my page 1
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Uyun ul Hikayaat Hissa 2 | عیون الحکایات (حصہ دوم)۔

    book_icon
    عیون الحکایات (حصہ دوم)۔
                

    حکا یت نمبر204 محتاجی کا خوف

    حضرتِ سیِّدُنا ابو القاسم بن علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں:’’ ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا ابراہیم حَرْبی علیہ رحمۃ اللہ القوی اتنے شدید بیمار ہوئے کہ قریبُ المرگ ہوگئے میں ان کے پاس گیا تو فرمایا:’’ اے ابو قاسم! میں اور میری بیٹی ایک امرِ عظیم میں مبتلا ہیں۔‘‘ پھر اپنی صاحبزادی سے فرمایا: ’’بیٹی !یہ تمہارے چچا ہیں ان کے پاس جائو اور گفتگو کرو۔‘‘ اس نے چہرے پرنَقاب ڈالا اور میرے قریب آکر کہا :’’ اے میرے چچا ! ہم بہت بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں ،عرصۂ دراز سے ہم خشک روٹی کے ٹکڑے اور نمک کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔کَل خلیفہ اللّٰہ کی طرف سے میرے والد ِ محترم کو ایک ہزار دینا راور ایک قیمتی موتی بھیجا گیا لیکن انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ فلاں ، فلاں نے تحائف وغیرہ بھجوائے لیکن انہوں نے وہ بھی قبول نہ کئے۔‘‘ا پنی بیٹی کی یہ بات سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مسکرا کراس کی طرف دیکھا اور فرمایا:’’ اے میری بیٹی ! کیا تمہیں محتاجی کاخوف ہے ؟‘‘ کہا :’’ ہاں ۔‘‘ فرمایا:’’ میرے پاس اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے بارہ ہزار عربی مَخْطُوْطے ہیں۔ میرے مرنے کے بعد روزانہ ایک ورق ،ایک درہم کے بدلے بیچ دیا کرنا۔ میری بیٹی! اب بتائو کہ جس کے پاس اتنی قیمتی اشیاء موجود ہوں کیا وہ محتاج ہو سکتا ہے؟ ایسا شخص ہر گز مفلس ومحتاج نہیں ، لہٰذا تم مفلسی و محتاجی سے بے خوف ہوجاؤ۔‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر205 بیٹے کی موت کی تمنا

    حضرتِ سیِّدُنامحمد بن علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم حَرْبی علیہ رحمۃ اللہ القوی کاگیارہ سالہ اِکلوتا بیٹاحافظِ قرآن ،دینی مسائل سے واقف،بہت ہی فرمانبردار اور ذہین تھا۔ اچانک اس کا انتقال ہوگیا۔ میں نے تعزیت کی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:’’ میں توخود اس کی موت کا (یعنی تمناکرنے والا)تھا۔ ‘ ‘ میں نے کہا:’’ آپ صاحبِ علم ہوکر اپنے فرمانبردار اور ذہین بیٹے کے بارے میں ایسی باتیں کر رہے ہیں! حالانکہ وہ تو قرآن وحدیث اور فقہ کا جاننے والاتھا ۔‘‘ فرمایا:’’میں نے خواب دیکھا کہ قیامت بر پا ہوگئی ۔اور میدانِ مَحشر میں گرمی اپنی انتہاکوپہنچ چکی تھی ۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے ہاتھوں میں پیالے لئے، بڑھ بڑھ کر لوگوں کو پانی پلا رہے ہیں ۔ میں نے ایک بچے سے کہا:’’ بیٹا! مجھے بھی پانی پلائو۔‘‘ بچے نے میری طرف دیکھ کر کہا:’’ تم میرے والد نہیں ہو، (میں تمہیں پانی نہیں پلا سکتا ) ۔‘‘میں نے پوچھا :’’تم کون ہو ‘‘؟کہا: ’’ہمارا انتقال چھوٹی عمر میں ہوگیا تھااور ہم ا پنے والدین کو دنیا میں چھوڑ کر یہاں آگئے۔ اب ان کے انتظار میں ہیں کہ وہ کب ہمارے پاس آتے ہیں؟‘‘ جب وہ آتے ہیں توہر بچہ اپنے والدین کو پانی پلاتا ہے ۔‘‘ خواب بیان کرنے کے بعد حضرت سیِّدُنا ابراہیم حَرْبی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا:’’ میں اسی لئے اپنے بیٹے کی موت کا متمنی تھا ۔‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر206 جوانی ہوتوایسی

    حضرتِ سیِّدُناابراہیم بن مُہَلَّب علیہ رحمۃ اللہ الرَّب فرماتے ہیں:’’ دورانِ سفر میں ایک ویران جنگل سے گزرا تو ایک لڑکے کو نماز میں مشغول پایا۔ جب اس نے نماز مکمل کر لی تو میں نے کہا :’’ اس ویران جنگل میں تمہارا کوئی مونِس وغمخوار بھی ہے ؟‘‘ کہا:’’ کیوں نہیں! بالکل ہے۔‘‘میں نے کہا :’’ کہا ں ہے ؟‘‘ کہا :’’ میرے دائیں ،بائیں ،اوپر، نیچے ،آگے پیچھے ہر طر ف ۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ یہ لڑکا اہلِ معرفت میں سے ہے۔میں نے کہا:’’کیاتمہارے پاس زادِ راہ بھی ہے؟‘‘ کہا:’’ کیوں نہیں۔‘‘ میں نے کہا:’’تمہارا زادِ راہ کیا ہے؟‘‘ کہا :’’اخلاص ، توحید ، حضورِ پاک صاحب ِلَوْ لاک ،سیّاحِ افلاک صلَّی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نبوت کا اِقرار ، ایمانِ صادق ، اور پختہ میرا زادِ راہ ہے۔‘‘ میں نے کہا :’’ میرے بیٹے ! کیا تم میرے ساتھ رہنا پسند کرو گے ؟‘‘ کہا:’’ جب کسی کو کوئی رفیق مل جائے تو وہ اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی یاد سے غافل کردیتا ہے اور میں کسی بھی ایسے شخص کی رفاقت نہیں چاہتا جس کی وجہ سے لمحہ بھر کے لئے بھی اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی یاد سے غافل ہو کر عبادت کی اس لذّت سے محروم ہوجائوں جسے میں اب محسوس کررہا ہوں ۔‘‘میں نے کہا :’’ اس خطرناک ویران جنگل میں اکیلے رہتے ہوئے تمہیں وحشت نہیں ہوتی ؟‘‘ کہا:’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کی دولت ایسی دولت ہے کہ اس نے مجھ سے ہر وحشت دور کردی ہے۔اور اب یہ حال ہے کہ درندوں کے درمیان بھی خوف و وَ حْشَت محسوس نہیں ہوتی ۔‘‘ میں نے کہا :’’ تم کھاتے کہاں سے ہو ؟‘‘ کہا:’’ جس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ نے مجھے ماں کے پیٹ کی تاریکیوں میں رزق دیا، وہی پروردگارعَزَّوَجَلَّ اب بھی مجھے رزق عطا فرماتا ہے ۔‘‘ میں نے پوچھا:’’ تمہارے کھانے کا انتظام کب اور کس طر ح ہوتا ہے ؟‘‘ کہا :’’ مجھے مقررہ وقت پر کھانا مل جاتا ہے چاہے میں کہیں بھی ہوں، میرا رزق مجھ تک ضرور پہنچتا ہے، میرا مولیٰ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ مجھے کس وقت کس چیز کی حاجت ہے ۔ وہ پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ میرے حالات سے بے خبر نہیں ،وہ ہر جگہ میرا محافظ و والی ہے۔‘‘میں نے کہا:’’ تمہاری کوئی حاجت ہے جسے میں پورا کروں ؟‘‘ کہا :’’ ہاں ! ایک حاجت ہے اور وہ یہ کہ اگر دوبارہ مجھے دیکھوتو مجھ سے گفتگو نہ کرنا اور نہ ہی میرے بارے میں کسی کو بتانا۔‘‘ میں نے کہا:’’ جیسے تمہاری مرضی، اس کے علاوہ کوئی اورحاجت ہو توبتائو ؟‘‘ کہا:’’ ہاں! اگر ہوسکے تو دعاؤں میں یادرکھنا،جب بھی غمگین و پریشان ہوکر دعا کروتو میرے لئے بھی دعا ضرور کرنا۔‘‘ میں نے کہا:’’ میرے بیٹے ! میں تمہارے لئے کس طر ح دعا کروں جبکہ تم مجھ سے افضل ہو کیونکہ خوف خدااورتوکل تم میں مجھ سے بہت زیادہ ہے۔‘‘ کہا:’’ اس طر ح نہ کہئے ،کیونکہ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں، آپ کو دولتِ ایمان مجھ سے پہلے نصیب ہوئی، آپ کی نماز یں اور روزے مجھ سے زیادہ ہونگے ۔‘‘میں نے کہا:’’ مجھے بھی تم سے کام ہے ۔‘‘ اس نے کہا :’’بتائیے !کیا کام ہے ؟‘‘ میں نے کہا:’’ میرے لیے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا کرو ۔‘‘اس نے یہ دعا کی:’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو ہر لمحہ گناہوںسے محفوظ رکھے، ایسا غم عطا فرمائے جس میں اس کی رضا پوشیدہ ہو۔اور اس کے علاوہ کوئی او ر غم نہ ہو ۔‘‘میں نے کہا:’’ اے میرے لختِ جگر ! اب دوبارہ ملاقات کب ہوگی؟ میں تجھے کہاں تلاش کرو ں؟‘‘ کہا:’’ دنیا میں مجھ سے ملاقات کی امید نہ رکھنا ، اور آخرت میں مجھ سے ملنا چاہو تو ہر اس کام سے بچنا جس سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے منع فرمایا ہے۔ اور کسی بھی ایسے کام میں اس کی نافرمانی نہ کرناجس کااس نے حکم دیا۔ آخرت متقین کے جمع ہونے کی جگہ ہے ۔ اگر وہاں مجھ سے ملنا چاہوتو ان لوگوں میں تلاش کرنا ، جودیدارِ الٰہی کر رہے ہوں میں آپ کو انہیں لوگوں میں ملوں گا ۔‘‘ میں نے کہا:’’ تجھے کیسے معلوم ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں تجھے یہ مرتبہ ملے گا ؟‘‘ کہا:’’ اس لئے کہ میں اس کی حرام کردہ اشیاء سے بغض رکھتا ہوں ،ہر گناہ اور ہر اس کام سے بچتا ہوںجس سے بچنے کا اس نے حکم دیاہے۔اور میں نے اپنے پروردگارعَزَّوَجَلَّ سے یہ دعا کی ہے کہ مجھے جنت میں اپنے دیدار کی دولتِ لازوال عطا فرمائے ۔ ‘‘اتنا کہنے کے بعد اس لڑکے نے چیخ مارکر ایک طر ف دوڑ لگا دی اور نظروں سے اَوجھل ہوگیا ۔ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایات نمبر207 دوستی کا تقاضا

    حضرتِ سیِّدُنا محمد بن دائود علیہ رحمۃ اللہ الودود فرماتے ہیں:’’ میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْر فُوْطِی اور حضرت سیِّدُنا عَمْر وبن آدَمِیرحمۃا اللہ تعالیٰ علیہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ ہم دونوں، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطرایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم عروس البلاد( بغدادشریف) سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک جگہ دو خونخوار درندے بیٹھے ہوئے تھے ۔‘‘ حضرت سیِّدُنا ابوبَکْر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :’’ میں نے ابوعمر و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا : اے ابو عمر و! میں عمر میںتجھ سے بڑا ہوں تم میرے پیچھے چلو میں آگے چلتا ہوں تاکہ اگر یہ خوانخوار درندے حملہ کریں تو میں ان کی زَد میں آجائوں اور تم بچ جائو ۔‘‘ حضرت سیِّدُنا ابو عمر و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا:’’ اگر میں نے ایسا کیا تو میرا ضمیر مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا ۔ میں ہرگز ایسا نہیں کر سکتا ۔ آئو ہم دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آیا تو ہم دونوں کو ہی آئے گا ۔‘‘ چنانچہ ہم چلے اور درندوں کے درمیان سے گزر گئے۔ حملہ تو کُجا انہوں نے حرکت تک نہ کی ۔‘‘ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :’’ دوستی کا یہی تقاضا ہے ۔‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر208 حضرتِ فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوَہَّاب کی توبہ

    حضرتِ سیِّدُناعلی بن علیہ رحمۃ اللہ الاکرم فرماتے ہیں:’’مجھے حضرتِ سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوھاب کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ:’’ تو بہ سے قبل حضرت سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوھاب اتنے بڑے اور خطرناک ڈاکو تھے کہ پورے پورے قافلے کو اکیلے ہی لوٹ لیتے۔ ، ایک مرتبہ ایک قافلہ آپ کے علاقے کے قریب سے گزرا، انہیں وہیں رات ہوگئی۔ آپ ڈاکہ ڈالنے کی نیت سے جب قافلے کے قریب پہنچے تو بعض قافلے والوں کو یہ کہتے ہوئے سنا :’’ تم اس بستی کی طر ف نہ جائو بلکہ کوئی اور راستہ اختیار کرلو یہاں فُضَیْل نامی ایک خطر ناک ڈاکو رہتا ہے ۔‘‘ جب قافلے والوں کی یہ آواز سنی توآپ پر کپکپی طاری ہو گئی اور بلندآواز سے کہا: ’’اے لوگو ! میں فُضَیْل بن عِیَاض تمہارے سامنے موجود ہوں، جائو! بے خوف وخطر گزر جائو ،تم مجھ سے محفوظ ہو۔خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم آج کے بعد میں کبھی بھی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہیں کرو ں گا۔ ‘‘اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے چلے گئے اور اپنے تمام سابقہ گناہوں سے تو بہ کرکے راہِ حق کے مسافروں میں شامل ہوگئے ۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس رات قافلے والوں کی دعوت کی اور فرمایا :’’ تم فُضَیْل بن عِیَاض سے اپنے آپ کو محفو ظ سمجھو ، پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے جانوروں کے لیے چارہ وغیرہ لینے چلے گئے جب واپس آئے تو کسی کو قرآن پاک کی یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کرتے ہوئے سنا : اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ترجمۂ کنزالایمان :کیا ایمان والوں کوابھی وہ وقت نہ آیاکہ ان کے دل ۲۷ ۱۶ جھک جائیں اللہ کی یاد کے لئے۔ قرآن کریم کی یہ آیت تا ثیر کا تیربن کر آپ کے سینے میں اتر گئی ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے گریہ وزاری شروع کردی اور اپنے کپڑوں پر مِٹی ڈالتے ہوئے کہا:’’ ہاں!کیوں نہیں ! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اب وقت آگیا ، اب وقت آگیا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسی طرح روتے رہے اور پھر اپنے تمام سابقہ گناہوںسے تو بہ کرلی۔‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر209 پُر اَ سرا ر شخص

    حضرتِ سیِّدُنا احمد بن محمد علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :’’ میں نے اُمّتِ محمدیہ کے مشہور ولی حضرت سیِّدُنا ابراہیم آجُرِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ میرے اُستاذ حضرت سیِّدُنا ابراہیم آجُرِی کبیر علیہ رحمۃ اللہ القدیر نے فرمایا: ’’سردیوں کے دن تھے،میں مسجد کے دروازے کے قریب بیٹھاہوا تھاکہ میرے قریب سے ایک شخص گزرا جس نے دو گدڑیاں اوڑھ رکھیں تھیں۔ میرے دل میں یہ بات آئی کہ شاید یہ ان میں سے ہے جو بھیک مانگتے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ اپنے ہاتھ سے کما کرکھاتا ۔ جب میں سویا تو خواب دیکھا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے، مجھے بازو سے پکڑا اور اسی مسجد میں لے گئے ۔ میں نے دیکھا کہ قریب ہی ایک شخص دو گدڑیاں اوڑھے سورہاہے۔جب اس کے چہرے سے گدڑی ہٹائی گئی تو میں حیران رہ گیا کہ یہ وہی شخص ہے جو میرے قریب سے گزراتھا۔ فرشتو ں نے مجھ سے کہا :’’ اس کا گو شت کھائو۔ ‘‘ میں نے کہا :’’میں نے تو اس کی غیبت نہیں کی۔ ‘‘ کہا :’’ کیوں نہیں ! تیرے نفس نے اس کی غیبت کی اور تو نے اس کو حقیر جانا اور اس سے ناخوش ہوا۔‘‘ حضرت سیِّدُنا ابراہیم آجُرِی کبیر علیہ رحمۃ اللہ القدیر فرماتے ہیں:’’ پھر میری آنکھ کھل گئی خوف کی وجہ سے مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ میں مسلسل تیس (30)دن اسی مسجد کے دروازے پربیٹھا رہا،صرف فرض نماز کے لئے وہاں سے اٹھتا۔ میں دعا کرتاکہ دوبارہ وہ شخص مجھے نظر آجائے تاکہ اس سے معافی مانگو ں۔ ایک ماہ بعد وہ پُراَسرار شخص اس حال میں نظر آیاکہ اس کے جسم پر پہلے کی طرح دو گدڑیاں تھیں۔ میں فوراً اس کی طر ف لپکا، مجھے دیکھ کر وہ تیز تیز چلنے لگا ، میں بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ جب مجھے محسوس ہو ا کہ شاید میں اس کے قریب نہ پہنچ سکو ں گا اور یہ مجھ سے دور چلا جائے گا تو میں نے کہا :’’ اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے ! میں تجھ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘اس نے کہا : ’’ اے ابراہیم ! کیا تم بھی ان لوگوں میں سے ہو جو دل کے ذریعے مومنین کی غیبت کرتے ہیں ؟‘‘ حضرت سیِّدُناابراہیم کبیر علیہ رحمۃ اللہ القدیر فرماتے ہیں :’’ اس کی بات سن کر میں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ جب افاقہ ہوا تو وہ شخص میرے سرہانے کھڑا تھا ۔‘‘ اس نے کہا :’’کیا دوبارہ ایسا کروگے ؟‘‘ میں نے کہا :’’ نہیں ، اب کبھی بھی ایسا نہیں کرو ں گا۔ ‘‘ پھر وہ پُراَسرار شخص میری نظروں سے اوجھل ہوگیا اور دوبارہ کبھی نظر نہ آیا ۔ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر210 ولی اللہ کی چادرپرآگ اثرنہ کرسکی

    حضرت سیِّدُنا ابراہیم آجُرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : ’’ میں ایک یہودی کا مقروض تھا وہ قرض وصول کرنے میرے پاس آیا اور کہا:’’ مجھے کوئی ایسی کرامت دکھائو جس سے میں اسلام کی عظمت جان جائوں اور مجھ پر یہ بات ظاہرہوجائے کہ دین ِ اسلام، یہودیوں کے دین سے بہتر ہے۔ اگر تم کوئی کرامت دکھادو تو میں مسلمان ہوجائوں گا۔‘‘میں نے کہا:’’ کیا تم واقعی مسلمان ہوجائوگے ؟‘‘ اس نے کہا:’’ ہاں۔‘‘اسے دین ِاسلام کی طرف راغب ہوتا دیکھ کر میں نے اس کی چادر ،اپنی چادر میں لپیٹی اور اینٹوں کے بھَٹّے میں ڈال دی۔ پھر میں خودبھَٹے میں داخل ہوااور جلتی ہوئی آگ سے چادر یں نکال لایا۔ عَزَّوَجَلَّ!میرا ایک بال بھی نہ جلا۔جب میں نے اس یہودی کے سامنے اپنی چادر کھولی تو وہ بالکل صحیح و سالم تھی اوریہودی کی چادر اندر ہونے کے باوجود جل کر راکھ ہو گئی تھی۔ اسلام کی یہ حَقّانیت دیکھ کروہ یہودی کلمۂ شہاد ت پڑھ کرمسلمان ہوگیا ۔‘‘ یہ حکایت حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم آجُرِی صغیر علیہ رحمۃ اللہ الکبیر کے متعلق ہے۔ ایک بزرگ حضرتِ سیِّدُناابراہیم آجُرِی کبیر علیہ رحمۃ اللہ الکبیر بھی تھے جن کا ذکر پچھلی حکایت میں گزرا یہ دونوں اپنے دور کے زبردست ولی اور صاحبِِ کرامت بزرگ تھے۔ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر211 بزرگوں کی نگاہ میں عہدۂ قضاکی حیثیت

    حضرتِ سیِّدُناحَمَّادبن سَلَمَہ اور حَمَّادبن زَیْدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہماسے روایت ہے کہ’’ حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گندم کی تجارت کیا کرتے تھے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے :’’ اگر پانچ بزرگ نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا ۔‘‘ پوچھا گیا کہ وہ پانچ بزرگ کون سے ہیں جن کی خاطر آپ تجارت کرتے ہیں ؟ ‘‘فرمایا: ’’حضرتِ سیِّدُنا سفیان ثوری، حضرتِ سیِّدُنا سفیان بن عُیَیْنَہ ،حضرتِ سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض ،حضرتِ سیِّدُنا محمد بن سمّاک ، اورحضرتِ سیِّدُنا ابن علیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ ‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تجارت کی غرض سے خُرَاسَان کی طرف جاتے ، جو نفع حاصل ہوتا اس سے اہل وعیال کاخرچہ اور حج کے لئے زادِ راہ وغیرہ نکال کر بقیہ ساری رقم ان پانچ دوستوں کی طرف بھجوادیتے۔ ایک سال آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خبر ملی کہ ابن علیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عہدۂ قضاء قبول کرلیا ہے۔ اس اطلاع کے بعدآپ نہ توابن عُلَیَّہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملنے گئے اور نہ ہی انہیں رقم بھجوائی ۔ جب ابن عُلَیَّہ کو خبر ملی کہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمارے شہر میں آئے ہو ئے ہیں تو فوراً آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو ان کی طرف دیکھا نہ ہی کلام فرمایا۔چنانچہ حضرت سیِّدُناابن عُلَیَّہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس چلے گئے ، اور دوسرے دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ایک رقعہ لکھا جس کی عبارت کچھ اس طر ح تھی: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ہمیشہ اپنی اطاعت وفرمانبرداری میں رکھے اور سعادت مند ی عطا فرمائے ، میں تو آپ کے احسان اور صلہ رحمی کا کب سے منتظر تھا ، کل میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو الیکن آپ نے مجھ سے کلام تک نہ فرمایا۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ شاید آپ مجھ سے خَفا ہیں ۔میں آپ کی عنایتوں سے محروم ہورہا ہوں ۔خدارا! مجھے بتائیے کہ میری کونسی بات آپ کو ناپسند ہے تا کہ میں اپنی اصلاح کروں اور آپ سے معافی مانگو ں۔ ‘‘ جب حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ابن عُلَیَّہ کا رقعہ ملا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباََ چنداشعار لکھ کر بھیجے۔ جن کا ترجمہ یہ ہے: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط اے دین کو باز بنا کر مساکین کا مال شکار کرنے والے ! تونے فانی دنیا اور اس کی لذتو ں کو ایسے حیلے کے ذریعے اپنے لیے جائز قرار دیا جس کی وجہ سے دین چلا گیا۔، تُو تو بے وقوفوں کا علاج کرنے والا تھا لیکن اب خود مجنون ہوگیا ۔ کہا ں گئیں تیری وہ روایتوں کی لڑیاں جو ابنِ عون اور ابنِ سیرین کے بارے میں تھیں ؟ کہاں ہیں تیری وہ روایتیں اور باتیں جو سلاطینِ دنیا کے دروازوں کو چھوڑ نے کے بارے میں تھیں ؟ اگر تو یہ کہے کہ مجھے تو مجبور اََقاضی بنا یاگیا ہے تو یہ باطل ہے۔ ‘‘ ابن علیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ رُقعہ ملا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجلسِ قضا سے اُٹھ کرہارون الرشید کے پاس آئے او رکہا: ’’اے امیر المؤمنین! میرے بڑھاپے پر رحم فرمائیں ، اب میں عہدۂ قضاکی ذمہ داری نہیں نبھا سکتا ، برائے کرم مجھ سے یہ ذمہ داری واپس لے لیں ۔‘‘ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا :’’ شاید اس دیوانے (حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ) نے تجھے اس بات پر اُبھاراہے اور تیرے دل میں کھلبلی مچادی ہے ۔‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :’’ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! انہوں نے مجھے بچا لیا ، انہوں نے مجھے بچالیا ،اللّٰہعَزَّوَجَلَّ آپ کو بھی ہر مصیبت سے نجات عطا فرمائے۔ آپ مجھے اس عہدے سے بَر طرف کردیں۔‘‘ چنانچہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اِسْتِعْفٰی قبول کرلیا۔جب حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس واقعہ کا علم ہو ا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن عُلَیَّہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کووہ رقم بھجوادی جو ہر سال بھجوایا کرتے تھے ، ابن علیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نام اسماعیل بن ابراہیم بن اَسَدِی تھا، آپ بصرہ کے رہنے والے تھے۔ ایک روایت یہ ہے کہ شریک بن عبداللہ علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مشورہ طلب کیا کہ کیا میں قضا کا عہد ہ قبول کرلوں ؟ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سختی سے منع فرمادیا ،جب حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے پاس سے واپس چلے گئے تو انہوں نے قاضی کا عہدہ قبول کرلیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خط لکھا کہ مجھے زبردستی قاضی بنایا گیا ہے ، شریک بن عبداللہ علیہ رحمۃ اللہ القوی کا یہ خط پڑھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مذکورہ اشعار لکھ کر بھیجے۔ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر212 دریائے رحمتِ الٰہی کاجوش

    حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ’’ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے مُبَارَک زمانہ میں ایک نوجوان گناہوں بھری زندگی گزار رہا تھا۔ اسی بَد مَسْتی کے عالم میں اسے سخت بیماری لاحق ہوگئی اورمِرگی کے دورے پڑنے لگے۔جب کمزوری حد سے بڑھنے لگی توانتہائی رنج وغم کے عالَم میں بہت ہی خفیف آواز کے ساتھ اپنے رحیم و کریم پروَرَدْگَار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس طرح التجاکی: ’’ اے میرے پروردگارعَزَّوَجَلَّ! میرے گناہوں سے درگزر فرما ، مجھے اس بیماری سے چھٹکارا عطا فرما۔ اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! اب میں کبھی بھی گناہ نہ کرو ں گا ۔‘‘ اس کی دعا قبول ہوئی اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے شفا عطافرمادی ۔لیکن صحتیابی کے بعد وہ دوبارہ گناہوں میں منہمک ہوگیا۔ اور پہلے سے زیادہ نافرمانی کرنے لگا ۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے دوبارہ اس پر بیماری مسلط فرمادی ۔ وہ پھر گڑ گڑانے لگا اور عرض گزار ہوا : ’’اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ! اس مرتبہ مجھے شفا عطا فرمادے اب دو بارہ کوئی گناہ نہ کرو ں گا۔‘‘ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے پھر تندرستی عطا فرمادی۔لیکن اس کی آنکھوں پرپھر غفلت کا پردہ پڑگیااور گناہوں کی طرف مائل ہوکر پہلے سے بھی اورزیادہ نافرمان ہوگیا ۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے پھر بیماری میں مبتلا کردیا۔ اس مرتبہ مرض بہت شدید تھا۔ اس نے بڑی نقاہت بھری غمگین آواز میں خدائے رحمن ورحیم کو پکارا : ’’ اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ! میرے گناہوں کو بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے بیماری سے شفا عطافرما ۔میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ !میں پھر کبھی تیری نافرمانی نہ کرو ں گا۔ ‘‘ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے کرم کیااور پھرصحت عطا فرمادی۔ تندرست ہوتے ہی وہ پھر گناہوں میں مبتلا ہوااور بہت زیادہ نافرمان ہوگیا۔ ایک مرتبہ اچانک اس کی ملاقات حضرتِ سیِّدُناحسن بصری ، ایوب ،مالک بن دینار اور صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ہوئی ۔ جب حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اس نوجوان کو گناہوں میں منہمک دیکھا تو فرمایا۔’’اے نوجوان! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے اس طر ح ڈر گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا ،تویہ مت بھول کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ‘‘ یہ سن کر اس نوجوان نے کہا :’’ اے ابو سعید ! مجھ سے دور رہیے ، بے شک میںتومصیبت وآفت میں ہوں اور دنیا کو خوب ظاہر کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنے رُفقا کی طر ف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!بے شک اس نوجوان کی موت قریب ہے ۔ موت کے وقت اسے بہت پریشانی ہوگی ۔ نزع کی سختیاں اسے بہت تنگ کریں گی۔‘‘ اس واقعہ کے کچھ ہی دن بعد حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی رُفقا کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس گناہ گا ر نوجوان کا بھائی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمتِ بابر کت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہو ا: اے ابو سعید !میں اسی نوجوان کا بھائی ہوں جسے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نصیحت فرمائی تھی ۔ میرے بھائی پر موت کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں ،اس پر نزع کی کیفیت طاری ہے اور بڑی مصیبت میں مبتلا ہے۔ ‘‘ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اپنے رُفقا سے فرمایا:’’ آئو !چل کر دیکھتے ہیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے ساتھ کیا معاملہ فرماتا ہے ؟‘‘ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس کے گھر پہنچے۔ دروازے پردستک دی تواس کی بوڑھی ماں نے پوچھا :’’ کون ہے؟ ‘‘ فرمایا:’’ حسن۔ ‘‘آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آواز سن کر بوڑھی ماں نے کہا :’’ اے ابوسعید! آپ جیسے نیک شخص کو کیا چیز میرے بیٹے کے پاس کھینچ لائی حالانکہ یہ تو ہمیشہ گناہوں کامرتکب رہا اور حرام کاموں میں پڑارہا ؟‘‘ فرمایا:’’ محترمہ آپ ہمیں اپنے بیٹے کے پا س آنے کی اجازت دیں ، بے شک ہمارا پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ گناہوں کو بخشنے والا اور خطائوں کو مٹانے والا ہے ۔‘‘ بوڑھی ماں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی دروازے پر کھڑے ہیں وہ اندر آنا چاہتے ہیں۔ کہا: ’’اے میری پیاری ماں ! حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی یا تو میری عیادت کرنے آئے ہیں یا پھر زَجْر و تَو بیخ کرنے ۔بہر حال آپ دروازہ کھول دیں۔‘‘ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اندر تشریف لائے تو دیکھا کہ نوجوان نزع کی سختیوں میں مبتلا ہے ۔ اس پرنا اُمید ی ورَنج واَلم کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’ اے نوجوان !اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے معافی طلب کر! بے شک وہ رحیم وکریم پرورد گار عَزَّوَجَلَّ تیرے گناہوں کو بخش دے گا۔ ‘‘ نوجوان نے کہا : اے ابو سعید! اب وہ میرے گناہوں کو نہیں بخشے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ اے نوجوان ! کیا تم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے بخل ثابت کرنا چاہتے ہو ؟، وہ پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ تو بہت زیادہ کریم وجوّاد ہے۔اس کی رحمت سے مایوس کیوں ہوتے ہو۔‘‘ کہا :’’ اے ابو سعید !میں نے رحیم وکریم پر وردگارعَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی ،تو اس نے مجھے بیماری میں مبتلا کردیا ۔میں نے شِفاطلب کی تو اس نے شفا عطا فرمائی۔ میں نے پھر نافرمانی کی تو دوبارہ بیماری میں مبتلا ہوگیا ۔ پھر گناہوں سے معافی طلب کی اور صحتیابی کی دعا مانگی۔ اس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ نے مجھے شفا عطا فرمادی ۔میں اسی طر ح گناہ کرتا رہا اوروہ معاف کرتا رہا۔اب پانچویں مرتبہ بیمار ہوا ہوں ، میں نے اس مرتبہ پھر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی اور صحتیابی کے لئے عرض گزار ہوا تو اپنے گھر کے کونے سے یہ غیبی آواز سنی ۔ :’’تیری دعا و مناجات قبول نہیں ہم نے تجھے کئی مرتبہ آزمایا مگر ہر مرتبہ تجھے جھوٹا پایا۔‘‘ نوجوان کی یہ بات سن کر حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اپنے رفقا سے فرمایا :’’ چلو واپس چلتے ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر آپ وہاں سے تشریف لے گئے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جانے کے بعد اس نوجوان نے اپنی والدہ سے کہا : ’’ اے میری ماں !یہ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی تھے شاید یہ میری طر ف سے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ سے ناامید ہوگئے ہیں حالانکہ میرا مولیٰعَزَّوَجَلَّ تو گناہوں کو بخشنے والا اور خطائو ں سے در گزر فرمانے والاہے ۔ وہ اپنے بندوں کی تو بہ ضرور قبول فرماتا ہے۔ اے میری پیار ی ماں ! میری موت کا وقت قریب ہے۔ جب سانس اُکھڑنے لگے اور میرا جسم بے جان ہونے لگے ، میری آنکھیں بند ہوجائیں ، جسم پیلا پڑجائے ، آواز بند ہوجائے اور میری روح دا رُالفناء سے دارُالبقاء کی طر ف پرواز کرنے لگے تو میرا گربیان پکڑ کر مجھے گھسیٹنا، میرا چہرہ خاک آلودکردینا۔ پھر میرے پاک پرورد گا رعَزَّوَجَلَّ سے میرے گناہوں کی معافی طلب کرنا ۔بے شک وہ رحمن ورحیم مولیٰعَزَّوَجَلَّ گناہوں کو بخشنے والا ہے ۔میں اس کی رحمت سے نا امید نہیں۔ اتنا کہہ کر نوجوان خاموش ہوگیا۔ اس کی بوڑھی ماں نے حسبِ وصیت اس کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹا ،اس کے چہر ے پر مٹی ڈالی۔ پھر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس طر ح فریاد کرنے لگی : ’’اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! میں تجھ سے تیری اُس رحمت کا سوال کرتی ہوںجو تو نے حضرتِ سیِّدُنا یعقوب پر نازل فرمائی اور ان کے بیٹے کو ان سے ملادیا۔ اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ !تجھے اسی رحمت کا واسطہ جو تونے حضرتِ سیِّدُنا ایوب پر نازل فرمائی اور ان کی آزمائش کو دور فرمادیا۔ میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ !میرے بیٹے پر بھی رحم فرما۔ اس کے گناہوں سے در گزر فرما کر اسے بھی معاف فرمادے ۔‘‘ جب اس نوجوان کا انتقال ہوگیا تو اس کی والدہ نے ہاتفِ غیبی سے یہ آواز سنی ’’تیرے بیٹے پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے رحم فرمایا اور اس کے تمام گناہ معاف فرما دیئے ‘ ‘ اسی طرح ایک آواز حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کو سنائی دی، کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا :’’ اے ابو سعید ! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اس نوجوان پر رحم فرماکر اس کے گناہوں کو بخش دیا، اب وہ جنتی ہے ۔‘‘ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس نوجوان کے جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے ۔ ؎ رحمت دا دریا الٰہی ہر دم وگدا تیرا جے اک قطرہ بخشے مینوں کم بن جاوے میرا {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر213 محدث اورولی کی ملاقات

    حضرتِ سیِّدُنا سلیمان بن حَرْب فرماتے ہیں :’’ میں حضرتِ سیِّدُنا بِشْربن حَارِث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی زیارت کا بہت مشتاق تھا۔لیکن ابھی تک میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی تھی۔ ایک دن مسجد جاتے ہوئے دیکھا کہ ایک گھنے بالوں والاشخص پرانی سی چاداوڑھے دیوار کی جانب منہ کئے تھیلے سے سوکھی روٹی کے ٹکڑے نکال کر کھا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’کیا تم خُرَاسَان کے رہنے والے ہو۔ ‘‘ کہا:’’ نہیں ،بلکہ بغداد کا رہنے والا ہوں۔ ‘‘ میں نے کہا :’’ تم یہاں کس لئے آئے ہو؟‘‘ کہا:’’ آپ سے حدیث سننے آیا ہوں۔ ‘‘ میں نے کہا:’’تمہارا نام کیا ہے ‘‘ ؟کہا:’’آپ میرا نام پوچھ کرکیا کریں گے۔ ‘‘ میں نے کہا:’’ میری خواہش ہے کہ تمہارا نام جانوں۔‘‘ کہا:’’میں ابو نصر ہوں۔‘‘ میں نے کہا:’’ میں آپ کا نام جاننا چاہتا ہوں کنیت نہیں۔ ‘‘ کہا:’’ میں آپ کو اپنا نام نہیں بتائوں گا کیونکہ اگر میں نے اپنا نام بتادیا تو میں آپ سے حدیث نہیں سن سکوں گا ۔‘‘ میں نے کہا :’’ تم اپنا نام بتا دو، اس کے بعد تم حدیث سننا چاہو تو میں تمہیں ضرور سنائوں گا اور اگر نہ سننا چاہو تو تمہاری مرضی۔‘‘ اس نے کہا: ’’میرا نام ’’بِشربن حَارِث حافی ہے۔‘‘ میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا:’’ شکر ہے اس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ کا جس نے مجھے جیتے جی آپ سے ملاقات کا شرف عطافرمایا۔ میں ان کے قریب بیٹھ کررونے لگا ۔ پھر ہم حدیث کا تکرار کرنے لگے کافی دیر حلقۂ درسِ حدیث جاری رہا ۔ میں نے کہا:’’اب جبکہ آپ ہمارے شہر میں آگئے ہیںتو کیا میرے گھر نہیں چلیں گے؟‘‘ فرمایا:’’ میرے لیے کوئی مستقل رہائش گاہ نہیں۔ میں مسافر ہوں کسی ایک جگہ نہیں ٹھہر سکتا ۔‘‘ یہ سن کرمیں رونے لگا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی رو دیئے ۔پھر سلام کیا اور مجھے روتا چھوڑ کر اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہوگئے ۔‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر214 مراقبہ کی برکت

    حضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْر دَقَّاقعلیہ رحمۃ اللہ الرزاق سے منقول ہے کہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا احمد بن عیسیٰرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہسے سنا کہ’’ایک مرتبہ میںصحراء میں جارہاتھاکہ اچانک چرواہوں کے دس شکاری کتوں پر میری نظر پڑی۔ مجھے دیکھ کر وہ میری جانب لپکے ، جب قریب آئے تو میں نے مراقبہ شروع کردیا(یعنی دل میںخوفِ خدا کاتصورجمایا)۔اچانک ان کے درمیان سے ایک سفیدرنگ کا کتا نکلااور ان کتو ں پر حملہ کر کے مسلسل میرا دفاع کرتا رہا۔جب میں ان کتو ں سے کافی دور ہوگیاتواس سفیدکتے کودیکھنے کے لئے مڑامگروہ کہیں نظر نہ آیا، نہ جانے کہاں غائب ہوگیا ۔میںکتوںسے اس لئے محفوظ رہاکیونکہ میرے ایک استاذ مجھے خوف سے متعلق سکھایا کرتے تھے ،ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا :’’ آج میں تمہیں ایک ایسے خوف کے بارے میں بتائوںگا جس سے تمام امورِ خیر تمہارے لئے جمع ہوجائیں گے۔‘‘ میں نے پوچھا:’’ وہ کیا ہے ؟ ‘‘ فرمایا : ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کاخوف دل میں بٹھا لینا ۔‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر 215 نصیحت بھراجواب

    ابو خلیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :’’ بصرہ میں ابو سلیمان ہاشمی نامی ایک بہت بڑا تاجر رہتاتھا۔ جس کی روز انہ کی آمدنی (۸۰)اسی ہزار درہم تھی ۔ اس نے علماء کرام سے پوچھا کہ:’’بصرہ ‘‘ کی کونسی نیک عورت سے شادی کرنا میرے حق میں بہتر رہے گا۔ علماء کرام نے مشورہ دیتے ہوئے کہا:’’ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاسے شادی کر نا تمہارے حق میں بہت بہترثابت ہو گا۔ تاجر نے فوراََحضرتِ سیِّدَتُنا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کویہ خط بھیجا : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط (اے رابعہ عدویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا!) میری روزانہ کی آمدنی اسّی(80) ہزاردرہم ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کچھ ہی دنوں میں ایک لاکھ درہم ہوجائے گی ۔میں آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ راضی ہوجائیں تومیں ایک لاکھ درہم بطورِ مہر دینے کو تیار ہوں، شادی کے بعد اتنے درہم مزید دوں گا۔اگرآپ راضی ہوں تومجھے اطلاع کردیں ۔ حضرت سیِّدَتُنا رابعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے جب تاجر کاخط پڑھاتو جواب لکھا: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط بے شک دنیا سے کنارہ کشی بد ن اور دل کو تقویت بخشتی ہے ۔ اور دنیا کی طر ف رغبت ،رنج ومَلال کا باعث ہے ۔ میرا یہ خط ملتے ہی آخرت کی تیاری میں کوشش شروع کردو۔ سفرِ آخرت کے لئے زادِ راہ اکٹھا کرنے میں مشغول ہوجائو۔ اپنا مال آخرت کے لئے ذخیرہ کرو۔ اپنے لئے خود وصیت کرنے والے بن جائو۔ اپنے غیر کو وصی نہ بنانا ۔ مسلسل روزے رکھنا ۔ اگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھے تجھ سے دُگنا مال دے دے اور میں اس مال کی وجہ سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی یاد سے لمحہ بھر بھی غافل ہوجائوں تو یہ مجھے ہر گز ہر گز پسند نہیں۔میںاسی حال میں خوش ہوں ۔والسلام ۔ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر216 ایک لُقمہ صدقہ کرنے کی برکت

    حضرتِ سیِّدُناثابت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ :’’ایک عورت کھانا کھا رہی تھی اتنے میں سائل نے صدا لگائی: ’’مجھے کھانا کھلائو،مجھے کھانا کھلائو ۔‘‘ عورت کے پاس صرف ایک لقمہ بچا تھاجیسے ہی اس نے منہ کھولاسائل نے دوبارہ صدالگائی۔ ہمدردو نیک عورت نے وہ لقمہ سائل کو کھلادیا ۔ کچھ عرصہ بعد وہی عورت اپنے ننھے منے بچے کے ساتھ کہیں سفر پر جارہی تھی کہ راستے میں ایک شیر اس کا بچہ چھین کر لے گیا۔ ابھی شیر تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوااور شیر کی طرف بڑھا ، پھر شیر کے دونوں جبڑے پکڑ کے پھاڑ ڈالے اور بچہ ا س کے منہ سے نکال کر عورت کے حوالے کر تے ہوئے کہا :’’ لقمے کے بدلے لقمہ۔ ‘‘ یعنی تو نے جو ایک لقمہ سائل کو کھلایا تھا اس کی بر کت سے تیرا بچہ شیر کا لقمہ بننے سے بچ گیا ۔‘‘ حضرتِ سیِّدُناعِکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’ حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضورنبی ٔ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاکصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ایک عورت کے منہ میں لقمہ تھا اتنے میں سائل نے صدالگائی اس نے وہ لقمہ سائل کو کھلادیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کے ہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی ، جب وہ کچھ بڑا ہوا تو اسے بھیڑیا اٹھا کر لے گیا عورت اس بھیڑیئے کے پیچھے بھاگتی ہوئی پکار رہی تھی ’’ میرا بیٹا ، میرا بیٹا‘‘ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ایک فرشتے کو حکم دیا کہ بھیڑیئے سے بچہ چھین لو (اور اس کی ماں کے حوالے کردو)اور اس سے کہو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تم پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ لقمہ لقمے کے بدلے ہے۔‘‘ ۳۶۲۲ ۳ ۲۷۷ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر217 وعدہ نبھانے کی انوکھی مثال

    اِسحاق بن ابراہیم کے والد سے منقول ہے:’’ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید اور جَعْفَر بن یحییٰ بَرْمَکِی حج کے لئے روانہ ہوئے ،میں بھی ساتھ تھا۔ جب ہم مدینہ منورہ اللّٰہ پہنچے تو جَعْفَربن یحییٰ نے مجھ سے کہا: ’’کیا تم میرے لئے کوئی ایسی لونڈی تلاش کر سکتے ہو جو حسن وجمال اور ذہانت میں بے مثال ،نغمہ گنگنانے میں باکمال اور انتہائی باادب ہو۔‘‘ میں نے کہا:’’ کوشش کرتا ہوں کہ ایسی لونڈی کہیں مل جائے۔‘‘ چنانچہ، میں ایسی صفات کی حامل لونڈی کی تلاش میں لگ گیا۔ بالآخر مجھے معلوم ہوا کہ فلاں شخص کے پاس ایسی لونڈی مل سکتی ہے۔ میں مطلوبہ شخص کے پاس پہنچا ا وراپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ اس نے ایک لو نڈی مجھے دکھائی تو میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ اتنی خوبصورت وباادب لونڈی میں نے آج تک نہ دیکھی تھی۔اس کے چہرے کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ جب اس نے نغمہ گنگنایا توآواز بڑی دلکش وسریلی تھی۔ مجھے وہ بہت پسند آئی میں نے اس کے مالک سے کہا :’’بتائو !اس کی کیا قیمت لوگے ؟‘‘ مالک نے کہا:’’ میں ایک دام بتائوں گا او راس سے ایک پیسہ بھی کم نہ کرو ں گا۔ ‘‘میں نے کہا :’’ بتا ئو۔ ‘‘کہا: ’’چالیس ہزار دینار۔‘‘ میں نے کہا:’’ ٹھیک ہے، یہ لونڈی ہماری ہوگئی تم کچھ انتظار کرو میں رقم کا انتظام کرتا ہوں۔‘‘کہا:’’ ٹھیک ہے یہ لو نڈی تمہاری ہے ، تم رقم لے آئو۔‘‘ چنانچہ، میں جَعْفَربن یحییٰ کے پاس آیا اور کہا:’’جیسی لونڈی آپ کو مطلوب تھی وہ مل گئی ہے اس میں وہ تمام صفات بَدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں جو آپ نے بتائی تھیں۔ وہ انتہائی حسین وجمیل، سریلی آواز کی مالک، بہترین رنگ وروپ والی اور انتہائی باادب ہے ۔ میں سودا طے کر آیا ہوں آپ مزدوروں کو حکم دیں کہ رقم اٹھائیں۔‘‘ مزدوروں نے درہموں کی تھیلیاںاٹھائیں اورمیرے ساتھ لونڈی کے مالک کے پاس آگئے، جَعْفَر بن یحییٰ کچھ دیر بعد اکیلا ہی وہاں پہنچا ۔ جب لونڈی کے حسن وجمال کو دیکھا بہت متعجب ہوا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسے معلوم ہوگیا کہ میں نے اس کے لئے اچھی چیز کا انتخاب کیا ہے ۔ لونڈی نے اپنی دلکش وسریلی آواز میں نغمہ گنگنایا تو جَعْفَر بن یحییٰ بہت خوش ہوااورمجھ سے کہا:’’ تمہارا انتخاب ہمیں بہت پسند آیا۔ جلدی سے لونڈی کی قیمت ادا کردو۔‘‘ میں نے مالک سے کہا:’’ یہ پورے چالیس ( 40) ہزار دینار ہیں ہم نے ان کا وزن کرلیا ہے اگر تم چاہوتو دوبارہ وزن کرلو۔‘‘ اس نے کہا:’’ ہمیں تم پر بھروسہ ہے ۔‘‘ جب لونڈی نے ہماری گفتگو سنی تو اپنے مالک سے کہنے لگی :’’میرے سردار !یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ کیا آپ مجھے بیچنا چاہتے ہیں ؟ ‘‘اس نے کہا :’’ تُو تو جانتی ہے کہ ہم کتنی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ، ابھی ہمارے حالات بہت اچھے ہیں،لیکن حالات بدلتے دیر نہیں لگتی اگر ہم پر تنگی کے دن آگئے تو کیا بنے گا؟ میں تو کسی کے سامنے کبھی بھی ہاتھ نہیں پھیلا سکتا ، لہٰذا حالات کے پیشِ نظر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ تجھے کسی ایسے شخص کے ہاتھوں فروخت کردوں جو تجھے ہمیشہ خوش رکھے اوروہاںتیری تمام خواہشات پوری ہوسکیں۔‘‘ لونڈی نے بڑی غمگین آوازمیں کہا: ’’میرے آقا! خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر آپ کی جگہ میں ہوتی اور میری جگہ آپ ہوتے تو میں تمام دنیا کی دولت کے بدلے بھی آپ کو فروخت نہ کرتی۔کیا آپ کو اپنا وعدہ یا دنہیں؟ آپ نے ہی تو وعدہ کیا تھا کہ کبھی بھی تجھے بیچ کر تیری رقم نہیں کھائو ں گا ۔‘‘ لونڈی کی درد مندانہ گفتگو سن کر مالک کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، اس نے روتے ہوئے کہا :’’ تم سب گواہ ہوجائو کہ یہ لونڈی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطر آزاد ہے اب میں اس سے نکاح کرتا ہوں اور میرا گھر اس کا مہر ہے ۔‘‘جب عقدِ نکاح ہوگیا تو جَعْفَر بن یحییٰ نے مجھ سے کہا:’’ چلو واپس چلتے ہیں۔‘‘ میں نے مزدوروں کو حکم دیا کہ تمام رقم واپس لے چلو۔‘‘جَعْفَر بن یحییٰ نے کہا :’’ نہیں ! خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم !اب اس رقم سے ایک درہم بھی واپس نہیں جائے گا۔‘‘ پھر لونڈی کے مالک کی طرف متوجہ ہو کر کہا:’’ یہ تمام رقم تجھے مُبَارَک ہو ،اس سے اپنی اور اپنی نئی منکوحہ کی ضروریات پوری کرو۔‘‘ یہ کہہ کر جَعْفَر بن یحییٰ نے ہمیں ساتھ لیا اورچالیس ہزار دینار وہیں چھوڑ کر واپس چلاآیا۔

    حکایت نمبر218 جنَّتی محل کی ضمانت

    حضرتِ سیِّدُناسَری بن یحییٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ’’ ایک شخص خُرَاسَان سے بصرہ آیا اور وہیں رہنے لگا۔ اس کے پاس دس ہزار درہم تھے ، جب حج کا پُربہار موسم آیا تو اس خُرَاسَانی نے اپنی زوجہ کے ساتھ حج پر جانے کا ارادہ کیا۔ اب یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ یہ دس ہزار درہم کس کے پاس امانت رکھے جائیں؟۔ لوگوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا: ’’ تم اپنی رقم حبیب ابو محمد عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس رکھ دو ۔‘‘ چنانچہ وہ حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس آیااورکہا : ’’ حضور! میں اور میری اہلیہ حج کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمارے پاس دس ہزار درہم ہیں آپ یہ درہم رکھ لیں اور ہمارے لئے بصرہ میں ایک اچھا ساگھر خرید لیں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے ساری رقم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حوالے کی اور اپنی زوجہ کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہوگیا۔ حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اگر ہم ان دس ہزار درہم کا آٹا خریدلیں اور فقیروں پر صدقہ کردیں تو کیسا رہے گا ؟ لوگوں نے کہا:’’ حضور ! یہ رقم تو اس شخص نے آپ کے پاس اس لئے رکھوائی تھی کہ آپ کوئی مکان اس کے لئے خرید لیں ۔‘‘ارشاد فرمایا: ’’ میںیہ تمام رقم صدقہ کر کے اس شخص کے لئے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے جنت میں گھر خریدوں گا ، اگر وہ اس گھر پر راضی ہوا تو ٹھیک،ورنہ ہم اس کی رقم واپس کردیں گے۔‘‘ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آٹا اور روٹیاں منگواکر فقراء و مساکین میں تقسیم فرمادیں ۔‘‘ جب وہ خُرَاسَانی ،حج کر کے واپس بصرہ آیا تو حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس حاضر ہو کر عرض کی: ’’اے ابو محمدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! میں نے دس ہزاردرہم آپ کے پاس رکھوائے تھے کہ آپ میرے لیے مکان خرید لیں اگر آپ نے مکان نہیں خریدا تو میری رقم مجھے واپس کردیں تاکہ میں خود کوئی مکان خریدلوں ۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا: ’’اے میرے بھائی ! میں نے تیرے لئے ایسا شاندار گھر خریدا ہے جس میں بہت عمدہ محل ، نہریں ،میوے اور پھل دار درخت ہیں۔‘‘ یہ سن کر وہ خُرَاسَانی اپنی زوجہ کے پاس گیا او رکہا:’’ حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ہمارے لئے ہمارے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے جنت میں ایک گھر خرید لیا ہے۔‘‘ اس کی زوجہ نے کہا:’’ ٹھیک ہے یہ تو بہت اچھا ہوا۔ میں امید رکھتی ہوں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے عہد کو پورا فرمائے گا۔لیکن کیا معلوم کہ ہم ان سے پہلے ہی سفر آخرت کی طرف روانہ ہوجائیں ، تم ایسا کرو حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے ایک رقعہ لکھوا لو کہ وہ ہمیں جنت میں ایک گھر دلوانے کے ضامن ہیں ۔‘‘ چنانچہ وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا اور کہا:’’اے ابو محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! آپ نے جو گھر ہمارے لئے خرید ا ہے وہ ہمیں قبول ہے ، آپ ہمارے لئے رقعہ لکھ دیں کہ آپ جنت میں گھر دِلوانے کے ضامن ہیں ۔‘‘ فرمایا: ’’ٹھیک ہے میں رقعہ لکھ دیتا ہوں۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس طرح رقعہ لکھا: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط ’’ یہ ضمانت نامہ ہے اس بات کا کہ حبیب ابو محمد نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے فلاں خُرَاسَانی شخص کے لئے دس ہزار درہم کے عوض جنت میں ایک ایسا گھر خریدا ہے جس میں محلات ، نہریں اور پھلدار درخت ہیں۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمہ کر م پر ہے کہ فلاں شخص کو ایسی صفات سے متصف گھر دے کر حبیب عجمی کو اس کے عہد سے بری کردے۔ ‘‘ خُرَاسَانی وہ رقعہ لے کرخوشی خوشی اپنے گھرآگیا۔ ابھی اس واقعہ کو چالیس(40)دن ہی ہوئے تھے کہ وہ بیمار ہوگیا۔ اس نے اپنی زوجہ کو وصیت کی’’ جب مجھے غسل دے کر کفن پہنایا جائے تو یہ رقعہ میرے کفن میں رکھوا دینا ۔‘‘ حسبِ وصیت رقعہ اس کے کفن میں رکھ دیا گیا ۔ دفن کے بعد لوگو ں کو اس کی قبر پر ایک پرچہ ملا جس پر لکھا تھا: ’’ یہ حبیب عجمی کے لئے اس گھر کا براء ت نامہ ہے جسے اس نے فلاں شخص کے لئے خریدا تھا۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے خُرَاسَانی کو ایسا گھر دے دیا ہے جس کا حبیب عجمی نے عہدکیا تھا ۔‘‘ لوگ یہ پرچہ لے کر حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہ رقعہ پڑھ کر رونے لگے پھر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور فرمایا :’’ یہ میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طر ف سے میرے لئے براء ت نامہ ہے۔‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر219 لاکھ درہم کے بدلے جنتی محل

    حضرتِ سیِّدُنا جَعْفَر بن سلیمان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں : ’’ ایک مرتبہ میں حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار کے ساتھ جار ہا تھا۔ ایک جگہ ایک عظیم الشان محل کی تعمیرجاری تھی۔ ایک حسین و جمیل نوجوان مزدوروں ،معماروں کو تعمیر سے متعلق حکم دے رہا تھا۔ حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار نے مجھ سے فرمایا: ’’اے جَعْفَر (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!دیکھو تو سہی!یہ نوجوان اس محل کی تعمیر میں کتنی دلچسپی لے رہا ہے ۔ میں اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّسے دعا کروں گا کہ وہ اسے دنیوی محبت سے چھٹکارا عطا فرمائے ۔ مجھے امید ہے کہ میرا مولیٰعَزَّوَجَلَّ اس نوجوان کو جنتی نوجوانوں کی صف میں شامل فرمائے گا۔ آئو!ہم اسے نیکی کی دعوت دیتے ہیں ۔‘‘ ہم نوجوان کے پاس آئے اور سلام کیا۔ اس نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام کا جواب دیا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے سامنے ایک ولی ٔکامل کھڑا ہے ۔جب لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفارہیں تو وہ فوراً کھڑا ہوا اور بڑے مؤدِّبا نہ انداز میں عرض گزار ہوا:’’ حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مجھ سے کوئی کام ہے ؟‘‘ فرمایا :’’ اے نوجوان ! تیرا اس محل کی تعمیر پر کتنی رقم خرچ کرنے کا ارادہ ہے ؟‘‘ کہا :’’ ایک لاکھ درہم۔ ‘‘ فرمایا :’’ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم ایک لاکھ درہم مجھے دے دو میں یہ تمام رقم اس کے حق داروں ،یتیموں اور مساکین میں تقسیم کردو ںاور اس کے بدلے ایک ایسے محل کا ضامن بن جائوں جس میں بہترین خدمت گزار، سرخ یا قوت کے قُبّے اور عمدہ قمقے ہونگے ، وہاں کی مِٹی زعفران کی ا ور فر ش مُشک کا ہوگا ، وہ محل تیرے اس محل سے بہت زیادہ وسیع وعالی ہوگا ، اس کے درودِیوار میلے نہ ہونگے ، اسے معماروں اور مزدوروں نے نہیں بنایا بلکہاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا اور وہ محل بن گیا ۔بتا ئو تمہیں یہ سودا منظور ہے ؟ ‘‘ نوجوان نے کہا:’’ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک رات کی مہلت دے دیں ، کل صبح میں آپ کو بتائوں گا کہ میں نے کیا فیصلہ کیا۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا جَعْفَر بن سلیمان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں کہ :’’وہ رات حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار نے بڑی بے چینی کے عالم میں گزاری، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ساری رات اسی نوجوان کے بارے میں سوچتے رہے ، تہجد کے وقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس نوجوان کے لئے خوب دعا کی ۔فجر کی نماز کے بعد ہم دوبارہ اس کے پاس گئے۔ وہ ہما رامنتظر تھا جیسے ہی اس کی نظر حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار پر پڑی وہ اتنہائی خوشی کے عالم میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف لپکا اور بڑی گرم جوشی سے ملاقات کی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ’’اے نوجوان! تونے کیا فیصلہ کیا ؟ اس نے ایک لاکھ درہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا:’’ مجھے جنتی محل کا سودا منظور ہے ،آپ مجھے ضمانت نامہ لکھ دیجئے۔‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قلم ،دوات منگواکر ایک کاغذ پر یہ الفاظ لکھے: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط ’’یہ ضمانت نامہ اس بات کا ہے کہ مالک بن دینارنے فلاں بن فلاں سے یہ اقرار کیاکہ’’ بے شک میں اس بات کا ضامن ہوں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تجھے اس محل کے بدلے ایک ایسا محل عطا فرمائے گا جو ا س سے بد رجہا بہتر ہوگا۔ اور اس کی یہ ،یہ صفات ہونگی۔ میں نے اللّٰہ تبارک وتعالیٰ سے تیرے لئے اس مال کے ذریعے جنت میں ایک ایسا محل خریدا ہے جو عرش کے قریب ہے۔ ‘‘ پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ کا غذ نوجوان کو دیا۔ اورشام سے پہلے پہلے تمام مال فقرا ومساکین میں تقسیم فرمادیا۔ اس واقعہ کے چالیس دن بعد آ پ کو مسجد کی محراب میں ایک پرچہ ملا،دیکھا تو بڑے حیران ہوئے کیونکہ یہ وہی پرچہ تھا جو اس نوجوان کو لکھ کر دیا تھا۔ اس کی دوسری طرف بغیر روشنائی کے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے : ’’ یہ براء ت نامہ ،خدائے بزرگ وبر ترکی جانب سے مالک بن دینار کے لئے ہے۔بے شک ہم نے اس نوجوان کو وہ تمام چیزیں دے دیں ہیں جن کا مالک بن دینار نے اس سے اقرار کیا تھا بلکہ ہم نے اس سے ستر گنا زیادہ دیا۔‘‘ہم وہ رقعہ لے کر اس نوجوان کے گھر گئے تو وہاں سے رونے کی آواز یں آرہی تھیں ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لوگوں سے نوجوان کے بارے میں پوچھا توپتا چلا کہ کل اس نوجوان کا انتقال ہوگیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کی موت کی خبرسن کر بہت غمگین ہوئے پھر غسّال کو بلاکر پوچھا :کیا تو نے اس نوجوان کو غسل دیا؟‘‘ کہا :’’ ہاں۔ ‘‘ فرمایا: ’’نوجوان کی موت کا پورا واقعہ بیان کرو۔ ‘‘ کہا:’’ مرنے سے پہلے اس نوجوان نے مجھ سے کہا تھا کہ جب میں مرجائوں اور غسل کے بعد مجھے کفن دینے لگیں تو یہ پرچہ میرے بدن اور کفن کے درمیان رکھ دینا، میں کل بروز قیامت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے وہ چیز طلب کرو ں گا جس کی ضمانت حضرتِ سیِّدُنا مالک بن د ینارعلیہ رحمۃ اللہ الغفار نے مجھے دی تھی ۔‘‘میں نے حسبِ وصیت پرچہ اس کے کفن میں رکھ دیا، غسّال کی یہ بات سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پرچہ نکالا اور غسّال کو دکھایا ،وہ پکار اٹھا :’’ یہ وہی پرچہ ہے ، قسم ہے اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! میں نے خود اپنے ہاتھوں سے یہ پرچہ اس نوجوان کے کفن میں رکھا تھا۔ ‘‘ یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار زار وقطار رونے لگے۔لوگ بھی رونے لگے۔ اتنے میں ایک نوجوان کھڑا ہوا اور کہا :’’ اے مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار !آپ مجھ سے دو لاکھ درہم لے لیں اور اس نوجوان کی طرح مجھے بھی ضمانت نامہ لکھ دیں۔‘‘ فرمایا:’’ افسوس ! اب وہ وقت گزر چکا ، اب جو ہونا تھا وہ ہوگیا ، اللّٰہ ربُّ العزت جس طر ح چاہتا ہے اپنی مخلوق میں فیصلہ فرماتا ہے ۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا جَعْفَر بن سلیمان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں کہ’’ حضرت سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار کو جب بھی اس نوجوان کا واقعہ یاد آتا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زارو قطار رونے لگتے اور اس کے لئے دعا فرماتے ۔‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا} ( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللّٰہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی ،جنت کی دائمی نعمتوں کے حصول اور باکردار مسلمان بننے کے لئے ’’دعوتِ ا سلامی‘‘ کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے’’ مدنی انعامات ‘‘نامی رسالہ حاصل کر کے اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کیجئے۔اور اپنے اپنے شہروں میں ہونے والے دعوت اسلامی کے ہفتہ وارسنتو ں بھرے اجتماع میںپابندیٔ وقت کے ساتھ شرکت فرما کر خوب خوب سنتوں کی بہاریں لُوٹئے۔ دعوت اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے لیے بے شمار مدنی قافلے شہر بہ شہر،گائوں بہ گائوں سفر کرتے رہتے ہیں،آپ بھی سنتوں بھرا سفر اختیار فرما کراپنی آخرت کے لئے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ آپ اپنی زندگی میں حیرت انگیز طور پر مدنی انقلاب برپا ہوتا دیکھیں گے۔) ؎ اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو !

    حکایت نمبر220 کم سِن بچوںمیں بھی اولیاء اللہ ہوتے ہیں

    حضرتِ سیِّدُنا ابو عبداللہ احمد بن یحییٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ’’ ایک مرتبہ میں حضرتِ سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِیعلیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس بیٹھا تھا۔ایک شخص آیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا:’’ اے ابو محفوظ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!آج ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تم پررحم فرمائے بتائو کیا واقعہ پیش آیا؟‘‘ اس نے اپنا واقعہ کچھ اس طر ح بیان کیا : ’’ میرے گھر والوں نے مجھ سے مچھلی کھانے کی فرمائش کی۔ میں نے بازار جاکر مچھلی خریدی اور اسے گھر پہنچانے کے لئے ایک کمسن مزدوربلایا، اس نے مچھلی اٹھائی اور میرے پیچھے پیچھے چل دیا ۔ راستے میں اذان کی آواز سنائی دی اس مزدور لڑکے نے کہا:’’ چچا جان ! اذان ہو رہی ہے کیا ہم نماز نہ پڑھ لیں؟‘‘ اس کی یہ بات سن کر مجھے ایسا لگا جیسے وہ نو عمر لڑکا مجھے خوابِ غفلت سے بیدار کر رہا ہے۔ میں نے کہا :’’ کیوں نہیں !آئو پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں۔‘‘ اس نے مچھلی وضو خانے پر رکھی اور مسجد میں داخل ہو گیا ۔ہم نے باجماعت نماز ادا کی اور گھر کی طرف چل دیئے۔ گھر پہنچ کر میں نے گھر والوں کواس نیک کمسن مزدور کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگے :’’ اس سے کہو آج دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھالے ۔‘‘ میں نے اسے دعوت دی تو اس نے کہا کہ :’’میرا روزہ ہے۔‘‘میں نے کہا:’’افطاری ہمارے ساتھ کرلینا۔‘‘کہا:’’ ٹھیک ہے ، آپ مجھے مسجد کا راستہ بتادیں۔‘‘ میں نے اسے مسجد پہنچا دیاوہ مغرب تک مسجد ہی میں رہا ۔ نماز کے بعدمیں نے کہا:’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے، آئو گھر چلتے ہیں۔ اس نے کہا :’’ کیا ہم عشاء کی نماز پڑھ کر نہ چلیں؟‘‘ میں نے اپنے دل میں کہا ـ:’’ اس کی بات مان لینے ہی میں بھلائی ہے ۔‘‘ چنانچہ مَیں مسجد میں رُک گیا ، نمازِ عشاء کے بعد ہم گھر آئے۔ ہمارے گھر میں تین کمرے تھے ایک میں، مَیں اورمیری زوجہ رہتے تھے۔ دوسرے کمرے میں ایک پیدائشی معذور لڑکی رہتی تھی جو چلنے پھرنے سے بالکل عاجز تھی اور اسی حالت میں بیس سال گزر چکے تھے۔ تیسرا کمرہ مہمانوں کے لئے تھا ، ہم سب نے کھاناکھایا اور اپنے اپنے کمروں میں سوگئے نوعمر نیک لڑکے کو ہم نے مہمانوں والے کمرے میں سلادیا ۔ رات کے آخری پہر دروازے پر کسی نے دستک دی، میں نے کہا:’’ کون ہے؟۔‘‘ اس نے اپنا نام بتا کر کہا: ’’میں فلاں لڑکی ہوں۔‘‘میں نے کہا :’’ وہ تو چلنے پھرنے سے بالکل عاجز ہے ، گویا وہ تو گوشت کے ٹکڑے کی طر ح ہے اور ہر وقت اپنے کمرے ہی میں رہتی ہے تم وہ کیسے ہوسکتی ہو ؟‘‘ اس نے کہا:’’ میں وہی ہوں تم دروازہ تو کھولو۔‘‘ ہم نے دروازہ کھولا تو واقعی ہمارے سامنے وہی لڑکی موجود تھی۔ میں نے کہا:’’ تم ٹھیک کیسے ہوگئی ہو؟ ۔‘‘ کہا:’’میں نے تمہاری آوازیں سنیں تھیں کہ آج ہمارے ہاں ایک نیک مہمان آیا ہے ، میرے دل میں خیال آیا کہ اس نیک مہمان کے وسیلے سے دعا کروں شاید اسی کے صدقے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھے شفاء عطا فرمادے۔‘‘ لہٰذامیں نے بارگاہِ خداوندی میں اس طر ح دعا کی:’’ اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ! اس مہمان کے صدقے بیماری کو زائل کردے اور مجھے تندرستی عطا فرما۔‘‘یہ دعا کرتے ہی میں فورا ٹھیک ہوگئی اوراللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے حکم سے میرے ہاتھ پائوں میں حرکت شرو ع ہوگئی ، دیکھو میں تمہارے سامنے صحیح وسالم موجود ہوں ۔ میں خود چل کر یہاں آئی ہوں ۔‘‘ لڑکی کی یہ بات سن کر میں فوراً اس کمرے کی طرف گیا جس میں وہ نوعمر مزدور لڑکا تھا۔ دیکھا توکمرہ بالکل خالی تھا اس میں کوئی بھی نہیں ۔ میں باہردروازے کی طرف گیا تو وہ بھی بند تھا ، نجانے ہمارا نوعمر مہمان کہا ں غائب ہوگیا ۔ حضرتِ سیِّدُنا ابو عبداللہ احمد بن یحییٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ’’حضرتِ سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِیعلیہ رحمۃ اللہ القوی نے یہ واقعہ سن کر مجھ سے فرمایا : ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے اولیاء میں کم عمر بچے بھی ہوتے ہیں اور بڑی عمروالے بھی وہ لڑکا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ولی تھا۔ ‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر221مرشِدپرمریدکاحال پوشیدہ نہیں ہوتا

    حضرتِ سیِّدُنا ابو عمر و بن عَلْوَان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں :’’ایک مرتبہ میں کسی کام سے ’’رَحْبَہ‘‘ کے بازار میں گیا ۔ دیکھا کہ کچھ لوگ جنازہ اٹھائے جارہے ہیں ۔ میں نماز جنازہ کے ارادے سے ان کے ساتھ ہولیا ۔ تدفین کے بعدجب واپس ہوا توبِلاارادہ ایک حسین و جمیل عورت پر نظر پڑگئی اور میں اسے دیکھنے لگاپھر نادِم ہوکر’’ ‘ ‘ کہتے ہوئے نگاہ پھیر لی ۔اور اللّٰہرب ا لعزت سے اپنے اس فعل کی معافی چاہتے ہوئے گھر چلا آیا ۔ گھر پہنچا توبوڑھی خادمہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا :’’ یہ آپ کا چہرہ سیاہ کیوں ہوگیا؟‘‘ میں نے گھبراکر آئینہ دیکھا تو واقعی میرا چہر ہ سیاہ ہوچکا تھا ۔ میں سوچنے لگا کہ آخر ایسا کونسا گناہ سرزد ہوگیا جس کی نحوست سے مجھ پر یہ مصیبت آ پڑی؟۔ پھر خیال آیا کہ اس غیرعورت کو دیکھنے کی وجہ سے اس عذاب میں گرفتار ہوا ہوں ۔چنانچہ میں چالیس روز تک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے معافی مانگتا رہا۔ پھر خیال آیا کہ مجھے اپنے مرشدِ کا مل حضرتِ سیِّدُناجنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہئے۔ چنانچہ ،میں عروس البلاد ’’بغداد شریف‘‘کی جانب چل دیا۔ جب مرشدِ کامل کے آستانہ عالیہ پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو شیخِ کامل حضر تِ سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کی آواز سنائی دی : ’’اے ابو عمر ! اندر آجائو تم نے ’’رَحْبَہ ‘‘میں گناہ کیا ،اور ہم یہاں بغداد میں تمہارے لئے استغفار کر رہے ہیں۔‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر222 اچھے اشعاربخشش کاذریعہ بن گئے

    حضرتِ سیِّدُنا محمد بن نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :’’ ابونَوَّاسعلیہ رحمۃ اللہ الرزاق میرے قریبی دوست تھے ہم ایک ہی علاقے میں رہاکرتے تھے۔ پھر وہ دوسرے شہر چلے گئے اور آخری عمر تک ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ ایک دن اطلاع ملی کہ ابونوَّاس علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس خبر نے مجھے بہت غمگین کیا، میں بہت زیادہ پر یشان تھا،اسی حال میں مجھے اونگھ آگئی ۔ میں نے ابونَوَّاس علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کو دیکھاتو پکار کر کہا:’’ابو نو اس ؟‘‘ انہوں نے کہا:’’ یہاں کُنیَّت نہیں۔‘‘ میں نے کہا :’’آپ حسن بن ہانی ہیں؟ ‘‘کہا :’’ہاں۔‘‘ میں نے پوچھا:’’ اللّٰہ ؟‘‘ (یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟) کہا : ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے مجھے میرے ان چند اشعار کی وجہ سے بخش دیا جو میں نے اپنی موت سے کچھ دیر قبل کہے تھے ۔‘‘ حضرت سیِّدُنا محمد بن نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :’’پھر میری آنکھ کھل گئی، میں فوراً ان کے گھر پہنچا۔ جب اہلِ خانہ نے مجھے دیکھا تو ان کا غم تازہ ہوگیا اوروہ بِلَک بِلَک کررونے لگے۔ میں نے انہیں تسلی دی اور پوچھا:’’ کیا میرے بھائی ابو نواس علیہ رحمۃ اللہ الرزاق نے انتقال سے قبل کچھ اشعار لکھے تھے ؟‘‘ انہو ں نے کہا:’’ہمیں نہیں معلوم، ہاں! اتنا ضرور ہے کہ موت سے قبل انہوں نے قلم، دوات اور ورق منگوائے تھے ۔ میں نے کہا :’’ مجھے ان کی خوابگاہ (یعنی آرام کے کمرہ)میں جانے کی اجازت دو تاکہ ان اوراق کو ڈھونڈ سکوں۔‘‘ گھر والوں نے مجھے ان کی خوابگاہ تک پہنچا یا ۔میں نے تکیہ ہٹاکر دیکھا تو وہاں کوئی چیز نہ ملی پھر دوبارہ تکیہ ہٹایا تو وہاں ایک پرچہ ملا جس پر یہ اشعار لکھے ہوئے تھے : ترجمہ:(۱)…اے میرے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ! بے شک میرے گناہ بے شمارہوگئے ،مگرمیں جانتاہوں کہ تیرا عفووکرم سب سے بڑھ کر ہے۔ (۲)…اگرنیک لوگ ہی تجھ سے امید رکھ سکتے ہیں تو پھرمجرم کسے پکاریں ؟اور کس سے امیدرکھیں؟۔ (۳)…اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ !میں تیرے حکم کے مطابق گریہ وزاری کرتے ہوئے تیری بارگاہ میں فریاد کرتاہوں اگرتُونے مجھے خالی ہاتھ لوٹا دیاتو پھر کون رحم کر ے گا۔؟ (۴)…تیری بارگاہ میں باریابی کے لئے میرے پاس امید اور تیرے عفووکرم کے سوا کوئی وسیلہ نہیں پھر یہ کہ میں تجھے ماننے والا ہوں ۔ (پیارے اسلامی بھائیو :اس حکایت میں ان شعراء کرام کے لئے مسرت کاسامان ہے جوقرآن وسنت کی روشنی میںاچھے اشعار(یعنی حمدالہٰی ،ثنائے مصطفٰے اور نصیحت بھرے اشعار) لکھتے ہیں۔اوریقیناایسوں کے لکھے ہوئے اشعار پڑھنے اورسننے سے خوفِ خدا اورعشقِ مصطفٰے کی لازوال دولت ملتی ،حفاظتِ ایمان کے لئے کُڑھنے کا ذہن بنتااورنیک بننے کاجذبہ ملتاہے۔اس کی ایک مثال شیخ طریقت، امیرِاہلسنّت بانی ٔدعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطارؔقادری دامت برکاتہم العالیہ کے لکھے ہوئے کلام بھی ہیںجودعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے ’’مغیلانِ مدینہ‘‘اور’’ارمغانِ مدینہ‘‘کے نام سے ہدیۃً خریدے جاسکتے ہیں۔) {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    حکایت نمبر223 نیک لوگوں کی نظرمیں عہدے کی حیثیت

    کہتے ہیں کہ’’ مجھے میرے شیخ نے بتایا:’’ایک مرتبہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا وَکِیْع علیہ رحمۃ اللہ القوی سے پوچھا:’’ حضور ! کچھ عرصہ قبل خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے آپ تینوں یعنی وکیع ، ابن ادریس اور حفص بن غیاث رحمہم اللہ تعالیٰ کو شاہی دربار میں کیوں بلوایا تھا ؟‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:’’تم نے مجھ سے وہ سوال کیاہے جوتم سے پہلے کسی نے نہیں کیا،چلو میں تمہیں سارا واقعہ بتاتاہوں:’’ہوایوں کہ امیرالمؤمنین ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے ہم تینوں کو اپنے دربارمیں بلا کر شاہی مسندوں پربٹھایا،پھرمجھے اپنے پاس بلایااورکہا:’’ اے وکیع !‘‘ میں نے کہا :’’ امیر المؤمنین !وکیع حاضر ہے۔ ‘‘ خلیفہ نے کہا :’’ تمہارے شہر والوں نے مجھ سے ایک قاضی طلب کیا ہے ، انہوں نے مجھے جن لوگوں کے نام دیئے ان میں تمہارا نام بھی ہے ، میں چاہتا ہوں کہ تجھے اپنی امانت اور رعایا کی بھلائی کے کاموں میں معاون بنا لوں ۔ میں تجھے قاضی بناتا ہوں ، جائو! اور اپنا عہد ہ سنبھالو۔ ‘ ‘ میں نے کہا:’’ اے امیر المؤمنین! میری ایک آنکھ کی بینائی ختم ہوچکی ہے او ردوسری سے بہت کم دکھائی دیتا ہے اب میری عمر بھی کافی ہوگئی ہے، لہٰذا مجھے اس عہدے سے معافی دیں۔ ‘‘ امیر المؤمنین نے کہا : ’’ تم یہ عہدہ قبول کر لو۔‘‘ میں نے کہا : ’’ اے امیر ا لمؤمنین! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر میں اپنے بیان میں سچا ہوں تو چاہئے کہ میرا عذر قبول کیا جائے اور مجھے یہ عہدہ نہ دیا جائے۔ اگر جھوٹا ہوں تو جھوٹا شخص اس لائق نہیں کہ اسے قاضی بنایا جائے ۔‘‘ خلیفہ نے جھنجھلا کر کہا :’’ جائو! یہا ں سے چلے جائو ۔‘‘میں نے موقع غنیمت جانا اور فوراً چلا آیا۔ پھر عبداللہ بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ا پنے پاس بلایا ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بہت دھیمی آواز میں خلیفہ کو سلام کیا۔ خلیفہ نے کہا :’’ کیا تم جانتے ہو کہ ہم نے تمہیں کیوں بلایا ؟‘‘ فرمایا :’’ نہیں ۔‘‘خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجیدنے کہا:’’ تمہارے شہر والوں نے مجھ سے ایک قاضی طلب کیا ہے اور جن لوگوں کے نام بھجوائے ہیں ان میں تمہارا نام بھی ہے ۔ میں تمہیں تمہارے شہر کا قاضی بناتا ہوں ،جائو !اور اپنا عہدہ سنبھالو۔‘‘حضرت عبداللہ بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا:’’ میں اس عہدہ کے لائق نہیں۔‘‘ خلیفہ نے غضبناک ہوکر کہا : ’’چلے جائو!میں تمہاراچہرہ بھی نہیں دیکھناچاہتا ۔‘‘ خلیفہ کی یہ بات سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی انتہائی جرأت مندی سے جواب دیا ، اے خلیفہ میر ی بھی یہ خواہش ہے کہ میں تمہاراچہرہ نہ دیکھو ں۔‘‘ اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے چلے آئے ۔ پھر حفص بن غیاث کو بلایا گیا تو انہوں نے یہ عہدہ قبول کرلیا۔پھر ہم تینوں واپس اپنے شہر کی طرف چل دیئے ۔اتنے میں ایک خادم تین تھیلیاں لے کر آیا ہر تھیلی میں پانچ پانچ ہزار درہم تھے ۔ خادم نے تھیلیاں ہمیں دیتے ہو ئے کہا:’’ امیر المؤمنین نے آپ تینوں کو سلام کہا ہے اور کہاہے کہ’’ آپ کویہاں آنے تک سفر کی صعوبتیں برداشت کرناپڑیں،یہ کچھ رقم لے لوتاکہ دورانِ سفر کام آسکے۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا وَکِیْع علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’میں نے تھیلی واپس کرتے ہوئے کہا:’’میری طرف سے امیر المؤمنین کوسلام کہنااورکہناکہ آپ کا ہدیہ ہم تک پہنچ چکا ہے ، فی الحال مجھے ان درہموں کی ضرورت نہیں ۔ آپ کی رعایا میں جو محتاج ہو یہ رقم اسے دے دیجئے ۔‘‘جب خادم نے درہموں کی تھیلی عبداللہ بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دی تو آپ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک زور دار چیخ ماری اور کہا:’’یہاں سے چلے جائو ، مجھے یہ رقم نہیں چاہئے ، پھر حفص بن غیاث کو تھیلی دی گئی تو انہوں نے قبول کرلی۔ خادم نے ایک رقعہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیاجس میں یہ کلمات لکھے تھے: ’’ اے عبداللہ بن ادریس !اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھے اور آپ کو سلامت رکھے ، ہم نے سوال کیا کہ ہمارے کاموں میں ہمارے معاون بن جائو لیکن آپ نے انکا ر کیا ، پھرہم نے مال بھیجوایاآپ نے وہ بھی قبول نہ کیا ، میری ایک بات ضرور مان لینا ، جب تمہارے پاس میرا بیٹا مامون آئے تو اسے علمِ حدیث سکھانا۔‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رقعہ پڑھ کر خادم سے کہا:’’ خلیفہ سے کہہ دینا کہ اگر تمہارا لڑکا سب لوگو ں کے ساتھ مل کرپڑھنا چاہے تو اسے بھیج دیں، میں علیحدہ سے ا سے نہیں پڑھاؤں گا۔ اگر دوسرے طالب علموں کے ساتھ مل کر پڑھے گا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اسے ضرور علمِ حدیث سکھائوںگا ۔‘‘ پھر ہم وہاں سے چل دیئے ایک جگہ نماز کے لئے رکے تو سپاہی کوسوتے ہوئے دیکھا جو سردی سے ٹھٹھرا جارہا تھا۔میں نے اپنی چادر اس پر ڈالتے ہوئے کہا :’’ جب تک ہم وضو و نماز سے فراغت پائیں تب تک میری یہ چادر اس کے جسم کو سردی سے بچائے رکھے گی۔‘‘ اتنے میں حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی آگئے انہوں نے حفص بن غیاث کو مخاطب کر کے کہا: ’’ اے حفص ! اپنے شہر سے چلتے وقت جب تم اپنی داڑھی کو مہندی لگاکر حمام میں گئے تھے تو میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ عنقریب تمہیں قاضی کا عہد ہ پیش کیا جائے گا اور تم اسے قبول کر لوگے ،دیکھو ایسا ہی ہوا ۔ خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اب مرتے دم تک میں تم سے کلام نہیں کرو ںگا ۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا وَکِیْع علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ:’’پھر واقعی حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مرتے دم تک حفص بن غیاث سے گفتگو نہ کی ۔‘‘ {اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا}

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن