اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
“ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ “ پڑھنے کی بَرَکتیں ( )
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ(۱۷صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
کسی بُزرگ نے ایک شخص کوانتِقال کے بعد خواب میں دیکھ کرپوچھا : “ مَا فَعَلَ اللّٰہُ بِک؟ “ یعنی اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟ کہا : اللہ پاک نے مجھے بخش دیا۔ پو چھا : کس سبب سے؟ بولا : میں ایک مُحدِّث صاحِب کے یہاں حدیثِ پا ک لکھا کرتا تھا ، اُنہوں نے نور کے پیکر صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم پر دُرُودِ پا ک پڑھا تو میں نے بُلند آواز سے دُرُودِ پا ک پڑھا نیز حاضِرین نے سنا تو اُنہوں نے بھی دُرُودِ پا ک پڑھا تو اللہپاک نے اِس کی بَرَ کت سے ہم سب کو بخش دیا ہے ۔ ( )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
سُوال : پچھلے دنوں “ یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ “ کے متعلق آپ کے ساتھ ایک مدنی بہار پیش آئی تھی جو صرف آپ نے مجھے بیان کی تھی ، میں چاہتا ہوں آپ مدنی مذاکرے میں وہ مدنی بہار بیان فرمائیں تاکہ ہمیں بھی عمل کا جذبہ پیدا ہو۔ (نگرانِ شوریٰ کا سُوال)
جواب : میں نے وہ بہار صرف نگران شوریٰ کو ہی بیان کی ہے۔ ہُوا کچھ یوں تھا کہ ہماری رات کی فلائٹ (Flight) تھی ، ہم ائیر پورٹ (Airport) سے نکل کر راستے میں کسی جگہ ٹھہرگئے ، اس کے بعد ہم اپنے گھر جانے کے لئے نکلے جو کافی دور تھا۔ چلتے چلتے راستے میں دھند بڑھ گئی۔ جو اسلامی بھائی گاڑی چلارہے تھے انہوں نے کہہ دیا کہ اتنی دھند میں گاڑی نہیں
چلاسکتے۔ فجر کا وقت ختم ہونے والا تھا اور قریب میں کو ئی مسجد بھی کھلی ہوئی نہیں تھی کیونکہ آج کل کورونا وائرس کی وجہ سے مسجدیں جلدی بند کردی جاتی ہیں۔ کسی پیٹرول پمپ پر بھی نہیں رُک سکتے تھے کیونکہ وہاں بیٹھ کر وضو کرنے کا انتظام نہیں ہوتا اورمیں کھڑے کھڑے پاؤں نہیں دھوسکتا ، نیز کھڑے کھڑے نماز بھی نہیں پڑھ سکتا ، بلکہ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں۔ یوں وہاں ہم نہ کہیں جانے کے رہے نہ کہیں آنے کے۔ پھر مجھے اپنا ایک پرانا واقعہ یاد آنے لگا۔ میرے ساتھ جو دیگر اسلامی بھائی تھے میں نے ان سے کہا کہ “ یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ “ پڑھتے ہیں ، سب نے باآوازِ بلند “ یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ “ پڑھنا شروع کردیا ۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دھند میں کمی آگئی اور راستہ صاف نظر آنے لگا اور ہماری گاڑی جانب منزل چل پڑی ، لیکن ابھی گھر کافی دور تھا اور گھر جاتے ہوئے پکے راستے سے اُتر کر کچے راستے سے گزر کر جانا تھا ، اس لئے کافی تشویش تھی کہ فجر کی نماز کا وقت کیسے ملے گا!! لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہ “ یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ “ کے وِرد کی بَرَکت سے نہ صرف راستہ صاف ہوا بلکہ راستہ سمٹ بھی گیا۔ جب گھر پہنچ کر میں نے نماز فجر کا سلام پھیرا تو اس وقت بھی فجر کا وقت ختم ہونے میں ایک منٹ باقی تھا۔ جو مجھے پرانا واقعہ یاد آیا وہ یہ تھا کہ دعوتِ اسلامی کے شروع کے دنوں میں ایک مرتبہ میں سندھ کے دورے پرتھا اور مجھے ایک جگہ بیان کرکے حیدرآباد میں کسی کے گھر سحری کرنے جانا تھا ، لیکن بیان کے بعد دیر ہوگئی تو فکر ہونے لگی کہ ان کے گھر کیسے پہنچیں! کیونکہ انہوں نے سحری کا انتظام کیا ہوگا اور وہ بے چارے پریشان بھی ہورہے ہوں گے۔ اس وقت بھی میں نے سنا ہوا تھا کہ “ یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ “ پڑھنے سے راستہ جلدی طے ہوتا ہے۔ تو ہم نے راستے میں “ یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ “ پڑھنا شروع کردیا ، یہاں تک کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہہم مناسب وقت پر ان کے گھر پہنچ گئے اور وقت کے اندر اندر سحری کی سعادت مل گئی۔
(نگرانِ شوریٰ نے فرمایا : )پچھلے دنوں میں نے آپ سے “ یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ “ کی بہار سنی تھی۔ ہم پنجاب میں ایک سڑک پر ٹریفک جام میں پھنس گئےتھے اور ہمیں نماز کے لئے پہنچنا تھا ، بڑی تشویش تھی کہ کیا ہوگا اور کیسے پہنچیں گے؟ اتنے میں ہم نے “ یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ “ کا ورد شروع کردیا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آہستہ آہستہ راستہ کھل گیا۔
(امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے فرمایا : ) “ حَیّ “ اور “ قَیُّوم “ اللہ پاک کے صفاتی نام ہیں اور اللہ پاک کے ہر نام میں بَرَکت ہی بَرَکت ہے۔ “ یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ “ بہت ہی بابَرَکت ورد ہے۔ اگر کوئی مصیبت یا پریشانی آجائے تو
بکثرت “ یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ “ پڑھیں اِنْ شَآءَ اللّٰہ آفتیں دور ہوں گی اور مشکلات حل ہوجائیں گی۔ ( )
سُوال : سنا ہے : “ دعا کی قبولیت کے لئے شرط ہے کہ دعا مانگنے والے کو دعا کے قبول ہونے کا پختہ یقین ہو۔ “ ایسا یقین بنانے کے لئےکیا کرنا چاہیے؟
جواب : اللہ پاک کی قدرت پر نظر رکھیں کہ ’’اللہ پاک جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘ تو وہ میری دعا کیوں قبول نہیں کرسکتا !! وہ ضرور قبول کرتا ہے ، لیکن یقین کے ساتھ علم بھی ہونا چاہیے۔ اگر کوئی دعا مانگی اور وہ ظاہری طور پر قبول نہ ہوئی تو یہ اعتقاد نہ ہوجائے کہ میں نے یقین بھی بنایا کہ اللہ پاک دعائیں قبول کرتا ہے پھر بھی میری دعا قبول نہیں ہوئی اور جو میں نے مانگا وہ مجھے حا صل نہیں ہوا۔ دعا کی قبولیت صرف یہ نہیں کہ جو مانگا وہ مل جائے ، بلکہ دعا کی قبولیت کی مختلف صورتیں ہیں ، جن میں سے ایک تو یہی ہے کہ جو مانگا وہ مل گیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دعا کی وجہ سے کوئی آنے والی ایسی مصیبت ٹل گئی جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہی نہیں تھا ، ( ) مثلاًجس عمارت میں ہم بیٹھے تھے ، اس میں دعا مانگی اور وہاں سے صحیح سلامت نکل گئے حالانکہ اگر ہم دعا نہیں مانگتے تو اس عمارت کی چھت گر جاتی اور اس کے نیچے دب کر زخمی ہوجاتے یا مرجاتے۔ یوں دعا کی برکت سے ایسی مصیبت ٹل گئی جس کے بارے میں ہمیں علم نہیں تھا۔ اسی طرح ہم دعا مانگ کر گاڑی میں کہیں جارہے ہیں اور صحیح سلامت پہنچ جاتے ہیں ، حالانکہ اگر ہم دعا نہیں مانگتے تو گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوجاتا ، یوں ہم دعا کی وجہ سے ایسی مصیبت سے محفوظ رہے جس کے بارےمیں علم نہیں تھا۔ ان دو صورتوں کے علاوہ دعاکی قبولیت کی مزید صورتیں ہیں ، جن میں سب سے اعلیٰ صورت یہ ہے کہ قیامت کے دن دعا کا اَجر ملے گا اور جب بندہ اپنی دعا کے اَجر کو دیکھے گا تو تمنا کرے گا کہ “ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہو تی۔ “ ( ) یعنی دنیا میں ظاہر ی طور پر قبول نہ ہوئی ہوتی اور آج قیامت میں اس کا اَجر مل جاتا۔ دعا کی قبولیت پر یقین رکھتے ہوئے اللہ پاک کی عبادت سمجھ کر دعاکرنی
چاہیے۔ دعا کرنے میں اگر کوتاہی کریں گے تو اس میں ہمارا نقصان ہے اس لئے کثرت سے دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔
سُوال : تہجد کی نماز کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟ (علی خان۔ حیدرآباد)
جواب : تہجد کے لئے عشا کی نماز کے بعد سونا ضروری ہے۔ نمازِ تہجد ، عشا کے بعد سے لے کر صبحِ صادق سے پہلے رات میں کسی بھی وقت ادا کرسکتے ہیں۔ جیسےآج کل عشا کی نماز آٹھ بجے ادا کی جاتی ہے ، اب اگر کوئی آٹھ بجے عشا کی نماز پڑھ کر سوجائےاور سونے کے ایک منٹ بعد ہی آنکھ کھل گئی تو اب اُس کے لئے تہجد کا وقت شروع ہوجائے گا۔ ( ) عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رات کے کسی آخری پہر میں تہجد کا وقت ہوتا ہے ، ایسا نہیں ہے۔
سُوال : Facebook اور دوسری سوشل میڈیا Appsپر لڑکا لڑکی آپس میں ایک دوسرے سے Chatting (یعنی بات چیت) کرتے ہیں ، اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟(Facebook کے ذریعے سُوال)
جواب : اگر کسی عالم یا مفتی سے کوئی عورت شرعی مسئلہ دریافت کرتی ہے اور نیت میں کوئی فساد نہیں ہے تو یہ کارِ ثواب ہوگا ، لیکن عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے ، بلکہ عام لڑکے اور لڑکیاں سوشل میڈیا پر ایک دوسرےسے دوستیاں کرتے اور بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں ، پھر ان کی ملاقات کی تاریخ Fix ہوتی ہے۔ ملاقات نہ بھی ہو تب بھی گناہوں بھری لذتیں لیتے ہیں ، یوں یہ گناہ گار ہوتے ہیں اور پھر بعض اوقات ’’کیا سے کیا‘‘ ہوجاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر Chatting میں بعض اوقات اُلٹے حساب بھی ہوجاتے ہیں کہ جسے لڑکی سمجھ کر بات چیت چل رہی ہوتی ہے وہ کوئی لڑکا نکلتا ہے ، یوں تفریح کی صورت بن جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر Chatting میں بہت سے مسائل ہوجاتے ہیں ، اس طرح کرنا شریفوں کا کام نہیں ہے۔ شریف گھرانوں کے لڑکے ، لڑکیاں اس طرح کے کام نہیں کرتے۔ اوباش ، لفنگے ، گندی ذہنیت رکھنے والے ، گناہوں بھرے چینلز دیکھنے والے ، سوشل میڈیا پر گناہوں بھرے Clips اور فلمیں ڈرامے دیکھنے والے لوگ
اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ، ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ جو ایسا کرتے ہیں انہیں اس کام سے تو بہ کرنی چاہیے ، ورنہ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گی۔ اللہ پاک ہماری دنیا اور آخرت دونوں اچھی فرمائے۔
سُوال : عشا کے فرضوں کے بعد سنتیں اور وِتر ادا کرنے میں تاخیر ہوگئی تو کیا حکم ہے؟( Facebook کے ذریعے سُوال)
جواب : فرض اور سنت کے درمیان تاخیر کرنے سے بچنا بہتر ہے۔ اگر عشا کی سنتوں میں تاخیر ہوگئی تو رات کے جس حصے میں بھی پڑھیں گے ادا ہی کہلائیں گی ، انہیں قضا نہیں کہا جائے گا ، سنتیں معاف بھی نہیں ہوں گی۔ البتہ وِتر کی تاخیر میں حَرَج نہیں ہے ، بلکہ اگر کوئی رات میں عشا کے فرض اور سنتیں پڑھ کر سوجاتا ہے اور اُسے تہجد کے لئے اُٹھنے پر قُدرت حاصل ہے تو اُس کے لئے اُٹھ کر تہجد اور وِتر پڑھنے میں زیادہ ثواب ہوگا۔ ( )
سُوال : کیا بائیک چلاتے ہوئے نعت شریف پڑھ سکتےہیں؟ (Facebook کے ذریعے سُوال)
جواب : بائیک چلاتے ہوئے نعت شریف پڑھنےمیں کوئی حَرَج نہیں ہے۔ نعت شریف ذِکر کی ایک قسم ہے اور ذِکرُ اللہ تو ہر وقت ہونا چاہیے۔
(نگرانِ شوریٰ نے فرمایا : )بائیک چلانے والے اپنے کانوں میں ہیڈفون لگا کرنعتیں سنتے ہیں جس کی وجہ سے یہ اندیشہ رہتا ہے کہ اگر پیچھے سے کوئی ہارن بجائے گا تو اِنہیں آواز نہیں آئے گی جس سے حادثہ ہوجانے کا اندیشہ ہے ، اس لئے مشورہ یہی ہے کہ بائیک چلاتے ہوئے اپنے کانوں کو کھلا رکھیں تاکہ ہارن کی آواز آجائے۔
سُوال : بعض اوقات بچے غلط کام کر رہے ہوتے ہیں انہیں سمجھانے کے لئے یوں کہہ دیاجاتا ہے “ ایسا نہ کرو ، گناہ ملے گا “ حالانکہ وہ کام گناہ نہیں ہوتا ۔ اس طرح کسی کام کو گناہ کہنا کیسا؟
جواب : اگر کوئی کام گناہ نہ ہو ، لیکن بچوں کو اس کام سے روکنے کے لئے بڑے کہہ دیتے ہوں کہ “ یہ کام کرنے سے گناہ ملے گا “ تویہ شریعت پر تہمت ہے اور ایسا کہنے والا گناہ گار ہوگا۔ ( ) جس نے ایسا کہا اسے توبہ کرنی چاہیے۔ دوسرا یہ کہ نابالغ کو گناہ نہیں ملتا ، ( ) یوں نابالغ کو اس طرح کہنا کہ “ تجھے گناہ ملے گا “ یہ بھی غلط ہوگا۔ البتہ اگر کوئی کام گناہ ہو اور اس سےبچنے کا ذہن بنانا ہو تو یوں کہاجائے کہ ایسا کرنا گناہ ہے ، دوسرے کو مارنا گناہ ہے ، جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ اس طرح حکمتِ عملی سے محتاط گفتگو کرنی چاہیے۔
سُوال : دنیا کی کُل آبادی ساڑھے سات ارب ہے اور اس کا 41 فیصدحصّہ 24سال یا اس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی آبادی میں 64 فیصد نوجوان ہیں۔ دنیا بھر میں نوجوانوں کی آبادی کے اعتبار سے پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ جوانی عمر کا اہم ترین حصّہ ہے ، اگر جوانی میں کوئی مثبت مصروفیت نہ ہو تو معاشرے میں بَداَمنی پھیل سکتی ہے۔ آپ نوجوانوں کو جوانی گزارنے کے متعلق کیا پیغام دیں گے؟ نیز دعوتِ اسلامی نوجوانوں کو کیا پروجیکٹ اور پروگرام دے رہی ہے؟ (ثوبان عطاری کا سُوال)
جواب : اَلْحَمْدُ لِلّٰہ دعوتِ اسلامی صرف نوجوانوں میں ہی نہیں بلکہ بچوں ، بوڑھوں ، بُزرگوں اور نوجوانوں سب ہی میں کام کر رہی ہے ، لیکن دعوتِ اسلامی میں بھی اکثریت نوجوانوں کی ہی ہے۔ جب دعوتِ اسلامی کاکام شروع ہوا تو میں بھی نوجوان تھا اسی لئے اُس وقت بھی “ اَلْجِنْسُ یَمِیْلُ اِلَی الْجِنْسِ “ کے تحت زیادہ تَر نوجوان میرے ساتھ ملتے گئے اور آج اُن میں سے کئی نوجوان ادھیڑ عمر ہوگئے ہیں اور بعض بزرگ بھی ہوگئے ہیں۔ اس وقت میری داڑھی کالی تھی اور اب آپ کے سامنے ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ دعوتِ اسلامی میں نوجوانوں کی تربیت اور اصلاح کے لئے مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں ، جیسے : فیضانِ نماز کورس اور مدنی تربیتی کورس وغیرہ ، اس کے علاوہ دعوتِ اسلامی کے اجتماعات ، مدنی قافلے اور نیک اعمال کا رسالہ ،
پھر دعوتِ اسلامی کے مدارس المدینہ بالغان اور جامعات المدینہ بھی موجود ہیں ، دعوتِ اسلامی میں اس طرح نوجوانوں میں بہت بڑا کام ہورہا ہے۔ البتہ بعض نوجوان کچھ زیادہ باصلاحیت اور کمال ذہانت کے مالک ہوتے ہیں ، نیز ان کی باتوں میں ٹھہراؤ اور پختگی ہوتی ہے ، مزید یہ کہ وہ لیڈر بننے کی صلاحیت کے مالک بھی ہوتے ہیں ، اِنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہےکہ اگر یہ دعوتِ اسلامی میں ہوتے تو شاید رکنِ شوری ہوتے ، لیکن ان میں سے اکثر کی گناہوں بھری اور دنیا داری والی ٹیمیں ہوتی ہیں جن کے یہ لیڈر ہوتے ہیں ، ایسوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان صلاحیتوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت ہو۔ اگر یہ دعوتِ اسلامی کے قریب آجائیں تو دین کا کام بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ دین کا کام کریں گے تو دنیا چھوٹ جائے گی تو یہ نادانی ہے کیونکہ مذہبی لوگ بھوکے تھوڑی مر تے ہیں ، یہ پتھر نہیں کھاتے بلکہ عام لوگوں کی طرح یہ بھی چاول ، روٹی اور سبزیاں سبھی کچھ کھاتے ہیں۔ آج تک کوئی عالم فٹ پاتھ پر سوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا لیکن کئی غیرِ عالم فٹ پاتھ پر سوتے ہوئے ملتے ہیں۔ علما تو معزز زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ آج کل خُود کشی کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ، لیکن ان میں سے کسی کے بارے میں آپ نے یہ نہیں سنا ہوگا کہ “ فلاں عالم نے خُود کشی کی ہے۔ “ خُودکشی کرنے والے دنیاوی تعلیم یافتہ اور سرمایہ دار لوگ ہی ملیں گے۔ صرف عالم ہی نہیں بلکہ جو بھی دینی کام کرتا ہوگا اس کے بارے میں بھی کبھی خُودکشی کرنے کا سننے کو نہیں ملے گا۔ جو لوگ دین کا کام کرتے ہیں ان کی دنیا خود ہی بہتر ہوجاتی ہے ، دین دار لوگ کافی پرسکون رہتے ہیں ، انہیں ایسی ہائی ٹینشن نہیں ہوتی کہ جہنم میں چھلانگ لگادیں ، بلکہ ان کا رخ جنت کی طرف ہوتا ہے اوریہ ذہن ہوتا ہے کہ مدینے کے راستے پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کے پیچھے پیچھے جنت میں جانا ہے۔
باغِ جنت میں محمد مسکراتے جائیں گے
پھول رحمت کے جھڑیں گے ہم اُٹھاتے جائیں گے
سُوال : کیا آپ کی اس گفتگو سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جو بھی دینی ماحول کی طرف آتا ہے اس کی دنیا نہیں چھوٹتی بلکہ اس کے گناہ چھوٹ جاتے ہیں؟(نگرانِ شوریٰ کا سُوال)
جواب : وہ دنیا بُری ہوتی ہے جو آخرت کو برباد کردے ، اگر دنیا کی وجہ سے آخرت کو نقصان نہیں پہنچتا تو دنیا بری بھی نہیں ہے۔ دنیا پر جو سیاہی جمی ہوئی ہے وہ چُھٹ جائے اور سبز رنگ آجائے تو کیا بات ہے!!دنیا بھر میں سبز رنگ اَمن کی علامت ہے ، آپ سڑک پر جارہے ہیں اور لال بتی جلی تو اس کا مطلب یہ کہ آگے خطرہ ہےلیکن جب سبز لائٹ جلتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ راستہ صاف ہے ، کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اسی طرح اپنی زندگی میں بھی سبز رنگ لے آئیں اِنْ شَآءَ اللّٰہ آپ کی زندگی پُرسکون گزرے گی۔ شریعت و سنت کے مطابق زندگی گزاریں ، ماں باپ اور بچوں کے حقو ق ادا کریں اِنْ شَآءَ اللّٰہ آپ کی آخرت بہتر ہو جائےگی۔
…… یہ رِسالہ۱۰ جُمَادَی الْاُخْرٰی ۱۴۴۲ ھ بمطابق23جنوری 2020 کو ہونے والے مَدَنی مذاکرے کا تحریری گلدستہ ہے،جسے اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَۃ کے شعبہ ’’ملفوظاتِ امیرِ اَہلِ سُنّت‘‘نے مُرتَّب کیا ہے۔ (شعبہ ملفوظاتِ امیرِ اَہلِ سُنّت)
…… القول البدیع، الباب الثانی فی ثواب الصلاة والسلام علٰی رسول الله، ص ۲۵۴۔
…… ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی عقد التسبیح، ۵/۳۱۱، حدیث:۳۵۳۵۔
…… مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری، ۴/۳۷، حدیث:۱۱۱۳۳۔
…… شعب الایمان، الباب الثانی عشر، ذکر فصول فی الدعاء، ۲/۴۹، حدیث:۱۱۳۳۔
…… درمختار مع ردالمحتار، کتاب الصلاة، مطلب فی صلاة اللیل، ۲/۵۶۶۔
…… درمختار مع ردالمحتار، کتاب الصلاة، مطلب فی طلوع الشمس من مغربها، ۲/ ۳۴۔
…… فتاویٰ رضویہ، ۲۲/۳۶۳۔
…… نسائی، کتاب الطلاق، باب من لا یقع طلاقه من الازواج، ص۵۵۹، حدیث:۳۴۲۹۔ فتاویٰ رضویہ، ۱۰/۳۴۵۔