30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
لباس کی زیب و زینت کے متعلق شرعی حکام
فتوی ٰ:01مسلمان کا لباس کیسا ہو ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اسلام قبول کرنے کے بعدکوئی اسپیشل لباس پہنناہوتا ہے اور پرانا لباس تبدیل کرنا ہو گا؟یا جیسا لباس عرصہ دراز سے استعمال میں ہو ، اسلام لانے کے بعد بھی ویسا ہی لباس پہنا جا سکتا ہے؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب اسلام قبول کرنے کے بعد کوئی اسپیشل لباس پہننا ضروری نہیں ہے ،ہاں جس لباس سے شریعت منع کرے جیسے ریشم یا ایسا لباس جس سے ستر پوشی نہ ہو سکےیاوہ کفار یا فساق کامخصوص لباس ہو، تو اسے پہننے کی اجازت نہیں ہے اور بہتر یہ ہے کہ نیک اور باشرع مسلمانوں میں رائج عام لباس پہنا جائے۔ لباس کے حوالے سے اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فارسی میں ایک فتوی دیتے ہوئےارشاد فرماتے ہیں(جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے):”قاعدہ کلیہ لباس پہننے میں یہ ہے کہ اس میں تین امور کی رعایت کرنی چاہیے:ایک یہ کہ اصل میں اس کا استعمال جائز ہو ۔ مثلا ریشمی،سنہری ،زرد یا زعفران سے رنگا ہوا لباس مرد کے لیے علی الاطلاق جائز نہیں ۔ (دوسرایہ کہ)جس لباس کا تعلق ستر سے ہے ، اس میں ستر کی رعایت ہو ۔ جیسے مرد کے لئے زیر جامہ اور آزاد عورتیں سر سے لے کر پاؤں تک غیر محرم مردوں کے سامنے مکمل لباس پہنیں۔۔۔لباس محل ستر پر اس طرح چسپاں ہو کہ اس عضو کی ہیئت نہ دکھائی دےجیسا کہ فتاوی شامی میں ذکر فرمایا اور میں نے اس کے حواشی میں اس کی تحقیق کر دی ۔ (تیسری بات) لباس کی وضع کا لحاظ رکھا جائے کہ کافروں کی شکل و صورت اور فاسقوں کے طرز و طریقے پر نہ ہو ۔۔۔پس مردوں اور عورتوں کا مسنون لباس چادر، تہبند ،جبہ ،کرتہ ہے؛ شلوار یعنی زیر جامہ اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پہنا ، لیکن پہننے والوں کی تعریف فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسے خریدنا ، ثابت ہے ۔“ (فتاوی رضویہ،ج22،ص190تا193،رضا فاؤنڈیشن،لاھور) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 13 محرم الحرام 1440 ھ/24 ستمبر 2018 فتوی ٰ:02کلف والا لباس اور تنگ لباس پہنناکیسا؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کلف ،نشاستہ دئے ہوئے کپڑے پہننا کیسا ہے ؟ پردے میں رہ کر تنگ کپڑے پہننا کیسا ہے ؟کہتے ہیں کہ جو دنیا میں تنگ کپڑے پہنتا ہے ، مرنے کے بعد اس کی قبر بھی تنگ ہوجاتی ہے کیا یہ بات درست ہے ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب کلف اور نشاستہ دیا ہوکپڑا پہن سکتے ہیں ،کہ ممانعت کی کوئی وجہ نہیں، البتہ ایسا کپڑا تکبر یا فخر کے طور پر پہنے تو گناہ ہے یا کپڑا ایسا تنگ ہو کہ اس سے اعضاء کی ہیت معلوم ہوتو لوگوں کے سامنے پہننا منع ہے، لیکن یہ چیزیں مذکورہ بالا کپڑوں کے ساتھ خاص نہیں۔ کسی بھی کپڑے میں یہ وصف پایا جائے تو یہی حکم ہوگا۔ بغیر کسی شرعی وجہ کے ایسا تنگ کپڑا لوگوں کے سامنے پہنا جس سے بد نگاہی ہویا تکبر و فخر کے طور پر ایسا لباس پہنا ، توممکن ہے کہ گناہ ہونے کی وجہ سے بطورِ عذاب ایسی میت کےلئے قبر تنگ ہوجائے، لیکن بطورِ خاص اسی عمل پر کوئی ایسی وعید نظر سے نہیں گزری۔ صدر الشریعہ مو لانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ’’ ایسا دبیز کپڑاجس سے بدن کارنگ نہ چمکتا ہو مگر بدن سے بالکل چپکاہوا ہے کہ دیکھنے سے عضوکی ہیت معلوم ہوتی ہے ایسے کپڑے سے نماز ہو جائے گی مگر اس عضو کی طرف دوسرے کو نگاہ کرنا ، جائز نہیں اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا بھی منع ہے ۔‘‘ (بھار شریعت ، حصہ 3 ، جلد 1 ، صفحہ 480 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 09جمادی الثانی1427ھ06جولائی2006ء فتوی ٰ:03کیا مرد بوسکی کا کپڑا پہن سکتا ہے ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مرد کا بوسکی کا لباس پہننا کیسا ہے؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب مارکیٹ میں بہت ساری اَقْسام کی ”بوسکی“موجود ہے۔ عام طور پر جس ”بوسکی“ نام کے کپڑے کو بیچا جاتا ہے، اُس میں چمک، ملائمت اور لچک موجود ہوتی ہے، مگر اُس کی بناوٹ اور تیاری میں خالص ریشم کا استعمال نہیں ہوتا، بلکہ مصنوعی طور پر ریشم جیسی خصوصیات پیدا کرنےکے لیے خالص ریشم کے علاوہ دیگر ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں، لہٰذا ایسا کپڑا پہننے میں کوئی حرج نہیں، کہ جب اُس کپڑے میں ریشم کا استعمال ہی نہیں، تو اُس کے ممنوع ہونے کی وجہ بھی موجود نہیں، لہٰذا مَرد کو اِس طرح کی بوسکی پہننا جائز ہے، البتہ معلومات کے مطابق بعض مہنگی اور اعلیٰ قسم کی بوسکی میں ریشم کے کیڑے سے حاصل شدہ خالص ریشم استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا خالص ریشم استعمال ہونے کی صورت میں مرد کا اُسے پہننا حرام ہو گا،مگر وہ کپڑا پہننے کے حرام ہونے کا دارومدار نیچے دی گئی دو صورتیں پائے جانے پر ہو گا ۔ 1. اُس کپڑے کی تیاری میں تانا اور بانا دونوں ریشم کے ہوں۔ 2. تانا اگرچہ ریشم کا نہ ہو، مگر بانا میں استعمال ہونے والا دھاگہ مکمل ریشم کا ہو۔ اگر مکمل تصدیق کے ساتھ اِس بات کا علم ہو جائے کہ بوسکی میں مذکورہ دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے مطابق کیڑے سے پیدا شدہ ریشم استعمال کیا گیا ہے ، تو مرد کے لیے اُس کا استعمال شرعاً ناجائز وگناہ اور حرام ہے۔ چنانچہ ریشم کی حرمت کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’إن هذين حرام على ذكور أمتي، حل لإناثهم‘‘ترجمہ:بے شک اِن دونوں (ریشم اور سونے) کا استعمال میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں کے لیے حلال ہے ۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب اللباس،باب لبس الحریر الخ ،صفحہ257،مطبوعہ کراچی) تانا بانا دونوں ریشم کے ہوں تو کپڑا پہننا حرام ہے، چنانچہ علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) لکھتےہیں:’’ولبس الحرير الخالص حرام‘‘ترجمہ:خالص ریشم پہننا حرام ہے۔ (المحیط البرھانی، جلد5، کتاب الطلاق، الفصل الحادی عشر ، صفحہ348، مطبوعہ بیروت) تانا ریشم کا ہو، مگر بانا کسی اور دھاگے کا ہو، تو ایسا کپڑا پہننا جائز ہے، چنانچہ تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:’’و يحل ( لبس ما سداه ابريسم ولحمتہ غیرہ) ككتان و قطن و خز لأن الثوب إنما يصير ثوباً بالنسج، و النسج باللُحمة، فكانت هي المعتبرة دون السدي‘‘ترجمہ:مرد کے لیے ایسا لباس پہننا کہ جس کا تانا ریشم کا ہو اور بانا کسی اور چیز مثلاً سَن(ایک پودا جس سے ریشے حاصل کیے جاتے ہیں)، سُوت(کاٹن/Cotton) یا اُون کا ہو تو یہ جائز ہے، کیونکہ کپڑے کے کپڑا ہونے کا دارومدار بُنے جانے پر ہوتا ہےاور بُننا ”بانے“سے ہوتا ہے، لہذا کپڑے میں بانے کا ہی اعتبار ہوتا ہے، تانے کا اعتبار نہیں ہوتا۔ (تنویر الابصار ودرمختار مع ردالمحتار ، جلد9، کتاب الحظر والاباحۃ، صفحہ588، مطبوعہ کوئٹہ) البتہ اگر دِکھنے میں ریشم ہی ریشم محسوس ہو رہا ہو تو پہننا مکروہ ہے، چنانچہ بہارِ شریعت میں ہے:تانا ریشم ہو اور بانا سوت، مگر کپڑا اس طرح بنایا گیا ہے کہ ریشم ہی ریشم دکھائی دیتا ہے تو اُس کا پہننا مکروہ ہے۔‘‘ (بھارِ شریعت، جلد3، حصہ 16، صفحہ410،مکتبۃ المدینہ،کراچی) بانا ریشم کا ہو اور تانا اگرچہ کسی اور دھاگے کا ہو، ایسا کپڑا پہننا حرام ہے، کہ کپڑے میں اعتبار ”بانے“ کا ہی ہوتا ہے، چنانچہ امام اہلِسنت امام احمد رضا خان رَحِمَہ اللہ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’حرم ما لحمته حرير لا ما سداه لأنّه لَم يتمّ الثوب إذ ذاك‘‘ترجمہ:ایسا کپڑا پہننا حرام ہے کہ جس کا ”بانا“ ریشم کا ہو اور ”تانا“ ریشم کا نہ ہو، کیونکہ کپڑا بانے کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔(یعنی کپڑے میں بنیادی حیثیت بانے کی ہے، تانے کی نہیں۔) (جدالممتار، جلد4، صفحہ530، مکتبۃ المدینہ،کراچی) ”تانا بانا“ سے کیا مراد ہے؟ اِس کی وضاحت کرتے ہوئے مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں: لمبا تار تانا کہلاتا ہے،چوڑائی والا تار جو بُناجاتا ہے، اُسے بانا کہتے ہیں،بانے کا اعتبار ہے تانے کا نہیں۔۔۔اصل ریشم کی پہچان یہ ہے کہ اُس کو جلاؤ تو اُس سے گوشت جلنے کی سی بو آتی ہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح، جلد6،کتاب اللباس، صفحہ126، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات) اگرکپڑاایسا ہوکہ لچک، چمک اور ملائمت سب ریشم جیسی ہو،مگرحقیقت میں اُس کے اندر ریشم کی ملاوٹ اورآمیزش نہ ہو،تواُسے پہننا جائز ہے، اگرچہ اُسے عرفاً ریشم کا نام دے دیا جائے، کہ نام رکھ دینے سے چیز کی حقیقت نہیں بدلتی، چنانچہ امام اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحِمہ اللہ سے ریشم نُما جاپانی اور وِلایتی سِلْک کپڑوں کے پہننے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ رحِمہ اللہ نے لکھا:’’سِلک کو بعض نے کہا کہ انگریزی میں ریشم کانام ہے، اگر ایسا ہو بھی، تو اعتبار حقیقت کا ہے، نہ کہ مجرد نام کا، بربنائے تشبیہ بھی ہوتاہے، جیسے ”ریگ ماہی“ مچھلی نہیں۔”جرمن سلور(German Silver)“ چاندی نہیں۔ جو کپڑے ”رام بانس“ یا کسی چھال وغیرہ چیز غیر ریشم کے ہوں، اگر چہ صناعی سے اُن کو کتنا ہی نرم اور چمکیلا کیا ہو، مرد کو حلال ہیں اور اگر خالص ریشم کے ہوں یا بانار یشم ہو اگرچہ تاناکچھ ہو توحرام ہے۔ یہ اَمر اُن کپڑوں کو دیکھ کر یا اُن کا تارجلا کر واقفین سے تحقیق کرکے معلوم ہوسکتاہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد22،صفحہ194،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور) اگر کوئی کپڑا خالص ریشم سے تیار شدہ نہ ہو، مگر اپنی ملائمت، چمک اور لچک کے سبب ریشم محسوس ہو تو اُسے پہننے کا جواز اپنی جگہ، مگر نہ پہننا بہتر ہے، تا کہ لوگوں کو بدگمانی کا موقع نہ ملے، چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’ریشم کیڑے سے پیدا ہوتا ہے، آج کل درختوں کی چھال کو باریک کر کے بھی ریشم بناتےہیں، مگر یہ نہ حقیقتاً ریشم ہے نہ اُس کا پہننا حرام ہے، اگر یہ ”چائنہ سِلک “ نقلی ریشم ہو تو جائز ہو گا۔ جو لوگ اِس کے ماہر ہیں، وہ شناخت کر سکیں گے، کہ یہ اصلی ریشم ہے یا نقلی، بظاہر دیکھنے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصلی ریشم ہے، بہر حال اگر اس کا نقلی ہونا ثابت ہو جائے ،تو حرام نہ ہوگا، پھر بھی احتیاط چاہیے کہ اگرچہ حرام نہ ہو، مگر لوگوں کو بدگمانی کا موقع ہے اور ایسے امور سے پرہیز چاہیے۔ حدیث میں ہے:اتقوا مواضع التھم(ترجمہ:تہمتوں کی جگہوں سے بچو)۔‘‘ (فتاویٰ امجدیہ، جلد4،کتاب الحظرو الاباحۃ، صفحہ64،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 06ذوالحجۃ الحرام1442 ھ/17 جولائی 2021ء فتوی ٰ:04ریشمی کپڑےکا حکم اورمرد کااسٹون واش ،سلک وغیرہ پہننا کیسا؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیاریشم کاکپڑامردکے لئے پہنناجائزہے؟اورآجکل مارکیٹ میں جومختلف قسم کے کپڑے آئے ہوئے ہیں جوبظاہرریشم کے لگتے ہیں جیسے جاپانی کپڑا،اسٹون واش اور سلک وغیرہ کیاان کاپہنناجائزہے یاناجائز؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب مردکے لئے ریشمی کپڑاپہننا،ناجائزوحرام ہے،احادیث میں ریشمی کپڑاپہننے والے مردکے بارے میں بہت سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔جیساکہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’لا تلبسوا الحریر فانہ من لبسہ فی الدنیا لم یلبسہ فی الآخرۃ ‘‘ترجمہ: ریشم نہ پہنو کیونکہ جو اسے دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔ (صحیح بخاری،ج02،ص967،مطبوعہ لاھور) ایک اورمقام پرنبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’انما یلبس الحریر من لاخلاق لہ فی الآخرۃ‘‘ترجمہ:جو ریشم پہنے گا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔(صحیح بخاری،ج06،ص867،مطبوعہ لاھور) علامہ تمرتاشی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ’’تنویر الابصار‘‘ میں ارشادفرماتے ہیں:’’یحرم لبس الحریرو لو بحائل علی المذھب علی الرجل لا المرأۃ‘‘ترجمہ:مرد کو ریشم پہننا حرام ہے اگرچہ ریشم اور اس کے بدن کے درمیان کوئی چیز حائل ہو ،صحیح مذہب کے مطابق اور عورت پر ریشم حرام نہیں۔(تنویر الابصار متن درمختار مع الشامی،ج09،ص506،مطبوعہ ملتان) البتہ اگرکپڑے،جبے یاعمامہ وغیرہ پرریشم کے حاشیہ یابیل کی چوڑائی چارانگل سے کم ہوتواس کااستعمال کرنامردکے لئے جائزہے۔جیساکہ صحیح مسلم میں ہے کہ ’’أن عمررضی اللہ تعالی عنہ خطب الناس بالجابیۃ فقال نھی نبی اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عن لبس الحریر الا موضع اصبعین اوثلاث اواربع واشاربکفہ‘‘ترجمہ:بیشک حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے مقام جابیہ میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشادفرمایاکہ اللہ کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایاسوائے دویاتین یاچارانگل کے مقدارکے اوراپنی ہتھیلی سے اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم،باب استعمال اناء الذھب،ج02،ص191،مطبوعہ لاھور ) علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’یحرم لبس الحریر علی الرجل الا قدر اربع اصابع کاعلام الثوب ‘‘ترجمہ:مرد کو ریشم پہننا حرام ہے سوائے چار انگلیوں کی مقدار ، جیسے کپڑے میں نقوش ۔ (درمختار مع ردالمحتار،ج09،ص507،مطبوعہ ملتان) علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ اس کے تحت فرماتے ہیں،’’و مثلہ فیما یظھر طرۃ الطربوش ای القلنسوۃ ما لم تزد علی عرض اربع اصابع‘‘ترجمہ:اور اسی کے مثل حکم ٹوپی کے کناروں میں ظاہر ہوتا ہے جب تک چار انگلیوں کے عرض سے زائد نہ ہو۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار ،ج09،ص507،مطبوعہ ملتان) تبیین الحقائق میں ہے:’’حرم لبس الحریر للرجل لاللمرأۃ الا قدر أربع أصابع‘‘ترجمہ:ریشم پہننامردکے لئے حرام ہے نہ کہ عورت کے لئے ،سوائے چارانگل کی مقدارکے۔ (تبیین الحقائق،فصل فی اللبس،ج06،ص340،مطبوعہ بیروت) اوراگرتھوڑاتھوڑاکرکے متفرق طورپرکپڑے وغیرہ پرکام ہواگرچہ چارانگل سے زائدہوتب بھی جائزہے۔جیساکہ علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:وظاھر المذھب عدم جمع المتفرق و لو فی عمامۃ کما بسط فی القنیۃ ‘‘ترجمہ:اور ظاہر مذہب یہ ہے کہ متفرق کو جمع نہیں کیا جائے گا اگرچہ عمامہ میں ہو جیسا کہ قنیہ میں مذکورہے۔ (درمختار مع ردالمحتار،ج09،ص507،مطبوعہ ملتان) اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’(ریشم)چارانگل سے زائدناجائزاوراس کااستعمال ممنوع ہے اورمتفرقاریشم کاکام ہوخواہ سونے چاندی کاجمع نہ کیاجائے گاجب تک مثل مغرق کے نظرنہ آتاہو۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج22،ص175،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور) دوسرے مقام پراعلی حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:’’یوہیں چاندی سونے کے کام کے دوشالے ،چادر کے آنچلوں ،عمامے کے پلوؤں ،انگرکھے ،کرتے ،صدری ،مرزائی وغیرہا کی آستینوں ،دامنوں ،چاکوں ،پردوں ، تولیوں ،جیبوں پر ہو ، گریبان کا کنٹھا ،شانوں پشت کے پان ترنج ، ٹوپی کا طرہ ،مانگ ،گوٹ پر کام ،جوتے کا کنٹھا گپھا ،کسی چیز میں کہیں کیسی ہی متفرق بوٹیاں یہ سب جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی تنہا چار انگل کے عرض سے زائد نہ ہو اگرچہ متفرق کام ملا کر دیکھیں تو چار انگل سے بڑھ جائے ، اس کا کچھ ڈر نہیں کہ یہ بھی تابع قلیل ہے اور اگر کوئی بیل بوٹا تنہا چار انگل عرض سے زیادہ ہو تو ناجائز کہ اگرچہ تابع ہے مگر قلیل نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج22،ص133،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور) مذکورہ بالااحادیث اورجزئیات اس حقیقی ریشم کی حرمت کے بارے میں ہیں جوکیڑے کے لعاب سے پیداہوتاہے اورانتہائی مضبوط ونرم ہوتاہے۔جیساکہ اردو لغت میں اس کی تعریف کچھ یوں بیان کی گئی ہے ۔’’ریشم:ایک کیڑے کے منہ کے لعاب کا تار جو نہایت مضبوط ،نرم اور چکنا ہوتا ہے۔ یہ عموماً ریشمی کپڑا بنانے کے کام آتا ہے۔‘‘ (اردو لغت،ج10،ص987،مطبوعہ اردو لغت بورڈ، کراچی) اور ریشم کے کیڑے کی تعریف کچھ یوں ہے،’’ریشم کا کیڑا: چھوٹا کیڑا جو شہتوت کے درخت پر پالا جاتا ہے اس کے لعاب دہن سے ریشم کا تار حاصل ہوتا ہے۔‘‘ (اردو لغت،ج10،ص987،اردو لغت بورڈ ،کراچی) اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’ شرعاً حریر(ریشم) اس کپڑے کو کہتے ہیں جو کیڑے کے لعاب سے بنایا جائے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج22،ص181،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور) مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ریشم کے کپڑے پہننامردوں پرحرام ہے،حدیث میں ارشادہوا:’’محرم علی ذکورامتی‘‘ریشم کیڑے سے پیداہوتاہے۔‘‘ (فتاوی امجدیہ،ج04،ص64،مطبوعہ دارالعلوم امجدیہ) لہذا حقیقتاً ریشم وہی ہے جو ریشم کے کیڑے کے لعاب سے پیدا ہوتا ہے،اور اسی کی حرمت منصوص ہے۔ اس کے علاوہ وہ کپڑے جوبظاہرریشم کے محسوس ہوتے ہیں،جیسے اسٹون واش،سلک وغیرہ،ان کے بارے میں باوثوق ذرائع سے معلوم ہواہے کہ ان میں اصلی ریشم( یعنی جومخصوص کیڑے کے لعاب سے بنتاہے)نہیں ہوتابلکہ عموماان میں پولیسٹریانقلی ریشم ہوتاہے یاریڈیم کی ملاوٹ کرکے شائنگ اورچمک پیداکی جاتی ہے جس سے کپڑاریشمی معلوم ہوتاہے۔اگرفی الواقع ایساہی ہے توایسے کپڑوں کواستعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ شرعاریشم وہی حرام ہے جواصلی ہو۔جیساکہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویہ‘‘میں ارشادفرماتے ہیں:’’سلک کو بعض نے کہاکہ انگریزی میں ریشم کا نام ہے ،اگر ایسا ہو بھی تو اعتبار حقیقت کا ہے نہ کہ مجرد نام کا ،بربنائے تشبیہ بھی ہو سکتا ہے جیسے ریگ ماہی ،مچھلی نہیں ،جرمن سلور ، چاندی نہیں ۔جو کپڑے رام بانس یا کسی چھال وغیرہ چیز غیر ریشم کے ہوں اگرچہ صناعی سے ان کو کتنا ہی نرم اور چمکیلا کیا ہو مرد کو حلال ہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج22،ص194،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور) مذکورہ بالاعبارات سے معلوم ہواکہ ایساکپڑاجوبظاہرریشم معلوم ہومگردرحقیقت ریشم نہ ہو، تو اس کااستعمال کرنا، جائزہے۔البتہ ایساکپڑاپہننے سے لوگ بدگمانی میں مبتلاہوں گے اس لئے بچنابہترہے ، خصوصاوہ حضرات جوعوام الناس کے درمیان کسی دینی منصب پرفائز ہوں جیسے علماء کرام اورمشائخ عظام ،انہیں زیادہ احتیاط چاہیے۔جیساکہ صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ریشم کے کپڑے مردکے لئے حرام ہیں،بدن اورکپڑوں کے درمیان کوئی دوسرا کپڑاحائل ہویانہ ہو،دونوں صوتوں میں حرام ہیں اورجنگ کے موقع پربھی نرے ریشم کے کپڑے حرام ہیں…سن اوررام بانس کے کپڑے جوبظاہربالکل ریشم معلوم ہوتے ہوں،ان کاپہننااگرچہ ریشم کا پہننانہیں مگراس سے بچناچاہیے۔ خصوصاعلما کو کہ لوگوں کوبدظنی کاموقع ملے گایادوسروں کوریشم پہننے کاذریعہ بنے گا۔ ‘‘ (بھارشریعت،ج03،ص410، 411،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 22 شوال المکرم 1433ھ10ستمبر 2012ء فتوی ٰ:05مرد کا سلک اور ویلوٹ پہننا اور بچوں کو ریشمی کفن دیناکیسا؟
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1) مردوں کے لئے جو ریشم پہننے کی ممانعت ہے اس سے کونسا ریشم مراد ہے ؟ آج کے دور میں جو ریشم ہے کیا وہ بھی اس میں شامل ہے ؟ نیز سلک ، ویلوٹ وغیرہ کا کیا حکم ہے ؟ اور نابالغ کے لئے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ (2)سفید ریشمی کپڑا بچوں کو کفن کے طور پر دے سکتے ہیں یا نہیں؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب (1)کپڑا تیار کرنے میں اگر تانا بانا(جودهاگا لمبائی میں ہووہ تانا کہلاتا ہے اور جو چوڑائی میں ہو وہ بانا) دونوں ریشم کے ہوں یا صرف بانا ریشم کا ہو تو وہ کپڑا مَردوں کے لئے پہننا حرام ہے ۔ لیکن یہاں ریشم سے وہ وہ ریشم مراد ہے جو ریشم کے کیڑے سے بنتا ہے ۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز سے بنا ہو ا کپڑا حرام نہیں اگرچہ اسے ریشم کا نام دیا جاتا ہو ۔لہٰذا آج کل جس کپڑے کو ریشم کہا جاتا ہے وہ اگراس ریشم کے کیڑے سے نہیں بنایا جاتا بلکہ کسی اور چیز سے بنایا جاتا ہے تو وہ حلال ہے۔ یونہی سلک ، ویلوٹ وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے ۔اصلی ریشم کی صحیح پہچان تو اس کی واقفیت رکھنے والے ہی کر سکتے ہیں ، ہاں علماء نے اس کی ایک نشانی یہ لکھی ہے کہ اصلی ریشم کو جلانے سے گوشت کے جلنے جیسی بو آتی ہے۔ امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سلک کے کپڑے کے بارے میں سوال ہوا کہ کیا یہ ریشم میں داخل ہے یا نہیں؟ تو اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:”سلک کو بعض نے کہا کہ انگریزی میں ریشم کانام ہے۔ اگر ایسا ہو بھی تو اعتبار حقیقت کا ہے نہ کہ مجرد نام کا، بربنائے تشبیہ بھی ہوتاہے جیسے ریگ ماہی مچھلی نہیں۔ جرمن سلور، چاندی نہیں۔ جو کپڑے رام بانس یا کسی چھال وغیرہ چیز غیر ریشم کے ہوں اگر چہ صناعی سے ان کو کتنا ہی نرم اور چمکیلا کیا ہو مرد کو حلال ہیں اور اگر خالص ریشم کے ہوں یا بانار یشم ہو اگر چہ تاناکچھ ہو توحرام ہے۔ یہ امر ان کپڑوں کو دیکھ کر یا ان کا تار جلا کر واقفین سے تحقیق کر کے معلوم ہو سکتا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔“ (فتاوی رضویہ، جلد22، صفحہ194، رضا فاؤنڈیشن، لاھور) امام اہلسنت سے ایک اور کپڑے "ٹسر" کے متعلق سوال ہواجو ریشم کے علاوہ کسی اور کیڑے سے بنایا جاتا تھا تو اس کا جواب دیتے ہوئے امام اہلسنت لکھتے ہیں:”اللھم لک الحمد، جو کپڑا فقیر نے دیکھا ہے او اس کے متعلق بیان سائل نظر سے گزرا، اس نے صورۃ وصفۃ حریر سے مشابہت نہ پائی۔ یہ بہت خشن کثیف، ردی، اکثر معمولی کپڑوں سے بھی گری حالت میں ہے اسے نعومت، ملاست، نظافت، ایراث، تزین، وتکبر وتفاخر سے کچھ علاقہ نہیں۔ قیمت میں بھی سنا گیا ہے، کہ بہت ارزاں ہے۔ وہ کرم جس سے یہ پیدا ہوتا ہے مسموع ہوا کہ وہ دود القز کے علاوہ اورکیڑا ہے۔ اس کی غذا ورق فرصاد یعنی برگ توت ہے اور اس کی ورق الخروع یعنی برگ بید انجیرجسے ہندی میں انڈی اور دیاربنگلہ میں رینڈی کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہ کپڑا وہاں انھیں ناموں سے مسمی ہے، اصل اشیاء میں اباحت ہے۔ جب تک شرع سے تحریم ثابت نہ ہو اس پر جرأت ممنوع و معصیت ہے۔۔۔ادعائے تحریم کے لئے لازم ہے کہ شرع سے خاص اس کپڑے کی حرمت پر دلیل قائم ہو یا ثبوت کافی دیا جائے کہ شرعا حریر اس کپڑے کوکہتے ہیں کہ جو کیڑے کے لعاب سے بنایا جائے اگر چہ دودالقز کا غیر ہو اگرچہ اس میں کوئی وجہ تزیّن وتفاخر وتشبہ بالجبابرۃ والاکاسرۃ کی نہ ہو ودونھما خرط القتاد بالجملہ جب تک تحریم ثابت نہ ہو اباحت اصلیہ شرعیہ پر عمل سے کوئی مانع نہیں،قال ﷲ تعالٰی خلق لکم مافی الارض جمیعا وﷲ سبحانہ وتعالی اعلم۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد22، صفحہ179تا181، رضا فاؤنڈیشن، لاھور) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں”ریشم سے مراد اصل یعنی کیڑے کا ریشم ، کیونکہ سن کا ریشم اور دریائی ریشم مرد کو حلال ہے کہ وہ ریشم نہیں ہے ۔ریشم اصل کی پہچان یہ ہے کہ اس کو جلا ؤ تو اس سے گوشت کے جلنے کی سی بو آتی ہے۔ “ (مراۃ المناجیح، جلد6، صفحہ126، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات) واضح رہے کہ نقلی ریشم جس طرح بالغ مردوں کو حلال ہے یوں ہی نابالغ بچوں کے لئے بھی جائز ہے ، البتہ اصلی ریشم نابالغ لڑکوں کو پہنانا حرام ہے اور گناہ پہننانے والے پر ہے ، چنانچہ بہار شریعت میں ہے ”نابالغ لڑکوں کو بھی ریشم کے کپڑے پہنانا حرام ہے اور گناہ پہنانے والے پر ہے۔“ (بھار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ415، مکتبۃ المدینہ،کراچی) (2)اصل ریشم تو جس طرح زندگی میں بچے کو نہیں پہنا سکتے اسی طرح مرنے کے بعد کفن میں دینا بھی جائز نہیں اور لڑکی کو جس طرح زندگی میں جائزہے اسی طرح کفن میں بھی جائز ہے اور اگر نقلی ریشم ہے تو وہ لڑکے و لڑکی دونوں کے لئے جائز ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا لہٰذا ان دونوں کے کفن میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ بہار شریعت میں ہے ” کسم یا زعفران کا رنگا ہوا يا ریشم کا کفن مرد کو ممنوع ہے اور عورت کے ليے جائز یعنی جو کپڑا زندگی میں پہن سکتا ہے، اُس کا کفن دیا جا سکتا ہے اور جو زندگی میں ناجائز، اُس کا کفن بھی ناجائز۔ “ (بھار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ819، مکتبۃ المدینہ،کراچی) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم الجواب صحیح کتبـــــــــــــــــــــــــہ مفتی فضیل رضا عطاری المتخصص فی الفقہ الاسلامی محمد ساجد عطاری 23جمادی الثانی1438ھ23مارچ2017ء فتوی ٰ:06مرد کے لیے سونے کے بٹن لگانا
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مرد کے لئے سونے کے بٹن لگانا ، جائز ہے یا نہیں ؟آجکل بٹن کا کچھ زیادہ رواج چلا ہوا ہے ، شرعی رہنمائی فرمائیں ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب سونے کے بٹن لگانا ،جائز ہے جبکہ بٹن زنجیر کے بغیرہو ں اور اگر زنجیر والے بٹن ہوں توپھر ان کا استعمال جائز نہیں کہ یہ زنجیر زیور کے حکم میں ہے اور اس کا استعمال مرد کے لئے حرام ہے ۔ علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ الرحمۃ درمختارمیں فرماتے ہیں’’لاباس بازرار الدیباج والذھب‘‘ترجمہ: ریشم اور سونے کے بٹن لگانے میں کوئی حرج نہیں ۔ (درمختار ،کتاب الحظر والاباحۃ جلد9،صفحہ586،مطبوعہ کوئٹہ) صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں :’’سونے چاندی کے بٹن کرتے یا اچکن میں لگانا ، جائز ہے، جس طرح ریشم کی گھنڈی جائز ہے یعنی جبکہ بٹن بغیر زنجیر ہوں اور اگر زنجیر والے بٹن ہوں تو ان کا استعمال ناجائز ہے کہ یہ زنجیر زیور کے حکم میں ہے، جس کا استعمال مرد کو ناجائز ہے۔ ‘‘ (بھار شریعت ،جلد3،حصہ 16،صفحہ415،مکتبۃ المدینہ، کراچی) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم الجواب صحیح کتبــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری المتخصص فی الفقہ الاسلامی ابوحذیفہ محمد شفیق عطاری 15 ذو الحجۃ الحرام 1439 ھ/27 اگست 2018 ء فتوی ٰ:07جاندار کی تصاویر والے کپڑے بچوں کو پہنانا اور ان کی خرید و فروخت کرنا
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جاندارکے چہرے کی تصویروالے لباس بنانااوربیچناجائزہے یانہیں ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب کسی جاندارکی تصویرجس میں اُس کاچہرہ موجودہواوراتنی بڑی ہوکہ زمین پر رکھیں تو اعضاء کی تفصیل بالکل واضح نظر آئے،اس طرح کی تصویروالےلباس بنانا،بیچنا، پہننا، پہناناسب ناجائزہے۔ امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن فرماتے ہیں :”جاندار کی تصویر بنانا مطلقاً حرام ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ ان اشد الناس عذابا یوم القیٰمۃ المصورون۔ اخرجہ احمدومسلم عن ابن مسعود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ(سب سے زیادہ سخت عذاب روزقیامت ان پر ہوگا جو جاندار کی تصویر بناتے ہیں ۔امام احمد اور مسلم نے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے اس کی تخریج فرمائی ہے۔) اوراس کی خریدوفروخت بھی جائزنہیں یہاں تک کہ علماء فرماتے ہیں : جوتصویر دارکپڑے بنائے بیچے اس کی گواہی مردودہے۔ فی الھندیۃ عن المحیط عن الاقضیۃ اذا کان الرجل یبیع الثیاب المصورۃ اوینسجھا لاتقبل شھادتہ(فتاویٰ ہندیہ میں محیط عن الاقضیہ کے حوالے سے منقول ہے کہ جب کوئی شخص تصویروں والے کپڑے بنائے یابیچے تو اس کی گواہی نامقبول ہے)۔“ (فتاوی رضویہ،ج24،ص60-559، رضافاؤنڈیشن،لاھور) فتاوی رضویہ میں ہے:”فوٹو ہویادستی تصویرپوری ہویانیم قد، بنانا، بنوانا سب حرام ہے نیز اس کاعزّت سے رکھناحرام اگرچہ نصف قد کی ہو کہ تصویر فقط چہرہ کانام ہے، نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’اشد الناس عذابا یوم القیامۃ من قتل نبیا اوقتلہ نبی والمصورون: ‘‘ (قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اس پرہے جس نے کسی نبی کو شہید کیا یا اسے نبی نے قتل فرمایااورتصویروالوں پر)اورفرماتے ہیں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم:ان الملٰئکۃ لاتدخل بیتا فیہ کلب ولاصورۃ‘‘(رحمت کے فرشتے اس گھرمیں نہیں جاتے جس میں کتایاتصویرہو)امام اجل ابوجعفرطحاوی سیدناابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت فرماتے ہیں : ”الصورۃ ھو الرأس “(فقط چہرہ تصویرہے)“ ( فتاوی رضویہ، ج 24، ص 568، رضافاؤنڈیشن،لاھور) فتاوی رضویہ میں ہے:” کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کاچہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہوکہ زمین پررکھ کرکھڑے سے دیکھیں تو اعضا کی تفصیل ظاہرہو، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پرہو اس کاپہننا، پہنانا یابیچنا، خیرات کرنا سب ناجائزہے، اور اسے پہن کرنمازمکروہ تحریمی ہے جس کادوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔“ ( فتاوی رضویہ، ج 24، ص 567، رضافاؤنڈیشن،لاھور) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی فضیل رضا عطاری 04صفرالمظفر1438ھ05نومبر2016ء فتوی ٰ:08جانوروں کے کارٹون والے کپڑے بچوں کو پہننا کیسا ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بچوں کوایسے کپڑے جن پر بلی ،کتاوغیرہ جانوروں کے واضح کارٹون بنے ہوتے ہیں ،ایسے کپڑے بچوں کو پہنانا ، جائزہے یانہیں ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب کارٹونز کی تصویر کسی زندہ وجاندار کی حکایت کرے تووہ کارٹون جاندار کی تصویر کے حکم میں ہے اورکسی جاندار کی تصویر جس میں اس کاچہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہوکہ زمین پررکھ کرکھڑے ہوکر دیکھیں تو اعضا کی تفصیل ظاہرہو، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پرہو اس کاپہننااور پہناناسب ناجائزوگناہ ہے۔ بحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے ’’ولبس ثوب فیہ تصاویرلانہ یشبہ حامل الصنم فیکرہ وفی الخلاصۃو تکرہ التصاویر علی الثوب صلی فیہ اولم یصل وھذہ الکراھۃ تحریمیۃ‘‘ ترجمہ:اورایساکپڑاپہنناجس میں تصاویرہوں مکروہ ہے اس لئے کہ اس میں بت اٹھانے والے کے ساتھ مشابہت ہے اورخلاصہ میں ہے کہ تصاویروالے کپڑے میں نمازپڑھے یانہ پڑھے مکروہ ہے اوریہ کراہت تحریمی ہے ۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق،جلد2،صفحہ29،دار الکتاب الاسلامی،بیروت) امام اہلسنت اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوٰی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کاچہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہوکہ زمین پررکھ کرکھڑے سے دیکھیں تو اعضا کی تفصیل ظاہرہو، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پرہو اس کاپہننا، پہنانا یابیچنا، خیرات کرنا سب ناجائزہے، اور اسے پہن کرنمازمکروہ تحریمی ہے جس کادوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ ایسے کپڑے پرسے تصویرمٹادی جائے یا اس کاسریاچہرہ بالکل محوکردیاجائے۔ اس کے بعد اس کاپہننا، پہنانا، بیچنا، خیرات کرنا، اس سے نماز، سب جائزہوجائے گا۔ اگر وہ ایسے پکے رنگ کی ہوکہ مٹ نہ سکے دھل نہ سکے توایسے ہی پکے رنگ کی سیاہی اس کے سریاچہرے پراس طرح لگادی جائے کہ تصویر کااُتنا عضومحوہوجائے صرف یہ نہ ہوکہ اتنے عضو کارنگ سیاہ معلوم ہوکہ یہ محوومنافی صورت نہ ہوگا۔ واﷲتعالیٰ اعلم۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ شریف،جلد24،صفحہ 567 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور ) جوچیزخودپہنناناجائزہووہ چیزکسی نابالغ کوپہنانابھی ناجائزہے،چنانچہ بحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:’’وکرہ الباس ذھب و حریرصبیالان التحریم لماثبت فی حق الذکور وحرم اللبس حرم الالباس کالخمرلماحرم شربھاحرم سقیھاللصبی‘‘ترجمہ:چھوٹے بچوں کوسونے والا اور ریشمی لباس پہننانامکروہ (تحریمی)ہے اس لئے کہ مردوں کے حق میں حرمت ثابت ہوگئی ہے اورجس کا پہننا حرام ہے اس کاپہنانابھی حرام ہے جیساکہ شراب جب اس کاپیناحرام ہے توبچے کواس کاپلانابھی حرام ہے۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق ،جلد8،صفحہ217،دار الکتاب الاسلامی،بیروت) البتہ کوئی ایساکارٹون ہوجوکسی جانداروزندہ کی حکایت نہ کرتاہوبلکہ فرضی وخیالی بے جان اشیاء جیسے کوئی ڈبہ وغیرہ دوڑتادکھائی دے توایساکپڑاپہننا،پہناناوغیرہ جائزہے ۔ و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی ابوالحسن محمد ھاشم خان عطاری 01رمضان المبارک 1435ھ31مئی 2014ء فتوی ٰ:09سیاہ لباس پہننے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ سیاہ رنگ کالباس پہننا شرعا کیسا ہے؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب سیاہ کپڑے بطورِ سوگ پہنناناجائزوگناہ ہے سوائے عورت کے کہ وہ اپنے شوہرکی وفات کے غم میں صرف تین دن تک پہن سکتی ہے اورتین دن کے بعداس کے لئے بھی جائزنہیں ۔اوراگرسیاہ کپڑے بطورِسوگ یااظہارغم کے لئے نہ پہنے جائیں توجائزہے ،اس میں کوئی حرج نہیں ۔ چنانچہ بطورِ سوگ سیاہ کپڑے پہننے کے ناجائزہونے کے بارے میں فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ لایجوز صبغ الثیاب اسودتأسفاعلی المیت ‘‘ترجمہ:میت کے سوگ کے طورپرسیاہ رنگ کے کپڑے پہننا جائزنہیں ۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب الکراھیۃ،الباب التاسع،ج5،ص333،مطبوعہ کوئٹہ) عورت کااپنے شوہرکی وفات کے غم میں تین دن تک سیاہ کپڑے پہننے کے جوازکے بارے میں علامہ عالم بن علاء الانصاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’وفی الیتیمۃ سئل ابو الفضل عن المرأۃ یموت زوجھا او ابوھا اوغیرھامن الاقرباء فتصبغ ثوبھا اسود فی المتن فتلبسھا شھرین او ثلاثۃ او اربعۃ تأسفا علی المیت ھل تعذر فی ذلک ؟فقال: لا،وسئل عنھا علی بن احمد فقال : لاتعذر وھی آثمۃ فی ذلک الا الزوجۃ فی حق زوجھا فانھا تعذر الی ثلاثۃ ایام‘‘ترجمہ:اور ’’یتیمہ‘‘میں ہے کہ علامہ ابوالفضل سے ایسی عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس کا شوہر یا والد یا کوئی اور رشتے دار فوت ہوگیا ،تو اس نے اپنے کپڑوں کوسیاہ رنگ سے رنگا اور متن میں ہے کہ دویا تین یا چار ماہ میت کے غم کی وجہ سے سیاہ کپڑے پہنے رہی ،تو کیا اس عورت کے لئے یہ جائز ہے؟توانہوں نے فرمایا:نہیں اور علامہ علی بن احمد علیہ الرحمۃ سے یہی سوال پوچھاگیا(یعنی عورت کا میت کے غم میں سیاہ کپڑے پہننا)،تو انہوں نے فرمایاکہ اس عورت کے لئے (سیاہ کپڑے پہننا)جائز نہیں اور اگر پہنے گی توگنہگار ہوگی،مگر یہ کہ بیوی کہ جب اس کا شوہر فوت ہوجائے تو صرف تین دن تک پہن سکتی ہے۔ (فتاوی تاتارخانیہ،کتاب الطلاق،ج4،ص55،مطبوعہ کراچی) اوراگرسیاہ لباس پہنناسوگ یاغم کے اظہارکے لئے نہ ہوتواس کے پہننے کے جوازکے بارے میں صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :’’اورسیاہ کپڑے غم ظاہر کرنے کیلئے نہ ہوں تو مطلقا جائز ہیں ۔‘‘` (بھارِ شریعت،ج2،ص244،مکتبۃ المدینہ ،کراچی) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم الجواب صحیح کتبــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری المتخصص فی الفقہ الاسلامی عبدالرب شاکرعطاری مدنی 13شعبان المعظم1438ھ10مئی2017ء فتوی ٰ:10خاص کفار یا فساق کی طرز کا لباس پہننا
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ خاص کفّار یا فُسّاق کی طرز کا لباس پہننا کیسا؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب دریا فت کردہ مسئلہ کی چند صورتیں ہیں : (1)ایسا لباس جو خاص کفّار کی طرز كا ہو اور ان کا مذہبی شِعَار (علامت )ہو،اُسے بغیر کسی شرعی ضرورت کے پہننا کفر ہے،کیونکہ اس میں کفّار کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا پایا جاتا ہے ، جیسے ہندوؤں کا زنّار باندھنا یا ہندو پنڈتوں کا خاص مذہبی لباس جو وہ اپنی عبادت کے وقت ہی پہنتے ہیں۔ (2) اور ایسا لباس جو کفّار کا مذہبی شِعَار تو نہ ہو ،مگر ان کی قوم کا خاص لباس ہو ،جیسے وہ دھوتی جو خاص ہندوؤں کی طرز کی ہویا فاسقوں کی طرز کا مخصوص لباس ہو ، مثلاً فی زمانہ عورتوں کا(Tights) تنگ اور چست لباس پہننا ، کہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے اسے فُسّاق کی وضع کا لباس قراردیا ،تو ایسا لباس پہننا مکروہِ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے ۔ (3)اور ایسا لباس جو کفّار کا مذہبی شعار نہ ہو اور نہ ہی اُن کا مخصوص لباس ہو،بلکہ عام مسلمان بھی ویسا لباس پہنتے ہوں،مثلاًمردوں کامہذب انداز کی پینٹ شرٹ پہننا،تو اُس کا پہننا جائز ہے۔ کسی قوم سے مشابہت اختیار کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘ترجمہ:جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے ، تو وہ انہیں میں سے ہے ۔( سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فی لبس الشھرۃ ،جلد2 ،صفحہ 203،مطبوعہ لاھور) بیان کردہ حدیثِ پاک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1014ھ/ 1605ء) لکھتے ہیں:”أي:من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار(فهو منهم) : أي فی الاثم والخير “ترجمہ: یعنی جس نے اپنے آپ کو کفار کے مشابہ کیا ،مثلا لباس وغیرہ میں یا فساق و فجار کے مشابہ کیا یا صوفیا ،صلحااور نیک لوگوں کی مشابہت اختیار کی، تووہ اُنہی کے ساتھ ہو گا، یعنی (بُروں کے ساتھ )گنا ہ میں اور(اچھوں کے ساتھ ) نیکی میں ۔(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،جلد8،صفحہ 222،رقم الحدیث 4347،مطبوعہ کوئٹہ) خاتم المحدثین شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1052ھ)لکھتے ہیں:”المتعارف في التشبه هو التلبس بلباس قوم، وبهذا الاعتبار أورده في (كتاب اللباس)، وهو بإطلاقه يشمل الأعمال والأخلاق واللباس سواء كان بالأخيار أو بالأشرار... وبالجملۃ حکم المشابہ للشئ حکمہ ،ظاھراً کان اوباطنا “ ترجمہ: مشابہت میں معروف یہی ہےکہ کسی قوم کا لباس پہن کر اس جیسا حلیہ اپنا یاجائے ،اسی لیے اس حدیثِ پاک کو کتاب اللباس میں ذکر کیا گیا ،البتہ یہ حدیث پاک اپنے اطلاق (مطلق ہونے )کی وجہ سے اعمال، اخلاق اور لباس وغیرہ سب کو شامل ہے ،خواہ اچھوں کے ہوں یا بُروں کے ... خلاصہ کلام یہ کہ جو کسی چیز کے مشابہ ہو اس کا حکم بھی ظاہری اور باطنی اعتبارسے اس چیز والا ہی ہو تاہے ۔ (لمعات التنقیح ،جلد7،صفحہ356،کتاب اللباس ،الفصل الثانی ،مطبوعہ دار النور ،دمشق ) اور مذکورہ حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”یہ حدیث ایک اصل کلی ہے، لباس و عادات و اطوار میں کن لوگوں سے مشابہت کرنی چاہیے اور کِن سے نہیں کرنی چاہیے۔ کفار و فساق و فجار سے مشابہت بُری ہے اور اہلِ صلاح و تقویٰ کی مشابہت اچھی ہے ،پھر اس تشبہ کے بھی درجات ہیں اور انھیں کے اعتبار سے احکام بھی مختلف ہیں۔ کفار و فساق سے تشبہ کا ادنیٰ مرتبہ کراہت ہے، مسلمان اپنے کو ان لوگوں سے ممتاز رکھے ،کہ پہچانا جاسکے اور غیر مسلم کا شبہ اس پر نہ ہوسکے۔‘‘ (بھار شریعت ،لباس کا بیان ،حصہ 16،صفحہ407، مکتبۃ المدینہ ،کراچی) کفار سے لباس وغیرہ میں مشابہت اختیار کرنے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امام اہلِسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” اس طرح کے مسائل میں حقِ تحقیق وتحقیقِ حق یہ ہے کہ تشبہ دو وجہ پرہے: التزامی ولزومی، التزامی یہ ہے کہ یہ شخص کسی قوم کے طرزووضع خاص اسی قصد سے اختیارکرے کہ ان کی سی صورت بنائے ان سے مشابہت حاصل کرے حقیقۃً تشبہ اسی کانام ہے اور لزومی یہ کہ اس کاقصد تومشابہت کانہیں مگروہ وضع اس قوم کاشعارخاص ہورہی ہے کہ خواہی نخواہی مشابہت پیداہوگی۔ التزامی میں قصد کی تین صورتیں ہیں:اول یہ کہ اس قوم کومحبوب ومرضی جان کر اُن سے مشابہت پسند کرے ،یہ بات اگرمبتدع کے ساتھ ہو،(تو) بدعت اور کفّار کے ساتھ(ہو ،تو) معاذاﷲ کفر، حدیث ’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘(جو کسی قوم سے مشابہت اختیارکرے تو وہ ، انہی میں سے شمارہوگا۔) حقیقۃً صرف اسی صورت سے خاص ہے۔ دوم: کسی غرض مقبول کی ضرورت سے اِسے (تشبہ )اختیارکرے وہاں اس وضع کی شناعت اور اس غرض کی ضرورت کاموازنہ ہوگا اگرضرورت غالب ہو، تو بقدرِضرورت کاوقتِ ضرورت یہ تشبیہ کفرکیا معنی، ممنوع بھی نہ ہوگا، جس طرح صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے مروی کہ بعض فتوحات میں منقول رومیوں کے لباس پہن کر بھیس بدل کر کام فرمایا او ر اس ذریعہ سے کفار اشرار کی بھاری جماعتوں پرباذن اﷲ غلبہ پایا۔سوم: نہ تو اُنہیں اچھاجانتا ہے نہ کوئی ضرورتِ شرعیہ اس پرحامل ہے، بلکہ کسی نفع دنیوی کے لئے یایوہیں بطورِہزل واستہزاء اس کامرتکب ہوا،توحرام وممنوع ہونے میں شک نہیں اور اگروہ وضع اُن کفارکامذہبی دینی شعارہے ، جیسے زنّار، قشقہ، چُٹیا، چلیپا، تو علماء نے اس صورت میں بھی حکمِ کفردیا اور فی الواقع صورتِ استہزاء میں حکمِ کفر ظاہرہے ۔ اور تشبہ لزومی میں بھی حکمِ ممانعت ہے ،جبکہ اکراہ وغیرہ مجبوریاں نہ ہوں جیسے انگریڑی منڈا، انگریزی ٹوپی، جاکٹ، پتلون، اُلٹاپردہ، اگرچہ یہ چیزیں کفار کی مذہبی نہیں مگرآخرشعار ہیں تو ان سے بچنا واجب اور ارتکاب گناہ۔ ولہٰذا علماء نے فسّاق کی وضع کے کپڑے موزے سے ممانعت فرمائی۔ ۔۔۔اس تحقیق سے روشن ہوگیا کہ تشبُّہ وہی ممنوع ومکروہ ہے جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یاوہ شے ان بدمذہبوں کاشعارِخاص یافی نفسہ شرعاً کوئی حرج رکھتی ہو، بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔(فتاویٰ رضویہ، جلد24،صفحہ534،530،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور) کفارکا ایسا لباس جوان کا شعار تو نہ ہو،لیکن اُن کے ساتھ یا فاسقوں کے ساتھ خاص ہو ، اُسے پہننے کے متعلق امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :”اگر( کوئی لباس) کافروں یا فاسقوں سے کوئی خصوصیت رکھتاہو، تو پھر اس کا استعمال بھی ناجائز ہے...اور دھوتی(جو خاص ہندؤوں کی طرز کی ہو ) دو وجوہ کی بناء پر ممنوع قابلِ ترک ہے، ایک اس لئے کہ ہندؤوں کا لباس ہے۔ ‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد22،صفحہ192،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور) تنگ اور چست لباس پہننے میں وضعِ فُسّاق ہونے کے متعلق امامِ اہلسنت رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں: ” یونہی (عورتوں کے ) تنگ پائنچے بھی، نہ چوڑی دار ہوں، نہ ٹخنوں سے نیچے، نہ خوب چست بدن سے سلے، کہ یہ سب وضعِ فُسّاق ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد22،صفحہ162،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاهور) کفار سے اُن کے مذہبی شِعَار میں مشابہت اختیار کرنے کے متعلق موسوعۃ الفقہیہ میں ہے:’’ ذهب الحنفية على الصحيح عندهم،والمالكية على المذهب، وجمهور الشافعية إلى:أن التشبه بالكفار في اللباس الذي هو شعار لهم به يتميزون عن المسلمين، يحكم بكفر فاعله ظاهرا، أي في أحكام الدنيا‘‘ ترجمہ: صحیح مذہب پر احناف، مالکیہ اور جمہور شافعیہ کا یہ مذہب ہے کہ کفار کےساتھ ایسے لباس میں مشابہت اختیار کرنا، جو ان کا شِعَار ہو اور وہ اُس لباس کے ذریعے مسلمانوں سے ممتاز ہوتے ہوں ،توایسے لباس میں اُن کی مُشابَہَت اختیارکرنے والے پر ظاہراً یعنی دنیوی احکام میں کفر کا حکم دیا جائے گا۔ (الموسوعۃ الفقھيہ الکویتیہ ،جلد 12،صفحہ 5 ، مطبوعہ وزارتِ اوقاف، کویت) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 06ذوالحجۃ الحرام 1442ھ/17جولائی 2021ء فتوی ٰ:11لہنگا پہننا کیسا؟
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں عورتوں کو لہنگا پہننا اور لہنگا پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب فی زمانہ ہمارے ملک پاکستان میں جس قسم کا بڑے سائز کا پورے بدن کو اچھی طرح ڈھانپ دینے والا لہنگا رائج ہے اس طرح کا لہنگا پہننا اور اسے پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے کیونکہ لہنگا فی زمانہ شعارِ کفار نہیں رہا ، بلکہ مسلم خواتین میں بھی عام و شائع ہوچکا ہے اور لہنگا پہننے سے سترِ عورت بھی ہوجاتا ہے ،لہٰذا فی زمانہ لہنگا پہننے میں حرج نہیں ہے ۔ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں :’’ تشبہ وہی ممنوع ومکروہ ہے ، جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یاوہ شے ان بدمذہبوں کاشعارِخاص یافی نفسہ شرعاً کوئی حرج رکھتی ہو، بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔ ‘‘ (فتاویٰ رضویہ ، جلد 24 ، صفحہ 534 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور ) صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فتاویٰ امجدیہ میں اپنے زمانے میں لہنگا پہن نماز پڑھنے کے متعلق فرماتے ہیں : ’’ لہنگے سے بھی نماز ہوجائے گی ، جبکہ ستر ہوجاتا ہو ، مگر یہ ہندوؤں کا لباس ہے ۔ مسلمان عورتیں اس سے اجتناب کریں ۔۔۔ نماز کے لیے سترِ عورت فرض ہے۔ جب سترِ عورت ہوجائے ، نماز ہوجائے گی۔‘‘ ( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 1 ، صفحہ 182 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی ) فتاوی امجدیہ میں لہنگے کو ہندؤوں کا لباس قرار دیا ہے ، لیکن اب ہمارے زمانے میں ایسا نہیں ہے اور جب شعار بدل جائے تو حکم بدل جاتا ہے ، جیسا کہ فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے :’’ جو لباس کسی قوم کے ساتھ خاص نہ ہو یا پہلے خاص تھا ، اب خاص نہ رہا ، عام ہوگیا ، وہ کسی قوم کا خاص لباس نہیں کہلائے گا ۔ اگرچہ وہ اس قوم کا ایجاد کردہ ہے ۔۔۔۔ پینٹ کا استعمال ( جو پہلے صرف انگریزوں کے ساتھ ہی خاص تھا )اب بالکل عام ہوچکا ہے ، ہندو و مسلم ہر کوئی اس کو استعمال کرتا ہے ۔ کسی قوم کے ساتھ خاص نہ رہا ۔ اس لیے اگر پینٹ ایسا ڈھیلا ہو کہ نماز ادا کرنے میں دشواری نہ ہو ، تو اسے پہن کر نماز جائز ہے ۔‘‘ (فتاویٰ فقیہ ملت ، جلد 1 ، صفحہ 179 ، مطبوعہ شبیر برادرز ، لاھور ) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 16رجب المرجب1439ھ03اپریل2018ء فتوی ٰ:12عورت کے لیے چست اور تنگ لباس پہننے کا حکم؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت کاٹائٹ پاجامہ پہنناکیساہے؟آجکل مارکیٹ میں یہ پاجامے ٹائٹس کے نام سے ہی بکتے ہیں،انہی میں پینٹ کی ایک قسم ٹائٹ بھی ہے،عورت کایہ پہنناکیساہے ؟اس کو پہن کرعورت کی پنڈلیوں کی پوری ہیئت واضح ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات توچاک اتنے کھلے ہوتے ہیں کہ جسم توظاہرنہیں ہورہا ہوتااورنہ ہی جسم چمک رہاہوتاہے ، البتہ رانوں کی سائیڈوں کااوپرتک کے حصہ کی ہیئت ظاہرہوتی ہے ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب ٹائٹس تو بنائی ہی اس لیے جاتی ہیں کہ عضو کی ہیئت ظاہر ہو ، ایسے کپڑے اگرچہ موٹے ہوں ، مگر پھر بھی ایک طرح کی بے ستری ہے ، عضو کی پوری بناوٹ ظاہر ہوتی ہے ، لہٰذا بے پردگی کی وجہ سے بھی ناجائز ہے ۔ یونہی کافرہ اور فاسقہ عورتوں سے مشابہت بھی ہے یہ بھی ممنوع و ناجائز ہونے کی دلیل‘اس لئے مسلمان عورتیں اس کے قریب بھی نہ جائیں۔الامان والحفیظ اسے تو حدیث شریف میں قیامت کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے کہ عورتیں کاسیات عاریات ہوں گی یعنی لباس پہنیں گی مگر برہنہ ہوں گی ، اس کی شرح میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ چست لباس پہنے گی جس سے بدن کی بناوٹ ظاہر ہوگی ۔ الغرض گھر کے مردوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ گھر کی خواتین کو نت نئی بے پردگیوں سے باز رکھیں ورنہ باجود قدرت و استطاعت نہ روکنے کی وجہ سے وہ بھی سخت گنہگار ہوں گے عورتوں کو شرم و حیا اور پردہ کی تلقین کریں ، گھر سے باہر نکلنے میں کسی قسم کی بے پردگی نہ ہو ، اس کا لحاظ رکھا جائے ۔ قیامت کے دن دردناک عذاب اور اپنے کیے کے حساب کا خوف کرتے ہوئے شریعت کے دائرے میں زندگی بسر کی جائے ۔ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں’’چوڑی دار پاجامہ پہننا منع ہے کہ وضع فاسقوں کی ہے۔ شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آداب اللباس میں فرماتے ہیں:سراویل کہ در عجم متعارف است کہ اگر زیر شتالنگ باشد یا دوسہ چین واقع شود بدعت وگناہ است۔شلوار جو عجمی علاقوں میں مشہور ومعروف ہے اگر ٹخنوں سے نیچے ہو یا دو تین انچ (شکن) نیچے ہو تو بدعت اور گناہ ہے۔ یونہی بوتام لگا کر پنڈلیوں سے چمٹا ہوا بھی ثقہ لوگوں کی وضع نہیں۔ آدمی کو بدوضع لوگوں کی وضع سے بھی بچنے کا حکم ہے ، یہاں تک کہ علماء درزی اور موچی کو فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص فاسقوں کے وضع کے کپڑے یا جوتے سلوائے نہ سِیے اگر چہ اس میں اجر کثیر ( بہت زیادہ مال ) ملتاہو۔ فتاوٰی امام قاضی خاں میں ہے:الاسکاف اوالخیاط اذا استوجر علی خیاطۃ شیء من زی الفساق ویعطی لہ فی ذٰلک کثیر الاجر لایستحب لہ ان یعمل لانہ اعانۃ علی المعصیۃ۔اگر موچی یادرزی سے جب فاسقوں کی وضع کے مطابق کوئی چیز بنوانے یا سلوانے کے لئے اجارہ کیا جائے اور اس کام کے لئے اسے بہت اجرت دی جائے ، تو اس کے لئے یہ کام کرنا بہتر نہیں اس لئے کہ یہ گناہ کے سلسلے میں امداد ہے۔تویہ پاجامہ بھی اس راہ سے شرعی نہ ہوا، اگر چہ ٹخنوں سے اونچا ہونے میں حد شرع سے متجاوز نہیں ، شرعی کہنا اگرصرف اسی حیثیت سے ہے تو وجہ صحت رکھتاہے۔ اور اگر مطلقا مرضی و پسندیدہ شرعی مراد جیسا کہ ظاہر لفظ کا یہی مفاد تو صحیح نہیں۔ واللہ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد22،صفحہ172،رضافاؤنڈیشن،لاھور) اسی فتاوی رضویہ میں ہے:’’یونہی تنگ پائچے بھی نہ چوڑی دار ہوں نہ ٹخنوں سے نیچے، نہ خوب چست بدن سے سلے کہ یہ سب وضع فساق ہے اور ساتر عورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی کہ نساء کا سیات عاریات ہوں گی کپڑے پہنے ننگیاں، اس کی وجوہ تفسیر سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کپڑے ایسے تنگ چست ہوں گے کہ بدن کی گولائی فربہی انداز اوپر سے بتائیں گے جیسے بعض لکھنؤ والیوں کی تنگ شلواریں چست کرتیاں۔ردالمحتارمیں ہے:’’فی الذخیرۃ وغیرھا ان کان علی المراۃ ثیاب فلا باس ان یتامل جسدھا اذا لم تکن ثیابھا ملتزقۃ بھا بحیث نصف ماتحتھا وفی التبیین قالوا ولا باس بالتأمل فی جسدھا وعلیھا ثیاب مالم یکن ثوب یبین حجمھا فلا ینظر الیہ حنیئذ لقولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام من تامل خلف امرأۃ ورأی ثیابھا حتی تبین لہ حجم عظامھا لم یرح رائحۃ الجنۃ ولانہ متی کان یصف یکون ناظرا الی اعضائھا ؎ اھ ملخصا۔ذخیرہ وغیرہ میں ہے کہ اگر عورت نے لباس پہن رکھا ہو تو اس کے جسم کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ لباس اس قدر تنگ اور چست نہ ہو کہ سب کچھ عیاں ہونے لگے۔ تبیین میں ہے کہ ائمہ کرام نے فرمایا :جب عورت لباس پہنے ہو تو اس کی طرف دیکھنے میں کچھ حرج نہیں بشرطیکہ لباس ایسا تنگ اور چست نہ ہوجواس کے حجم کو ظاہر کرنے لگے (اگرایسی صورت حال ہو توپھر اس طرف نہ دیکھا جائے۔)حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس ارشادگرامی کی وجہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ جس کسی نے عورت کو پیچھے سے دیکھا اوراس کے لباس پر نظر پڑی یہاں تک کہ اس کی ہڈیوں کا حجم واضح اور ظاہر ہوگیا تو ایسا شخص (جو غیر محرم کو بغور دیکھ کر لطف اندوز ہونے والا ہے)جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا اور اس لئے کہ لباس سے انداز قدوقامت ظاہر ہو تو اس لباس کو دیکھنا مخفی اعضاء کو دیکھنے کے مترادف ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد22،صفحہ 162 ، 163 ،رضافاؤنڈیشن،لاھور) میرے پیرومرشدحضرت علامہ مولانامحمدالیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب پردے کے بارے سوال جواب میں ہے’’سوال:گھر سے باہر نکلتے وقت اسلامی بہنوں کو کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟ جواب:شَرعی اجازت کی صُورَت میں گھر سے نکلتے وَقت اسلامی بہن غیر جاذِبِ نظر کپڑے کا ڈِھیلا ڈھالا مَدَنی بُرقع اَوڑھے، ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جُرابیں پہنے۔ مگر دستانوں اور جُرابوں کا کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ کھال کی رنگت جھلکے۔ جہاں کہیں غیر مردوں کی نظر پڑنے کا امکان ہو وہاں چہرے سے نِقاب نہ اٹھائے مَثَلاً اپنے یاکسی کے گھر کی سیڑھی اور گلی مَحَلّہ وغیرہ۔نیچے کی طرف سے بھی اِس طرح بُرقع نہ اٹھائے کہ بدن کے رنگ برنگے کپڑوں پر غیر مردوں کی نظر پڑے۔ واضح رہے کہ عورت کے سر سے لے کر پاؤں کے گِٹّوں کے نیچے تک جسم کا کوئی حصّہ بھی مَثَلاً سر کے بال یا بازو یا کلائی یاگلا یا پیٹ یا پنڈلی وغیرہ اجنبی مرد (یعنی جسں سے شادی ہمیشہ کیلئے حرام نہ ہو )پر بلااجازتِ شَرْعی ظاہر نہ ہو بلکہ اگر لباس ایسامَہِین یعنی پتلا ہے جس سے بدن کی رنگت جَھلکے یاایسا چُست ہے کہ کسی عُضْو کی ہَیْئَتْ(یعنی شکل و صورت یا اُبھار وغیرہ)ظاہِر ہو یادوپٹّہ اتنا باریک ہے کہ بالوں کی سیاہی چمکے یہ بھی بے پَردَگی ہے ۔‘‘ (پردے کے بارے میں سوال جواب،صفحہ42/43،مکتبۃ المدینہ،کراچی) واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی فضیل رضا عطاری 16 محرم الحرام1436ھ10نومبر 2014ء فتوی ٰ:13عورت کا پینٹ پہننا کیسا ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ لڑکیاں پینٹ شرٹ پہن سکتی ہیں ؟بالکل جسم کے ساتھ ملی ہوئی اور دوسری وہ پینٹ شرٹ جو کھلی کھلی ہو دونوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب عورت کو پینٹ شرٹ پہننے کی قطعا اجازت نہیں ، چاہے پینٹ جسم سے چپکی ہوئی ہو یا کھلی ہو ، اس کی ممانعت کئی وجوہ سے ہے :ایک تو اس لئے کہ اس میں مَردوں کی مشابہت ہے اور مَردوں سے مشابہت ممنوع ہے۔ امام بخاری اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالی علیہما سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ لعن اللہ المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال ‘‘یعنی مردوں میں سے عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے اور عورتوں میں سے مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ (صحیح البخاری ، 10/333 ، رقم الحدیث 5886 ، جامع ترمذی 5، /98 ، رقم الحدیث2784 ) حافظ ابو داؤدرضی اللہ تعالی عنہ، سیدنا ابن ابی ملیکہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں :’’قیل لعائشۃ ان امرأۃ تلبس النعل فقالت لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم الرجلۃ من النساء ‘‘یعنی حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بارگاہ میں عرض کی گئی کہ ایک عورت مردانی وضع کی جوتی پہنتی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ رسول اکرم نور مجسم شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مردانی وضع اختیار کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ۔ (ابو داؤد 4/4099 مطبوعہ بیروت) علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس حدیث کے لفظ ’’الرجلۃ ‘‘کی تشریح میں لکھتے ہیں :’’التی تشبہ بالرجال فی زیھم او مشیھم او رفع صوتھم او غیر ذلک‘‘یعنی اس عورت پر لعنت فرمائی جو مردوں سے ان کے طریقہ ، ان کے چلنے ، آواز بلند کرنے اور اس کی مثل دیگر باتوں میں مشابہت اختیار کرے ۔ (فیض القدیر10/4991 مطبوعہ مکۃ المکرمہ) حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں :’’ تلبس النعل التی تختص بالرجال ‘‘یعنی وہ عورت ایسی جوتی پہنتی تھی جو مردوں کے ساتھ خاص ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح 8/246 مطبوعہ کوئٹہ) علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’ یحرم علی الرجل التشبہ بالنساء وعکسہ فی لباس اختص بہ المشبہ‘‘یعنی مرد وعورت کا ایک دوسرے کے ایسے لباس میں مشابہت اختیار کرنا ممنوع ہے جو دوسرے کے ساتھ خاص ہو۔ (فیض القدیر10/4991 مطبوعہ مکۃ المکرمہ) اس میں ممانعت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسے لباس کا پہننا فاسقہ عورتوں کا طریقہ کار ہے اور انہی کے ساتھ خاص ہے اور لباس کے بارے میں یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ وہ لباس جو فاسقوں کے ساتھ خاص ہو اس کا پہننا ممنوع ہے ۔ اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالی لباس کے بارے میں تیسرا قاعدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ سوم لحاظ وضع کہ نہ زی کفار باشد نہ طرق فساق (یعنی ) تیسری بات جس کا لحاظ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ وہ لباس کفار اور فساق کے طریقہ پر نہ ہو ۔‘‘ (فتاوی رضویہ 22/190 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن) اس طرح کا لباس پہننے میں تیسری قباحت یہ ہے کہ اس عورت کی پنڈلی وغیرہ کی مکمل ہیئت ظاہر ہوگی اور یہ بھی ممنوع ہے ۔اعلی حضرت امام اہلسنت رضی اللہ تعالی عنہ لکھتے ہیں :’’ یونہی تنگ پائچے بھی نہ چوڑی دار ہوں نہ ٹخنوں سے نیچے ، نہ خوب چست بدن سے سلے ،کہ یہ سب وضع فساق ہے اور ساتر عورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے ، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی کہ نساء کاسیات عاریات ہوں گی کپڑے پہنے ننگیاں ، اس کی وجوہ تفسیر میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کپڑے ایسے تنگ ہوں گے کہ بدن کی گولائی فربہی انداز اوپر سے بتائیں گے جیسے کہ بعض لکھنؤ والیوں کی تنگ شلواریں چست کُرتیاں ۔‘‘ (فتاوی رضویہ 22/163,162 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم الجواب صحیح کتبــــــــــــــــــــــــــہ مفتی فضیل رضا عطاری ابوحمزہ محمد حسان عطاری 10ربیع الاول 1432ھ14فروری2011ء فتوی ٰ:14عورت کا باریک لان کے کپڑے پہنناکیسا؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ آج کل مارکیٹ میں باریک لان کے کپڑےکثرت سے موجود ہیں، خواتین یہ لان بڑے شوق سے پہنتی ہیں ، حالانکہ ان کے باریک ہونے کی وجہ سے جسم کی رنگت ظاہر ہوتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ خواتین کا ایسا باریک لباس پہننا شرعا کیسا ہے؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب انسان کے لیےلباس اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہے،کہ اس کے ذریعے انسان پردہ اور زینت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر کئی فوائدبھی حاصل کرتا ہے۔اس نعمت اور اس کے بعض فوائد کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔لہذا اسے خدا کا احسان سمجھتے ہوئے چاہئے کہ اس رب کریم کے رحمت و برکت والے دین ،اسلام کی تعلیم کے مطابق ہی اسے استعمال کریں اور ہر اس انداز اور طریقے سے بچیں جو خدا کی مرضی کے خلاف ہے،مگر افسوس کہ آج کل معاشرے میں جس طرح دیگر برائیاں دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہیں، وہیں لباس کے معاملے میں بھی فیشن یا معیار کے نام پہ شرعی احکام کونظر انداز کیا جا رہا ہے۔لباس یا تو پورے ستر کو ڈھانپنے والا ہی نہیں ہوتا،بلکہ بازو، سینہ ،گردن وغیرہ کھلے ہوتے ہیں یا اتنا باریک ہوتا ہے کہ جس سے جسم کی رنگت جھلکتی ہے یا اتنا تنگ اور چست ہوتا ہے کہ اس سے نسوانی اعضاء کے ابھار واضح طورپرمحسوس ہوتے ہیں ، حالانکہ لباس کے معاملے میں اسلامی اصول بہت واضح ہیں اور وہ یہ کہ عورت کاچہرےکی ٹکلی،دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے علاوہ تمام بدن ستر میں داخل ہےیعنی عورت کے لیے غیر محرم کے سامنے بدن کے اتنے حصے کو چھپانا ضروری ہےاور فتنے کے خوف کی وجہ سےفی زمانہ عورت کوچہرے کےپردے کابھی حکم ہے، لہٰذاعورت کا لباس ایساہوناچاہئےجوبدن کواچھی طرح چھپاسکے اورایسالباس جوبدن کو نہ ڈھانپےیابظاہربدن کو توڈھانپ لے،لیکن اتنا باریک ہوکہ جس سے بدن کی رنگت جھلکے یا باریک تونہ ہو،لیکن اتنا چست اورتنگ ہو کہ جس سے اعضا کی ہیئت واضح طورپرمعلوم ہو،توایسالباس (سوائےشوہرکے)غیرمحرم کےسامنےمطلقاًاورکئی صورتوں میں محارم کے سامنےپہننا بھی ناجائز اور گناہ ہے،جیسےمحارم کےسامنےسرین یارانوں کی ہیئت واضح ہو،کیونکہ یہ لباس پردہ نہیں،بلکہ بے پردگی ہےاورایسالباس پہننےوالی عورتوں کے بارےمیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ یہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھیں گی ۔ اوربالخصوص وہ لباس جس سے اعضائےستر(بدن کے وہ اعضاجنہیں چھپانے کاحکم ہے )مکمل چھپےہوئےنہ ہوں یا بظاہرچھپےتوہوں،لیکن کپڑا باریک ہونے کی وجہ سے جسم کی رنگت ظاہر ہورہی ہو،توایسےلباس کی ایک بہت بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ اسے پہن کر عورت کی نماز ادا نہیں ہوگی ،اگرچہ وہ تنہائی میں ہی نماز پڑھے،کیونکہ نماز کے لیے چھپانے کے حکم میں داخل بدن کو چھپاناشرط ہےاوران اعضاءمیں سے کسی عضو کا چوتھائی حصہ کھلا ہویا کپڑا باریک ہونے کی وجہ سے اس عضو کی رنگت ظاہر ہورہی ہو، تو ایسی حالت میں نماز شروع ہی نہیں ہوتی ،بلکہ ذمہ پر باقی رہتی ہے ،اس طرح اگر ہزار نمازیں بھی ادا کی ہوں ،توان سب کو دوبارہ ادا کرنا فرض ہے۔پس اس بات سے بھی بخوبی اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ جو لباس دیگر خرابیوں کے ساتھ اللہ عزوجل کے حق کو پورا کرنے( نمازکی ادائیگی) میں بھی رکاوٹ بنتا ہو، وہ کس قدر بُرا لباس ہے؟ لہذاعورت کانماز اور اس کے علاوہ بھی باریک لان (جس سے بدن چمکے)یاایسا کوئی بھی کپڑا پہننا،ناجائز و ممنوع ہے کہ جس سے شرعی پردہ نہ ہو سکے۔ پھر فیشن اور برانڈ کے نام پر ایسے لباس بنانےاور بے حیائی کے گھٹیا سے گھٹیا حیاسوز مناظر کے ساتھ ان کی تشہیر کرنے والی اور کروانے والی کمپنیوں خصوصاً ایسے اشتہار دکھانے والے چینلزکو بھی اپنے طرزِ عمل پہ خوب غورکرلیناچاہئے کہ وہ دانستہ یا نادانستہ طورپرکفاراورشیطان کی خواہش کےمطابق اسلامی احکام وتعلیمات کے خلاف شیطانی و شہوانی کلچر عام کر کےمسلمانوں میں بے حیائی ، عریانی اور بے پردگی کو فروغ دے رہے ہیں، حالانکہ ایسوں کے بارے میں قرآن پاک میں سخت وعید بیان کی گئی ہے ۔فرمانِ باری تعالی ہے﴿ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ﴾ترجمہ:بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ،ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔( پارہ18،سورۃ النور،آیت19) اوربے حیائی پھیلانے کی مختلف صورتوں میں سے ایک حیاسے عاری لباس والے کلچر کو عام کرنا بھی ہے۔لہذا اس میں مبتلا افراد کو سوچنا چاہیے کہ وہ بروزِ قیامت اپنے رب کو کیا منہ دکھائیں گے؟ اور قرآن ِ کریم کےواضح احکام کے باوجوداس کلچر کو عام کرنے کا ان کے پاس کیاجواب ہو گا؟یقیناً وہ اس کا جواب نہیں دے پائیں گے۔ لباس کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدْ اَنۡزَلْنَا عَلَیۡکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیۡشًا ﴾ترجمہ کنز العرفان:اے آدم کی اولاد!بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اتارا جو تمہاری شرم کی چیزیں چھپاتا ہے اور (ایک لباس وہ جو)زیب و زینت ہے۔ (پارہ 8،سورۃ الاعراف،آیت 26) اوربے پردگی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوۡلیٰ ﴾ ترجمہ کنزالعرفان :اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی ۔ (پارہ 22، سورۃ الاحزاب،آیت33) اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:’’(ایک قول یہ ہے کہ )اگلی جاہلیت سے مراد اسلام سے پہلے کا زمانہ ہے،اس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی اور اپنی زینت اور محاسن کا اظہار کرتی تھیں ،تاکہ غیر مرد انہیں دیکھیں ،لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا اچھی طرح نہ ڈھکیں ۔‘‘ (تفسیر صراط الجنان تحت ھذہ الاٰیہ،ج8،ص21،مکتبۃ المدینہ،کراچی) اور شرعی پر دہ نہ کرنے والی عورتوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ صنفان من اهل النار لم ارهما:۔۔۔۔۔۔۔ نساء كاسيات،عاريات، مميلات ، مائلات، رءوسهن كاسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وان ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا‘‘ترجمہ:دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہیں،جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا۔(میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی ۔ایک جماعت )ایسی عورتوں کی ہوگی جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی،لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی ،بے حیائی کی طرف دوسروں کو مائل کرنے اور خود مائل ہونے والی ہوں گی،ان کے سر ایسے ہوں گے،جیسے بختی اونٹوں کی ڈھلکی ہوئی کوہانیں ہوں،یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جائے گی ۔ (صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساء الکاسیات ۔۔الخ،ج3،ص1680،مطبوعہ بیروت ) اس حدیثِ پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:’’يسترن بعض بدنهن ويكشفن بعضه اظهارا لجمالهن وابرازا لكمالهن وقيل: يلبسن ثوبا رقيقا يصف بدنهن وان كن كاسيات للثياب عاريات فی الحقيقة ‘‘ترجمہ:اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے حسن وجمال اور بدن کےکمال کو ظاہر کرنے کی غرض سے کچھ بدن چھپا کر رکھیں گی اور کچھ بدن کھول کراور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ باریک کپڑے پہنیں گی،جس سے ان کا بدن جھلکےگا،اگرچہ یہ عورتیں بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی،لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،ج6،ص2302،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت) اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’عورت اگر نامحرم کے سامنے اس طرح آئے کہ اُس کے بال، گلے اور گردن یا پیٹھ یا کلائی یاپنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر ہو یا لباس ایسا باریک ہو کہ ان چیزوں سے کوئی حصہ اُس میں سے چمکے،تو یہ بالاجماع حرام اور ایسی وضع ولباس کی عادی عورتیں فاسقات ہیں اوران کے شوہر اگر اس پر راضی ہوں یا حسبِ مقدور بندوبست نہ کریں، تو دیوث ہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج6،ص 509تا510،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور) مزید ایک مقام پہ ارشاد فرماتے ہیں :’’نہ (لباس) خوب چست بدن سے سلے ،کہ یہ سب وضع فساق ہےاورساترِعورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے،یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے۔‘‘ ( فتاوی رضویہ،ج22،ص162تا163،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور) اورصدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’بعض عورتیں بہت باریک کپڑے پہنتی ہیں ،مثلا آب رواں یا جالی یا باریک ململ ہی کا ڈوپٹا(دوپٹا)،جس سے سر کے بال یا بالوں کی سیاہی یا گردن یا کان نظر آتے ہیں ۔۔اس حالت میں(ان کی طرف) نظر کرنا حرام اور ایسے موقع پران کو اس قسم کے کپڑے پہننا بھی نا جائز۔‘‘ (بھار شریعت،ج3،ص448،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی) عورت کے لیے کن اعضاء کا پردہ ضروری ہے،اس بارے میں در مختار میں ہے:’’ (وللحرۃ) ۔ (جمیع بدنھا)حتی شعرھا النازل فی الاصح(خلا الوجہ والکفین)۔۔ (والقدمین ۔۔ (وتمنع)المرأۃ الشابۃ(من کشف الوجہ بین رجال )۔۔لخوف الفتنۃ) ‘‘ ترجمہ : چہرے کی ٹکلی،دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے علاوہ،آزاد عورت کا تمام بدن، حتی کہ لٹکے ہوئے بال بھی سترِ عورت ہیں۔۔اور فی زمانہ خوفِ فتنہ کی وجہ سے مردوں کے سامنےجوان عورت کو اپنا چہرہ ظاہر کرنا بھی منع ہے۔ (در مختار،ج1،ص405تا406،مطبوعہ دار الفکر،بیروت) نماز میں سترِ عورت کے حوالے سے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’سترِ عورت ہر حال میں واجب ہے،خواہ نماز میں ہو یا نہیں ۔۔اتنا باریک کپڑا جس سے بدن چمکتا ہو، ستر کے لئے کافی نہیں، اس سے نماز پڑھی تو نہ ہوئی۔ یونہی اگر چادر میں سے عورت کے بالوں کی سیاہی چمکے ،نماز نہ ہو گی۔ بعض لوگ باریک ساڑیاں اور تہبند باندھ کر نماز پڑھتے ہیں کہ ران چمکتی ہے،ان کی نمازیں نہیں ہوتیں اور ایسا کپڑا پہننا جس سے ستر عورت نہ ہو سکے ،علاوہ نماز کے بھی حرام ہے۔۔اگر نماز شروع کرتے وقت عضو کی چوتھائی کھلی ہے،یعنی اسی حالت پر اللہ اکبر کہہ لیا ،تو نماز منعقد ہی نہ ہوئی۔‘‘ (بھارِ شریعت،ج1،ص479تا482،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی) نوٹ:اس بارے میں مزید مفید معلومات حاصل کرنے کےلیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب بنام’’پردے کے بارے میں سوال جواب‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔ واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 30شوال المکرم1441ھ22جون2020ء فتوی ٰ:15عورت کا کالر والی قمیص پہننا
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت کا کالر (Collar)والی قمیص پہننا کیسا ہے؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب وہ کالر(Collar) جو عورتوں کی قمیصوں پر لگائے جاتے ہیں اور اُن کو مخصوص انداز کے مطابق عورتوں کے لیے ہی تیار کیا جاتا ہے اور ایسی کالر والی قمیص مردانہ قمیص کے مشابہ نہیں ہوتی، تو اِس طرح کے کالر والی قمیص عورت کو پہننا جائز ہے، کہ یہ عورتوں کا ہی لباس ہے، جو اُن کے لیے جائز ہے، نیز اِس میں مُمانعت کی وجہ یعنی مردوں سے مشابہت بھی نہیں پائی جا رہی، البتہ وہ کالر جو مردوں کی قمیصوں یا شرٹس(Shirts) پر لگائے جاتے ہیں اور وہ مردوں کے ساتھ ہی خاص ہوتے ہیں اور عورتوں کی قمیصوں پر لگنا معروف نہیں ہے۔ ایسا کالر لگی ہوئی قمیص، عورت کو پہننا جائز نہیں، بلکہ گناہ ہے کہ اِس میں مردوں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور عورت کا لباس وغیرہ میں مردوں سے مشابہت اختیار کرنا ، جائز نہیں۔ ابو داؤد شریف میں ہے:’’لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الرجل يلبس لبسة المرأة، والمرأة تلبس لبسة الرجل‘‘ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس مرد پر جو عورتوں جیسا لباس پہنے اور ایسی عورت پر جو مردوں کی ہئیت والا لباس پہنے، لعنت فرمائی ہے۔ (سنن ابی داؤد، جلد2، کتاب اللباس، باب فی لباس النساء، صفحہ 212، مطبوعہ لاھور ) مزید ایک حدیث مبارک میں ہے:’’لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الرجلة من النساء‘‘ترجمہ:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ (سنن ابی داؤد، جلد2، کتاب اللباس، باب فی لباس النساء، صفحہ 212، مطبوعہ لاھور ) اِس حدیث مبارک کی شَرْح میں ابن الملک علامہ کِرمانی حنفی رحِمہ اللہ لکھتے ہیں:’’وهي التي تشبه نفسها بالرجال في الكلام واللباس ‘‘ترجمہ:” رَجُلۃ “ وہ عورت کہ جو خود کو بول چال اور لباس میں مردوں کے مشابہ کرے۔ (شرح مصابیح السنۃ لابن الملک، جلد5، صفحہ72، مطبوعہ ادارۃ الثقافۃ الاسلامیۃ) امام اہلِ سنت امام احمد رضا خان رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:مرد کو عورت ، عورت کو مرد سے کسی لباس، وضع، چال ڈھال میں بھی تشبہ حرام، نہ کہ خاص صورت وبدن میں۔ (فتاویٰ رضویہ ،کتاب الحظر والاباحۃ ،جلد22 ،صفحہ664 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ) موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:’’يحرم تشبه النساء بالرجال في زيهن فلا يجوز للمرأة أن تلبس لباسا خاصا بالرجال‘‘ترجمہ:عورتوں کو اپنی وضع قطع میں مردوں سے مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، لہذا عورت کا ایسا لباس زیب تَن کرنا کہ جو مردوں کے ساتھ خاص ہو، ناجائز ہے۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد35، صفحہ192، مطبوعہ وزارتِ اوقاف، کویت) واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 06ذوالحجۃ الحرام1442 ھ/17 جولائی 2021ء فتوی ٰ:16عورت کے لیے ہاف آستین والے کپڑے پہننا
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورتوں کا ”آدھے بازو“ والے کپڑے پہننا کیسا؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب عورت کا غیر محرم مردوں کے سامنے آدھی آستین یعنی ہاف بازو والی قمیص پہن کر بازو ظاہر کرنا، ناجائز، گناہ اور حرام ہے، کیونکہ عورت کے لباس اور پردے کے معاملے میں اسلامی اُصول بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ عورت کے چہرےکی ٹکلی،دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے علاوہ تمام بدن سِتر میں داخل ہے،یعنی عورت کے لئے غیر محرم کے سامنے بدن کے اِتنے حصے کو چھپانا ضروری ہے اور فتنے کے خوف کی وجہ سےفی زمانہ عورت کوچہرے کےپردے کابھی حکم ہے، لہٰذا غیر مردوں کےسامنے ہاف بازو قمیص پہن کر بازو کھولنا بے سِتری ہے، جو کہ حرام ہے۔ البتہ بیوی کا شوہر کے سامنےیا عورت کا اپنے محرم مردوں کےسامنے ایسی قمیص پہننا جائز ہے، کہ اُن کے حق میں عورت کا بازو سِتر میں داخل نہیں ہے۔ عورتوں کو اپنا جسم چھپانے اور لوگوں کی نظروں سے بچانے کا اللہ پاک نے تاکیداً حکم ارشاد فرمایا، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى ﴾ترجمہ کنزالعرفان:اور بے پردہ نہ رہو، جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی۔ (الاحزاب:22/33) ایسا لباس پہننے والی عورتوں کے متعلق نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ صنفان من أهل النار لم أرهما، قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات، رءوسهن كأسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة، ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا ‘‘ترجمہ:دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہیں،جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا۔(میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی )ایک جماعت تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دُموں کی طرح کوڑے ہیں، وہ لوگوں کو اُس سے مارتے ہیں (یعنی ظالم لوگ)اور (ایک جماعت)ایسی عورتوں کی ہوگی جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی،لیکن حقیقت میں بے لباس اور برہنہ ہوں گی ،بے حیائی کی طرف دوسروں کو مائل کرنے اور خود مائل ہونے والیاں ہوں گی،اُن کے سر ایسے ہوں گے،جیسے بختی اونٹوں کی ڈھلکی ہو ئی کوہانیں ہوں،یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جائے گی ۔ (الصحیح لمسلم ، جلد3، صفحہ1680، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی) کپڑے پہننے کے باوجود برہنہ عورتیں کون ہیں، اِس کی ایک مراد بیان کرتے ہوئے امام شرف الدین نَوَوِی رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:676ھ/1277ء) مذکورہ حدیث کے تحت لکھتے ہیں:’’ تكشف شيئا من بدنها إظهارا لجمالها فهن كاسيات عاريات‘‘ترجمہ:جو عورتیں اپنا جسمانی جمال دِکھانے کے لیے اپنے بدن کا کچھ حصہ ظاہر کرتی ہیں، وہ حدیث مبارک کے مطابق کپڑے پہننے کے باوجود بے لباس ہیں۔ (المنھاج مع الصحیح لمسلم، جلد17، صفحہ191، مطبوعہ داراحیاءالتراث العربی) عورت کے لیے جن اعضاء کا پردہ ضروری ہے، اُسے بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین حصکفی رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:’’(وللحرۃ)۔۔(جمیع بدنھا)حتی شعرھا النازل فی الاصح(خلا الوجہ والکفین)۔۔(والقدمین۔۔(وتمنع)المرأۃ الشابۃ(من کشف الوجہ بین رجال)۔۔ (لخوف الفتنۃ)‘‘ترجمہ:چہرےکی ٹکلی،دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے علاوہ،آزاد عورت کا تمام بدن، حتی کہ لٹکے ہوئے بال بھی سترِ عورت ہیں۔۔اور فی زمانہ خوفِ فتنہ کی وجہ سے مردوں کے سامنےجوان عورت کو اپنا چہرہ ظاہر کرنا بھی منع ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار ، جلد2،باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة، صفحہ95، مطبوعہ کوئٹہ ) امام اہلِ سنت امام احمد رضا خان رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’عورت اگر نامحرم کے سامنے اس طرح آئے کہ اُس کے بال، گلے اور گردن یا پیٹھ یا کلائی یاپنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر ہو یا لباس ایسا باریک ہو کہ اُن چیزوں سے کوئی حصہ اُس میں سے چمکے،تو یہ بالاجماع حرام اور ایسی وضع ولباس کی عادی عورتیں ”فاسقات“ ہیں اوراُن کے شوہر اگر اس پر راضی ہوں یا حسبِ مقدور بندوبست نہ کریں، تو دیوث ہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد6،صفحہ509،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور) محرم مرد کے حق میں بازو اعضائے ستر میں داخل نہیں، چنانچہ علامہ کاسانی حنفی رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:’’يحل للرجل النظر من ذوات محارمه إلى رأسها وشعرها وأذنيها وصدرها وعضدها وثديها وساقها وقدمها‘‘ترجمہ: کسی شخص کا اپنی محرم رشتے دار خاتون کے سر، بال، کانوں، سینے، بازو، چھاتی، پنڈلی اور قدموں کی طرف نظر کرنا ، جائز ہے۔ (بدا ئع الصنائع، جلد6،کتاب الاستحسان ، صفحہ489،مطبوعہ کوئٹہ ) مگر یہ دیکھنا ایک شرط کے ساتھ مقید ہے، چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات: 1088ھ/ 1677ء) لکھتےہیں:’’إن أمن شهوته وشهوتها أيضا وإلا لا‘‘ترجمہ:اگر مرد اور عورت کو اپنی شہوت نہ بھڑکنے پر اعتماد ہو تو دیکھنا جائز ہے، ورنہ ہرگز جائز نہیں۔ (درمختار مع ردالمحتار ، جلد9،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر واللبس، صفحہ605، مطبوعہ کوئٹہ ) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری 06ذوالحجۃ الحرام1442 ھ/17 جولائی 2021ء فتوی ٰ:17ساڑھی پہننا کیسا ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا عورتوں کو ساڑھی پہننا جائز ہے یا نہیں؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب اگر اس طرح پہنی جائے کہ بے پردگی نہ ہو تو جائز اور بے پردگی ہو تو ناجائز ہے ۔فتاوی فیض الرسول میں ہے :’’ساڑھی اگر اس طرح پہنی جائے کہ بے پردگی نہ ہو تو جائز اور بے پر دگی ہو تو نا جائز اور نیچے کی جانب کھلے رہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے اس لئے کہ شریعت مطہرہ نے ساڑھی اور تہبند پہن کر نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے اور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تہبند ہی استعما ل فرماتے رہے ۔ ‘‘ (فتاوی فیض الرسول ،جلد 2،صفحہ 601مطبوعہ شبیر برادرز،لاھور) واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری 08رجب المرجب1433ھ30مئی 2012ء فتوی ٰ:18مرد و عورت کے لیے چوڑی دار پاجامے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مرد یا عورت کو چوڑی دار پاجامہ پہننا کیسا ہے ؟ نیز اسے پہن کر نماز پڑھنے کا حکم کیا ہو گا ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب مردو عورت دونوں کو چوڑی دار پاجامہ پہننا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ جسم سے بالکل چمٹا ہوا ہوتا ہے ، جس سے اعضا کی ہیئت بالکل واضح نظر آتی ہے جو کہ ایک طرح کی بے ستری ہی ہے ۔ نیز یہ فاسقوں کا لباس ہے اور فاسقوں کی مشابہت سے بچنے کا حکم ہے ، لہذا چوڑی دار پاجامہ پہننا مکروہ ہے ، چوڑی دار پاجامہ پہن کر نماز تو ہو جاتی ہے مگر مکروہ کپڑا پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ عورتوں کو جسم سے چپکے ہوئے لباس کی ممانعت کے متعلق امام شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس کے کپڑوں کی طرف دیکھنےکاحکم نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :’’وهذا إذا لم تكن ثيابها بحيث تلصق في جسدها وتصفها حتى يستبين جسدها فإن كان كذلك فينبغي له أن يغض بصره عنها لما روي عن عمر رضي الله تعالى عنه أنه قال لا تلبسوا نساءكم الكتان ولا القباطي فإنها تصف ولا تشف‘‘ترجمہ: یہ جواز کا حکم اس صورت میں ہے جبکہ عورت کے کپڑے اس کے جسم سے چمٹے ہوئے اس کے جسم کی ہیئت کو واضح نہ کرتےہوں ، اگر ایسے کپڑے ہوں تو اس عورت کو دیکھنے سے بچنا ہو گا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا ، اپنی عورتوں کو کتان اور قبطی کپڑے نہ پہناؤ کیونکہ وہ تو جسم کی صفت بیان کرتے ہیں نہ کہ چھپاتے ہیں ۔ (المبسوط للسرخسی ، کتاب الاستحسان ، ج10، ص162، مطبوعہ کوئٹہ ) چوڑی دار پاجامہ پہننے کی ممانعت کے متعلق امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :’’چوڑی دار پاجامہ پہننا منع ہے کہ وضع فاسقوں کی ہے۔۔۔۔یونہی بوتام لگا کر پنڈلیوں سے چمٹا ہوا بھی ثقہ لوگوں کی وضع نہیں۔ آدمی کو بدوضع لوگوں کی وضع سے بھی بچنے کا حکم ہے یہاں تک کہ علماء درزی اور موچی کو فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص فاسقوں کے وضع کے کپڑے یا جوتے سلوائے نہ سِیے اگر چہ اس میں اجر کثیر ( بہت زیادہ مال )ملتاہو۔‘‘ (فتاوی رضویہ ، ج22، ص172، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور) امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن جسم سے چپکے ہوئے لباس کے متعلق فرماتے ہیں : ’’یونہی تنگ پائچے بھی نہ چوڑی دار ہوں نہ ٹخنوں سے نیچے، نہ خوب چست بدن سے سلے کہ یہ سب وضع فساق ہے اور ساتر عورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے، یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی کہ نساء کاسیات عاریات ہوں گی کپڑے پہنے ننگیاں، اس کی وجوہ تفسیر سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کپڑے ایسے تنگ چست ہوں گے کہ بدن کی گولائی فربہی انداز اوپر سے بتائیں گے جیسے بعض لکھنؤ والیوں کی تنگ شلواریں چست کُرتیاں۔‘‘ (فتاوی رضویہ ، ج22، ص163-162، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور) مرد و عورت دونوں کےلیے چوڑی دار پاجامہ پہننے کی ممانعت کے بارے میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں : ’’بعض لوگ چوڑی دار پاجامہ پہنتے ہیں، اس میں بھی ٹخنے چھپتے ہیں اور عضو کی پوری ہیأت نظر آتی ہے۔ عورتوں کو بالخصوص چوڑی دار پاجامہ نہیں پہننا چاہیے۔‘‘ (بھار شریعت ، ج3، ص417، مکتبۃ المدینہ ، کراچی ) موٹا کپڑا جو جسم سے چپکا ہوا ہو اس میں نماز ہو جانےاور پہننے کی ممانعت کے متعلق بہار شریعت میں ہے ’’دبیز کپڑا جس سے بدن کا رنگ نہ چمکتا ہو، مگربدن سے بالکل ایسا چپکا ہوا ہے کہ دیکھنے سے عضو کی ہيات معلوم ہوتی ہے، ایسے کپڑے سے نماز ہو جائے گی، مگر اس عضو کی طرف دوسروں کو نگاہ کرنا، جائز نہیں اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا بھی منع ہے اور عورتوں کے ليے بدرجۂ اَولیٰ ممانعت۔ بعض عورتیں جو بہت چست پاجامے پہنتی ہیں، اس مسئلہ سے سبق لیں۔‘‘ (بھار شریعت ، ج1، ص480، مکتبۃ المدینہ ، کراچی ) واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری 01ربیع الاول1439ھ20نومبر2017ء فتوی ٰ:19عورت کے لیے ٹخنے چھپانے کاحکم
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت کیلئے نماز اور بیرون نماز میں ٹخنےچھپانے کا کیا حکم ہے ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب عورت کے ٹخنے سترعورت میں شامل ہیں اور سترعورت نماز کی شرائط میں شامل ہے ،لہٰذا نماز میں ان کا چھپانا لازم وضروری ہے ،اسی طرح نماز کے علاوہ میں بھی غیرمحرم کے سامنے ٹخنے کھولنا ناجائز وحرام ہے ، لہٰذا نماز کے علاوہ بھی غیر محرم کے سامنے ان کا چھپانا ضروری ہے ۔احادیث میں عورت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے پائنچے ٹخنوں سے نیچے رکھے ، تاکہ چلنے میں سترعورت کھلنے کا احتمال نہ رہے۔ عورت کے ٹخنے سترعورت میں شامل ہیں اس کے بارے میں ردالمحتار میں عورت کے سترعورت کے اعضاء شمار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’الساقان مع الکعبین‘‘ترجمہ:ٹخنوں سمیت پنڈلیاں۔ (ردالمحتار ، جلد2، صفحہ 101 ، مطبوعہ کوئٹہ) اسی کے بارے میں بنایہ میں ہے:’’کعب المراۃ حکمھا حکم الرکبۃ‘‘ترجمہ: عورت کے ٹخنے کا وہی حکم ہے جو اس کے گھٹنے کا ہے۔ (البنایہ شرح الھدایہ ، جلد2 ، صفحہ 140 ، مطبوعہ ملتان) سترعورت نماز کی شرائط میں سے ہے اس کے بارے میں مراقی الفلاح میں ہے’’ومنھا ستر العورۃ‘‘ترجمہ:نماز کی شرائط میں سے ایک شرط سترعورت بھی ہے۔ (مراقی الفلاح متن الطحطاوی ، صفحہ 210 ، مطبوعہ کوئٹہ ) بیرون نماز ٹخنے چھپانے کے بارے میں اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ’’عورت کے گِٹے سترعورت میں داخل ہیں غیرمحرم کو ان کا دیکھنا حرام ہے ، عورت کو حکم ہے کہ اس کے پائنچے خوب نیچے ہوں کہ چلتے میں ساق یا گٹے کھلنے کا احتمال نہ رہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد22،صفحہ 188،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور) عورت کا ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کے بارے میں حدیث پاک میں ہے:’’أن أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حين ذكر الإزار ، فالمرأة يا رسول الله؟ قال ترخي شبرا، قالت أم سلمة إذا ينكشف عنها، قال فذراعا لا تزيد عليه‘‘ترجمہ: جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مرد کے تہبند کا ٹخنوں سے نیچے ہونے کی مذمت بیان فرمائی توحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم !عورت کے لیے کیا حکم ہے ،فرمایا وہ ایک بالشت تک ٹکائے گی ،حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی : تب تو اس کا سترعورت ظاہر ہوجائے گا ،حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ایک ذراع تک لٹکا سکتی ہے اس پر زیادہ نہ کرے۔ (سنن ابو داؤد،جلد2،صفحہ 214،مطبوعہ لاھور) اس حدیث کی شرح میں مرقاۃ المفاتیح میں ہے:’’)فقال ترخي) أي ترسل المرأة من ثوبها (شبرا) أي من نصف الساقين، وقيل من الكعبين (فقالت إذاتنكشف) أي تظهر القدم (عنها) أي عن المرأة إذا مشت (قال فذراعا) أي فترخي ذراعا، والمعنى ترخي قدرشبر أو ذراع بحيث يصل ذلك المقدار إلى الأرض لتكون أقدامهن مستورة‘‘ترجمہ: حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا عورت آدھی پنڈلی سے اور ایک قول میں ٹخنوں سے ایک بالشت نیچے کپڑا چھوڑے گی ،حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی کہ تب تو قدم ظاہر ہوجائے گا جب وہ چلے گی ،تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایک ذراع تک چھوڑے گی ،مطلب یہ ہے کہ ایک بالشت یا ایک ذراع کی مقدار تک عورت کپڑا نیچے رکھے گی اس طرح کہ اتنی مقدار کپڑا چھوڑا ہو کہ زمین تک پہنچ جائے تاکہ قدم چھپے رہیں۔ (ملخصا من مرقاۃ المفاتیح، جلد8،صفحہ 210،مطبوعہ کوئٹہ) واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری 14شعبان المعظم1436ھ02جون2015ء فتوی ٰ:20پینٹ شرٹ پہننے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ پینٹ شرٹ پہنناکیساہے؟سنا ہے اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے ناجائز لکھا ہے ، اب کیا حکم ہے؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب اگرپینٹ چست اورتنگ ہوجس سے اُن اعضاکی ہیئت ظاہرہوتی ہو ، جن کے چھپانے کاحکم ہے ، تولوگوں کے سامنےایسی پینٹ پہنناممنوع ومکروہ ہے ۔ اوراگرپینٹ اتنی موٹی ،ڈھیلی اورکھلی ہوکہ اعضائے سترکی ہیئت معلوم نہ ہوتی ہو ، تو ایسی پینٹ پہننا ممنوع نہیں ، البتہ علمائے کرام (مثلا اعلی حضرت)نے پہلےپینٹ پہننے کی ممانعت اس لیے فرمائی تھی کہ یہ پہننا کفار کے ساتھ خاص اوران کاشعارتھا ، لیکن فی زمانہ پینٹ پہننا چونکہ کفارکاشعار(یعنی اُن کے ساتھ خاص)نہ رہابلکہ مسلمانوں میں بھی اس کارواج ہوگیاہے ، لہذاممانعت کی علت باقی نہ رہی،اس کی نظیرترکی ٹوپی پہننے والامسئلہ ہے کہ یہ پہلے نیچیریوں کا شعار تھی ، اس لئے علمائے کرام نے یہ ٹوپی پہننے سے ممانعت فرمائی ، لیکن امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃکے دورمیں مسلمانوں نے بھی اس کوپہننا شروع کردیااور نیچریوں کاشعارنہ رہا ، توآپ علیہ الرحمۃ نے اس کے جوازکاحکم صادرفرمایا ، البتہ اب بھی پینٹ شرٹ پہنناکراہت(تنزیہی)سے خالی نہیں کہ یہ نیک لوگوں کا طور طریقہ نہیں بلکہ فاسقوں کاطریقہ ہے کہ اکثرفاسق لوگ ہی اسے پہنتے ہیں۔ بہارِشریعت میں ہے:”دبیز کپڑا، جس سے بدن کا رنگ نہ چمکتا ہو، مگربدن سے بالکل ایسا چپکا ہوا ہے کہ دیکھنے سے عضو کی ہيات معلوم ہوتی ہے، ایسے کپڑے سے نماز ہو جائے گی، مگر اس عضو کی طرف دوسروں کو نگاہ کرنا ، جائز نہیں۔ (ردالمحتار) اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا بھی منع ہے اور عورتوں کے ليے بدرجۂ اَولیٰ ممانعت۔ بعض عورتیں جو بہت چست پاجامے پہنتی ہیں، اس مسئلہ سے سبق لیں۔“ (بھارِشریعت،ج1،حصہ3،ص480،مکتبۃالمدینہ،کراچی) موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:” لكنه يصف حجمها حتى يري شكل العضو فإنه مكروه “ترجمہ:(ایساکپڑاجوسترعورت کاکام دے)لیکن عضوکے حجم کوبیان کرے یعنی عضوکی ہیئت معلوم ہوتی ہوتووہ کپڑاپہننامکروہ ہے۔ (الموسوعہ الفقھیہ الکویتیہ،لبس مایشف أویصف،ج6،ص136،دارالسلاسل،کویت) فتاوی رضویہ میں ہے:” کلاہ تر کی ابتدائے اودرنیچریاں شد آناں رابہرہ از اسلام نیست اگر ہم چناں می مانددریں ممالک حکم جوازش نبودی کہ ایں جا ترکان نیند بید یناں باوعاوی اند مگر حالا مشاہدہ است کہ در بسیارے از مسلمانان نیزایں تپ سرخ سرایت کردہ پس شعار نیچریت نماند اہل علم وتقوٰی را از واحتراز باید کہ تاحال وضع علماء وصلحاء شدہ است ہمچناں ۔ (ترجمہ: )ترکی ٹوپی کہ اس کی ابتداء نیچریوں سے ہوئی اور ان کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔ اگر یہی حالت رہتی تو ان ممالک میں اس کا جواز نہ ہوتا کیونکہ یہاں کوئی ترکی نہیں۔ صرف بے دین اس کے استعمال کی عادت رکھتے ہیں۔ لیکن اب دیکھنے میں آیا ہے (اوریہ مشاہدہ ہواہے) کہ بہت سے مسلمانوں میں بھی یہ سرخ بخار سرایت کر گیا ہے۔ لہذا اب نیچریت کا شعار نہیں رہا ، پس اہل علم اور اصحاب تقوٰی کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے یہاں تک کہ علماء اور صلحاء کا معمول ہوجائے۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ،ج22،ص192-93،رضافاؤنڈیشن،لاھور) فتاوی فقیہ ملت میں ہے :’’اعلیٰ حضرت مجدداعظم علیہ الرحمۃکے دورمیں پینٹ انگریزوں کا خاص لباس اور شعار تھا جو کوئی کسی پینٹ پہنے ہوئے کودیکھتاتوکہہ دیتاکہ یہ انگریزہے اس لئے آپ نے فتوی دیاکہ پتلون،پینٹ پہننامکروہ ہے اورمکروہ کپڑے میں نمازبھی مکروہ لیکن پینٹ کااستعمال اب بالکل عام ہوچکاہے ۔ ہندوومسلم ہرکوئی اس کواستعمال کرتاہے ۔کسی قوم کے ساتھ خاص نہ رہا۔اس لئے اگرپینٹ ایسا ڈھیلا ہوکہ نمازاداکرنے میں دشواری نہ ہوتواسے پہن کرنمازجائزہے۔البتہ ائمۂ مساجدکے شایان شان نہیں کہ وہ نیابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب پرہیں۔لہذاوہ پینٹ نہ پہنیں۔“ (فتاوی فقیہ ملت،ج1،ص179،شبیربرادرز،لاھور) "فتاوی بریلی شریف"میں پینٹ شرٹ پہننے کے حوالے سے مذکورہے:”اعلی حضرت کا یہ حکم (انگریزی لباس پہننا حرام ہے )اس وقت کا ہے جب انگریزی وضع قطع کا لباس انگریزوں کا شعار قومی تھا انہیں تک محدود اور انہیں کے ساتھ خاص تھا اور جو وضع کسی قوم کے ساتھ خاص ہو یا اس کا شعار قومی ہو اسے مسلمانوں کو اپنانا ناجائز وحرام ہے ….اب جبکہ انگریزی لباس مثلاََپینٹ شرٹ وغیرہ کا پہنناانگریزوں کے ساتھ خاص نہ رہا بلکہ دیگر قوموں کے ساتھ مسلمانوں میں بھی عام ہوگیا تو اب یہ کسی ایک قوم کا وضع مخصوصہ اور شعار قومی نہ رہا اور نہ ہی اب یہ انگریزوں کا شعار قومی کہلائے گا لہٰذا اب وہ حکم سابق نہ رہا البتہ اسے پہننا اب بھی کراہت سے خالی نہیں کہ یہ وضع صلحاء نہیں بہر حال وضع فساق ہے کہ لباس مذکور ابھی اتنا عام نہیں ہوا کہ صلحاء علما اور متقین بھی استعمال کرتے ہوں بلکہ اکثر فساق ہی استعمال کرتے ہیں ان میں بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بدرجہء مجبوری اسے استعمال کرتے ہیں بلکہ بعض پہننے والے خود بھی اسے کوئی اچھا لباس نہیں تصور کرتے اور لوگوں کاا سے معیوب سمجھنا ہی اس کی کراہت کو کافی لہٰذا ایسی صورت میں مطلقاً مکروہ تنزیہی کا حکم ہے۔“ (فتاوی بریلی شریف،ص207,208،شبیربرادرز،لاھور) واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــــہ مفتی ابوالحسن محمد ھاشم خان عطاری 06رجب المرجب1439ھ24مارچ2018ء فتوی ٰ:21عورت کا گھرمیں مردانہ لباس،سویٹر پہننا کیسا ؟
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گھر میں عام طورپر خواتین سردی کے وقت جوبھی سویٹر ہاتھ میں آئے پہن لیتی ہیں اور عموماً مِردوں کے ہی سویٹر میسر آتے ہیں ، تو کیا عورتوں کو ایسے سویٹر پہننا جائز ہے؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب عورت کو مردانہ لباس یا جوتے پہننا ناجائز وگناہ ہے ، کیونکہ اسے مَردوں کی مشابہت اختیار کرنے کی سختی سے ممانعت ہے اور ایسی عورتوں پر لعنت ہوتی ہے ، لہٰذا مردانہ سویٹر پہننا بھی جائز نہیں ہے، اگرچہ گھر کی چار دیواری میں ہی پہنتی ہو ۔ سنن ابو داؤد میں ہے : ”عن ابن أبي مليكة قال قيل لعائشة رضي اللہ عنها إن امرأة تلبس النعل فقالت لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الرجلة من النساء“ترجمہ : ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی کہ ایک عورت (مردانہ )جوتا پہنتی ہے، تو آپ نے ارشاد فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردانہ جوتا پہننے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔(سنن ابو داؤد ، کتاب اللباس ، باب فی لباس النساء ، جلد4، صفحہ 105، دار الکتاب العربی ، بیروت ) اس میں لفظ الرجلۃ کی تشریح کو فیض القدیر میں یوں بیان کیا گیا ہے : ”تتشبه بالرجال في زيهم أو مشيهم أو رفع صوتهم أو غير ذلك“ترجمہ :جو عورت مردوں سے ان کی وضع ، چلنے، آواز بلند کرنے وغیرہ میں مشابہت اختیار کرے ۔ (فیض القدیر ، حرف اللام ، جلد5، صفحہ 343، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ) امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں :”مرد کو عورت ، عورت کو مرد سے کسی لباس وضع، چال ڈھال میں بھی تشبہ حرام نہ کہ خاص صورت وبدن میں ۔ “(فتاوی رضویہ ، جلد22، صفحہ 664، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور) سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا : ”ایڑی والی جوتی یعنی مثل جوتی مردوں کے عورت پہن لے تو درست ہے یانہیں ؟ مردانی جوتی عورت نمازی کے واسطے پاؤں کو ناپاکی سے بچانے کے لیے بہت خوب ہے۔ خیر جیساشریعت میں حکم ہو ۔ “ آپ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا : ”ناجائز ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:” لعن ﷲ المتشبھات من النساء بالرجال والمتشبھین من الرجال بالنساء“ رواہ الائمۃ احمد والبخاری وابوداؤد والترمذی وابن ماجۃ عن ابن عباس رضی ﷲ تعالی عنھما۔(ترجمہ :)اللہ کی لعنت ان عورتوں پرجو مردوں سے مشابہت اختیار کریں اور ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کریں ۔ اسے ائمہ کرام مثلا:امام احمد ، امام بخاری ، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے۔ اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :” لعن ﷲ الرجل یلبس لبسۃ المراۃ والمرأۃ تلبس لبسۃ الرجل“ رواہ ابوداؤد والحاکم عن ابی ھریرۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہ بسند صحیح۔(ترجمہ : )اللہ تعالیٰ اس مرد پر لعنت کرے جو عورت جیسا لباس پہنے اور اس عورت پر بھی لعنت کرے جو مر دجیسا لباس پہنے۔ ابوداؤد اورحاکم نے صحیح سند سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ۔ “(فتاوی رضویہ ، جلد22، صفحہ 173، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور) واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم الجواب صحیح کتبــــــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد قاسم عطاری المتخصص فی الفقہ الاسلامی ابوحذیفہ محمد شفیق عطاری 14 ربیع الآخر 1439 ھ/02 جنوری 2018 ء
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع