30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
تذکرہ تلمیذ اعلیٰ حضرت، مفتی محمداعجازولی خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ
اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان(1) رحمۃ اللہ علیہ کےخاندان کے وہ افراد جنہو ں نے پاکستان ہجرت کی،ان میں سے ایک اہم شخصیت استاذالعلما،مفتی اسلام،حضرت علامہ مفتی محمد اعجازولی خان رضوی صاحب بھی ہیں ،انہوں نے پاکستان کے کئی شہروں میں درس وتدریس کی خدمات سرانجام دیں،ہزاروں طلب گاران علم کو علم ومعرفت سے سیراب کیا،ذیل میں ان کے کچھ حالات ذکرکئے جاتے ہیں ؛اعلیٰ حضرت سے رشتہ:
مفتی اعجازولی خان صاحب کا نسب اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پڑداداحضرت حافظ کاظم علی خان صاحب (2) سے مل جاتا ہے ۔نسب نامہ یہ ہے : مفتی محمداعجازولی خان بن مولانا سردارولی خان بن حکیم ہادی علی خان بن رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان بن حافظ کاظم علی خان۔ (3) والدہ کی جانب سے اعلیٰ حضرت رشتے میں آپ کے نانا ہیں کیونکہ مفتی صاحب کی والدہ کنیز فاطمہ اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم کی بیٹی ہیں ۔(4)والدین کا ذکرخیر:
مفتی اعجازولی خان صاحب کے والدِمتحرم مولانا سردارولی خان صاحب کی پیدائش1302ھ مطابق 1885ء کو بریلی شریف میں ہوئی ،انھوں نےطویل عمرپائی اور 6صفر1395ھ مطابق18فروری 1975ء کو پیرجوگوٹھ میں انتقال فرمایا۔ آپ سراج العارفین مولانا سیّدابوالحسین احمد نوری(5) (سجادہ نشین آستانہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ شریف یوپی ہند) کے مریدتھے ۔مولانا سردارولی خان صاحب کی زوجہ ٔ محترمہ کنیزفاطمہ نیک صالحہ خاتون تھیں ، انکی پیدائش1297ھ مطابق 1880ء کو بریلی میں ہوئی اور وصال 1377ھ مطابق1957ء کو پیرجوگوٹھ میں ہوا،دونوں کی قبورمفتی تقدس علی خان صاحب کے مزارکے قریب پیرجوگوٹھ قبرستان (ضلع خیرپورمیرس،سندھ)میں ہیں ۔(6) مولانا سردارولی خان صاحب کے چاربیٹے مشہورعالم دین مفتی تقدس علی خان ،مفتی اعجازولی خان ،عبدالعلی خان ،حافظ مقدس علی خان اوردوبیٹیاں محبوب فاطمہ زوجہ شریف محمدخان اورحمیدفاطمہ تھیں ۔(7) مولانا سردارولی خان صاحب نے اپنی اہلیہ کے ساتھ 1330ھ مطابق 1912ء میں حج کی سعادت حاصل کی ۔مفتی اعجازولی صاحب بیان کرتے ہیں : 1330ھ میں میرے والدین کریمین حج کے عازم ہوئے ، والدہ صاحبہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئیں(8) اور اجازت چاہی ، اعلیٰ حضرت نے فرمایا:’’میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں‘‘ پھر فرمایا :’’ میں سچ کہتا ہوں کہ میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں ‘‘ والدہ صاحبہ اس کے بعد حج پر روانہ ہو گئیں ۔ حطیم شریف میں ایک شب والدہ صاحبہ نفل پڑھ رہی تھیں کہ لوگوں کا ہجوم ہوگیا اور ساتھ والے سب جدا ہو گئے ۔ والدہ صاحبہ بہت گھبرا ئیں اور خیال کیا کہ اعلیٰ حضرت نے فرمایا تھا کہ میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں ، اب اور کون سا وقت آئے گا جس میں مدد فرمائیں گے ۔لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ راستہ ملنا دشوار تھا کہ اعلیٰ حضرت کو دیکھا ، آپ نے کچھ عربی میں فرمایا جس کا مطلب معلوم نہ ہو سکا لیکن اس قدر ہجوم کے باوجود راستہ ایسا مل گیا کہ والدہ صاحبہ بآسانی وہاں سے چلی آئیں۔ اور دوسرے دروازہ سے جب حرم شریف کے باہر آئیں تو والدصاحب بھی مل گئے اوراعلیٰ حضرت غائب ہو گئے بریلی آکر عرض کیا تو اعلیٰ حضرت نے سکوت فرمایا۔ (9)پیدائش والقابات :
