30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ہاتھ کی سُوجن جاتی رہی
سَعَادَۃُ الدَّارَیْن میں ہے :ایک بُزُرگ عبدالرحیم رحمۃُ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: میں حمام (Bathroom)میں گر گیاجس کی وجہ سے میرے ہاتھ میں درد(Pain) ہونے لگا اور وہ سُوج گیا ، میں رات کو اسی تکلیف میں مبتلا تھا کہ خَواب میں نبی پاک صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت نصیب ہوئی ۔ فرمایا : ’’بیٹا! تمہارے دُرُود نے مجھے متوجِّہ کردیا ۔‘‘جب میں صُبح اُٹھا تورحمتِ عالم صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بَرَکت سے دَرداور سُوجن (Swelling) ختم ہوچکے تھے ۔ ( سعادۃ الدارین،الباب الرابع، ص ۱۴۰) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللّٰہ علٰی محمَّدمجھے اپنے آقا پر بھروسا ہے(حکایت)
خلیفہ ہارون رشید کے دورِ خلافت میں لوگ شدید قحط (یعنی کھانے پینے کی اشیا ء کی کمی(Famine))کا شکار ہوئے تو خلیفہ نے لوگوں کو بارگاہِ خداوندی میں رونے، دعا کرنے اور لَہْوولَعِب (یعنی گانے بجانے وغیرہ)کے آلات کو توڑنے کا حکم دیا ۔ اسی زمانے میں لوگوں نے ایک غلام کو دیکھا جو بڑا خوش اور مطمئن دکھائی دے رہا تھا ۔ اسے خلیفہ ہارون رشید کی خدمت میں پیش کردیاگیا ۔ خلیفہ نے اس سے خوشی واِطمینان کا سبب پوچھا توکہنے لگا : میرے آقا کے پاس گندم کی بہت بڑی مقدار موجود ہے اور مجھے اپنے آقا پر بھروسا ہے کہ وہ مجھے اس میں سے کھلائے گا ، اسلئے مجھے قحط سالی کی فکر نہیں ۔ غلام کی یہ بات سن کر خلیفہ نے کہا : جب یہ غلام اپنے جیسے ایک انسان پر بھروسا کرکے مطمئن ہے تو پھر ہم اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ اللّٰہ پاک پر توکُّل(Trust) کریں۔ ( المستطرف ، الباب العاشر ، ۱/ ۱۱۶ بتصرف ) پیارے اسلامی بھائیو!توکُّل وہ عظیم صفت ہے جسے اپنانے والا دنیا وآخرت کی بھلائیاں پانے کا مستحق ٹھہرتا ہے جبکہ توکُّل نہ کرنے والا دنیا میں پریشان حالی کا شکاررہتا ہے اور آخرت میں رب عَزَّوَجَلَّ کے عِتاب کا حقدار ہوسکتا ہے ۔ٹینشن کا علاج
مدینے کے سلطان ، رحمتِ عالمیان صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : انسانی دل کی ہر جنگل میں ایک شاخ ہے ، تو جو اپنے دل کو ان تمام شاخوں کے پیچھے ڈال دے ، اللّٰہ پاک پروا ہ نہیں کرے گا کہ کسی جنگل میں اسے ہلاک کردے اور جو اللّٰہ کریم پر توکُّل کرے وہ اسے گھاٹیوں سے بچائے گا ۔ ( ابن ماجہ ،کتاب الزہد،باب التوکُّل والیقین ، ۴/ ۴۵۳ ،حدیث : ۴۱۶۶) مُفَسِّرِشَہِیرحَکیْمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : انسان کا دل ایک ہے مگر اس کے لئے فکریں غم بہت ہیں ، روٹی ، کپڑا ، مکان ، بیماریوں میں علاج ، آپس کی مخالفتیں وغیرہ وغیرہ فکروں غموں کے جنگل ہیں ، جن میں سے ہر ایک کا تعلق انسان کے دل سے ہے ۔ مزید فرماتے ہیں : دنیا دار کی طرف اللّٰہ تعالٰی توجُّہ کرم نہ کرے گا ، اسے ان غموں سے آزاد نہ کرے گا ، مرتے وقت تک وہ انہیں میں گرفتار رہے گا آخر اسی حال میں مرجائے گا ، عام دنیا داروں مالداروں کا یہی حال دیکھا جاتا ہے ، اللّٰہ تعالٰی ایسی زندگی سے محفوظ رکھے ۔ مزید فرماتے ہیں : متوکّل مومن پر رنج و غم اوّلاً آئیں گے نہیں ، اگر آئیں گے تو پانی کی طرح بہہ جائیں گے ، اگر کچھ ٹھہر بھی گئے تو دل ان کا اثر نہیں لیتا، دل اللّٰہ کی یاد میں مخمور رہتا ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح ، ۷/ ۱۲۳) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللّٰہ علٰی محمَّدتوکل کرنے والے راحت میں
تابِعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا ابوفَروہ عدی بن عدی جَزَری رحمۃُ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : ایک شخص نے مجھ سے خواب میں کہا : کیا تم نہیں جانتے کہ توکُّل کرنے والے ہی آرام میں ہوں گے ، میں نے عرض کی : اللّٰہ کریم آپ پر رحم فرمائے ، کس چیز سے آرام میں ہوں گے؟ فرمایا : دنیا کے غموں اور حساب کی سختی سے ۔ اللّٰہ کی قسم ! اس خواب کے بعد سے میں کبھی جلدی یا تاخیر سے رِزْق ملنے پر رنجیدہ نہیں ہوا کیونکہ جوتوکُّل اپنا لیتا ہے اللّٰہ پاک اس کی مُرادوں کو پورا فرماتا ہے ، رِزْق کے ساتھ ساتھ بھلائی بھی اس کی طرف چلی آتی ہے ۔ ( شعب الایمان ، الثالث عشر ، ۲/ ۱۰۷ ، رقم : ۱۳۰۴) اے عاشقانِ رسول!بیماری ، قرضداری، بے روزگاری ،مالی تنگدستی، ناجائز مقدمہ بازی اورگھریلو ناچاقی جیسی ہماری کئی پریشانیاں ایسی ہیں جن کا علاج توکُّل میں ہے لیکن معلومات کی کمی ، نیک صحبت سے دوری کی وجہ سے اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ تو کُّل (Trust)کسے کہتے ہیں ؟ یہ کیوں ضروری ہے؟ اس کے کیا فوائد (Advantages) ہیں ؟ توکُّل نہ کرنے کے کیا کیا نقصانات(Disadvantages) ہیں ؟ توکُّل کیسے اپنایا جائے؟کیا اسباب وذرائع(Means) اختیار کرنا توکُّل کے منافی ہے؟ توکُّل کے بارے میں اسی طرح کی معلومات زیرِ نظر کتاب میں فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، جوکم وبیش 31آیات مبارکہ،22 اَحادیث مقدسہ ، بُزرگانِ دین کے37 اِرشادات وروایات اور 47دلچسپ حکایات پر مشتمل ہے۔ شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطارؔ قادری دامت برکاتہم العالیہ نے اس کا نام ’’توکُّل ( اللّٰہ پر بھروسا)‘‘ رکھا ہے اور دارالافتاء اہلسنّت (دعوتِ اسلامی) کے مولانا حسان رضا عطاری مدنی نے اس کی شرعی تفتیش فرمائی ہے ۔ اس کتاب کو خود بھی پڑھئے اور دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب دے کر اشاعتِ علم کا ثواب حاصل کیجئے ۔ اللّٰہ پاک ہمیں دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رکھے ۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْامین صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شعبہ اِصلاحی کتب (المدینۃ العلمیۃ) (اس کتاب کے بارے میں اپنے تأثرات اس ای میل ایڈریس یا واٹس اپ نمبر پر روانہ کیجئے :) E.mail:ilmia26@dawateislami.net (ماہنامہ فیضان مدینہ:03012619734توکل کسے کہتے ہیں؟
قرآنِ کریم کے پارہ4کی سورۂ اٰل عمران کی آیت 159میں ارشادِ ربِّ عظیم ہے : فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ(۱۵۹) ( پ ۴ ، اٰل عمران : ۱۵۹) ترجمہ کنز الایمان : اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللّٰہ پر بھروسہ کرو ! بے شک توکُّل والے اللّٰہ کو پیارے ہیں۔ حضرتِ علّامہ سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃُ اللّٰہ علیہ اِس آیت کے تحت لکھتے ہیں : توکُّل کے معنٰی ہیں اللّٰہ تبارک و تعالیٰ پر اِعتماد کرنا اور کاموں کو اُس کے سپرد (یعنی حوالے) کردینا ،مقصُود یہ ہے کہ بندے کا اِعتماد تمام کاموں میں اللّٰہ پر ہونا چاہئے ۔ (خزائن العرفان،ص۱۴۱)توکل کا تفصیلی مطلب
حضرتِ امام محمد غزالی رحمۃُ اللّٰہ علیہ مِنہاجُ العابدین میں توکُّل کی مختلف تعریفیں (Definitions) ذِکر کرنے کے بعدفرماتے ہیں:میرے نزدیک مشائخ کے اَقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ توکُّل اس کا نام ہے کہ بندہ یہ یقین رکھے کہ میرے جسم کا قائم رہنا ، پریشانیوں کا ختم ہونا اور رِزْق ملنا اللّٰہ پاک کی ہی طرف سے ہے سامانِ دنیا یا دیگر اسباب کی وجہ سے نہیں!بلکہ میرا رب کریم چاہے تو میرے جسم کو باقی رکھنے اورپریشانیوں کے خاتمے وغیرہ کے لئے مخلوق یا کسی دنیاوی چیز کوسبب بنا دے اور اگر چاہے توظاہری اَسباب اور دنیاوی وسیلوں کے بغیر بھی مجھے زندہ رکھے۔‘‘ (اس کے بعد امام غزالی رحمۃُ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:)جب تم توکُّل کا یہ مطلب (Meaning)اپنے دل میں بٹھا لو گے اور اسی پر اِعتقاد (Belief)رکھو گے تو تمہارا دل مخلوق اور اَسباب سے بے نیاز ہوکربارگاہِ ربُّ الانام کی طرف متوجہ رہے گا اور تمہیں صحیح معنوں میں توکُّل حاصل ہوگا ۔ ( منہاج العابدین،ص ۱۰۸)_ مجھے محتاجی کا خوف کیسے ہوسکتا ہے !
تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا ابو حازِم رحمۃُ اللّٰہ علیہ سے کسی نے عرض کی : آپ کے پاس کتنا مال ہے ؟ فرمایا : دو چیزیں میرا مال ہیں ، جن کی موجودگی میں مجھے محتاجی کا کوئی خوف نہیں ہے : (1) اللّٰہ پاک پر بھروسا (2) لوگوں کے پاس موجود چیز سے مایوس ہوجانا ۔ ایک اور موقع پر آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا : مجھے محتاجی کا خوف کیسے ہوسکتا ہے !جبکہ ساری زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اور تحتَ الثَّریٰ (زمین کے نیچے )تک سب کچھ میرے مولیٰ کریم کی ملکیت ہے ۔ ( شعب الایمان ، ۲/۱۰۶ ، رقم: ۱۳۰۰ والموسوعۃ لابن ابی الدنیا ،کتاب القناعۃ والتعفف، ۲/۲۶۹ ، رقم : ۹۱)توکل کرنے والا محتاج نہیں ہوگا
حضرتِ سیِّدنا سلیمان خواص رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: اگر کوئی شخص سچے دل سے اللّٰہ پاک پر توکُّل کرے توامیر غریب سب اس کے محتاج ہوجائیں گے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہوگا کیونکہ اس کا مالک(یعنی رب کریم) تمام زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک ہے۔ ( منہاج العابدین،ص ۱۰۴)پہاڑہلنے لگا(حکایت)
حضرتِ سیِّدُنا عبد اللّٰہ ہَروی رحمۃُ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: ہم حضرتِ سیِّدُنا فُضَیل بن عیاض رحمۃُ اللّٰہ علیہ کے ہمراہ جبل ابو قُبَیس پر موجود تھے کہ آپ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ نے ارشاد فرمایا : اگر کوئی شخص اللّٰہ پر توکُّل کے معاملے میں سچا ہو اور وہ اس پہاڑ کو اپنی جگہ سے حرکت کرنے کا حکم دے تویہ ضرور حرکت کرے گا ۔ آپ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ کی مبارک زبان سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی کہ پہاڑ نے ہلنا شروع کردیا ، یہ دیکھ کر آپ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ نے پہاڑ سے ارشاد فرمایا : اللّٰہ پاک تجھ پر رحم کرے ! میں نے تجھے نہیں کہاتھا۔ اس پر پہاڑ ساکن (Motionless)ہوگیا ۔ ( المستطرف ، الباب الثامن والسبعون ، ۲/ ۴۵۴)توکل فرضِ عین ہے
اللّٰہ پاک پر توکُّل ہر عاقل بالغ مسلمان کے لئے فرض ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت، امام احمد رضاخان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن لکھتے ہیں : اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر توکُّل فرضِ عین ہے ، قَالَ اللّٰہ تعالٰی (یعنی اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا): ’’ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۳) ‘‘ ( پ ۶ ، المائدۃ: ۲۳) (ترجمہ) اللّٰہ ہی پر توکُّل کرو اگر مسلمان ہو، اور فرماتا ہے : ’’ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَیْهِ تَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ(۸۴) ‘‘( پ ۱۱ ،یونس: ۸۴) (ترجمہ ) اگر تم خدا پر ایمان رکھتے ہو تو اُسی پر بھروسہ کرو ! اگر مسلمان ہو ۔ (فضائل دعا ، ص ۲۸۷) اعلیٰ حضرت رَحمَۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ مزید فرماتے ہیں : عالَم اسباب میں رہ کر ترکِ اَسباب(یعنی اسباب کو چھوڑ دینا) گویا اِبطالِ حکمتِ الٰہیہ (یعنی اللّٰہ پاک کی حکمت کو باطِل کرنے کی طرح)ہے۔( اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:) كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَ مَا هُوَ بِبَالِغِهٖؕ- ( پ: ۱۳ ،الرعد: ۱۴)جیسے کوئی ہتھیلیاں پانی کی طرف پھیلائے ہوئے کہ وہ اس کے منہ میں پہنچ جائے اور وہ پہنچنے والا نہیں۔ (فضائل دعا،ص۲۸۷تا ۲۸۹)توکل کا علم سیکھنا بھی فرض عین ہے
اعلیٰ حضرت، مجدّدِ دین وملّت امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 624 پر لکھتے ہیں:ہر اس شخص پر اس کی حالتِ موجودہ کے مسئلے سیکھنا فرضِ عین ہے اور انہیں میں سے ہیں مسائلِ حلال وحرام کہ ہرفردبشر(person) ان کا محتاج ہے اور مسائلِ علمِ قلب یعنی فرائضِ قلبیہ مثل تواضُع واِخلاص و توکّل وغیرہا اور ان کے طُرُقِ تحصیل (یعنی حاصل کرنے کے طریقے)اور محرماتِ باطنیہ(یعنی باطِنی ممنوعات مَثَلاً) تکبر وریا وعُجب وحسد وغیرہا اور اُن کے معالجات(یعنی عِلاج) کہ ان کا علم بھی ہرمسلمان پر اہم فرائض سے ہے ،جس طرح بے نماز (یعنی نماز نہ پڑھنے والا)فاسِق وفاجِر ومُرتکبِ کبائر (یعنی کبیرہ گناہ کرنے والا)ہے یونہی بعینہ(یعنی بالکل اسی طرح) ریاء سے نماز پڑھنے والا انہیں مصیبتوں میں گرفتارہے، نَسْئَلُ اﷲَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃ (یعنی ہم اﷲ پاک سے عفووعافیت کاسوال کرتے ہیں)۔ (فتاوٰی رضویہ مخرجہ،۲۳/۶۲۴)توکل کیوں ضروری ہے ؟
پیارے اسلامی بھائیو!رِزْق اور دیگر حاجات کے بارے میں اللّٰہ پاک پر توکُّل اور بھروسا لازِم وضروری ہونے کی دووجوہات ہیں: پہلی وجہ: تاکہ انسان عبادت کے لئے فارِغ ہوسکے اورخوب نیکیاں کرسکے کیونکہ جو شخص توکُّل نہیں کرتا وہ اللّٰہ پاک کی عبادت چھوڑ کر اپنی حاجات وضروریات اور رِزْق میں مشغول (Engaged)ہوجاتا ہے ، پھر یہ مشغولیت ظاہری طور پر ہوتی ہے یا باطنی طور پر! ظاہری طور پر اس طرح کہ وہ روزی کی تلاش میں عام لوگوں کی طرح مارا مارا پھرے گا اور باطنی طور پر اس طرح کہ اس کا دل روزی کی فکر ،کمائی کی تدبیروں اور مختلف قسم کے وسوسوں میں گِھرا رہے گا ،جبکہ عبادت کا حق ادا کرنے کے لئے دل اور بدن کا فارِغ ہونا ضروری ہوتا ہے اور ایسی فراغت توکُّل والوں کو ہی میسر آسکتی ہے ۔ دوسری وجہ : توکُّل چھوڑنے میں عظیم خطرات اور بڑے بڑے نقصانات ہیں ، وہ اس طرح کہ خ اللّٰہ پاک نے جہاں انسان کی پیدائش کا بیان فرمایا وہیں اس کے رِزْق کا بھی ذکرکیا چنانچہ فرمایا:: الَّذِیْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ( پ ۲۱ ،الروم: ۴۰) ترجمۂ کنزالایمان: جس نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں روزی دی ۔اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح وہ خالِق ہے، رازِق بھی ہے۔ خ پھر صرف اسی قدر پر کفایت نہ کی بلکہ صَراحۃً رِزْق کا وعدہ فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ( پ ۲۷ ،الذاریات: ۵۸) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک اللّٰہ ہی بڑا رِزْق دینے والا۔ خ پھر صرف اس وعدے پر اِکتفا نہ کیا بلکہ اس کی ضمانت بھی دی اور فرمایا: وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا ( پ ۱۲ ،ہود: ۶) ترجمۂ کنزالایمان: اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رِزْق اللّٰہ کے ذمّہ کرم پر نہ ہو ۔ خ پھر صرف ذمّہ کرم پر اِکتفا نہ کیا بلکہ اس پر قَسم یاد فرمائی، چنانچہ فرمایا: فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَاۤ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ۠(۲۳) ( پ ۲۶ ،الذاریات: ۲۳) ترجمۂ کنزالایمان: تو آسمان اور زمین کے رب کی قسم بیشک یہ قرآن حق ہے ویسی ہی زبان میں جو تم بولتے ہو ۔ خ پھر صرف قَسم پر اِکتفا نہ کیا بلکہ بڑے واضح الفاظ میں توکُّل کا تاکیدی حکم دیا،چنانچہ فرمایا: وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ ( پ ۱۹ ،الفرقان: ۵۸) ترجمۂ کنزالایمان: اور بھروسہ کرو اس زندہ پر جو کبھی نہ مرے گا۔ دوسری جگہ فرمایا: وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۳) ( پ ۶ ،المائدۃ: ۲۳) ترجمۂ کنزالایمان: اور اللّٰہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے۔ تو اے عاشقانِ رسول !جو شخص ربِّ کائنات کے فرمان پر اِعتبار نہ کرے( مَعَاذَ اللّٰہ ) ، اس کے وعدے کو کافی نہ سمجھے ، اور اس کے ذمہ لینے پر مطمئن(Satisfied) نہ ہو بلکہ اس کے وعدے، وعیداور حکم کی کوئی پروا ہ نہ کرے، تو ایسے شخص کا کیا انجام ہوگا ؟ اس پر کتنی پریشانیاں آئیں گی ؟ وَاللّٰہ ! یہ بہت بڑا نقصان ہے لیکن ہم اس سے غافِل ہیں۔ ( منہاج العابدین ،ص ۱۰۳ تا ۱۰۶ ماخوذاً ) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللّٰہ علٰی محمَّدتوکل کن چیزوں میں ہوتا ہے ؟
توکُّل کا لفظ تین جگہ استعمال کیا جاتا ہے: {1} قسمت پر، قسمت پر توکُّل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ خُدا پاک نے تمہاری قسمت میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس پرمطمئن رہا جائے، کیونکہ اس کا حکم تبدیل نہیں ہوسکتا اورشرع کی طرف سے یہ اِطمینان لازم اور ضروری ہے۔ {2} مقامِ نُصرت پر، نصرت (یعنی مدد) میں توکُّل کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اللّٰہ پاک کی اِمداد پر اِعتماد اور یقین کیا جائے کیونکہ جب تم اس کے دین کی مدد اور اس کی نشرواِشاعت میں کوشش کروگے تو وہ بھی ضرور تمہاری اِمداد کرے گا، اللّٰہ پاک فرماتا ہے: فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ- ( پ ۴ ،آل عمران: ۱۵۹) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللّٰہ پر بھروسہ کروó دوسرے مقام پر فرمایا : اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ ( پ ۲۶ ،محمد: ۷) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے اللّٰہ تمہاری مدد کرے گا ۔ ایک اور جگہ فرمایا: وَ كَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۴۷) ( پ ۲۱ ،الروم: ۴۷) ترجمہ کنز الایمان: اور ہمارے ذمّہ کرم پر ہے مسلمانوں کی مدد فرمانا۔ تو اِمداد کے سلسلے میں بھی اللّٰہ پاک کے مطابق اس پر توکُّل و بھروسا ضروری ہے۔ {3}تیسر ا مقام جہاں توکُّل کرنا چاہیے وہ رِزْق اور روزانہ کی حاجات ہیں کیونکہ اللّٰہ پاک اُس چیز کا ضامِن اور کفیل ہے جس سے تمہارا جسم قائم رہے اور جس کے ذریعے تم اس کی عبادت کر سکوکیونکہ ربِّ کریم کا ارشاد ہے: وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ-( پ ۲۸ ،الطلاق: ۳) ترجمہ کنزالایمان: اور جو اللّٰہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے ۔ جبکہ نبی کریم صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہے: لَوْ اَ نَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللّٰہ حَقَّ تَوَکُّلِہِ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا، اگر تم خدا پرایسا توکل رکھتے جیسا اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رِزْق ملتا جس طرح پرندوں کو ملتا ہے کہ وہ صبح بُھوکے نکلتے ہیں اور شام کو ان کا پیٹ بھرا ہوتا ہے ۔ ( ترمذی،کتاب الزھد،باب فی التوکُّل علی اللہ، ۴/۱۵۴ حدیث: ۲۳۵۱)لہٰذا رِزْق کے بارے میں خدا پر توکُّل کرناعقلاً و شرعاًلازم ہے، اور صوفیا کے نزدیک عام طور پر لفظ توکُّل سے مرادرِزْق کے سلسلے میں خدا پر توکُّل کرنا ہوتا ہے۔ ( منہاج العابدین،ص ۱۰۷) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صلَّی اللّٰہ علٰی محمَّدایک کے بدلے دس ملے(حکایت)
اپنے دور کے اَبدال حضرت سیِّدُنا ابو جعفر بن خطاب رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: میرے دروازے پر ایک سوالی نے صدا لگائی میںنے اپنی زوجہ سے پوچھا: تمہارے پاس کچھ ہے؟ جواب ملا: چار انڈے ہیں۔ میں نے کہا: فقیر کو دے دو۔ اس نے دے دئیے۔ ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ میرے پاس ایک دوست نے انڈوں سے بھری ہوئی ٹوکری بھیجی۔ میں نے زوجہ سے پوچھا: اس میں کتنے انڈے ہیں؟ انہوں نے کہا: تیس۔ میں نے کہا:تم نے توفقیر کو چار انڈے دیئے تھے، یہ تیس کس حساب سے آئے! کہنے لگیں: تیس انڈے سالِم ہیں اور دس ٹوٹے ہوئے۔ حضرت سیدنا شیخ علامہ یافعی یمنی رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: بعض حضرات اس حکایت کے متعلق یہ بیان کرتے ہیں کہ سائل کو جو انڈے دیئے گئے تھے ان میں تین سالم اور ایک ٹوٹا ہوا تھا، ربِّ کریم نے ہر ایک کے بدلے دس دس عطا فرمائے، سالِم کے عوض سالم انڈے اور ٹُوٹے ہوئے انڈے کے بدلے ٹُوٹے ہوئے ۔ ( روض الریاحین،الخامسۃ والعشرون بعد الثلاث مئۃ ، ص ۲۷۴)طاقتور ،عزت والا اور مالدار بننے کا نسخہ
اُمت پر مہربان آقا صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو سب سے زیادہ طاقتور بننا چاہے اُسے چاہیے کہ توکُّل کرے، اور جو سب سے زیادہ عزت والا بننا چاہے اسے چاہیے کہ خوفِ خدا اختیار کرے ، اور جو سب سے زیادہ مالدار ہونا چاہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللّٰہ پاک کے پاس ہے اسے اپنے پاس موجود چیز سے زیادہ قابلِ بھروسا جانے ۔ ( حلیۃ الاولیاء ، محمد بن کعب القرظی ، ۳/ ۳۵۳ ، حدیث : ۳۸۶۷)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع