Shukr kay Fazail
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Shukr kay Fazail | شکر کے فضائل

    Muhammad Bin Ubaid Alqarashi Kon They Un Ka Taaruf Kya Hai

    book_icon
    شکر کے فضائل
                
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    ’’شکراداکیجئے ‘‘کے 11حُروف کی نسبت سے اس کتاب کو پڑھنے کی’’11 نیّتیں ‘‘

    --------- فرمانِ مصطفیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : ’’ نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖیعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے ۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی، الحدیث : ۵۹۴۲، ج۶، ص۱۸۵) دو مَدَنی پھول : {۱} بغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔ {۲}جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔ ---------{۱}ہر بارحمد و {۲}صلوٰۃ اور{۳}تعوُّذو{۴}تَسمِیَہ سے آغاز کروں گا(اسی صَفْحَہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے گا)۔ {۵} رِضائے الٰہیعَزَّوَجَلَّ کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مُطَالَعہ کروں گا۔ {۶} حتَّی الْوَسْع اِس کا باوُضُو اور قِبلہ رُو مُطالَعَہ کروں گا{۷}جہاں جہاں ’’ اللہ ‘‘ کا نامِ پاک آئے گا وہاں عَزَّوَجَلَّ اور {۸} جہاں جہاں ’’سرکار‘‘کا اِسْمِ مبارَک آئے گا وہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پَڑھوں گا۔{۹}دوسروں کویہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔{۱۰}اس حدیث ِپاک’’ تَھَادَوْا تَحَا بُّوْا‘‘ ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی ۔ (مؤطاامام مالک، ج۲، ص۴۰۷، الحدیث : ۱۷۳۱) پر عمل کی نیت سے (ایک یا حسبِ توفیق) یہ کتاب خرید کر دوسروں کو تحفۃً دوں گا۔ {۱۱}کتابت وغیرہ میں شَرْعی غلَطی ملی تونا شرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا ۔ (مصنّف یاناشِرین وغیرہ کو کتابوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتاناخاص مفید نہیں ہوتا) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    المد ینۃ العلمیۃ

    از : شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ---------اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَا نِہٖ وَبِفَضْلِ رَسُوْلِہٖصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمتبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دُنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے ، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰیپر مشتمل ہے ، جس نے خالص علمی، تحقیقی اوراشاعتی کام کا بیڑااُٹھایاہے ۔اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں : (۱)شعبۂ کتُبِ اعلیٰ حضرت------------------(۲)شعبۂ درسی کُتُب (۳)شعبۂ اصلاحی کُتُب ------------------(۴)شعبۂ تراجمِ کتب (۵)شعبۂ تفتیشِ کُتُب ------------------(۶)شعبۂ تخریج ---------’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنّت، عظیم البَرَکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیٔ سنّت ، ماحیٔ بِدعت، عالِمِ شَرِیعت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحا فِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْع سہل اُسْلُوب میں پیش کرناہے ۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی، تحقیقی اوراشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اور مجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔ --------- اللہ عَزَّوَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘کی تمام مجالس بَشُمُول’المد ینۃ العلمیہ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اِخلاص سے آراستہ فرماکر دونو ں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے ۔ ہمیں زیرِ گنبد ِ خضراشہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔---------اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ------------------ رمضان المبارک ۱۴۲۵ھـ ٭٭٭٭

    پہلے اسے پڑھ لیجئے !

    ---------خدائے اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن جَلَّ جَلَا لُـہٗ کی بے شمارنعمتیں ساری کائنات کے ذرے ذرے پر بارش کے قطروں کی گنتی سے بڑھ کر، درختوں کے پتوں سے زیادہ، دُنیابھرکے پانی کے قطروں سے زیادہ، ریت کے ذروں سے زیادہ ہرلمحہ ہر گھڑی بن مانگے طوفانی بارشوں سے تیزتربرس رہی ہیں ۔جن کو شمار کرنے کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتااوراس کااعلان خودخدائے حنّان ومنّان عَزَّوَجَلَّ نے اپنے پیارے کلام قرآن پاک میں اس طرح فرمایاہے : وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-(پ ، ۱۴ النحل : ۱۸) ترجمۂ کنزالایمان : اوراگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکوگے ۔ ---------پھراس کائنات میں جوشرف وفضیلت انسان کوحاصل ہے ، اس سے پتا چلتا ہے کہ بندہ کسی بھی وقت، کسی بھی لمحے ، کسی بھی حالت میں بلکہ کسی بھی صورت میں اپنے خالق ومالک عَزَّوَجَلَّ کی بے حدوبے شمارنعمتوں سے بے تعلق نہیں ہو سکتا ۔ اس کااندازہ محض ایک لقمے سے لگایا جا سکتا ہے جونہ صرف خود ایک نعمت ہے بلکہ اس کے دامن میں بے حدوبے حساب نعمتیں موجودہیں ۔کن کن مراحل سے گزرکروہ لقمہ اس قابل بنتاہے کہ اس سے غذاحاصل ہوسکے ۔ان پرغور کیجئے ! ---------لقمہ دوچیزوں کامجموعہ ہے ، روٹی اورسالن، روٹی بنتی ہے آٹے سے ، آٹابنتا ہے گندم سے ۔ اورسالن سبزی اورگوشت سے تیارہوتاہے ۔جن جانوروں کے گوشت سے سالن بنایاجاتاہے ان کی نشوونما گھاس وغیرہ سے ہوتی ہے ۔ سبزی اورگھاس کی پیداوارزمین سے ہوتی ہے ۔ اَلْمُخْتَصَر روٹی اور سالن کا حصول زرعی پیداوارپرموقوف ہے اورزرعی پیداوارمیں زمین اورآسمان کا بڑا دخل ہےکیونکہ اناج اورسبزیوں اوران کے ذائقوں کے لئے سورج کی حرارت… چاند کی کرنوں …ہواؤں …بادلوں …بارشوں …دریاؤں … اورسمندروں کی ضرورت ہے … سمندروں سے بخارات اٹھتے ہیں …بادل بنتے ہیں …ان سے بارش برستیہے …وہ کھیتیوں کو سیراب کرتی ہے …کھیتیاں پک کر تیار ہوتی ہیں …پھر انہیں کاٹا جاتا ہے …اورہیوی مشینری سے گندم کو چھلکے سے علیحدہ کیاجاتاہے … پھراسے پیسنے کے لئے ٹرکوں وغیرہ کے ذریعے چکیوں اور فلورملزتک پہنچایا جاتا …اور گندم پیسنے کے لئے لوہے کی مشینوں اور سالن پکانے کے لئے برتنوں نیز ایندھن کی ضرورت پڑتی ہے … خدائے مہربان عَزَّوَجَلَّ نے زمین میں لوہے کے معدنیات رکھے …ایندھن کے حصول کے لئے زمین میں کوئلہ رکھا… قدرتی گیس اورتیل پیداکیا… جنگلات میں درخت اگائے ۔ الغرض! زمین وآسمان، چاندوسورج، ستارے وبادل، سمندر و دریا، بارشیں و ہوائیں اوراناج وسبزیاں سب چیزیں اس ایک لقمہ کی تیاری میں اپنااپنا کردارادا کر رہی ہیں ۔ اگر ان میں سے ایک چیزبھی نہ ہوتو زرعی پیداواربند ہوجائے ۔پھر بندہ اس لقمہ کومنہ میں رکھتا ہے تواس سے لطف اندوزی کے لئے زبان میں ذائقہ کی حس پیدا فرمائی ۔ زبان میں ایک ایسا لعاب رکھا جو اس کوہضم کرنے میں معاون ہوتاہے ۔اسے چبانے کے لئے دانت بنائے ۔ ---------پھرلقمہ کوحلق سے اتارنے کے بعدبندے کااختیارختم …اب اس کو ہضم کرنا جسمانی اعضاء کاکام ہے …معدہ لقمے کوپیستاہے …جگراس سے خون بناتا ہے … فضلہ انتڑیوں اورمثانے میں چلاجاتاہے اوریوں اس لقمے سے انسان کے جسمانی اعضاء کی نشوونما ہوتی ہے ۔آنکھ ، ناک، کان ہاتھ اورپیرسب کو اسی سے غذائیت ملتی ہے ۔اسی سے چربی بنتی ہے …اسی سے گوشت بنتا ہے … اسی سے ہڈیاں بنتی ہیں …اسی سے خون بنتاہے اورانسان زندہ رہتاہے ۔ ---------اس قدرنعمتوں کے ہجوم کاتقاضاہے کہ بندے کی ہرساعت، ہرسانس رب تعالیٰ کے لئے صرف ہو، کھائے تورب تعالیٰ کے لئے …پئے تورب تعالیٰ کے لئے …چلے تورب تعالیٰ کے لئے …دیکھے تورب تعالیٰ کے لئے …سنے تو رب تعالیٰ کے لئے …بولے تورب تعالیٰ کے لئے …سوئے تورب تعالیٰ کے لئے الغرض! اس کا جینااورمرنااپنے کریم رب تعالیٰ کے لئے ہو۔ ---------میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ توایک لقمے کی بات تھی ۔اس کے علاوہ بھی بے شمارنعمتیں ہیں ۔ان میں کثیرنعمتیں بن مانگے عطاہوئی ہیں توکچھ طلب کرنے پربخشی گئی ہیں ۔ایک طرف ظاہری نعمتیں ہیں تودوسری طرف باطنی نعمتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے ۔گویابندہ اس کی نعمتوں کے سمندرمیں ہروقت غوطہ زن رہتا ہے ۔ اوپر نگاہ اٹھائے تواسی کی نعمتوں کے دلکش نظارے ہیں …نیچے دیکھے تواسی کی نعمتوں کے جال بچھے ہیں … دائیں دیکھے تواسی کی نعمتیں …بائیں دیکھے تواسی کی نعمتیں …آگے دیکھے تواسی کی نعمتیں …پیچھے مڑکرنظرکرے تو اسی کی نعمتیں … حتی کہ خودیہ دیکھنابھی اسی کی نعمت…چلے توچلنانعمت… بیٹھے توبیٹھنا نعمت … کھائے توکھانا نعمت…پئے توپینانعمت، سوئے توسونانعمت… جاگے توجاگنا نعمت…بولے توبولنانعمت…سنے توسننانعمت…پہنے توپہننانعمت…لکھے تولکھنا نعمت…پڑھے توپڑھنانعمت…سمجھے تو سمجھنانعمت اورجس نعمت کی ناشکری کی جائے وہ عذاب اورآفت ہے ۔چنانچہ، ---------(1)…حضرت سیِّدُنا امام حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّجب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کوفائدہ پہنچاتا رہتا ہے اورجب اس کی ناشکری کی جاتی ہے تووہ اسی کو ان کے لئے عذاب بنادیتاہے ۔‘‘ --------- (2)…امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علیکَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اہلِ ہمدان میں سے ایک شخص سے ارشاد فرمایا : ’’ بے شک نعمت کا تعلق شکر کے ساتھ ہے اورشکر کا تعلق نعمتوں کی زیادتی کے ساتھ ہے ، یہ دونوں ایک دوسرے کو لازم ہیں ۔پس اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے نعمتوں کی زیادتی اس وقت تک نہیں رُکتی جب تک کہ بندے کی طرف سے شکر نہ رُک جائے ۔‘‘ ---------بندے پرواجب ہے کہ نعمتوں پر خدائے بزرگ وبرترکاشکراداکرتا رہے ۔ چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشادفرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲) (پ۲، البقرۃ : ۱۷۲) ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والوکھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانواگرتم اسی کوپوجتے ہو۔ --------- صَدْرُالْاَفَاضِل حضرت علامہ مفتی سیدمحمدنعیم الدین مرادآبادیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی اس کی تفسیرمیں فرماتے ہیں : ’’اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پرشکر واجب ہے ۔‘‘تفسیربیضاوی میں اس کے تحت لکھاہے کہ’’عبادت بغیر شکرکے مکمل نہیں ہوتی۔‘‘اور تفسیرکبیر میں فرمایا کہ ’’شکرتمام عبادتوں کی اصل ہے ۔‘‘ ایک اور مقام پر اللہ رب العالمین کاارشادہے : وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(۱۵۲) (پ۲، البقرۃ : ۱۵۲)تفسیرخازن میں اس کامعنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’میری اطاعت کر کے میرا شکراداکرو اور میری نافرمانی کرکے ناشکرے مت بنو۔‘‘بے شک جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی اس نے اس کا شکراداکیا اور جس نے نافرمانی کی اس نے اس کی ناشکری کی۔تفسیرابن کثیرمیں حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی سے منقول ہے کہ’’جوبندہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کاذکر کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا ذکر کرتا ہے اورجواس کا شکر کرتاہے اسے وہ اورعطا فرماتا ہے اورجواس کی ناشکری کرے گااسے وہ عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔‘‘ ---------پیارے اسلامی بھائیو!شکراعلیٰ درجے کی عبادت ہے ۔۔۔۔۔شکرکی توفیق عظیم سعادت ہے ۔۔۔۔۔ شکرمیں نعمتوں کی حفاظت ہے ۔۔۔۔۔شکرہی نعمتوں میں باعث زیادت ہے ۔۔۔۔۔ شکر اللہ والوں کی عادت ہے ۔۔۔۔۔ شکر رب عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت ہے ۔۔۔۔۔شکرذریعہ ٔ بقاء ِنعمت ہے ۔۔۔۔۔ شکرترکِ معصیت ہے ۔۔۔۔۔ شکر معرفت نعمت ہے ۔۔۔۔۔جبکہ۔۔۔۔۔ناشکری باعث ہلاکت ۔۔۔۔۔اور نعمتوں میں رکاوٹ ہے ۔توآئیے ان تمام باتوں نیز۔۔۔۔۔شکرکی حقیقت ۔۔۔۔۔ شکر کرنے میں انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کا انداز ۔۔۔۔۔ صحابۂ کرام اوراولیاء عظام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنکا طریقۂ شکر ۔۔۔۔۔ شکرکے فوائد۔۔۔۔۔ شکرگزاروں کی کچھ حکایات اور ناشکری کے نقصانات وغیرہ جاننے کے لئے پیش نظر کتاب ’’شکرکے فضائل‘‘ (جو ’’اَلشُّکْرُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ‘‘ (مطبوعہ : دارابن کثیربیروت۔۱۴۰۷ھـ/۱۹۸۷ء)کاترجمہ ہے ) کامطالعہ کیجئے اور اس کتاب کو نعمت جانتے ہوئے اس کے شکرانے میں ’’ دعوتِ اسلامی‘‘کے اشاعتی ادارے ’’مکتبۃ المدینہ‘‘ سے ہدیۃً حاصل کرکے دوسرے اسلامی بھائیوں تک پہنچائیے اور شکر گزاروں کو ملنے والے انعامات کے حقداروں میں شامل ہوجائیے ۔ --------- اس ترجمہ میں جو بھی خوبیاں ہیں وہ یقینا ً اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عطاؤں ، اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَامکی عنایتوں اور شیخ طریقت، امیر اہلسنّت، بانی ٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی پر خلوص دُعاؤں کا نتیجہ ہے اور جو خامیاں ہیں ان میں ہماری کوتاہ فہمی کادخل ہے ۔ ترجمہ کرتے ہوئے درج ذیل اُمور کاخصوصی طور پر خیال رکھا گیا ہے : ٭…سلیس اوربامحاورہ ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ کم پڑھے لکھے اسلامی بھائی بھی سمجھ سکیں ۔ ٭…آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت، شاہ امام احمد رضا ؔخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے ترجمۂ قرآن ’’کنز الایمان‘‘ سے لیاگیا ہے ۔ ٭… آیاتِ مبارکہ کے حوالے نیزحتی المقدوراحادیث و اقوال وغیرہ کی تخاریج کا اہتمام کیاگیا ہے ۔ ٭…بعض مقامات پر مفیداورضروری حواشی کا التزام کیا گیا ہے ۔ ٭…مشکل الفاظ پر اِعراب لگانے کی سعی کی گئی ہے ۔ ٭…مشکل الفاظ کے معانی ہلالین(…) میں لکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ ٭…علاماتِ ترقیم(رُموزِاوقاف) کابھی خیال رکھا گیاہے ۔ --------- اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دُعا ہے کہ ہمیں ’’اپنی اور ساری دُنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش‘‘ کرنے کے لئے مدنی اِنعامات پر عمل اور مدنی قافلوں میں سفر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوتِ اسلامی کی تمام مجالس بشمول مجلس المدینۃ العلمیۃکو دن پچیسویں رات چھبیسویں ترقی عطا فرمائے ۔( اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)--------- شعبۂ تراجم کتب(مجلس المدینۃ العلمیۃ) --------- ٭٭٭٭٭٭٭

    تعارُفِ مُصنِّف

    نام ونسب :

    ---------آپ کانامِ نامی اسم گرامی عبد اللہ بن محمد بن عبید بن سفیان بن قیس القرشی ہے ۔آپ کی کنیت ابو بکر ہے اورابن ابی دُنیاکے نام سے مشہور ہیں ۔

    ولادتِ باسعادت :

    ---------آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ۲۰۸ھِجْرِی کوبغدادمیں پیداہوئے ۔

    اساتذۂ کرام :

    ---------آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کثیرعلماء سے اکتسابِ فیض کیا۔امام ذہبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں ہمارے شیخ نے اپنی کتاب میں ان کے اساتذہ کے اسماء جمع کئے ہیں ، وہ تقریباً 190ہیں ۔(1) ---------اما م ابن حجر عسقلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے تقریباً 18اساتذہ کے اسماء نقل کئے ہیں اورفرمایا کہ ان کے اساتذہ بہت زیادہ ہیں ۔(2)جن میں سے امام بخاری، امام ابوداؤدسجستانی، احمدبن ابراہیم، احمدبن حاتم، احمدبن محمدبن ایوب، ابراہیم بن عبداللہ ہروی، داؤدبن رشید، حسن بن حماد، ابو عبیدہ بن فضیل بن عیاض، ابراہیم بن محمد بن عرعرہ، احمدبن عمران احنسی رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن وغیرہ کے اسمائے گرامی معروف ہیں ۔

    تلامذہ :

    --------- آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے تلامذہ کی بڑی تعدادہے ۔جنہوں نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے وسیع علم سے وافرحصہ پایا۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے اکابر تلامذہ میں سے کچھ کے نام یہ ہیں : امام حارث بن ابی اسامہ، یہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اساتذہ میں سے ہیں لیکن انہوں نے بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے روایات لی ہیں ۔ابن ابی حاتم، احمدبن محمد، ابوبکراحمدبن سلیمان، ابو علی بن خزیمہ، ابوالعباس بن عقدہ، عبداللہ بن اسماعیل بن برہ، ابوبکر بن محمدبن عبداللہ شافعی، ابوبکر احمد بن مروان دینوری، ابوالحسن احمدبن محمدبن عمر نیشاپوری، اور محمد بن خلف وکیع رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن ۔ان کے علاوہ بھی بہت لوگوں نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے علوم سے فیض پایاہے ۔امام ذہبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِینے تقریباً 26 تلامذہ کے نام ذکر کئے ہیں ۔(3)اورامام ابن حجر عسقلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے 17کے نام ذکر کئے ہیں ۔‘‘ (4) ---------اما م ابن ابی دُنیا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے بعض شہزادوں کوبھی پڑھایاہے جیسا کہ امام خطیب بغدادیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی نے ایک حکایت بیان کی کہ’’ابوذر قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ مجھے امام ابن ابی دُنیا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بتایاکہ ایک دن عباسی خلیفہ مُکْتَفِی بِاللّٰہہاتھ میں تختی لئے اپنے دادا مُوَفَّق باللّٰہ کے پاس آیا۔ دادا نے دیکھاتوپوچھا : ’’یہ تیرے ہاتھ میں تختی کیوں ہے ؟‘‘اس نے جواب دیا : ’’میرے خادم کاانتقال ہوگیاہے اوراس کی مدرسے آنے جانے کی تکلیف سے خلاصی ہوگئی ہے ۔‘‘مُوَفَّقنے کہا : ایسی بات نہ کہو۔ایک مرتبہ خلیفہ رشیدنے حکم دیاتھاکہ’’اس کی اولاد کی تختیاں ہرپیر اورجمعرات کے دن اسے پیش کی جائیں ۔‘‘ چنانچہ، وہ اس پر پیش کی جاتی رہیں ایک دن اس نے اپنے بیٹے سے کہاکہ’’تیرے خادم کوکیاہواوہ تمہاری تختی نہیں لایا؟‘‘بیٹے نے کہا : ’’وہ انتقال کرگیاہے اوراسے مدرسے آنے جانے کی تکلیف سے خلاصی مل گئی ہے ۔‘‘ رشیدنے کہا : ’’گویاموت کی تکلیف تم پر مدرسہ سے آسان ہے ؟‘‘بیٹے نے کہا : ’’جی ہاں !‘‘تورشیدنے اس کوکہاکہ’’پھرتم مدرسہ چھوڑدو۔‘‘ ---------پھرجب مُکْتَفِی دوبارہ اپنے داداسے ملاتواس نے پوچھا کہ’’تیری اپنے استاذسے محبت کیونکرہے ؟‘‘ مُکْتَفِی نے جواب دیا : ’’میں کیوں ان سے محبت نہ کروں جبکہ میری زبان پرسب سے پہلے ذکراللہ (عَزَّوَجَلَّ)جاری کرنے والے وہی توہیں ۔اوروہ ایسے شخص ہیں کہ اگر آپ کے ساتھ ہوں توجب آپ ہنسنا چاہیں وہ آپ کو ہنسادیں اور جب آپ روناچاہیں تووہ آپ کورُلادیں ۔مُوَفَّق نے کہا : ان کو میرے پاس لے کر آؤ!‘‘امام ابن ابی دُنیا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ’’میں اس کے پاس گیااوراس کے تخت کے قریب جاکراسے بادشاہوں کے واقعات اورپندونصائح سنانے لگا۔ جنہیں سن کروہ رونے لگا۔‘‘ ---------اتنے میں مُکْتَفِینے مجھے کہا کہ’’آپ نے ان کواتناکیوں رُلایا؟‘‘تو مُوَفَّقنے اس کوکہا : ’’ اللہ تمہارابراکرے تم امام کوکیوں بولتے ہو؟‘‘ان سے الگ ہوجاؤ!پھرمیں نے دیہاتیوں کے واقعات سنانے شروع کئے تووہ بہت خوش ہوا اورہنسنے لگا اور کہاکہ’’آپ نے مجھے خوش کردیا، آپ نے مجھے خوش کردیا۔‘‘ (5)

    تعریفی کلمات :

    (1)…امام ابن ابی حاتم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : میں اورمیرے والد امام ابن ابی دُنیارَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی روایات لکھاکرتے تھے ، ایک دن کسی نے میرے والد صاحب سے امام ابن ابی دُنیارَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے بارے میں پوچھاتو والد صاحب نے فرمایا : ’’وہ بہت سچے آدمی ہیں ۔‘‘ (6) (2)…قاضی اسماعیل بن اسحاق رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے وصال کے موقعے پرکہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ ابو بکرکوغریقِ بحررحمت فرمائے !ان کے ساتھ کثیر علم بھی چلاگیا(7) (3)…احمد بن کامل رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے وصال کے موقعے پر کہاکہ’’امام ابو بکرابن ابی دُنیارَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہوصال فرماگئے ۔وہ خلیفہمُعْتَضِدکے استاذتھے ۔‘‘ (8) (4)…امام ذہبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نقل فرماتے ہیں کہ’’امام ابن ابی دُنیارَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہجب کسی کے پاس تشریف فرماہوتے تواگراس کوہنساناچاہتے توایک لمحے میں ہنسا دیتے اوراگررلاناچاہتے تو رُلادیتے ۔کیونکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہبہت وسیع علم رکھتے تھے ۔‘‘ (9) (5)…ابن ندیم نے کہا : ’’امام ابن ابی دُنیا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے خلیفہمُکْتَفِی بِاللّٰہکوبہت ادب سکھایاہے ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایک متقی اورپرہیز گار آدمی تھے اور اخبارو روایات کے بہت بڑے عالم تھے ۔‘‘

    علمی اَثاثہ :

    ---------آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کثیرکتابیں یادگارچھوڑیں ۔جن میں سے اکثر ’’زُہدورقائق‘‘ پرمشتمل ہیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی نصیحتوں اورمواعظ اورکتب کوہردور میں بے پناہ مقبولیت حاصل رہی ہے ۔ ---------حضرتِ علامہ ابن جوزیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں کہ’’امام ابن ابی دُنیا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے زہدکے موضو ع پر100سے زائدکتب لکھی ہیں ۔‘‘ (10) ---------امام ذہبیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی 183کتابوں کے نام بیان کئے ہیں ۔(11) ---------آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی چندکتابوں کے نام یہ ہیں : 1…اَلْقَنَاعۃ۔ 2… قَصْرُالْاَمَل۔ 3…اَلصَّمْت۔4…اَلتَّوْبَۃ۔ 5…اَلیَقِیْن۔ 6…اَلصَّبْر۔ 7…الجُوْع۔8…حُسْنُ الظَّنِ بِاللّٰہ۔ 9…اَ لْاَوْلِیَاء۔ 10…صِفَۃُ النَّار۔ 11…صِفَۃُ الْجَنَّۃ۔12…تَعْبِیْرُالرُّؤْیَاء۔ 13…الدُّعَاء۔ 14…ذَمُّ الدُّنْیَا۔ 15 …اَ لْاَخْلَاق۔16…کَرَامَاتُ الْاَوْ لِیَاء۔17… عَاشُوْرَاء۔18…اَلْمَنَاسِک۔ 19…اَخْبَارُ اُوَیْس۔20…اَخبارُ مُعَاوِیَہ۔ ---------ان کے علاوہ بھی کئی کتب ورسائل ہیں جنہیں عوام وخواص میں بڑی پذیرائی حاصل ہے ۔ان کی کتب سے بے توجہی نہ چاہئے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ حضرت مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی کتابوں کوہرایک کے لئے نافع بنائے ۔ (اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)

    سفرآخرت :

    --------- آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہخوشبوئے علم سے اکنافِ عالم کومعطرفرماتے ہوئے ۲۸۱ ہِجْرِی، ماہِ جُمَادَی الاُولٰیمیں اس دُنیائے فانی سے رُخصت ہوگئے اور اپنے محبوبِ حقیقیعَزَّوَجَلَّسے جاملے ۔ قاضی ابو الحسن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہبیان فرماتے ہیں کہ ’’جس دن امام ابن ابی دُنیا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا وصال ہوامیں اس دن صبح سویرے قاضی اسماعیل بن اسحاق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الرَّزَّاق کے پاس آیااورکہا کہ ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ قاضی کی عزّت بڑھائے !امام ابن ابی دُنیا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وصال فرماگئے ہیں ۔‘‘انہوں نے فرمایا : ’’ابوبکرپر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہو!ان کے ساتھ کثیر علم بھی چلاگیا۔‘‘ پھر فرمایا : ’’اے لڑکے !یوسف بن یعقوب کے پاس چلو! وہ نمازِجنازہ پڑھائیں گے ۔ ---------پھریوسف بن یعقوب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہتشریف لائے اور’’شُوْنِیْزِیَّہ‘‘میں نمازِجنازہ پڑھائی۔امام ابن ابی دُنیا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے جسد ِخاکی کو ’’شُوْنِیْزِیَّہ‘‘ ہی کے قبرستان میں سپردِخاک کیاگیا۔(12) { اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین} ٭٭٭٭٭٭٭ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    حِصّہ اَوّل

    نعمت کی حفاظت کانسخہ :

    {۱}… حضرت سیِّدُنااَنس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی ٔ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا : ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی بندے کو اہل، مال اور اولاد کی صورت میں کوئی نعمت عطا کرے ، پھر وہ کہے : {مَا شَآء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ}یعنی جو اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے ، نیکی کرنے کی طاقت اسی کی توفیق سے ہے ۔ (یعنی شکرادا کرے )تووہ اس میں موت کے علاوہ کوئی آفت نہیں دیکھے گا۔‘‘ (13)

    نعمتوں کا احترام کیا کرو :

    {۲}…اُم المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیرے پاس تشریف لائے اورروٹی کا ایک ٹکڑا گرا ہوا دیکھا، تو اسے (اٹھا کر) پونچھا اور ارشاد فرمایا : ’’ اے عائشہ! اللہ عَزَّوَجَلَّکی نعمتوں کا احترام کیا کرو۔ اس لئے کہ جب یہ کسی اہلِ خانہ سے روٹھ کرچلی جاتی ہیں تو دوبارہ لوٹ کر نہیں آتیں ۔‘‘ (14)

    نعمتوں میں زیادتی کا باعث :

    {۳}… حضرت سیِّدُنا عطارد قرشی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حضورنبی ٔ مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا : ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندے کو شکرکی توفیق عطافرماتا ہے توپھر اسے نعمت کی زیادتی سے محروم نہیں فرماتا کیونکہ اس کا فرمانِ عالیشان ہے : لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ (پ۱۳، ابرہیم : ۷) ترجمۂ کنز الایمان : اگراحسان مانوگے تومیں تمہیں اوردوں گا۔ (15)(16)

    دُعائے شکر :

    {۴}… حضرت سیِّدُناابو عبداللہ محمد بن منکدرقرشی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی سے روایت ہے کہ سیِّدُ الَْمُبَلِّغِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْنصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمیہ دُعا کیا کرتے تھے : ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِک۔ یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! اپنے ذکر، شکر اور اچھی عبادت پر میری مدد فرما۔‘‘ (17)

    سیِّدُنا داؤد عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم کی مناجات :

    {۵}… حضرت سیِّدُنا ابو جلدجیلان بن فروہ بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : حضرت سیِّدُنا داؤد عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم کی مناجات میں سے یہ بھی ہے کہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی : ’’اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! میں تیرا شکر کیسے اداکروں جبکہ میں تیرے شکرتک تیری نعمت کے بغیر نہیں پہنچ سکتا؟‘‘ تو آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلاَم پر وحی نازل ہوئی کہ’’اے داؤد! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جتنی نعمتیں تیرے پاس ہیں وہ میری طرف سے ہیں ؟‘‘ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلاَم نے عرض کی : ’’ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!کیوں نہیں ۔‘‘ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا : ’’مَیں تیرے اسی شکر ادا کرنے (یعنی اقرارِ نعمت) پر تجھ سے راضی ہوں ۔‘‘ (18)

    سیِّدُنا موسٰی عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم کی مناجات :

    {۶}… حضرت سیِّدُناابوجلدبصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم کی مناجات میں سے یہ بھی ہے کہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی : ’’ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!میں کس طرح تیراشکر اداکروں حالانکہ میرے سارے اعمال تیری سب سے چھوٹی نعمت کابھی بد لہ نہیں چکاسکتے ؟‘‘ تو آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم پر وحی نازل ہوئی کہ’’اے موسیٰ! (اقرارِ نعمت کر کے )ابھی توتم نے میرا شکر ادا کیا ہے ۔‘‘ (19)

    اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہنے کی برکت :

    {۷}… حضرت سیِّدُنا ابو عقیل عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَکِیْل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا بکر بن عبداللہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو فرماتے ہوئے سناکہ’’ بندہ جب بھی {اَلْحَمْدُلِلّٰہ} کہتا ہے تو {اَلْحَمْدُلِلّٰہ} کہنے کی برکت سے اس کے لئے نعمت لازم ہو جاتی ہے ۔‘‘میں نے پوچھا : ’’ اس نعمت کا بدلہ کیا ہے ؟‘‘(ارشادفرمایا : ) ’’ اس کا بدلہ بھی بندے کا {اَلْحَمْدُلِلّٰہ} کہنا ہے ۔پس (یہ کہتے ہی اس کے پاس) ایک اور نعمت آ جائے گی، کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتیں ختم نہیں ہوتیں ۔‘‘ (20) {۸}… حضرت سیِّدُنا ابو یحییٰ باہلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا سلیمان تیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِینے مجھ سے فرمایا : ’’ بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں کو نعمتیں اپنی قدرت کے مطابق عطا فرماتا ہے لیکن انہیں شکر کا مکلف ان کی طاقت کے مطابق بناتا ہے ۔ ‘‘ (21)

    بہت بڑی نعمت :

    {۹}… حضرت سیِّدُنا امام حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی سے مروی ہے کہ نبیوں کے سلطان، سرورِ ذیشان، سردارِ دو جہانصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک شخص کو {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بِالْاِسْلَامِ} یعنی اسلام کی نعمت پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے ۔ کہتے ہوئے سنا تو ارشاد فرمایا : ’’بے شک تو نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت کا شکر ادا کیا ہے ۔‘‘ (22)
    1 اعلام النبلاء ، ج۱۰ ، ص۶۹۴۔ 2 تھذیب التھذیب ، ج ۴ ، ص۴۷۳۔ 3 اعلام النبلاء، ج۱۰، ص۶۹۶۔ 4 تھذیب التھذیب، ج۴، ص۴۷۳۔ 5 تاریخ بغداد ، ج ۱۰، ص ۸۹۔ 6 تھذیب التھذیب ، ج۴، ص ۴۷۴۔ 7 تھذیب التھذیب ، ج۴، ص ۴۷۴۔ 8 تاریخ بغداد ، ج۱۰، ص۹۰۔ 9 اعلام النبلاء ، ج۱۰، ص۶۹۶۔ 10 المنتظم لابن جوزی، ج۱۲، ص۳۴۱۔ 11 اعلام النبلاء، ج۱۰، ص۶۹۷۔ 12 تاریخ بغداد، الرقم : ۵۲۰۹، عبداللہ بن محمد، ج۱۰، ص۹۰۔ 13 المعجم الاوسط، الحدیث : ۴۲۶۱، ج۳، ص۱۸۳۔ 14 شعب الایمان للبیھقی، باب فی تعدید نعم اللّٰہ، الحدیث : ۴۵۵۷، ج ۴، ص ۱۳۲۔ 15 صدرالافاضل حضرت سیِّدُنامحمدنعیم الدین مرادآبادیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے ۔شکر کی اصل یہ ہے کہ آدمی نعمت کا تصور اور اس کا اظہارکرے اور حقیقت شکریہ ہے کہ مُنعِم کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اس کا خُوگر بنائے ۔یہاں ایک باریکی ہے وہ یہ کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم و احسان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے ۔یہ مقام بہت برترہے اور اس سے اعلیٰ مقام یہ ہے کہ مُنعِم کی محبت یہاں تک غالب ہو کہ قلب کو نعمتوں کی طرف التفات باقی نہ رہے ، یہ مقام صدیقوں کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں شکر کی توفیق عطا فرمائے ۔ (تفسیرخزائن العرفان، پ۱۳، ابراہیم، تحت الایۃ : ۷) 16 شعب الایمان للبیھقی، باب فی تعدید نعم اللّٰہ، الحدیث : ۴۵۲۶، ج ۴، ص۱۲۴۔ 17 سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، باب الاستغفار، الحدیث : ۱۵۲۲، ج۲، ص۱۲۳۔ عن معاذ بن جبل۔ 18 الزھد للامام احمد بن حنبل، زھد داؤد علیہ السلام ، الحدیث : ۳۷۵، ص۱۰۷۔ 19 الزھد للامام احمد بن حنبل، اخبارموسٰیعلیہ السلام، الحدیث : ۳۴۹، ص۱۰۳۔ 20 شعب الایمان للبیھقی، باب فی تعدید نعم اللّٰہ، الحدیث : ۴۴۰۸، ج۴، ص۹۹۔ 21 المرجع السابق، الحدیث : ۴۵۷۸، ص۱۳۸۔ 22 الزھد لابن مبارک، باب ذکر رحمۃ اللّٰہ، الحدیث : ۹۱۱، ص۳۱۸۔

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن