت (یعنی تعداد کی کمی اور زِیادَتی)پر نہیں خُلُوص و لِلّٰھِیَّت پر ہے،مُخَالَفَت سے دِل برداشتہ نہ ہوں کہ اِمْتِحَان سے گھبرانا بہادری نہیں۔
ٹُوٹے گو سر پہ کوہِ بلا صبر کر اے مُبَلِّغ نہ تُو ڈگمگا صبر کر
لب پہ حرفِ شکایت نہ لا صبر کر ہاں یہی سُنّتِ شاہِ ابرار ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!ہر کوئی مُصِیْبَت پر صَبْر کی تلقین کرتا ہے، آخر صَبْر کسے کہتے ہیں؟ تو جان لیجئے کہ صبر کا معنیٰ ہے نَفْس کو اس چیز پر روکنا جس پر رُکنے کا عَقْل اور شَریعَت تقاضا کر رہی ہو یا نَفْس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عَقْل اور شَریعَت تقاضا کر رہی ہو۔ اور جنّتی زیور میں اسی مفہوم کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے:مصیبتوں اور جِسمانی و رُوحانی تکلیفوں پر اپنے نَفْس کو اس طرح قابو میں رکھنا کہ زبان سے کوئی بُرا لَـفْظ نکلے نہ گھبرا کر اور پریشان حال ہو کر اِدھر اُدھر بھٹکتی و بھاگتی پھرے، بلکہ بڑی بڑی آفتوں اور مصیبتوں کے سامنے عَزْم و اِسْتِقْلَال کے ساتھ جم کر ڈٹ جائے اسی کو صَبْر کرنا کہتے ہیں۔ جبکہ اِمامِ اَجَلّ حضرت سَیِّدُنا شیخ ابُو طالِب مکّی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں:صَبْر یہ ہے:Iنَفْس کو اس کی خواہشات کی تکمیل میں کوشِش کرنے سے روکنا اور رَضائے خُداوندی کے حُصُول کے لئے اسے مُجاہَدے کا پابند بنانا کہ جس قدر بندہ مُصِیْبَت کا شِکار ہو گا اسی کی مِثل مُجاہَدہ اس پر لازِم ہو گا کیونکہ مُجاہَدہ آزمائش و مُصِیْبَت کے اِعْتِبَار سے ہوتا ہے۔Iنَفْس کو شَر کی جانِب بڑھنے سے روکنا اور اسے ہمیشہ نیکی پر عَمَل پیرا ہونے کا پابند بنانا۔ Iنَفْس کو اس کے اُن فِطْرِی اَوصَاف میں شِدّت اَپنانے سے باز رکھنا جن کا اِظہار بارگاہِ خُداوندی میں بے اَدَبی شُمار ہوتا ہے،نیز اسے مُعامَلات میں حُسْنِ اَدَب کا پابند بنانا۔
مَرْوِی ہے کہ کسی بزرگ نے حضرت سیِّدُنا شیخ ابو بکر شِبْلی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے سب سے زیادہ دُشوار صَبْر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:اَلصَّبْرُ فِی الله(یعنی بُرے اخلاق سے چھٹکارا حاصل کرکے اچھے اَخلاق اپنانااور بھلائی کے کاموں میں مَشْغُول ہونا )۔ اُن بزرگ نے کہا:نہیں۔آپ نے فرمایا:اَلصَّبْرُ لِلّٰه۔ (یعنی راہِ خُدا میں مصیبتوں پر صبر کرنا)۔انہوں نے کہا:نہیں۔تو آپ نے پھر فرمایا:اَلصَّبْرُ مَعَ الله(یعنی نیک اعمال کو اپنی طاقت و قوت کا کمال سمجھنے کے بجائے اللہ کی طرف مَنْسُوب کرنا)۔ کہا:نہیں۔حضرت سیِّدُنا شیخ ابوبکر شبلی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کہنے لگے:آپ ہی بتا دیجئے۔تو اُن بزرگ نے فرمایا:اَلصَّبْرُ عَنِ الله(یعنی اللہ بندے کو اپنا قُرْب عَطا کرنے کے بعد اسے دُور کر دے اور وہ اس پر صَبْر کرے) اس پر حضرت سیِّدُنا شیخ ابوبکر شبلی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے ایسی زوردار چیخ ماری قریب تھا کہ آپ کی روح پرواز کر جاتی۔
اِمامِ اَجَلّ حضرت سَیِّدُنا شیخ ابُو طالِب مکّی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اپنی کتاب قُوْتُ الْقُلُوب میں درج ذیل صورتیں ذِکْر کی ہیں جن میں صَبْر کرنا چاہئے:
1 مُـخْتَلِف نفسانی خواہشات پر (ان کے اِعْتِبَار سے)صَبْر کیا جائے۔
2 اللہ پاک کی طَاعَت میں ثابِت قَدَمی پرقائم رہنے میں صَبْر کا مُظاہَرہ کیا جائے۔
3 جن صورتوں میں مُجاہَدہ لازِم ہو ان میں خُوب ہِمَّت صَرف کی جائے اور دل کو نفسانی خواہشات، شیطانی وسوسوں اور آرائِشِ دنیا سے پاک رکھا جائے۔
4 بعض آفات میں صَبْر کرنا اس لئے لازِم ہوتا ہے کہ ظاہِری جسمانی اَعْضَا ان (سے بچاؤ) سے قاصِر ہوتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو دِل کو بھی ان آفات میں مَشْغُول ہونے سے روکا جاتا ہے۔
5 نَفْس کو حَق بات کا پابند بنا کر اسے زبان، دِل اور مُکَمَّل جِسْم کے ساتھ حَق بات سے وَابَسْتہ کر دیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے نیک اَعمال بجا لانے والے مومنین کی یہ صِفَت بیان کی ہے کہ وہ صَبْر کرنے والے ہوتے ہیں، نیز اللہ پاک نے ان کے اَعمال کی دُرُسْتی کے لئے صَبْر کو شَرْط ٹھہرایا ہے اور خَبَر دی ہے کہ حَق اور صَبْر والوں کے عِلاوہ باقی تمام لوگ خَسارے میں ہیں ۔ چنانچہ (سورۂ عَصْر میں) صَبْر کی عَظَمَت یوں بیان کی کہ اس کی الگ سے وَصِیَّت فرمائی۔
6 نَفْس کو اللہ پاک کی عِبَادَت کا پابند بنایا جائے اور اسے قَناعَت اور اللہ پاک کی رَضا (یعنی اس نے جو رِزْق اس کے مُقَدَّر میں لکھا ہے اس)پر راضی رہنے کا عَادِی بنایا جائے۔
7 مخلوق کو تکلیف پہنچانے سے باز رہا جائے کہ یہ عَدْل کرنے والوں کا مَقام ہے، نیز مخلوق سے تکلیف پاکر اسے بَرْدَاشْت کیا جائے کہ یہ مُـحْسِنِیْن کا مَقام ہے۔ یہ دونوں اللہ پاک کے اس فرمانِ عالیشان کے تحت داخِل ہیں: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ (پ ۱۴، النحل: ۹۰) ترجمۂ کنز الایمان: بے شک اللہ حُکْم فرماتا ہے اِنصاف اور نیکی (کا)۔
8 راہِ خُدا میں خَرْچ کیا جائے اور حَق داروں کو دَرَجہ بَدَرَجہ ان کے حُقوق ادا کئے جائیں۔
9 بے حَیائی یعنی عِلْم اور اِیمان کے اُمُور میں فُحْش کاموں سے بچا جائے۔
0 بُری باتوں یعنی جن کو عُلَمائے کِرام بُرا جانتے ہیں، ان سے بچا جائے۔
- بَغَاوَت و سرکشی یعنی ظُلْم و زِیادَتی سے دُور رہا جائے۔
= اُمُورِ دنیا میں فُضُول خَرچی کرنے،تکبُّر کے ذریعے حُدُودِ باری تعالیٰ سے تَجاوُز کرنے اور (اُمُورِ دینیہ میں) غُلُو سے بچا جائے۔
` نَفْس کو بدلے سے روکا جائے۔
! اللہ پاک پر تَوَکّل کی بنا پر (راہِ خُدا میں ملنے والی)اَذِیَّت بَرْدَاشْت کی جائے۔
@ نَفْس کو تقویٰ کا پابند بنایا جائے۔
# عَافِـیَّت کی حالَت میں صَبْر کیا جائے یعنی کسی نافرمانی کا مُرْتکِب نہ ہوا جائے۔
$ مال و دولت کی فراوانی میں بھی صَبْر کرے یعنی دولت نفسانی خواہشات کی تکمیل میں خَرْچ نہ کرے۔
% کسی نِعْمَت سے سرفراز ہونے پر بھی صَبْر کرے یعنی اس نِعْمَت کی مَدَد سے کسی مَعْصِیَّت میں مُبْتَلا نہ ہو۔
^ مَصَائِب و تکالیف کو چھپایا جائے اور ان کی شِکایَت نہ کر کے راحَت پائے۔
& نیک اَعمال کو بھی چھپایا جائے۔
* نَفْس کو نیک اَعمال کے ذِکْر سے لُطْف اندوز ہونے سے روکا جائے۔
(صدقات و خیرات کو چھپایا جائے۔
) فَقْر کو بچایا اور چھپایا جائے۔
_ فاقوں کی نَوبَت آجانے کی صُورَت میں اللہ پاک کی اس آزمائش پر ثابِت قَدَم رہا جائے۔
+ سب سے اَفضل صَبْر یہ ہے کہ بندے کو بارگاہِ خُداوندی میں حاضِری کا شَرَف حاصِل ہو تو وہ صَبْر کا مُظاہَرہ کرے اور کلامِ خُداوندی کو تَوجُّہ سے سنے،دل میں کسی دوسرے خَیال کو نہ آنے دے۔
~ صَبْر اللہ پاک سے حَیا کی بنا پر ہو۔
a یا اللہ پاک کی مَحبَّت میں ہو۔
b یا اس کے اَحْکام و رَضا کے سامنے سر جھکا کرہو۔
c یا خود کو مُکَمَّل طور پر اس کے حوالے کر کےہو۔ مُراد یہ ہے کہ خود کو قَضا و قَدَر کے حوالے کر کے پُرسُکُون ہو جائے اور اِنْعَامَاتِ باری تعالیٰ کا مُشاہَدہ کرے۔
d کرامات اور اللہ پاک کی نِشانیوں اور قُدْرَت کی کرشمہ سازیوں کے اِظْہَار کی خبریں نہ دی جائیں۔
e نَفْس کو عاجِزی و اِنکساری اور گمنامی کا پابند بنایا جائے۔
f بال بچوں کیلئے کمائی کرنا۔ g ان پر خَرْچ کرنا۔
h ان کی جانِب سے (بسا اَوقات) تکلیف پہنچنے پر بَرْدَاشْت کرنا بھی صبر ہے۔
ایک رِوایَت میں ہے:صَبْر تین۳ ہیں:1 مُصِیْبَت پر صَبْر 2طَاعَت (نیکیوں )پر صَبْر اور 3گناہوں سے صَبْر ۔توجس نے مُصِیْبَت پر صَبْر کیا اس کے لئے 300دَرَجات ہیں، ایک سے دوسرے درجے کے درمیان اِتنا فاصِلَہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے۔جس نے طَاعَت پر صَبْر کیا اس کے لئے 600 دَرَجات ہیں،ایک سے دوسرے درجے کے درمیان اتنا فاصِلَہ ہے جتنا ایک زمین سے دُوسْری زمین تک کا ہے اور جس نے گناہوں سے صَبْر کیا اس کے لئے 900 درجات ہیں ایک درجے سے دوسرے درجے کے درمیان اس سے دوگنا فا صلہ ہے جتنا زمین سے لیکر عرش تک کا ہے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
عَمَل کے اِعْتِبَار سے صَبْر کی دو۲قسمیں ہیں۔ پہلی قِسْم کے بغیر دین کی اِصلاح نہیں ہو سکتی جبکہ دوسری قِسْم دین میں فَساد پیدا کرنے کی اَصْل ہے۔ لہٰذا جن اُمُور میں دِین کی اِصلاح ہو ان پر صَبْر سے مُراد یہ ہے کہ ثابِت قَدَم رہے تا کہ اس کا اِیمان کامِل ہو اور جن اُمُور میں فسادِ دِیْن کا اندیشہ ہوان میں صَبْر یہ ہے کہ ان سے دُور رہے تاکہ اس کا یقین بہتر ہو۔ جبکہ حُکْم کے اِعْتِبَار سے صَبْر کی 4 قسمیں ہیں:1فَرْض 2مُسْتَحَب3حَرام اور 4مکروہ۔ شَریعَت نے جن کاموں سے مَنْع کیا ہے ان سے صَبْر(یعنی رکنا) فَرْض ہے۔ ناپسندیدہ کام(جو شرعاً مَـمْنُوع نہ ہو اس) سے صَبْر مُسْتَحَب ہے۔ تکلیف دِہ فعل جو شرعاً مَـمْنُوع ہے اس پر صَبْر(یعنی خاموشی) مَـمْنُوع ہے مَثَلًا کسی شخص یا اس کے بیٹے کا ہاتھ ناحق کاٹا جائے تو اس شخص کا خاموش رہنا اور صَبْر کرنا۔ایسے ہی جب کوئی شخص شَہْوَت سے مَغْلُوب ہو کر بُرے اِرادے سے اس کے گھر والوں کی طرف بڑھے تو اس کی غیرت بھڑک اٹھے لیکن غیرت کا اِظْہَار نہ کرے اور گھر والوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر صَبْر کرے،شَریعَت نے اس صَبْر کو حَرام قرار دیا ہے۔ مَکْرُوہ صَبْر یہ ہے کہ شرعاً ناپسندیدہ چیز کے ذریعے پہنچنے والی تکلیف پر صَبْر کرے۔
حضرت سَیِّدُنا امام محمد بن غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: صَبْر کی 2 قسمیں ہیں:
1 جسمانی 2 نفسی
جسمانی صَبْر سے مُراد بَدَن کا مشقتیں اُٹھانا اور ان پر ثابِت قَدَم رہنا ہے۔یہ کبھی کسی فعل کے ذریعے ہو گا جیسا کہ عِبادات و مُعامَلات میں نفس پر گراں گزرنے والے اَعمال بجا لانا یا پھر قوّتِ بَرْدَاشْت کے ذریعے ہو گا جیسا کہ سَخْت تکلیف، خطرناک بیماری اور گہرے زَخْم پر صَبْر کرنا۔ اس صَبْر میں اگر شَریعَت سے روگردانی نہ پائی جائے تو یہ پسندیدہ ہے لیکن اس سے زیادہ پسندیدہ دوسری قسم یعنی نفسی صَبْر ہے اور اس سے مُراد ہے کہ نَفْس کا طبعی و نفسانی خواہشات کی پیروی سے باز رہنا۔
اگر کسی ناپسندیدہ چیز پر صَبْر کیا جائے تو چیزوں کے مُـخْتَلِف ہونے کی وجہ سے صَبْر کے مُـخْتَلِف نام رائج ہیں۔ مَثَلًا
اگر نفس پیٹ اور شرم گاہ کی خواہش پوری کرنے سے رکا رہے تو اسے عِفّت(یعنی پاک دامنی) کہتے ہیں۔
مُصِیْبَت میں نَفْس پُرسکون رہے تو اسے صَبْر کہتے ہیں اور اس کی ضد گھبراہٹ و بَدحَواسی کہلاتی ہے یعنی مُصِیْبَت کے وَقْت چیخنا، گالوں پر ہاتھ مارنا، گِرِیبان پھاڑنا اور دیگر کاموں میں حد سے بڑھ جانا۔
مال ودولت کے باوُجود نَفْس صَبْر کرے تو اسے ضَبْطِ نفس کہتے ہیں، اس کی ضِد تکبُّر ہے۔
جنگ و مقابلے میں صَبْر کرنے کو شُجَاعَت و بَہَادُرِی کہتے ہیں اور اس کی ضِد بُزدِلی ہے۔
غصّہ پینے کی صُورَت میں صبر کرنا بُردباری کہلاتا ہے اور اس کی ضِد عدمِ بَرْدَاشْت ہے۔
زمانے کے کٹھن وقتوں میں صَبْر کرنے کو فراخ دِلی کہتے ہیں،جس کی ضِد تنگ دلی و پریشان حالی ہے۔
اگر بات چھپانے میں ہو تو اسے رازداری اور ایسے شخص کو رازدار کہتے ہیں۔
موجود پر صَبْر کیا جائے زیادہ کی تَمنّا نہ کی جائے تو یہ زُہْد کہلاتا ہے،جس کی ضِد حِرْص ہے۔
اگر تنگدستی اور حاجت سے کم ہونے کے باوُجُود صَبْر کیا جائے تو اسے قَناعَت کہتے ہیں اور اس کی ضِد بےاطمینانی ہے۔
یوں ہی صَبْر کی ایک اور قسم بڑی مَشْہُور ہے جسے صَبْر جمیل کہا جاتاہے۔ وہ یہ ہے کہ مُصِیْبَت میں مُبْتَلا شخص کو کوئی نہ پہچان سکے(یعنی اس کی پریشانی کسی پر ظاہِر نہ ہو) البتہ!دل کا غَمْزَدَہ ہونا اور آنکھوں کا آنسو بہانا اسے صابِرِیْن کی فَہْرِسْت سے خارِج نہیں کرے گا کیونکہ یہ مُعامَلہ تو ہر اِنسان کے ساتھ ہے کیونکہ(اپنے پیاروں کی)موت پر غَمْزَدَہ اور رونا تو ہراِنسان کا بَشَری تقاضا ہے اور یہ اِنسان سے مَرتے دَم تک جُدا نہیں ہوسکتا۔