30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
مقدمہ
قرآن آخری آسمانی کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آخری نبی محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پرنازل فرمایا۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے مقدس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے بیان کے مطابق قرآنِ مجید کو لوحِ محفوظ کی ترتیب کے حساب سے صحابہ کرام کو بیان فرمایا اور اس کی صورت یہ تھی کہ قرآنِ مجید23 سال کے عرصے میں حالات و واقعات کے حساب سے جدا جدا آیتیں ہو کر نازل ہوا، کسی سورت کی کچھ آیتیں نازل ہوتیں پھر دوسری سورت کی کچھ آیتیں اترتیں ، پھر پہلی سورت کی آیتیں نازل ہوتیں ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہر بار ارشاد فرماتے کہ یہ آیات فلاں سورت کی ہیں لہٰذا اسے فلاں آیت کے بعد اورفلاں آیت سے پہلے رکھا جائے، چنانچہ وہ آیات اسی سورت میں اور اسی جگہ پر رکھ دی جاتیں۔ اسی ترتیب کے مطابق حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے سن کر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نماز میں اور تلاوت کے دوران قرآنِ مجید پڑھتے۔ اس دور میں سارا قرآنِ عظیم کتابی شکل میں ایک جگہ جمع نہیں تھا بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے سینوں میں محفوظ تھا اور مُتفرق کاغذوں ، پتھر کی تختیوں ، بکری دنبے کی کھالوں ، اونٹوں کے شانوں اور پسلیوں کی ہڈیوں وغیرہ پر لکھا ہوا تھا۔ جب حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے زمانے میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار ملعون مُسَیلمہ کذّاب سے جنگ ہوئی تو اس میں بہت سے حفاظ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم شہید ہو گئے ۔امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر گزارش کی کہ اس لڑائی میں بہت سے وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم شہید ہو گئے ہیں جن کے سینوں میں قرآنِ عظیم تھا،اگر اسی طرح جہادوں میں حفاظ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم شہید ہوتے گئے اور قرآنِ عظیم کوایک جگہ جمع نہ کیا گیا تو قرآنِ مجید کا بہت سا حصہ مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتے رہنے کااندیشہ ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ اس بات کا حکم دیں کہ قرآنِ مجید کی سب سورتیں ایک جگہ جمع کر لی جائیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا:جو کام حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے نہ کیا وہ ہم کیسے کریں ؟حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی: اگرچہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے یہ کام نہ کیا لیکن خدا کی قسم! یہ کام بھلائی کا ہے ۔ آخر کار حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو ان کی رائے پسند آگئی اور آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضرت زید بن ثابت انصاری اور دیگر حفاظ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کو اس عظیم اور اہم ترین کام کا حکم دیا اور کچھ ہی عرصے میں اَلْحَمْدُ للہ سارا قرآنِ عظیم ایک جگہ جمع ہو گیا، ہر سورت ایک جدا صحیفے میں تھی اور وہ صحیفے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی حِینِ حیات آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاس رہے ،ان کے بعد امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور ان کے بعد اُمُّ المؤمنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا کے پاس رہے۔ عرب میں چونکہ بہت سے قبیلے رہتے تھے اورہر قوم اور قبیلے کی زبان کے بعض الفاظ کاتلفظ اور لہجے مختلف تھے اور حضور پرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں قرآنِ عظیم نیا نیا اترا تھا اور ہر قوم و قبیلہ کو اپنے مادری لہجے اور پرانی عادات کو یکدم بدلنا دشوار تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان پر یہ آسانی فرما دی گئی تھی کہ عرب میں رہنے والی ہر قوم اپنی طرز اور لہجے میں قرآنِ مجید کی قرا ء ت کرے اگرچہ قرآنِ مجید ’’لغتِ قریش‘‘ پر نازل ہوا تھا۔ زمانۂ نبوت کے بعد چند مختلف قوموں کے بعض افراد کے ذہنوں میں یہ بات جم گئی کہ جس لہجے اور لغت میں ہم پڑھتے ہیں اسی میں قرآنِ کریم نازل ہوا ہے،اس طرح کوئی کہنے لگا کہ قرآن اس لہجہ میں ہے اور کوئی کہنے لگا نہیں بلکہ دوسرے لہجے میں ہے یہاں تک کہ امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے زمانے میں یہ نوبت آگئی کہ لوگ اس معاملے میں ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے تیار ہو گئے ۔جب امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کواس بات کی خبر پہنچی تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا:ابھی سے تم میں یہ اختلاف پیدا ہو گیا ہے تو آئندہ تم سے کیا امید ہے؟ چنانچہ امیرُ المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور دیگر اکابر صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے مشورے کے مطابق یہ طے پایا کہ اب ہر قوم کو اس کے لب و لہجہ کی اجازت میں مصلحت نہ رہی بلکہ اس سے فتنہ اٹھ رہا ہے لہٰذا پوری امت کو خاص ’’لغتِ قریش‘‘پر جس میں قرآن مجیدنازل ہوا ہے جمع کر دینا اور باقی لغتوں سے باز رکھنا چاہئے اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے جو صحیفے جمع فرمائے تھے وہ اُمُّ المؤمنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا سے منگوا کر ان کی نقلیں لی جائیں اور تمام سورتیں ایک مصحف میں جمع کر دی جائیں، پھر وہ مَصاحف اسلامی شہروں میں بھیج دئیے جائیں اور سب کو حکم دیاجائے کہ وہ اسی لہجے کی پیروی کریں اور اس کے خلاف اپنے اپنے طرز ادا کے مطابق جو صحائف یا مصاحف بعض لوگوں نے لکھے ہیں فتنہ ختم کرنے کے لئے وہ تلف کر دئیے جائیں۔ چنانچہ اسی درست رائے کی بنا ء پرامیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اُمُّ المؤمنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا سے وہ صحائف منگوائے اور ان کی نقلیں تیار کر کے تمام شہروں میں بھیج دی گئیں۔اسی عظیم کام کی وجہ سے امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو ’’جامعُ القرآن ‘‘ کہا جاتا ہے۔(1) جمع قرآن کا تاریخی پس منظر جاننے کے بعد اب قرآنی سورتوں سے متعلق کچھ اہم باتیں ملاحظہ ہوںسورت کا معنی :
لغتِ عرب کی مشہور کتابوں ؛ لسان العرب ،تاج العروس اورمفردات امام راغب وغیرہ میں لفظ ’’ سُوْرَۃ ‘‘ کے مختلف معانی لکھے ہوئے ہیں ۔ جیسے ایک معنی ’’بلندی ‘‘یا’’منزل ‘‘ہے،گویا قرآن کی ہر سورت ایک بلند منزل ہے۔دوسرے معنی ہیں’’ شہر پناہ کی دیوار‘‘ قرآن کی سورت کوسورت اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ گویا وہ شہر کی دیوار کی طرح اپنے مضامین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔سورتوں کی تعداد:
قرآنِ مجیدکی کل 114 سورتیں ہیں جن میں سب سے چھوٹی سورت ’’سورۂ کوثر ‘‘ ہے ، اس کی تین آیتیں ہیں اور سب سے بڑی سورت’’سورۂ بقرہ ‘‘ہے جو 286 آیتوں پر مشتمل ہے ۔سورتوں کی تقسیم :
مقام نزول کے اعتبار سے قرآنِ پاک کی بعض سورتیں مکی اور بعض مدنی ہیں۔ان کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں زیادہ مشہور (اور راجح قول) یہ ہے کہ جو سورتیں رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے پہلے نازل ہوئیں وہ مکی اور جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں وہ مدنی ہیں اگرچہ یہ مکہ(اور ا س کے اطراف) میں ،یا مدینہ(اور ا س کے اطراف) میں، یا کسی سفر میں نازل ہوئی ہوں ۔(2)سورتوں کے نام:
