abdul qadir jilani
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے

سیّدنا شیخ عبدالقادرجیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی حیات وخدمات

تاریخ اسلام کے مطالعہ سے پتا چلتا ہےکہ  پانچویں صدی  کے حالات و واقعات  میں اسلامی ریاست اور مسلمانوں کی سیاسی ،سماجی ، دینی واخلاقی کیفیت ناگفتہ بہ تھی ۔اسلام کی اعلی اخلاقی قدریں اور روایات اغیار کی  سورشوں سے پامال ہورہی تھیں ، اہل اسلام پر  شکنجہ جبر واستبداد کسا جارہا تھا، عفت وپاکدامنی کے ماحول کوعریانی وفحاشی کےذریعے زہر آلود کیا جارہا تھا ، دینی اداروں کی ساخت  کو نظر آتش کیاجارہاتھا، لاقانونیت اور جبر واکرام کے بے حرم پنجے قدم جمارہے تھے، دینی قدریں اپنوں کے باہمی دست وگریباں سے زمیں بوس ہورہی تھیں، مشاہیر اسلام پر زندگی تنگ کردی گئی تھی، عز ت وعفت کی فضا کو بے حمیت وبے شرمی کا تعفن گدلا کررہا تھا، علمائے اسلام کے لئے سچ بولنا جرم قرار تھا۔اس سیاسی ابتری میں روحانیت کی فتوحات خال خال نظر آرہی تھی اوراگر کوئی مینارہ نور نظر آتا تو اس  کی کرنوں کی بجھادیاجاتاتھا۔ ان نازک حالات میں  جہاں کوئی مسلمانوں کی قیادت  کرنے والا ناتھا قدرت کی طرف سے ایک تاریخ ساز اور انقلاف آفریں شخصیت کا ظہور ہوتا ہے جو دین متین کی بنیادوں کو پھر سے استوار کرکے ملت اسلامیہ کو اس کا کھویا ہوا وقار دلاتی ہے، جوخدائے لم یزل کی عطا کردہ اعلی روحانی صلاحیتو ں سے  باطل کی تمام تر چیر دستیوں کی بیخ کنی کرتی ہے ، جو علم کا کوہ گراں بن کر تمام باطل پرستوں کے عقائد فاسدہ کا قلع قمع کرتی ہے۔ وہ تاریخ ساز شخصیت ، وہ روحانی انقلاب برپا کرنے والی عظیم ہستی، علم کی دیا کو پھر سے روشن کرنےوالی وہ باکمال علم پرورذات والا ، علما ومشائخ کی دستارفضیلت کو عزت واحترام کا مقام دلانے والی قابل قدر شخصیت ، ہمہ گیر وہمہ جہت علمی وروحانی صلاحیتوں سے بھرپور  نابغہ روز گار شخصیت ، پیر مغاں ،سرور کشور اولیاء حضور سیدنا شیخ عبدالقادر محی الدین الجیلانی نور اللہ مرقدہ وقدس سرہ  تھے جنہوں نے بغداد کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے شرف بخشا ، خزاں رسیدہ چمن اسلام کو پھر سے بہار آشنا کیا،اہل ایمان کے تن مردہ میں پھر سے نئی روح پھونکی، علم کی آبیاری کی، لوح وقلم کی پروش کرکے اہل علم کو زینت بخشی اور اپنے تجدید ی کارہائے نمایاں سے  ملت اسلامیہ کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں  پیغمبرانہ حیات نو بخشی۔

آسمان ولایت کے نیر تاباں ، عظیم الشان سراپا حسن وجمال باکمال سیّدنا شیخ عبدُالقادرجیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی عظیم المرتبت شخصیت تھی کہ جنہیں خدائے لم یزل کی طرف سے ’’ محی الدین ‘‘ کے لقب سے سرفراز کیاگیا، جنہیں قطبیت کبری کے اعلی منصب پر فائز کرکے  ’’ قَدَ مِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہ ‘‘کا اعلان کرنے کا الہام کیا گیا تاکہ اکناف عالم میں موجود ہر ولی، قطب ،ابدال، غوث آپ کی ولایت کو تسلیم کرکے سرنگوں ہوجائے ۔

     جیساکہ امام ابن حجر مکی شافعی فرماتے ہیں:’’ کبھی اولیائے کرام رَحِمَھُمُ اللہ کو کلماتِ بُلند(بڑی بڑی باتیں)کہنے کاحکم دیاجاتاہےتاکہ جو اُن کے بُلند مقامات سے ناواقف ہے اُسے پتاچلےیا شُکر الہٰی اوراُس کی نعمت کا اظہار کرنے کے لئے جیسا کہ حضور سیدنا غوث اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے لئے ہوا کہ اُنہوں نے اپنےبیان میں اَچانک فرمایا کہ میرا یہ پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر ، فورًا تمام دُنیا کے اَولیانےقبول کیا (اورایک گروہ نے روایت کیا ہے کہ سب اولیائے جِنّ نے بھی)سَرجُھکا دئیے۔

(الفتاوی الحدیثیہ ، داراحیاء التراث العربی بیروت ، ص414،فیضان غوث پاک،ص ۱۶ )

غوث پر تو قدم نبی کا ہے ، اُن کے زیرِقدم وَلی سارے

ہر وَلی نے یہی پکارا ہے ، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی

ملاء اعلی میں جن کو باز اشھب کے نام سے یاد کیا جاتاہے ، جن کی ولایت کو سورج تاابد چمکتا دمکتا رہے گاجس کا اظہار قصیدہ غوثیہ میں یوں کیاگیا :

أنا البـازيُّ أشهـب كُلّ شيخِ ومـن ذا فى الملا أعطى مثـالي

حضور غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کے روحانی کمالات، علمی جاہ وجلال، شخصی وجاہت اور سیرت وکردار،آپ کے روحانی  تصرفات اور کرامات  کے آگے سارےاولیاء دبے لچے ہیں کہ کسی میں بھی آپ کی ہمسری کا دعوی نہیں۔حضور غوث پاک شریعت کے متبع اورسنت رسول سے متصف تھے۔ آپ کے نزدیک شریعت مطاہرہ کی پاسداری کا فریضہ سب سے اہم تھا اسیلئے آپ نے سب سے پہلے دین کی تجدید و احیاء کےلئے شریعت کو فوقیت دی اورلوگوں کو دین کی حقیقی تعلیمات کی طرف دعوت دی، بدعات وخرافات کا قلع قمع کیا،شریعت کے مخالف تمام رسومات  کی جڑیں کاٹ ڈالیں،دین پر سختی سے عمل کرنے کی ترغیب دی،قرب الٰہی کےلئے اصول بندگی پر عمل پیرا ہونےکا سختی سے حکم دیااورہر معاملہ میں شریعت کی لگام  مضبوطی سے پکڑنے کےلئے ارشادات فرمائے۔آپ اپنے حلقہ احباب میں شامل تمام لوگوں کو شریعت محمدی پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیتے تھے۔چنانچہ آپ کی تعلیمات سے علمی اور روحانی دنیا میں جو انقلاب بپا ہوا اس جیسی مثال ہمیں نظر نہیں آتی۔

اشاعت اسلام کےلئے حضور سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی المعروف غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ  کی دینی وملی خدمات کو سپرد قلم سے پہلے آپ کی حیات مبارکہ کاتذکرہ ٔ جمیل  پڑھتے ہیں۔

تعارفِ غوثِ اَعظم  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  

نام ونسب:

مکتبۃ المدینہ کاشائع کردہ ہفتہ وار رسالہ ’’فیضان غوث اعظم‘‘ میں بحوالہ ’’نزھۃ الخاطر الفاتر‘‘ مصنفہ  حضرت علامہ علی بن سلطان محمد القاری  المعروف ملا علی قاری المتوفی ۱۰۱۶ھ حضرت سلطان الاولیاء وا لعارفین، الغوث الاعظم الصمدانی، محی الدین والملت عبد القادر الجیلانی قدس اللہ روحہ کے نام ونسب سے متعلق ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:’’ آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کا مبارک نام عبدالقادر کُنیت ابومحمداوراَلقابات مُحْیُ الدِّین ، محبوب سبحانی ، غوثُ الثقلین ، غوثُ الاعظم وغیرہ ہیں ، آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  470ھ میں بغدادشریف کے قریب قصبہ ’’جیلان‘‘ میں رمضان المبارک کی فرسٹ تاریخ کو پیدا ہوئے۔ آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  ابوجان کی طرف سےنواسۂ رسول اِمام حَسن مجتبیٰ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کےگیارہویں پوتےہیں۔ (بہجۃالاسرار ، ص171) اور اپنی امی جان کی طرف سےاِمامِ عالی مقام اِمام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کےبارہویں پوتے ہیں۔ (علامہ علّی قاریرَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہنےآپ کی امی جان کی طرف سے آپ کا نسب شریف یہ بیان کیا ہے۔ ) ‘‘

(نزہۃ الخاطر الفاتر ، ص12،فیضان غوث اعظم ، 3)

 مکتبۃ المدینہ کی پیش کردہ کتاب ’’غوث پاک کے حالات‘‘ کے حوالے سے  حضرت شہباز لامکانی الباز الاشھب ،تاج المفاخر سیدنا عبدالقادر الجیلانی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کے پاکیزہ گھرانہ کا تعارف آپ کی نذر کیاجاتا ہے:

آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کے آباء واجداد:

  آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کا خاندان صالحین کاگھراناتھاآپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کے ناناجان،داداجان،والدماجد، والدہ محترمہ،پھوپھی جان،بھائی اورصاحبزادگان سب متقی وپرہیزگارتھے،اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کواشراف کا خاندان کہتے تھے۔

سیدوعالی نسب دراولیاء است

نورِچشم مصطفےٰ ومرتضےٰ است

آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کے والدمحترم:

  آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کے والدمحترم حضرت ابوصالح سیّدموسیٰ جنگی دوست  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  تھے، آپ کا اسم گرامی ''سیّدموسیٰ''کنیت ''ابوصالح''اورلقب ''جنگی دوست'' تھا،آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔‘‘(غوث پاک کے حالات، ص ۱۶)

 دس سال کی عمر میں ولایت کے منصب کا علم:

شیخ الشیوخ ، قطب الاقطاب ، تاج الفقراء ، زینت الاصفیاء ،فخر الاولیاء حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   کی خدمت میں عرض کی گئی کہ آپ کو کب پتا چلا کہ آپ اللہ کے ولی ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ میں دس سال کا تھا تب مجھے پتاچل گیا تھا کہ مجھے ولایت کا منصب ملا ہے۔آپ مزید فرماتے ہیں کہ جب میں گھر سے مدرسہ جایاکرتاتھا تو فرتشے مجھے گھیر لیتے اور میرے اردگرد چلتے جب میں مدرسہ پہنچتا تو آواز لگاتے اللہ کے ولی کے لئے جگہ کووسیع کردو حتی میں اس جگہ بیٹھ جاتا‘‘ (إتحاف الأكابر في سيرة ومناقب الشيخ عبد القادر، ص 97)

آپ کا علمی مقام ومرتبہ:

حضرت شیخ امام موقف الدین بن قدامہ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   فرماتے ہیں کہ''ہم ۵۶۱ہجری میں بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں پر علم، عمل اورحال وفتوی نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لئے نہیں کرتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں تمام علوم جمع ہیں اورجو آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   سے علم حاصل کرتے تھے آپ ان تمام طلبہ کے پڑھانے میں صبر فرماتے تھے، آپ کا سینہ فراخ تھا اور آپ سیر چشم تھے، اللہ عزوجل نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوال عزیزہ جمع فرمادیئے تھے۔ ''

(بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۵، غوث پاک کے حالات،ص ۲۷)

     شیخ عبدالوہاب شعرانی ، شیخ عبدالحق محدّثِ دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حَلبی رَحِمَھُم اللہ لکھتےہیں : ’’حضرت سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  تیرہ عُلوم میں بیان فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘علامہ شعرانی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہایک اورجگہ فرماتے ہیں : ’’حضورِغوثِ پاک  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کےمدرسہ شریف میں لوگ آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   سےتفسیر ، حدیث ، فقہ اورعلم الکلام پڑھتے تھے ، دوپہر سے پہلےاور بعد دونوں وقت لوگوں کوتفسیر ، حدیث ، فقہ ، کلام ، اُصول اور نحو پڑھاتےتھےاورظہر کے بعدقرأتوں کے ساتھ قرآن کریم پڑھاتے تھے‘‘۔ (اخبارالاخیار ، ص11، فیضا ن غوث اعظم، ص ۱۳)

مطلع ولایت کے کثیر الکرامات بزرگ:

سلطان العلماء شیخ عز الدین عبد العزیز بن عبد السلام السلمی فرماتے ہیں:’’كرامات الشيخ عبد القادر ثبتت بالتواتر و قال:"لم يثبت بالتواتركرامات أحد من الأولياء كثبوت الشيخ عبد القادر رضي الله عنه"  یعنی حضرت شیخ عبد القادر کی کرامات تواترکے ساتھ ثابت ہیں نیز آپ نے فرمایا: اولیاء میں سے کسی ایک بھی ولی کی کرامات کا ثبوت اس طرح تواترکے ساتھ نہیں ملتاجیسے شیخ عبدالقادر  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   کی کرامات کا ثبوت ملتا ہے۔( قلائد الجواهر في مناقب الشيخ عبد القادرص 391)

علم شریعت و طریقت  کے ستون، حقیقت کے اسرار ورموز کو عیاں کرنےوالے ،معرفت کے علماء کی قیادت کے منصب پرفائز، شیخ الشیوخ والمشائخ کی عزت، اولیائے عارفین کے سرخیل شیخ الاسلام والمسلین حضرت سیدنا عبدالقادرجیلانی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کے کثیر الکرامات ہونے پر ناصرف اکابر اولیاء کا اجماع ہے بلکہ ہر ولی ولایت کے منصب پر تبھی فائز ہوتا ہےجب اسے بارگاہ غوثیت سے اذن ولایت ہوتا ہے ۔آپ کی کرامات و واقعات سے کتابیں لبریز ہیں ،علمائے ذیشان کے اقوال آپ کی غوثیت اورقطبیت  پرمہرتصدیق ثبت کرتے ہیں ۔’’بہجۃ الاسرار ‘‘میں علامہ علی بن الہیتی نے تو یہاں تک فرمادیا کہ دنیا میں چار مشائخ ایسے گزرے ہیں جواپنی قبروں میں رہ کربھی زندوں کی طرح تصرف (یعنی کسی کی مددکرنا ،کسی کے کام آنا، کسی کی داد رسی، دلجوئی وغیرہ کرنا ) کرتے ہیں ان میں ایک حضرت سیدنا عبدالقادرجیلانی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   ہیں۔ (بہجۃالاسرار،ذکرفصول من کلامہ،ص۱۲، غوث پاک کے حالات،ص۷۳)

اہل ذوق کے مطالعہ کےلئے مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ کتاب’’ غوث پاک کے حالات ‘‘ مستند کتابوں کے حوالوں سے مزین اردو زبان میں تاج اولیاء، فخر اولیاء، سرتاج اولیاء ،زینت منصب ولایت، غوثیت وقطبیت کے علمبردارحضرت سیدنا شیخ عبد القادر  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کے حالات وواقعات اور کرامات کے حسین تذکرہ سے آراستہ ایک زبردست کتاب ہے جس میں غوث پاک کی مبارک زندگی کا اجمالی طور پر احاطہ کیاگیا ہے اور یہ خوبصورت کتاب مکتبۃ المدینہ کی طرف سے شائقین مطالعہ کے لئے تحفہ ہے اس سے ضروراستفادہ کیجئے۔

زیر مطالعہ مضمون میں ہمارا مقصد حضرت سیدنا عبدالقادرجیلانی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   کی حیات وخدمات کے عنوان سے ان روشن اقدامات کوبیان کرنا مقصود ہے جس کی آج ہمیں ضرورت ہے۔چنانچہ حضوری سیدی و مرشدی حضرت سیدنا شیخ عبد القادر  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   نےظاہری وباطنی علوم  پر کامل دسترس رکھ کر جب عملی طور پر انبیاء علیھم السلام کے تبلیغی مشن پر گامزن ہوئے تو آپ نےاصلاح معاشرہ ، مسلمانوں کی بہتری اور بگاڑ کی درستگی کےلئے جو اقدامات کئے ان میں سے چند سپر دقلم کئے جاتے ہیں ۔

دینی وسماجی خدمات اور احیائے دین کےلئےتجدیدی کارنامے:

حضرت سیدنا شیخ عبد القادر  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کی حیات جاوداں کے خوبصورت گوشوں کو اہل قلم نے بڑی عرق ریزی اور دیانت داری سےاپنی کتابوں میں  بیان کیاہے ۔ حضور غوث پاک  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  نے کس طرح معاشرہ میں اصلاحی انقلاب بپا کیا ،وہ کیا کارہائے نمایاں تھے جس سے بغداد کے بگڑے حالات چند سالوں میں سنورگئے، مسلمانوں کی سیاسی ابتری  نےزوال سے کروٹ لے کر عروج کی طرف سفر شروع کردیا، انفرادی اوراجتماعی زندگی میں پھر سے تعلیم اسلام پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوگیا، علم کے بازار ازسر نو سج گئے، علماء کی محافل میں پھر سے  سرگرمیٔ تعلیم و تعلم آگئی، اصفیاء واتقیاء کو میخانہ معرفت مل گیا، حکمرانوں کی طرز سیاست میں بہتری آگئی، وزراء اور سلاطین وقت کو راہ مستقیم   نظر آگئی ، چوروں اور ڈاکوؤ ں کو ہدایت کی راہ مل گئی اور انسانیت  کو مرکز انس ومحبت ملا گیا۔الغرض زندگی کے وہ تمام شعبے جو تاتاریوں کی سورشوں اور اپنوں کی غفلت و بے راہ روی سے بگڑ چکے تھے ان میں پھر سے زندگی آگئی۔

اسلامی تعلیمات کا احیاء اور اہل ایمان کی اصلاح:

عروس البلاد کی رونقیں  حکمرانوں  کی باہمی رسہ کشی سے مدھم پڑرہی تھیں، علماء کی قیل وقال نے دین کی تعلیمات کے حسین چہرے کو مخدوش کردیا تھا، سنتوں پر عمل کا جذبہ مفقود ہوگیاتھا، مصلحینِ امت جان کی امان کےلئے گوشہ نشیں ہوچکے تھے ، دین ایک کمزور حالت میں سرزمیں بغداد میں کسی مسیحا کا منتظر تھا،حالات کے ستائے اہل ایمان کو ایمان کی دولت کےلٹ جانے کےلالے پڑچکے تھے، ان حالات میں اہل بغداد کو کسی ایسے مصلح امت کی ضرورت تھی جو دین کے احیاء کے ساتھ امت کی اصلاح بھی کرسکے۔چنانچہ 18 سال کی عمر میں بغداد  تشریف لانے والے حضور غوث اعظم   رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  نے ظاہری وباطنی علوم پر دسترس رکھنے کے بعد اور شریعت وطریقت کی لگام کس کر میدان عمل میں جونہی قدم رکھا تو لوگوں کو دین کی دعوت دی ۔ اصلاح کی عالمگیر تحریک کا آغازکیا،رسول محتشم نورمجسم صلی اللہ علیہ وسلم کے  طریقہ کے مطابق قرآن وسنت کی تبلیغ کی۔آپ نے سب سے پہلے دین کی دیواروں کو مستحکم کیا، شریعت پر عمل کو یقینی بنایا۔دینی بصیرت وحکمت سے نامساعد حالات کا مقابلہ کیا ، دعوت و تربیت، درس وتدریس، اصلاح احوال، تزکیہ نفوس اور انفرادی واجتماعی  تربیت پر خداداد صلاحیتوں کو مرکوز کردیا اور دین کو اپنے عزم صمیم ، قلب یقین اور متوجھا الی اللہ ہوکر ایسا سہارا دیاکہ ملت اسلامیہ کی شاہراہ پھر سے جگمگانے لگی۔کشاں کشاں لوگوں حلقہ درس میں شامل ہونے لگ گئے، علم وعرفان سے بھر پور بیان کی تاثیر دلوں میں سرایت کرنے لگی تو عصیاں شعار گناہوں کے دلدل سے نکل کر تقوی کے راستہ پر گامزن ہوگئے ۔یوں آپ نے نبوت ورسالت کے عظیم مشن کو آگے بڑھایا اور اصلاح ِ دین کی طرف توجہ مرکوز کردی جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ تھوڑے عرصہ میں لوگ  دین کی طرف راغب ہوگئےاور یوں آپ کو محی الدین یعنی دین کا احیاء کرنے والا لقب عطا ہوا۔

مدرسہ شیخ مخرمی کی ازسر نو تعمیر:

تبلیغ دین کے ساتھ لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی بھی ضرورت تھی اور بغداد کےحالات کے تناظر میں کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا جہاں لوگوں کی اصلاح کاسامان صبح وشام موجود ہو چونکہ تاتاریوں کی دین دشمنی کی وجہ سے تمام ادارے تباہ ہوچکے تھے اور اگر کہیں کوئی ادار ہ موجود تھا تو وہاں تربیت کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ چنانچہ سرکا ر بغدا د حضور غوث پاک نے اپنے شیخ کے ادارے مدرسہ مخرمی کو دین کا مرکز بنانے کےلئے  منتخب کیا اور تاحیات اسی ادارے میں رہ کر دنیا بھر میں علم شریعت وطریقت کی آبیاری کی اور افراد سازی وکردار سازی کےذریعے ایسے لوگ تیارکئے جو بعد میں اپنے وقت کے امام بن کر لوگوں کی اصلاح کرنے لگ گئے ۔

عقائد و اعمال کی اصلاح:

 حضرت سیدنا عبدالقادرجیلانی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کی مبارک زندگی کا اکثر حصہ درس وتدریس میں گزرا اور اسی منصب تدریس  کی ذمہ داریوں کو اد اکرتے ہوئے قطبیت کے اعلی منصب پر فائز ہوئے ۔ مدرسہ مخرمیہ کی تعمیر نو کے بعد جب بیانات کا سلسلہ شروع کیا تو سب سے بڑا معرکہ لوگوں کے عقائد واعمال کی اصلاح کا تھا چونکہ بغداد میں موجود باطل فرقوں اور بد مذہبیت نے اپنے پنجے کس دیئے تھے ،علمی بے راہ روی تھی، بے جا قیل وقال کے محفلوں میں علمائے حق کو بدنام کیا جارہاتھا، مختلف عقائد ونظریات کے حامل طبقے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنارہے تھے ،اہل سنت کے عقائد کو مسخ کیاجارہاتھا ، ہرفرقہ اپنے باطل عقائد کے پرچار میں دوسرے کی دستار کو تار تار کررہاتھاان حالات میں جوسب سے بڑا بیڑا غوث پاک  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   نے اٹھایا وہ لوگوں کے عقائد واعمال کی اصلاح تھی۔آپ نے دین متین کی حقانیت کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کیا ،بدعقیدگی کی سیاہ چادر کو لپیٹ کر قرآن وسنت کی بالادستی قائم کی۔باطل نظریات کی بیخ کنی کرکے اسلامی عقائد کو پروان چڑھایا۔فتوح الغیب کے خطابات اس بات پرشاہد ہیں کہ آپ نے علمائے سوء کو مخاطب کرکےان کو راہ راست پر آنے کی دعوت دی ۔غنیۃ الطالبین کے صفحات اس بات کی گواہی دیں گے کہ آپ نے اپنے زمانے میں پائے جانے والے تمام گمراہ فرقوں کے نظریات کی خرافات کوبیان کرکے  حق وسچ کی طر ف لوگوں کی رہنمائی فرمائی۔

فلسفہ کی موشگافیوں کا قلع قمع:

حجۃ الاسلام امام غزالی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   کے علمی کارناموں میں سب سے بڑا علمی کارنامہ اہل باطل کے فلسفہ کا رد تھا آپ کی کوششوں سے کافی حد فلسفہ کا زور ٹوٹ چکا تھا لیکن جب حالت تنگ ہوئے اور آپ کو بغداد چھوڑنا پڑا تو جس کام کا آغازحجۃ الاسلام امام غزالی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   نے کیا تھا اسی کام کو حضور سیدی ومرشدیسیدنا عبدالقادرجیلانی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  نے آگے بڑھایا اور فلسفہ کے تمام تر زور کا خدادادعلمی استعداد سے قلع قمع کردیا حتی کہ بڑے بڑے علم کے مشاہیر جب آپ کے سامنے فلسفہ کی باتیں کرتے تو آپ ان کو ایسا مدلل جواب دیتے کہ وہ انگشت بدنداں ہوجاتے ۔جس کی ایک مثال سلسلہ سہروردیہ کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   کی ہے آپ کو فلسفہ ومنطق پر بڑا عبور تھا ۔چنانچہ جب شیخ شہاب الدین سہروردی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کو بارگاہ غوثیت میں شرف باریابی نصیب ہوئی اور فلسفہ پر گفتگو شروع ہوئی تو نظر غوث اعظم  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کےصدقے ان کے دل ودماغ میں فلسفہ کی اب ت بھی یاد نہیں رہی بس آپ  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   کی توجہ سے شہاب الدین سہروردی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کے دل میں فلسفہ کی جگہ روحانیت کا فیض موجزن ہوگیا اور یوں بغداد کے فلسفیوں کازور غوث پاک کی روحانی برکت سے ٹوٹ گیا۔

نگاہِ ولی میں یہ تاثیردیکھی     بدلتی ہزاروں کی تقدیردیکھی

حکمرانوں کی اصلاح:

سرکار بغداد غوث اعظم  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  نے   ہر قسم کے خوف اور حکمران کے جابرانہ تسلط  کو بالائے طاق رکھتے ہوئے براہ راست حکمرانوں کی اصلاح پر توجہ فرمائی۔ہزاروں کی مجمع میں سرکاری مشہیروں کے ظلم واستبداد اور ان کی فرعونیت کو ببانگ دھل آشکارا کیا اور راہ راست پر آنےکی دعوت دی، حکمرانوں کی طرف سے پیش کردہ ہر قسم کی لالچ کو ٹھکرا کر دین پر عمل کا پیغام دیا۔ غوث اعظم  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ  کے خطابات  کے مخاطب حکمران ، وزراء اور مشہیر سب کے سب  خوف خدا سے لرزا ں لرزاں  سرکار غوثیت مآب میں آکر تائب ہوتے رہے جس سے حکومتی سطح پر جو بگاڑ آچکاتھا اس کی اصلاح کا سامان غوث پاک کی علمی وروحانی کرامات سے فراہم ہوا اور یوں بغداد  میں ظلم وجبر کی جگہ امن وآتشی نے لی۔

احیائے دین کی عالمگیر تحریک  آغاز:

         مرجع الخلائق، منبع الفیوض،شیخ الشیوخ ،امیر کاروان ِتصوف،زیبِ آستانہ تصوف، سیدِ سادات تصوف ،چشمہ روحانیت  ،مرکز تجلیات روحانیت  حضور سیدی ومولائی غوث صمدانی محبوب سبحانی سیدنا عبدالقادرجیلانی  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   نے جب تبلیغ کا آغازکیا اور اہل بغداد کی اصلاح پر توجہ فرمائی تو تاریخ دان لکھتے ہیں کہ غوث پاک کے خطبات کو سننے کےلئے بغداد کے اطراف واکناف کا جمع غفیر آنے لگا دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ مخرمی اپنی وسعت کے باوجود تنگ دامنی  کا احساس دلانے لگ گیا ۔ لوگوں کےلئےجگہ تنگ ہوگئی تبلیغ کےلئے ایک وسیع میدان کا انتخاب کیاگیا لاکھوں کی تعداد میں اہل بغداد غوث پاک کا بیان سننے آتے اور اپنی اصلاح کرکے رہبر وراہنما بن کر واپس جاتے ۔اور اگر دوران بیان کسی پر روحانی توجہ پڑجاتی تو ولایت کا منصب عطا ہوجاتا ۔غوث پاک کے روحانی فیوض وبرکات  کا یہ عالم تھا کہ بس ایک بار کسی کی ملاقات ہوتی دل کی دنیا بدل جاتی ، تقوی وطہارت کی دولت نصیب میں آجاتی  اور جب نگاہ غوث میں کوئی بس جاتاتو فیضان غوث کا امین بن کر  لوگو ں کی اصلاح کےلئے روانہ ہوجاتا۔یوں ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوتا ہے جس کے روحانی اور علمی اثرات ناصرف بغداد پرپڑتے بلکہ سرحدوں کی حدود وقیود سے  ماوراء علما، عوام سرکار بغداد سے فیض لینے طویل مسافتیں طے کرکے آتے اور اصلاح نفس اور تزکیہ نفس کے بعد فیضان غوث اعظم سے مالامال ہوکر دین کی تبلیغ شروع کردیتے ۔

علم تصوف اور علمائے تصوف کی اصلاح :

فتاوی رضویہ میں زبدۃ الآثار کے حوالے سے ایک قول سرکار بغدادحضور سیدنا غوث اعظم  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   کا نقل کیا گیاہے: لا تقیسونی باحد ولا تقیسوا علی احدا  م  : مجھے کسی پر قیاس نہ کرو نہ کسی کو مجھ سے نسبت دو۔

 (زبدۃ الآثار تلخیص بہجہ الاسرار (اردو)   مکتبہ نبویہ لاہور  ص۷۷، فتاوی رضویہ ،جلد ۱۵،کتاب السیر،المدینہ لائبریری ،ص۲۰)

اس ارشاد کی روشنی میں حضور غوث پاک  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   کے مقام ومرتبہ کا پتا چلتا ہے کہ آپ روحانیت کی پروازمیں کتنے آگے ہیں کہ کسی میں آپ کی ہمسری کے دعوی کے مجال نہیں کیونکہ  حضرت سیدنا  غوث پاک کی علمی شان  ہو یا روحانی اڑان  ہر کوئی آپ کے روحانی مشرب اور میخانہ کا بادہ خوار ہے اسیلئے آپ کے زمانہ کے علمائے تصوف نے آپ ہی کے طریقہ کو اپنی نجات کےلئے سرمایہ زندگی سمجھا اور آپ ہی کے طریقہ پر اپنے اپنے سلاسل کی بنیادیں رکھیں ۔چنانچہ آپ کے زمانے کے جتنے متصوفین تھے جن کو جتنا کمال اپنے فن پر تھا حضور غوث پاک نے ان سب کا علمی تدارک کیا ان کی وضع کردہ اصلاحوں  کےبدلے آسان اور سادہ الفاظ میں تصوف کو بیان کیا اور تصوف کے اسباق سہل انداز میں ترتیب دیئے ، تصوف کی بنیادی تعلیمات کو ازسر نو منظم کیا اورتربیت کا باقاعدہ نظام قائم کیا اور اس نظام کے تحت لوگوں کی اصلا ح کی اور آپ کی علمی نگارشات میں شامل چند کتابیں تو فقد اہل تصوف کے سلوک کی منازل کو متعین کرتی ہیں انہیں جادہ تصوف پر چلنے کا طریقہ بتاتی ہیں۔

عصر حاضر میں سرکار غوثیث مآب کے فیوض وبرکات کی عملی تصویر:

سرزمین بغداد سے قافلہ قادریت  کا آغاز شہسوار ولایت  حضور سیدنا شیخ عبدالقادر الجیلانی نور اللہ مرقدہ نے کیا اور آپ کی ہمہ گیر روحانی تحریک کے اثرات دنیا میں موجود روحانی سلسلوں میں پھیلنے لگے حتی کہ جو جہاں تھا وہیں فرمان غوث اعظم : ’’ قَدَ مِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہ ‘‘ کے بعد جھک گیا اور بل علی رأسی وعینی کےالفاظ ادا کرنے لگ گیا علم تصوف کے ساری بساطیں فیضان غوث پاک کے آگے سرنگوں ہوگئیں اور اب جس کو بھی جو روحانی فیض ملتا ہے وہ بغدادکے دولھا کی روحانی توجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ موجود دور میں اس کی سب سے بڑی مثال قرآن وسنت کی عالمگیر تحریک ،عاشقان رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی اور بانی دعوت اسلامی کی  ہے ۔یہ تحریک اپنے روز اول سے ہی فیضان غوث الوری کے روحانی اثرات  سے مزین منہج سرکا ر بغداد کو خضرراہ بن کر لوگوں کی اصلاح سامان باہم پہنچارہی ہے۔اس روحانی ، علمی ، اصلاحی ، فلاحی تحریک کا ہر کام غوث پاک کے روحانی فیضان کا پرتو ہے۔بانی دعوت اسلامی امیراہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری عطاری کی سرکا ر غوث پاک سے والہانہ عقیدت ومحبت  کا نتیجہ تھا کہ آپ نے اپنےدینی کاموں کا آغاز بھی اسلوب قادریت پر رکھا ۔امیر اہلسنت و بانی دعو ت اسلامی  پیکر اخلاص بن کر سرکار بغداد کی غلامی کاطوغ سر پرسجاکر میدان عمل میں نکلے اور لوگوں کو دین کی دعوت دی ایک ایک فرد اس مردقلندر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگی کو سنت رسول کے سانچے میں ڈھالنے لگا اور یوں تبلیغ سے مدرسہ مخرمی  کے طرز پر نظام تربیت رائج کرنے کےلئے فیضان مدینہ قائم ہوتا ہےجہاں تزکہ نفس، اصلاح نفس کرکے دین کا مبلغ بنایاجاتاہے ۔اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور جوں جوں دعوت اسلامی کی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے توں توں فیضان قادریت  کی آب وتاب کی جھلک دعوت اسلامی کے دینی کاموں میں دکھائی دیتی ہے اورپھر بانی دعوت اسلامی  دین کی اصل تعلیمات کو آگے پھیلنے کےلئے منجھے اور سلجھے باعمل افراد تیار کرنےکےلئے علمی درسگاہ جامعۃ المدینہ کی سنگ بنیاد رکھتے ہیں۔فیضان قادریت سے مالا مال ہوکر جب علمائے تصوف نے اپنی جان سرکار غوث پاک کو سپرد کی اور آپ نے تصوف کے سلاسل کے ہر سلسلے خواں وہ نقشبندیہ ، چشتیہ ، سہروردیہ، رفاعیہ ،قادریہ، نظامیہ  وغیرہ وغیرہ  ہو کو اپنی روحانی توجہ سے سرخیل تصوف بناکر دور دراز ملکو ں اور علاقو ں میں امت محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ و السلام کی اصلاح کےلئے بھیجااسی اسلوب کو اپنا کر مرید غوث پاک  میرکاروان دعوت اسلامی ،امیر قافلہ دعوت ا سلامی،سالار قافلہ دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس عطار قادری نے اپنے تمام مریدین کو میدان عمل میں تبلیغ کےلئے بھیجا اور ہر مرید غوث پاک کی نسبت کو تھام  کرفیضان غوثیت کو دنیا بھر میں عام کررہا ہے ۔چنانچہ پانچویں صدی ہجری میں سرکار بغداد نے جس روحانی تحریک کاآغاز کیا اور اسی تحریک کے روحانی اثرات جب دعوت اسلامی پرپڑے توآج 150 سے زائد ممالک فیضان غوث الوری سے جگمگارہے ہیں۔

امیر اہلسنت نےاپنے تمام مریدوں کو غوث پاک کی محبت کا ایسا جام پلا یا کہ آج  ہر مرید اپنے شیخ کےذریعے سرکار بغداد کے فیوض وبرکات  سے مستفید ہورہا ہے اور لوگوں میں فیضا ن قادریت بانٹا رہا ہے۔

عطائے حبیبِ خدا مَدَنی ماحول       ہے فیضانِ غوث ورضا مَدَنی ماحول

دعوت اسلامی پر حضور غوث اعظم  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   کے روحانی فیوض وبرکات  کے اثرات یقینا بہت زیادہ ہیں اور سلسلہ فیض یوں ہی جاری وساری رہے گا ۔جتنا مرید اپنے شیخ کے ارشادات پر عمل کرتا ہے اتناہی فیض پاتاہے اور بانی دعوت اسلامی تو ہیں ہی پیکر اخلاص ووفا ،مرید باصفا آپ کے انگ انگ میں قادریت کا فیضان جوش مارہاہے ۔

         حضور غوث پاک کی حیات وخدمات کےحوالے سے یقینا بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے اور علما نے بہت کچھ لکھا بھی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور غوث پا ک  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ   کی بے شمار شانیں ہیں اوران شانوں کاتذکرہ کرنے کےلئے ہماری زندگی بیت جائے گی لیکن آپ کے کمالات بیان نہیں ہوسکیں گے ۔آپ کی سیرت کے چند گوشوں کو ویب سائٹ پر پیش کیاگیا ہے ۔مزید آپ سب کو دعوت دی جاتی ہےکہ حضور غوث پاک کے حالات وواقعات پر مشتمل کتاب’’غوث پاک کے حالات‘‘ اور’’فیضان غوث اعظم ‘‘رسالہ کا مطالعہ  بہت مفید رہے گا۔

islam

غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کا نائب کون؟

islam

حضور غوثِ پاک کیسے دِکھتے تھے؟