مفتی صاحب 11 ربیع الاخر 1332ھ مطابق 20 مارچ 1914ء میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے ۔(10) عقیقہ کی تقریب میں آپ کانام محمدرکھا گیا ،اعجازولی خان عرف قرارپایا ۔(11) آپ اپنا نام اس طرح لکھا کرتے تھے:فقیرقادری محمداعجازالرضوی عفی عنہ ۔(12) آپ کے القابات فخرالاساتذۃ الاعلام،فاضل جلیل،نامورمفتی ،فقیہ المفخم ،شیخ الفقہ ،شیخ الحدیث اوراستاذالعلماوغیرہ ہیں ۔بچپن اوراعلیٰ حضرت سے تلمذ(شرف شاگردگی) :
25 شعبان المعظم 1336ھ مطابق 5جون 1918ء کورسم بسمہ اللہ میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا نےبسم اللہ شریف پڑھا کر باقاعدہ تعلیم کا آغازفرمایا ،قرآن مجید آپ نے حافظ عبدالکریم قادری صاحب(13) سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی ،حفظ القرآن کی تکمیل حافظ عبدالقادر بریلوی صاحب(14) سے کی ۔(15) مفتی اعجازولی خان صاحب کو بچپن کے تقریبا آٹھ سال تک اعلی حضرت کی قربت حاصل رہی ،آپ اعلیٰ حضرت سے اس قدرمانوس تھے کہ اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد بھی اعلیٰ حضرت کے مزارپر حاضرہوکر اپنی مشکلات بیان کردیا کرتے تھے ؛چنانچہ آپ کے بیان کردہ دوواقعات ملاحظہ فرمائیے : ٭ میرا چھوٹا بھائی(حافظ مقدس علی خان ) جومجھے بہت ہی زیادہ پیارا ہے چیچک میں مبتلا ہوا ۔ ایک شب میں استاذ ی مولانا امجدعلی اعظمی صاحب(16) کے مکان پر تھا اور مولوی عبدالمصطفیٰ صاحب(17 ) سے لپٹ کراسی غم میں رو رہا تھا کہ دل میں خیال آیا کیوں نہ اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کروں، آستانہ پر حاضر ہوا اور رو رو کر عرض کیا ، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں حکم ہوا ’’اچھا ہوجائے گا۔‘‘فوراً صحت ہو گئی ۔(18) ٭ 4مئی 1935ء(مطابق 30محرم 1354ھ) کو بدایون اور گاؤں کے درمیان دس آدمیوں نے والد صاحب قبلہ پر حملہ کیا اور بہت زیادہ چوٹیں آئیں ۔ صبح 5مئی کو مظفر حسین نے کچھ ایسے الفاظ میں والد صاحب کی حالت بیان کی کہ نہ صرف میں بلکہ تمام لوگ گھبراگئے ۔ فوراً آستانہء رضویہ پر حاضر ہوا اور عرض کیا ۔ حکم ہوا کہ ’’ اچھے ہیں ‘‘ بدایون جا کر دیکھا تو جیسی حالت بتائی تھی اس سے بہت کم تھی 20،22دنوں میں صحت ہو گئی اگر چہ ضربات 18،19تھیں ،مگر صدقے اس کریم کے کہ جس نے صحیح و سالم کر دیا ۔ (19)دارالعلوم منظراسلام میں داخلہ :
مفتی اعجازولی خان صاحب جب کچھ بڑے ہوئے تو دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف(20) میں داخلہ لے لیا،ابتداتا متوسطات کتب درس نظامیہ اپنے بڑے بھائی مفتی تقدس علی خان(21) ،حضرت مولانا مختاراحمدسلطانپوری ثم بریلوی(22) اورحکیم الاسلام مفتی محمدحسنین رضا خان بریلوی(23) سے پڑھیں،شرح جامی مفتی اعظم ہند محمدمصطفی رضا خان صاحب(24) اورتفسیرجلالین اپنے ماموں زادبھائی مولانا سردارعلی خان عزومیاں بریلوی ثم ملتانی (25) سے پڑھی۔(26)مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں میں داخلہ :
درسیات کی تکمیل کے لیےصدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی(27) کے پاس مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ ،یوپی ہند (28) میں میں تخمینامحرم 1356 ھ مطابق مارچ1937ء کو حاضرہوئے ، شعبان1356ھ مطابق اکتوبر1937ء کو سندتکمیل وسندحدیث حاصل کی۔یہاں آپ کو صدرالشریعہ کے شاگردحضرت مولاناحافظ قاری غلام محی الدین رضوی شیری صاحب سے شرفِ تلمذ(شاگردبننے کی سعادت )حاصل ہوا۔(29)مفتی اعظم ہند اورحجۃ الاسلام سے حصول سندحدیث:
مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں سے فارغ التحصیل ہوکربریلی شریف آئے تومفتی اعظم ہند مفتی محمدمصطفی رضا خان صاحب سے سند حدیث کی درخواست پیش کی ، مفتی اعظم ہند آپ کو 1356ھ مطابق 1937ھ کو سند حدیث عطافرمائی ،بعدازاں حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب(30) نے تقریبا 8ذوالحجہ 1356ھ مطابق9فروری 1938ء کو سندحدیث عطافرمائی ،اسی عرصے میں الہ آباد یونیورسٹی میں فاضل دینیات کا امتحان دیا اورکامیاب ہونے پرفاضل دینیات کی ڈگری حاصل کی ۔ (31)علم جفراورفن استخراج میں مہارت:
مفتی اعجازولی خان صاحب جیدعالم دین،بہترین مدرس،فقیہ جلیل اورمعقول ومنقول کے جامع تھے ۔اسلامی علوم بالخصوص فقہ وحدیث میں کامل دسترس رکھتے تھے ،آپ کو علم جفر(32) اورفن تاریخ گوئی(33) سے بھی دلچسپی تھی ۔مولانا محمدابراہیم خوشترقادری صاحب (34) تحریرفرماتے ہیں :امام احمدرضا کے خاندان میں آپ کو علم جفرسے قدرے مناسبت تھی۔اس کا مشاہدہ راقم الحروف نے خود کیا ہے ۔آپ نے چندسال پہلے ہی مجھے اپنے وصال کی خبردی،پھرمیں نے رمضان سے پہلے اس کی تصدیق چاہی کہ آپ کی پیشگوئی کے مطابق رحلت آپ کی رمضان میں ہوگی ،ہنوزبرقرارہے ؟آپ نے جواباارشادفرمایا،اب قدرے تبدیلی واقع ہوگئی ہے ۔اب یہ سانحہ شوال میں ہوگا ۔مزیدفرماتے ہیں :تحدیث نعمت کے طوپر لکھ رہاہوں کہ تاریخ استخراج کے فن میں حضرت فقیہ عصرسے میں نے استفادہ کیا ہے۔(35)بیعت و خلافت :
اعلی حضرت امام احمدرضا خان صاحب نے آپ کو رسم بسم اللہ کے موقعہ پر 25شعبان 1336ھ مطابق 5جون 1918ء کوسلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں داخل فرمایا،حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا خان صاحب نے آپ کو 8ذوالحجہ 1356ھ مطابق9فروری 1938ء کو سلسلہ قادریہ رضویہ حامدیہ کی خلافت عطافرمائی ۔(36) 7رجب1383ھ مطابق 24نومبر1963ءکو سطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازسیدحسن سنجری(37) کے دربارگہربارمیں مفتی اعظم ہندعلامہ محمد مصطفی رضا خان نوری صاحب نے آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ نوریہ کی خلافت عطافرمائی ، آپ جیدعالم دین ،صوفی کامل اوراورادووظائف کے پابندتھے ،پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب تحریرفرماتے ہیں : مفتی صاحب قبلہ علمی مصروفیت کے ساتھ ساتھ خانقاہ بریلی کے ان تعویذات اوروظائف کے مجازتھے جوشمع شبستان رضا میں درج ہیں ۔ان کی وفات کے بعد دارالعلوم نعمانیہ لاہور(38) میں آج تک ان حضرات کے خطوط آتے ہیں ،جو ان سے اپنے مصائب کا روحانی علاج تلاش کرتے تھے ،مزیدتحریرفرماتے ہیں ،مفتی اعجازولی خان 1965ء کی جنگ کے دوران میرے ساتھ اگلے مورچوں پر گئے ۔دوسرے لفظوں میں مَیں ان کے ساتھ اگلے مورچوں پر گیا ۔ہمارے ساتھ بڑے نامورعلماء اہل سنت کا ایک وفدتھا ۔اگرچہ ہرعالم دین نے اپنے اپنے اندازمیں غازیان صف شکن کے سامنے اسلامی جہادکی فضیلت پرگفتگوکی مگرمفتی اعجازولی خاں مرحوم کا اندازروحانی تھا ،جسے موت وحیات کے درمیان کھڑے جوانوں نے بے حدپسندکیا۔آپ نے بعض نوجوانوں کوایسے وظائف بھی بتائے ،جسے سپاہی سے لے کرکمانڈرتک،ہرایک نے حاصل کرنے میں دلچشپی لی۔(39) جب آپ جامعہ محمدی شریف ،بھوانہ ،ضلع چنیوٹ،(40) میں شیخ الحدیث تھے تو اس دورمیں آپ نے شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمدقمرالدین سیالوی (41) رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں خلافت کا شرف حاصل کیا ۔ (42)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع