30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط شانِ امام احمد رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دُعائے عطار : یاربِ المصطفےٰ! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ــ” شانِ امام احمد رضا “ پڑھ یا سُن لے اُسے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ جنّت الفردوس میں اپنے پیارے پیارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پڑوس نصیب فرما۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمدُرُود شریف کی فضیلت
اللہپاک کے آخری نبی ، محمدِ مَدَنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشادفرمایا : شبِ جُمعہ اور روزِ جُمعہ مجھ پر کثرت سے دُرُود شریف پڑھو کیونکہ تمہارا دُرُودِ پاک مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ (مُعْجَم اَوسط ، ۱ / ۸۴ ، حدیث : ۲۴۱ ، دار الکتب العلمیة بیروت) صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللہُ علٰی محمَّددُرُودِ پاک کے بارے میں تحقیقِ رضا
اعلیٰحضرت ، امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : یہ ثابِت و واضِح ہے کہ حُضُور جان ِ رَحمت ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )کی بارگاہِ اَقْدس میں دُرُود و سلام اور اعمالِ اُمّت کی پیشی بار بار بتکرار ہوتی ہےاور احادیث کی جمع و ترتیب سے میرے لیے یہ ظاہر ہوا کہ دُرُودِ پاک بارگاہِ رسالت( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )میں دس بار پیش ہوتا ہے ، دیگر اعمال پانچ بار پیش ہوتے ہیں ، دربارِ نبوّت میں دُرُود پیش ہونے کے چند طریقے یہ ہیں : (1)تُرْبَتِ اَطْہَر (یعنی قبرِ منوّر)کے پاس ایک فِرِشتہ پہنچاتا ہیں۔ (2) وہ فِرِشتہ پیش کرتا ہے جو دُرُود پڑھنے والے کے ساتھ مامور و مُؤَکَّل(یعنی مقرّر)ہے۔ (3)سیر و سیاحت کرنے والے فرشتے پہنچاتے ہیں۔ (4) حِفاظت کرنے والے فرشتے دُرُودِ پاک کو دِن کے تمام اَعمال کے ساتھ شام کو اور رات کے اعمال کے ساتھ صبح کو پیش کرتے ہیں۔ (5) ہفتہ بھر کے اَعمال کے ساتھ دُرُود شریف جُمعہ کے دِن پیش ہوتا ہے۔ (6)عمر بھر کے جملہ(یعنی تمام) دُرُود قِیامت کے دِن پیش کرتے ہیں۔ (انباءُ الحی ، ص287 ، مؤسسۃ الرضا لاہور) (چند بار جو پیش ہوچکے وہ مقامات یہ ہیں : ) (7)معراج کی رات اعمال پیش ہوئے۔ (8)حُضُورِ انور ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )نےنَمازِ کُسوف (یعنی سورج گہن کی نماز)میں دیکھے۔ (9)اللہ پاک نے جب حضور ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کے دونوں کندھوں کے درمیان دستِ مبارک رکھا تو حضور ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )پر ہر چیز روشن (یعنی ظاہر) ہو گئی۔ (10)قراٰنِ کریم کے نازل ہونے کے وَقْت تما م اشیاء کے عُلُوم و معارف حاصل ہوئے۔ (انباءُ الحی ، ص357) اللّٰہ اللّٰہ تَبَحُّرِ عِلمی اَب بھی باقی ہے خدمتِ قَلمی اہلِ سنّت کا ہے جو سرمایہ واہ کیا بات اعلیٰ حضرت کی صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللہُ علٰی محمَّدوِلادتِ اَعلٰی حضرت
اے عاشقانِ امام احمد رَضا! میرےآقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہْلِ سُنّت حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ولادتِ باسعادت (Birth) بریلی شریف کے مَحَلّہ جَسولی میں10شَوّالُ المُکرّم 1272ھ بروزِ ہفتہ بوقتِ ظُہر بمطابق 14جون 1856ء کو ہوئی ، آپ کا نامِ مُبارَک محمد ہے اور دادا نے احمد رضا کہہ کر پُکارا اور اِسی نام سے مشہور ہوئےجبکہ سَن ِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا نام اَلْمُختار (1272ھ) ہے۔ (تذکرۂ امام احمد رضا ، ص3 ، مکتبۃ المدینہ کراچی)بچپن شریف کی شاندار جھلکیاں
* ربیع الاول1276ھ / 1860ء کو تقریباً 4 سال کی عمر میں ناظرہ قراٰنِ پاک ختم فرمایا اور اسی عمرمیں فصیح عربی میں گفتگو فرمائی۔ * ربیعُ الاول 1278ھ / 1861ء کو تقریباً 6 سال کی عمر میں پہلا بیان فرمایا۔ 1279ھ / 1862ء کو تقریبا ً 7 سال کی عمر میں رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے رکھنا شروع فرمائے۔ * شوّالُ المکرّم1280ھ / 1863ءکوتقریبا ً8سال کی عمر میں مسئلۂ وراثت(Inheritance Rulings) کا شاندار جواب لکھا۔ * 8سال ہی کی عمر میں نحوکی مشہورکتاب ہِدَایَۃُالنَّحْوپڑھی اور اس کی عربی شرح بھی لکھی۔ * شعبانُ المعظّم 1286ھ / 1869ء کو 13سال 4 ماہ اور 10دن کی عمر میں علومِ درسیہ سے فراغت پائی ، دستارِ فضیلت ہوئی ، اسی دن فتویٰ نویسی کا باقاعدہ آغازفرمایا اور دَرْس وتدریس کا بھی آغازفرمایا۔اعلٰی حضرت کےفتاویٰ
عاشقِ اعلیٰ حضرت امیراہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا الیاس قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہاِرشادفرماتے ہیں : امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ہزاروں فتاویٰ تحریر فرمائے ہیں ، چنانچہ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 13سال 10ماہ 4دن کی عمر میں پہلا فتویٰ “ حُرمتِ رضاعت “ (یعنی دودھ کے رشتے کی حُرمت) پر تحریر فرمایا تو آپ کے ابو جان مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے آپ کی فقاہَت(یعنی عالمانہ صلاحیت) دیکھ کر آپ کو مفتی کے مَنْصَب پر فائز کردیا ، اِس کے باوُجُود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کافی عرصے تک اپنےابوجان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے فتاویٰ چیک کرواتے رہے اور اس قَدَر احتیاط فرماتے کہ ابو جان کی تصدیق کے بغیر فتویٰ جاری نہ فرماتے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے 10سال تک کے فتاویٰ جمع شدہ نہیں ملے ، 10سال کے بعد جو فتاویٰ جمع ہوئے وہ ’’اَلْعَطَایَا النَّبَوِِیَّہ فِی الْفَتَاوَی الرَّضَوِیَّہ‘‘کے نام سے 30جلدوں پر مشتمل ہیں اور اُردو زَبان میں اتنے ضخیم (یعنی بڑے بڑے)فتاویٰ ، میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کسی مفتی نے بھی نہیں دیئے ہوں گے ، یہ 30جلدیں(30 Volumes) تقریباًبائیس ہزار (22000)صفحات پرمشتمل ہیں اور ان میں چھ ہزار آٹھ سو سینتالیس (6847) سوالات کے جوابات ، دوسو چھ(206) رسائل اور اس کے علاوہ ہزارہا مسائل ضمناً زیرِ بحث بیان فرمائے ہیں۔ اگر کسی نے یہ جاننا ہو کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کتنے بڑے مفتی تھے تو وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے فتاویٰ پڑھے ، متأثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا ، میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے فتاویٰ میں ایسے نکات(یعنی پوائنٹس)بیان فرمائے ہیں عقل حیران رہ جاتی ہے کہ کس طرح اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے یہ لکھے ہوں گے۔ (ماہنامہ فیضان ِ مدینہ ، صفرالمظفر1441 ، مکتبۃ المدینہ کراچی) کس طرح اتنے علم کے دریا بہا دئیے علمائے حق کی عقل تو حیراں ہے آج بھی صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللہُ علٰی محمَّدایک گھونٹ پانی
فقیہ اعظم حضرت علّامہ مفتی شریفُ الحق اَمجدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : مجدِّدِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان( رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ) نے ایک بارچالیس پینتالیس دِن تک ، 24 گھنٹے میں ایک گھونٹ پانی کے سوااورکچھ نہیں کھایاپیا ، اِس کے باوُجُود تصنیف ، تالیف ، فتویٰ نویسی (یعنی کتابیں لکھنے ، فتویٰ دینے) ، مسجِدمیں حاضِر ہو کر نَمازِ باجماعت ادا کرنے ، اِرشاد وتلقین ، وارِدِین وصادِرِین(یعنی آنے والوں)سے مُلاقاتیں وغیرہ معمولات میں کوئی فرق نہیں آیااور نہ ضعف ونقاہت(یعنی کمزوری)کے آثار ظاہر ہوئے۔ (نزہۃ القاری ، ۳ / ۳۱۰تسہیلاً ، فرید بک اسٹال لاہور) اُس کی ہستی میں تھا عمل جَوہر سنّتِ مصطَفٰے کا وہ پیکر عالِمِ دین ، صاحبِ تقویٰ واہ کیا بات اعلیٰ حضرت کی12سوالات کا جواب
شیخ عبدُاللہ میرداد بن احمد ابوالخیر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اعلیٰ حضرت ( رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ) کی خدمت میں نوٹ(یعنی کاغذی کرنسی) کےمتعلق 12سوالات پیش کئے ، آپ ( رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ) نے ایک دن اور کچھ گھنٹوں میں اُن کے جوابات لکھے اورکتاب کا نام “ کِفْلُ الْفَقِیْہِ الْفَاہِم فِی اَحْکَامِ قِرْطَاسِ الدَّرَاھِم “ تجویز فرمایا ، عُلَمائے مکّۂ مکرمہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً جیسے شیخ الائمہ احمد بن ابوالخیر ، مفتی و قاضی صالح کمال ، حافظ کتب حرم سید اسماعیل خلیل ، مفتی عبدُاللہصدیق اور شیخ جمال بن عبدُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ م نے کتاب دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور خوب سراہا (یعنی تعریف کی)۔ یہ کتاب مختلف پریس نے کئی بار پرنٹ کی حتّٰی کہ 2005ء میں بیروت لبنان سے بھی پرنٹ ہوئی ، اس وقت یہ کتاب کراچی یونیورسٹی کے’’ایم اے ‘‘کے سلیبس میں بھی شامل ہے۔ (ماہنامہ فیضان مدینہ ، صفرالمظفر1440)مُجَدِّدِ دین و مِلّت
پیارے پیارے اِسلامی بھائیو!بَاِتّفاقِ عُلَمائے عرب و عجم چودھویں صدی کے مُجَدِّد ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں بلکہ مولانا الشیخ محمد بن العربی الجزائری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اعلیٰ حضرت کا تذکرۂ جمیل (خوبصورت ذِکْر)اِن الفاظ میں فرمایا : ’’ہندوستان کا جب کوئی عالِم ہم سے ملتا ہے تو ہم اُس سے مولانا شیخ احمد رضا خاں ہندی ( رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ )کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، اگر اُس نے تعریف(Praise) کی تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سُنّی(یعنی صحیح العقیدہ)ہے اور اگر اُس نے مذمّت (Criticize) کی(بُرابَھلا کہا) تو ہم کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ شخص گمراہ اور بدعتی ہے ہمارے نزدیک یہی (یعنی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ) کسوٹی(Standard) ہے ۔ ‘‘ (انوار الحدیث ، ص19 ، مکتبۃ المدینہ کراچی) جو ہے اللّٰہ کا ولی بے شک عاشقِ صادِقِ نبی بے شک غوثِ اعظم کا جو ہے متوالا واہ کیا بات اعلیٰ حضرت کی (وسائلِ بخشش ، مکتبۃ المدینہ کراچی) صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللہُ علٰی محمَّدجنّت کی طرف پہل کرنے والا
امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ احباب کے شدید اِصْرار پر اپنے انتقال شریف سے تین سال قبل جبل پور تشریف لے گئے اور وہاں ایک ماہ قیام فرمایا۔ اس دوران وہاں کے رہنے والوں نے آپ سے خوب فیض پایا ، امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے گھریلو ناچاقیوں والوں کی اس طرح رہنمائی فرمائی کہ جو اَفراد ایک دوسرے سے رشتے داری ختم کر چکے تھے وہ آپس میں صُلْح کے لئے تیارہوگئے۔ دوبھائی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مرید تھے ، ایک دِن دونوں حاضر ہوئے ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےدونوں کی بات سُننے کے بعد یہ ایمان افروزجملے ارشاد فرمائے : “ آپ صاحبوں کا کوئی مذہبی تَخالُف (یعنی مخالفت) ہے؟ کچھ نہیں۔ آپ دونوں صاحب آپس میں پیر بھائی ہیں نسلی رشتہ چھوٹ سکتا ہے لیکن اسلام وسنّت اور اکابرِ سلسلہ سے عقیدت باقی ہے تو یہ رشتہ نہیں ٹوٹ سکتا۔ دو نوں حقیقی بھائی اور ایک گھر کے ، تمہارا مذہب ایک ، رشتہ ایک ، آپ دونوں صاحب ایک ہو کر کا م کیجئے کہ مخالفین کو دَسْت اندازی کا موقع نہ ملے۔ خوب سمجھ لیجئے! آپ دونوں صاحبوں میں جو سبقت(یعنی پہل) مِلنے میں کرے گا جنّت کی طرف سبقت کرے گا۔ “ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ان جملوں کا فوراً اثر ظاہر ہوا ، ناراضی بُھلا کر اسی وقت ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص 267 ملخصاً ، مکتبۃ المدینہ کراچی) صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللہُ علٰی محمَّدبُندوں کا تُحفہ
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ایک دن مُفتی بُرہانُ الحق جَبَل پُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے فرمایا : ’’مجھے اپنی دو بچیوں کے لئے بُندے (Earrings)چاہئیں‘‘مُفتی بُرہانُ الحق جَبَل پُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےحکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک مشہور دُکان سے بُندوں کی بہت ہی خوبصورت دو جوڑیاں لاکر پیش کردیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بُندے بہت پسند آئے ، سامنے ہی مُفتی بُرہانُ الحق جَبَل پُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی دونوں ننّھی مُنّی صاحبزادیاں بیٹھی ہوئی تھیں ، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : ’’ذَرا اِن بچیوں کو پہنا کر دیکھتا ہوں کہ کیسے لگتے ہیں‘‘یہ فرماکر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خود اپنے مُبارَک ہاتھوں سے دونوں بچیوں کو بُندے پہنائے اور دُعائیں عطا فرمائیں۔ اِس کے بعد اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بُندوں کی قیمت پوچھی ، مُفتی بُرہانُ الحق جَبَل پُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عرض کیا : حُضُور! قیمت ادا کردی ہے (آپ بس بُندے قبول فرمائیے)اِس کے بعد آپ اپنی بیٹیوں کے کانوں سے بُندے اُتارنے لگے (یہ سوچ کر کہ یہ بُندے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی صاحبزادیوں کے لئے ہیں)لیکن اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فوراً اِرشاد فرمایا : ’’رہنے دیجئے! میں نے یہ بُندے اپنی اِنہی دو بچیوں کے لئے تو منگوائے تھے‘‘ اِس کے بعد آپ نے مُفتی بُرہانُ الحق جَبَل پُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بُندوں کی قیمت بھی عطا فرمائی۔ (اِکرامِ اِمام احمد رَضا ، ص 90مفہوماً ، ادارہ سعودیہ کراچی)سات پہاڑ
سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جبل پور کے سفر میں کشتی(Ship) میں سفر فرما رہے تھے “ کشتی ‘‘نہایت تیز جا رہی تھی ، لوگ آپس میں مختلف باتیں کر رہے تھے ، اِس پر آپ نے اِرشاد فرمایا : “ اِن پہاڑوں کو کلمۂ شہادت پڑھ کرگواہ کیوں نہیں کرلیتے! “ (پھر فرمایا : ) ایک صاحب کا معمول تھا جب مسجِد تشریف لاتے تو سات ڈھیلوں (Stones یعنی پتّھروں) کو جوباہر مسجِد کے طاق میں رکھے تھے اپنے کلمۂ شہادت کا گواہ کرلیا کرتے ، اِسی طر ح جب واپس ہوتے تو گواہ بنالیتے۔ بعدِ انتقال ملائکہ (یعنی فرشتے) اُن کو جہنّم کی طرف لے چلے ، اُن ساتوں ڈھیلوں نے سات پہاڑ بن کر جہنّم کے ساتوں دروازے بند کر دیئے اور کہا : “ ہم اِس کے کلمۂ شہادت کے گواہ ہیں۔ “ انہوں نے نَجات پائی۔ تو جب ڈھیلے پہاڑ بن کر حائل (یعنی رُکاوٹ)ہوگئے تو یہ تو پہاڑ ہیں۔ حدیث میں ہے : “ شام کو ایک پہاڑ دوسرے سے پوچھتا ہے : کیا تیرے پاس آج کوئی ایسا گزرا جس نے ذِکْرِ الٰہی کیا ؟ وہ کہتا ہے : نہ۔ یہ کہتا ہے : میرے پاس توا یسا شخص گزرا جس نے ذِکْرِ الٰہی کیا ۔ وہ سمجھتا ہے کہ آج مجھ پر( اسے) فضیلت ہے۔ “ یہ (فضیلت ) سنتے ہی سب لوگ بآوازِ بلند کلمۂ شہادت پڑھنے لگے ، مسلمانوں کی زَبان سے کلمہ شریف کی صَدا(Sound) بلند ہو کر پہاڑوں میں گونج گئی۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص313 ، 314) صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللہُ علٰی محمَّدحدیث شریف پڑھانے کا انداز مبارک
حضرتِ مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ لکھتے ہیں : اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کُتبِ حدیث کھڑے ہوکر پڑھایا کرتے تھے ، دیکھنے والوں نے ہم کو بتایا کہ خود بھی کھڑے ہوتے ، پڑھنے والے بھی کھڑے ہوتے تھے اُن کا یہ فعل (یعنی انداز) بہت ہی مبارک ہے۔ (جاء الحق ، ص209 ، قادری پبلی کیشنز لاہور)اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن فِی الْحَدِیْث
اِمامِ اَہلِ سنّت ، اِمام اَحمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جس طرح دیگر کئی علوم میں اپنی مثال آپ تھے ، یونہی فنِ حدیث میں بھی اپنے زمانے کے عُلما پر آپ کو ایسی فوقیت (Precedence) حاصل تھی کہ آپ کے زمانے کے عظیم عالم ، 40سال تک درسِ حدیث دینے والے شیخُ المحدثین حضرت علّامہ وَصی احمد سُورَتی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے آپ کو’’اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن فِی الْحَدِیْث‘‘ کا لقب دیا۔ (ماہنامہ المیزان ، بمبئی ، امام احمد رضا نمبر اپریل ، مئی ، جون 1976ء ص247) علم کا چشمہ ہوا ہے مَوجزَن تحریر میں جب قلم تُو نے اُٹھایا اے امام احمدرضامدینے سے محبت
مبلغِ اسلام حضرتِ علّامہ مولانا شاہ عبدالعلیم صِدّیقی میرٹھی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ حرمینِ طیبین زادہُما اللہ شرفاً وَّ تعظیماً سے واپسی پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نہایت خوبصورت آوازمیں آپ کی شان میں منقبت پڑھی تو سیِّدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس پر کوئی ناگواری کا اِظہار نہیں فرمایا بلکہ اِرشاد فرمایا : مولانا! میں آپ کی خدمت میں کیا پیش کروں؟ (اپنے بہت قیمتی عمامے(Turban) کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ) اگر اِس عمامے کو پیش کروں تو آپ اُس دِیارِ پاک (یعنی مبارک شہر مدینۂ پاک) سے تشریف لارہے ہیں ، یہ عمامہ آپ کے قدموں کے لائق بھی نہیں۔ البتہ میرے کپڑوں میں سب سے بیش قیمت (یعنی قیمتی) ایک جُبَّہ ہے ، وہ حاضر کئے دیتا ہوں اور کاشانۂ اقدس سے سُرخ کاشانی مخمل کا جُبَّۂ مبارکہ لاکر عطا فرما دیا ، جو(اُس وقت کے) ڈیڑھ سو روپے سے کسی طرح کم قیمت کا نہ ہوگا۔ مولانا مَمدوح(یعنی شاہ عبدالعلیم میرٹھی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ )نے کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ پھیلا کرلے لیا۔ آنکھوں سے لگایا ، لبوں سے چوما ، سَر پر رکھا اور سینے سے دیر تک لگائے رہے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ، ۱ / ۱۳۲ تا ۱۳۴ ، ملخصاً ، مکتبۃ المدینہ کراچی) اُس منقبت کے چند اشعار یہ ہیں : تمہاری شان میں جو کچھ کہوں اُس سے سوا تم ہو قسیمِ جامِ عرفان اے شہِ احمد رضا تم ہو جو مرکز ہے شریعت کا مدار اہلِ طریقت کا جو محور ہے حقیقت کا وہ قطبُ الاولیاء تم ہو یہاں آکر ملیں نہریں شریعت اور طریقت کی ہے سینہ مجمعُ البحرین ایسے رہنما تم ہو ’’علیمِ ‘‘ خستہ اک ادنیٰ گدا ہے آستانے کا کرم فرمانے والے حال پر اس کے شہا تم ہو (یاد رہے کہ بعض لوگوں کے لئےاپنی تعریف پر خوش ہونا جائز ہوتاہے ، یہ “ اپنی تعریف پر پھولنے “ میں شامل نہیں۔ )خواہشِ اعلیٰ حضرت رَحْمۃُ اللہِ علیہ
سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مولانا عرفان بیسلپوریرحمۃ اللہ علیہ کو ایک خط لکھا جس کے آخر میں کچھ یوں لکھتے ہیں : وقتِ مَرگ (یعنی انتقال کا وقت)قریب ہےاور اپنی خواہش یہی ہے کہ مدینہ ٔ طیبہ میں ایمان کے ساتھ موت اوربقیع مبارک میں خیر کے ساتھ دفن(Burial) نصیب ہو۔ (مکتوباتِ امام احمد رضا ، ص202ملتقطاً) سایۂ دیوار و خاکِ دَر ہو یاربّ اور رضاؔ خواہشِ دَیْہِیْمِ قیصر ، شوقِ تخت جم نہیں (حدائقِ بخشش ، مکتبۃ المدینہ کراچی) شرحِ کلا مِ رضا : یا اللہ پاک!تیرے پیارے پیارے اورآخری نبی ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )کےقدموں میں مدینۂ پاک میں مجھے مدفن نصیب ہوجائے ، مجھےروم اورایران کے بادشاہوں کے تخت و تاج کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہے یِہی عطّارؔ کی حاجت مدینے میں مرے ہو عنایت سیِّدا ، یاغوثِ اعظم دَسْتْگِیر صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع