30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پیشِ لفظ
فقہی قاعدہ:’’یقین شک سے زائل نہیں ہوتا‘‘
یہ ’’الاشباہ والنظائر‘‘کاتیسراقاعدہ ہے،اس کتاب میں اسے ’’الاشباہ والنظائر‘‘کی طرزپرہی لکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ فقہی احکام میں اس قاعدے کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔عبادات ہوں یامعاملات ،مناکحت سے متعلق معاملہ ہویاوراثت سے،محرمات ہوں یامباحات، فقہ کے تمام ابواب میں جاری ہوتاہے ،یہاں تک کہ فقہائے کرام نے فرمایا:’’ اس قاعدے سے حاصل ہونے والے مسائل فقہ کے تین چوتھائی سے بھی زیادہ حصے کوگھیرے ہوئے ہیں ۔‘‘ چنانچہ غمزعیون البصائرمیں ہے : "قیل ھذہ القاعدۃ تدخل فی جمیع ابواب الفقہ والمسائل المخرجۃ علیھا تبلغ ثلثۃ ارباع الفقہ و اکثر " ترجمہ :کہا گیا ہے کہ یہ قاعدہ فقہ کے تمام ابواب میں جاری ہوتاہے اوراس پرمتفرع(یعنی اس سے حاصل ہونے والے) مسائل فقہ کےتین چوتھائی سے بھی زیادہ حصے تک پہنچے ہوئے ہیں۔ (غمزعیون البصائر،ج01،ص194،بیروت) یہ ایک قاعدہ اپنے ضمن میں بہت سارے قواعدلیے ہوئے ہے۔پھران قواعدمیں بعض مستثنیات بھی ہیں ۔اس کتاب میں وہ قواعداوران کے مستثنیات ذکرکیے گئے ہیں ۔نیزہرقاعدے اوراستثناء کو فقہی جزئیات ومسائل کے ساتھ ذکرکیاگیاہے۔ قاعدے کی وضاحت: اس قاعدے کامطلب اس کے نام سے ہی ظاہرہے اوروہ یہ کہ’’جب کسی چیزکے متعلق یقین ہوتومحض شک سے اس کاخلاف ثابت نہیں ہوگا۔‘‘مثلاباوضوہونایقینی ہے اوروضوٹوٹنے میں شک ہے ، تومحض شک سے وضوکاٹوٹناثابت نہیں ہوگا۔کسی چیزکاپاک ہونا یقینی ہے اوراس کے ناپاک ہونے کاشک ہے تومحض شک سے اس کاناپاک ہوناثابت نہیں ہوگا۔وعلی ھذاالقیاس ۔ قاعدے سے متعلقاہم بات: جس طرح حدیث پاک سے ایک آسان سا قاعدہ حاصل ہواکہ’’مدعی کے ذمہ گواہ ہیں اورمنکرکے ذمہ قسم ہے ۔‘‘لیکن کسی مقدمہ میں مدعی کون ہے اورمنکرکون ہے ؟اس کی نشاندہی عموماً مشکل اورپیچیدہ ہوجاتی ہے،بہت دفعہ ظاہری طورپردیکھنے میں ایک شخص مدعی لگ رہاہوتاہے لیکن درحقیقت وہ منکرہوتاہے ،اسی طرح ظاہری طورپردیکھنے میں ایک شخص منکرلگ رہاہوتاہے لیکن درحقیقت وہ مدعی ہوتاہے ۔چنانچہ بہارشریعت سے اس پرایک اقتباس درج کیاجاتاہے: ’’ دعویٰ میں سب سے زیادہ اہم جو چیز ہے وہ مدعی ومدعیٰ علیہ کا تعیّن ہے ، اس میں غلطی کرنا فیصلہ کی غلطی کا سبب ہوتا ہے ۔ عام لوگ تو اُس کو مدعی جانتے ہیں جو پہلے قاضی کے پاس جاکر دعویٰ کرتا ہے اور اس کے مقابل کو مدعیٰ علیہ۔ مگر یہ سطحی و ظاہری بات ہے ۔ بہت مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ جو صورۃًمدعی ہے وہ مدعیٰ علیہ ہے اور جو مدعیٰ علیہ ہے وہ مدعی۔۔۔۔ ظاہر میں مدعی اور حقیقت میں مدعیٰ علیہ کی ایک مثال یہ ہے ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ فلاں کے پاس میری امانت ہے ، دِلادی جائے۔ امین یہ کہتا ہے کہ میں نے امانت واپس کردی۔ اس کا ظاہر مطلب یہ ہوا کہ اُس کی امانت مجھ کو تسلیم ہے مگر میں دے چکا ہوں یہ امین کا ایک دعویٰ ہے مگر حقیقت میں امین ضمان سے منکر ہے۔ کیونکہ امین جب امانت سے انکار کرے تو امین نہیں رہتا بلکہ اُس پر ضمان واجب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا پہلے شخص کے دعوے کا حاصل طلبِ ضمان ہے۔ اور اس کے جواب کا محصل وجوبِ ضمان سے انکار ہے ۔ اب اس صورت میں حلف امین کے ذمہ ہوگا اور حلف سے کہہ دے گا تو بات اسی کی معتبر ہوگی(بھارشریعت،ج02،حصہ13،ص1016،1017،مکتبۃ المدینہ) اسی طرح کس چیزکویقینی کہاجائے گااورکس چیزکومشکوک کہاجائے گا؟ بعض اوقات اس کاتعین بھی مشکل ہوجاتاہے ۔ بعض اوقات ظاہری اعتبارسے دیکھنے میں محسوس ہوتاہے کہ اس مقام پریہ حکم یقینی ہے اوریہ مشکوک ہے ، لہذاپہلاحکم باقی رہے گا،جب تک اس کاخلاف، شرعی طریقے سے ثابت نہیں ہوجاتا ، لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہوتاہے ۔اس کی مثال درج ذیل ہے : ’’ایک شخص لاپتہ ہوجاتاہے،اس کی زندگی یاموت کسی کے متعلق کوئی معلومات نہیں ہوتی ، اس کے لاپتہ ہوجانے کے بعداس کے والدکاانتقال ہوجاتاہے ۔‘‘ اب ظاہری اعتبارسے دیکھاجائے توانسان کہے گاکہ’’جب وہ لاپتہ ہواتووہ زندہ تھالہذااس کی زندگی یقینی ہے ،اب اس پرموت طاری ہوئی کہ نہیں ؟یہ مشکوک ہے ،پس اس کوزندہ تسلیم کیاجائے گااوروالدکی وفات کے وقت جوبیٹازندہ ہو،اسے وراثت میں سے حصہ ملتاہے،لہذااسے بھی حصہ ملے گا۔‘‘جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی اسے وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا،جب تک کہ والدکی وفات کے وقت اس کے زندہ ہونے کی یقینی معلومات نہیں ہوجاتی ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ’’جب وہ لاپتہ ہواتواس وقت وہ باپ کاوارث نہیں تھا،کیونکہ باپ کی وراثت اس کے مرنے کے بعدملتی ہے ، تواس کاوارث نہ ہونایقینی ہوا اوروارث بننامشکوک ہوا،اب اسے وارث بناناہے، تواس کے لیے باپ کی وفات کے وقت اس کے زندہ ہونے کا یقینی ثبوت ہوناضروری ہے ،جبکہ یہاں یقینی ثبوت موجود نہیں کہ صورت مسئولہ وہ فرض کی گئی ہےکہ جس میں اس شخص کا اپنے باپ کی وفات کے وقت زندہ ہونامعلوم نہیں۔ اورجس وقت وہ لاپتہ ہواتھا،اس وقت کی حالت سے استدلال نہیں ہوسکتا ، کیونکہ ایسے استدلال کوفقہ کی اصطلاح میں’’ استصحاب حال ‘‘کہتے ہیں اور’’استصحاب حال ‘‘کسی چیزکوثابت کرنے کی دلیل نہیں بنتا ، لہذاوراثت میں اس کاحق ثابت کرنے کے لیے یہ استدلال مفیدنہیں ہوگا۔‘‘ اسی طرح اسی لاپتہ شخص سے متعلق ایک دوسراحکم دیکھیے کہ’’ اس کے مال کادوسروں کووارث نہیں بنایاجائے گاجب تک کہ اس کی وفات شرعی طریقے سے ثابت نہیں ہوتی ۔‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ’’ جس وقت یہ لاپتہ ہواتواس وقت یہ زندہ تھااورزندہ کامال وراثت نہیں بنتا ، لہذااس کامال بھی وراثت نہیں بنے گا۔‘‘ اس مقام پراس کے لاپتہ ہونے کے وقت کی حالت کااعتبارکیاگیاہے ،کیونکہ یہ صورت استصحاب حال کی ہے ،جیساکہ اوپرگزرااور استصحاب حال کسی کے حق کی نفی کرنے کے لیے دلیل بنتاہے ،ہاں کسی کاحق ثابت کرنے کی دلیل نہیں بنتا ، لہذااس لاپتہ شخص کے ورثاء کے حق کی نفی کے لیے اس کے لاپتہ ہونے کی حالت کودلیل بنالیں گے ،لیکن اس کے والدکی وراثت میں سے اسے حصہ دینے کے لیے دلیل نہیں بنائیں گے ۔ اس سے پتاچلتاہے کہ یہ کتنانازک معاملہ ہے ،کہاں کس چیزکودلیل بناکرحکم ثابت کرنا ہے اورکہاں اسے دلیل نہیں بنانا؟ کو ن سی بات یاحکم یقینی ہے اورکون سی بات یاحکم مشکوک ہے ؟ہم محض اپنی اٹکل سے یہ معاملہ حل نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے یقین وشک ،مظنون وموہو م کی تعریفات بھی معلو م ہوناضروری ہےاوراس کے لیے اس سے متعلق خاص اصول وقواعدکامعلوم ہونابھی ضروری ہے ۔ فقہائے کرام نےان قواعدواصول کااستعمال کرنے کے حوالے سے کیاشرائط بیان فرمائیں اوراس کے لیے کیاطریقہ اپنایا؟ یہ معلو م ہونابھی ضروری ہے ۔ اس لیے اس کتاب میں یقین ،ظن غالب ،محض ظن،وہم اورشک کی تعریفات اوران کے احکامات بھی بیان کیے گئے ہیں ۔اوراس موضوع سے متعلق خصوصی اصول وقواعدبھی بیان کیے گئے ہیں اوران اصولوں کے استعمال کے لیے کیاشرائط وقیودات ہیں ؟نیزان کے مستثنیات کیاہیں؟ان کے حوالے سے بھی کافی معلومات اس میں درج ہیں ،اوران چیزوں کوفقہی مسائل کے ذریعے سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی ہے ۔ مثلا: (الف):اصل یہ ہے کہ جوحکم ایک مرتبہ ثابت ہوچکاتوجب تک اس کے خلاف کاثبوت شرعی طریقے سے نہیں ہوجاتا،وہ اپنی سابقہ حالت پرباقی رہے گا۔ (ب):جسے کسی کام کے کرنے اورنہ کرنے میں شک ہوتویہی قراردیاجائے گاکہ اس نے وہ کام نہیں کیا۔ (ج):جس چیزکاوجودشرعاثابت نہیں ہوا،اس میں اصل معدوم یعنی اس کانہ ہوناہے،لہذاجب تک شرعی طریقے سے اس کاوجودثابت نہیں ہوتا،اس وقت تک اس کے معدوم ہونے کاحکم باقی رہے گا۔ (د):اصل بری الذمہ ہوناہے یعنی اصل یہ ہے کہ کسی پردوسرے کی کوئی چیزلازم نہ ہو، لہذالازم آنے کے لیے دلیل شرعی درکار ہوگی ، شکوک وشبہات سے کوئی چیزلازم نہیں ہوگی ۔ ہاں اگرایک مرتبہ ذمہ کامشغول ہوناثابت ہوگیاتواب مشغول ہونااصل ہوگااوربری ہونا عارض یعنی بعدمیں ثابت ہونے والا ہوگا،لہذاجوبری الذمہ نہ ہونے کاقول کرے گا،اس کی بات معتبر ہوگی ۔ (ہ):خلاف اصل جوچیزپائی جائے، اسے قریبی وقت کی طرف منسوب کیاجائے گا،کیونکہ اس سےپہلے وقت میں اس کا پایاجانامشکوک ہے۔ (و):اشیاء میں اصل اباحت ہے ۔ (نوٹ:)اس قاعدے کے مستثنیات: i. شرمگاہوں میں اصل حرمت ہے۔ ii. خون بہانے میں اصل حرمت ہے ۔ iii. سونے چاندی کے استعمال میں اصل حرمت ہے ۔ iv. مضاروخبائث(نقصان دہ اورخبیث چیزوں)میں اصل حرمت ہے ۔ (ز)استصحاب یعنی زمانہ ماضی کاحکم ،زمانہ حال کے لیے ثابت کرنا،یازمانہ حال کاحکم ،زمانہ ماضی کے لیے ثابت کرنا۔ (ح)کلام میں اصل حقیقت ہے ۔ یعنی کسی لفظ کوجس معنی کے لیے بنایاگیاہے،جب تک اس معنی پرعمل ممکن ہو،اس وقت تک اس لفظ سے وہی معنی مرادلیاجائے گا۔ آپ اس کتاب کااول تاآخرمطالعہ فرمائیں ،جہاں سمجھنے میں دشواری ہوتوکسی معتمدسنی صحیح العقیدہ عالم دین سے اسے سمجھیے۔اللہ تعالی نے چاہاتوڈھیروں معلومات کاخزانہ آپ کے ہاتھ آئے گا۔ نوٹ: یہ بات ضروریادرہے کہ یہ اصول وقواعد،تعریفات واحکام اورمسائل وغیرہ پڑھنےسے ان شاء اللہ عزوجل معلومات کابہت بڑاخزانہ آپ کے ہاتھ آئے گا ، لیکن اس کامطلب یہ ہرگزہرگزنہیں کہ اب اس باب میں آپ کامل ومکمل ہوگئے اوراس سے متعلق ہرمسئلے کوآپ خودحل کرنے کے قابل ہوگئے ،ہرگزایسانہیں، ہنوزدلی دوراست،لہذاکوئی مسئلہ خودیاکسی اورکودرپیش ہوتواس کے حل کے لیے معتمدمفتیان اہلسنت سےہی رابطہ کیاجائے۔ ضروری گزارش: اس کتاب میں کسی کوکسی حوالے سے کوئی غلطی معلو م ہو، وہ مطلع فرمائیں ،بعدتحقیق غلطی ثابت ہونے پر ان شاء اللہ عزوجل اس کی اصلاح کی جائے گی ۔ محمد عرفان مدنی دار الافتاء اہلسنت ، داتا دربار ، لاہور بسمِ اللہ الرَّحمنِ ا لرَّ حِیمالاشباہ و النظائر کا تیسراقاعدہ:یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔
یقین کی تعریف: کسی حکم کےپائے جانے یانہ پائے جانے کے متعلق دل کاپختہ علم،یقین کہلاتاہے ۔ ظن غالب : کسی حکم کےپائے جانے یانہ پائے جانے،دونوں میں سے ایک جانب کاراجح ہونا اور جانبِ راجح پر دل کو اس حدتک وثوق واعتماد ہوناکہ دوسری طرف کو بالکل نظر سے ساقط کردے اور محض ناقابل التفات (یعنی توجہ کے بالکل قابل نہ) سمجھے گویا اُس کا عدم ووجود(ہونا،نہ ہونا) برابر ہو۔ حکم: ایسا ظن غالب فقہ میں ملحق بیقین (یعنی یقین کے درجے میں ) ہوتاہے کہ ہر جگہ ،یقین کاکام دے گا اور اپنے خلاف سابق یقین کوختم کردے گااور غالباً اصطلاحِ علماء میں غالب ظن واکبر رائے اسی پر بولتے ہیں۔ محض ظن: اگرجانبِ راجح پردل پوری طرح نہ جمے اورجانبِ مرجوح کوبالکل نظرسے ساقط نہ کرے ، بلکہ ادھربھی ذہن جائے ،اگرچہ بہت تھوڑا اورکمزورطورپر،تواس صورت کومحض ظن کہاجاتاہے۔ حکم: یہ صورت یقین کاکام نہیں دیتی اوراپنے خلاف سابق یقین کامقابلہ نہیں کرتی ،بلکہ شک وترددکے مرتبہ میں ہی سمجھی جاتی ہے ۔کلمات فقہاء میں کبھی اس پربھی ظن غالب کااطلاق کردیاجاتاہے ، لیکن یہ ہے محض ظن ہی،نہ کہ ظن غالب۔ ہاں اس قسم کااتنافائدہ ہوتاہے کہ اس پرعمل مستحب وافضل ہوتاہے ، لیکن واجب ولازم نہیں ہوتا۔ موہوم: ظن کی دوسری قسم (محض ظن) کی جانب مقابل، جومرجوح ہے ،وہ موہوم کہلاتی ہے ۔ یعنی کسی حکم کے پائے جانے یانہ پائے جانے کے متعلق کوئی یقینی علم نہ ہواورایک جانب راجح ہولیکن وہ ظن غالب کی حدتک نہ ہوبلکہ محض ظن کی حدتک راجح ہو ، تواس کی جانب مرجوح،موہوم کہلاتی ہے۔ شک: کسی حکم کے پائے جانے یانہ پائے جانے ،دونوں کے متعلق برابرکاعلم کہ ان میں سے کوئی جانب اس کے نزدیک راجح نہ ہو۔ الاشباہ والنظائرمیں ہے : "الشك تساوي الطرفين،والظن الطرف الراجح وهو ترجيح جهة الصواب،والوهم رجحان جهة الخطأوأما أكبر الرأي وغالب الظن فهو الطرف الراجح إذا أخذ به القلب، وهو المعتبر عند الفقهاء كما ذكره اللامشي في أصوله وحاصله: أن الظن عند الفقهاء من قبيل الشك؛ لأنهم يريدون به التردد بين وجود الشيء وعدمه سواء استويا، أوترجح أحدهما،وكذا قالوا في كتاب الإقرار:لو قال:له علي ألف درهم في ظني لا يلزمه شيء؛ لأنه للشك (انتهى) .وغالب الظن عندهم ملحق باليقين، وهو الذي يبتنى عليه الأحكام"ترجمہ:شک دونوں طرفوں کابرابرہوناہے اورظن (گمان)راجح جانب ہے اور وہ درستی کی جہت کوترجیح دینا ہے اور خطا کی جہت کا راجح ہونا وہم ہے۔ بہرحال بڑی رائے اور غالب گمان تو وہ راجح جانب ہے جبکہ دل اس پر جم جائے اور فقہاء کے نزدیک یہی معتبر ہے جیسا کہ علامہ لامشی نے اس کو اپنے اصول میں ذکر کیا ہے اور اس کاحاصل یہ ہے کہ : فقہاء کے نزدیک ظن ،شک کے قبیل سے ہے۔کیونکہ وہ ظن سے مراد لیتے ہیں:شے کے پائے جانے اور نہ پائے جانے کے درمیان تردد ،خواہ اس کی دونوں طرف برابر ہوں یا ایک طرف راجح ہو۔ ایسا ہی انہوں نے" کتاب الاقرار "میں فرمایا ہے کہ اگر کوئی یوں کہے:’’میرے گمان میں فلاں کے مجھ پر ایک ہزار درہم ہیں‘‘تو اس اقرار سے کوئی شے لازم نہیں ہوگی،کیونکہ گمان، شک کے لیے ہے ۔(کتاب الاقرار کا کلام ختم ہوا)۔اور غالب گمان فقہاء کے نزدیک یقین کے ساتھ لاحق ہےاوراسی پر احکام کی بنیاد ہوتی ہے۔(الاشباہ والنظائر،ص76،مطبوعہ کراچی) الحدیقۃ الندیۃ میں ہے : "الظن عندالفقھاء من قبیل الشک لانھم یریدون بہ الترددبین وجودالشئی وعدمہ سواء استویااوترجح احدھما،ولذاقالوا فی کتاب الاقرار:لوقال لہ علی الف فی ظنی لم یلزمہ شئی،لانہ للشک"ترجمہ: فقہاء کے نزدیک "ظن(گمان)" شک کے قبیل سے ہےکیونکہ وہ گمان سے مراد لیتے ہیں :شے کے پائے جانے اور نہ پائے جانے کے درمیان تردد ،برابر ہے کہ اس کے جانبین برابر ہوں یا ایک جانب راجح ہو۔ اسی وجہ سے انھوں نے" کتاب الاقرار "میں فرمایا ہے کہ :اگر کوئی یوں کہے:’’میرے گمان میں فلاں کے مجھ پر ایک ہزار ہیں‘‘تو اس اقرار سے کوئی شے لازم نہیں ہوگی ۔کیونکہ گمان ،شک کے لیے ہوتا ہے ۔(الحدیقہ الندیۃ ،الصنف الثانی: فیماوردعن ائمتناالحنفیۃ،ج05،ص402، کوئٹہ) فتاوی رضویہ میں ان کی تعریفات یوں کی گئی ہیں :"اقول اذا لم تجزم فی حکم بایجاب ولا سلب فان استویا عندک فھو الشک والا فالمرجوح موھوم والراجح مظنون فان بلغ الرجحان بحیث طرح القلب الجانب الاٰخر فھو غالب الظن واکبر الرأی"ترجمہ:میں کہتا ہوں:جب نہ اثبات کاحکم لگانے میں تمہیں جزم(یقین)ہواورنہ نفی کاحکم لگانے میں ،تو اگر تمہارے نزدیک وہ دونوں برابر ہوں، تو یہ شک ہے، ورنہ جو مرجوح یعنی مغلوب ہے وہ موہوم اور جو راجح یعنی غالب ہے،وہ مظنون ہوگا اور اگر ترجیح اس حد کو پہنچ جائے کہ دل دوسری جانب کو چھوڑ دے تو وہ غالب گمان اور بڑی رائے ہے۔(فتاوی رضویہ،ج04،ص498،رضافاونڈیشن،لاھور) قاعدے کی اہمیت: کہاجاتاہے کہ یہ قاعدہ فقہ کے تمام ابواب میں جاری ہوتاہے اوراس سے حاصل ہونے والے مسائل فقہ کےتین چوتھائی سے بھی زیادہ حصے تک پہنچے ہوئے ہیں ۔چنانچہ غمزعیون البصائرمیں ہے : " قیل ھذہ القاعدۃ تدخل فی جمیع ابواب الفقہ والمسائل المخرجۃ علیھا تبلغ ثلثۃ ارباع الفقہ واکثر"ترجمہ:کہا گیا ہے کہ یہ قاعدہ فقہ کے تمام ابواب میں جاری ہوتاہے اوراس پرمتفرع(یعنی اس سے حاصل ہونے والے) مسائل فقہ کےتین چوتھائی سے بھی زیادہ حصے تک پہنچے ہوئے ہیں۔ (غمزعیون البصائر،ج01،ص194،بیروت) قاعدے کاثبوت: اس قاعدے کے ثبوت میں درج ذیل حدیث مبارک ہے: مسلم شریف میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کافرمان ہے :"«إذا وجد أحدكم في بطنه شيئا، فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا، فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا، أو يجد ريحا»“ترجمہ:جب تم میں کوئی شخص اپنے پیٹ میں کچھ محسوس کرے، جس سے اس پر مشتبہ ہوجائے کہ اس سے کچھ خارج ہوا یا نہیں؟ تووہ ہرگزمسجد سے نہ نکلے یہاں تک کہ آواز سنے یا بو پائے۔(صحیح مسلم،کتاب الحیض،باب الدليل على أن من تيقن الطهارة، ثم شك في الحدث ، ج01، ص158،کراچی) یہاں محض شک وترددکی بنیادپراپنے آپ کوبے وضوسمجھ کرمسجدسے نکلنے سے منع کیاگیاہے ۔ جس کامطلب ہے کہ شک سے وضونہیں ٹوٹتا۔وضاحت اس کی یہ ہے کہ نمازی کواپنے باوضوہونے کایقین تھا،بعدمیں وضوکے ٹوٹنے میں شک آگیااوریقین،شک سے زائل نہیں ہوتا،تواس کے متعلق یہی حکم ہوگاکہ اس کاوضونہیں ٹوٹالہذاوہ وضوکرنے کے لیے نمازنہ توڑے۔ نوٹ: یہ قاعدہ درج ذیل چندقواعدپرمشتمل ہے : (1)قاعدہ "الاصل بقاء ماکان علی ماکان" جوحکم یقینی طورپرایک مرتبہ ثابت ہوچکا ، تووہ ثابت ہی رہے گا،جب تک اس کے خلاف کایقین یاظن غالب نہ ہوجائے۔ بلفظ دیگر: اصل یہ ہے کہ سابقہ حکم اپنی حالت پرباقی رہتاہے،جب تک اس کاخلاف شرعی طورپرثابت نہ ہو۔ درج ذیل مسائل اسی قاعدے سے حاصل ہوتے ہیں : (الف) (۱)اگردفینہ میں کوئی اسلامی علامت ہوجیسے اس پرکلمہ شہادت لکھاہے،تووہ زمانہ اسلام کاقرار دیاجائے گااورلقطہ شمارہوگا۔ (۲) اوراگراس پر کفرکی علامت ہومثلابت کی تصویرہےیاان کے کسی معروف بادشاہ کانام لکھاہے، تواسے زمانہ کفرکاقراردیاجائے گااوراس میں سے پانچواں حصہ لے کرباقی پانے والے کودے دیاجائے گا، خواہ اپنی زمین میں پائے یا دوسرے کی زمین میں یا مباح زمین میں۔ (۳)اوراگراس کامعاملہ مشتبہ ہوجائے کہ نہ اسلامی علامت ہے اورنہ کفرہی کی،تواس صورت میں اسے زمانہ کفرکاقراردیاجائے گاکیونکہ زمانہ جاہلیت ،زمانہ اسلام سے متقدم ہے تواس کازمانہ کفر کاہونا،اصل ہے اورجب تک اصل کے خلاف دلیل نہ ہوتواصل باقی رہتی ہے۔ درمختارمیں ہے :"(وما عليه سمة الإسلام من الكنوز) نقدا أو غيره (فلقطة) سيجيء حكمها (وما عليه سمة الكفر خمس وباقيه للمالك۔۔۔وهذا (إن ملكت أرضه وإلا فللواجد) (وإن خلا عنها) أي العلامة (أو اشتبه الضرب فهو جاهلي على) ظاهر (المذهب)"ترجمہ:اور جس دفینے پر کوئی اسلامی علامت ہو،خواہ وہ دفینہ نقدی ہو یا کچھ اور، تو وہ لقطہ ہے۔ عنقریب اس کا حکم آئے گا۔ اور جس دفینے پر کفر کی علامت ہو، اس میں سے پانچواں حصہ لیا جائے گا اور باقی مالک کا ہوگا۔یہ بھی اس صورت میں ہے،جب زمین کسی کی ملکیت میں ہو ،ورنہ وہ پانے والے کا ہے۔البتہ اگردفینہ، اسلام یا کفر کی علامت سے خالی ہو یا اس کی قِسم مشتبہ ہو جائے تو ظاہر مذہب میں وہ زمانہ جاہلیت کا شمار ہوگا۔ اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے "(قوله: وهذا إن ملكت أرضه) الإشارة إلى قوله وباقيه للمالك، وهذا قولهما وظاهر الهداية وغيرها ترجيحه لكن في السراج وقال أبو يوسف: والباقي للواجد كما في أرض غير مملوكة وعليه الفتوى. اهـ."ترجمہ:مصنف کا قول کہ :’’یہ اس وقت ہے جب زمین ملکیت میں ہو ‘‘یہ اشارہ ہے ان کے اس قول کی طرف کہ: باقی مالک کا ہے۔ اور یہ ان دونوں (طرفین)کا قول ہے اور ہدایہ وغیرہ کے ظاہر سے اسی کی ترجیح معلوم ہوتی ہے لیکن سراج میں ہے :اور امام ابویوسف رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا :اور باقی پانے والےکاہے جیسا کہ اس صورت میں ہوتاہے جب زمین ملک میں نہ ہو اور اسی پر فتوی ہے ۔ (درمختارمع ردالمحتار،کتاب الزکوۃ ،باب الرکاز ،ج03،ص307،308، کوئٹہ) تبیین الحقائق میں ہے :" وإن اشتبه الضرب عليهم فهو جاهلي في ظاهر المذهب لأنه الأصل"ترجمہ:اور اگر اس دفینے کا معاملہ مشتبہ ہوتو ظاہر مذہب میں زمانہ جاہلیت کا ہی شمار ہوگا کیونکہ وہی اصل ہے۔ اس کے تحت حاشیہ شلبی میں ہے :" (قوله لأنه الأصل) أي لأنه أي الجاهلي أصل لتقدمه على الشرع"ترجمہ:مصنف کا قول کہ وہی اصل ہے :یعنی زمانہ جاہلیت،اسلام سے مقدم(پہلے) ہونے کی وجہ سے اصل ہے۔ (تبیین الحقائق مع حاشیۃ الشلبی،باب الرکاز،جلد01،صفحہ290، ملتان) فتاوی ہندیہ میں ہے :" ولو اشتبه الضرب بأن لم يكن فيه شيء من العلامات يجعل جاهليا في ظاهر المذهب كذا في الكافي."ترجمہ:اور اگر دفینے کی حالت مشتبہ ہو ،یوں کہ اس میں اسلام وکفر کی علامات میں سے کوئی شے نہ ہو،تو اس کو ظاہر مذہب میں زمانہ جاہلیت کا قرار دیا جائے گا جیسا کہ کافی میں ہے۔ (فتاوی ھندیہ،کتاب الزکاۃ،الباب الخامس فی المعادن والرکاز،جلد01،صفحہ185،کوئٹہ) (ب)لاوارث بچہ گراپڑاملاتووہ آزادشمارہوگا ، کیونکہ بنی نوع انسان میں آزادی اصل ہے اوراصل کے خلاف جب تک دلیل نہ ہوتواصل اپنی حالت پرباقی رہتی ہے ۔ تبیین الحقائق میں ہے :" (وهو حر) لأنه الأصل في بني آدم إذ هم أولاد حواء وآدم والأصل بقاء ما كان على ما كان حتى يوجد ما يغيره"ترجمہ:اور وہ (گرا پڑا)بچہ آزاد ہے کیونکہ بنی آدم میں آ زاد ہونا اصل ہے کیونکہ وہ حضرت آدم اورحضرت حواءعلی نبیناوعلیہماالصلوۃ والسلام کی اولاد ہے اوراصل یہ ہے کہ جوپہلے جس حالت پرتھا،وہ اسی حالت پرباقی ہو ،جب تک کہ اسےبدلنے والی کوئی چیزنہ پائی جائے۔ (تبیین الحقائق مع حاشیۃ الشلبی،کتاب اللقیط،جلد03،صفحہ297،ملتان) (ج)مفقودالخبر،جولاپتہ ہوگیااوراس کی زندگی، موت کے متعلق کوئی خبرنہ رہی،تواسے اس کے حقوق کے متعلق زندہ ہی شمارکیاجائے گا، کیونکہ جب وہ غائب ہوا تو اس وقت اس کا زندہ ہونا ثابت تھا،تووہی حکم باقی رہے گا، جب تک کہ اس کے واقعۃ مرنے پردلیل نہ قائم ہوجائے یاشرعی اعتبارسے اس کی موت کاحکم نہ کردیاجائے۔ لہذااس وقت تک: (۱)اس کے ورثاء اس کے مال کوآپس میں تقسیم نہیں کرسکتے ۔ (۲)اس نے کسی کے پاس امانت رکھی تھی تواس امین سے امانت کوکوئی واپس نہیں لے سکتا۔ (۳) اوراس کی بیوی کسی اورسے اپنانکاح نہیں کرسکتی ۔ شرح المجلۃ میں ہے :"من فروع النوع الاول مسئلۃ المفقودالذی انقطع خبرہ ولم یعلم موتہ ولاحیاتہ وذلک لانہ حین تغیبہ کانت حیاتہ محققۃ فمالم یوجددلیل علی موتہ حقیقۃ اویحکم بموتہ بعداکمال تسعین من عمرہ اولموت اقرانہ لیس لورثتہ اقتسام مالہ ولاتوخذودیعتہ من مودعہ ولاتتزوج امراتہ"ترجمہ :پہلی نوع کی فروع میں سے مفقود(لاپتہ) کا مسئلہ بھی ہےیعنی وہ کہ جس کی کوئی خبر نہ ہو ، یہ بھی معلوم نہ ہو کہ زندہ ہے یا مرگیا ہے،اور یہ اس لیے ہے کہ جب وہ غائب ہوا تو اس وقت اس کا زندہ ہونا ثابت تھا،پس جب تک اس کی حقیقی موت پر کوئی دلیل نہ پائی جائے یا اس کی عمر کے نوے سال پورے ہونے یا اس کے ہم عصروں کے فوت ہونے پر اس کی موت کا حکم نہ کر دیا جائے ،اس وقت تک وارثوں کو اجازت نہیں کہ اس کا مال تقسیم کریں اور نہ اس کی ودیعت(امانت) اس کے مودَع (جس کے پاس امانت رکھوائی گئی تھی،اس)سےواپس لی جائے گی اور نہ اس کی بیوی آگے نکاح کرے گی۔(شرح المجلۃ،ج01،ص20،21،مطبوعہ کوئٹہ)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع