رسول اللہ ﷺ کے آباء و اجداد
رسول اللہ ﷺ کے آباء و اجداد
میلاد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
میلا د النبی ، مولود النبی، جشن ولادت مصطفی جیسے خوبصورت الفاظ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری سے متعلق مژدہ جانفزا یعنی ایسا پیغام مسرت وفرحت دیتے ہیں جس سے زندگی میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے،پژمردگی کو مژدہ جانفزا مل جاتی ہےاور یہ کیوں نا ہو کہ بارہ ربیع الاول کی وہ سہانی گھڑی جس وقت چمکاطیبہ کا چاندجس سے ہوئیں ظلمتیں کافور، بدلا جہاں کا سماں،روشن ہوا زماں ،بجنے لگے شادمانی کے نقارے، گائے قمریوں نے ترانے ، چھائے ہر طرف نور کے آشیانے،سجے خوشیوں شادمیانے،ملا یتیموں کو دریتیم کا سہارا،ہوا غریبوں کو بھی آسرا دیکھا جو سب نے نور کا ہالا۔
وہ دیکھوں نور برساتھا عرب کا تاجدار آیا
ملی راحت غلاموں کو یتیموں کو قرار آیا
عاشق صادق پیکر سنت رسول جناب امیر اہلسنت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتھم العالیہ فرماتے ہیں:’’ خا تَمُ المُر سَلین، رَحمۃٌ لِّلْعٰلمین، شفیعُ الْمُذْنِبیْنِ، انیسُ الْغَرِیبین، سِراجُ السَّالِکین، مَحبوبِ ربُّ الْعٰلمین،جنابِ صادِق و اَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرارِ ہر قلبِ مَحزُون و غمگین بن کر۱۲ربیعُ النُّورشریف کو صبحِ صادِق کے وَقْت جہاں میں تشریف لائے اور آ کر بے سہاروں ، غم کے ماروں ، دُکھیاروں ، دلفِگاروں اور دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے والے بے چاروں کی شامِ غریباں کو’’ صبحِ بہاراں ‘‘ بنادیا۔ ؎
مسلمانو! صبحِ بہاراں مبارَک
وہ برساتے انوار سرکار آئے (وسائلِ بخشش ص۴۷۹) ‘‘
(صبح بہاراں، ص ۲)
قرآن پاک میں فرمان باری تعالی ہے :
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(پ ۱۷، الانبیاء:۱۰۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔
علامہ مفتی محمد قاسم شیخ الحدیث والتفسیر اپنی مایہ ناز تفسیر صراط الجنان میں مذکورہ آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں:’’تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نبیوں ، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ، مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ، حیوانات، نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَدنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دنیامیں رحمت ہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔‘‘( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۲۹۷) (صراط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد ششم ، ص ۳۷۸تا ۳۷۹)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عالَم ماسوائے اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تو لاجَرم (یعنی لازمی طور پر) حضور پُر نور، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں ، اُولیٰ وآخرت میں ،دین ودنیا میں ، روح وجسم میں ، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔‘‘(فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰ / ۱۴۱ بحوالہ صراط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد ششم ، ص ۳۷۹)
امیر اہلسنت فرماتے ہیں:’’اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ! ۱۲ربیعُ النُّور مسلمانوں کے لئے عیدوں کی بھی عید ہے یقینا حُضُورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جہاں میں شاہِ بحر وبَر بن کر جلوہ گر نہ ہوتے تو کوئی عید، عید ہوتی،نہ کوئی شب، شبِ بَرَاء َت ۔بلکہ کون و مکان کی تمام تر رونق و شان اس جانِ جہان ، رَحمتِ عالمیان، سیّاحِ لامکان، محبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں کی دُھول کا صَدقہ ہے۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جَہان کی جان ہے تو جہان ہے (حدائق بخشش ص۱۲۶)‘‘
(صبح بہاراں، ص ۴)
میلا د النبی کی خوشیاں مناناہمارے لئے باعث شرف ہے اس لئے کہ رب کریم کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ جس نے ہم کو اپنے نبی جناب محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا امتی بنایا اور ہمارے لئے حضور علیہ الصلاۃ و السلام کی تشریف آوری کو اپنا احسان عظیم بتایا جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’ لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ‘‘ (آل عمران:۱۶۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناًکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
اسیلئے اہل ایمان عاشقان میلاد اللہ تعالی کے عطا کردہ احسان عظیم کے شکر اور نعمت عظمی کے ملنے پر خوشی کا اظہار کرنے کےلئے میلاد النبی کا جشن قرآن وحدیث کے بیان کردہ طریقہ کے مطابق مناتے ہیں ۔اس میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ اس کائنات میں حضور علیہ الصلاۃ والتسلیم کا وجودِ مسعود اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لئے نعمت کبری اور بشارت عظمی ہیں اور درحقیقت حضور تو مطلوب کائنات ہیں، حضور مقصود کائنا ت ہیں،حضور باعث تخلیق کائنات ہیں، حضور اللہ کی سب سے بڑی نشانی ہے چنانچہ شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفٰی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کی رات اور اس کا دن یقینا خداوند قدوس کے ایک نشانِ اعظم کے ظہور کی رات اور دن ہے لہٰذا میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوشی منانا اور اس تاریخ کو عید میلاد کہنا یقینا قرآن مجید کی تعلیم کے عین مطابق ہے۔ ‘‘(عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص ۹۳)
سورہ یونس ، پارہ ۱۱ میں اللہ تعالی نے اہل ایمان کو فضل اور رحمت ملنے پر خوشی کے اظہار کا حکم دیا چنانچہ حکم باری تعالی ہے:
’’ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ‘‘(یونس:۱۱)
ترجمۂ کنزالایمان:تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔
شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّ ث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : سرکار مَدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کی رات خوشی منانے والوں کی جَزاء یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی انہیں فضل و کرم سے جَنّاتُ النَّعِیم میں داخِل فرمائے گا۔ مسلمان ہمیشہ سے محفِلِ میلاد مُنعَقِد کرتے آئے ہیں اور وِلادت کی خوشی میں دعوتیں دیتے ، کھانے پکواتے اور خوب صَدَقہ وخیرات دیتے آئے ہیں۔ خوب خوشی کا اِظہار کرتے اور دل کھول کر خَرچ کرتے ہیں نیز آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وِلادتِ با سعادت کے ذِکْر کا اِہتِمام کر تے ہیں اور اپنے مکانوں کوسَجاتے ہیں اور اِن تمام اَفعالِ حَسَنہ کی بَرَکت سے ان لوگوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمتوں کا نُزُول ہوتا ہے۔(مَا ثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃ ص۱۰۲ ملتقطًا، صبح بہاراں ، ص ۱۱، ۱۲)
جشن ولادت مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم منانا باعث ثوات اور آخروی سعادتوں میں سے ایک سعادت مند کام ہے اس کی برکتیں اور فضائل سے متعلق ایک کتاب عالم اسلام کی عظیم شخصیت امیر اہلسنت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادر ی نے صبح بہاراں کے نام سے لکھی ہے یہ کتاب مختصر سے صفحات پر مشتمل میلاد النبی منانے والوں کےلیے بہت بڑا تحفہ ہے جس کا مطالعہ یقینا میلاد کی برکتیں حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارہ مکتبۃ المدینہ کی بے شمارکتابیں میلاد النبی اور سیرت رسول عربی کے موضوع ویب سائٹ بھی موجود ہیں جن کو ڈاؤن لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے ۔