ارکان اسلام کے حسین امتزاج سے بننے والی خوبصورت عمارت اسلام کا چوتھا اور اہم ستون فریضہ حج کی ادائیگی ہے ہے ۔ اسلام کی نظام عبادت کا تصور دو چیزوں پر منحصر ہے ایک جسمانی عبادت اور دوسرا مالی عبادت ۔اور اس عبادت کے نظام کا محور ومرکز اللہ جلا وعلا کی ذات والاہوتی ہے جیساکہ خود مالک ارض و سما نے اپنی کتاب ہدایت میں ارشاد فرمایا:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
(پ ۲۷، الذٰریٰت : ۵۶) ترجمہ کنز الایمان: اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں۔ تو جب تک عبادت میں رضائے الٰہی پیش نظر نہ ہو وہ عبادت عبادت نہیں ہوتی ہے۔ حج بھی اسلام کا وہ نظام عبادت ہے جس میں فقط بندہ ٔخدا اپنے مالک حقیقی کی رضاکےلئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک مخصوص لباس زیب تن کئے صدائے لبیک سے اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہےنیز اسلامی نظام عبادت میں حج کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہےکیونکہ حج کی ادائیگی میں مالی اور جسمانی عبادت کا عملی پہلو پایاجاتا ہے کہ اس کی ادائیگی کےلئے مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے اور جانی تگ ودو بھی کرنی پڑتی ہے اور حج کو مرکزی حیثیت اس لحاظ سے بھی حاصل ہےکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا ایک بہت بڑا مرکزی ایونٹ ،اجتماع سال میں ایک بار موسم حج کے مہینے شوال، ذو القعدہ اور ذوالحجۃ الحرام میں منعقد ہوتا ہے ۔
حج ایک منفرد عبادت ہے ، اس میں بہت سی حکمتیں ہیں اسے ”عاشقوں کی عبادت“ بھی کہا جاسکتا ہےکہ حج کا لباس یعنی احرام او ردیگر معمولات جیسے طوافِ کعبہ ، منٰی کا قیام اور عرفات و مزدلفہ میں ٹھہرنا سب عشق و محبت کے انداز ہیں جیسے عاشق اپنے محبوب کی محبت میں ڈوب کر اپنے لباس، رہن سہن سے بے پرواہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات ویرانوں میں نکل جاتا ہے ایسے ہی خدا کے عاشق ایام ِ حج میں اپنے معمول کےلباس اور رہن سہن چھوڑ کر محبت ِ الٰہی میں گُم ہو کر عاشقانہ وضع اختیار کرلیتے ہیں ، طواف کی صورت میں محبوبِ حقیقی کے گھر کے چکر لگاتے ہیں اور مِنٰی و عرفات کے ویرانوں میں نکل جاتے ہیں، نیز حج بارگاہِ خداوندی میں پیشی کے تصور کو بھی اُجاگر کرتا ہے کہ جیسے امیر و غریب، چھوٹا بڑا، شاہ و گدا سب بروزِ قیامت اپنی دنیوی پہچانوں کو چھوڑ کرعاجز انہ بارگاہِ الٰہی میں پیش ہوں گے ایسے ہی حج کے دن سب اپنے دنیوی تعارف اور شان و شوکت کو چھوڑ کر عاجزانہ حال میں میدانِ عرفات میں بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوجاتے ہیں۔یہاں وہ منظر اپنے عروج پر ہوتا ہے کہ
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
سفر ِ حج سفرِ آخرت کی یاد بھی دلاتا ہے کہ جیسے آدمی موت کے بعد اپنے دنیوی ٹھاٹھ باٹھ چھوڑ کر صرف کفن پہنے آخرت کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے ایسےہی حاجی اپنے رنگ برنگے، عمدہ اور مہنگے لباس اتار کر کفن سے ملتا جلتا دوسادہ سی چادروں پر مشتمل لباس پہن کربارگاہِ خداوندی میں حاضری کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔
(ماہنامہ فیضان مدینہ ذو القعدۃ الحرام ، ۱۴۳۸، اگست۲۰۱۷)
حج کا لغوی معنی ہے کسی عظیم چیز کا قصد کرنا اور شرعی معنی یہ ہے کہ 9 ذوالحجہ کو زوالِ آفتاب سے لے کر10 ذوالحجہ کی فجر تک حج کی نیّت سے احرام باندھے ہوئے میدانِ عرفات میں وقوف کرنا اور 10 ذوالحجہ سے آخر عمر تک کسی بھی وقت کعبہ کا طواف زیارت کرنا حج ہے۔(در مختار،مع رد المحتار 515ج3،ص 516ملخصاً، ماہنامہ فیضان مدینہ ذو القعدۃ الحرام ، ۱۴۳۸، اگست۲۰۱۷)
وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ (پ۴، اٰل عمران: ۹۷)
ترجمہ کنزالعرفان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے اور جو انکار کرے تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔
مفسر شہیر عالم باعمل شیخ الحدیث و التفسیرجناب مفتی محمد قاسم مد ظلہ العالی تفسیر صراط الجنا ن میں زیر آیت {وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔} اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے اور اس کا کہ اِستِطاعت شرط ہے۔ حدیث شریف میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی تفسیر ’’ زادِ راہ ‘‘اور’’ سواری‘‘ سے فرمائی ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ اٰل عمران، ۵ / ۶، الحدیث: ۳۰۰۹)
کھانے پینے کا انتظام اس قدر ہونا چاہئے کہ جا کر واپس آنے تک اس کے لئے کافی ہو اور یہ واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے خرچے کے علاوہ ہونا چاہئے۔ راستے کا امن بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر حج کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔مزید تفصیل فقہی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔
{وَ مَنْ كَفَرَ: اور جو منکر ہو۔} ارشاد فرمایا کہ ’’حج کی فرضیت بیان کردی گئی، اب جو اس کا منکر ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے بلکہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرضِ قطعی کا منکر کافر ہے۔
(صراط الجنان فی تفسیر القرآن ،جلد ۲ ،ص ۱۵)
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ (پ۲، البقرۃ: ۱۹۶)
ترجمۂ کنزالعرفان: اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو
حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور کعبہ معظمہ کے طواف کا ۔اس کے لیے خاص وقت مقرر ہے جس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے ۔ حج 9ہجری میں فرض ہوا،اس کی فرضیت قطعی ہے، اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔(بہار شریعت، حصہ ششم،۱ / ۱۰۳۵-۱۰۳۶، صراط الجنان فی تفسیر القرآن ، جلد ۱ ،ص۳۱۱،۳۱۲)
حج کے فرائض یہ ہیں :(۱) احرام (۲) وقوف ِ عرفہ (۳) طواف زیارت۔
حج کی تین قسمیں ہیں : (۱) اِفرادیعنی صرف حج کا احرام باندھا جائے۔ (۲) تَمَتُّع یعنی پہلے عمرہ کا احرام باندھا جائے پھر عمرہ کے احرام سے فارغ ہونے کے بعد اسی سفر میں حج کا احرام باندھا جائے۔(۳) قِران یعنی عمرہ اور حج دونوں کا اکٹھا احرام باندھا جائے ، اس میں عمرہ کرنے کے بعد احرام کی پابندیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ برقرار رہتی ہیں۔
حج مقبول سے متعلق احادیث مبارکہ چنانچہ:
1:۔ نبیِ اکرم،نورِ مُجَسّم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:حجِ مقبول کا ثو اب جنت سے کم نہیں ۔ عرض کی گئی:مقبول سے کیا مرا د ہے؟فرمایا:ایسا حج جس میں کھانا کھلایا جائے اور اچھی گفتگو کی جائے۔(معجم اوسط،من اسمہ موسی ، ۶ / ۱۷۳،حدیث: ۸۴۰۵)
2:۔ پیارے آقا،مکی مدنی مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: حج ِمَقْبول کی جزا جَنّت ہی ہے،صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!حج ِمقبول کیا ہے؟ اِرْشاد فرمایا:ایسا حج جس میں (بھوکے کو) کھانا کِھلانا ہو اور سَلام کو عام کرنا۔(کنزالعمال، کتاب الحج والعمرۃ، الفصل الاول … الخ، الجزء۵، ۳ / ۷، حدیث:۸۳۰ ۱۱)
3:۔اللہ پاک کے نزدیک سب سے اَفْضَل عمل وہ ایما ن ہے، جس میں شک نہ ہو، وہ جنگ ہے جس میں خیانت نہ ہو اور حجِ مقبول۔(ابن حبا ن،کتا ب السیر،ذکر البیان بان الجہاد … الخ،۷ / ۵۹،حدیث: ۴۵۷۸) (سفر حج سے متعلق ۱۵ بیانات ، ص ۴۰۶)
صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرت علّامہ مولانامُفتی محّمد اَمْجَد علی اعْظَمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں :قبولِ حج کے لیے تین (3)شرطیں ہیں :اللہ پاک فرماتا ہے:
فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ-وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ (پ۲، البقرۃ: ۱۹۷)
ترجَمۂ کنز الایمان :تو نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو نہ کوئی گناہ، نہ کسی سے جھگڑا۔
تو اِن باتوں سے نہایت ہی دُور رہنا چاہیے، جب غُصَّہ آئے یا جھگڑا ہو یا کسی گناہ کا خیال آئے،فوراً سَر جُھکا کر دل کی طرف مُتَوَجَّہ ہوکر اِس آ یت کی تلِاوت کرے اور دو ایک بار لَا حَوْل شریف (یعنی لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم) پڑھے،یہ بات جاتی رہے گی،یہی نہیں کہ اُسی کی طرف سے اِبتِدا ہو یا اُس کے ساتھی ہی کے ساتھ جھگڑا بلکہ بعض اوقات امتحاناً راہ چَلْتوں کو پیش کر دیا جاتا ہے کہ بے سبب اُلجھتے بلکہ گالی گلوچ اورلَعَنت و مَلامَت کرنے کو تیار ہوتے ہیں ، لہٰذا حاجی کو ہر وقت ہوشیار رہنا چاہیے،خدا نہ کرے ایک دو کلمے میں ساری محنت اور رُوْپْیَہ برباد ہو جائے۔ (بہار شریعت،حصہ ششم،۱ / ۱۰۶۱-۱۰۶۰بتغیر قلیل،سفر حج سے متعلق ۱۵ بیانات ، ص ۴۰۷،۴۰۸ )
حُجَّۃُ الْاِسْلَام حضرت سَیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں :منقول ہے، قَبولِیَّت ِ حج کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ حاجی جن نافرمانیوں میں پہلے مُبْتَلا تھا ،اُنہیں چھوڑ دے اور اپنے بُرے دوستوں کو چھوڑ کر نیکوں کی صحبت اختیار کرے،کھیل کُود اور غفلت کی مجالس کو چھوڑ کر ذِکْر وفِکْر اور بیداری کی محافل اختیار کرے۔(احیاء العلوم،۱ / ۸۰۳)
اعلیٰ حضرت،امامِ اَہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں :حجِ مَبْرُور(حجِ مقبول)کی نشانی ہی یہ ہے کہ پہلے سے اچھاہوکر پلٹے۔(فتاویٰ رضویہ،۲۴ / ۴۶۷)
صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرت علّامہ مولانامُفتِی محّمد اَمْجَد علی اعْظَمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں :(حاجی کو چاہئے کہ وہ)حاجت سے زیادہ زادِ راہ لے کہ ساتھیوں کی مدد اور فقیروں پر صدقہ کرتا چلے ، کہ یہ حجِ مقبول کی نشانی ہے۔(بہار شریعت،حصہ ششم،۱ / ۱۰۵۱بتغیر قلیل)
امیرِ اہلسنّت،بانیِ دعوتِ اِسْلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی تصنیف”رَفِیْقُ الْحَرَمَیْن“میں فرماتے ہیں :یاد رکھئے!ہر عبادت کی قَبولِیَّت کے لئے اِخلاص شَرط ہے۔آہ! اب علمِ دین اور اَچّھی صُحبت سے دُوری کی بِنا پر اَکثر عبادات رِیاکاری کی نذرہوجاتی ہیں ۔ جس طرح اب عُمُوماً ہر کام میں نُمُود و نُمائش کا عمل دَخل ضَروری سمجھا جانے لگاہے اِسی طرح حج جیسی عظیم سَعادت بھی دِکھاوے کی بَھینٹ چڑھتی جارہی ہے ، مَثَلاً بے شُمارافراد حج ادا کرنے کے بعد اپنے آپ کو اپنے مُنہ سے بِلا کسی مَصلحت وضَرورت کے حاجی کہتے اور اپنے قلم سے لکھتے ہیں ۔ آپ شاید چونک پڑے ہوں گے کہ اِس میں آخِر کیا حَرَج ہے ؟ ہاں ! واقعی اِس صورت میں کوئی حَرَج بھی نہیں کہ لوگ آپ کو اپنی مرضی سے حاجی صاحِب کہہ کر پکاریں مگر پیارے حاجیو!اپنی زَبان سے اپنے آپ کو حاجی کہنا اپنی عبادت کا خود اِعلان کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟۔ (رفیق الحرمین،ص۴۲ تا ۴۳)
(1)حج سابقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(مسلم،ص 70،حدیث:321)
(2)حج اور عمرہ کرو کیونکہ یہ فقر اور گناہو ں کو اس طرح مٹاتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے زنگ کو مٹاتی ہے اور حج مبرور کی جزا صرف جنت ہے۔ (ترمذی،ج2،ص218،حدیث:810)
حج ِ فرض کے ترک پر سخت وعید ہے جیسا کہ حدیث پاک میں فرمایا گیا ’’جو شخص زادِراہ اور سواری کامالک ہو جس کے ذریعے وہ بیتُ اللہ تک پہنچ سکے ا س کے باوجود وہ حج نہ کرے تو اس پر کوئی افسوس نہیں خواہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر۔(ترمذی،ج2،ص219،حدیث:812)( ماہنامہ فیضان مدینہ ذو القعدۃ الحرام ، ۱۴۳۸، اگست۲۰۱۷، ص ۴)
مناسک حج اور حج کے تشریعی ،فقہی احکامات کےلئے تو فقہائے اسلام کی کتابیں بھری پڑی ہیں لیکن موجودہ صدی میں اسلام کی سربلندی اور احیائے سنت کےلئے اپنی زندگی وقف کرنے والی عظیم ہستی جناب محترم محمد الیاس قادری ابو بلال ، امیر اہلسنت ، عالم وفاضل ، شیخ طریقت جامع شریعت نے ایک کتاب ’’ رفیق الحرمین‘‘کے نام سے لکھی ہے اس کا جواب نہیں۔ یہ کتا ب اپنی اہمیت کے لحاظ سے مناسک حج کی ادائیگی میں شریک سفر کا کام دیتی ہے جو اپنے رفیق کو گاہے بگاہے حج کی ادائیگی میں عملی رہنمائی کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