حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے

سید الشہدا  امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت کے حسین گوشے

گلشن نبوت کے مہکتے پھول ، رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل ،راکب دوش مصطفی، جگر گوشہ مرتضی، دلبند زہرا ،پیکر صبر رضا،امام عالی مقام ، سید الشہدا، سلطان کربلا حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ عَنْہ اہل بیت اطہار کے وہ حسین و جمیل شہزادےہیں جن پر انسان تو کجا ملائکہ بھی نازاں ہیں۔سرزمین کربلا کے خونی منظر میں آپ کی قربانیوں کی لازوال داستان نے شہادت کا وہ حسین باب رقم کیاکہ شہادت کوبھی آپ کی شہادت پر فخر وغور آگیا۔آپ کی شان عظمت نشان کے بارے میں آپ کے نانا جان فخر انبیاء ورسل صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بوسہ لیتے ہوئے ارشادفرمایا: ''مرْحَبًا بِمَنْ فَدَیْتُہٗ بِاِبْنِیْ۔ ایسے کومرحباجس پر میں نے اپنا بیٹاقربان کیا۔ (تاریخ بغداد،ج۲،ص۲۰۰،بلفظ'' فدیت من ،آئینہ قیامت،ص۱۴) مولی امام حسین  کی سیرت ، صورت، صفات، خصائل، عزم وہمت، ظلم و جبر کے مقابلے میں استقامت،شجات وجوانمردی، باطل کے منہ زور طوفان کےسامنے حق کی علمبرداری کے واقعات کتب تاریخ سے لبریز ہیں نیز آپ نےپرچم حق کی سربلندی کےلئے اپنی جان کی بھی بازی لگاکر راہ شہادت میں ایسی تاریخ رقم کی کہ جس کی مثال نہ پہلے تھی اور نہ ہوگی بلکہ تاصبح قیامت تک حضرت سیدنا امام عالی وقار امام حسین رَضِیَ اللہ عَنْہ اور ان کے رفقاء کی قربانیوں کے حسین تذکرے تاریخ کے صفحات و اوراق پر چمکتے دمکتے رہیں گے اور محرم الحرام کی آمد سے ہی یاد کربلا تازہ ہوجاتی ہے،زبان پرشہدائے کربلا بالخصوص نواسہ رسول ،جگر گوشہ بتول ، نور نظر مرتضی کی سیرت کے دلنشین تذکرے دلوں میں کیف وسرور پیدا کردیتے ہیں زبان پر اہلبیت اطہار کے فضائل وکمالات کے نغمے چھڑجاتے ہیں، آنکھیں شہدائے کرب وبلا کی قربانیاں یاد کرکے پرنم ہوجاتی ہیں یوں محسوس ہوتاہے کہ آج بھی کرب وبالا کے تپتے ریگ زاروں سےحسینی کردار امت کو جذبہ ایثار وقربانی کےلئے ابھارتا ہے ،عظمت دین اور اعلی کلمۃ الحق کا پرچارکرنےکےلئے انگیخت کرتا ہے ۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

 

سیرت امام حسین رَضِیَ اللہ   عَنْہ:

امام المتقین ، امام واصلین، پیکر صبرورضا، خوشبوئے مصطفی ، نور نظر مرتضی رَضِیَ اللہ عَنْہ  کی سیرت اور فضائل وکمالات پر بےشمار کتابیں لکھی گئیں ہیں بلکہ تدوین تاریخ سے پہلے بھی ذکر حسین کے چرچے صحابہ کرام میں مشہور تھے جن کا ثبوت احادیث اور سیرت کی کتابوں میں درج ہے۔چنانچہ اس مختصر سے آرٹیکل میں ذکر امام  حسین کے کچھ گوشے مطالعہ کی نظر کئے جاتے ہیں ۔

امام الشہدا حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ عَنْہ کی ولادت باسعادت ہجرت کے چوتھے سال 5 شعبان المعظم  کو مدینۃ المنورہ میں ہوئی۔کتب کثیرہ کے مصنف ،مصلح امت حضرت شیخ امیر اہلسنت الیاس قادری ’’فضائل امام حسین رضی اللہ عنہ ‘‘ نامی رسالہ میں تحریر کرتے ہیں کہ :’’ اللہ  کریم کے آخری نبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاپنے پیارے پیارے نواسے حضرتِ سیِّدُنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کےسیدھے(Right)کان میں اَذان دی اور بائیں (Left)کان میں تکبیر پڑھی اور اپنے مبارک جُوٹھے شریف سے گُھٹی عطا فرماتے ہوئے دُعاؤں سے نوازا۔ ساتویں دن آپ کا نام ’’حُسین ‘‘رکھا اور ایک بکری سے عقیقہ کیااور آپ کی امّی جان خاتونِ جنّت حضرتِ بی بی فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے اِرشاد فرمایا : حَسن رضی اللہ عنہ کی طرح اِن کا سرمُنڈاکر بالوں کے برابر چاندی خیرات کرو۔‘‘ (اسد الغابۃج۲ ص۲۴ ، ۲۵ ، ملخصاً،شرح شجرہ قادریہ ص45 ،فضائل امام حسین رضی اللہ عنہ ، ص ۲)

حضرت سیِّدی عارِف بِاللّٰہ نورُالدّین عبدُ الرّحمٰن جامیؔ قُدِّسَ سِرُّہُ السّامی’’شَواہِدُ النُّبُوَّۃ’‘ میں فرماتے ہیں :منقول ہے کہ امامِ پاک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی مدّتِ حَمْل چھ ماہ ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور امامِ عالی مقام امامِ حُسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے علاوہ کوئی ایسا بچّہ زندہ نہ رہا جس کی مدّتِ حَمْل چھ ماہ ہوئی ہو۔

(شَوا ہِدُ ا لنُّبُوَّۃ ص۲۲۸ ،امام حسین کی کرامات،ص ۳)

اللہ  کے رسول کا امام حسین سے تعلق:

اللہ  تعالی کے حبیب سرورکشوررسالت نبی آخر الزمان صَلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّمامام عالی مقام کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:’’حُسین (رضی اللہ عنہ)مجھ سے ہیں اور میں حُسین (رضی اللہ عنہ)سے ہوں ، اللہ  پاک اُس سے مَحَبَّت فرماتا ہے جو حُسین (رضی اللہ عنہ)سے مَحَبَّت کرے ، حُسین اَسباط میں سے ایک ’’سِبط ‘‘ ہیں۔

(ترمذی ج۵ص۴۲۹ حدیث ۳۸۰۰)

حضرتِ مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کےتحت اِرشادفرماتے ہیں : میں اورحُسین گویا ایک ہی ہیں ہم دونوں سے مَحَبَّت ہر مسلمان کو چاہیے ، مجھ سے مَحَبَّت حُسین سے مَحَبَّت ہے اور حُسین سے مَحَبَّت مجھ سے مَحَبَّت ہے۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۸۰ ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور،فضائل امام حسین رضی اللہ عنہ،ص۳)

گلشن رسالت کے دو پھول:

امام حسن اور امام حسین رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا   کائنات رنگ و بو میں وہ مبار ک ہستیاں ہیں جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ھُمَا رَیْحَانَیْ مِنَ الدُّنْیَا

حَسن و حُسین (رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا)دُنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ (بخاری ج۲ص۵۴۷ حدیث : ۳۷۵۳)

کیا بات رَضاؔ اُس چمنستانِ کرم کی زَہرا ہے کلی جس میں حُسین اور حَسن پھول

   حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں نونہالوں کو پھول کی طرح سونگھتے او رسینۂ مبارک سے لپٹا تے۔

 (ترمذی ج۵ص۴۲۸حدیث۳۷۹۷، فضائل امام حسین، ص ۶)

جنت میں مقام حسنین کریمین :

اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ

یعنی حَسَن اورحُسَین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہمَاجنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔

 (ترمذی ،ج۵،ص۴۲۶،ح۳۷۹۳)

 

محبت حسنین کریمین درحقیقت محبت رسول ہے:

 آقادوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  حضرت علی شیر خدا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے لخت جگر امام حسن اور امام حسین سے بےپناہ محبت اور پیار کیا کرتے تھےاور ایک مقام پر حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا اور ان کی محبت کو اپنی محبت کا معیار قرار دیااوران سے عداوت یعنی دشمنی کو اپنی دشمنی قرار دی چنانچہ ارشاد نبی کریم ہے:

’’ مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ ‘‘

یعنی جس نے ان دونوں سےمَحَّبت کی اس نے مجھ سے مَحَّبت کی اور جس نے ان سے عَداوت کی اس نے مجھ سے عَداوت کی۔

(ابن ماجہ،کتاب السنۃ،باب فی فضائل اصحاب رسول اللّٰہ،۱/۹۶، حدیث:۱۴۳)

ضیا پاش چہرہ امام حسین:

حضرتعلّامہ جامیؔ قُدِّسَ سِرُّہُ فرماتے ہیں : حضرت امامِ عالی مقام سیِّدُنا امامِ حُسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے توآپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی مبارَک پیشانی اور دونوں مقدَّس رُخسار (یعنی گال ) سے انوار نکلتے اور قرب و جوارضِیا بار (یعنی اطراف روشن ) ہو جاتے۔

(شَوا ہِدُ ا لنُّبُوَّۃً ص۲۲۸ )

تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا

تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

(حدائقِ بخشش ص۲۴۶ ،امام حسین کی کرامات،ص ۴)

امام عالی مقام کی شہادت کا شہرہ :

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ  الہادی اپنی مشہور کتاب’’ سوانح کربلا‘‘ میں فرماتے ہیں:’’ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کے ساتھ ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر مشہور ہوچکی، شیر خوار گی کے ایام میں حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ام الفضل کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبردی، خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے اس نونہال کو زمین کربلا میں خون بہانے کے لیے اپنا خونِ جگر (دودھ) پلایا، علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دل بندِجگرپیوند کو خاک کربلا میں لَوٹنے اور دم توڑنے کے لئے سینہ سے لگا کر پالا، مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بیابان میں سوکھا حلق کٹوانے اور را ہِ خداعزوجل میں مردانہ وارجان نذر کرنے کے لئے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی آغوشِ رحمت میں تربیت فرمایا، یہ آغوشِ کرامت و رحمتِ فردوسی چمنستانوں اور جنتی ایوانوں سے کہیں زیادہ بالامرتبت ہے، اس کے رتبہ کی کیا نہایت اور جو اس گود میں پرورش پائے اس کی عزت کاکیااندازہ۔ اس وقت کا تصور دل لرزا دیتا ہے جب کہ اس فر زند ِارجمندرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کی مسرت کے ساتھ ساتھ شہادت کی خبر پہنچی ہوگی، سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی چشمۂ رحمت چشم نے اشکوں کے موتی برسا دئیے ہوں گے، اس خبر نے صحابہ کبار جاں نثار انِ اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دل ہلا دئیے، اس درد کی لذت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل سے پوچھئے، صدق وصفا کی امتحان گاہ میں سنتِ خلیل علیہ السلام ادا کررہے ہیں۔

  حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خاک ِزیرِ قدمِ پاک پر قربان! جس کے دل کا ٹکڑا ناز نین لاڈلا سینہ سے لگاہوا ہے، محبت کی نگاہوں سے اس نور کے پتلے کو دیکھتی ہیں، وہ اپنے سرور آفریں تبسم سے دلربائی کرتاہے، ہُمَک ہُمَک کر محبت کے سمندرمیں تلاطم پیدا کرتا ہے، ماں کی گود میں کھیل کر شفقتِ مادری کے جوش کو اور زیادہ موجزن کرتاہے، میٹھی میٹھی نگاہوں اور پیاری پیاری باتوں سے دل لبھاتا ہے، عین ایسی حالت میں کربلا کا نقشہ آپ کے پیش نظر ہوتا ہے۔ جہاں یہ چہیتا ، نازوں کا پالا، بھوکا پیاسا، بیابان میں بے رحمی کے ساتھ شہید ہورہا ہے، نہ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ ہیں نہ حسن مجتبیٰ، عزیز واقارب برادر و فرزند قربان ہوچکے ہیں، تنہا یہ نازنین ہیں، تیروں کی بارش سے نوری جسم لہو لہان ہورہاہے، خیمہ والوں کی بے کسی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور راہِ خداعزوجل میں مردانہ وار جان نثار کرتاہے۔کربلا کی زمین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پھول سے رنگین ہوتی ہے، وہ شمیم پاک جو حبیب ِخداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیاری تھی کوفہ کے جنگل کو عطر بیز کرتی ہے، خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نظر کے سامنے یہ نقشہ پھر رہاہے اور فرزند سینہ سے لپٹ رہاہے۔

حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل نے خبر دی کہ میرے بعد میر ا فرزند حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمینِ طَفّ میں قتل کیا جائے گا اور جبریل علیہ السلام میرے پاس یہ مٹی لائے، انہوں نے عرض کیا کہ یہ (حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی خوابگاہ (مَقْتَل) کی خاک ہے۔ طف قریب کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں۔

(المعجم الکبیر للطبرانی،الحدیث:۲۸۱۴،ج۳،ص۱۰۷،والصواعق المحرقۃ، ،ص۱۹۳، سوانح کربلا،۱۰۸تا۱۰۹)

   امام احمد نے روایت کی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری دولت سرائے اقدس میں وہ فرشتہ آیا جو اس سے قبل کبھی حاضر نہ ہواتھا، اس نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) قتل کئے جائیں گے اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمین کی مٹی ملاحظہ کراؤں جہاں وہ شہید ہوں گے۔ پھر اس نے تھوڑی سی سرخ مٹی پیش کی۔‘‘

(المسند للامام احمد بن حنبل،الحدیث:۲۶۵۸۶،ج۱۰،ص۱۸۰، سوانح کربلا،ص ۱۰۹)

hazrat imam hussain

سیرت حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

hazrat imam hussain

شہادت کے وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک کتنی تھی؟