30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
مقدمہ
الحمد للّٰہ رب العٰلمین والصّلاۃ والسّلام علی خاتم النبیین و علی اٰلہ و صحبہ اجمعین اما بعد: اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل مبعوث فرمائے اور آخر میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر سلسلہ انبیاء کو ختم کردیا اوردائمی ہدایت کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی کتاب۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا دین مکمل کردیا،جیسا کہ فرمایا :﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلاَمَ دِیۡنًا﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔‘‘(پارہ 6،سورۃ المائدہ،آیت نمبر3) اوردینِ اسلام دنیاکے ہر زمانے ،خطےا ور قوم کے لیے ہے،لہذانظامِ حیات کے ہرمسئلے کا حل اسلام میں موجود ہے یا تو صراحت کے ساتھ قرآن وحدیث و اقوال صحابہ میں موجود ہے یا ایسے اصول وقواعد کی روشنی میں جنہیں سامنے رکھ کر ہر زمانے ،خطے اور قوم کے مسئلے کا حل دریافت کیا جاسکتا ہے اور یہ اسلام کے ایسے اصول وقوانین ہیں ، جو اسلامی شریعت کو ہر دور میں متحرک اور رواں دواں رکھتے ہیں اور اس میں جمود(ٹھہراؤ) پید انہیں ہونے دیتے ،اس لیے کسی دور میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلامی شریعت انسان کی رہنمائی نہیں کرسکتی۔ اسلام صرف عرب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانۂ ظاہری حیات کے لیے نہیں،بلکہ قیامت تک ہر زمانے ،خطےا ور قوم کے لیے ہے ،تغیرات ِ زمانہ سے نئے مسائل کاپیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے اور اس میں ممکن و واقع ہے کہ قرآن وحدیث میں اس نئے مسئلے کا ذکر صراحت کے ساتھ نہ ملے،جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث مبارک سے ظاہر ہے کہ جب سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے انہیں یمن بھیجنے کا ارادہ کیا ،تو ان سے دریافت فرمایا:’’كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟ قال: أقضي بكتاب اللہ، قال: فإن لم تجد في كتاب اللہ؟ قال: فبسنة رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، ولا في كتاب اللہ؟ قال: أجتهد رأيي، ولا آلو فضرب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم صدره، وقال: الحمد للّٰہ الذي وفق رسولَ رسولِ اللہ لما يرضي رسول اللہ‘‘ یعنی: جب تمہارے سامنے کوئی معاملہ پیش آئے گا ،تو کس طرح فیصلہ کرو گے؟عرض کی :کتاب اﷲ سے فیصلہ کروں گا۔ فرمایا: اگر کتاب اﷲ میں نہ پاؤ، تو کیا کرو گے ؟عرض کی : رسول ﷲصلی ﷲتعالیٰ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ فرمایا: اگر سنت رسول اﷲ میں بھی نہ پاؤ، تو کیا کرو گے؟عرض کی : اپنی رائے سے اجتہاد(مسئلے میں غور و خوض) کروں گااور اجتہاد کرنے میں کمی نہ کروں گا۔حضورِ اقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا:تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں کہ جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق بخشی کہ جس سے اس کا رسول راضی ہوتا ہے۔(سنن ابو داؤد،باب اجتھاد الرای ،حدیث 3592،جلد3،صفحہ303، المكتبة العصرية، بيروت) نئے مسائل کوحل کرنے کے لیے اسلام ہمیں بہت سے اصول عطا کرتا ہے ،جنہیں سامنے رکھ کرعلمائے کرام اس نئے مسئلے کی شرعی حیثیت کو پرکھ سکتے ہیں کہ یہ نیا مسئلہ شریعت کی نگاہ میں کیسا ہے؟اور نئے مسائل کو پرکھنے کے بنیادی اصولوں میں ایک اہم اصول ( ’’ما رأى المسلمون حسنا، فهو عند اللہ حسن‘‘ جس چیز کو مسلمان اچھاخیال کریں ، تو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے)پرذیل میں ہم گفتگو کریں گے، جو ایک حدیث پاک کا جز بھی ہے۔ شرعی اصول وقواعد کی روشنی میں نئے مسائل اخذ کرنے کی قابلیت و مہارت اور صلاحیت و اہلیت رکھنے والےعلمائے کرام بخوبی جانتے ہیں کہ جب کسی اسلامی اصول کو کسی مسئلے کی بنیاد بنایا جائے تو اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ سلف صالحین اور علمائے مجتہدین کے نزدیک اس اصول کی حدود وقیود کیا ہیں اور اس میں کتنی وسعت ہے اور سابقہ علما ء نے کن جگہوں پر اس اصول کا استعمال فرما یا ہے تاکہ اس اصول سے نئے مسائل کو اخذ کرنے میں حتی الامکان غلطی سے اپنے آپ کو محفوط کیا جاسکے۔ اس قانون کی اہمیت کے پیش نظر شیخ الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ نے مذکورہ قانون’’ما رأى المسلمون حسنا، فهو عند اللہ حسن ‘‘)جس چیز کو مسلمان اچھاخیال کریں ، تو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے(کے ماخذ یعنی حدیث کی تحقیق و تخریج کا فرمایا کہ فقہاء و محدثین نے کس انداز سےیہ قانون استعمال کیا ہے اور کن مسائل میں اس سے استدلال کیا ہے۔ مفتی صاحب کے ارشاد کے مطابق اس روایت کی تحقیق و تخریج اور اس قانون کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاءو محدثین نے جو کلام کیا ہے،اس کو ذیل میں تحریر کیا گیا اور مذکورہ قانون چونکہ ایک حدیث پاک کا جز ہے،تو اس لیے پہلے مکمل حدیث مبارک متن ،ترجمہ اور تخریج کےساتھ ذکر کی گئی اور پھر اس کے بعد اس حدیث کی سند پر صحت و عدم صحت اور موقوف و مرفوع ہونے کے اعتبارسے کلام کیا ہے اور اس روایت کا ابتدائی حصہ چونکہ فضیلت اور دوسرا حصہ ایک فضیلت کے ساتھ ساتھ ایک ضابطے اور قانون پر مشتمل ہے ،اس لیے ذیل میں پہلے اس روایت کے ابتدائی فضیلت والے حصے کو مکمل شرح و معانی کے ساتھ بیان کیاہے اور پھر اس کے بعد مذکورہ قانون اور ضابطے پر مختلف پہلوؤں سے کلام کیا گیا ہے۔ اختصار سے کام لیتے ہوئے اس کی چند مثالیں تحریر کی ہیں،تاکہ اس عظیم قانونِ شرعی کی حدود قیودات کومتعین کیا جاسکے اور علوم شرعیہ کے سمندر میں غوطہ زن ہونے والوں کے لیے نئی راہیں کھل سکیں۔ ابو قبیس محمد اویس مدنی (دارالافتاء اہلسنت فیصل آباد)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع