اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
(ایک معلوماتی مکتوب)
شیطان اپنے خلاف لکھا ہوا یہ رسالہ (52صفحات) پڑھنے سے
لاکھ روکے مگر آپ مکمَّل پڑھ کر اِس کے وار کو ناکام بنا دیجئے۔
سلطانِ دوجہان، مدینے کے سلطان، رَحمتِ عالَمِیان، سروَرِ ذیشان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنَّت نشان ہے: جو مجھ پر جُمُعہ کے دن اور رات 100 مرتبہ دُرُود شریف پڑھے اللہ تَعَالٰی اُس کی 100 حاجتیں پوری فرمائے گا، 70 آخِرت کی اور30 دُنیا کی اور اللہ تَعَالٰی ایک فِرِشتہ مقرَّر فرمادے گا جو اُس دُرُودِ پاک کو میری قبر میں یوں پہنچائے گا جیسے تمہیں تحائف پیش کئے جاتے ہیں، بِلاشبہ میرا عِلْم میرے وِصال کے بعد وَیسا ہی ہوگا جیسا میری حیات میں ہے۔ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی، ج۷ ، ص۱۹۹ ، حدیث : ۲۲۳۵۵ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ایک دُکھیارے اسلامی بھائی کی مَیل ، مَقامات ، اسلامی بھائیوں اور خودمَیل بھیجنے والے اسلامی بھائی کا نام حَذْف کر کے چند اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ مَع بَتَغَیُّر چند مَدَنی پھول حاضِر ہیں۔ پہلے تصرُّف شدہ میل پڑھ لیجئے۔
مجھے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں تقریباً 21سال ہوگئے ہیں، ان 21سالوں میں مَدَنی مرکز کی طرف سے دی گئی مختلف ذِمّے داریوں کو نبھانے کا موقع ملتا رہا ہے ، اِس وَقْت بیرونِ ملک ایک کابینہ کے خادِم کی حیثیت سے مَدَنی کام کرنے کی سعادت حاصل ہے ۔ ان 21سالوں میں بَہُت نشیب وفراز دیکھے لیکن مَدَنی ماحول میں اِستقامت رہی ۔ ’’ کسی دَور میں غریب اسلامی بھائی کا بَہُت خیال کیا جاتا تھا، اگر اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوجاتا تو اُس کی دل جُوئی کی جاتی تھی لیکن اب دعوتِ اسلامی کے ذِمّہ داران کی شفقتیں ’’صرف امیر لوگوں‘‘ کے لئے ہیں! ‘‘ اس بات کا اِحساس اُس وَقْت ہوا جب تین ماہ پہلے پاکستان جانا ہوا، ایک غریب اسلامی بھائی (دعوتِ اسلامی کے ذَمّے دار) کی والدہ فوت ہوگئی تھی لہٰذا اُس کے گھر فاتِحہ خوانی کے لئے حاضِری ہوئی ۔ دَورانِ گفتگو اُس نے بتایا کہ ایک رُکْنِ شوریٰ ہمارے شہر تشریف لائے لیکن میرے گھر فاتِحہ خوانی کے لئے نہیں آئے۔ ایک رُکْنِ شوریٰ نے رَمَضان کا پورا ماہ یہاں گزارا لیکن وہ بھی فاتِحہ خوانی کے لئے نہ آئے ۔ ایک اور غریب اسلامی بھائی کی والدہ کا انتقال ہوا ، انہوں نے بھی اِسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ۔ اُس وَقْت میں نے سن لی اور سمجھا کہ شاید یہ اسلامی بھائی دُرُست نہیں فرما رہے لیکن اس بات کا اِحساس مجھے اُس وَقْت ہوا جب ۹ محرم ۱۴۳۴ہجری مطابق یکم دسمبر2012 ء بروز ہفتہ میری والدہ کا انتقال ہوا ، ایمرجنسی میں پاکستان جانا پڑا ۔ ایک ہفتہ رُکا اس کے بعد واپسی ہوئی ۔ 187ملکوں میں مَدَنی کام کرنے والی دعوتِ اسلامی میں سے صِرْف پانچ اسلامی بھائیوں نے فون کرکے تعزیَت کی ۔ ایک رُکْنِ شوریٰ کے مکتب کی طرف سے 41 قراٰنِ پاک کے ایصالِ ثواب کی ترکیب کی گئی ۔ ایک اور رُکنِ شوریٰ نے فون کیا مگرصِرْف تسلّی دی ، ایصالِ ثواب کچھ نہیں ۔ فاتِحہ خوانی کے لئے ایک اور ذِمّے دار تشریف لائے انہوں نے ایصالِ ثواب بھیجنے کا کہا لیکن میں اُن کے ایصالِ ثواب کا انتِظار ہی کرتا رہا، ان کو اور نگرانِ شہر کو ہفتہ کے دن ختمِ پاک کی دعوت بھی دی لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ غریب آدَمی ہوں۔
دعوتِ اسلامی کی طرف سے ایصالِ ثواب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 46 قرآنِ پاک، انفرادی کوشِش سے۔ ۔ ۔ ۔ 313 قرآنِ پاک تقریباً، اس کے علاوہ دُرُودِ پاک لاکھوں کی تعداد میں ، کلمہ پاک لاکھوں کی تعداد میں ، سورۂ یٰسین شریف ، سورۂ ملک ، سورۂ رحمن اور بہت کچھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت سے اسلامی بھائی جو داڑھی والے نہیں انہوں نے بھی لاکھوں کی تعداد میں دُرُود پاک ایصال ثواب کیا ۔ اس کے برعکس۔ ۔ ۔ ۔ (مقام کانام حذف کیا ہے) ایک امیر آدمی کی زوجہ بیمار تھی اس کی تیمار داری کے لئے امیراہلسنّت مَدَّظِلُّہ سے فون کروایا گیا اور اس کو مدنی خبروں میں بھی دکھایا گیا ، یہ میری والدہ (کی وفات) سے شاید تین دن بعد کا واقعہ ہے ۔
پچھلے سال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (مقام کانام حَذْف کیا ہے) ایک امیرا سلامی بھائی کا بیٹا فوت ہوگیا ، رُکنِ شوریٰ نے اپنا جدول منسوخ کیا اور اس کے جنازے میں شرکت کی ترکیب کی ۔ امیرِاہلسنّت اور نگرانِ شوریٰ سے فون بھی کروائے گئے ، ان کے ختم شریف پر رُکنِ شوریٰ نے بیان بھی کیا ۔
بیرونِ ملک میں ایک غیر مسلم کے پاس کام کرتا ہوں اس نے تین دفعہ فون کیا اور تعزیت کی ۔ میرے پاس جو لوگ تعزیت کے لئے آئے ان میں قونصلر جنرل آف پاکستان اور اس کا عملہ ، ایک سیاسی جماعت کا مقامی صدر، پریس اور وہاں کے مقامی علماء اور بَہُت سے چاہنے والے ۔
کاش! اس مشکل وَقْت میں میری تحریک کے اسلامی بھائی مجھے حوصلہ دیتے اور اپنے رشتے داروں اور اہلِ محلہ کے سامنے میرا بھی بھرم رہ جاتا ، بہرحال یہ احساس ہوا کہ ’’ اگر میں امیر ہوتا تو ایسا نہ ہوتا ۔ ‘‘
دنیا تے جو کام نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیض سنگھی کولوں بہتر یار اکیلے
وَالسّلام
سگِ مدینہ کا احساس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں مجھ سے کوئی ناراض نہ ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسلامی بھائیوں کی خدمتوں میں ترغیباً عرض ہے کہ مَیل پڑھ کر سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُ کوماضی میں مختلف جنازوں میں نیز تعزیتوں اورعِیادتوں کے لئے جانا یاد آرہا ہے۔ شاید ہی کوئی دعوتِ اسلامی والا ایسا ہو گا جس نے مجھ سے زیادہ عیادتیں کی، جنازے پڑھے اورتدفین میں حِصّہ لیا ہو، مجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں میِّتوں کی تعزیتوں اور مریضوں کی عِیادتوں کیلئے گھر وں اور اَسپتالوں میں جانے کے تعلُّق سے میری سستیوں اور کوتاہیوں کے سبب کہیں کوئی مجھ سے ناراض ہو کر سنّتوں بھرے مَدَنی ماحول سے دُور نہ جا پڑے! میرے خیال میں اگر کسی کے ’’سکھ‘‘ میں حصّہ نہ بھی لیا جائے توآدَمی اتناناراض نہیں ہوتا جتنا ’’دُکھ‘‘ یعنی بیماری، پریشانی یا وفات کے مُعامَلات میں ہمدردی نہ کرنے والے سے ناراض ہوتا ہے! اِس ضِمْن میں مَدَنی ماحول ہی کی ایک حِکایت پیش کرتا ہوں، چُنانچِہ
ایک غریب اسلامی بھائی کا قصّہ زیادہ پُرانانہیں، اُنہوں نے (سگِ مدینہ عُفِیَ عَنہُ کو ) جوکچھ بتایا وہ اپنے الفاظ میں عرض کرتا ہوں: ’’ میں برسوں سے مَدَنی ماحول سے وابَستہ تھا، اپنی بِساط بھر دعوتِ اسلامی کاکچھ نہ کچھ مَدَنی کام بھی کرلیا کرتا تھا۔ میں بیمار ہوا، مَرَض نے طول پکڑا حتّٰی کہ صاحِبِ فِراش ہو گیا اور چھ ماہ تک بسترِعَلالت پر پڑا رہا، صدکروڑ افسوس! بیماری کے اُس مکمَّل دَورانیے میں ہمارے شہر کے کسی ’’ میٹھے میٹھے اسلامی بھائی ‘‘ کامجھ دُکھیارے کے غریب خانے پر تشریف لاکرعِیادت کرناتوکُجا، کسی نے فون بھی نہ کیا، بلکہ یقین مانئے دلجوئی کیلئے S.M.S. کرنے تک کی کسی نے زَحْمت گوارا نہ فرمائی۔ بِنا بَریں دعوتِ اسلامی والوں سے ایک دم میرا دل ٹوٹ گیا اورمیں ان سے دُور ہو گیا، ہاں ایک نیک دل بندہ جو عَمَلاً دعوتِ اسلامی میں نہیں ہے اُس نے مجھ پر کمال دَرَجہ شفقت کامظاہَرہ کیا، حتّٰی کہ وہ مجھے ڈاکٹروں کے پاس بھی لے جاتارہا ، میرے دل میں اُس کی مَحَبَّت راسِخ ہوگئی اورمیں اُس کے قریب تَرہو گیا۔ ‘‘
معلوم ہوا کسی دُکھیارے اسلامی بھائی کی دلجوئی نہ کرنے سے اُس کے مَدَنی ماحول سے دُور جا پڑنے کااندیشہ ہوتا ہے اگر چِہ دُور نہیں ہونا چاہئے کہ یہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے مترادِف ہے مگر شیطان وَسوَسے ڈال کر اُس کی آخِرت تباہ کرنے کی کوشِش تیز تر کر دیتا ہے لہٰذا اِس طرح کئی دُور ہو جاتے ہیں، پھر ایسے میں جوکوئی اُن پر ہاتھ رکھ دے اُسی کے ہو جاتے ہوں گے اورکیا بعید اس طرح کئی بے عمل توکچھ بد عقیدہ بھی بن جاتے ہوں ! بَہَرحال مصیبت زدہ کی تعزیت میں حکمت ہی حکمت ہے اور یہ ثوابِ آخِرت کاکام ہے ۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کسی غمزدہ شخص سے تعزیت کر ے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُسے تَقوٰی کا لباس پہنائے گا اور رُوحو ں کے درمِیان اس کی رُوح پر رَحْمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُسے جنّت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت (ساری ) دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔ ( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط، ج۶ ، ص ۴۲۹، حدیث: ۹۲۹۲)
تعزیت کا معنیٰ ہے : مصیبت زدہ آدمی کو صبر کی تلقین کرنا ۔ ’’تعزیت مسنون (یعنی سنّت ) ہے۔ ‘‘ (بہار ِشریعت ، ج۱، ص۸۵۲)
بسااوقات غمخواری اورتعزیت کے دنیا میں بھی ثمرات دیکھے جاتے ہیں ، چُنانچِہ یہ اُن دنوں کی بات ہے جن دنوں نورمسجِد کاغذی بازار بابُ المدینہ کراچی میں میری امامت تھی، ایک اسلامی بھائی پہلے میرے قریب تھے پھر کچھ دُور دُور رہنے لگے تھے، مگر مجھے اندازہ نہ تھا۔ ایک دن فَجر کے بعد مجھے اُن کے والِد صاحِب کی وفات کی خبرملی ، میں فوراً اُن کے گھر پہنچا، ابھی غسلِ میِّت بھی نہ ہوا تھا، دُعافاتِحہ کی اورلوٹ آیا، نَمازِجنازہ میں شریک ہو کر قبرِستان ساتھ گیا اورتدفین میں بھی پیش پیش رہا۔ اس کے فوائد تصوُّر سے بھی بڑھ کر ہوئے، چُنانچِہ اُس اسلامی بھائی نے خود ہی اِنکِشاف کیا کہ مجھے آپ کے بار ے میں کسی نے وَرْغَلایا تھا، اُس کی باتوںمیں آ کر میں آپ سے دُور ہو گیا اوراِتنا دُور کہ آپ کوآتا دیکھ کر چُھپ جاتاتھا لیکن میرے پیارے والِدصاحِب کی وفات پر آپ کے ہمدردانہ انداز نے میرا دِل بدل دیا، جس آدَمی نے مجھے آپ سے بَددل کیا تھا وہ میرے والِد مرحوم کے جنازے تک میں نہیں آیا۔ اِس واقِعے کو تادمِ تحریر کوئی 35سال کا عرصہ گزر چکا ہو گا، وہ اسلامی بھائی آج بھی بَہُت مَحَبَّت کرتے ہیں، نہایت با اثر ہیں، تنظیمی طور پر کام بھی آتے ہیں، داڑھی سجائی ہوئی ہے، خودمیرے پیر بھائی ہیں مگران کے بال بچّے نیز دیگر بھائی اور خاندان کے مزید افراد عطّاری ہیں، چھوٹے بھائی کا مَدَنی حُلیہ ہے اور دعوتِ اسلامی کے ذمّے دار ہیں بڑے بھائی بھی با عمامہ ہیں۔
اگر چِہ کسی صاحِبِ ثَروت یا حامِلِ مَنصب ومنزِلت شخصیّت کی عِیادت یا اُس کے ساتھ تعزیَت کرنا کوئی خلافِ شَریعت عمل نہیں ، اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ سنَّت کے مطابِق ان کی عِیادت و تعزیت بھی یقینا باعثِ ثوابِ آخِرت ہے۔ مگر یہ نہ ہو کہ صِرْف مالداروں، افسروں اور دُنیوی شخصیتوں کی غمخواریاں ہوتی رہیں اور بے چارے غریب انتظار ہی کرتے رہیں۔ سچ پوچھو تو دعوتِ اسلامی پہلے غریبوں اور ناداروں کی ہے بعد میں مالداروں کی، دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کام دُنیا بھر میں پھیلانے والوں میں غُرَبا ہی صفِ اوّل میں ہیں۔ وقفِ مدینہ ہوکر دعوتِ اسلامی کیلئے اپنی جوانیاں لُٹانے والے کون ہیں ؟ مسلسل 12ماہ اور25ماہ سنّتوں کی تربیَّت کے مَدَنی قافِلے کے مسافِر بننے والے کون ہیں؟ دعوتِ اسلامی کے زیرِانتِظام چلنے والی صد ہامساجِد کے امام و مُؤَذِّن کون ہیں؟ جامِعاتُ الْمدینہ اورمدارِسُ المدینہ کے ہزاروں مدرِّسین اور مختلف اَہم ذِمّے داریوں پر فائز نِگران کون ہیں؟ یقین مانئے ! غالِب نہیں بلکہ اَغْلَب تعدادان میں مالداروں کی نہیں ، غریبوں یامُتوسِّطُ الحال اسلامی بھائیوں کی ہے ۔ مَاشَآءَاللہ یہ عاشِقانِ رسول سنّتوں کی پابندیوں کے ساتھ ساتھ مَدَنی کاموں کی بھی خوب خوب دھومیں مچاتے ہیں، پورے رَمَضانُ المبارَک کا اعتِکاف ہو یا ہفتہ وار اجتِماعات یا مَدَنی قافِلوں کا سفراِن میں بھاری اکثریَّت ان ہی ’’ فُقَرائے مدینہ ‘‘ کی ہوتی ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ مالدار اوربڑی شخصیّات کا دین کے کاموں میں کوئی حصّہ ہی نہیں ، بے شک ان کابھی ضَرور حصّہ ہے مَا شَآءَاللہ ان میں سے بھی ہمارے پاس مبلِّغین وذمّے داران ہیں مگر نسبتاً ان کی تعداد نہایت کم ہے۔ سرمایہ داروں اوردُنیوی شخصیّات میں وَقْت کی قربانی دینے والے اَقَلِّ قلیل ہوتے ہیں، ان حضرات کی اکثرِیَّت صِرْف زکوٰۃو عطیّات دینے پر اکتِفا کرتی ہے۔ بے شک اہلِ ثَروت میں بھی نیکی کی دعوت کی دھومیں مَچائی جائیں، مَاشَآءَاللہ یہ حضرات مسجِدیں اورمدرَسے بنواتے ہیں اوراِن معنوں میں اِن سے بھی دینِ اسلام کی رونقیں ہیں۔ ان پر بھی انفِرادی کوشِشیں جاری رکھی جائیں تا کہ ان میں نَمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو اوریہ بھی سنّتوں کی تربیّت کے مَدَنی قافِلوں کے مسافِر بنیں ۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ غریب اسلامی بھائی بُھلا دیئے جائیں اور بے چارے آپ کی جانِب سے ہونے والی انفِرادی کوشِش اور اس کے ذَرِیعے ملنے والی نیکی کی دعوت ، عِیادت و تعزیت اور ایصالِ ثواب کی مجلس میں آپ کی شرکت کے لئے ترستے رہیں اور آپ ان اہلِ ثَروت کے یہاں میِّت ہوجانے کی صورت میں ان کے گھروں پر اُڑ اُڑ کر پہنچتے ہوں، ان سے انتِہائی خاشِعانہ بلکہ خوشامدانہ لہجے میں بات چیت کرتے ہوں، ان کی خوشنودی پانے کیلئے اُن کے فوت شُدگان کے لئے ایصالِ ثواب کا انبار لگاتے ہوں، دعوتِ اسلامی کے اَہَم ذِمّے داران سے ان کی تعزیت کیلئے فون کرواتے ہوں، پھر کارکردَگی بھی وُصو ل کرتے ہوں کہ آیا فُلاں ’’پارٹی‘‘ یا شخصیَّت کو آپ نے فون کیا یا نہیں؟ امّید کرتا ہوں میری یہ باتیں اہلِ ثَروَت کی بھی سمجھ میں آتی ہوں گی! یہ حضرات بھی غور فرما ئیں کہ اگر ان کی کوٹھی کے چوکیدار کا والِد فوت ہو جائے تو ان کا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے اور واقِف کاروں میں سے کسی سیاسی یا سماجی لیڈر یاسرمایہ دار کے والِد کا انتِقال ہو جائے تو پھر کیا انداز ہوتاہے! دُنیوی شخصیّت کے جنازے میں اورغریب آدَمی اگر چِہ نیک نَمازی ہو اُس کے جنازے میں عوامی حاضِری کا فَرْق کون نہیں جانتا! بَہَرحال! ایسا نہیں ہونا چاہئے ، مالداروں کو بھی چاہیے کہ اپنے ملازِموں اور چوکیداروں وغیرہ کے ساتھ خوب خوب غمخواری بھرا برتاؤ فرمائیں۔