قرآنی سورتوں کے نام توقیفی (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) ہیں ،ان کا ذکر احادیث و آثار میں موجود ہے،نیز قرآن مجید کی اکثر سورتوں کا ایک ہی نام ہے اور بعض سورتیں ایسی ہیں جن کے دو یا اس سے زیادہ نام ہیں اور ناموں کا زیادہ ہونا ان کی عظمت و شرف کی دلیل ہے ، جیسے سورۂ فاتحہ کے 20 سے زیادہ نام ہیں ،سورۂ توبہ 10 سے زیادہ نام ہیں ،سورۂ بنی اسرائیل کو سورۃ الاسراء بھی کہتے ہیں ،یونہی سورہ فاطر کو سورۂ ملائکہ،سورۂ مومن کو سورۂ غافر،سورۂ حم السجدہ کو سورۂ فصلت اور سورۂ ملک کو سورۂ تبارک بھی کہا جاتا ہے۔سورتوں کی ترتیب:
قرآنی سورتوں کی ترتیب دو طرح سے ہے : (1)ترتیب نزول: یہ وہ ترتیب ہے جس میں قرآنی سورتیں نازل ہوتی رہیں جیسے پہلی وحی میں سورۂ علق کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں ،پھر سورۂ مدثر کی آیات نازل ہوئیں۔ یہ ترتیب محفوظ رکھنے کا اہتمام نہ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کیا اور نہ ہی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہم نے، اس لیے جب قرآن پاک مکمل نازل ہو چکا تو لوگوں کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ کون سی آیت کس ترتیب سے نازل ہوئی۔ لہٰذا اب جزوی طور پر بعض سورتوں یا آیتوں کے بارے میں علم ہو جاتا ہے کہ ان کی ترتیب نزول کیا تھی لیکن پورے قرآن کی تریب نزول یقین کے ساتھ بیان کرنا ممکن نہیں ۔ (2) ترتیب مصحف:یہ وہ ترتیب ہے جس میں حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنے دور میں چار صحابہ کرام؛حضرت زید، حضرت عبداللہ بن زبیر،حضرت سعید بن عاص، حضرت عبدالرحمٰن بن حارث رَضِیَ اللہُ عَنْہم سے قرآن کریم جمع کرایا تھا۔ان حضرات نے سورتوں کو اسی ترتیب سے مرتب کر کے ایک مصحف میں لکھا جو حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عطا فرمائی تھی اور یہی ترتیب لوح محفوظ میں بھی ہے ،چنانچہ اس پر اجماع ہے کہ رسم الخط اور سورتوں کی ترتیب میں اس مصحف کی پیروی کرنا لازم ہے جو حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے تیار کروایا تھا ۔سورۂ توبہ کے شروع میں ’’ بِسْمِ اللہ ‘‘ نہ لکھنے کی وجہ:
ہر سورت کے شروع میں بِسْمِ اللہ لکھی ہوئی ہے تاکہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے البتہ سورۂ توبہ کے شروع میں بِسْمِ اللہ نہیں لکھی گئی ۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اس سورت کے ساتھ بِسْمِ اللہ لے کر نازل ہی نہیں ہوئے تھے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بِسْمِ اللہ لکھنے کا حکم نہیں فرمایا۔(3) زیرِ دست کتاب تفسیر صراط الجنان میں موجود ہر سورت کی ابتداء میں دئیے گئے سورت کے تعارف پر مشتمل ہے،جسے عام مسلمانوں کی سہولت کے لیے ایک جگہ جمع کیا گیا ہےاور آخر میں قرآنی سورتوں کے درمیان مناسبت کا بیان ہے ،ان میں زیادہ تر مناسبتوں کا ذکر علامہ جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے رسالے ’’ تَنَاسُقُ الدُّرَرْ فِیْ تَنَاسُبِ السُّوَر ‘‘سے ہے اور بعض مناسبتیں دیگر تفاسیر سے بھی ذکر کی گئی ہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مسلمانوں کے لیے نفع مند بنائے اور اسے مصنف کے لیے اور اس کی تیاری و اشاعت میں تعاون کرنے والوں کی بے حساب بخشش و مغفرت کا ذریعہ بنائے ،آمین۔
1… فتاویٰ رضویہ،26/452439، ملخصاً. 2… الاتقان فی علوم القرآن ،.35/1 3… جلالین مع صاوی، 3/.783
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع