Hirs Kay Nuqsanat Aur Hirs Ke Bare Me Bayan
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Sone Ka Anda | سونے کا انڈا

    Hirs Kay Nuqsanat Aur Hirs Ke Bare Me Bayan

    book_icon
    سونے کا انڈا
                
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط سونے کا انڈا دُعائے عطّار: اللہ پاک!جو کوئی 17صفحات کا رسالہ ’’سونے کا انڈا‘‘پڑھ یا سُن لے اُس کوجنّتُ الفردوس میں بے حساب داخِلہ دے کر اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پڑوسی بنا۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

    دُرُود شریف کی فضیلت

    اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے : بروزِ قِیامت لوگوں میں میرے قریب تَر وہ ہوگا ، جس نے مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک پڑھے ہوں گے۔ ( ترمذی ج ۲ ص ۲۷ حدیث ۴۸۴ ، دار الفکر بیروت ) صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

    سونے کا انڈا

    کسی گھرمیں ایک عجیب وغریب ناگن(Female cobra) رہتی تھی جو روزانہ سونے کا ایک انڈا(Golden egg) دیاکرتی۔ گھر کا مالک مُفْت کی دولت ملنے پر بہت خوش تھا ۔ اُس نے گھر والوں کوتاکید کر رکھی تھی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائیں ۔ کئی ماہ تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ ایک دن ناگن نےاُن کی بکری کوڈَس(Bite) لیااوردیکھتے ہی دیکھتے بکری مرگئی۔ گھر والوں کو بڑاغصّہ(Anger) آیا اور وہ ناگن کو ڈھونڈنے لگے تاکہ اسے مارسکیں مگر اُس شخص نے یہ کہہ کر انہیں ٹھنڈا کردیا کہ ’’ہمیں ناگن سے ملنے والا سونے کا انڈا بکری کی قیمت سے کہیں زیادہ مہنگاہے ، لہٰذاپریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘کچھ عرصہ بعد ناگن نے اُن کے پا لتو گدھے(Pet donkey) کوڈَس لیا اوروہ بھی فوراً مرگیا۔ وہ لالچی شخص گھبرایا مگر تھوڑی ہی دیر میں دوبارہ لالچ کے نشے میں آگیا اورکہنے لگا : ’’اس نے آج ہمارا دوسرا جانور مارڈالا ، خیر کوئی بات نہیں ، اس نے کسی انسان کو تو نقصان نہیں پہنچایا ۔ ‘‘ گھروالے چُپ ہورہے ۔ اس کے بعد دوسال تک ناگن نے کسی کو نہ ڈسا ، گھر والے اپنے جانوروں کو بھول گئے ۔ اچانک ایک دن پھر ناگن نے اُن کے غُلام کو ڈَس لیا۔ اُس بے چارے نے مددکے لئے اپنے مالک کو پکارا ، مگر اِس سے پہلے کہ مالک اُس تک پہنچتا ، زہر(Poison) کی وجہ سے غلام مرگیا۔ اَب وہ لالچی(Greedy) شخص پریشان ہوکرکہنے لگا : ’’اس ناگن کازہرتوبہت خطرناک ہے ، اس نے جس جس کو ڈَسا وہ فوراً مرگیا ، کہیں یہ میرے گھر والوں میں سے کسی کو نہ ڈَس لے۔ ‘‘وہ کئی دن اسی پریشانی میں رہا ، مگرسونے کے انڈے کی چمک دمک نے ایک بار پھر اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ’’اگرچہ ناگن کی وجہ سے ہمیں نقصان ہور ہا ہے مگر سونے کے انڈے بھی تو مل رہےہیں ۔ ‘‘ کچھ ہی دِنوں بعدناگن نے اُس کے بیٹے کوڈَس لیا۔ فوراًڈاکٹرکو بلایا گیا لیکن وہ بھی کچھ نہ کرسکااوراس کے بیٹے نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ جوان بیٹے کی موت میاں بیوی پر بجلی بن کر گری اوروہ شخص غصّے میں آکر کہنے لگا : ’’اَب میں اس ناگن کو زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ ‘‘مگر وہ اُن کے ہاتھ نہ آئی ۔ جب کافی عرصہ گزر گیا تو سونے کا انڈا نہ ملنے کی وجہ سے اس کی لالچی طبیعت میں بے چینی ہونے لگی ، چنانچہ دونوں میاں بیوی ناگن کے بِل کے پاس آئے ، وہاں کی صفائی کی اور دُھو نی دے کر خوشبو مہکائی ، (گویا ناگن کو صُلح کا پیغام دیا ۔ )حیرت انگیز طور پر وہ واپس آگئی اور اُنہیں پھر سے سونے کا انڈاملنے لگا۔ مال ودولت کی حرْص نے انہیں اندھا کردیا اور وہ اپنے بیٹے اور غلام کی موت کو بھول گئے ۔ ایک دن ناگن نے اس کی زوجہ (وائف)کو سوتے میں ڈَس لیا ، تھوڑی ہی دیر میں اس نے بھی دَم توڑدیا۔ اَب وہ لالچی شخص اکیلارہ گیاتواس نے ناگن والی بات اپنے بھائیوں اوردوستوں کو بتائی ۔ سب نے مشورہ دیا : ’’تم نے بہت بڑی غلطی کی ، اب بھی وَقْت ہے سنبھل جاؤ اور جتنی جلدی ہوسکے اُس خطرناک ناگن کو مار ڈالو۔ ‘‘ اپنے گھر آکر وہ شخص ناگن کو مارنے کے لئےموقع تاک کر بیٹھ گیا۔ اچانک اُسے ناگن کے بِل کے قریب ایک قیمتی موتی نظرآیاجسے دیکھ کراس کی لالچی طبیعت خوش ہوگئی۔ دولت کی ہَوَس نے اسے سب کچھ بُھلا دیا ، وہ اپنے آپ سے کہنے لگا : ’’وَقْت طبیعتوں کوبدل دیتا ہے ، ہوسکتا اُس ناگن کی طبیعت بھی بدل گئی ہوگی کہ جس طرح یہ سونے کے انڈوں کے بجائے اَب موتی دینے لگی ہے ، اِسی طرح اس کا زہر بھی ختم ہوگیا ہوگا ، چُنانچِہ اَب مجھے اس سے کوئی خطرہ نہیں ۔ ‘‘یہ سوچ کر اس نے ناگن کو مارنے کا اِرادہ ختم کردیا۔ روزانہ ایک قیمتی موتی ملنے پر وہ لالچی شخص بہت خوش رہنے لگااورناگن کی پُرانی دھوکا بازی کوبھول گیا۔ ایک دن اس نے ساراسونااور موتی برتن میں ڈ الے اور اُس پر سَر رکھ کر سو گیا ۔ اسی رات ناگن نے اُسے بھی ڈَس لیا ۔ جب اُس کی چیخیں بلندہوئیں توآس پاس کے لوگ وہاں پہنچ گئے اور اس سے کہنے لگے : ’’ تم نے اسے مارنے میں سُستی کی اور لالچ میں آکراپنی جان داؤ پر لگا دی!‘‘لالچی شخص شَرم کے مارے کچھ نہ بول سکا ، اُس نے سونے سے بھراہوابرتن اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو دیتے ہوئے نہایت حسرت کے ساتھ کہا : ’’آج کے دن میرے نزدیک اِس مال کی کوئی قیمت نہیں ، کیونکہ اب یہ دوسروں کا ہوجائے گا اورمیں خالی ہاتھ اس دنیا سے چلاجاؤں گا۔ ‘‘اورپھرکچھ ہی دیر میں وہ مرگیا۔ ( عیون الحکایات ص ۹۳۴ ملخصاً ، دار الکتب العلمیة بیروت ) پیارے پیارےاسلامی بھائیو!آپ نے دیکھا کہ مال ودولت کی حرْص نے ہنستے بستے گھر کو اُجاڑ کر رکھ دیا !حریص کی نِگاہ محدود(Limited) ہوتی ہے جو صرف وقتی فائدہ دیکھتی ہے جس کی وجہ سے وہ دُرُست فیصلےکرنے میں ناکام رہتا ہے جیسا کہ اس حکایت میں لالچی شخص کو دولت کے نشے نے ایسا مدہوش(Intoxicate) کر دیا کہ بیٹے اور زوجہ کی موت بھی اسے ہوش میں نہ لاسکی ، اوربالآخر وہ خود بھی موت کے منہ میں جا پہنچا ۔ دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت سچ ہے کہ بُرے کام کا انجام بُرا ہے

    حِرْص کسے کہتے ہیں؟

    ’’خواہشات کی زیادتی کے اِرادے کا نام حرص ہے اوربُری حرص یہ ہے کہ اپنا حصّہ حاصل کرلینے کےباوُجود دوسرے کے حصّے کی لالچ رکھے ۔ یا کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص ، اور حرص رکھنے والے کو حریص کہتے ہیں۔ ‘‘ (
    مرقا ۃ ج ۹ ص ۱۱۹ ، تحت الباب ۲ ، دار الفکر بیروت ، مرآۃ المناجیح ج۷ص۸۶مفصلاً ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور) نبیٔ پاک صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشادفرمایا : بدتر ہے وہ بندہ جس کا رَہنما حرص ہو ، بدتر ہے وہ بندہ جس کو خواہشات راہِ حق سے بھٹکادیں ، بدترہے وہ بندہ جس کا شوق اور رغبت اُس کو ذلیل و خوار کردے۔ ( ترمذی ج ۴ ص ۳۰۲ حدیث ۶۵۴۲)

    حِرْص میں ہلاکت ہے

    جنّتی صحابی حضرتِ سیِّدُنا ابوذَر غفَاری رضی اللّٰہ عنہ نے ایک مرتبہ نصیحتیں کرتے ہوئے بلند آواز سے فرمایا : لوگو! حرص (سے بچو کہ اس)میں تمہارے لئے ہلاکت ہے ، کیونکہ یہ کبھی ختم نہیں ہوتی او رنہ تم حرص کو پورا کر سکتے ہو۔ ( صفة الصفوة ج ۱ ص ۱۰۳ الرقم ۴۶ ، دار الکتب العلمیة بیروت )

    ہم حِرْص سے بچ نہیں سکتے

    پیارے پیارے اِسلامی بھائیو! حرْص ایسی چیز ہے کہ دودھ پیتا بچّہ ہو یانوجوان ، 100سال کا بوڑھا ہویا عورت ، افسر ہو یا مزدور ، غریب ہو یا امیر اِس سے بچنا بہت مُشکل ہے ، یہ الگ بات ہے کہ کسی کو ثوابِ آخرت کی حرص ہوتی ہے تو کسی کو مال و دولت کی ، کسی کو عزّت وشہرت کی اورکسی کو سب میں نمایاں نظر آنے کی!الغرض حرص کسی نہ کسی انداز سے ہمارے اندر موجود ہوتی ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ کریم کی سورۂ نساء کی آیت 128میں ارشاد فرماتاہے : وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ- ترجمۂ کنزالایمان : اور دِل لالچ کے پھندے میں ہیں ۔ ’’تفسیرِ خازن‘‘میں اِس آیت کے تحت لکھا ہے : لالچ(Greed) دل کا لازمی حصّہ ہے ، کیونکہ یہ اسی طرح بنایا گیا ہے۔ ( تفسیر الخازن ج ۱ ص ۷۳۴ ، مصر )

    دوچیزیں جوان رہتی ہیں

    اللہ پاک کے آخری رسول صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشادفرمایا : اِنسان بوڑھا ہوجاتا ہے اور اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں : مال کی حرص اور عمر کی حرص۔ ( مسلم ص ۵۲۱ حدیث ۱۰۴۷ ، دار ابن حزم بیروت ) حضرتِ مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں : یہاں عام دنیا دار انسان مراد ہے جو بڑھاپے میں بھی حریص رہتا ہے ، بعض اللہ کے بندے جوانی میں بھی حریص نہیں ہوتے وہ اس حکم سے علیٰحدہ ہیں مگر ایسے خوش نصیب بندے ہیں بہت تھوڑے ، عمومًا وہ ہی حال ہے جو یہاں ارشاد ہوا۔ عمومًا بوڑھے آدمی مال جمع کرنے ، مال بڑھانے میں بڑے مشغول رہتے ہیں ، ہمیشہ زندگی کی دُعائیں کراتے ہیں ، اگر کوئی انہیں کوسے تو لڑتے ہیں ، یہ ہے محبتِ مال و عمر۔ حریص کا دل یا قناعت سے بھرتا ہے یا قبر کی مٹی سے۔ (مِراٰۃ ج۷ص۸۸) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللّٰہُ علٰی محمَّد

    حِرْص کی تین قسمیں

    پیارے پیارے اسلامی بھائیو! عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ حرص کا تعلق صِرْف ’’مال ودولت ‘‘کے ساتھ ہوتا ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ، کیونکہ حرص تو کسی شے کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے اور وہ چیز کچھ بھی ہوسکتی ہے ، چاہے مال ہو یا کچھ اور! چنانچہ مزید مال کی خواہش رکھنے والے کو’’مال کا حریص‘‘کہیں گے ، زیادہ کھانے کی خواہش رکھنے والے کو ’’کھانے کا حریص ‘‘ کہا جائے گااور نیکیوں میں اِضافے کے تمنّائی کو’’نیکیوں کا حریص ‘‘جبکہ گناہوں کا بوجھ بڑھانے والے کو’’ گناہوں کا حریص ‘‘کہیں گے۔ ہر حرْص بُری نہیں ہوتی ، بنیادی طور پر حرْص کی تین قسمیں بنتی ہیں : (1)اچّھی حرْص (2) بُری حرْص(3) مباح حرص۔ (1)اچّھی حرْص : رِضائے الٰہی کے لئے کئے جانے والے نیک اَعمال اِنْ شَآءَ اللہ انسان کو جنّت میں لے جائیں گے ، لہٰذا نیکیوں کی حرص محمود(یعنی پسندیدہ) ہوتی ہے ، مثلاً فرض نَمازکے ساتھ نوافل کی حرص ، فرض روزوں کے ساتھ نفل روزوں کی کثرت کی حرص ، زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ نفلی صدقہ وخیرات راہِ خدا میں دینے کی حرص ، تلاوت ، ذکرُ اللہ ، دُرُودِ پاک وغیرہ نیکیاں کرنے کی حرص اچّھی ہے۔ (2) بُری حرْص : جس طرح گُناہ کرنا منع ہے اِسی طرح گُناہ کے کاموں کی حرْص بھی ممنوع ہے۔ مثلاًبُرے کام رشوت ، چوری ، بدنگاہی ، بدکاری ، فلمیں ڈرامے دیکھنے ، گانے باجے سننے ، شراب پینے ، جُواکھیلنے ، غیبت ، تُہمت ، چُغلی ، گالی دینے ، بدگمانی ، لوگوں کے عیب ڈھونڈنے اور انہیں اُچھالنے وغیرہ دیگر گُناہوں کی حرْص مذموم (یعنی بُری ) ہے۔ (2)مُباح حرْص : مُباح کا مطلب ہے وہ عمل جس کا کرنا نہ کرنا ایک جیسا ہو۔ البتہ اگر اُس مباح کام سے پہلےاچّھی نیت کرلی جائے توپھر وہ مباح کام بھی ثواب کا کام بن جاتا ہے۔ مباح حرص کی مثالیں یہ ہیں : کھانےپینے ، سونے ، دولت اِکٹّھی کرنے ، عمدہ مکان بنانے ، نت نئے لباس پہننےاور دیگر بَہُتسارے کام مُباح ہیں ، جن کی زیادتی کی خواہش مُباح حرْص ہے ۔ پیارے پیارےاِسلامی بھائیو!ہمیں صِرف اورصِرف اُن کاموں کی حرص کرنی چاہئے جن سے ہمیں دنیا وآخرت کا نفع حاصل ہو اور یہنیکیوں کی حرص میں ہی ہوسکتا ہے۔ جبکہ بُری حرْص میں سَرا سر نقصان ہے ، کیونکہ یہ ہمیں جہنّم میں پہنچا سکتی ہے اور مباح حرْص (یعنی جائز چیزوں کی حرْص) میں اگرچہ گُناہ نہیں لیکن یہ گُناہوں تک پہنچا سکتی ہے ، جیساکہ جو کوئی مال کمانے کا حریص ہوجاتا ہے توعام طور پر وہ حلال و حرام ذرائع کی پرواہ کئے بغیر مال جمع کرنے میں لگا رہتاہے اور مال بیچنے میں جُھوٹ ، دُھوکا ، فراڈ وغیرہ کئی طرح کے گُناہوں میں مبتلا ہوجاتاہے۔ ’’جنّتی زیور‘‘ میں ہے : لالچ اورحرص کاجذبہ خوراک ، لباس ، مکان ، سامان ، دولت ، عزّت ، شہرت ، غرض ، ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ اگر لالچ کا جذبہ کسی انسان میں بڑھ جاتا ہے تو وہ انسان طرح طرح کی بداخلاقیوں اور بے مُروّتی کے کاموں میں پڑجاتا ہے اور بڑے سے بڑے گُناہوں سے بھی نہیں چوکتا۔ بلکہ سچ پوچھئے تو حرص و طمع اور لالچ درحقیقت ہزاروں گناہوں کا سر چشمہ ہے ، اِس سے خدا کی پناہ مانگنی چاہے۔ (جنتی زیور ص۱۱۱ ، مکتبۃ المدینہ کراچی) دولت کی حرص دل سے اللّٰہ دور کر دے عشقِ رسول دے دے کر یہ دعا رہے ہیں تَکثِیرِ مال و زَر کی ہرگز نہیں تمنّا ہم مانگ آپ سے بس غم آپ کا رہے ہیں پیارے پیارے اِسلامی بھائیو! یہ ذہن بنالیجئے کہ ہمیں صِرف اورصِرف نیکیوں کا حریص بننا ہے ۔ نیکیاں اورصِرف نیکیاں کرنی ہیں۔ اللّٰہ پاک کے سچے نبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ نصیحت نشان ہے : اُس پر حرص کرو جو تمہیں نفع دے ۔ ( مسلم ص ۲۳۴۱ حدیث ۴۶۶۲) حضرت سیِّدنا امام ابو زَکریایحییٰ بن شرف نووِی رَحْمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : یعنی اللّٰہ پاک کی عبادت میں خوب حرْص کرواور اِس پر اِنعام کا لالچ رکھو مگر اِس عبادت میں بھی اپنی کوشش پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللّٰہ پاک سے مدد مانگو۔ ( شرح صحیح مسلم للنووی الجزء ۶۱ ج ۸ ص ۵۱۲ ، ملخصاًوملتقطاً ، دار الکتب العلمیة بیروت ) حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : خیال رہے کہ دُنیاوی چیزوں میں قَناعت اور صَبْر اچّھا ہے مگر آخرت کی چیزوں میں حرْص اور بے صبری اعلیٰ ہے ، دین کے کسی درجے پر پہنچ کر قناعت نہ کرلو ، آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (مراٰۃ المناجیح ج۷ص۲۱۱) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللّٰہُ علٰی محمَّد

    ایک عجیب وغریب قوم

    منقول ہے کہ حضرتِ سَیِّدُنا ذُو القرنین رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک قوم کے پاس سے گُزرے تو دیکھا اُن کے پاس دُنیاوی سامان نام کو بھی نہ تھا ، اُنہوں نے بہت سی قبریں کھود رکھیں تھیں ، صبح کے وقت وہاں کی صفائی کرتے اور نماز ادا کرتے پھر صرف سبزیاں کھا کر پیٹ بھرلیتے کیونکہ وہاں کوئی جانورموجود نہ تھاجس کا وہ گوشت کھاتے۔ حضرتِ سَیِّدُنا ذُو القرنین رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اُن کا سادہ اندازِزندگی دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی ، آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اُن کے سردار سے پوچھا : میں نے تم لوگوں کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ جس پر کسی دوسری قوم کو نہیں دیکھا ، اس کی کیا وجہ ہے؟ تمہارے پاس دنیا کی کوئی چیز نہیں ہے اور تم سونا اور چاندی سے بھی نفع نہیں اُٹھاتے!سردار کہنے لگا : ہم نے سونے اور چاندی کو اِس لئے بُرا جانا کہ جس کے پاس تھوڑا بہت سونا یا چاندی آجاتی ہے وہ انہی کے پیچھے دوڑنے لگتا ہے۔ آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پوچھا : تم لوگ قبریں کیوں کھودتے ہوں؟ اور جب صبح ہوتی ہے تو ان کو صاف کرتے ہو اور وہاں نَماز پڑھتے ہو۔ بولا : اس لئے کہ اگر ہمیں دنیا کی کوئی حرْص و طمع ہوجائے توقبروں کو دیکھ کر ہم اِس سے باز رہیں ۔ آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پوچھا : تمہارا کھانا صرف زمین کی سبزی کیوں ہے؟ تم جانور کیوں نہیں پالتے تاکہ اُن کا دودھ حاصل کرو ، ان پر سواری کرو اوران کا گوشت کھاؤ؟سردارنے کہا : اس سبزی سے ہماری گزر بَسرہوجاتی ہے اور انسان کو زندگی گزارنے کے لیے اتنی چیز ہی کافی ہے اور ویسے بھی حَلْق سے نیچے پہنچ کر سب چیزیں ایک جیسی ہوجاتی ہیں ان کا ذائقہ پیٹ میں محسوس نہیں ہوتا۔ حضرتِ سَیِّدُنا ذو القرنین رحمۃ اللّٰہ علیہ نےاُس کی حکمت بھری باتیں سُن کر اسے پیش کش کی : میرے ساتھ چلو ، میں تمہیں اپنا مشیر(Advisor) بنالوں گا اور اپنی دولت میں سے بھی حصّہ دوں گا۔ مگر اُس نے معذرت کرلی کہ میں اسی حال میں خوش ہوں۔ چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا ذو القرنین رحمۃ اللّٰہ علیہ وہاں سے تشریف لے گئے۔ اللہ ربُّ الْعِزَّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ( تاریخ مدینہ دمشق ج ۱۷ ص ۳۵۳ تا ۳۵۵ ملخصاً ، دار الفکر بیروت ) نہ ہو عطا اس کو مال و دولت نہ دیجے عطّارؔ کو حکومت یہ تیرا طالِب ہے جانِ رَحمت نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللّٰہُ علٰی محمَّد

    ہماری حالتِ زار

    پیارے پیارے اسلامی بھائیو!دُنیا سےدِل و جان سے محبت ہونے اورآخرت کی اُلفت میں کمی کی وجہ سے مسلمانوں کی بھاری تعداد اللہُ الرحیم اوراُس کے رسولِ کریم کی یاد سےدُور ہے ، جبکہ گناہوں اورفضولیات کی حرْص میں مسرور (یعنی خوش)ہے۔ افسوس صدکروڑ اَفسوس!آج کا نوجوان لائن میں لگ کر مہنگے ٹکٹ خرید کر ساری ساری رات گُناہوں بھرے پروگرامزدیکھنے سننے کو تیار ہے مگر نَماز ادا کرنے کی غرض سے چند منٹ کے لئے مسجِد کا رُخ کرنے سے کَتراتا ہے ، کئی کئی گھنٹے ریموٹ ہاتھ میں پکڑے فلمیں ڈرامے دیکھنے کاوقت ہے مگر رِضائے الٰہی پانے ، اپنی آخرت سنوارنے اور علمِ دین سیکھنےکے لئے راہِ خدا میں عاشقانِ رسول کے ساتھ مدنی قافلے میں سفر کرنے کے لئے مختلف بہانے ہیں۔ عشقِ مجازی کو بھڑکانے والے گندے ناولز پڑھنے کے لئے گھنٹوں کا وقت ہے اورقراٰنِ کریم کی تلاوت کرنے کو دِل نہیں کرتا بلکہ سچی بات تویہ ہے کہ دُرست قرآنِ کریم پڑھنا ہی نہیں آتا اورنہ سیکھنے کاشوق ہے ، بُرے دوستوں کی گندی صحبت میں گھنٹوں اپنا وَقْت برباد کرنے کے لئے وقت ہے مگر عاشقانِ رسول کی صحبت میں بیٹھ کر سُنّت ِ مصطفیٰ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سیکھنے کا وقت نہیں ۔ اِس سے پہلے کہ موت آجائے ، بقیّہ زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے فوراًسارے گُناہوں سے سچی توبہ کرلیں اور نیکیاں کرنےلگ جائیں۔ وہ ہے عیش و عشرت کا کوئی مَحَل بھی جہاں تاک میں ہر گھڑی ہو اَجَل بھی بس اب اپنے اس جَہْل سے تُو نکل بھی یہ جینے کا انداز اپنا بدل بھی جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللّٰہُ علٰی محمَّد

    نیکیوں کی حِرص بڑھانے کا طریقہ

    اے عاشقا نِ رسول! دولت و عیش و عشرت آنے جانے والی شے ہے ، نیکیوں کی حرص کیجئے اوراپنا یہ ذہن بنائیے کہ میرے پاس مال کی کثرت ہویانہ ہو نیکیوں کی ضَرورکثرت ہو۔ نیک بننے اورنیکیوں کی حرص پیدا کرنے کے لئے اللہ والوں کے واقعات پڑھئے :

    عبادت کی اعلٰی مثال

    عظیم تابعی بُزرگ حضرتِ سیِّدُنا صَفْوان بن سُلَیم رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ کی پنڈلیاں (Calves) نَماز میں زیادہ دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے سُوج گئی تھیں۔ آپ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ اِس قدر کثرت سے عبادت کیا کرتےتھے کہ اگر آپ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ سے کہہ دیا جاتا کہ کل قِیامت ہے تو بھی اپنی عبادت میں کچھ اِضافہ نہ کر سکتے(یعنی اُن کے پاس عبادت میں اضافہ کرنے کے لئے وقت کی گنجائش ہی نہ تھی)۔ جب سردی کا موسم آتا تو آپ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ مکان کی چھت پر سویا کرتے تاکہ سردی آپ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ کو جگائے رکھے اورجب گرمیوں کا موسمآتا تو کمرے کے اندر آرام فرماتے تاکہ گرمی اورتکلیف کے سبب سونہ سکیں ، آپ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ کا اِنتقال شریف سَجْدے کی حالت میں ہوا۔ آپ دُعا کیا کرتے تھے : یا اللہ ! میں تیری ملاقات کو پسند کرتا ہوں تُوبھی میری ملاقات کو پسند فرما۔ ( اتحاف الساد ۃ المتقین ج ۱۳ ص ۲۴۷ ، ۲۴۸ ، دار الکتب العلمیة بیروت ) اللہ ربُّ الْعِزَّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ساتھ جماعت کے پڑھوں ساری نَمازیں اللّٰہ ! عبادت میں مِرے دل کو لگا دے

    حِرْص کا علاج

    پیارے پیارے اِسلامی بھائیو!عام طور پر مال ہی کی حرص کی خواہش ہوتی ہے اور اِس حرص کی وجہ سے دیگر کئی طرح کی حرص پیداہوتی ہیں ، اگر مال کی حرص سے اپنے آپ کو بچالیاجائے تو اللہ پاک کی عبادت کرنے ، آرام و سُکون کی زندگی گُزارنے کی صورت بن سکتی ہے۔ مال کی حرص کا سب سے بڑا علاج ’’قناعت ‘‘ہےچنانچہ شیخ الحدیث حضرتِ علاَّمہ مولانا عبد المُصطفٰے اَعظمی رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اِس قلبی مرض کا علاج ’’صَبر و قناعت ‘‘ہے یعنی جو کچھ خدا کی طرف سے بندے کو مِل جائے اُس پر رَاضی ہو کر خدا کا شکر بجا لائے اور اِس عقیدہ پر جم جائے کہ انسان جب ماں کے پیٹ میں رہتا ہے۔ اُسی وقت فرشتہ خدا کے حکم سے انسان کی چار چیزیں لکھ دیتا ہے۔ انسان کی عمر ، انسان کی روزی ، انسان کی نیک نصیبی ، انسان کی بدنصیبی ، یہی انسان کا نوشتہ(Written) تقدیر ہے۔ لاکھ سر مارو مگر وہی ملے گا جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے نفس اِدھر اُدھر لپکے تو صبر کر کے نفس کی لگام کھینچ لو۔ اسی طرح رفتہ رفتہ قلب میں قناعت کا نور چمک اُٹھے گا اور حرص و لالچ کا اندھیرا بادل چھٹ جائے گا ۔ (جنتی زیورص۱۱۱) حرص کا علاج کرنے اورقناعت کی نعمت پانے اوراِس کی فضیلت جاننے کے لئے اس کے بارے کچھ مدنی پھول پڑھئے اور حرص سے جان چُھڑانے کی کوشش فرمائیے :

    قَناعت کا لُغوی معنٰی

    اِکتِفا کرنا(یعنی کافی سمجھنا)۔ صَبْر کرنا۔ تھوڑی چیز پر راضی اور خوش رہنا ، جو ملے اُسی میں گزارہ کرنا ، زیادہ طلبی اور حرْص سے بچے رہناقناعت کہلاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ ج۳ ص۴۰۰ ، مکتبہ سنگِ میل لاہور

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن