Wasail e Bakhshish
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Wasail e Bakhshish | وسائل بخشش

    book_icon
    وسائل بخشش
                
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    ضَروری وَضاحت

    اَلحمدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ’’ وسائلِ بخشش ‘‘ کا ایک ایک مِصرعہ فنّی تفتیش سے گزارنے کی ترکیب بنی اور یہ کام ماہِ میلاد ربیع الاوّل شریف ۱۴۳۵ ھ (جنوری2014ء) میں مکمَّل ہوا ، بعض اشعار یا مصرعے مُتبادِل لکھے یا لکھوائے اور کچھ حَذف بھی کرنے پڑے۔ نظرِ ثانی شدہ نسخے کی پہلی بار اشاعت جمادَی الاخریٰ ۱۴۳۵ھ میں کی جارہی ہے۔ اگر چِہ تفتیش میں نہایت دقّتِ نظر سے کام لیا گیا ہے تاہم یہ کلام خطاکار بندے کاہے اور اِس میں اَغلاط کا امکان ہَنُو ز موجود۔ اگر عاشقانِ رسول کسی شِعر میں کوئی شَرْعی یا فنّی غَلَطی پائیں تو اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ مَع نام، پتا اور فون نمبر مُدَلَّل طورپر مجھے مُطّلع فرما کر ثوابِ آخِرت کے حقدار بنیں ۔ عاشقانِ رسول کی خدمت میں مَدَنی التجا ہے کہ وہ’’وسائلِ بخشش‘‘ (مُرَمَّم) ہی کو مِعیار بنائیں اور میرے قبل ازیں مطبوعہ کلام میں سے صِرْف وُہی شِعر پڑھیں جو اِس نسخے کے مطابِق ہو۔ ایک چُپ سو۱۰۰ سُکھ غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب ۱۸ ربیع الآخر ۱۴۳۵ھ 2014-02-19 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    کلام تلاش کرنے کا طریقہ

    ’’وسائلِ بخشش‘‘ کو حمد ومناجات، نعت و استغاثات، مناقب، سلام اور متفر ّ ق کلام کے عنوانات کے تحت حروفِ تہجّی (ا۔ب۔پ وغیرہ ) کے مطابق مُرَتّب کیا گیا ہے لہٰذا اس میں کسی بھی کلام کو اُس کے پہلے شعر(مطلع)کے پہلے مصرعے کے آخری حرف کودیکھتے ہوئے تلاش کیا جاسکتا ہے ۔

    خود پسندی کی تعریف:

    اپنے کمال (مثلاً عِلم یا عمل یا مال) کو اپنی طرف نسبت کرنااور اس بات کا خوف نہ ہونا کہ یہ چِھن جائے گا۔گویا خود پسند شخص نعمت کو مُنْعِمِ حقیقی (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ ) کی طرف منسوب کرنا ہی بھول جاتا ہے ۔ (یعنی ملی ہوئی نعمت مثلاً صِحّت یاحسن و جمال یا دولت یا ذِہانت یا خوش الحانی یا منصب وغیرہ کو اپنا کارنامہ سمجھ بیٹھنا اوریہ بھول جانا کہ سب ربُّ العزّت ہی کی عنایت ہے۔) (احیاء العلوم، ج ۳، ص، ۴۵۴ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط تِلاوت کی نیّتیں : قاری صاحب اِس طرح نیت کریں اور کروائیں : اََلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمیْنَ ط وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن ط فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: نِیَّۃُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ۔ یعنی ’’مسلمان کی نیت اُس کے عمل سے بہترہے۔‘‘میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اچھی نیت نہ ہو تو عمل کا ثواب نہیں ملتا اِس لئے میں نیت کرتا ہوں کہ حُصُولِ ثواب کیلئے اللّٰہورسول عزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی اطاعت کرتے ہوئے تلاوت کروں گا ۔آپ سبھی تلاوتِ قراٰنِ کریم کی تعظیم کی نیت سے جب تک ہو سکے نگاہیں نیچی کئے دوزانو بیٹھئے اور مزید یہ بھی نیت کیجئے کہ رِضا ئے الٰہی کیلئے حکمِ قراٰنی پر عمل کرتے ہوئے کان لگا کر خوب توجُّہ کے ساتھ اور اپنے اختیارمیں ہوااور دل میں اخلاص پایا تو حکمِ حدیث پر عمل کرتے ہوئے اشکباری کرتے ہوئے تلاوت سنوں گا۔ صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد مُناجات کی نِیّتیں :مُناجات گو اِس طرح نیت کریں اور کروائیں : اََلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمیْنَ ط وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن ط فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: نِیَّۃُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ۔ یعنی ’’مسلمان کی نیت اُس کے عمل سے بہترہے۔‘‘ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اچھی نیت نہ ہو توعمل کاثواب نہیں ملتا اِس لئے میں نیت کرتا ہوں ، اللّٰہورسول عزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی اطاعت کرتے ہوئے ، حُصُول ِ ثواب کیلئے قاضِیُّ الحاجات عزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں مُناجات یعنی دُعا کروں گا ، آپ بھی نیت کیجئے کہ میں رِضائے الٰہی کیلئے آدابِ دُعابجا لاتے ہوئے جہاں تک ہو سکا نیچی نگاہیں کئے دوزانو بیٹھ کر اور اگر دل میں خلوص پایا توروتے ہوئے یا اِخلاص کے ساتھ رونے والوں سے مُشابَہَت کی نیّت سے رونے جیسی صورت بنا کر یکسوئی کے ساتھ دُعا میں شریک رہوں گااورہر دُعائیہ شِعرکے ختم پر ٰ امین کہوں گا ۔ صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد نعت شریف کی نیّتیں : نعت خواں ا س طرح نیت کریں اور کروائیں : اََلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمیْنَ ط وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن ط فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: نِیَّۃُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ ۔ یعنی ’’مسلمان کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہے ۔‘‘میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اچھی نیت نہ ہو تو عمل کا ثواب نہیں ملتا اِس لئے میں نیت کرتا ہوں ، اللّٰہ عزَّوَجَلَّ کی رِضا پانے اور ثواب کمانے کیلئے نعت شریف پڑھوں گا، آپ بھی نیت کیجئے کہ حُصُولِ ثواب کی خاطر جتنا ہو سکاتعظیم مصطَفٰے کیلئے نگاہیں نیچی کئے دوزانو بیٹھ کر، گنبد خضرا کا تصور باندھ کر نہایت توجُّہ کے ساتھ اپنے بس میں ہوا اور دل میں خلوص پایا تو عشقِ رسول میں ڈوب کر روتے ہوئے یا اِخلاص کے ساتھ رونے والوں سے مُشابَہَت کی نیت سے رونے جیسی صورت بنائے نعت شریف سنوں گا۔ صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد مُناجاتوں ،نعتوں اور منقبتوں کا مُعَطَّر مُعَطَّرمَدَنی گلدستہ وسائلِ بخشش(مُرَمَّم) مُؤَلِّف: شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّارؔ قادِری رضوی دامت برکاتہم العالیہ ناشِر: مکتبۃُ المد ینہ بابُ المدینہ کراچی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط نام کتاب : وسائلِ بخشش (مُرَمَّم) مؤلّف : شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر قادِری رضوی دامت برکاتہم العالیہ سالِ اشاعت: صفرالمظفّر۱۴۳۲ھ،جنوری 2011؁ء ناشر: مکتبۃ المدینہ،عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ،بابُ المدینہ کراچی۔ مکتبۃ المدینہ کی سات شاخیں : (1) مکتبۃ المدینہ شہید مسجد کھارا در باب المدینہ کراچی (2) مکتبۃ المدینہ دربار مارکیٹ گنج بخش روڈ مرکزالاولیاء لاہور (3) مکتبۃ المدینہ اصغر مال روڈ نزد عید گاہ ،راولپنڈی (4) مکتبۃ المدینہ امین پور بازار ، سردار آباد (فیصل آباد) (5) مکتبۃ المدینہ نزد پیپل والی مسجد اندرون بوہڑ گیٹ مدینۃ الاولیاء ملتان (6) مکتبۃ المدینہ فیضانِ مدینہ آفندی ٹاؤن حیدر آباد (7) مکتبۃ المدینہ چوک شہیداں میر پورکشمیر مَدَنی التجاء : کسی اور کو یہ کتاب چھاپنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط اِنتِساب حسّانُ الھِند امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن اور ہر اُس نعت گو اور نعت خواں اسلامی بھائی اور اسلامی بہن کے نام جو حُبِّ جاہ و مال سے بے نیاز ہو کر محض خدا ومصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہٖ وسلَّم کی رضا کیلئے ثناخوانی کرے۔ ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبولِ سرکار ہے تمنّا نہ شاعری کی ہَوَس نہ پرواروی تھی کیاکیسے قافیے تھے (حدائق بخشش) ایک چُپ سو۱۰۰ سُکھ غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب ۲۹صفرالمظفر ۱۴۳۱ھ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط کچھ وسائلِ بخشش کے بارے میں ......... میرے آقا اعلٰی حضرت،اِمامِ اَہل سنّت،عاشقِ ماہِ نُبُوَّت، ولیِ نِعمت،عظیمُ البَرَکت، عظیمُ المَرْتَبت،پروانۂ شمعِ رِسالت، امامِ عشق ومَحَبَّت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِ سنّت ، ماحِیِ بِدعت، پیکرِ فُنُون وحکمت، عالِمِ شَرِیْعَت ، پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر و بَرَکت،حَسَّانُ الھِند، حضرتِ علّامہ مولانا مفتی الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن جنہیں 55سے زائد عُلُوم وفُنُون پرعُبور حاصل تھا ،بَہُت بڑے مُفتی ، مُحدِّث ،مُفَسِّر اورفَقِیہ ہونے کے ساتھ ساتھ نعتیہ شاعِری میں بھی کمال درجہ مَہارت رکھتے تھے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :’’ حقیقۃً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے جس کو لو گ آسان سمجھتے ہیں ، اِس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے ، اگر بڑھتا ہے تو اُلوہِیَّت میں پہنچا جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص (یعنی شان میں کمی یاگستاخی)ہوتی ہے، البتَّہ’’ حمد ‘‘آسان ہے کہ اِس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے ۔غرض’’ حمد‘‘ میں ایک جانب اصلاً حد نہیں اور ’’ نعت شریف ‘‘میں دونوں جانِب سخت حدبندی ہے۔‘‘(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ص۲۲۷مکتبۃ المدینہ)اَلحمدُللّٰہ عَزَّوَجَلّ بَفَیضِ رضا سگِ مدینہ عفی عنہ کے قلم سے بھی گاہے بگاہے حمدیہ،نعتیہ اور مَنقبتیہ اشعار کاصُدور ہوتارہا ہے ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہکی تعلیمات کی برکات ہیں کہ میں نے اپنا سارا دیوان عُلَمائے کرام(کثَّرھُمُ اللّٰہُ تعالٰی) کی خدمت میں پیش کر کے شَرعی تفتیش کروانے کی سعادت حاصِل کر لی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلّ اِس’’ دیوان ‘‘کی خُصوصیَّت بلکہ اِنفرادیت میں سے یہ بھی ہے کہ پڑھنے والوں کوسَہولت فراہم کر کے ثواب کمانے کی نیَّت سے الفاظ پر جا بجا اِعراب لگائے گئے ہیں نیز کتاب کے ابتِدائی صَفحات پر موجود ’’ حلِّ لُغات‘‘ میں مشکل الفاظ کے وہ معانی پیش کر نے کی سعی کی گئی ہے جو کہ اشعار میں مُراد لئے گئے ہیں علاوہ ازیں بعض کلاموں کا پس منظر بھی اوربعض جگہ وَضاحتی حَواشی بھی شامل کئے گئے ہیں ۔ ایک عجیب بات کا بارہامُشاہَدہ ہوا ہے کہ نعتیہ اشعار بِالخصوص مَقْطَع(یعنی آخِری شِعر جس میں شاعر اپنا تخلُّص شامِل کرتا ہے اسے)پڑھتے وقت بعض نعت خواں اپنی مرضی سے ترمِیم و اِضافہ کر لیتے ہیں اگر شاعر کبھی اپنے کلام میں کسی کو تصرُّف کرتا ہوا پاتا ہے تو اس سے اکثر اُس کی دل آزاری ہوتی ہے لہٰذا ایسوں کی خدمت میں مَدَنی التجا ہے کہ اگر ترمیم کرنا ضَروری ہی ہو تو پہلے شاعِر کااپنا لکھا ہوا شعرپڑھئے پھر ترمیم کرکے پڑھ لیجئے جبکہ وہ ترمیم شَرْعی اورفَنّی دونوں طرح سے دُرُست بھی ہو، اگر کسی کے کلام میں یقینی طور پر شَرعی غَلَطی ہو تو دُرست کر کے ہی پڑھئے کہ غیر شَرعی الفاظ والا کلام بِلامَصلَحتِ شَرعی پڑھنا سننا ناجائز ہے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہکے نعتیہ دیوان ’’حدائقِ بخشش ‘‘ کی مناسَبَت سے حُصُولِ بَرَکت کی خاطر اپنے نعتیہ دیوان کا نام ’’وسائلِ بخشش ‘‘رکھاہے۔ دعائے عطّار! یا ربِّ مصطَفٰے !’’ وسائلِ بخشش ‘‘کو قَبولیت کی سعادت عنایت کرتے ہوئے اس میں سے کلام پڑھنے سننے والے اور والی نیز مجھ گنہگاروں کے سردار کے واسطے بھی عشقِ رسول کا خزانہ پانے اور بے حساب بخشے جانے کا وسیلہ بنا۔یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! میری اورساری امّت کی مغفرت فرما۔ ایک چُپ سو۱۰۰ سُکھ غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب ۱۸ ربیع الآخر ۱۴۳۵ھ 2014-02-19 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    نعت خواں اور نذرانہ

    نعتِ مصطَفٰے پڑھنا سننا یقینا نہایت عمدہ عبادت ہے مگر قبولیّت کی کنجی اِخلاص ہے، نعت شریف پڑھنے پر اجرت لینا دینا حرام اورجہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔ برائے کرم ! سگِ مدینہعُفِیَ عَنہُ کے مکتوب کے صرف (36صفحات) مکمّل پڑھ لیجئے اِن شاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ قلب میں اِخلاص کا چشمہ مَوجزن ہو گا ۔

    دُرُود شریف کی فضیلت

    اللّٰہ کے مَحبوب ، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکا فرمانِ عَظَمت نشان ہے:جس نے دن اور رات میں میری طرف شوق و مَحَبَّت کی وجہ سے تین تین مرتبہ دُرودِ پاک پڑھا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ وہ اُس کے اُس دن اور رات کے گُناہ بخش دے۔ (الترغیب و الترھیب ج۲ص ۳۲۸ حدیث۲۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت) صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد بِسْمِ اﷲِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم ط سگِ مدینہ محمد الیاس عطّار قادری رضوی کی جانب سے بُلبلِ مدینہ ، میرے میٹھے میٹھے مَدَنی بیٹے............ سَلَّمَہُ الْباری کی خدمت میں حضرت سیِّدُناحسّان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی مُعَنبریں جَبِیں کو چومتا ہوا، جھومتا ہوا مشکبار و پُر بہار سلام اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحمَۃُ اﷲِ وَبَرَکاتُہ اَلْحَمْدُ للّٰہِ ربِّ العٰلَمِیْنَ عَلٰی کُلِّ حال رضاؔ جو دل کو بنانا تھا جلوہ گاہِ حبیب تو پیارے قیدِ خودی سے رَھیدہ ہونا تھا ۲۱ صفَرُ المُظَفّر۴۲۵اکو نگرانِ شوریٰ نے بابُ المدینہ کراچی کے نعت خواں اسلامی بھائیوں سے ’’ مَدَنی مشورہ ‘‘ فرمایا ۔ اُنہوں نے جب حرص و طمع کی مذمّت بیان کر کے اِس بات پر اُبھار ا کہ اجتماعِ ذِکر و نعت میں ہر نعت خواں اپنی باری آنے پر اِعلان کر دے: ’’ مجھے کسی قسم کا نذرانہ نہ دیا جائے میں اس کو قبول نہیں کروں گا۔‘‘ اس پر آپ نے ہاتھ اُٹھا کر اس عزم کا اظہار فرمایا کہ میں اِن شاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اعلان کر دیا کروں گا ۔ یہ خبَرِ فَرحَت اَثر سن کر میرا دل خوشی سے باغ باغ بلکہ باغِ مدینہ بن گیا ۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو اس عظیم مَدَنی نیّت پر استِقامت بخشے۔ میرے دل سے یہ دعائیں نکل رہی ہیں کہ مجھے اور آپ کو اور جس جس نے یہ مَدَنی نیّت کی ہے اس کواللّٰہ عَزَّوَجَلَّدونوں جہاں میں خوش رکھے ، ایمان کی حفاظت اورحتمی مغفِرت سے نواز ے ، مدینے کے سدا بہار پھولوں کی طرح ہمیشہ مسکراتا رکھے ، حبِّ جاہ و مال کی اندھیریوں سے نکل کر،عشقِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی روشنیوں میں ڈوب کر ،خوب نعتیں پڑھنے سننے کی سعادت بخشے ۔کاش!خود بھی روتے رہیں اور سامِعین کوبھی رُلاتے اور تڑپاتے رہیں ۔ رِیا کاری سے حفاظت ہو اور اخلاص کی لازَوال دولت ملے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نعت پڑھتا رہوں ،نعت سنتا رہوں ، آنکھ پُر نَم رہے دل مچلتا رہے ان کی یادوں میں ہر دم میں کھویار ہوں ، کاش ! سینہ محبت میں جلتا رہے نعت شریف شروع کرنے سے قبل یا دورانِ نعت لوگ جب نذرانہ لیکر آنا شروع ہوں اُس وقت مناسِب خیال فرمائیں تو اس طرح اعلان فرما دیجئے: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دعوت اسلامی کے نعت خواں کیلئے ’’ مَدَنی مرکز ‘‘کی طرف سے ھِدایت ہے کہ وہ کسی قِسم کا نذرانہ،لفافہ یا تُحْفہ خواہ وہ پہلے یا آخر میں یا دَورانِ نعت ملے قَبول نہ کرے۔ ہم اللّٰہ تعالٰی کے عاجزو ناتُواں بندے ہیں ۔برائے کرم ! نذرانہ دیکرنعت خواں کو امتِحان میں مت ڈالئے، رقم آتی دیکھ کر اپنے دل کوقابو میں رکھنا مشکِل ہوتا ہے ۔ نعت خواں کو اِخلاص کے ساتھ صرف اللّٰہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی رِضا کی طلب میں نعت شریف پڑھنے دیں لھٰذا نوٹوں کی برسات میں نہیں بلکہ بارشِ انوار و تجلّیات میں نہاتے ہوئے نعت شریف پڑھنے دیں اور آپ بھی ادب کے ساتھ بیٹھ کر نعت پاک سنیں ۔۔۔ مجھ کو دنیا کی دولت نہ زر چاہئے شاہِ کوثر کی میٹھی نظر چاہئے (نعت خواں یہ اِعلان اپنی ڈائری میں محفوظ فرما لیں تو سَہُولت رہے گی۔اِن شاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ) پیار ے نعت خواں ! نعت خوانی میں ملنے والا نذرانہ جائز بھی ہوتا ہے اورناجائز بھی ۔ آئندہ سُطور بغور پڑھ لیجئے، تین بار پڑھنے کے باوُجودسمجھ میں نہ آئے تو علمائے اہلِ سنّت سے رُجو ع کیجئے۔

    پروفیشنل نعت خواں

    میرےآقائے نِعمت ، اعلٰی حضرت ،امامِ اہلِ سنّت ، عظیمُ البَرَکت، عظیمُ الْمَرتَبت ، پروانۂ شمعِ رسالت، امامِ عشق و محبت، مُجَدِّدِ دین و ملّت،پیرِ طریقت،عالِمِ شَرِیْعَت،حامِیٔ سُنّت ، ماحِیِٔ بدعت، باعِثِ خیروبَرَکت، مولانا شاہ احمد رضا خان علیہ رَحمۃُ الرحمٰنکی خدمت میں سُوال ہوا : زید نے اپنے پانچ روپے فیس مولود شریف کی پڑھوائی کے مقرر کر رکھے ہیں ، بِغیر پانچ روپیہ فیس کے کسی کے یہاں جاتا نہیں ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہنے جواباً ارشاد فرمایا:زید نے جو اپنی مجلس خوانی خُصوصاً را گ سے پڑھنے کی اُجرت مقرّر کر رکھی ہے ناجائز وحرام ہے اس کا لینا اسے ہر گز جائز نہیں ، اس کا کھاناصَراحۃً حرام کھانا ہے ۔اس پر واجِب ہے کہ جن جن سے فیس لی ہے یاد کرکے سب کو واپَس دے ،وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارِثوں کو پھیرے ،پتا نہ چلے تو اتنا مال فقیروں پر تصدُّق کرے اور آئندہ اس حرام خوری سے توبہ کرے تو گناہ سے پاک ہو۔اول تو سیِّدِ عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکا ذکر ِپاک خود عمدہ طاعات واَجَلّ عبادات سے ہے اور طاعت وعبادت پر فیس لینی حرام (1) ۔۔۔۔ ۔ ثانِیاً بیانِ سائل سے ظاہر کہ وہ اپنی شعِر خوانی وزَمْزَمہ سَنْجی ( یعنی راگ اور تَرَنُّم سے پڑھنے )کی فیس لیتا ہے یہ بھی محض حرام ۔فتاوٰی عالمگیری میں ہے : گانا اور اشعار پڑھناایسے اعمال ہیں کہ ان میں کسی پر اُجرت لینا جائز نہیں ۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۷۲۴۔ ۷۲۵ رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور) جو نعت خواں اسلامی بھائی T.V. یا محفلِ نعت میں نعت شریف پڑھنے کی فیس وُصول کرتے ہیں اُن کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ میں نے اپنی طرف سے نہیں کہا،اہلِ سنّت کے امام، ولیِ کامِل اور سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے عاشقِ صادِق کا فتویٰ جو کہ یقینا حکمِ شریعت پر مَبنی ہے، وہ آپ تک پہنچانے کی جَسارت کی ہے، حبِّ جاہ و مال کے باعث طیش میں آکر، تیوری (تیو۔رِی) چڑھا کر، بل کھا کر الٹی سیدھی زبان چلا کر عُلَمائے اہلِ سنّت کی مخالَفت کرنے سے جو حرام ہے، وہ حلال ہونے سے رہا، بلکہ یہ تو آخِرت کی تباہی کا مزید سامان ہے۔

    طے نہ کیا ہو تو۔۔۔۔۔۔۔

    ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ بات آئے کہ یہ فتویٰ تو اُن کیلئے ہے جو پہلے سے طے کر لیتے ہیں ، ہم تو طے نہیں کرتے ، جو کچھ ملتا ہے وہ تبرُّکاً لے لیتے ہیں ، اس لئے ہمارے لئے جائز ہے ۔ اُن کی خدمت میں سرکارِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کا ایک اور فتویٰ حاضِر ہے، سمجھ میں نہ آئے تو تین بار پڑھ لیجئے: تلاوتِ قراٰنِ عظیم بغرضِ ایصالِ ثواب وذِکر شریف میلادِ پاک حُضُور سیِّدِ عالمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمضَر ور مِنْجملہ عبادات وطاعت ہیں تو ان پر اِجارہ بھی ضَرور حرام ومَحْذُور(یعنی ناجائز)۔اور اِجارہ جس طرح صَریح عَقْدِ زَبان(یعنی واضِح قول و قرار) سے ہوتا ہے ، عُرفاًشَرْطِ مَعْرُوف ومَعْہُود ( یعنی رائج شدہ انداز ) سے بھی ہوجاتا ہے مَثَلاً پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دیناہوگا(اور)وہ (پڑھنے والے بھی) سمجھ رہے ہیں کہ ’’کچھ ‘‘ملے گا ،اُنہوں نے اس طور پر پڑھا ، اِنہوں نے اس نیَّت سے پڑھوایا ، اجارہ ہوگیا، اور اب دو وجہ سے حرام ہوا، (۱)ایک تو طاعت (یعنی عبادت )پر اِجارہ یہ خود حرام ، (۲)دوسرے اُجرت اگرعُرفاًمُعَیَّن نہیں تو اس کی جَہالت سے اجارہ فاسِد ، یہ دوسرا حرام۔ (مُلَخّص اَز: فتاوٰی رضویہ ج۱۹ص ۴۸۶ ۔ ۴۸۷)لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہوں گے۔ (ایضاً ص۴۹۵) اِس مبارَک فتوے سے روز روشن کی طرح ظاہِر ہو گیا کہ صاف لفظوں میں طے نہ بھی ہو تب بھی جہاں UNDERSTOOD ہو کہ چل کرمحفل میں قراٰنِ پاک ، آیتِ کریمہ ، دُرُود شریف یا نعت شریف پڑھتے ہیں ، کچھ نہ کچھ ملے گا رقم نہ سہی’’ سوٹ پیس‘‘ وغیرہ کا تحفہ ہی مل جائے گا اور بانئی محفل بھی جانتا ہے کہ پڑھنے والے کو کچھ نہ کچھ دینا ہی ہے۔ بس ناجائز و حرام ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ یہ ’’ اُجرت ‘‘ ہی ہے اورفَریقَین(یعنی دینے اور لینے والے ) دونوں گنہگار۔

    قافِلۂ مدینہ اور نعت خواں

    سفر اور کھانے پینے کے اَخراجات پیش کر کے نعتیں سننے کی غَرَض سے نعت خواں کو ساتھ لے جانا جائزنہیں کیوں کہ یہ بھی اُجرت ہی کی صورت ہے۔ لُطْف تو اِسی میں ہے کہ نعت خواں اپنے اَخراجات خود برداشت کرے ۔ بصورتِ دیگر قافِلے والے مخصوص مدّت کیلئے مطلوبہ نعت خواں کو اپنے یہاں تنخواہ پر ملازِم رکھ لیں ۔ مَثَلاً ذیقعدۃُ الحرام، ذُوالحجَّۃِ الحرام اور محرَّمُ الْحرام ان تین مہینوں کا اِس طرح اِجارہ (AGREEMENT) کریں کہ فلاں تاریخ سے لے کر فلاں تاریخ تک روزانہ اتنے بجے سے لے کر اتنے بجے تک (مثلادوپہر تین سے لے کر رات نو بجے تک)اتنے گھنٹے (مثلا چھ گھنٹے)کا آپ سے ہم نے ہر طرح کی خدمت کا کام اِجارہ کیا۔ اب اِس دوران چاہیں تو اس سے کوئی سابھی جائز کام لے لیں یا جتنا وَقْت چاہیں چُھٹّی دیدیں ،حج پر ساتھ لے چلیں اور اَخراجات بھی آپ ہی برداشت کریں اور خوب نعتیں بھی پڑھوائیں ۔ یا درہے! ایک ہی وَقْت کے اندر دو جگہ نوکری کرنایعنی اِجارے پر اِجارہ کرنا ناجائز ہے۔ البتہ اگر وہ پہلے ہی سے کہیں نوکری پر لگا ہواہے تواب سیٹھ کی اجازت سے دوسری جگہ کام کرسکتا ہے۔

    دَورانِ نعت نوٹ چلانا

    سامعین کی طرف سے نعت شریف پڑھنے کے دوران نوٹ پیش کرنا اور نعت خواں کاقَبول کرنا دُرُست ہے ،اگر فَریقَین میں طے کر لیا گیا کہ نوٹ لفافے میں ڈال کر دینے کے بجائے دورانِ نعت پیش کئے جائیں یا طے تو نہ کیا مگر دَلالۃً ثابِت (یعنی UNDERSTOOD) ہو کہ محفل میں بلانے والا نوٹ لٹائے گاتو اب اُجْرت ہی کہلائے گی اور ناجائز۔ بانیِ محفل جانتا ہے کہ نوٹ نہیں چلائیں گے تو آیِندہ نعت خواں نہیں آئیں گے اور نعت خواں بھی اِسی لئے دلچسپی سے آتے ہیں کہ یہاں نوٹ چلتے ہیں توکئی صورتوں میں یہ لین دین بھی اجرت بن جائے گا اور ثواب کے بجائے گناہ و حرام کا وَبال سر آئے گا لہٰذا نعت خواں غور کرلے کہ رضائے الٰہی مقصود ہے یا محض روپے کمانا؟ کاش! اے کاش! صدکروڑ کاش! اخلاص کا دور دورا ہو جائے ،اور نعت خوانی جیسی عظیم سعادت کو چند حقیر سکّوں کی خاطر برباد کرنے والی حِرص کی آفت ختم ہو جائے۔ اُن کے سوا کسی کی دل میں نہ آرزو ہو دنیا کی ہر طلب سے بیگانہ بن کے جاؤں

    نوٹ لٹانے والوں کو دعوتِ فکر

    سب کے سامنے اُٹھ اُٹھ کر نوٹ پیش کرنے والا اپنے ضمیر پر لازِمی غور کر لے، کہ اگر اُس سے کہا جائے: سب کے سامنے با ر بار دینے کے بجائے نعت خواں کو چپکے سے اِکٹّھی رقم دے دیجئے کہ حدیث پاک میں ہے:’’پوشیدہ عمل ، ظاہِری عمل سے ستَّرگُنا افضل ہے ۔‘‘(کَنْزُ الْعُمّال ج۱۶ ص۲۸۱ رقم ۴۶۲۶۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت) تو وہ چپ چاپ دینے کیلئے راضی ہوتا ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ کیا اس لئے کہ ’’ واہ واہ ‘‘ نہیں ہوگی ! اگر واہ واہ کی خواہِش ہے تو ریا کاری ہے اور ریا کاری کی تباہ کاری کا عالَم یہ ہے کہ سرکارِ نامدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: جُبُّ الْحَزَنسے پناہ مانگو۔ عرض کیا گیا : وہ کیا ہے؟ فرمایا: جہنَّم میں ایک وادی ہے کہ جہنَّم بھی ہر روز چار سو مرتبہ اس سے پناہ مانگتا ہے اس میں قاری داخل ہوں گے جو اپنے اعمال میں ریا کرتے ہیں ۔(سُنَنِ اِبن ماجہ ج۱ص ۱۶۶حدیث ۲۵۶ دار المعرفۃ بیروت)بَہَر حال دینے میں رِیا کاری پیدا ہوتی ہو تو رقم ضائع نہ کرے اور آخرت بھی داؤ پر نہ لگائے،نیز اگر نوٹ چلانے سے’’ محفل گرم‘‘ ہوتی ہو یعنی نعت خواں کو جوش آتا ہو مَثَلاً نوٹ آنے کے سبب شعر کی بار بار تکرار، اُس کے ساتھ ِاضافۂ اشعار ، آواز بھی پہلے سے زور دار پائیں توبارہ بار سوچ لیں کہ کہیں اِخلاص رخصت نہ ہو گیاہو، پیسوں کے شوق میں پڑھنے والے کو دینا ثواب کے بجائے اس کی حرص کی تسکین کا ذریعہ بن سکتا ہے اس لئے دینے والوں کو بھی اس میں اِحتِیاط کرنی چاہیے اور نعت خواں کے اِخلاص کا خون کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ہاں یہ یاد رہے کہ دیکھنے سننے والے کو کسی معین نعت خواں پر بدگمانی کی اِجازت نہیں ۔

    نعت خوانی اوردنیوی کشش

    جہاں خوب نوٹ نچھاور ہوتے ہوں وہاں نعت خواں کا اہتِمام کے ساتھ جانا،اِختِتام تک رُکنا مگر غریبوں کے یہاں جانے سے کترانا ،حیلے بہانے بنانا،یا گئے بھی تو دُنیوی کشِش نہ ہونے کے سبب جلد لوٹ جانا سخت محرومی ہے اور ظاہر ہے کہ اِخلاص نہ رہا۔ اگر پیسے ،کھانا یا اچّھی شیرینی ملنے کی وجہ سے مالدار کے یہاں جاتا ہے تو ثواب سے محروم ہے اور یہی کھانا اور شیرینی اس کا ثواب ہے ۔ یونہی غریبوں سے کترانا اور مالداروں کے سامنے بچھے بچھے جانا بھی دین کی تباہی کاسبب ہے منقول ہے: ’’ جو کسی غنی (یعنی مالدار) کی اس کے غَنا(یعنی مالداری) کے سبب تَواضُع کرے اس کادو تہائی دین جاتا رہا۔‘‘ (کشف الخفاء ج۲ ص ۲۱۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت) عَدَمِ شرکت (یعنی شریک نہ ہونے )کے لئے جھوٹے حیلے بہانے بنانا مثَلاً تھکن یا مرض وغیرہ نہ ہونے کے باوُجود ، میں تھکا ہوا ہوں ، طبیعت ٹھیک نہیں ،گلا خراب ہوگیا ہے وغیرہ زَبان یا اشارے سے کہنا ممنوع و ناجائز اور حرام ہے۔

    ناجائز نذ رانہ دینی کام میں صَرْف کرنا کیسا؟

    اگر کوئی نعت خواں صَراحۃً یا دَلالۃً ملنے والی اُجرت یا رقم کا لفافہ لیکر مسجِد، مدرَسے یا کسی دینی کام میں صَرْف کر دے تب بھی اُجرت لینے کا گناہ دُور نہ ہوگا۔ واجِب ہے کہ ایسا لفافہ یاتحفہ وغیرہ قَبول ہی نہ کرے۔اگر زندگی میں کبھی قَبو ل کر کے خود استِعمال کیا یا کسی نیک کام مَثَلاً مدرسے وغیرہ میں دے دیا ہے تو ضروری ہے کہ توبہ کرے اور جس جس سے جو لیا ہے اُس کو واپس لوٹائے ، وہ نہ رہے ہوں تو اُن کے وارثوں کو دے وہ بھی نہ رہے ہوں یا یاد نہیں تو فقیر پر تصدُّق ( یعنی خیرات ) کرے ۔ہاں چاہے تو پیش کرنے والے کو صِرْف مشورہ دے دے،کہ آپ اگر چاہیں تو یہ رقم خود ہی فُلاں نیک کام میں خرچ کر دیجئے۔

    سرکارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے چادر عطا فرمائی

    سرکارِ مدینہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے اپنی نعت شریف سُن کر سیِّدُنا امام شَرَفُ الدّین بُو صیری علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی کوخواب میں ’’ بُردِ یَمانی‘‘ یعنی ’’یَمَنی چادر ‘‘ عنایت فرمائی اور بیدار ہونے پر وہ چادرمبارک اُن کے پاس موجود تھی۔ اسی وجہ سے اس نعت شریف کا نام قصیدۂ بُردہ شریف مشہور ہوا ۔اگر اس واقِعے کو دلیل بنا کر کوئی کہے کہ نعت خوا ں کو نذرانہ دینا سنَّت اورقَبول کرنا تبُّرک ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک سرکارِ دو عالم ، نورِ مجسَّم ، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکاعطا فرمانا سر آنکھوں پر ۔ یقینا سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے اقوال و افعالِ مبارَکہ عین شریعت ہیں ۔ مگر یاد رہے !سرکار ِ عالم مدار، شَہَنْشاہِ اَبرارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے بُردِ یَمانی عطا کرنے کا طے نہیں فرمایا تھا نہ ہی مَعاذاللّٰہ امام بُوصیری علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوینے شَرْط رکھی تھی کہ چادر ملے تو پڑھوں گا بلکہ اُن کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بُردِیمانی عنایت ہو گی۔ آج بھی اس کی تو اجازت ہی ہے کہ نہ اُجرت طے ہو اور نہ ہی دَلالۃً ثابِت( یعنی UNDER STOOD) ہواور نعت خواں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو ا ور اگر کوئی کروڑوں روپے دیدے تو یہ لینا دینا یقینا جائز ہے اور جس خوش نصیب کو سردارِ مکۂ مکرّمہ ،سرکار مدینۂ منوّرہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکچھ عطا فرما دیں ، خدا کی قسم ! اُس کی سَعادتوں کی معِراج ہے ۔ اور رہا سرکار نامدارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے مانگنا، تو اس میں بھی کوئی مُضایَقہ نہیں اور اپنے آقاصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے مانگنے میں نعت خواں و غیر نعت خواں کی کوئی قید بھی نہیں ، ہم تو انہیں کے ٹکڑوں پہ پل رہے ہیں۔سرکارِ والا تبارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عنایت نشان ہے: اِنَّمَا اَنَا قاسِمٌ وَّ اﷲُ یُعْطِیْ یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں ۔ (صَحیح بُخاریج۱ ص۴۳ حدیث ۷۱ دارالکتب العلمیۃ بیروت) رب ہے مُعْطی یہ ہیں قاسِم رزْق اُس کاہے کھلاتے یہ ہیں ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں

    نعت خواں اور کھانا

    قاری ونعت خواں کو کھانا پیش کرنے کے سلسلے میں میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: پڑھنے کے عِوَض کھانا کھلاتا ہے تو یہ کھانا نہ کھلانا چا ہئے ،نہ کھانا چاہئے اور اگرکھائے گا تو یہی کھانا اِس کا ثَواب ہوگیا اور (یعنی مزید)ثَواب کیا چاہتا ہے بلکہ جاہِلوں میں جو یہ دَستُور ہے کہ پڑھنے والوں کو عام حِصّوں سے دُونا(یعنی ڈبل) دیتے ہیں اور بعض اَحْمَق پڑھنے والے اگر اُن کو اَوروں سے دُونا نہ دیا جائے تو اِس پر جھگڑتے ہیں ۔ یہ زِیادَہ لینا دینا بھی مَنْع ہے اور یہی اُس کا ثَواب ہوگیا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی (یعنی اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے): وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا٘- (پ۱ البقرۃ ۴۱) ترجَمۂ کنزالایمان:میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ لو۔ ( فتاوٰی رضویہ ج ۲۱ ص ۶۶۳ )

    سب کیلئے کھانا

    اِسی صَفحے پر ایک دُوسرے فَتوے میں ارشاد فرمایا: جب کسی کے یہاں شادی میں عام دعوت ہے جیسے سب کو کھلایا جائے گا، پڑھنے والوں کو بھی کھلایا جائے گا اُس میں کوئی زِیادَت وتخصیص نہ ہوگی(یعنی دوسروں کے مقابلے میں نہ زیادہ ملے گا نہ ہی کوئی اسپیشیل ڈِش ہو گی) تو یہ کھانا پڑھنے کا مُعَاوَضَہ نہیں ، کھانا بھی جائز اور کِھلانا بھی جائز ۔(اَیضاً)

    اعلیٰ حضرت کے فتوے کا خُلاصہ

    قاری اورنعت خواں کی دعوت سے مُتَعَلِّق امامِ اَہلِ سنّت رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہکے فتاوٰی سے جو اُمُور واضِح ہوئے وہ یہ ہیں : {1}کھاناکھلانے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان نیک کاموں کی اُجْرَت کے طور پر مذکورہ اَفراد کو کھانا کھلائے {2} قاری اور نعت خواں کے لیے ناجائز ہے کہ وہ بطور ِاُجْرت دعوت کھائیں {3}اُجرت کی صورتیں پیچھے بیان کردی گئیں لہٰذا ’’ اُجرت کے کھانے‘‘ کو نفس کی حرص کی وجہ سے ’’ نیاز‘‘ کہہ کر مَن کو منا لینا اِس کھانے کو حلال نہیں کر دے گا لہٰذا مذکورہ افراد میں سے کوئی قِرائَ ت یا نعت شریف پڑھنے کے بعد’’ صراحتاً یا دَلالتاًطے شدہ خُصُوصی دعوت‘‘ قَبُول کرتے ہوئے کھائیگا تو ثَوابِ اُخْرَوِی سے محروم رہیگا بلکہ یِہی کھانا چائے بِسکِٹ وَغَیرہ اِس کا اَجْر ہوجائیگا {4} اگر عام دعوت ہو(یعنی وہ نعت خواں غیرحاضِر ہوتا جب بھی یہ دعوت ہوتی)تو اب ضِمناًان مذکورہ اَفراد کوکھلانے اور ان اَفراد کے کھانے میں کوئی مُضایَقہ نہیں {5}اگر دعوت تو عام ہو مگر قاری یا نعت خواں کے لیے خُصُوصی کھانے کا اِہتِمام ہو مَثَلاً لوگوں کیلئے صِرْف بریانی اور ان کے لیے سَلَاد، رَائِتے اور چائے کا بھی اِہتِمام ہو یا دِیگر لوگوں کو ایک ایک حصّہ اور ان کو زِیادَہ دیا جائے تو وہ خُصُوصیّت و زِیادَت (یعنی مخصوص غذا اور اضافہ) اُجرت ہونے کے باعث فریقین کے لیے ناجائز وحرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے ۔لیکن یہ یاد رہے کہ اس میں بھی وُہی شرط ہے کہ پہلے سے صراحتا ًیا دَلالتاًطے ہو تب حرام ہے ورنہ اگر طے نہ تھا اور اس کے بِغیر ہی اہتمام ہوا تو پھر جائز ہے
    [1 امام ، مؤَذِّن، مُعَلّمِ دینیات اور واعظ و غیرہ اِس سے مستثنٰیٰ ہیں ۔ ( ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ج ۱۹ ص ۴۸۶ )

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن