shahada
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے

پہلا رکن   ’’شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘

یعنی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں:

ارکان اسلا م کا پہلا رکن   اللہ جل مجدہ کے معبود حقیقی ہونے اور رسول مکرم محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کی  گواہی   دینا ہے ۔ رکن اول   میں غور کیا جائے تو اس رکن کی تکمیل کےلئے  دو گواہیاں مطلوب ہیں ۔ایک اللہ کے معبود حقیقی ہونے کی گواہی ،اور دوسرا رسالت مآب ، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی   صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کے رسول ہونے کی گواہی دینااور اسی گواہی کا اظہار کلمہ طیبہ ،کلمہ شہادت  میں ہوتا ہے۔ گویا کلمہ شہادت یا کلمہ طیبہ میں ذکر کردہ دو شہادتوں  میں سے ہر ایک شہادت دوسرے کےلئے لازم ملزوم ہے یعنی ایک شہادت بغیر دوسری  شہادت کے قبول نہیں اور دوسری شہادت پہلی شہادت کے بنا قبول نہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا ہےکہ کوئی اللہ وحدہ لاشریک لہ  کے معبود حقیقی ہونے کی تو گواہی دے لیکن حضرت محمد مصطفی کی رسالت ونبوت کی گواہی دینے سے انکارکرے  ایسے شخص کی شہادت کو رد کردیا جائے گا ۔چنانچہ  رکن اول  کی تکمیل تب ہی مکمل ہوگی  جب اللہ کے سواہر کسی کی عبادت کا انکار کرنے اور محمد رسول اللہ   صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کی رسالت  کو تسلیم  کیا جائے گااور  رسالت  ونبوت  محمد مصطفی  بھی وہ جو تمام رسولوں کی اور نبیوں کی رسالت ونبوت پر مہر ختم نبوت ورسالت ہو،جس رسالت محمد  صلی اللہ تعالی علیہ وسلم   کی گواہی سےنبی مکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وسلم   کا آخری نبی ہونا  بھی تسلیم کیا جارہا ہو۔ اور رکن اول  بقیہ تمام اراکین  اسلام کی سب سے اہم بنیاد ہے ،شہادت  ہوگی تو بقیہ ارکان پر عمل  مقبولِ  بارگاہ عزوجلا ہوگا اور بنا شہادت کے ارکان اربعہ  کی اطاعت بے سود ہوگی،چنانچہ بقیہ تمام ارکان اسلام کی قبولیت کا  دار ومدارپہلے رکن اسلام پر ہے ۔

کلمہ شہادت کا مفہوم :

کلمہ  شہادت کا مفہوم اور مطلب یہ ہے کہ صدقِ دل سے اللہ کے ایک ہونے اور معبود ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  کے رسول ہونے کی گواہی دینا اور دل سے مانتے ہوئے زبان سے  اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗکہنا۔ اس میں  تمام ضروری عقائد ِاسلام داخل ہیں  کیونکہ جس نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  کو دل سے اللہ کا رسول مان کر ان کی رسالت کی گواہی دے دی ہر اس چیز کی تصدیق کردی جس کو حضور علیہ الصلوۃ و السلام خدا کی طرف سے لائے ۔

 

رکن اول کی اہمیت    اور حساسیت کے بارے میں شارح مشکاۃ المصابیح  حضرت مفسرشہیر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’اس سےسارےعقائد اسلامیہ مرادہیں جوکسی عقیدے کامنکرہے وہ حضورکی رسالت ہی کا منکرہے۔حضور کو رسول ماننے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کی ہر بات کو مانا جاوے۔(مرآۃ المنا جیح  شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 1، حدیث:2)

کلمہ شہادت کی فضیلت:

 رکن اول یعنی کلمہ اسلام  کی فضیلت  کے بارے میں   حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ خدا عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اللہ عزوجل کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے اوپر جہنم کو حرام فرمادے گا۔( مشکاۃالمصابیح،کتاب الایمان،الفصل الثالث،الحدیث:۳۶،ج۱،ص۲۸)

حضرت الحاج مولانا عبدالمصطفیٰ الاعظمی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اپنی مشہور کتاب’’ بہشت کی کنجیاں‘‘ میں فرماتے ہیں :’’ یہ اسلام کا وہ بنیادی کلمہ ہے جس پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے۔ یہ کلمہ بلاشبہ جنت میں لے جانے والا عمل بلکہ جنت میں لے جانے والے تمام اعمال صالحہ کی اصل و بنیاد ہے۔‘‘ (بہشت کی کنجیاں، ص ۳۳، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )

کلمہ اسلام کا ثواب:

 

    اِس مقدس کلمہ کی بڑی عظمت ہے اور اس کوبکثرت اور بار بار پڑھنے کا بہت بڑا اجرو ثواب ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کو اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے کھڑا کرکے اس کے نامہ اعمال کے ننانوے دفتر کھولے گا اور ہر دفتر اس کی حدِ نگاہ کے برابر لمبا چوڑا ہوگا۔ پھر باری تعالیٰ فرمائے گا:کیا تجھ کو ان اعمال سے انکار ہے؟ کیا نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں نے تجھ پر کچھ ظلم کیا ہے؟ تو وہ کہے گا کہ نہیں اے میرے پروردگار !عزوجل پھرباری تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تجھ کوکچھ عذر پیش کرناہے؟تووہ کہے گاکہ نہیں اے میرے پروردگار!عزوجل تواللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ کیوں نہیں!تیری ایک نیکی ہمارے پاس موجودہے اور تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ پھر ایک پرچہ نکالا جائے گاجس میں اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ لکھا ہوگا اس کے بعد اللہ تعالیٰ حکم دے گا اے شخص! تو اپنے نامہ اعمال تولنے کی جگہ حاضر ہو جاتو وہ شخص عرض کریگا کہ اے میرے پروردگار ! عزوجل بھلا اِن دفتروں کے سامنے اس چھوٹے سے پرچہ کی کیا حقیقت ہے؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو میزان عمل کے پاس جا کر وزن کرالے اور یاد رکھ لے تیرے اُوپر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت ان تمام نامہ اعمال کے دفتروں کو میزان عمل کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گااور جب وزن کیا جائے گا تو تمام دفتروں کے انبار ہلکے پڑ جائیں گے اور وہ پرچہ بھاری ہوگا اور ظاہر ہے کہ بھلا خدا عزوجل کے نام کے مقابلہ میں کون سی چیز بھاری ہوسکتی ہے؟(سنن الترمذی،کتاب الایمان،باب ماجاء فیمن...الخ،الحدیث:۲۶۴۸،ج۴،ص۲۹۰، بہشت کی کنجیاں، ص ۳۶)

    حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ جنت کی کنجیاں لَآاِلٰـہَ اِلَّا اللہ کی گواہی ہے۔(مشکاۃالمصابیح،کتاب الایمان،الفصل الثالث،الحدیث:۴۰،ج۱،ص۲۹)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضورنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایاہے کہ جس نے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہا اور اُس کے دل میں جو کے برابر بھی نیکی ہوگی تو وہ جہنم سے نکال لیا جائے گا اور جس نے لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ ُ کہا اور اُس کے دل میں گیہوں کے برابر بھی نیکی ہوگی تو وہ جہنم سے نکال لیا جائے گااور جس نے لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ کہا اور اُس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی ہوگی تو وہ بھی جہنم سے نکال لیا جائے گا۔(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب زیادۃ الایمان ونقصانہ،الحدیث۴۴،ج۱،ص۲۸)

شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفی الاعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی فرماتے ہیں:

مذکورہ بالا حدیثوں میں جہاں جہاں صرف ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ ذکرکیا گیا ہے اُس سے مراد پورا کلمہ یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ ہے مگر اختصار کے طور پر صرف ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ کا ذکر کردیا گیا ہے جیسے کہ عام طور پر یہ بولا کرتے ہیں کہ نماز میں ''الحمد'' پڑھنا واجب ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بس فقط''الحمد'' کا ایک لفظ پڑھنا واجب ہے بلکہ الحمد سے پوری سورت کا پڑھنا مراد لیا جاتا ہے اسی طرح حدیثوں میں جہاں جہاں صرف’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ کا ذکر ہے اس سے مراد پورا کلمہ ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ صرف ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ ‘‘ پڑھنے والا نہ مسلمان ہی ہوسکتا ہے نہ جنت میں جاسکتا ہے۔ مسلمان اور جنتی تو وہی ہوگا جو پورے کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ کو دل سے سچا مان کر زبان سے پڑھے۔ چنانچہ اس عنوان کی پہلی حدیث میں پورے کلمہ’’ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ‘‘ کاذکر موجود ہے وہی ان سب حدیثوں میں بھی مراد ہے۔(بہشت کی کنجیاں، ص ۳۳)