اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطٰن لاکھ سُستی دلائے مگر آپ یہ رسالہ (44صَفحات) مکمَّل پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کا دل سینے میں جھوم اُٹھے گا۔
سلطانِ دوجہان، سروَرِ ذیشان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنت نشان ہے: ’’جو مجھ پر جُمُعہ کے دن اور رات 100 مرتبہ دُرُود شریف پڑھے اللہ تَعَالٰی اُس کی 100 حاجتیں پوری فرمائے گا، 70 آخِرت کی اور30 دُنیا کی اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ ایک فِرِشتہ مقرَّر فرمادے گا جو اُس دُرُودِ پاک کو میری قبر میں یوں پہنچائے گا جیسے تمہیں تحائف (Gifts) پیش کئے جاتے ہیں ، بِلاشبہ میرا علْم میرے وِصال (ظاہری وفات) کے بعد وَیسا ہی ہوگا جیسا میری حیات (ظاہری زندگی) میں ہے۔ ‘‘ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۷ ص۱۹۹ حدیث۲۲۳۵۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سلسلئۂ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی نقشبندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کی ولادت باسعادت (BIRTH) ہِند کے مقام ’’ سرہند ‘‘ میں 971ھ / 1563ء کو ہوئی۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۱۲۷ماخوذاً) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نام مبارک: احمد، کنیت: ابو البرکات اورلقب: بدرالدین ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی اولاد میں سے ہیں ۔
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے پانچویں جَدِّ امجد حضرت سیِّدُنا ا مام رفیع الدین فاروقی سہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی حضرت سیِّدُنا مخدوم جہانیاں جہاں گشت سیّد جلال الدین بخاری سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (وفات: 785ھ) کے خلیفہ تھے۔ جب یہ دونوں حضرات ہند تشریف لائے اورسرہند شریف سے ’’ موضع سرائس ‘‘ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے درخواست کی کہ ’’ موضع سرائس‘‘ اور ’’ سامانہ‘‘ کا درمیانی راستہ خطرناک ہے، جنگل میں پھاڑ کھانے والے خوفناک جنگلی جانور ہیں ، آپ (وقت کے بادشاہ ) سلطان فیروز شاہ تغلق کو ان دونوں کے درمیان ایک شہر آباد کرنے کا فرمائیں تاکہ لوگوں کوآسانی ہو۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا شیخ امام رفیع الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بڑے بھائی خواجہ فتح اللّٰہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سلطان فیروز شاہ تغلق کے حکم پر ایک قلعے کی تعمیر شروع کی، لیکن عجیب حادثہ پیش آیا کہ ایک دن میں جتنا قلعہ تعمیر کیا جاتا دوسرے دن وہ سب ٹوٹ پھوٹ کر گر جاتا، حضرت سیِّدُنامخدوم سیّد جلال الدین بُخاری سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو جب اس حادثے کا علم ہوا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت امام رفیع الدین سہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کو لکھا کہ آپ خود جا کر قلعے کی بنیاد رکھیے اور اسی شہر میں سکونت (یعنی مستقل قیام ) فرمائیے، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تشریف لائے قلعہ تعمیر فرمایا اور پھر یہیں سکونت اختیار فرمائی ۔ حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی ولادت باسعادت اسی شہر میں ہوئی ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۸۹مُلَخَّصًا)
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے والد ماجد حضرت سیِّدُنا شیخ عبدالاحد فاروقی چشتی قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی جید عالم دین اور ولیِ کامل تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایامِ جوانی میں اکتسابِ فیض کے لیے حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی صابری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ( متوفی944 ھ / 1537ء ) کی خدمت میں حاضر ہوئے آستانۂ عالی پر قیام کا ارادہ کیا لیکن حضرت شیخ عبدالقدوس چشتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے فرمایا: ’’ علومِ دینیہ کی تکمیل کے بعد آنا۔ ‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جب تحصیل علم کے بعد حاضر ہوئے تو حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی وصال فرماچکے تھے اور ان کے شہزادے شیخ رکن الدین چشتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی (وفات: 983ھ / 1575ء) مسندخلافت پر جلوہ افروز تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو سلسلئۂ قادریہ اور چشتیہ میں خلافت سے مشرف فرمایا اور فصیح و بلیغ عربی میں اجازت نامہ مرحمت فرمایا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کافی عرصہ سفر میں رہے اور بہت سے اصحابِ معرفت سے ملاقاتیں کیں ، بالآخر سر ہند تشریف لے آئے اور آخر عمر تک یہیں تشریف فرما ہو کر اسلامی کتب کا درس دیتے رہے۔ فقہ واُصول میں بے نظیر تھے، کتب ِصوفیائے کرام: تَعَرُّف، عَوارِفُ المَعارِف اور فُصُوصُ الحِکَم کا درس بھی دیتے تھے، بہت سے مشائخ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے اِستفادہ (یعنی فائدہ حاصل) کیا۔ ’’سکندرے‘‘ کے قریب ’’اٹاوے‘‘ کے ایک نیک گھرانے میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نکاح ہوا تھا۔ امام ربانی کے والد محترم شیخ عبد الاحد فاروقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے 80 سال کی عمر میں 1007ھ / 1598ء میں وصال فرمایا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزار مبارک سر ہند شریف میں شہر کے مغربی جانب واقع ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں کُنوزُ الحَقائِق اوراَسرارُ التَّشَہُّدبھی شامل ہیں ۔ (سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی ص ۷۷ تا ۷۹ مُلخّصاً ) اللہُ ربُّ العِزّت عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے اپنے والد ماجد شیخ عبدالاحد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمد سے کئی علوم حاصل کیے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی محبت بھی اپنے والد ماجد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے ملی تھی، چنانچہ فرماتے ہیں : ’’اس فقیر کو عبادتِ نافلہ خصوصاً نفل نمازوں کی توفیق اپنے والد بزرگوار سے ملی ہے۔ ‘‘ (مَبْدا ومَعاد ص۶)
والد ماجد کے علاوہ دوسرے اساتذ ہ سے بھی استفادہ (یعنی فائدہ حاصل) کیا مثلاً مولانا کمال کشمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بعض مشکل کتابیں پڑھیں ، حضرت مولانا شیخ محمد یعقوب صرفی کشمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے کتب حدیث پڑھیں اور سندلی۔ حضرت قاضی بہلول بدخشی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے قصیدہ بردہ شریف کے ساتھ ساتھ تفسیر و حدیث کی کئی کتابیں پڑھیں ۔ حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے 17 سال کی عمر میں علومِ ظاہری سے سندِ فراغت پائی۔ (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص۳۲)
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کا اندازِ تدریس نہایت دل نشین تھا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تفسیر ِ بیضاوی، بخاری شریف ، مشکوۃ شریف ، ہدایہ اور شرحِ مَواقِف وغیرہ کتب کی تدریس فرماتے تھے۔ اسباق پڑھانے کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی اصلاح کے مدنی پھولوں سے بھی طلبہ کو نوازتے ۔ علمِ دین کے فوائداور اس کے حصول کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے علم و علما کی اہمیت بیان فرماتے ۔ جب کسی طالبِ علم میں کمی یا سستی ملاحظہ فرماتے تو اَحسن (یعنی بہت اچھے) انداز میں اس کی اصلاح فرماتے چنانچہ حضرت بدر الدین سرہند ی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ’’میں جوانی کے عالم میں اکثر غلبۂ حال کی وجہ سے پڑھنے کا ذوق نہ پاتاتوآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کمال مہربانی سے فرماتے: سبق لاؤ اور پڑھو، کیوں کہ جاہل صوفی تو شیطان کا مسخرہ ہے۔ ‘‘ (اَیضاً ص۸۹ مُلَخَّصًا)
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی تحصیل علم کے بعدآگرہ (الھند) تشریف لائے اور درس و تدریس کا سلسلئہ شروع فرمایا ، اپنے وقت کے بڑے بڑے فاضل (علمائے کرام) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر علم و حکمت کے چشمے سے سیراب ہونے لگے ۔ جب’’ آگرہ‘‘ میں کافی عرصہ گزر گیا تو والدِماجد عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ الواحِد کو آپ کی یاد ستانے لگی اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو دیکھنے کے لیے بے چین ہوگئے، چنانچہ والدمحترم طویل سفر فرما کر آگرہ تشریف لائے اور اپنے لخت جگر (یعنی مجدد الف ثانی ) کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔ آگرہ کے ایک عالم صاحب نے جب اُن سے اس اچانک تشریف آوری کا سبب پوچھا توارشاد فرمایا: شیخ احمد (سرہندی) کی ملاقات کے شوق میں یہاں آگیا، چونکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ان کا میرے پاس آنا مشکل تھا اس لئے میں آگیا ہوں ۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۱۳۳ مُلَخَّصًا)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! فرمانبر داراور نیک اولاد آنکھوں کی ٹھنڈ ک اور دل کا چین ہوتی ہے۔ جس طرح والدین کی محبت بھری نظر کے ساتھ زیارت سے اولاد کو ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے اسی طرح جس اولاد کی زیارت سے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ، ایسی اولاد کے لیے بھی غلام آزاد کرنے کے ثواب کی بشارت ہے چنانچہ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے : ’’جب باپ اپنے بیٹے کو ایک نظر دیکھتا ہے توبیٹے کو ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ ‘‘ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: اگرچہ باپ تین سو ساٹھ ( 360) مرتبہ دیکھے؟ارشاد فرمایا: ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بڑا ہے ۔ ‘‘ (مُعْجَم کبِیرج۱۱ص۱۹۱ حدیث ۱۱۶۰۸) یعنی اُسے سب کچھ قدرت ہے، اس سے پاک ہے کہ اس کو اس کے دینے سے عاجز کہا جائے۔
حضرت علامہ عبدُالرّء وف مُناوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : مراد یہ ہے کہ جب اصل (باپ) اپنی فَرْع (بیٹے) پرنظرڈالے اوراُسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبرداری کرتے دیکھے تو بیٹے کو ایک غلام آزاد کرنے کی مثل ثواب ملتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بیٹے نے اپنے رب تعالیٰ کوراضی بھی کیا اورباپ کی آنکھوں کوٹھنڈک بھی پہنچائی کیونکہ باپ نے اُسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبردار ی میں دیکھاہے۔ ( اَلتّیسیر ج۱ص۱۳۱)
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی رنگت گندمی مائل بہ سفیدی تھی، پیشانی کشادہ اور چہرہ ٔ مبارک خوب ہی نورانی تھا۔ اَبرو دراز، سیاہ اور باریک تھے۔ آنکھیں کشادہ اور بڑی جبکہ بینی (یعنی ناک ) باریک اور بلند تھی۔ لب (یعنی ہونٹ) سرخ اور باریک ، دانت موتی کی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور چمکدار تھے ۔ رِیش (یعنی داڑھی) مبارک خوب گھنی ، دراز اور مربع (یعنی چوکور) تھی ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دراز قد اور نازک جسم تھے ۔ آپ کے جسم پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی۔ پاؤں کی ایڑیاں صاف اور چمک دار تھیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایسے نفیس (یعنی صاف ستھرے) تھے کہ پسینے سے ناگوار بو نہیں آتی تھی ۔ (حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص ۱۷۱ مُلَخَّصًاً )
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے والد ماجدحضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو آگرہ (الھند) سے اپنے ساتھ سرہند لے جا رہے تھے، راستے میں جب تھا نیسر (تھا۔ نے ۔ سر) پہنچے تو وہاں کے رئیس شیخ سلطان کی صاحبزادی سے حضرت مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُالنُّوْرَانِی کا عقدِ مسنون (یعنی سنتِ نکاح ) کروادیا۔
حضرت سیِّدُنا امام ربانی ، مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی سراج الائمہ حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مقلد ہونے کے سبب حنفی تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سیِّدُناامامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم سے بے انتہا عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ
حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بزرگوں کے بزرگ ترین امام ، امامِ اجل ، پیشوائے اکمل ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بلندیِ شان کے متعلق میں کیا لکھوں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ تمام ائمہ مجتہدین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین میں خواہ وہ امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہوں یا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یاپھر امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان سب میں سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ وَرَع و تقویٰ والے تھے ۔ امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اَلْفُقَہَاءُ کُلُّہُمْ عِیَالُ اَبِیْ حَنِیفَۃ یعنی: تمام فقہا امام ابوحنیفہ کے عیال ہیں ۔ (مَبْدا ومَعاد ص۴۹ مُلَخَّصًا)