حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطبہ میدان کربلا

تاریخ کے اوراق

امامِ حسین کا خطبہ میدانِ کربلا

*مولانا فرمان علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

یوں تو اہلِ بیتِ اطہار اور بالخصوص شہزادہ و نواسۂ  مصطفےٰ، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہکی یاد  ہر دم اہلِ ایمان کے دلوں میں تازہ ہوتی ہے لیکن  ماہِ مُحرمُ الحَرام بالخصوص آپ کی شان و عظمت اور قربانیوں کو یاددلاتاہے۔ آج سے صدیوں پہلے اِکسٹھ(61) ہجری کو تاریخِ اسلام میں حق و باطل کے درمیان ایک عظیم معرِکہ پیش آیا،جسے واقعۂ کربلا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سیّدالشہداء حضرت سیّدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ  کی مبارک ذات دیگر  ہزاروں اوصاف و کمالات کے ساتھ ساتھ  ”کرم نوازی“  کے وصف  سے بھی موصوف تھی یہاں تک  کہ میدانِ کربلا میں جب دشمن جان لینے کو تُلا ہوا تھا، اس وقت بھی آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا ایک ایک لفظ آپ کی  کرم نوازی کی جھلک دکھاتاہے۔ میدانِ کربلا میں حُجّت پوری کرنےکے لئےحضرت سَیِّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے گھوڑے پر سُوار ہوکر یزیدی لشکر کا رُخ کیا اور  ان سے خطاب فرمایا:

اے لوگو! میری بات سُنو اور جلد بازی کا مُظاہَرہ نہ کرو ، حتّی کہ میں تمہیں اُس چیز کے متعلق نصیحت نہ کرلوں کہ جو مجھ پر لازم ہوچکا ہے اور اپنے آنے کا سبب بیان نہ کرلوں۔

پس اگر تم میرا سبب  قبول کرلو،میری بات کی تصدیق کرو اور میرے بارے میں انصاف سے کام لو تو  تم اس معاملے میں بامُراد ہوجاؤ گے اور تم سے میرے متعلق کوئی مُواخَذہ (یعنی سوال)بھی نہ ہوگا۔

ہاں! اگر تم میری بات نہیں مانتے تو سُنو!پھر یہ آیاتِ مُبارَکہ تلاوت فرمائیں:

فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَ شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَایَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ(۷۱)

ترجَمۂ کنز الایمان:تو مل کر کام کرو اور اپنے جُھوٹے معبودوں سمیت اپنا کام پکّا کرلوپھر تمہارے کام میں تم پر کچھ گنجلک نہ رہے پھر جو ہو سکے میرا کرلو اور مجھے مہلت نہ دو۔([1])

اِنَّ وَلِیِّ ﰯ اللّٰهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْكِتٰبَﳲ وَهُوَ یَتَوَلَّى الصّٰلِحِیْنَ(۱۹۶)

ترجَمۂ کنز الایمان:بے شک میرا والی اللہ ہے جس نے کتاب اُتاری اور وہ نیکوں کو دوست رکھتا ہے۔ ([2])

ان آیات کی تلاوت کے بعد آپ نے اللہ پاک کی حَمْد و ثَنا کرنے کے بعد (اُن یزیدیوں سے)فرمایا:

تم لوگ میری نسبت کے بارے میں غور کرلوکہ میں کون ہوں…؟کیا تمہارے لئے  میرا قتل جائز و درست ہے…؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں…؟ کیا سَیِّدُ الشُّہَداءحضرت سَیِّدُنا حمزہ رضی اللہ عنہ میرے والد کے چچا نہیں…؟کیاحضرت سَیِّدُنا جعفر طیّار رضی اللہ عنہ میرے چچا نہیں…؟ کیا تم تک میرے اور میرے بھائی سے متعلق رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ ارشاد نہ پہنچا تھا کہ تم دونوں نوجوانانِ جنّت کے سردار  ہو…؟تو اگر تم میری بات کی تصدیق کرو(تو سن لو) کہ یہی حق ہے ،کیونکہ میں نے اُس وقت سے جُھوٹ نہیں بولا، جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ جُھوٹ اللہ پاک کو سخت ناپسند ہے اور اگر تم مجھے جھٹلاتے ہو تو حضرت سَیِّدُنا جابِر بن عبدُ اللہ، ابوسعید،سَہْل بن سَعْد،زید بن اَرْقَم یا اَنَس(رضی اللہ عنہم اجمعین ) سے پُوچھ لو،کیونکہ ان سب نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے(میرے متعلق) یہ فضائل سُن رکھے ہیں۔ کیا میری اِس نصیحت میں تمہارے لئے کوئی ایسی بات نہیں جو تمہیں میرا خُون بہانے سے روک سکے…؟

 پھر آپ نے فرمایا:اگر تمہیں میری بات میں یا میرے متعلق نبی کا نواسہ ہونے میں کوئی شک ہو تو خُدا کی قسم! مشرق و مغرب میں میرے سِوا تم میں یا تمہارے سوا کسی اور قوم میں کوئی نبی کا نواسہ موجود نہیں۔ ذرا بتاؤ تو سہی! کیاتمہیں مجھ سے اپنے کسی مقتول کا بدلہ طلب کرنا ہے یا میں نے تمہارا  مال ضائع کر دیا ہے کہ اُس کے بدلے مال چاہتے ہو یا پھراپنے زخمیوں کا قِصاص  درکار ہے(آخر کس چیز کا بدلہ چاہتے ہو)…؟

وہ بَد بَخْت خاموش رہے، آپ نے فرمایا:اے شَبَث بن رِبْعی، اے حَجّار بن اَبْجَر،اے قَیْس بن اَشْعَث،اے زید بن حارث ! کیا تم  لوگوں نے ہی مجھے خُطوط بھیج کر نہیں بُلوایا تھا؟

وہ صاف مکر گئے اور بولے:ہم نے تو ایسا نہیں کیا تھا۔

 آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، خُدا کی قسم! تم ہی لوگوں نے تو ایسا کیا تھا۔ پھر فرمایا:اے لوگو! اگر تم میری بَیعت کرنا پسند نہیں کرتے تو  مجھے چھوڑ دو تاکہ میں کسی محفوظ جگہ چلا جاؤں۔

بدنصیب قَیْس بن اَشْعَث بولا:آپ اِبنِ زِیاد کے حکم کے آگے سرِ تسلیم خَم کرلیں (تو آپ کو چُھٹکارا مل سکتا ہے)

آپ نے فرمایا: اللہ پاک کی قسم! میں ہر گز اس کی بَیعت نہیں کروں گا۔ اللہ کے بندو! میں اپنے اور تمہارے رَبّ کریم کی پناہ لیتا ہوں، اِس سے کہ تم مجھے سنگسار کرو۔میں تمہارے اور اپنے رَبّ کی پناہ لیتا ہوں، ہر اُس متکبر سے جو حِساب کے دن پر یقین نہیں رکھتا۔([3])

بدبخت یزیدیوں نے نواسۂ مصطفیٰ  کے اس کریمانہ خطاب   کا جواب سخت اذیّتیں اور تکلیفیں  پہنچا کر دیا، مگرآپ کو  مصیبتوں کا ہُجُوم حق سے نہ ہٹا سکا اور آپ کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہ آئی، حق وصداقت کا حامی مصیبتوں کی بھیانک گھٹاؤں سے نہ ڈرا اور طوفانِ بلا کے سیلاب سے اس کی ثابت قدمی میں کوئی فرق نہ آیا، دِین کا شیدائی دنیا کی آفتوں کو خیال میں نہ لایا ۔

 اگر آپ یزید کی بیعت کرتے تووہ تمام لشکر آپ کے قدموں میں ہوتا، آپ کا  احترام کیا جاتا، خزانوں کے منہ کھول دئیے جاتے اور دولتِ دنیا قدموں پر لٹا دی جاتی، مگر جس کا دل حُبِّ دنیاسے خالی ہو اور دنیا کی ناپائیداری کا راز جس پر واضح  ہو، وہ دنیا کے نمائشی رنگ و رُوپ پر کیا نظر ڈالے۔

حضرت سیّدناامام حسین رضی اللہ عنہ نے راحتِ دنیا پر ٹھوکر ماردی اور راہِ حق میں پہنچنے والی مصیبتوں کاخوش دلی سے استقبال کیا اور اس قدر آفتوں اور بلاؤں کے باوجود یزید جیسے فاسقِ مُعْلن(یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والے)شخص کی بیعت کا خیال بھی اپنے قلبِ مبارک میں نہ آنے دیا ، اپناسب کچھ قربان کردینا  منظور کیا،مگر مسلمانوں کی تباہی و بربادی گوارا نہ فرمائی  اور اسلام کی عزت پر حرف نہیں آنے دیا،خدا کی قسم! میدانِ کربلا میں کربلا والوں کااسلام کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا، رہتی دُنیا کےمسلمانوں کے لئے بہت بڑی کرم نوازی تھی۔ اس کے علاوہ بھی اِن حضرات کے کردار کے بہت سے پہلو مسلمانوں کے لئےقابلِ تقلید نمونہ ہیں۔ اللہ کریم ہمیں دین کی خاطر ہر طرح کی قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])پ11،یونس:71

([2])پ9،الاعراف:196

([3])الکامل فی التاریخ، سنۃ احدی وستین، ذکر مقتل الحسین،3/418۔419ملتقطا وملخصاً


Share