عید الاضحی کی خوشی - اسلام میں قربانی
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے

قربانی کے دینی ودنیاوی فوائد

اسلامی تہوار میں  دس ذوالحجہ کے دن    کو  عید الاضحی، بقرہ عید، عید قربانی، بڑی عید وغیرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ، اس دن کو اسلامی روایت میں کئی لحاظ سے اہمیت حاصل ہے ۔ اس دن ایک طرف عالم اسلام کے طول وعرض  میں اہل ایمان حکم خداوندی پر عمل پیرا ہوکر سنت ابراہیمی  ادا کرتے ہیں تو دوسری طرف حج قران و حج تمتع کرنے والے  فرزندان توحید  منی میں حج کے شکرانہ کے طور پر رضائے الٰہی کےلئے قربانی  پیش کرتے ہیں۔سنت ابراہیمی ادا کرنے والے مسلمان دنیا کے کسی بھی   کونے میں رہ کر  قربانی کی سنت  کے ادا کرسکتے ہیں جبکہ قراٰن وتمتع کرنے  والے حجاج صرف سرزمین حرم میں  ہی  قربانی کی صورت میں حج کا شکرانہ ادا کرسکتے ہیں۔

قربانی  کا لفظ اپنے وسیع معنوں میں بہت سارے مواقع پر بولاجاتاہے ،اسی قربانی کے مترادفات میں دو لفظ نذر اور ایثار کے بھی آتے ہیں ،کسی عظیم کام یا کسی بہت بڑے مقصد کی تکمیل کےلئے کی جانے والی کوششوں کو بھی قربانی  کا نام دیاجاتاہے،کسی اپنے عزیز کےلئے  نقصان برداشت کرنے کوبھی قربانی دینے والا کہاجاتاہےگویا قربانی کا لفظ  معنی کے لحاظ سے اپنے اندر بہت زیادہ وسعت  رکھتا ہے۔

 یہ  ہی لفظ جب اسلامی  تعلیمات  کے تناظر میں  بولا جائے تو اس کے معنی میں عبادت وثواب    کا عنصر غالب آجاتا ہے جیساکہ  لفظ قربانی کی تعریف    : مخصوص جانورکومخصوص دن میں بہ نیتِ ثواب  ذبح کرناقربانی کہلاتا ہے۔ (بہارِ شریعت،   ۳/۳۲۷) سے   قربانی   کا مقصد اور اس مقصد کی تکمیل پر اجر ثواب     کا حاصل ہونا پتا چلتا ہے۔

ذوالحجہ کے مہینے کی   10 تاریخ کو اہل ایمان قربانی کا جانور اپنے رب کی رضا کے لئے  پیش کرکے اپنے  رب کی قربت    کی لازوال  نعمت سے سرشار ہوتے ہیں ا وراپنے رب کی راہ میں قربانی  کا جانور پیش کرنے سے  ان کے اندر جذبہ قربانی  مزید پہلے سے بڑھتا ہوا نظر آتاہے ، وہ اس سنت کو ادا کرکے حضرت سَیِّدنا اسماعیل عَلَیْھِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورحضرت سَیِّدناابراہیم عَلَیْھِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اطاعتِ  خدا   کی یادتازہ کرتے ہیں کہ کس  طرح   حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام    اپنے رب کے حکم    کی بجا آوری کرتے ہوئے بیٹے کی قربانی کیلئے تیار ہوئے اور حضرت اسمعیل عَلَیْہِ السَّلَام بھی حکمِ الٰہی  پر عمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے قربان ہونے کیلئے  راضی ہوگئے ۔اہل ایمان بھی اسی جذبہ قربانی کو  پیش نظر رکھ  کر  رب قدوس کی دی ہوئی حیثیت اور استطاعت  کے مطابق قربانی کرکے بارگاہ الٰہی سے کثیر اجروثوات کے مستحق قرار پاتے ہیں۔نیز اللہ جل مجدہ کے نزدیک بھی بندہ کی طرف سے کی جانے والی قربانی سے مقصود بندہ کا تقوی اور اخلاص ہےکیونکہ رب کو جانور یااس کے گوشت کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی بارگاہ میں  جو چیز مقبول ہے وہ اخلاص ہے ارشاد باری تعالی ہے:’’ لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ‘‘                                                                         ( پ: 17، الحج : 37)

تَرْجَمَۂ کنز الایمان :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔

عید الاضحی  کا دن   درحقیقت خلیل اللہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی یاد تازہ کرتاہے اس دن اہل ایمان  خلیل اللہ کی  قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ،ان کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے رب کی خوشنودگی کےلئے قربانی کا جانور پیش کرکے رب کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں ۔اسیلئے اس دن  رضائے الٰہی کےلئے  جانور کا  خون بہانے  سے زیادہ کوئی اور نیکی مقبول نہیں۔

اسلام میں قربانی کی اہمیت اور فضائل:

اسلامی تعلیمات کے بنیاد ی ماخذ قرآن وسنت میں  قربانی کی اہمیت اور فضائل   پر کثیر ادلہ موجود ہیں چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے :

’’ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ‘‘                                                                               ۳۰،الکوثر،۲)

تَرْجَمَۂ کنز الایمان :تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔

مشہور مفسرِ قرآن امام فخرُ الدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اس آیتِ مُبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:حنفی علمائے کرام نے اس آیت سے یہ اِسْتِدلال فرمایا کہ قُربانی واجب ہے ۔             (تفسیر کبیر،۱۱/۳۱۸)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  10 ذی الحجہ کے دن کی اہمیت کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَی اللہ مِنْ إِہْرَاقِ الدَّمِ وَإِنَّہُ لَیَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُونِہَا وَأَشْعَارِہَا وَأَظْلَافِہَا وَإِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللہ بِمَکَانٍ قَبْلَ أَنْ یَقَعَ بِالْأَرْضِ ‘‘۔

قربانی کے ایام میں ابن آدم کا کوئی عمل خدائے تعالی کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے )سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں، کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدائے تعالی کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے ۔   (’’سنن الترمذی‘‘،الحدیث: ۴۱۹۸، ج۳، ص۱۶۲، ’’سنن ابن ماجہ‘‘، الحدیث: ۳۱۲۶، ج۳، ص۵۳۰.)

صحابہ کرام نے قربانی کے بارے میں حضور علیہ الصلاۃ والتسلیم کی خدمت عالیہ میں عرض کی  کہ : یَا رَسُولَ اللہ مَا ہَذِہِ الْأَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالُوا فَمَا لَنَا فِیہَا یَا رَسُولَ اللہ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوا فَالصُّوفُ یَا رَسُولَ اللہ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنْ الصُّوفِ حَسَنَۃٌ‘‘۔

یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے باپ حضرات ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔  صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا اس سے ہم کو ثواب ملے گا۔ ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے عرض کیا اور اون یارسول اللہ! تو آپ نے فرمایا کہ اون کے ہر بال میں بھی ایک نیکی ملے گی۔         (’’المسند‘‘ أحمد بن حنبل،، الحدیث: ۱۹۳۰۳، ج۷، ص۷۸، ’’سنن ابن ماجہ‘‘،، الحدیث: ۳۱۲۷، ج۳، ص۵۳۱.)

حکم قرآن  اور ارشادات رسول اکر م   صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگی کہ قربانی  ایک دینی فریضہ ہے جسے بہرصورت ہر عاقل بالغ صاحب حیثیت مسلمان کو ادا کرنا ضروری ہے  اور اس فریضہ کی ادائیگی میں ہی  رب دوجہاں کی رضا اور رسول محتشم کی خوشنودی  حاصل ہے۔اب اس دینی فریضہ  یعنی قربانی کرنا ہی  حصول ثواب کا ذریعہ  اور آخرت کے اجر کا باعث ہے  اور یوم نحر  کے دن بنا قربانی کئے لاکھوں روپے خرچ کرنے سے وہ اجر وثواب نصیب نہیں ہوگا جوجانورکا خون بہانے سے حاصل  ہوگا۔

حتی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے ان صاحب حیثیت  مسلمانوں کو   نماز عید  کےلئے عید گاہ آنے سے منع فرمادیا جو مالی وسعت کے باوجود قربانی نہیں کرتے چنانچہ آپ علیہ الصلاۃ و التسلیم کا ارشاد گرامی ہے :’’ جس شخص میں قُربانی کرنے کی وُسعَت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔                                                       ( اِبن ماجہ ج۳ص۵۲۹ حدیث۳۱۲۳) ‘‘

قربانی کے دینی فوائد :

انفاق فی سبیل  کی کوئی بھی  صورت ہو   وہ برکت سے خالی نہیں ہوتی ہے حتی کہ ایک روپیہ بھی اللہ  کی راہ میں خرچ کرنے سے دس گنا ثواب ملتا ہے اورحسن نیت  واخلاص  سے خر چ کیا جانے والا پیسہ اپنے اندر کتنی خیر وبرکت رکھتا ہے اس کا اندازہ راہ خد امیں خرچ کئے جانے کےبعد غیبی طریقوں سے ملنی والی برکات  سے حاصل ہوتاہے، پھر رب اپنے راہ میں دیئے گئے عطیات کوکئی گنا  اضافہ کےساتھ واپس بھی لوٹادیتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:’’ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ‘‘                                                                                                           (البقرۃ:۲۶۱)

ترجمۂ  کنزالعرفان: ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں ،ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔

مذکورہ آیت کی تفسیر میں  مفسر قرآن شیخ الحدیث جناب مفتی محمد قاسم صراط الجنان جلد ۱ ،ص نمبر ۳۹۵ پر فرماتے ہیں :’’ اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ  تعالٰی کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے ‘‘۔

اللہ کی راہ میں جانور ذبح کرنا بھی ایک انفاق فی سبیل اللہ  کی مثال ہے اور وہ لوگ جو  ہر سال اخلاص کے  ساتھ دس  ذی الحجہ کے دن قربانی کا جانور  اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں انہیں اس عمل  کی برکتیں  سارا سال ملتی رہتی ہیں پھر اس عمل کا دوسرا بڑ ا دینی فائدہ آخرت میں ملنے والا اجر وثواب ہے۔

قربانی کے دنیاوی فوائد:

قربانی یعنی  یوم نحر ذو الحجہ  کی 10  ، 11 اور 12 تاریخ میں کسی  بھی تاریخ کو  اللہ کی رضا کےلئے جانور ذبح کرنے کے جہاں بےشمار دینی فوائد اور برکتیں ہیں وہیں  اس عمل خیر کی بے بہا برکتیں دنیاوی اعتبارسے بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جیسے کہ ملک کے طول وعرض میں قربانی کے جانوروں کی خریدوفروخت  کے سلسلہ میں مویشی منڈیاں   لگنے سے کاروباری سرگرمیاں عروج پرآجاتی ہیں، ہزاروں لوگوں  کو روزگار کا موقع ملتا ہے تقریبا  عید قربانی سے   دوماہ قبل ہی   مویشی منڈی میں  تجارتی بازار گرم ہوجاتاہے ،دوردراز ،گاؤں دیہات کے لوگوں کو  جانوروں کو اچھے دام میں بیچنے کا سنہری موقع ملتا ہے، مزدوری کرنے والے کو اچھی روزی مل جاتی ہےیوں دنیاوی اعتبار سے مویشی منڈی  میں کام کرنے والوں کو بہت زیادہ فائدہ ملتا ہے یہ ہی وجہ ہےکہ لوگ سارا سال اپنے جانوروں کو اچھےدام میں بیچنے کےلئے  عید الاضحی   کا انتظار کرتے ہیں۔عید الاضحی   ایونٹ   سے معیشت کو استحکام ملتا ہے ، غریبوں کو کثیر تعداد میں  کھانے کےلئے مفت گوشت فراہم ہوتا ہےیوں  خیر خواہی اور خیر سگالی کے جذبات   دیکھنے کو ملتے ہیں ۔

معاشی فوائد:

بقرہ عید کے ایونٹ کا سب سے بڑافائدہ    قربانی کے جانوروں   کی خریدوفروخت سے ملک کو معاشی استحکام ملتا ہے ،غلہ منڈی، بھینس مندی، مویشی منڈی، چارہ منڈی ، کیٹل فارم    کے مالکان  اور جانوروں   کی خوارک  کا کام کرنے والے  تاجروں    کو کاروبار کا وسیع موقع ملتاجاتاہے،اربوں روپے کے جانور راہ خدا میں ذبح کئے جاتے ہیں  مگر اس کے باوجود ہر سال جانور وں کی بہتات مارکٹ اور  منڈیوں میں نظر آتی ہے۔پھر چرم قربانی سے چمڑے کی تجارت عروج پر آجاتی ہے،ٹیکسز اور محصولاتی نظام    کو جانوروں کی نقل مکانی اور تجارت سے  فائدہ ہوتاہے اور ملک کے وسائل میں اضافہ ہوتاہے۔

معاشرتی فوائد:

قربانی    کے دیگر بے شمار فائدوں میں ایک سب سے بڑافائدہ  معاشرتی خیر سگالی ہے اگر قربانی کے گوشت کی تقسیم  کے طریقہ کار  پرغور کیاجائے تو اس کے تین فائدے نظر آتے ہیں:ایک قربانی کرنے والے کو خود قربانی کا گوشت کھانے کو ملتا ہے،دوسرا عزیز واقارب، رشتہ دار ، پڑسیوں کے ساتھ تقسیم گوشت سے حسن سلوک  کی برکتیں حاصل ہوتی ہیں اورتیسری اہم چیز  غریبوں ، محتاجوں، مساکین  اور قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں  کے ساتھ دلی ہمدردی کےجذبات اُمنڈتے  ہوئے نظر آتے ہیں۔گویا قربانی    کے ایونٹ سے سارا معاشرہ مستفید ہوتا ہے ، ہر گھر میں ایک دو مہینے تک  گوشت کی وافر مقدار جمع ہوجاتی ہے۔اللہ کے ہر کام میں حکمت و دانائی ہوتی ہے،  عبادت کو  عقل کے پیمانے تولنے کی بجائے رب کی حکم کو  بسر وچسم   سراپا نیاز بن کر قبول کریں تو عبادت  کی ظاہری وباطنی برکتیں خود بخود ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے،ہم  صرف یہ سوچیں کہ ہمیں  قربانی کا حکم   کس نے دیاہے ، کس کے حکم پر ہم قربانی کررہے ہیں اور یہ جانور کس نے پیدا کئے ہیں،کون ہر سال جانور میں برکت ڈالتاہےکہ لاکھوں جانور ذبح ہونے کے باوجود پھر لاکھوں کی تعدا د میں موجود ہوتے ہیں جب ہم  یہ باتیں   اللہ پر یقین رکھتے ہوئے سوچیں گے تو کبھی قربانی سے متعلق شکوک وشبہات اور  قربانی  کے ایونٹ پر وایلامچانے والوں    کی طرف ہمارا دھیان نہیں جائے گا  اور غیر متزلزل یقین کے ساتھ  قربانی کا جانور     راہ خدا میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔

قربانی کس طرح کی جائے :

ذوالحجہ    کی دس تاریخ کو قربانی  پیش کرنے کے دو طریقہ   ہمیں نظر آتے ہیں ایک انفرادی طور پر  ،دوسرا اجتماعی طور۔انفرادی طور ہر صاحب حیثیت   مسلمان اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی پیش  کرتا ہے دوسرا  طریقہ اجتماعی طور پر    قربانی کی جاتی ہے۔قربانی خواہ انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی طور  بہر صورت قربانی کے مسائل  جاننا اور سیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے یہ سیکھنے کا مرحلہ اس لئے بھی ضروری ہےکہ قربانی ایک مالی عبادت ہے اور عبادت فقط اللہ کےلئے کی جاتی ہے تو عبادت کو احسن طریقہ سے ادا کرنے کےلئے سنت رسول پر عمل پیراہونا ضروری ہے اور سنت رسول  کی صحیح پہچان اور احکام کی تشریعی حیثیت   کے بارے میں آگاہی فقہائے کرام کی تعلیمات  سے حاصل ہوتی ہے، اور فقہائے کرام  کے ذکر کردہ مسائل جاننے کےلئے کسی معلم اور استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔پھر اگر استاد سے براہ راست فیض یابی نصیب نہ ہو تو عبادت کا درست طریقہ کسی مستند کتاب سے تلاش کیا جاتاہے۔تو گویا عبادت کو عبادت کے طریقہ کے مطابق اسی صورت میں ادا کیاجاسکتاہے جب عبادت  کے بارے میں ہمیں  مکمل طور پر آگاہی ہو۔چنانچہ اس عقدہ  کو حل کرنے کےلئے ایک نیاب اور منفرد کتاب رسالہ کی صورت میں  موجودہ صدی کی عظیم علمی وروحانی شخصیت  امیر اہلسنت محمد الیاس قادری  کی علمی خدمات سے  حاصل ہوتی ہے ۔ایک مختصر  لیکن  قربانی کی فضیلت واہمیت اور مسائل  سے بھرپور  رسالہ ’’ابلق گھوڑے سوار‘‘ 46 صفحات پر مشتمل   ہر مسلمان  کی ضرورت کو پورا کرتا ہوا۔اس رسالہ کے مطالعہ سے آپ کو قربانی کی اہمیت، مسائل، جانور    کے بارے میں رہنمائی اور گوشت کی تقسیم کاری سے متعلق مفید معلومات  میسر ہوں گی۔ نیز دعوت اسلامی کی دینی، اخلاقی، علمی ، تعلیمی ،سماجی اور  معاشری  خدمات  کے بارے میں   بھی بہت کچھ جاننے کا موقع ملے گا۔

eid ul adha

مدنی گلدستہ۔ قربانی(05) ۔ قربانی کسے کہتے ہیں ؟

eid ul adha

قربانی اور اخلاص