امیرالمومنین حضرت عثمان غنی کے کارنامے
امیرالمومنین حضرت عثمان غنی کے کارنامے
خریدار جنت ،قدیم الاسلام صحابی رسول , جامع القرآن ،تیسرے خلیفۃ المسلمین، امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سابقین اولین میں چوتھے نمبر پر اسلام قبول کرنے والے وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں فیاض ازل سے سخاوت کا وہ فیض ملا جس نے آپ کی زندگی کو انفاق فی سبیل اللہ کی رہتی دنیا تک مثال بنادیا اور خدمت اسلام میں سخاوت کی وجہ سے سید الاسخیاء کہلائے،آپ کو فیضان نبوت سے دونور عطاکئے جانے کا وہ شرف ملا جس نے آپ کو ذوالنورین بنادیا ا وریہ شرف اولاد آدم میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوا،آپ کامل الحیاء و الایمان کے اعلی درجہ پرفائز ہونے والے وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کی شرم وحیا پر ملائکہ بھی نازاں ہیں۔اس عظیم المرتبت صحابی رسول کی عظمت وشان اور مناقب ومحاسن کے بیان میں کتب حدیث اور کتب سیرت صحابہ سے چند اقتباسات مطالعہ کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔
حضرت عثمان غنی کا نام ونسب اور خاندانی شجرہ کتب تاریخ کے حوالے سے پیش خدمت ہے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا نام ’’عثمان ‘‘ کنیت ابو عمر اور لقب ”ذوالنورین“ ہے ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے ، عثمانِ بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف ، یعنی پانچویں پشت میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا سلسلۂ نسب رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے شجرۂ نسب سے مل جا تا ہے ۔
آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نانی ام حکیم جو حضرت عبدالمطلب کی بیٹی تھی وہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے والدِ گرامی حضرت عبداللہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ ایک ہی پیٹ سے پیدا ہوئی تھیں، اس رشتہ سے حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی والدہ حضور سیدِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پھوپھی کی بیٹی تھیں، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی پیدائش عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی ۔
(اسد الغابۃ، عثما ن بن عفان، ۳ /۶۰۶،تاریخ الخلفاء، عثمان بن عفان، ص۱۱۸،خلفائے راشدین، ص ۱۸۴،۱۸۵)
حضرت عثما ن کا شمار اہل مکہ کے رئیس خاندان میں ہوتا ہے آپ کو خاندانی وجاہت کے علاوہ مال ودولت کے لحاظ سے بھی برتری حاصل تھی، طلوع اسلام کے بعد اوراعلانیہ دعوت الی اللّٰہ سے پہلے خفیہ طور پر جب آقادوجہاں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبلیغ کا آغاز کیا تو آپ کی دعوت الی اللّٰہ سے متاثرین ہونے والوں میں سیدناصدیق اکبر مَردوں میں پہلے مشرف بالاسلام ہونے والے خوش نصیب صحابی بنے ۔چنانچہ حضرت صدیق اکبر نے ایمان لاتے ہی تبلیغ شروع کردی اور عشرہ مبشرہ میں سے پانچ حضرات آپ ہی کی تبلیغی کوششوں سے اسلام کی دولت سے مالامال ہوئےانہی میں سے ایک حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی تھے جواسلام سے مشرف ہوئے ۔آپ کے اسلام لانے کی خبر جب آپ کے خاندان والوں کو پتاچلی تو پورا خاندان ناراض ہوگیا حتی کہ آپ کے چچا حکم بن العاص نے آ پ کو رسی سے باندھ دیااور آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے ہم تم کو اسی طرح باندھ کر رکھیں گے ۔حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے چچا کے جواب میں ایک تاریخی جملہ کہا :
” وَاﷲلَا اَدَعُہ اَبدًا وَلَا اُفَارِقُہ “
یعنی خدائے ذوالجلال کی قسم !مذہب اسلام کو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور نہ کبھی اس دولت سے دست بردار ہوسکتا ہوں۔
میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالو یہ ہوسکتا ہے مگر دل سے دین ِاسلام نکل جائے یہ ہرگز نہیں ہوسکتا، حکم بن ابی العاص نے جب اس طرح آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا استقلال دیکھا تو مجبور ہو کر آپ کو رہا کردیا ۔
(تاریخ مدینۃ دمشق، عثمان بن عفان ، ۳۹ /۲۶،خلفائے راشدین،ص ۱۸۶،۱۸۷)
حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فیضان نبوت کے فیض یافتہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے اپنے مال ومتاع کےذریعے خدمت اسلام پیش پیش رہے ، غلاموں کی آزادی کا معاملہ ہو، یا مسلمانوں کی خیرخواہی کے کام، توسیع مسجد ہو یا وسعت اسلام کےلئے مالی قربانی ،جنگی سازوسامان ہو یا سوشل ویلفیئر کے کام ہر معاملہ میں حضرت عثمان غنی نے اپنا مال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔چنانچہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعدجب مسلمانوں کو پانی کی قلت محسوس سامنا کرنا پڑا اس وقت مدینہ میں قبیلہ بنی غفار کے ایک شخص کی ملکیت میں رومہ نامی کنواں تھا ،یہ شخص ایک مُد کے بدلے پانی کا مشکیز بیچتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بئر رومہ کے مالک سے فرمایاکہ: ’’ مجھے یہ چشمہ جنت کے چشمہ کے بدلے بیچ دو‘‘ مالک کنواں نے حضور علیہ الصلاۃ و السلام کی پیش کش کو قبول کرنے معزرت کی اور جب اس بات کی اطلاع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صحابی جناب سیدنا عثمان غنی سے معلوم ہوئ تو آپ نے اس کنوئیں کو 35 ہزار درہم کا خرید کر بارگاہ رسالت میں حاضری دی اور عرض کی :’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !اگر میں وہ کُنواں خریدوں توکیا آپ میرے ساتھ بھی ویسا معاملہ فرمائیں گے؟(یعنی جنّتی چشمے کے بدلے مجھ سے قبول فرمالیں گے؟) رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےاِرشادفرمایا : بالکل ، حضرتِ عثمان ِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !میں نے وہ کُنواں خریدکر تمام مسلمانوں کے لئے وَقف کردیا ہے۔
(معجم کبیر ، 2 / 41 ، حدیث : 1226، حضرت عثمان بھی جنتی جنتی،ص ۱،۲) ‘‘
حضرت عثمان غنی کو یہ اعزاز حاصل ہےکہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب پر دو بار جنت خریدی۔ ایک بار جب کہ بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کےلئے وقف کیا۔دوسری بار جب غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جنگ کی تیاری کا اعلان کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کے پاس جنگی سامان کی بہت زیادہ قلت تھی اور مالی حالت بھی مستحکم نہ تھےدرحقیقت مدینہ میں قحط پڑا ہواتھا لوگ درختوں کے پتے کھا کرگزارا کررہے تھے،اسیلئے اس غزوہ کو جیش عسرہ یعنی تنگدستی کا لشکر کہاجاتا ہے۔اس اہم موقع پر حضرت عثمان غنی نے غزوہ تبوک کی تیاری کےلئے تین بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ترغیب پر سو اونٹ مع سازوسامان کے، پھر دوسو اونٹ پالان اور سامان کےساتھ، پھر تین سو اونٹ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بار گاہ میں پیش کرنا کا وعدہ کیا۔
سخاوت عثمان کی حدیث بیان کرنے والے راوی حضرت عبد الرحمن بن خباب فرماتے ہیں کہ :’’ میں نے دیکھا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم منبر سے اُترتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ۔
”مَاعَلیٰ عُثمان ما عَمِلَ بَعْدَ ھذہ ، مَا عَلیٰ عُثمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ھٰذِہ “یعنی ایک ہی جملہ کو حضور سید عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دوبار فرمایا ۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اب عثمان کو وہ عمل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو اس کے بعد کریں گے ۔ ‘‘
(خلفائے راشدین، ص ۱۹۲، حضرت عثمان بھی جنتی جنتی،ص۶)
امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ زبر دست عاشقِ رسول بلکہ عشقِ مصطَفٰے کا عملی نُمونہ تھے اپنے اقوال واَفعال میں محبوبِ ربِّ ذُوالجلال صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّتیں اور ادائیں خوب خوب اپنایا کرتے تھے ۔چُنانچِہ ایک دن حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسجدکے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگوا یا اور کھایا اوربِغیرتازہ وُضو کئے نَماز اداکی پھر فرمایا کہ یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی اِسی جگہ بیٹھ کریِہی کھایا تھا اور اِسی طرح کیا تھا۔
(مُسندِ اِمام احمد بن حنبل، ج ۱،ص۱۳۷ ،حدیث:۴۴۱)
حضرتِ سیِّدُنا عُثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک بار وُضو کرتے ہوئے مُسکرانے لگے! لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے: میں نے ایک مرتبہ سرکارِ نامدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اسی جگہ پر وُضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔
(اَیضاً ص۱۳۰حدیث۴۱۵ مُلَخّصاً،کرامات عثمان غنی، ص۸)
حضرت عثمان غنی کی عظمت وشان ،رفعت مکان، بلندی مراتب ،فضائل وکمالات، مقام ومرتبہ کے بارے میں مؤرخین نے اپنی اپنی کتابوں میں بہت کچھ لکھا ہے ۔لیکن جو فضائل احادیث میں آپ کے بارے میں وارد ہوئے ہیں انہی پر اکتفاکرتے ہوئے دو فرامین رسول پیش کئے جاتے ہیں ۔
ترمذی شریف اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ا سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک روز حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمایا کہ اے عثمان !خدائے تعالٰی تجھ کو ایک قمیص پہنائے گا یعنی خلعتِ خلافت سے سرفراز فرمائے گا ۔ پھر اگر لو گ اس قمیص کے اتارنے کا تجھ سے مطالبہ کریں تو ان کی خواہش پر اس قمیص کو مت اتارنا یعنی خلافت نہیں چھوڑنا اسی لیے جس روز ان کو شہید کیا گیا انہوں نے حضرت ابو سہلہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمایا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ کو خلافت کے بارے میں وصیت فرمائی تھی ۔ اسی لیے میں اس وصیت پر قائم ہوں اور جو کچھ مجھ پر بیت رہی ہے اس پر صبر کررہا ہوں ۔
(سنن الترمذی، کتاب المناقب، مناقب عثمان، الحدیث: 3725، 5/393،خلفائے راشدین ،ص ۲۰۵،۲۰۶)
ترمذی شریف میں حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مقامِ حدیبیہ میں بیعت رضوان کا حکم فرمایا ۔ اس و قت حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قاصد کی حیثیت سے مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے ۔ لوگوں نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ جب سب لوگ بیعت کرچکے تو رسول ِمقبول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ عثمان خدا اور رسول ِخدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کام سے گئے ہوئے ہیں ۔ پھر اپنا ایک ہاتھ دو سرے ہاتھ پر مارا ۔ یعنی حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی طرف سے خود بیعت فرمائی ۔ لہذا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مبارک ہاتھ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے لیے ان ہاتھوں سے بہتر ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے بیعت کی ۔
(سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان، الحدیث:3722، 5/392،خلفائے راشدین ،ص ۲۰۴)
امیر المؤمنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی شہادت کے بعدخلافت کےلئے منتخب کردہ چھ صحابہ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن میں سے حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مسند خلافت کے لئے منتخب کیاگیا آپ کادورہ خلافت 12سال پر محیط ہے آپ کے زمانہ خلافت میں اسلامی سرحدوں میں مزیدوسعت ہوئیں فتوحات کا نیا دور شروع ہوا ،آپ ہی دورہ خلافت میں خراسان کاشہر رے فتح ہو جو اس وقت ایران کا دار الخلافہ تھران کےنام سے مشہور ہے، آپ کے ہی دورہ خلافت میں بحری بیڑے کےذریعے قبرص فتح ہوا۔افریقہ ا، ہسپانیہ یعنی اسپین،ایران کے دیگر شہراور دیگر ممالک اسلامی سرحدوں میں شامل ہوئے۔
حضرتِ عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بارہ سال خلافت فرماکر 18ذوالحجۃ الحرام سِن35 ہجری میں بروز جمعہ روزے کی حالت میں تقریبا 82سال کی عمرمبارک پاکر نہایت مظلومیت کے ساتھ شہیدکئے گئے۔ شہادت کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خواب میں فرماتے سنا : بے شک عثمان کو جنَّت میں عا لی شان دولہا بنایا گیا ہے۔
(ریاض النضرۃ ، 3 / 73 ، 76، حضرت عثمان بھی جنتی جنتی،ص۱۵)
اللّٰہ پاک کی ان سب پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