Seerat ul Anbiya
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Seerat ul Anbiya | سیرتُ الانبیاء

    سیرتُ الانبیاء
                
    بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کتاب ’’سیرت الانبیاء‘‘ کا مطالعہ کرنے کی نیتیں فرمانِ مصطفے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم :’’ نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌمِّنْ عَمَلِہٖ ‘‘مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔( المعجم الکبیر للطبرانی ٦ /١٨٥حدیث: ٥٩٤٢) دو مَدَنی پھول: (۱)اچّھی نیّت کے بغیر کسی بھی نیک کام کا ثواب نہیں ملتا۔ (٢) جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ ملے گا۔ (1) اللہ تعالیٰ کی رضا پانے اوراپنے علم میں اضافے کے لئے کتاب’’سیرت الانبیاء ‘‘ کا شروع سے آخر تک مطالعہ کروں گا۔(2) باوضو ہو کر اور قبلہ کی طرف منہ کر کے مطالعہ کرنے کی کوشش کروں گا۔(3)قراٰ نی آیات کی درست مخارج کے ساتھ تلاوت کروں گا ۔(4)آیات کا ترجمہ پڑھ کراسےسمجھنے کی کوشش کروں گا۔(5) صالحین کے تذکرے کے وقت نازل ہونے والی رحمتِ الٰہی سے حصہ پاؤں گا۔(6)اپنے دل میں موجودانبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام کی عزت و عظمت میں اضافہ کروں گا اور ان کی توہین و بے ادبی سے بچوں گا۔(7)انبیاءو مرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام سے متعلق درست عقائد و نظریات کا علم حاصل کر کے ان پر استقامت کے ساتھ کاربند رہوں گا۔(8)ان کی پاکیزہ سیرت و کردار سے رہنمائی لے کر اپنے احوال کی اصلاح کروں گا۔(9) سیرتِ انبیاء پر عمل کرتے ہوئے اپنی طاقت کے مطابق نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کا فریضہ سر انجام دوں گا۔(10)عذابِ الٰہی کا شکار ہونے والی قوموں کے دردناک انجام سے عبرت لیتے ہوئے ان جیسے اعمال کرنے سے بچوں گا۔(11) قرآن میں سابقہ قوموں کے احوال بیان کرنے کی حکمتوں پر غور و فکر کرکے اپنی اصلاح کروں گا۔ (12)ابلیس ، بلعم بن باعوراء اور قارون کے مقام و انجام کا مطالعہ کر کے اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈروں گا۔ (13)اس کے مطالعہ کا ثواب آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ساری امت کو ایصال کروں گا۔ (14) کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشرین کو تحریری طور پر مطلع کروں گا (ناشرین ومصنف وغیرہ کو کتابوں کی اغلاط صرف زبانی بتانا خاص مفید نہیں ہوتا)۔ مقدمہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنی خلافت کے لیے اپنے دستِ قدرت سے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کوبنایا،پھر ان میں اپنی طرف سے ایک خاص روح ڈالی اور جنت میں رہائش عطا کی،یہاں ان کی زوجہ حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو بنایا،ایک عرصہ تک یہ دونوں جنت میں رہے ،پھر ان کی تخلیق کے اصل مقصد کی تکمیل کے لیے درخت کا پھل کھانے کے بعد انہیں جنت سے زمین پر اتار دیا گیا ۔حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام پہلے انسان بھی تھے اور زمین پر پہلے نبی بھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازاجس سے رفتہ رفتہ انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوااور لوگ مختلف قوموں،قبیلوں میں تقسیم ہو کر زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہوتے چلے گئے ۔آسمانی صحیفوں، قرآنی تعلیمات اور جدید ترین تحقیق کے مطابق ابتدا میں انسان توحید اور مذہب کے ماننے والے ہی تھے ،وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے اور صرف اسی کے عبادت گزار تھے جبکہ کفر و شرک بعد کی پیداوار ہیں۔ انسان کی زمین پر آمد کے بعد گزرتے وقت کے ساتھ ابلیس کی کوششیں رنگ لانا شروع ہوئیں اور لوگ اس کے بہکاووں اور وسوسوں کا شکار ہو کرگناہ اور گمراہی میں مبتلا ہو گئے؛ یہاں تک کہ خالقِ حقیقی، معبودِ برحق کی بندگی چھوڑ دی اور اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے بتوں کو خدا کا شریک اور اپنا معبود ٹھہرا لیا۔ کفر وشرک، گمراہی اور بد عملی کےاُس ماحول میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے، شرک سے روکنے، ایمان لانے پر جنت کی بشارت دینے اورکفر وانکارپر عذاب کی وعید سنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا منصب عطا فرما کر ان کے پاس بھیجا۔ان میں سب سے پہلے کفار کی طرف حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کورسول بنا کر بھیجا گیا،انہوں نے سینکڑوں سال تک بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ ہدایت پر لانے کی کوشش کی لیکن گنے چنے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے تیار نہ ہوا،آخر کار جب ان لوگوں کے ایمان لانے کی امیدیں ختم ہو گئیں تو حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے ان کے خلاف دعا کی اور ایک بہت بڑے طوفان کے ذریعے روئے زمین کے تمام کفار ہلاک کردئیے گئے جبکہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام اور اہل ایمان کو رب ِ کریم نے اس عذاب سے محفوظ رکھا ۔ طوفان ختم ہونے کے بعد حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام اہل ایمان کے ساتھ کشتی سے زمین پر اُتر آئے اور ایک شہر آباد کیا،پھر آپ سے انسانوں کی نسل آگے چلی ، اسی لئے آپ کو ’’آدم ثانی‘‘(یعنی دوسرے آدم ) کہا جاتا ہے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے وصال کے کچھ عرصہ بعد لوگ بت پرستی کے رستے پر چل پڑے اور ان کی اصلاح کےلئے اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات میں مختلف قوموں کی طرف پے در پے انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام کو روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجا، لوگوں کی ہدایت و نصیحت کے لیے ان پیغمبروں پرکئی صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں ۔ ان سب کی دعوت اورتبلیغ و نصیحت کا ایک ہی محور تھا کہ اے لوگو! واحد اور حقیقی خدا پر ایمان لاؤ ، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، اسی کے سامنے اپنی جبینِ نیاز جھکاؤ اوراسی کی بارگاہِ بے نیاز میں سجدہ ریز ہو ، اس کے بھیجے ہوئے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلَام پر ایمان لاؤ،ان کی اطاعت و فرمانبرداری پر کمر بستہ ہو جاؤ ،گناہ و نافرمانی ،سرکشی اور ہٹ دھرمی سے بچو اورلوگوں کے حقوق ادا کرو ۔یہ نصیحتیں قبول کرنے کی بجائے عموما ًقوم کے سر کردہ افراد نے ان رسولوں کا مذاق اڑایا، ان پر پھبتیاں کسیں،طعن و تشنیع کے نشتر چلائے ،انہیں اپنے جیسا بشر قرار دے کر اطاعت سے منہ موڑا،غریب لوگوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے انہیں ایمان لانے سے روکا بلکہ بہت سے نبیوں کو شہید کردیا اور ان اقوام کی بے باکی کا یہ عالَم تھا کہ عذابِ الٰہی کی وعیدیں سن کر ڈرنے کی بجائے الٹا نزولِ عذاب کا مطالبہ کردیتے اورآخر کار ان کی سرکشی اپنے انجام کو پہنچی اوربہت سی اقوام مختلف عذابوں سے ہلاک کر دی گئیں ۔ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی ، حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ ان کی ربانی سیرتوں، راہِ خدا میں کاوشوں اور خدائی پیغام پہنچانے میں اٹھائی گئی مشقتوں میں تمام انسانیت کےلئے عظمت، شوکت، کردار، ہمت، حوصلے اور استقامت کا عظیم درس موجود ہے۔ ان کی سیرت کامطالعہ آنکھوں کو روشنی، روح کو قوت، دلوں کو ہمت، عقل کو نور،سوچ کو وسعت، کردار کو حسن، زندگی کو معنویت ، بندوں کو نیاز اور قوموں کو عروج بخشتا ہے۔ اس وقت کتاب ’’سیرت الانبیاء ‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے جس کا موضوع اس کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ مطالعہ کتاب سے پہلےتین ابواب میں انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام اور ان کی اقوام سے متعلق کچھ ضرور ی باتیں اور چوتھے باب میں اس کتاب کا منہج و اسلوب ملاحظہ ہو۔ باب:01

    انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام کا تعارف

    نبی اور رسول کی تعریف:

    نبی اُس بشر ( یعنی انسان)کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وحی بھیجی ہو اور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے ؛اسے رسول کہتے ہیں۔

    وحی کی تعریف:

    نبی ہونے کے لیے اُس پر وحی ہونا ضروری ہے، خواہ فرشتہ کی معرفت ہو یا بلا واسطہ اوروحی کا لغوی معنی ہے : پیغام بھیجنا، دل میں بات ڈالنا، خفیہ بات کرنا۔ شریعت کی اصطلاح میں وحی وہ خاص قسم کا کلام ہے جو کسی نبی پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہو۔نیز وحیِ نبوت، انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے لیے خاص ہے ، جو اسے کسی غیرِ نبی کے لیے مانے وہ کافر ہے۔

    وحی کی مختلف صورتیں:

    ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ(۵۱)(1) ترجمہ : اور کسی آدمی کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر یا (یوں کہ وہ آدمی عظمت کے) پر دے کے پیچھے ہویا (یہ کہ) اللہ کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ فرشتہ اس کے حکم سے وحی پہنچائے جو اللہ چاہے۔ بیشک وہ بلندی والا، حکمت والا ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں کسی آدمی کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے البتہ تین صورتیں ایسی ہیں جن میں کسی فردِبشر سے کلام ممکن ہے۔ (1) وحی کے طور پریعنی اللہ تعالیٰ کسی واسطہ کے بغیر اس کے دل میں اِلقا فرما کر اور بیداری میں یا خواب میں اِلہام کرکے کلام فرمائے۔ اس صورت میں وحی کا پہنچنا فرشتے اور سماعت کے واسطے کے بغیر ہے اور آیت میں ’’اِلَّا وَحْیًا ‘‘سے یہی مراد ہے۔نیز اس میں یہ قید بھی نہیں کہ اس حال میں جس کی طرف وحی کی گئی ہو وہ کلام فرمانے والے کو دیکھتا ہو یا نہ دیکھتا ہو۔ امام مجاہد رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کے سینۂ مبارک میں زبور کی وحی فرمائی اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو فرزند ذبح کرنے کی خواب میں وحی فرمائی اورمحمد مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے معراج میں اسی طرح کی وحی فرمائی جس کا ’’فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى ‘‘ میں بیان ہے۔یہ سب اسی قسم میں داخل ہیں ، انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے خواب حق ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے خواب وحی ہیں ۔ (2) وہ آدمی عظمت کے پر دے کے پیچھے ہویعنی رسول پسِ پردہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنے، وحی کے اس طریقے میں بھی کوئی واسطہ نہیں لیکن سننے والے کواس حال میں کلام فرمانے والے کا دیدار نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اسی طرح کے کلام سے مشرف فرمائے گئے ۔ یہاں یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے کوئی ایسا پردہ ہو جیسا جسم اور جسمانی چیزوں کے لئے ہوتا ہے اور آیت میں مذکور پردہ سے مراد سننے والے کا دنیا میں دیدار نہ کر سکنا ہے۔ (3) اللہ تعالیٰ کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وحی پہنچائے ۔وحی کے اس طریقے میں رسول کی طرف وحی پہنچنے میں فرشتے کا واسطہ ہے۔(2)

    انبیاء و مرسلین کی تعداد:

    انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام کی تعداد سے متعلق روایات مختلف ہیں ،اس لئےان کی صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہم ان کی کوئی تعداد معین نہ کریں کیونکہ معین تعداد پر ایمان لانے میں کسی نبی کی نبوت کا انکار ہو نے یا کسی غیر نبی کو نبی مان لینے کا احتمال موجود ہے اور یہ دونوں باتیں بذاتِ خود کفر ہیں۔

    اسمائے انبیاء :

    یوں توحضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام تشریف لائے؛البتہ ان میں سے27 کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآنِ مجید میں موجود ہے: (1) حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام ،(2)حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام ،(3)حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام ،(4) حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام ،(5) حضرت اسحاق عَلَیْہِ السَّلَام ، (6) حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام ، (7) حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام ، (8) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ،(9) حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلَام ،(10)حضرت خضر عَلَیْہِ السَّلَام ( کہ راجح قول کے مطابق یہ بھی نبی ہیں۔) (11) حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام ،(12)حضرت لُوط عَلَیْہِ السَّلَام ، (13) حضرت ہُود عَلَیْہِ السَّلَام ، (14) حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام ،(15) حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام ،(16) حضرت ایّوب عَلَیْہِ السَّلَام ،(17) حضرت زکریا عَلَیْہِ السَّلَام ، (18) حضرت یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام ، (19) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ، (20) حضرت الیاس عَلَیْہِ السَّلَام ، (21) حضرت یسع عَلَیْہِ السَّلَام ، (22)حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام ، (23) حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام ، (24)حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ السَّلَام ، (25)حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام ، (26) حضرت عزیر عَلَیْہِ السَّلَام ،(27) خاتم الانبیاء محمد رسول اﷲ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔ ان کے علاوہ تورات میں حضرت شیث عَلَیْہِ السَّلَام ،حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت یوشع عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت شمویل عَلَیْہِ السَّلَام ،حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام اورحضرت شعیا عَلَیْہِ السَّلَام کے مبارک نام بھی مذکور ہیں۔

    معجزہ کی تعریف:

    نبی کے دعوی نبوّت میں سچے ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ وہ اپنی سچائی کا اعلانیہ دعویٰ فرماکرایسے امور ظاہر کرنے کا ذمہ لیتے ہیں جو عادۃً محال ہوں اور منکروں کو اس جیسے امور ظاہر کرنے کی دعوت دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کے دعویٰ کے مطابق محالِ عادی امر ظاہر فرما دیتا ہے اور منکرین سب اسے ظاہر کرنے سے عاجز رہتے ہیں، اسی کو معجزہ کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بات یقینی،قطعی اور حتمی ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری کے بعد اب کوئی نیا نبی ہرگز نہیں ہوسکتا،لہذا اب اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ یقیناً جھوٹا ہے،ایسے شخص سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کرنے سے متعلق امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اگر مدعیِ نبوت سے اِس خیال سے کہ اس کا عجز(یعنی نہ کرسکنا) ظاہر ہو معجزہ طلب کرے تو حرج نہیں او راگر تحقیق کے لئے معجزہ طلب کیا کہ یہ معجزہ بھی دکھا سکتا ہے یا نہیں؛ تو فوراً کافر ہوگیا ۔ (3)

    مشہور معجزات:

    قرآن و حدیث میں انبیاء و مرسلین کے کثیر معجزات کا ذکر ہے، جیسے حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی اونٹنی جو پہاڑ سے نکلی تھی ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے عصا کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا روشن ہو جانا،پتھر پر عصا مارنے سے پانی کے چشمے جاری ہوجانا ، دریا پر عصا مارنے سے اس میں خشک راستے بن جانا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا دودھ پینے کے دنوں میں کلام فرمانا، مُردوں کو زندہ کر نا، پیدائشی نابینا کو آنکھوں کا نور اور کوڑھ کے مریض کو شفا دینا اورہمارے آقا محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے معجزات بے شمار ہیں مثلاً:چاند کو دو ٹکڑے کرنا،سفر معراج، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر دینا، جانوروں اور لکڑی کے ستون کا کلام کرنا،پرندوں کا فریاد کرنا اور درختوں ،پتھروں کا سجدہ کرنا وغیرہ۔ اعلیٰ حضرت کیا خوب فرماتے ہیں: اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں انگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاریجوش پر آتی ہے غمخواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد اسی در پر شترانِ ناشاد گلہء رنج و عنا کرتے ہیں

    ​​آسمانی کتابیں اور صحیفے :

    اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام پر صحیفے(چھوٹے سائز کی کتابیں) اور کتابیں نازل فرمائیں ،ان میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں: (1)تورات: یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی،یہ سب سے پہلی آسمانی کتاب ہے، اس سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کو صحیفے(چھوٹے سائز کی کتابیں) ہی ملتے تھے۔اس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌۚ-یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَۚ- (4) ترجمہ : بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور ہے، فرمانبردار نبی اور ربانی علماء اور فقہاء یہودیوں کو اسی کے مطابق حکم دیتے تھے کیونکہ انہیں ( اللہ کی اس) کتاب کا محافظ بنایا گیا تھااور وہ اس کے خودگواہ تھے۔ (2)زبور:یہ حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی۔اس میں 150سورتیں ہیں، سب دعا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پر مشتمل ہیں ،ان میں حلال و حرام، فرائض اور حدود و احکام کا ذکر نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا (5) ترجمہ : اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ (3)انجیل: یہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ فِیْهِ هُدًى وَّ نُوْرٌۙ-وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَؕ(۴۶)(6) ترجمہ : اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھااوروہ (انجیل) اس سے پہلے موجود تورات کی تصدیق فرمانے والی تھی اورپرہیز گاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت تھی۔ (4)قرآنِ مجید:یہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر نازل ہوئی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ(۱) قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًاۙ(۲)(7) ترجمہ : تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی۔ لوگوں کی مصلحتوں کو قائم رکھنے والی نہایت معتدل کتاب تاکہ اللہ کی طرف سے سخت عذاب سے ڈرائے اوراچھے اعمال کرنے والے مومنوں کو خوشخبری دے کہ ان کے لیے اچھا ثواب ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت شیث عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام پر بہت سے صحیفے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر نزولِ تورات سے پہلے کچھ صحیفے نازل ہوئے۔ صحیفوں سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے: جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالزُّبُرِ وَ بِالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ(۲۵)(8) ترجمہ : ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں اور صحیفے اورروشن کردینے والی کتابیں لے کر آئے۔

    آسمانی کتابوں سے متعلق 4 ضروری باتیں:

    (1)تمام آسمانی کتابوں میں سب سے افضل ’’قرآنِ مجید ‘‘ ہے اور یہاں افضل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے اس میں ثواب زائد ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ ایک ،اُس کا کلام ایک ؛ اِس میں زیادہ فضیلت والے اور کم فضیلت والے کی گنجائش نہیں ہے۔ (2)سب آسمانی کتابیں اور صحیفے حق اور سب کلام ِ الٰہی ہیں،اُن میں جو کچھ ارشاد ہوا سب پر ایمان لانا ضروری ہے، البتہ ایک اہم بات ذہن نشین رہے کہ اگلی کتابوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اُمّت کے سپرد کی تھی، اُن سے اِن کی حفاظت نہ ہوسکی اورکلامِ الٰہی جیسا اُترا تھا ؛اُن کے ہاتھوں میں ویسا باقی نہ رہا، بلکہ اُن کے شریروں نے تو یہ کیا کہ اُن میں تحریفیں کر دیں، یعنی اپنی خواہش کے مطابق کمی بیشی کر دی ، لہٰذا جب اُن کتابوں کی کوئی بات ہمارے سامنے پیش ہواور وہ ہماری کتاب قرآن کے مطابق ہے تو ہم اُس کی تصدیق کریں گے اور اگر مخالف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ اُن کی تحریفات سے ہے اور اگر موافقت، مخالفت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تصدیق کریں نہ انکار، بلکہ یوں کہیں گے: اللہ تعالیٰ،اُس کے فرشتوں ، اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ہمارا ایمان ہے۔ (3)دین اسلام چونکہ روزِ قیامت تک باقی رہنے والا دین ہے، اس لیے قرآنِ پاک کی حفاظت کی ذمہ داری مخلوق کو نہ دی گئی بلکہ ربِّ کائنات نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹)(9) ترجمہ : بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ لہٰذا اس میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بیشی محال ہے، اگرچہ ساری دنیا اس کو بدلنے پر جمع ہو جائے، تو جو یہ کہے کہ اس میں سے کچھ پارے ،یا سورتیں، یا آیتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا، یا بڑھا دیا، یا بدل دیا، وہ قطعاً کافر ہے کہ اس نے مذکورہ بالا آیتِ قرآنی کا انکار کر دیا۔ (4)قرآنِ پاک کے علاوہ جتنی آسمانی کتابیں نازل ہوئیں وہ صرف انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو زبانی یاد تھیں اور ان کی امت کے لوگ صرف دیکھ کر ہی ان کی تلاوت کر سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امت کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ ان میں چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں قرآنِ پاک زبانی یاد ہے۔

    اوصافِ انبیاء:

    انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے ،چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵)(10) ترجمہ : بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا ، بہت آہیں بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)(11) ترجمہ : اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والارسول تھا۔اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتاتھا اوروہ اپنے رب کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔ حضرت عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں ہے: قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ(۳۰) وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲)(12) ترجمہ : بچے نے فرمایا: بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں ۔ اور (مجھے) اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے متکبر، بدنصیب نہ بنایا۔ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بارے میں فرمایا: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪- فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ-فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ(۱۵۹) (13) ترجمہ : تو اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے تو آپ ان کو معاف فرماتے رہو اوران کی مغفرت کی دعا کرتے رہو اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو پھرجب کسی بات کا پختہ ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بیشک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔ اور ارشاد فرمایا: لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴)(14) ترجمہ : بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناًکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ اور ارشاد فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷)(15) ترجمہ : وہ جواس رسول کی اتباع کریں جو غیب کی خبریں دینے والے ہیں ،جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، جسے یہ (اہلِ کتاب )اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور انہیں برائی سے منع کرتے ہیں اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ مزید احادیث و آثار میں موجود بے شمار اوصاف میں سے 42 اوصاف کی فہرست بھی ملاحظہ ہو(1)حکمت آمیز گفتگو کرنا۔(2)اچھی بات کے سوا خاموش رہنا۔(3) حصولِ علم کے لیے سفر کرنا۔(4) علم میں اضافے کا خواہش مند رہنا۔(5)لوگوں کو دین کا علم سکھانا۔(6) بھلائی کے کاموں کی طرف ان کی رہنمائی کرنا۔ (7) لوگوں کی خیرخواہی اوران کے حقوق ادا کرنا۔(8) ضعیفوں، یتیموں، مفلسوں، مساکین اور خادمین کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آنا۔ (9)بردباری اور حسنِ اخلاق سے پیش آنا۔(10) لوگوں کی خطاؤں سے درگزر کرنا۔(11)ان کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر و تحمل کرنا۔(12) برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا ۔ (13) مخلوقِ خدا کو وعظ و نصیحت کرنا۔(14) حق بات بیان کرنے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا۔(15) عدل و انصاف سے کام لینا اور حق فیصلہ کرنا۔(16تا18) سخاوت،مہمان نوازی اور مہمانوں کی عزت و تکریم میں سب سے آگے ہونا۔(19) والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔(20) ان کے ساتھ تعظیم و ادب سے پیش آنا۔ (21)ان کے لیے دعائیں کرنا۔(22) بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں سے وقتِ ملاقات مصافحہ ، معانقہ کرنا اورخندہ پیشانی سے پیش آنا۔ (23) خود کو اللہ تعالیٰ کا محتاج بندہ ماننا۔ (24)اس کی تقدیر اور رضا پر راضی رہنا۔(25)اپنے تمام معاملات میں اسی پر بھروسہ رکھنا۔(26)رحمتِ الٰہی کی امید اور خوف ِ خداکے درمیان رہنا۔(27)نارِ جہنم سے یقینی آزادی کا پروانہ ملنے کے باوجود جہنم سے خدا کی پناہ مانگتے رہنا۔(28) تذکرہ ٔجہنم کے وقت اشک بار ہو جانا۔(29)گناہوں سے معصوم ہونے کے باوجود بارگاہِ غفار میں توبہ و استغفار کرنا ۔ (30) اپنی راتیں قیام و نماز اور ذکر و اذکار میں گزارنا۔(31) روزے رکھنا۔(32) مسجدِ حرام و دیگر مساجد میں اعتکاف کرنا۔(33،34) خانۂ کعبہ کا حج اور قربانی کرنا۔(35)کلامِ الٰہی کی تلاوت ان کی مقدس زبانوں سے جاری رہنا۔(36) نیک کاموں میں جلدی کرنا۔ (37)بارگاہِ الٰہی میں دعا ئیں کرنا۔(38)قبولیتِ دعا کے اوقات ، مقامات اور آدابِ دعا کا خیال رکھنا ۔(39)دعا میں مختصر اور جامع الفاظ ذکر کرنا ۔(40،41)دورانِ دعا اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار کرنا اورتقاضائے حال کے مطابق اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرنا ۔(42)وقتِ وصال اپنی اولاد کو دین پر قائم رہنے کی وصیت کرنا۔

    فضائلِ انبیاء:

    قرآن و حدیث میں انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام کے انفرادی اور مجموعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں ، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ- (16) ترجمہ : یہ رسول ہیں ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا فرمائی ،ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلندی عطا فرمائی اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کوکھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی ۔ اس آیت میں جملہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام میں سے بطور ِ خاص تین انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کا ذکر فرمایا گیا۔ (1) حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ۔ان سے اللہ تعالیٰ نے کوہِ طور پر بلا واسطہ کلام فرمایا؛ جبکہ یہی شرف سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معراج میں حاصل ہوا۔ (2)حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ۔انہیں روشن نشانیاں عطا ہوئیں ، جیسے مردے کو زندہ کرنا، بیماروں کو تندرست کرنا، مٹی سے پرندہ بنانا، غیب کی خبریں دینا وغیرہ، نیز روحُ القُدُس یعنی حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی تائید کی گئی جو ہمیشہ آ پ کے ساتھ رہتے تھے۔ (3)یہ وہ ہستی ہیں جن کے بارے میں فرمایا کہ کسی کو ہم نے درجوں بلندی عطا فرمائی اور وہ ہمارے آقا و مولا، ملجاء و ماویٰ، حضور پر نور، سیدُ الانبیاء ،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں کہ آپ کو کثیر درجات کے ساتھ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام پرفضیلت عطا فرمائی۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وہ خصائص وکمالات جن میں آپ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام پر فائق و افضل ہیں اور ان میں آپ کا کوئی شریک نہیں ، بے شمار ہیں کیونکہ قرآنِ کریم میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ درجوں بلند کیا اور ان درجوں کا کوئی شمار قرآنِ کریم میں ذکر نہیں فرمایا گیا، تو اب ان درجوں کی کون حد لگاسکتا ہے؟ مزید ارشاد فرمایا: اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَۗ-وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ٘-وَّ مِنْ ذُرِّیَّةِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْرَآءِیْلَ٘-وَ مِمَّنْ هَدَیْنَا وَ اجْتَبَیْنَاؕ-اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا۩(۵۸) (17) ترجمہ : یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا، جو آدم کی اولاد میں سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا اور ابراہیم اور یعقوب کی اولاد میں سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہم نے ہدایت دی اور چن لیا۔ جب ان کے سامنے رحمٰن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو یہ سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گر پڑتے ہیں ۔ اور ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۳)(18) ترجمہ : بیشک اللہ نے آدم اور نوح اور ابراہیم کی اولاد اور عمران کی اولاد کو سارے جہان والوں پر چن لیا۔ اور ارشاد فرمایا: وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَۙ(۸۴) وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶) وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْۚ-وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۸۷) (19) ترجمہ : اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔ ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو (ہدایت عطا فرمائی) اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔ اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے (بھی) بعض کو (ہدایت دی) اور ہم نے انہیں چن لیا اور ہم نے انہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں: کچھ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم درِ اقدس پر بیٹھے امام الانبیاء صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تشریف لانے کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے حجرۂ مبارکہ سے نکلے اور جب ان کے قریب پہنچے تو انہیں باتیں کرتے ہوئے سنا ،کوئی کہہ رہاتھا: تعجب ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا: اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے بے واسطہ کلام فرمانا کس قدر تعجب والاہے۔ تیسرے نے کہا : حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور اس کی خاص روح ہیں ۔ چوتھے نے کہا:حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے ۔ جب وہ سب کہہ چکے تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قریب آئے اور ارشاد فرمایا : میں نے تمہارا کلام اورتمہارا تعجب کرنا سنا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام خَلِیْلُ اللہ ہیں۔ہاں وہ ایسے ہی ہیں ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نَجِیُّ اللہ ہیں اوربیشک وہ ایسے ہی ہیں ۔حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام رُوح اللہ ہیں اور وہ واقعی ایسے ہی ہیں۔ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام صَفِیُّ اللہ ہیں اور حقیقت میں وہ ایسے ہی ہیں ۔(اب میری شان ) سن لو! میں اللہ تعالیٰ کا پیارا ہوں ؛ اور کچھ فخر مقصود نہیں ۔ میں روزِ قیامت حمد کا جھنڈا اٹھاؤں گا جس کے نیچے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اوران کے سواسب ہوں گے ؛ اورکچھ فخر نہیں ۔ میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں اور میری شفاعت مقبول ہے ، اورکچھ فخر نہیں ۔سب سے پہلے میں دروازۂ جنت کی زنجیر ہلاؤں گا، اللہ تعالیٰ میرے لئے دروازہ کھول کر مجھے اندر داخل کرے گا اور میرے ساتھ فقرائے مومنین ہوں گے؛ اوریہ فخر کی وجہ سے نہیں کہتا۔ میں بارگاہِ الٰہی میں سب اگلے پچھلوں سے زیادہ عزت والا ہوں ؛ اوریہ بڑائی کے طور پر نہیں فرماتا۔(20)

    فضائل ِانبیاء سے متعلق دو اہم باتیں:

    (1) نبی ہونے میں تو تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام برابر ہیں اور قرآن میں جہاں یہ آتا ہے کہ ہم ان میں کوئی فرق نہیں کرتے اس سے یہی مراد ہوتا ہے کہ اصلِ نبوت میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں؛ البتہ ان کے مَراتِب جداگانہ ہیں ، خصائص و کمالات میں فرق ہے، ان کے درجات مختلف ہیں ، بعض بعض سے اعلیٰ ہیں اور ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے اعلیٰ ہیں ۔(21) (2)جب انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے باہمی فضائل بیان کئے جائیں تو صرف وہ فضائل بیان کریں جو قرآن مجید، احادیثِ مبارکہ یا اولیاء و محَقّق علماء سے ثابت ہوں ، اپنی طرف سے گھڑ کر کوئی فضیلت بیان نہ کی جائے اور ان فضائل کو بھی اس طرح بیان نہ کیا جائے جس سے معاذ اللہ کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی تحقیر کا پہلو نکلتا ہو۔
    1… پ۲۵،ا لشوری :۵۱. 2تفسیرکبیر، الشوری، تحت الاٰية :۵۱، ۹/۶۱۱، مدارک، الشوری، تحت الاٰیة :۵۱، ص ۱۰۹۳، ابو سعود، الشوری، تحت الاٰیة :۵۱، ۵/۵۳۴، ملتقطاً. 3… ملفوظات اعلی حضرت، ص ۱۳۴. 4… پ۶، المائدة :۴۴. 5… پ۱۵، بنی اسرائیل :۵۵. 6… پ۶، المائدة :۴۶. 7…پ۱۵، الکہف :۱، ۲. 8… پ۲۲، فاطر :۲۵. 9… پ۱۴، الحجر : ۹. 10…پ۱۲، هود :۷۵. 11… پ۱۶، مریم :۵۴، ۵۵. 12… پ۱۶، مریم :۳۰-۳۲. 13…پ۴، اٰل عمرٰن :۱۵۹. 14… پ۴، اٰل عمرٰن :۱۶۴. 15… پ۹، الاعراف :۱۵۷. 16…پ۳، البقرة :۲۵۳. 17…پ۱۶، مریم :۵۸. 18… پ۳، اٰل عمرٰن :۳۳. 19…پ۷، الانعام :۸۴-۸۷. 20ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی ، ۵/۳۵۴، حدیث :۳۶۳۶، مشکاة المصابیح، کتاب احوال القیامة و بدء الخلق، باب فضائل سید المرسلین ، ۲/۳۵۶، حدیث :۵۷۶۲. 21خازن، البقرة، تحت الاٰية :۲۵۳، ۱/۱۹۳، مدارک، البقرة، تحت الاٰية :۲۵۳، ص ۱۳۰، ملتقطاً.

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن